قصہ چہار درویش

آخر کی بجائے (یا اس کے ساتھ ساتھ) اگر مصنگ کا نام اور ربط آغاز میں لکھ دیا جائے تو آسانی رہے اور میرے جیسے جو مکمل نہیں پڑھتے انہیں غلط فہمی نہ ہو۔
مستقبل میں آپ کو غلط فہمیوں سے بچانے کا انتظام و انصرام یقینی بنایا جاوے گا۔ :) اب کی دفعہ کی معذرت قبولیے :battingeyelashes:
 

قیصرانی

لائبریرین
مجھے مورد الزام ٹھہرانے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لی جیے کہ تحاریر 'پسندیدہ مزاحیہ تحریریں' والے زمرے میں ہیں۔ صاحب تحریر کا نام پہلے درویش کی سرگزشت کے اختتام پر موجود ہے۔
خواجہ سرا نہیں کہا گیا بلکہ مشابہ قرار دیا گیا ہے
تو میں نے بھی خسرہ صفت ہی لکھا ہے جناب :)
مجھے گمان تھا کہ مزاح اور پھکڑ پن کا فرق آپ جانتے ہوں گے، شاید میری غلط فہمی تھی :)
 
تو میں نے بھی خسرہ صفت ہی لکھا ہے جناب :)
آپ کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔
کیونکہ
میں نے صرف اس بات کا جواب دیا تھا، آپ کے لکھے پر بلکل کوئی اعتراض نہیں کیا
اگر کپتان کو خواجہ سرا فرما رہے ہیں
رہی بات مزاح اور پھکڑ پن کے فرق اور آپ کے گمان اور غلط فہمی کی تو اس پر صرف ایک :)
خوش رہیے
 
