قصے ہڈیاں توڑنے کے

آپ کی کل کتنی ہڈیاں ٹوٹی ہیں؟

  • صفر

    Votes: 18 48.6%
  • 1

    Votes: 11 29.7%
  • 2

    Votes: 4 10.8%
  • 3

    Votes: 2 5.4%
  • 4

    Votes: 2 5.4%
  • 5

    Votes: 0 0.0%
  • 6 یا زائد

    Votes: 0 0.0%

  • Total voters
    37
الحمد للّٰہ کافی سال گزر چکے ہیں بچپن میں ایک بار گھر کی چھت سے گِرا تھا اس حادثے میں ناک کی ہڈی ٹوٹ گئ تھی ۔ اس کے علاوہ کافی بار چھت سے گِرا تھا اور کافی چوٹیں بھی آئیں لیکن الحمد للّٰہ ہڈی کوئی نہیں ٹوٹی۔ ایک بار جیپ سے بھی گرا تھا ٹانگوں پر کافی خراشیں آئیں لیکن بچ گیا کوئی فیکچر اور ہڈی وغیرہ نہیں ٹوٹی !!!
 

فلسفی

محفلین
زندگی میں چھوٹے موٹے حادثات تو ہوتے رہے ہیں لیکن ہڈیاں ٹوٹنے کی نوبت الحمدللہ ابھی تک نہیں آئی۔ موٹر سائیکل چلانے والوں کے لیے سڑک پر ہونے والے حادثات شاید معمول کی بات ہیں۔ میرے ساتھ میں متعدد بار ایسا ہوا۔ کئی مرتبہ کوئی مجھ میں آ لگا اور کوئی مرتبہ میں ہی فرط جذبات سے کسی میں جا لگا۔ ایک مرتبہ گلے میں ڈور بھی پھر گئی تھی۔ ہیلمٹ پہنا ہوا تھا لیکن ڈور ہیلمٹ کے نیچے داخل ہوگئی۔ گلا کٹتے کٹتے بچا گو زخم بھی آیا اور خون بھی بہا۔

ہاں البتہ بچپن کے دو واقعات اچھی طرح یاد ہیں۔

عمر شاید آٹھ، دس سال ہوگی۔ بسنت کا دن تھا سب کزنز نانی اماں کی طرف اکھٹے ہوئے تھے۔ خوب شور شرابا جاری تھا۔ آسمان رنگ برنگی پتنگوں سے سجا ہوا تھا۔ مرد حضرات چھت (اس وقت چار دیواری نہیں تھی، صرف دو اینٹوں کا بارڈر تھا اس لیے بڑے، بچوں کو اکیلے چھت پر نہیں جانے دیتے تھے) پر موجود تھے اور خواتین نیچے برآمدے میں محو گفتگو تھیں۔ پتنگ اڑانی تو اس وقت تک آتی نہیں تھی لہذا ہم لوٹی ہوئی ڈور سے گانٹیاں کھیل رہے تھے۔ میرے چھوٹے خالو نے ایک بڑی سی اینٹ کے ساتھ ڈور باندھی اور اطمینان سے کھڑے ہوگئے کہ جس نے گانٹی ڈالنی ہے وہ آزما لے۔ بس میری کم بختی کے کہیں سے ایک مالٹے کا چھلکا لیا اس سے ڈور باندھی اور خالو کی اینٹ والی گانٹی سے زور آزمائی کرنے لگا۔ مجھے احساس نہ رہا کہ میرے پیچھے چھت کا کونا ہے جو صحن کی طرف تھا۔ میں نے زور سے "آئی بو کاٹا" کہا۔ اس کے بعد مجھے لگا جیسے میں ہوا میں اڑ رہا ہوں۔ پھر اچانک زننننن کی آواز کانوں سے ٹکرائی اور درد کا احساس ہوا۔ ایک دم شور سا سنائی دیا امی کی بوکھلائی ہوئی آواز کانوں سے ٹکرائی تو احساس ہوا کہ جناب آپ آسمان سے زمین پر آ چکے ہیں۔ سارے بھاگے ہوئے آئے اور پوچھنے لگے کیا ہوا زیادہ چوٹ تو نہیں آئی وغیرہ وغیرہ اور میری حالت یہ تھی کہ "کیا بتاوں جناب کیا ہوا، میں بھی ابھی آیا ہوں"۔ خیر زیادہ ڈر یہ تھا کہ ابو (بہت غصے والے تھے، اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے اتنی ہی محبت کرتے تھے جس کا احساس ان کی وفات کے بعد ہوا) آ کر ڈانٹے گے ہو سکتا ہے ٹھکائی بھی ہوجائے۔ لیکن خیر ابو جلدی سے گود میں اٹھا کر کلینک لے گئے۔ چوٹیں کافی آئیں تھیں جو آہستہ آہستہ ٹھیک ہو گئیں۔ لیکن ایک بات یاد رہ گئی کہ اس واقعے کے بعد بڑے بھائی پوچھتے کہ زیادہ چوٹ تو نہیں لگی تو میں شیشے میں کھڑا ہو کر کہتا نہیں یار لیکن مجھے لگتا ہے میرا منہ کچھ ٹیڑھا ہو گیا ہے۔ بھائی بھی سنجیدگی سے کہتے ہاں لگتا ہے یار۔ اب سوچتا ہوں تو بےاختیار ہنسی آتی ہے۔

