قصہ ایک دہشت گرد طیارے کا۔۔۔ (عاطف بٹ)

محمداحمد

لائبریرین
جی بالکل۔ آنکھوں پر تعصب کی پٹی بندھی ہو تو کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصب کی تو ایسی ایسی پٹیاں مارکیٹ میں دستیاب ہیں کہ مادر زاد اندھا دیکھنے کے قابل ہوسکتا ہے مگر ان پٹیوں کو آنکھوں پر باندھے والے کبھی حقیقت نہیں دیکھ پاتے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان پٹیوں کا اثر آنکھوں کی بجائے دل و دماغ پر ہوتا ہے۔

میں نے ٹی وی پر خبر دیکھی تھی کہ اس سلسلے میں اقوامِ متحدہ کا ہنگامی اجلاس ہو رہا ہے لیکن آپ کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اجلاس کس نوعیت کا تھا۔
 

عاطف بٹ

محفلین
میں نے ٹی وی پر خبر دیکھی تھی کہ اس سلسلے میں اقوامِ متحدہ کا ہنگامی اجلاس ہو رہا ہے لیکن آپ کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اجلاس کس نوعیت کا تھا۔
اقوامِ متحدہ تو ایک کٹھ پتلی ہے۔ اس کی کیا اوقات کے روس اور امریکہ جیسے عالمی بدمعاشوں کے خلاف کوئی بات کرسکے۔ ہاں اگر کسی مسلم ملک کے خلاف کوئی فیصلہ کرنا تو آپ پھرتیاں دیکھتے اقوامِ متحدہ کی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اقوامِ متحدہ تو ایک کٹھ پتلی ہے۔ اس کی کیا اوقات کے روس اور امریکہ جیسے عالمی بدمعاشوں کے خلاف کوئی بات کرسکے۔ ہاں اگر کسی مسلم ملک کے خلاف کوئی فیصلہ کرنا تو آپ پھرتیاں دیکھتے اقوامِ متحدہ کی۔

بالکل! جمہوریت کے دعوے دار ملکوں کی آمریت کی زندہ مثال ہے یہ اقوامِ متحدہ۔
 

ابن رضا

لائبریرین
بہت عمدہ عاطف صاحب. کیا ہی اچھی ترجمانی کی ہے معصوم امن پسندوں کی اور مسلم دہشتگروں کی. انا للہ و انا الیہ راجعون
 

ابن رضا

لائبریرین
غزہ کے نونہالوں کو بھی تو دیکھیں کہ ابھی ٹھیک سے پیدا بھی نہیں ہوے پر نہتے اور معصوم و بے ضرر اسرائیلیوں پر دہشتگردی کے پہاڑ توڑ رہے ہیں
 

عاطف بٹ

محفلین
غزہ کے نونہالوں کو بھی تو دیکھیں کہ ابھی ٹھیک سے پیدا بھی نہیں ہوے پر نہتے اور معصوم و بے ضرر اسرائیلیوں پر دہشتگردی کے پہاڑ توڑ رہے ہیں
جی بالکل، جو شہادتیں رپورٹ ہورہی ہیں ان میں اب تک سب سے کمسن شہیدہ کی عمر چار روز بتائی گئی ہے۔ ان شہادتوں کے لئے اسرائیل سے زیادہ بےغیرت اور بےحس مسلم حکمران ذمہ دار ہیں جنہوں نے غیرت و حمیت کو مغرب کے آگے بیچ دیا ہے۔
 