تینوں درویش اپنا اپنا احوال حاضر کر چکے تو چوتھے رفیق پر توجہ کی جو ایک خستہ رداء اوڑھے اونگھ رہا تھا -یاران بدبخت کی آہٹ پا کر اس کفنی پوش نے آنکھیں واء کیں...پہلو بدلا...بارے گڈری سے ایک ولائیتی سگار نکال آتش دکھائی.....اور یوں گویا ہوا :
اے شرمندگان محفل !! یہ گدڑی پوش اب تک صبر کا پیالہ پی کر تمہارے قصہ فضول و نامعقول کو سنتا رہا اور جی ہی جی میں تمہاری نالائقی و بے وقوفی اور ۔۔۔ پن کی داد دیتا رہا.- فقیر خود بھی ایک مدت سے اس تماشہء نیرنگ کی زینت بنا ہوا ہے کہ معلوم پڑتا ہے کہ پیدا ہی دھرنے میں ہوا ہے- وطن اس درویش کا کشمیر ہے کہ حسن جس کا بے نظیر ہے- اجداد نے نیت ہجرت کی فرمائی اور شہر راولپنڈی کو مسکن بنایا- والد اس فقیر کا ایک غریب کشمیری بٹ تھا اور پیشے سے کوزہ گر - چنانچہ بلخ، بخارا، بغداد و ثمر قند تک ان کے ہاتھوں کے بنے "کوزے" ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتے- والد بزرگوارم نے حصول اولاد کےلیے بہتیرے جتن کئے- آستانوں پہ چراغ جلائے...مندروں کی گھنٹیاں بجائیں اور حاذق طبیبوں کے قدیم نسخے کھائے آخر طب قدیم وجدید کے نسخہ ہائے ملیح ونمکین اور روحانی اسرار سماوی رنگ لائے اور یہ حقیر فقیر۔۔۔۔دار فانی میں وارد ہو ہی گیا - گھر گھر چراغاں ہوا اور جشن ولادت کئی دن تک چلا-...خلق خدا کی زبان پر ایک ہی جملہ تھا... " واہ بٹ صاحب کیا "کوزے" میں دریا بند کیا ہے"-
بچپن ہی سے طبیعت میں بلا کی روانی تھی چنانچہ جدھر منہ آتا روانہ ہو جاتا اور بڑے جتن سے پکڑ دھکڑ واپس لایا جاتا-آخر والد بزرگوارم نے کسی حاذق طبیب سے مشورہ کر کے فدوی کے گلے میں ایک گھنٹی ڈلوادی...اور یوں یہ فقیر "۔۔۔۔ٹلی " کے نام سے مشہور عالم ہوا-.......(چونک اٹھنا تینوں درویشوں کا ..... دیکھنا اس گدڑی پوش کو....اور کرنی آپس میں....کھسر پسر)
سن جب 21کا ہوا اور قلعہ جوانی کا سر کیا تو ہر سمت میری جواں مردی کے قصے مشہور ہوئے- میں مرغی سے تیز بھاگ سکتا تھا اور اڑیل سے اڑیل گھوڑا مجھے لفٹ کرائے بغیر گزر جاتا تھا- نصف شب گوالوں کے باڑوں میں جا گھستا اور دودھ سے سیر ہو کر نکلتا- میں نے شیر کی کھال کرائے پر لیکر مردانے میں ٹانگ رکھی تھی تاکہ احباب پر شجاعت کا سکہ بیٹھا رہے اور دشمنوں پر دھاک- ایک دن بازار جا رہا تھا کہ پری زادوں کا غول نظر آیا..معلوم پڑا کہ کوہ قاف کی پریاں ہیں اورکالج جا رہی ہیں...فورا ہزار جان فدا ہوا اور وہیں کھڑے کھڑے کئی شعر کہہ ڈالے....کہ اچانک ایک حسن بانو نے نعلین اتار اس فقیر کی عشق تھراپی کی اور یوں گویا ہوئی.." اے بدقماش...جب دودھ مل جاتا ہے تو بھینس پالنےکا تکلف کیوں کرتا ہے"...اس پری کے یہ زریں کلمات سن کر طبیعت ایک مدت تک مسرور رہی-
کچھ بڑا ہوا تو کسب روزگار کا کیا...اور تاریخی لال حویلی کے سامنے کتابوں کی دکان کھول لی جہاں ہر وقت پری زادوں کا رش لگا رہتا...پھر کپڑوں کی تجارت شروع کی اور خچروں پر اسباب تجارت لاد کر ملکوں ملکوں پھرا....خوب منافع ہوا - ایک مدت بعد جب یہ درویش وطن لوٹا تو اسی لال حویلی کا مالک بن چکا تھا-
انہی دنوں دیس میں شیروں کی ایک جوڑی کا طوطی بولنے لگا..جنگل کے سارے لکڑبگھے اور گیدڑ بلے ان کو دیکھ کر راستہ بدل لیتے - خلق خدا کو دیوانہ وار ان شیروں پر نثار ہوتے دیکھا تو اس درویش نے گودڑی پھینکی اور شیر کی کھال پہن کر ان کے ساتھ مل گیا...اب تو جیسے دنیا ہی بدل گئی....فقیر کا اشتیاق دیکھ کر شیر بادشاہ نے وزارت اطلاع رسانی و۔۔۔ خانی امور سپرد کی اور یوں یہ درویش دودھ کی نہروں میں ڈبکیاں لگانے لگا - اگلی بادشاہت میں ریل کے ڈبے سپرد ہوئے...فقیر نے بجلی سے چلنے والی ٹرین کو دوبارہ بھاپ پر منتقل کرنے کا شاندار منصوبہ بنایا جو کامیاب نہ ہو سکا-
ایک دن ناگاہ رات کے اندھیرے میں طلسمی لباس پہنے لمبے بوٹ چڑھائے ایک شکاری آیا - اس نے نہایت چابکدستی سے ایک گہرا پھندا تیار کیا اور شیروں کی جوڑی کو آن قابو کیا....پنجرہ پہلے سے تیار تھا چنانچہ آنا فانا دونوں شیر سر بمہر پیک کر کے بلاد عرب بھجوا دیے گیے- حالات کے بدلتے تیور دیکھ فقیر نے فورا شیر کی کھال پر تین حرف بھیجے...بازار سے ایک پالش کی ڈبی اور برش خریدا اور شکاری کے قدموں میں جا بیٹھا.........!!! چنانچہ نسخہ کارگر ثابت ہوا اور اس گدڑی پوش کو دوبارہ دودھ کی نہروں کا ناظم بنادیاگیا جہاں یہ درویش کوہ لام میم قاف کی حسین پریوں کے ساتھ ایک مدت تک غسل آفتابی فرماتا رہا....!!!
ایک دن وہ شکاری غلطی سے اپنا طلسمی لباس اتار بیٹھا....سحر خاکی چھٹا تو شکاری ایک بونا بن گیا جسے بلی بھی آسانی سے چبا سکتی تھی....شیروں کی آمد کا پھر غلغلہ بلند ہوا اور جنگلی گیدڑ اور باگڑ بلے منہ اٹھا ادھر ادھر بھاگنے لگے- یہ درویش بھی پالش برش پھینک....بھاگم بھاگ اپنی حویلی پہنچا اور گودام سے میلی کچیلی شیر کی کھال نکالی....اسے پہن شیروں کے سامنے آیا تو غراہٹ نے استقبال کیا...تب یاد آیا کہ "دم" تو گودام میں ہی چھوڑ آیا ہوں... واپس آکر بہت تلاش کی...خادموں کو آگے پیچھے دوڑایا لیکن "دم" نہ ملنی تھی نہ ملی-
انہی دنوں وطن میں ایک کھلاڑی کا طوطی دن رات بولنے لگا- یہ پیر مرد جہاں جاتا طوطیاں اور کوے اس کے ساتھ ساتھ اڑتے اور بھانڈ میراثی...پیچھے پیچھے توتی بجاتے ہوئے چلتے...- اس فقیر نے اس طوطی خانے میں یاورئی قسمت کا فیصلہ کیا....لیکن عین موقع پر میرے گلے میں پڑی " ٹلی" آڑھے آگئی جو والد بزرگوارم نے بچپن میں ڈالی تھی- کھلاڑی نے بولا کہ تجھ جیسا "ٹلی " بردار اس قافلہ نیک طینت کا چپڑاسی بننے کا بھی اہل نہیں.....میں نے فورا ٹلی اتار کے جیب میں ڈالی تو اس پیر مرد نے مجھے گلے لگا لیا بوسے دیے اور فرنٹ سیٹ پر جگہ دے دی..جلد ہی کھلاڑی سے میری دوستی کا شہرہ دور دور تک پھیل گیا......کھلاڑی نے میرے لیے تازہ دودھ کے دریا بہا دیے اور میں نے چرس کا پورا ٹرک میدان میں پھینکوا دیا....یوں ایک دوسرے کو سمجھنے کا خوب موقع ملا..!!!!!
آخر شیروں سے بدلہ لینے کی ٹھانی- ادھر والد بزرگوارم نے عالم رویا سے دھمکی دی کہ اگر اس " ٹلی اتار" کھلاڑی سے "ٹلی کی ہتک" کا بدلہ نہ لیا تو...32 دھاریں بخشوانے سے رکوا دوں گا.....سوچا کیوں نہ دونوں دشمنان ملک و ملت سے اکٹھا بدلہ لوں...تاکہ دونوں ابدی شکست پاویں....اور یہ فقیر خلق خدا کے روبرو شادبی پاوے- چنانچہ ملک "احمقستان" سے طلسمی لخلخہ منگوایا...اورکھلاڑی کو سوتے ہوئے کئی بار سنگھایا....نسخہ رنگ لایا اور جلد ہی کھلاڑی قہقہے مار مار کر رونے لگا...اس پر ڈی جے۔۔۔۔ نے ایک طربیہ ساز چھیڑا اور فوک گلوکار نے رلا دینا والا گیت چھیڑ دیا....پھر کیا تھا ہر طرف" حال حال" کا عالم ہو گیا..طوطیاں طوطے...گائے بکریاں سب رونے لگ گئے..یہاں تک کہ اسلام آباد میں جل تھل ہو گئی.... کھلاڑی رو رو کے ہلکان ہوتا تو یہ فقیر اسے مذید لخلخہ سنگھاتا....اور اگلے دن وہ گلا پھاڑ پھاڑ کے روتا......میں نے ایک جادوگر کی بھی خدمات حاصل کیں اور موم کے دو پتلے بنوائے....کھلاڑی کو وہ جادو سے امپائر نظر آتے یوں کھلاڑی ٹرک کی بتی کے پیچھے ....آگے ہی آگے بڑھتا گیا.....اور اس کا طوطی...نیچے ہی نیچے بیٹھتا گیا....!!!
تو صاحبان !! یہ آج آپ لوگ جس عالم خجل خواری سے گزر رہے ہو.....یہ سب اس فقیر کا کیا دھرا ہے....اس سارے ۔۔۔۔ کھیل کا تنہا ذمہ دار یہ درویش ہے.......تو حضرات یہ تھی میری داستان الم....آپ حضرات تشریف رکھو....میں ذرا کھلاڑی کو لخلخہ سنگھا کے آتا ہوں....!!!!
یہ کہ کر درویش اٹھنے لگا تو تینوں درویشوں نے اپنی اپنی عبائیں دور پھینکیں...."او تیری......." کہہ کر اس پر حملہ آور ہوئے لیکن یہ پیر مرد ہرن کی طرع قلانچیں بھرتا ہوا....کینٹینر پر چڑھ گیا ......اور "گو گو " کے نعرے لگانے لگا-
 