۔۔۔ جاری ہے۔
 

فلسفی

محفلین
دوسرا قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے محلے میں ایک گلی قدرے کشادہ ہے۔ اس کو ہم بڑی گلی کہتے ہیں۔ بچپن میں ہم وہاں گھوڑی گھوڑی کھیل رہے تھے۔ جن حضرات کو نہیں معلوم ان کے لیے عرض کردیتا ہوں کہ طریقہ کار یوں ہوتا ہے کہ دو ٹیمیں ہوتی ہیں۔ ایک ٹیم جس کی باری ہوتی ہے وہ رکوع کی شکل میں دیوار کے سہارے سے ایک کے پیچھے ایک کھڑے ہو کر ایک گھوڑا یا گھوڑی کی شکل بنا لیتے ہیں۔ دوسرے ٹیم کے ارکان باری باری چھلانگ لگا کر اس گھوڑی پر سوار ہوتے ہیں۔ اگر چھلانگ کے دوران یا سواری کے دوران کوئی ایک رکن بھی نیچھے گر گیا یا اس کا پاؤں زمین سے ٹکرا گیا تھا پھر دوسری ٹیم کو باری دینا ہوگی۔ اور اگر سواری کے دوران گھوڑی بنی ہوئی ٹیم کا کوئی رکن تھک کر بیٹھ گیا تو اس ٹیم کو دوبارہ باری دینا ہوگی۔

خیر ہماری ٹیم کی باری گھوڑی بننے کی تھے۔ میں سب سے آگے تھا۔ دوسری ٹیم کا اک رکن تیزی سے بھاگتا ہوا آیا اور اس نے چھلانگ لگائی۔ لیکن میں توازن برقرار نہ رکھ سکا اور میرا سر سامنے لگی لوہے کی کھڑکی سے جا ٹکرایا جس کا کونا میری دائیں آنکھ کے عین اوپر لگا اور بڑا سا کٹ پڑ گیا۔ سارے کپڑے خون سے بھر گئے۔ چوٹ سے زیادہ اس بات کا ڈر تھا کہ ابو جان باز پرس کریں گے۔ لیکن خیر ابو کلینک لے کر گئے اور آنکھ کے اوپر ٹانکے لگے۔ جس کی وجہ سے نشان پڑ گیا اور وہی نشان میرے شناختی کارڈ میں شناختی علامت بھی ہے۔ اتفاق سے کچھ عرصہ قبل ایک حادثہ میرے بیٹے کے ساتھ ہوا۔ اس کا سر کھیلتے ہوئے دیوار سے جا ٹکرایا اور ٹھیک اسی جگہ یعنی دائیں آنکھ کے اوپر گہرا زخم بنا جس پر ٹانکے لگے۔ اب اس کے دائیں آنکھ کے اوپر بھی تقریبا ویسا ہی نشان ہے جو شاید اس کی شناختی علامت کے طور پر اس کے شناختی کارڈ میں لکھا جائے۔

اس طرح کے حالات و واقعات زندگی کا حصہ ہیں۔ لیکن ہم اللہ پاک سے دعا فرماتے ہیں کہ اللہ پاک سب کے ساتھ عافیت کا معاملہ فرمائے اور کسی بھی نامناسب صورتحال سے بچائے رکھے۔ آمین
 

زیک

مسافر
سر کے بل گرا تھا۔ گرنے کی کہانی اسی سے سنی ہے، جس نے ایکسیڈنٹ کیا۔ مجھے تو ایکسیڈنٹ سے کچھ پہلے تک کا بھی نہیں یاد۔
کولہے کے ساتھ بعد میں جو کچھ ہوا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حادثے میں ہڈی کو کچھ نقصان تو پہنچا ہو گا جو وقت کے ساتھ بڑھ گیا
 