ہمارا ریسرچ گروپ ویب آرکائیونگ اور ڈیجیٹل پریزرویشن کے حوالے سے کام کرتا ہے۔ ایسے میں ہم لوگوں سے اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ ویب آرکائیونگ کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے جواب میں ہم لوگ اکثر ایسے واقعات یاد دلاتے ہیں جن سے بہت تباہی آئی ہو اور اب وقت گزرنے سے ساتھ ساتھ اس سے متعلق مواد دھیرے دھیرے انٹرنیٹ سے کم ہو رہا ہو، جب کہ عین واقعہ کے وقت اور اس کے چند روز بعد تک اخبارات، بلاگ، ٹوئیٹ، تصاویر، اور ویڈیوز کی بھر مار ہوتی ہے۔ یا پھر ایسے واقعات جہاں تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہو مثلاً انٹرنیٹ کو سینسر کیا گیا ہو یا انٹرنیٹ پر موجود مواد میں رد و بدل کی گئی ہو۔ ایسے ہی دو مضامین ہماری ریسرچ گروپ کی میلنگ لسٹ میں حال ہی میں شریک کیے گئے جو اس طیارے کے واقعے سے جڑے ہوئے ہیں۔
 

عاطف بٹ

محفلین
ہمارا ریسرچ گروپ ویب آرکائیونگ اور ڈیجیٹل پریزرویشن کے حوالے سے کام کرتا ہے۔ ایسے میں ہم لوگوں سے اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ ویب آرکائیونگ کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے جواب میں ہم لوگ اکثر ایسے واقعات یاد دلاتے ہیں جن سے بہت تباہی آئی ہو اور اب وقت گزرنے سے ساتھ ساتھ اس سے متعلق مواد دھیرے دھیرے انٹرنیٹ سے کم ہو رہا ہو، جب کہ عین واقعہ کے وقت اور اس کے چند روز بعد تک اخبارات، بلاگ، ٹوئیٹ، تصاویر، اور ویڈیوز کی بھر مار ہوتی ہے۔ یا پھر ایسے واقعات جہاں تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہو مثلاً انٹرنیٹ کو سینسر کیا گیا ہو یا انٹرنیٹ پر موجود مواد میں رد و بدل کی گئی ہو۔ ایسے ہی دو مضامین ہماری ریسرچ گروپ کی میلنگ لسٹ میں حال ہی میں شریک کیے گئے جو اس طیارے کے واقعے سے جڑے ہوئے ہیں۔
زبردست! اگر ممکن ہو تو اس بارے میں کوئی مضمون ہی لکھ دیجئے جس میں بتایا جائے کہ ویب آرکائیونگ اور ڈیجیٹل پریزرویشن کا یہ منصوبہ کیا ہے اور ایسے اور کتنے منصوبے دنیا میں چل رہے ہیں۔ انٹرنیٹ سے مواد کم کیسے کیا جارہا ہے اور آنے والے دور میں اس وجہ سے ریسرچرز کے لئے جو مسائل پیدا ہوسکتے ہیں ان کا تدارک کیسے ممکن ہے؟
 
زبردست! اگر ممکن ہو تو اس بارے میں کوئی مضمون ہی لکھ دیجئے جس میں بتایا جائے کہ ویب آرکائیونگ اور ڈیجیٹل پریزرویشن کا یہ منصوبہ کیا ہے اور ایسے اور کتنے منصوبے دنیا میں چل رہے ہیں۔ انٹرنیٹ سے مواد کم کیسے کیا جارہا ہے اور آنے والے دور میں اس وجہ سے ریسرچرز کے لئے جو مسائل پیدا ہوسکتے ہیں ان کا تدارک کیسے ممکن ہے؟
جی ہم نے پہلے بھی وعدہ کر رکھا ہے اس حوالے سے کچھ تعارفی مضامین لکھنے کا۔ اب کسی وقت تھوڑا تھوڑا کر کے لکھنے کی کوشش کریں گے ان شاء اللہ! :) :) :)

ابھی ہمارے پروفیسر کے ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر مذکورہ بالا قصے کو لے کر کی گئی ٹوئیٹ کے جواب میں کسی نے ٹوئیٹ کیا ہے اور زخیرہ کردہ نقول کے قابل اعتماد ہونے پر سوال اٹھایا ہے کہ اس بات کی کیا ضمانت کے زخیرہ کرنے والے مواد کو مدون نہیں کرتے۔ ایسے میں ایک سے زائد آرکائیونگ اداروں کی موجودگی قوت بخشتی ہے، جب ایک جیسا مواد کئی مختلف اور ایک دوسرے سے مطلق آرکائیوز سے حاصل ہو سکے۔ :) :) :)