آخری تدوین:
تو اصل فساد اس چوتھے جعلی درویش نا برپا کر رکھا ہے :p
جناب چوتھا درویش ہی ہمیشہ سے ہی کالی بھیڑ کا کردار نبھاتا آیا ہے۔ جو گڈریاسمجھ گیا، اس نے ریوڑ سے نکال باہر کیا اور جس نے نیا ریوڑ ہانکنا تھا اس نے برکت کے لیے ساتھ رکھ چھوڑا۔۔ دیکھیے کب تک یہ پیار محبت کا سلسلہ چلتا ہے
 
پہلے درویش نے بیڑی کا کش لگایا اور آنکھیں موند کر گویا ہوا....:
صاحبو یہ فقیر پرتقصیر خاک در خاک کھرڑیانوالہ ضلع فیصل آباد کا ساکن ہے-بچپن سے ہی طبیعت ایڈونچر کی طرف مائل تھی چنانچہ شاہی سپاہ میں جا بھرتی ہوا اور ایک طویل عرصہ تک جنگ وجدل میں دشمن کو لوہے کے چنے چبوائے-زندگی بھر صحراؤں اور ویرانوں کی خاک چھان کر عازم ریٹائرمنٹ ہوا اور سرکار سے اڑھائی ہزار سکہ رائج الوقت کے لگ بھگ پنشن پائی - ذہن مائل بہ تجارت تھا چنانچہ کل جمع پونجی داؤ پر لگائی اور ایک آٹا پیسنے والی چکی لگا بیٹھا- لیکن افسوس بلبل ہزار داستان گلشن تقدیر میں یوں چہکا کہ جب بھی آٹا تولا جاتا ,دانوں سے کم نکلتا چنانچہ گھر کے آٹے سے سبسڈی دینی پڑتی- یوں رفتہ رفتہ گھر کا رزق خلاص ہوا اور بندہ فقیر قلاش ہوا -فکر معاش نے آن گھیرا تو چکی آدھی قیمت پر بیچ کر دارلسلطنت کا رخ کیا کہ کاخ امراہ بہتوں کی امان گاہ ہے - دارلسلطنت آکر ایک بھاری سفارش کے طفیل ریاض بحریہ میں کوتوالی کا کار نصیب ہوا,مشاہرہ 10 ہزار سکہ رائج الوقت بمعہ روٹی رہائش - فکر معاش تم چکا تھا اور راوی چین ہی چین لکھتا تھا کہ یکایک ایک دن ہنگامہ محشر بپا ہوا اور دارلسلطنت میں دھرنے کی آمد آمد ہوئی- بندہ پرتقصیر ایسے ہنگام سیاست سے ہمیشہ کوسوں دور بھاگتا تھا لیکن حالات سے آگاہی ضرور رکھتا - شہر بھر میں رنگیں ٹوپی والی رقاصاؤں اور ریشمی دوپٹے والے خواجہ سراؤں کا چرچا تھا-رات دیر تک اسپیکر سے آنے والی عطااللہ عیسی خیلوی کی کوک دل میں سوراخ سی کرتی طبیعت کہتی کہ اڑ کر اس ہنگامہ رقص و سرود میں جا پہنچوں لیکن صاحبو !! اپنی چٹی داڑھی اور چھوٹے چھوٹے بچوں کا سوچ کر لاحول پڑھتا اور سو جاتا-تماش بینوں کے ہاتھوں یہ بھی سنا کہ وہاں ایک پیر مرد کہ صورت سےمرد درویش معلوم پڑتے ہیں اور کلام وبیان میں جنکا طوطی بولتا ہے ایک لوہے کے تابوت میں زندہ دفن ہیں اور رات گئے ایسا وعظ وبیان کرتے ہیں کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا- طلب دیدار تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی لیکن کوتاہ قسمت کہ بندہ فکر معاش کے ہاتھوں مجبور تھا 12گھنٹے کی کوتوالی کے بعد بمشکل نیند پوری ہوتی-
ایک دن کہ تقدیر کا پتھر سات آسمان چیر کر میرے سر پر آن ٹھہرا اور دھرنے سے ایک ایلچی نے صدا لگائی کہ اس نورانی صفت بزرگ کو رات کےلیے سیکیورٹی گارڈز کی اشد ضرورت ہے تنخواہ من چاہی تھی ,سوچا دن کو نوکری کروں گا ,رات کو اوور ٹائم لگاؤں گا اور شربت دیدار بزرگ نورانی بونس میں رہے گا-چنانچہ گاہ گاہ جلسہ گاہ جا پہنچا - جاتے ہی ایک پیر مرد ملائم طبع نے قومی شناختی کارڈز احتیاطاً رکھ لیا کہ اس ہنگام میں کہیں کھو نہ جائیں- محفل تھی کہ چراغ باطن کو روشن کرنے والی تھی-خود کو کوسا کہ اس فضیلت سے آج تک محروم کیوں رہا -صبح ڈیوٹی کا وقت قریب آیا تو اسی مرد ملائم طبع کی تلاش میں نکلا جس نے کل شناختی کارڈ ضبط کیا تھا - تلاش وبسیار کے بعد پتا چلا کہ پیر نرم طبع تو مفقود ہیں البتہ ایک اور بزرگ کہ صورت جنکی مصطفی قریشی سے ملتی تھی تشریف فرما ہیں اور انکے ارد گرد ایک مجمع جمع ہے جو کہ شناختی کارڈ شناختی کارڈ کا واویلہ مچا رہا ہے -اور حکم ہے کہ کارڈز دھرنا ختم ہونے کے بعد ملیں گے- بہت منت سماجت کی کہ ڈیوٹی کا مسئلہ ہے مگر بزرگ مصطفی قریشی کا اصرار تھا کہ کم از کم چار دن ضرور ادھر رہو تاکہ باطن میں انقلاب کی شمع روشن ہوسکے- دل تو دوڑ لگانے کو چاہا لیکن بزرگ کے دائیں بائیں کھڑے ڈنڈا برداروں نے دوبارہ بیٹھنے پر مجبور کردیا-خدا خدا کرکے چار دن کی قید کاٹی اور منت ترلا کر کے واپس ریاض بحریہ پہنچا اور قصہ عدم حاضری من و عن سنایا جنانچہ بے عزت کر کے نوکری سے فوری برخواست کردیا گیا - اب نہ تو کوئی جگہ تھی نہ ہی ٹھکانہ چنانچہ جوتیاں چٹخاتا اسی بزرگ۔۔۔ صفت کے دھرنے میں آن بیٹھا اور آج تک انقلاب کی راہ تک رہا ہوں-------