کولہے کے ساتھ بعد میں جو کچھ ہوا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حادثے میں ہڈی کو کچھ نقصان تو پہنچا ہو گا جو وقت کے ساتھ بڑھ گیا
جی ایسا ہی خدشہ ڈاکٹرز کی جانب سے بھی ظاہر کیا گیا۔ البتہ ایکسڈنٹ کے بعد والا ایکس رے کلیئر تھا۔
مگر کوئی دب شاید ایسی پڑی، جس کی وجہ سے خون ہڈی میں جانا بند ہو گیا، اور ہڈی ڈیڈ ہو گئی۔
 

عباس اعوان

محفلین
کوئی آٹھ دن بعد ناک اور ہونٹ کے ٹانکے نکل گئے۔ اس کے دس دن بعد دانت بھی ٹھیک کرا لئے۔

چار ہفتے بعد انگلی کا فیرکچر کافی حد تک ٹھیک ہو چکا تھا لیکن انگلی مکمل مڑتی نہ تھی لہذا اس کی فزیکل تھیراپی شروع ہوئی جو ایک ماہ جاری رہی۔ اب خوب مکا بنتا ہے۔

اسی دوران سائیکل بھی مرمت کروائی۔ ہیلمٹ اور دستانے نئے خریدے۔

اور یوں حادثے کو پانچ ہفتے بھی نہ ہوئے تھے تو میں دوبارہ سائیکلنگ کر رہا تھا۔ ایک دو بار خود سے چلانے کے بعد میں دوبارہ گروپ میں شامل ہو گیا۔ اس واقعے کی بدولت اب میں مشہور و معروف تھا۔
اس سارے علاج بشمول ایمبولینس رائیڈمیں سے انشورنس نے کتنا کور کیا ؟
 

زیک

مسافر
میں نے کبھی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کی تعداد تو نہیں گنی تھی۔۔۔ آج آپ کی اس لڑی کی برکت سے یہ گنتی بھی کر لیتا ہوں۔
بچپن میں سب سے پہلے جھولا جھولتے ہوئے گر کر بازو کی ہڈی ٹوٹی اور کہنی کا جوڑ نکلا۔
فٹبال کھیلتے ہوئے کم از کم چار یا پانچ انگلیوں کے جوڑ نکلے۔
ایک مرتبہ ٹرین میں دروازہ منہ پر لگنے سے دانت ٹوٹا۔
ایک مرتبہ دیوار گری تو پیلوک بون (pubis) اور ٹانگ میں فریکچر ہوا۔
جوڑ نکلنے کو تکنیکی طور پر ہڈیاں ٹوٹنا شمار نہیں کیا جا سکتا اس لیے اب تک دانت ملا کر صرف چار ہڈیاں ٹوٹی ہیں۔
شکر ہے کوئی تو نکلا جس نے ہڈیاں تڑوائیں ورنہ محفلین کی ووٹنگ سے تو میں حیران تھا کہ یہ سب کہاں رہتے تھے
 

جاسم محمد

محفلین
الحمد للّٰہ کافی سال گزر چکے ہیں بچپن میں ایک بار گھر کی چھت سے گِرا تھا اس حادثے میں ناک کی ہڈی ٹوٹ گئ تھی ۔ اس کے علاوہ کافی بار چھت سے گِرا تھا اور کافی چوٹیں بھی آئیں لیکن الحمد للّٰہ ہڈی کوئی نہیں ٹوٹی۔
چھت سے، سیڑھیوں سے، سائیکل سے کئی بار گرا۔ جلد پھٹ گئی، خون بھی بہت نکلا۔ مگر اللہ کا شکر ہے کبھی ہڈی ٹوٹنے کی نوبت نہیں آئی۔
 

فاتح

لائبریرین
شاعری پڑھنے والے ہڈی توڑ قسم کے ایڈونچر کے شوقین کم ہی ہوتے ہیں :)۔
نازک مزاج ہوتے ہیں۔ ذرا سی بات طبع ناز پر گراں گزرتی ہے۔ یہاں تو ہڈیوں کے ٹوٹنے کا ذکر ہو رہا ہے۔

میں تو صرف شاعری پڑھنے والا نہیں بلکہ بزعم خود شاعر بھی ہوں :)
 

محمد وارث

لائبریرین
بچپن میں میرے دونوں بازو کی ہڈیاں ٹوٹ چکی ہیں، ایک بار اسکول میں اسٹول پر کھڑا ہو کر کچھ دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا، گر گیا اور بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ دوسری بار گھر میں کسی چیز پر سے گرا اور دوسرے بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی۔
 
Top