مختصراً یوں جان لیں کہ اس وقت کئی ادارے ویب آرکائیونگ سے منسلک ہیں، جن میں انٹرنیٹ آرکائیو سب سے قدیم اور سب سے مستحکم ہے، اس کے علاوہ یو کے نیشنل آرکائیو، ویب سائٹیشن، آرکائیو ٹوڈے، آرکائیو اٹ وغیرہ جیسے مشہور پروجیکٹ ہیں۔ مختلف ممالک میں ویب آرکائیونگ کے کچھ پروجیکٹ ایسے ہیں جو کسی مخصوص ٹاپ لیویل ڈومین یا کچھ مخصوص نوعیت کی سائٹوں کو ہی آرکائیو کرتے ہیں جب کہ کچھ خدامات ایسی ہیں جہاں لوگ آرکائونگ کی درخواستیں شامل کرتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ترقی پذیر ممالک میں اس رخ پر ابھی زیادہ توجہ نہیں دی جا رہی ہے، وہاں بڑے پیمانے پر ایسے نان پرافٹ آرگنائزشن بنا کر ڈیجیٹل آرکائیونگ کے منصوبے قائم کرنے کے بہترین مواقع موجود ہیں۔ ہمارے ریسرچ گروپ نے پرسنل ویب آرکائیونگ کے حوالے سے بھی کچھ ٹول بنائے ہیں جن کی مدد سے فیس بک یا دوسری سائٹوں کو آرکائیو کیا جا سکتا ہے جو لاگن ہونے کے بعد نظر آتے ہیں۔ نیز اس آرکائیو کردہ مواد کو ری پلے کرنے کے لیے بھی تول ڈیویلپ کیے گئے ہیں۔ :) :) :)

انٹرنیٹ کا مواد کئی وجوہات سے وقت کے ساتھ ضائع ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ کچھ سائٹیں یا پورٹلز فعال نہیں رہتے اور اپنے ساتھ بے شمار ڈیجیٹل مواد لے ڈوبتے ہیں، کئی دفعہ چیزیں موجود تو ہوتی ہیں لیکن کسی اور ایڈریس پر منتقل ہو جاتی ہیں (اس حوالے سے بھی ہمارے ریسرچ گروپ نے کام کیا ہے اور کچھ ٹول بنائے ہیں)، کچھ مواد حکومتی دباؤ میں آ کر تبدیل کر دیا جاتا ہے یا ضائع کر دیا جاتا ہے (مثلاً مصری انقلاب کے معاملے مین ایسی چیزیں دیکھنے میں آئی تھیں)، ٹوئیٹر وغیرہ میں مواد رہتا بھی ہے تو دو ایک ہفتے بعد اس کی سرچ انڈیکس ختم کر دی جاتی ہے یعنی اس کو تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہوتا ہے۔ ہمارے گروپ کے ایک ریسرچر نے تخمینہ لگایا ہے کہ بڑے واقعات سے متعلق مواد تقریباً 11 فیصد فی سال کی شرح سے نا قابل رسائی ہو جاتے ہیں۔ :) :) :)
 

قیصرانی

لائبریرین
سچ کہا بٹ صاحب۔ سارے کھیل میں دہشت گردی پھیلا دی۔ اور بھلا اگر طیارہ تباہ ہو بھی گیا تھا تو گر کر مرنے کی کیا ضرورت تھی۔ پتا نہیں یہ مسلے کب تک یونہی مر مر کر خود کو دہشت گرد ثابت کرتے رہیں گے۔ شرم آنی چاہیے ان کو۔
مسافروں میں کل 55 ایسے تھے جو مسلمان ممالک سے تھے جبکہ دیگر 243 نان مسلم ممالک سے مسافر تھے۔ یعنی مسلے والی بات پوری ہو ہی نہیں رہی :(
 

عاطف بٹ

محفلین
جی ہم نے پہلے بھی وعدہ کر رکھا ہے اس حوالے سے کچھ تعارفی مضامین لکھنے کا۔ اب کسی وقت تھوڑا تھوڑا کر کے لکھنے کی کوشش کریں گے ان شاء اللہ! :) :) :)