۔۔۔۔۔۔
انجینئر ظفر اعوان
ساہیوال،پاکستان
حال مقیم دوہا قطر
بہت خوب روداد ، نقشہ نگاری اور زبردست تحریر۔ خوب محظوظ کیا۔ داد وصول ہو!!:):):):)
 
دوسرا درویش سر کھجاتا اور سگریٹ میں چرس بھرتا ہوا یوں گویا ہوا !!
صاحبو یہ فقیر لاچار کہ ملک جسکا پنڈ دادنخان ضلع جہلم ہے ایک ماہ سے اس دھرنے میں موجود ہے- والد گرامی اس سیاہ کار کے محکمہ زراعت میں پٹواری تھے اور بندہ ان کی پہلی اور آخری اولاد- طبیعت شروع ہی سے لا ابالی تھی اورشعروادب کا ذوق پایا تھا چنانچہ گاہ گاہ والد گرامی سے چھتر پریڈ بھی کراتا رہا - والد گرامی کی پندونصاح اور ضرب و شلاق کے طفیل کالج کا منہ دیکھ ہی لیا- کالج کے پہلے ہی دن ایک حسینہ جانفزا، پری وش کہ حسن جس کا آنکھوں کو خیرہ کیے دیتا تھا، پر نگاہ پڑی اور وہیں ہزار جان فدا ہو گیا- دل کا عالم ہی بدل گیا شب تھی کہ بستر پر لوٹتے اور کشور کمار کو سنتے گزرتی اور دن اس فتنہ حسن کے شوق دیدار میں بھٹکتے گزرتا- گاہ گاہ شام پگاہ اس عجوبہء حسن کے خیالوں میں غرق رہنے لگا۔

واقفان حال سے بس اتنا معلوم پڑا کہ یہ خزانہ حسن کہ نام جس کا غزالہ ہے, چوہدری عبدالشکور کلرک محکمہ انہار کے خاندان کی زینت و مالا ہے اور حفاظت اس زہرہ جبین کی ایک شیش ناگن کرتی ہیں جو رشتے میں اسکی خالہ ہے- مصاحبو !! عشق اپنے ساتھ رقیبان روسیاہ کی فوج لاتا ہے چنانچہ یہی ہوا اور چہار دانگ عالم سےکئی بٹ، رانے، ٹوانے اور جٹ اس زہرہ جبین کے عاشق ہونے کے دعویدار نکلے اور یہ فقیر تلملا کے رہ گیا- انہی دنوں اس بندہ مبتلا پر تقدیر یوں مہربان ہوئی کہ کالج کا سالانہ مشاعرہ برپا ہوا- اس عاشق نامراد نے مشاعرے کے لیے ایسی غزل لکھی کہ حال دل کھول کے رکھ دیا- اس رات کو عشق کا بخار 106 ڈگری پہ پہنچ چکا تھا -چنانچہ عاشقوں کا سو سالہ پرانہ مجرب نسخہ آزمایا اور طویل نامہ محبت لکھا-

ایک واقف حال کہ نام جس کا صادق حسین بٹ تھا بعوض 500 روپے بمعہ سگریٹ پانی یہ نامہ اس ماہ رخ تک پہنچانے پر راضی ہوا- اور اگلے دن دستی جواب بھی لا حاضر کیا- نامہء محبوب ہاتھ میں آیا تو خوشی ومسرت کا ٹھکانہ نہ رہا- نامہ تھا کہ جواب آں غزل اور محبت کا پیمان تھا - لگتا تھا کہ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئ-آخر میں لکھا تھا کہ عشق کو آزمانا ہے تو اسلام آباد دھرنے میں جانا ہے -صادق بٹ نے یہ عقدہ کھولا کہ غزالہ تو کپتان کی نہ صرف پرانی فین ہے بلکہ کالج میں شوکت خانم کےعطیات بھی اکٹھے کرتی ہے- پہلی نظر میں تو معمولی سی شرط لگی کہ عشق کو سیاست سے کیا احوال اور عشق میں عطیہ بن جانا بھی باعث افتخارو استنباط ہے پھر والد گرامی کا خیال آیا جو 24 قیراط کے پٹواری تھے تو ماتھا ٹھنکا- چنانچہ رات کے اندھیرے میں اپنے ہی گھر نقب لگائی اور جو جمع پونجی ہاتھ لگی زاد سفر سمجھ کر قصد اسلام آباد کا کیا اور ڈی چوک آن دھمکا - گھر سے بہتیرے فون آئے کہ لوٹ آؤ معاف کردیں گے،, مگر وہ عشق ہی کیا جو پیچھے پلٹ کے دیکھے -15 دن خوب رقص کیا کہ عشق موذی ہمیشہ عاشقوں کو نچاتا ہے-

آخر ایک واقف حال کا فون آیا کہ اے خانما برباد ! تو انقلابی مجنوں بن کر اس ہنگام۔۔۔ خانہ میں بیٹھا ہے اور ادھر صادق بٹ تیری غزالہ کے ساتھ عقد کر کے گوجرانوالا میں ہنی مون منا رہا ہے -صاحبو یہ سننا تھا کہ چکرا کے کنٹینر کی داہنی جانب گرا - ہوش آئی تو معلوم پڑا کہ دھرنا سراسر ایک دھوکا تھا -رقیب روسیاہ صادق بٹ نے محض راستے کا پتھر ہٹانے اور مجھ سے چھٹکارہ پانے کے لیے جھوٹا محبت نامہ گھڑا- خود غزالہ کو لے اڑا اور مجھے تبدیلی کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا کہ نہ جس کا سر ہے نہ پیر - میں یہاں آنسو گیس کے پیالے بھر بھر کے پیتا رہا اور وہ بدمعاش نون لیگ کا گلو بٹ میری دنیا ویران کر گیا --------واہ رے محبت ہائے رے جنون-----اب واپسی کے سارے راستے بند ہیں کہ والد گرامی قدر کٹر پٹواری ہیں اور یہ بندہ رو سیاہ گلے میں ترنگا ڈالے کئی بار ٹی وی کیمرے کے سامنے ناچ چکا ہے----کس منہ سے کس کس کو منہ دکھاؤں گا--- تو صاحبو کپتان کو تو شاید بنی گالا میں آسرا مل جائے اور شیخو کو نئی بھینس, لیکن یہ عاشق نامراد دھوبی کے کتے کی طرح نہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا-.....اتنا کہہ کر دوسرے درویش نے چرس کا گہرا سوٹا لگایا اور دھرنے میں والہانہ رقص کرنے لگا!!!
لاجواب، زبردست، پہلے سے بڑھ کر۔۔۔۔ داد وصول صاحب۔۔!!:):):):):):):):)
 