ابھی ہمارے پروفیسر کے ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر مذکورہ بالا قصے کو لے کر کی گئی ٹوئیٹ کے جواب میں کسی نے ٹوئیٹ کیا ہے اور زخیرہ کردہ نقول کے قابل اعتماد ہونے پر سوال اٹھایا ہے کہ اس بات کی کیا ضمانت کے زخیرہ کرنے والے مواد کو مدون نہیں کرتے۔ ایسے میں ایک سے زائد آرکائیونگ اداروں کی موجودگی قوت بخشتی ہے، جب ایک جیسا مواد کئی مختلف اور ایک دوسرے سے مطلق آرکائیوز سے حاصل ہو سکے۔ :) :) :)

مختصراً یوں جان لیں کہ اس وقت کئی ادارے ویب آرکائیونگ سے منسلک ہیں، جن میں انٹرنیٹ آرکائیو سب سے قدیم اور سب سے مستحکم ہے، اس کے علاوہ یو کے نیشنل آرکائیو، ویب سائٹیشن، آرکائیو ٹوڈے، آرکائیو اٹ وغیرہ جیسے مشہور پروجیکٹ ہیں۔ مختلف ممالک میں ویب آرکائیونگ کے کچھ پروجیکٹ ایسے ہیں جو کسی مخصوص ٹاپ لیویل ڈومین یا کچھ مخصوص نوعیت کی سائٹوں کو ہی آرکائیو کرتے ہیں جب کہ کچھ خدامات ایسی ہیں جہاں لوگ آرکائونگ کی درخواستیں شامل کرتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ترقی پذیر ممالک میں اس رخ پر ابھی زیادہ توجہ نہیں دی جا رہی ہے، وہاں بڑے پیمانے پر ایسے نان پرافٹ آرگنائزشن بنا کر ڈیجیٹل آرکائیونگ کے منصوبے قائم کرنے کے بہترین مواقع موجود ہیں۔ ہمارے ریسرچ گروپ نے پرسنل ویب آرکائیونگ کے حوالے سے بھی کچھ ٹول بنائے ہیں جن کی مدد سے فیس بک یا دوسری سائٹوں کو آرکائیو کیا جا سکتا ہے جو لاگن ہونے کے بعد نظر آتے ہیں۔ نیز اس آرکائیو کردہ مواد کو ری پلے کرنے کے لیے بھی تول ڈیویلپ کیے گئے ہیں۔ :) :) :)

انٹرنیٹ کا مواد کئی وجوہات سے وقت کے ساتھ ضائع ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ کچھ سائٹیں یا پورٹلز فعال نہیں رہتے اور اپنے ساتھ بے شمار ڈیجیٹل مواد لے ڈوبتے ہیں، کئی دفعہ چیزیں موجود تو ہوتی ہیں لیکن کسی اور ایڈریس پر منتقل ہو جاتی ہیں (اس حوالے سے بھی ہمارے ریسرچ گروپ نے کام کیا ہے اور کچھ ٹول بنائے ہیں)، کچھ مواد حکومتی دباؤ میں آ کر تبدیل کر دیا جاتا ہے یا ضائع کر دیا جاتا ہے (مثلاً مصری انقلاب کے معاملے مین ایسی چیزیں دیکھنے میں آئی تھیں)، ٹوئیٹر وغیرہ میں مواد رہتا بھی ہے تو دو ایک ہفتے بعد اس کی سرچ انڈیکس ختم کر دی جاتی ہے یعنی اس کو تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہوتا ہے۔ ہمارے گروپ کے ایک ریسرچر نے تخمینہ لگایا ہے کہ بڑے واقعات سے متعلق مواد تقریباً 11 فیصد فی سال کی شرح سے نا قابل رسائی ہو جاتے ہیں۔ :) :) :)
زبردست! یہ تو بہت دلچسپ معلومات ہیں۔ مضمون کا انتظار رہے گا! :)
 
Top