تیسرا درویش دو زانو ہو بیٹھا - جیب سے ایک نقرئی ڈبیاکہ جس پر زرنگار جڑے تھے , نکالی , اس سے ایک کامل چٹکی نسوار کی ڈالی اور ایک باریک پچکاری مار یوں گویا ہوا :
یہ سرگزشت مری ذرا کان دھر سنو
مجھ کو فلک نے کردیا زیروزبر سنو
اے یاران آوارہ گرد ! یہ فقیر آزاد منش ایک ماہ سے کچھ اوپر اس دھرنے میں موجود ہے -میری پیدائش اور ملک اس درویش کا میراں شاہ شمالی وزیرستان ہے- والد اس عاجز کا سرخیل مجاہد تھا - چنانچہ زار روس کی جنگ میں کام آیا- بہادر ایسا تھا کہ وقت شہادت بھی ایک سفید ریچھ کا ٹینٹوا اس کے دست فولاد میں تھا - باپ کے مرنے پر ترکے میں اس فقیر کے ایک پیوند لگا باغ امرود کا کہ جس پر سیب لگتے تھے، ایک کھیت اخروٹ کا اور ایک نقرئی ڈبیا نسوار کی گماشتوں میں ہاتھ آئی - جس میں سے نصف بیچ بٹا کے بندوبست ایک زوجہ کا کیا کہ کچھ خاطر جمع ہووے اور کسب اولاد کا ذریعہ بنے-اور باقی جو بچا اس سے قصد روزگار کا کیا کہ پیٹ کی آگ بہت ظالم ہے-
مصاحبو ! وطن کا احول کچھ نہ پوچھو.. یہاں کی بنجر زمین پر ملاں مذہب کا ہل چلاتے ہیں - فولادی اڑن طشتریاں کہ جنہیں ڈرون کہتے ہیں فلک سے نفرت کا بیج پھینکتی ہیں پھر جب طالبانی پودے اگتے ہیں تو ملاں اسے عصبیت کی کھاد دیتے ہیں- یوں کڑی محنت سے خود کش فصل پک کر تیار ہوتی ہے-اعلی قسم کی جنس ملک افغانستان بھیجی جاتی ہے تاکہ عالم کفر کے دانت کھٹے کیے جاویں اور جنت ابدی کا حصول ہو،, ادنی قسم کی خودرو بوٹیاں کہ جن پر ہندوستانی اسپرے کیا ہوتا ہے ملک خداداد پاکستان بھیجی جاتیں ہیں تاکہ بوقت ضرورت پھٹ کر خلق خدا کو تسکین پہنچاویں - کبھی کبھی یہ جڑی بوٹیاں اتنی کثیر ہو جاتی ہیں کہ ان کی سرکوبی کےلیے افواج پاکستان آ دھمکتی ہیں - تب ان کا احوال جو ہو سو ہو لیکن ہم جیسے فقیروں پر جو گزرتی ہے , بقول بھگت کبیر...
چلتی چکی دیکھ کر، دیا کبیرا رو
دو پاٹن کے بیچ میں ثابت رہا نہ کو
اس سال چرخ فلک نے... عجب ستم یہ ڈھایا کہ دونوں فصلیں ایک ساتھ پک کر تیار ہوئیں ... فصل طالبانی اور فصل اخروٹ- یکبارگی جی میں ارادہ کیا کہ قبل اس کے کہ طالبان کا طوطی بولے اور افواج سرکاری ان پر فائر کھولے فصل اتار لی جائے مگر صد افسوس کہ تدبیر پر تقدیر غالب آئی اور فرمان امروز کوچ کا ملا چنانچہ ایک نگاہ تاسف فصل پر ڈالتا ، زوجہ طفلان گریہ زارکو سنبھالتا پہلے قافلے کے ساتھ ہی میران شاہ سے روانہ ہوا- احباب محفل سے اگلی منزل کی نسبت استفسار کیا تو معلوم پڑا کہ میر علی منزل گاہ ہے صوبہ جس کا "کے پی کے" ہے وہاں خٹک نامی ایک مرد صالح کی حکومت ہے - نظام اس مملکت کا کچھ یوں ہے کہ گاہ گاہ دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں- کوتوال شہر خلق خدا کا صبح شام پانی بھرتے ہیں اور شاہراہوں پر جڑاؤ زرنگار پتھر نصب ہیں کہ حسن جن کا آنکھوں کو خیرہ کیے دیتا ہے- اشتیاق ہوا کہ جلد از جلد اس جنت ارضی کا دیدار پاویں تا کہ رنج سفر کا کچھ کم ہو وے اور طبیعت آرام پاوے -
قصہ کوتاہ کہ جب اس وطن پہنچا تو پتا چلا کہ نہ دودھ و شہد کی نہریں ہیں اور نہ ہی زرنگاری سڑکیں اور کوتوالی ہیں کہ خلق خدا کو بھیڑ بکریوں کی طرع ہانک رہے ہیں- بارے ایک خیمہ نصیب ہوا جس میں ہمراہ پانچ طفل صغیر اور زوجہ باپردہ ٹھکانہ کیا-
ایک دن جب یہ درویش واسطے نان نفقہ کے ایک لنگر کی طویل لائن میں کھڑا تھا.. ایک خواجہ سرا صورت منادی کو سنا کہ گلے میں جسکے تین رنگ کا دوپٹہ تھا اور صدا لگاتا تھا "چلو چلو اسلام آباد چلو"- قریب جاکر اصلاح احوال کی چاہی تو معلوم پڑا کہ ملک خداداد میں نواز شریف نامی ایک ظالم پادشاہ کا دور دورہ ہے کہ خلق جس کی اذیت کا شکار ہے- اس ظالم نے "کے پی کے" کی ساری بھینسوں کو بیچ کر اور شہد کی مکھیوں کو قید کر کے اس صوبہ کی دودھ اور شہد کی نہریں سکھا دی ہیں- اور یہاں کی سڑکوں سے سونے کی اینٹیں لوٹ کر فرنگیوں سے اپنے سر پر سونے کے بال لگوالئے ہیں -خود تو جڑاؤ محل میں رہتا ہے اور آئ ڈی پیز کو رہن کے واسطے خیمے بھیجتا ہے - سو یہی وقت جہاد ہے ہر مجاہدکو500 روپے سکہ رائج الوقت ملے گا- دریافت کیا کہ کرنا کیا ہوگا وہ گویا ہوا کہ ایک مرد صالح جو اس ظالم پادشاہ کا ازلی دشمن ہے اور نام کا کپتان ہے اس کا خطاب سننا ہوگا اور سمجھ آوے یا نہ آوے تالیاں بحرحال پیٹنی ہونگی- استفسار کیا کہ بال بچے کا کیا ہو گا - منادی بولا چھوٹا 250 بڑا 300 اشرفیاں نقد بمع تین وقت کا کھانا..صبح کو شربت چائے و حلوہء سوہن پستہ، دوپہر کو پلاؤ زردہ ران بکرے کا اور شام میں مرغ مسلم و نان قندھاری-
سننا اس منادی کا تھا کہ فقیر کھانے کا تھال وہیں چھوڑ خیمہ کی جانب بھاگا کہ احوال زوجہ کو بیان ہو اور تیاری سفر کی پکڑی جاوے-وہ اللہ کی بندی بھی جھٹ تیار ہوئی اور کپڑا لتا اور دیگر زاد راہ ہمراہ لیا- علی الصبح مرغ کی اذان کے ساتھ پہلا قافلہ پکڑ شام کو اسلام آباد آن پہنچا- کیا دیکھتا ہوں کہ خلق خدا کا ایک اژدھام ہے- جو بھانت بھانت کے نعرے لگاتا ہے- یوں ایک قید خانے سے نکل کر دوسرے زندان میں آن پھنسا- بارش ہوتی تو پیڑ کے نیچے پناہ لیتا- بھوک گھیرتی تو تلاش رزق میں نکلتا اور بعد از خرابیء بسیار کبھی تو دال ہمراہ نان خشک ملتا اور کبھی ابلے چاول- سو کبھی تو قبض ہو جاتی اور کبھی جلاب کا عارضہ آن لاحق ہوتا ہر روز یہ طلاع ملتی کہ ظالم پادشاہ نے 100 زردے کی دیگیں چھین کر بحق سرکار ضبط کر لی ہیں جونہی اس پادشاہ کا تختہ الٹے گا بمعہ سود واپس لی جاویں گی- رات کو جشن طرب شروع ہوتا اور زرق برق کنیزیں کہ حسن جن کا آنکھوں کو خیرہ کرتا تھا رقص آزادی پیش کرتیں- زوجہ اس درویش کی چونکہ پردے دار فقیرنی تھی سر نہواڑے توبہ توبہ کر کے سو جاتی- رات دیر تک خطبات چلتے اور یہ درویش تالیاں بجا بجا کر حق اشرفیاں ادا کرتا- پھر چرس اور تاش کی محفلیں سجتیں- غرض کہ رات گئے تک ایک ہنگام برپا رہتا-
مصاحبو اسی طرح دن گزرتے گئے- ہر رات لوہے کے تابوت سے ایک خواجہ سرا صورت طویل قامت گلے میں سہہ رنگا ریشمی دوپٹہ پہنے , کہ اپنے تائیں کپتان کہتا تھا، باہر آتا- ایک لمبی تقریر کرتا اور آخر میں اعلان کرتا کہ کل اس ظالم پادشاہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جا وے گی--ایک دن کسی جاننے والے سے پوچھا کہ اس ظالم پادشاہ کی کیا خبر ہے- اس نے جواب دیا کہ ملک خداداد میں سیلاب کی آمد آمد ہے اور وہ ظالم صبح سے شام خلق خدا کے ساتھ جتا ہوا ہے- یہ سن کر جی ہی جی میں شرمندہ ہوا کہ یہ مسخرے تو شب بھر محو رقص رہتے ہیں اور وہ ظالم خلق خدا کی خدمت گاری میں جتا ہے- چنانچہ اگلے ہی دن اس محفل نشاط پر تین حرف بھیج کر نکلنے کا ارادہ کیا تو ڈنڈا برداروں نے آن گھیرا اور یہ کہہ کر دوبارہ بٹھا دیا کہ باہر اس ظالم پادشاہ کے کوتوالی سونگھتے پھرتے ہیں مبادہ پکڑے گئے تو پس زنداں چلے جاؤ گے بہتری اسی میں ہے کہ رات بھر ہمارے ساتھ ناچو......اور دن کو کسی جھاڑی کے نیچے ہو کر سوئے رہو....بس کچھ دن اور باقی ہیں- آزادی کا سورج طلوع ہونے کو ہے-
سو دوستو وہ دن اور آج کا دن اسی ہنگام ۔۔۔ خانہ میں پڑا ہوں..آزادی کا سورج تو اب قیامت کو طلوع ہوگا...فی الحال تو..رات بھر پی ٹی آئی نچاتی ہے ...اور دن کو بھوک!!!!!
لکڑی جل کوئلہ ہوئی کوئلہ جل بنی راکھ
ہم پاپی تو یوں جلے نہ کوئلہ بنے نہ راکھ

اتنا کہہ کر درویش زارو قطار رونے لگا
بہت ہی خوب چوہدری صاحب۔ کیا طرز بیان، کیا مزاح، کیا نقشہ نگاری۔۔۔ زبردست لاجواب۔۔ مزہ آگیا۔۔۔!! ہر اگلا درویش پچھلے سے بڑھ کر ہے۔
 
کیا "کوزے" میں دریا بند کیا ہے"-
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
تینوں درویش اپنا اپنا احوال حاضر کر چکے تو چوتھے رفیق پر توجہ کی جو ایک خستہ رداء اوڑھے اونگھ رہا تھا -یاران بدبخت کی آہٹ پا کر اس کفنی پوش نے آنکھیں واء کیں...پہلو بدلا...بارے گڈری سے ایک ولائیتی سگار نکال آتش دکھائی.....اور یوں گویا ہوا :
اے شرمندگان محفل !! یہ گدڑی پوش اب تک صبر کا پیالہ پی کر تمہارے قصہ فضول و نامعقول کو سنتا رہا اور جی ہی جی میں تمہاری نالائقی و بے وقوفی اور ۔۔۔ پن کی داد دیتا رہا.- فقیر خود بھی ایک مدت سے اس تماشہء نیرنگ کی زینت بنا ہوا ہے کہ معلوم پڑتا ہے کہ پیدا ہی دھرنے میں ہوا ہے- وطن اس درویش کا کشمیر ہے کہ حسن جس کا بے نظیر ہے- اجداد نے نیت ہجرت کی فرمائی اور شہر راولپنڈی کو مسکن بنایا- والد اس فقیر کا ایک غریب کشمیری بٹ تھا اور پیشے سے کوزہ گر - چنانچہ بلخ، بخارا، بغداد و ثمر قند تک ان کے ہاتھوں کے بنے "کوزے" ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتے- والد بزرگوارم نے حصول اولاد کےلیے بہتیرے جتن کئے- آستانوں پہ چراغ جلائے...مندروں کی گھنٹیاں بجائیں اور حاذق طبیبوں کے قدیم نسخے کھائے آخر طب قدیم وجدید کے نسخہ ہائے ملیح ونمکین اور روحانی اسرار سماوی رنگ لائے اور یہ حقیر فقیر۔۔۔۔دار فانی میں وارد ہو ہی گیا - گھر گھر چراغاں ہوا اور جشن ولادت کئی دن تک چلا-...خلق خدا کی زبان پر ایک ہی جملہ تھا... " واہ بٹ صاحب کیا "کوزے" میں دریا بند کیا ہے"-
بچپن ہی سے طبیعت میں بلا کی روانی تھی چنانچہ جدھر منہ آتا روانہ ہو جاتا اور بڑے جتن سے پکڑ دھکڑ واپس لایا جاتا-آخر والد بزرگوارم نے کسی حاذق طبیب سے مشورہ کر کے فدوی کے گلے میں ایک گھنٹی ڈلوادی...اور یوں یہ فقیر "۔۔۔۔ٹلی " کے نام سے مشہور عالم ہوا-.......(چونک اٹھنا تینوں درویشوں کا ..... دیکھنا اس گدڑی پوش کو....اور کرنی آپس میں....کھسر پسر)
سن جب 21کا ہوا اور قلعہ جوانی کا سر کیا تو ہر سمت میری جواں مردی کے قصے مشہور ہوئے- میں مرغی سے تیز بھاگ سکتا تھا اور اڑیل سے اڑیل گھوڑا مجھے لفٹ کرائے بغیر گزر جاتا تھا- نصف شب گوالوں کے باڑوں میں جا گھستا اور دودھ سے سیر ہو کر نکلتا- میں نے شیر کی کھال کرائے پر لیکر مردانے میں ٹانگ رکھی تھی تاکہ احباب پر شجاعت کا سکہ بیٹھا رہے اور دشمنوں پر دھاک- ایک دن بازار جا رہا تھا کہ پری زادوں کا غول نظر آیا..معلوم پڑا کہ کوہ قاف کی پریاں ہیں اورکالج جا رہی ہیں...فورا ہزار جان فدا ہوا اور وہیں کھڑے کھڑے کئی شعر کہہ ڈالے....کہ اچانک ایک حسن بانو نے نعلین اتار اس فقیر کی عشق تھراپی کی اور یوں گویا ہوئی.." اے بدقماش...جب دودھ مل جاتا ہے تو بھینس پالنےکا تکلف کیوں کرتا ہے"...اس پری کے یہ زریں کلمات سن کر طبیعت ایک مدت تک مسرور رہی-
کچھ بڑا ہوا تو کسب روزگار کا کیا...اور تاریخی لال حویلی کے سامنے کتابوں کی دکان کھول لی جہاں ہر وقت پری زادوں کا رش لگا رہتا...پھر کپڑوں کی تجارت شروع کی اور خچروں پر اسباب تجارت لاد کر ملکوں ملکوں پھرا....خوب منافع ہوا - ایک مدت بعد جب یہ درویش وطن لوٹا تو اسی لال حویلی کا مالک بن چکا تھا-
انہی دنوں دیس میں شیروں کی ایک جوڑی کا طوطی بولنے لگا..جنگل کے سارے لکڑبگھے اور گیدڑ بلے ان کو دیکھ کر راستہ بدل لیتے - خلق خدا کو دیوانہ وار ان شیروں پر نثار ہوتے دیکھا تو اس درویش نے گودڑی پھینکی اور شیر کی کھال پہن کر ان کے ساتھ مل گیا...اب تو جیسے دنیا ہی بدل گئی....فقیر کا اشتیاق دیکھ کر شیر بادشاہ نے وزارت اطلاع رسانی و۔۔۔ خانی امور سپرد کی اور یوں یہ درویش دودھ کی نہروں میں ڈبکیاں لگانے لگا - اگلی بادشاہت میں ریل کے ڈبے سپرد ہوئے...فقیر نے بجلی سے چلنے والی ٹرین کو دوبارہ بھاپ پر منتقل کرنے کا شاندار منصوبہ بنایا جو کامیاب نہ ہو سکا-
ایک دن ناگاہ رات کے اندھیرے میں طلسمی لباس پہنے لمبے بوٹ چڑھائے ایک شکاری آیا - اس نے نہایت چابکدستی سے ایک گہرا پھندا تیار کیا اور شیروں کی جوڑی کو آن قابو کیا....پنجرہ پہلے سے تیار تھا چنانچہ آنا فانا دونوں شیر سر بمہر پیک کر کے بلاد عرب بھجوا دیے گیے- حالات کے بدلتے تیور دیکھ فقیر نے فورا شیر کی کھال پر تین حرف بھیجے...بازار سے ایک پالش کی ڈبی اور برش خریدا اور شکاری کے قدموں میں جا بیٹھا.........!!! چنانچہ نسخہ کارگر ثابت ہوا اور اس گدڑی پوش کو دوبارہ دودھ کی نہروں کا ناظم بنادیاگیا جہاں یہ درویش کوہ لام میم قاف کی حسین پریوں کے ساتھ ایک مدت تک غسل آفتابی فرماتا رہا....!!!
ایک دن وہ شکاری غلطی سے اپنا طلسمی لباس اتار بیٹھا....سحر خاکی چھٹا تو شکاری ایک بونا بن گیا جسے بلی بھی آسانی سے چبا سکتی تھی....شیروں کی آمد کا پھر غلغلہ بلند ہوا اور جنگلی گیدڑ اور باگڑ بلے منہ اٹھا ادھر ادھر بھاگنے لگے- یہ درویش بھی پالش برش پھینک....بھاگم بھاگ اپنی حویلی پہنچا اور گودام سے میلی کچیلی شیر کی کھال نکالی....اسے پہن شیروں کے سامنے آیا تو غراہٹ نے استقبال کیا...تب یاد آیا کہ "دم" تو گودام میں ہی چھوڑ آیا ہوں... واپس آکر بہت تلاش کی...خادموں کو آگے پیچھے دوڑایا لیکن "دم" نہ ملنی تھی نہ ملی-
انہی دنوں وطن میں ایک کھلاڑی کا طوطی دن رات بولنے لگا- یہ پیر مرد جہاں جاتا طوطیاں اور کوے اس کے ساتھ ساتھ اڑتے اور بھانڈ میراثی...پیچھے پیچھے توتی بجاتے ہوئے چلتے...- اس فقیر نے اس طوطی خانے میں یاورئی قسمت کا فیصلہ کیا....لیکن عین موقع پر میرے گلے میں پڑی " ٹلی" آڑھے آگئی جو والد بزرگوارم نے بچپن میں ڈالی تھی- کھلاڑی نے بولا کہ تجھ جیسا "ٹلی " بردار اس قافلہ نیک طینت کا چپڑاسی بننے کا بھی اہل نہیں.....میں نے فورا ٹلی اتار کے جیب میں ڈالی تو اس پیر مرد نے مجھے گلے لگا لیا بوسے دیے اور فرنٹ سیٹ پر جگہ دے دی..جلد ہی کھلاڑی سے میری دوستی کا شہرہ دور دور تک پھیل گیا......کھلاڑی نے میرے لیے تازہ دودھ کے دریا بہا دیے اور میں نے چرس کا پورا ٹرک میدان میں پھینکوا دیا....یوں ایک دوسرے کو سمجھنے کا خوب موقع ملا..!!!!!
آخر شیروں سے بدلہ لینے کی ٹھانی- ادھر والد بزرگوارم نے عالم رویا سے دھمکی دی کہ اگر اس " ٹلی اتار" کھلاڑی سے "ٹلی کی ہتک" کا بدلہ نہ لیا تو...32 دھاریں بخشوانے سے رکوا دوں گا.....سوچا کیوں نہ دونوں دشمنان ملک و ملت سے اکٹھا بدلہ لوں...تاکہ دونوں ابدی شکست پاویں....اور یہ فقیر خلق خدا کے روبرو شادبی پاوے- چنانچہ ملک "احمقستان" سے طلسمی لخلخہ منگوایا...اورکھلاڑی کو سوتے ہوئے کئی بار سنگھایا....نسخہ رنگ لایا اور جلد ہی کھلاڑی قہقہے مار مار کر رونے لگا...اس پر ڈی جے۔۔۔۔ نے ایک طربیہ ساز چھیڑا اور فوک گلوکار نے رلا دینا والا گیت چھیڑ دیا....پھر کیا تھا ہر طرف" حال حال" کا عالم ہو گیا..طوطیاں طوطے...گائے بکریاں سب رونے لگ گئے..یہاں تک کہ اسلام آباد میں جل تھل ہو گئی.... کھلاڑی رو رو کے ہلکان ہوتا تو یہ فقیر اسے مذید لخلخہ سنگھاتا....اور اگلے دن وہ گلا پھاڑ پھاڑ کے روتا......میں نے ایک جادوگر کی بھی خدمات حاصل کیں اور موم کے دو پتلے بنوائے....کھلاڑی کو وہ جادو سے امپائر نظر آتے یوں کھلاڑی ٹرک کی بتی کے پیچھے ....آگے ہی آگے بڑھتا گیا.....اور اس کا طوطی...نیچے ہی نیچے بیٹھتا گیا....!!!
تو صاحبان !! یہ آج آپ لوگ جس عالم خجل خواری سے گزر رہے ہو.....یہ سب اس فقیر کا کیا دھرا ہے....اس سارے ۔۔۔۔ کھیل کا تنہا ذمہ دار یہ درویش ہے.......تو حضرات یہ تھی میری داستان الم....آپ حضرات تشریف رکھو....میں ذرا کھلاڑی کو لخلخہ سنگھا کے آتا ہوں....!!!!
یہ کہ کر درویش اٹھنے لگا تو تینوں درویشوں نے اپنی اپنی عبائیں دور پھینکیں...."او تیری......." کہہ کر اس پر حملہ آور ہوئے لیکن یہ پیر مرد ہرن کی طرع قلانچیں بھرتا ہوا....کینٹینر پر چڑھ گیا ......اور "گو گو " کے نعرے لگانے لگا-
زبردست۔ ہم تو بھئی تحریر کے مزے لیتے رہے۔ لاجواب بہت خوب۔۔!!:applause::applause::applause::applause::applause::applause::applause:
 
Top