قصہ ایک استاد اور شاگرد کا

فلک شیر

محفلین
(قسط اول)



کوئی دس ایک برس ہوتے ہیں ۔ شیخوپورہ میں میرے ایک محترم بزرگ سکول چلاتے تھے۔ میں تازہ تازہ ایف ایس سی کے امتحانات سے فارغ ہوا تھااور ویہلا مصروف تھا۔ ایک دن انہوں نے مجھے سکول حاضر ہونے کا حکم دیا، جو میں نے آنکھیں بند کر کے قبول فرما لیا۔ چند ایک کلاسز انہوں نے میرے ذمہ لگا دیں، جن میں چند ایک ہی بچے پڑھنے والے تھے ۔ عموماً اس نواح میں بچے پڑھائی وغیرہ کو شغل میلے کے طور پر ہی ٹریٹ کرتے ہیں اور زیادہ تر اپنی "سرداری"اور "ڈوگریت "کوہی مونچھوں کی طرح تیل وغیرہ لگا کر چمکاتے رہتے ہیں ۔ اس لیے کلاس میں زیادہ کام کاج ہوتا نہیں تھا۔

خیر،اسی اثناء میں ایک دن دفتر بیٹھے بیٹھے پتا چلا، کہ سکول کا لاہور بورڈ سے الحاق ہونا ہے اور اسی سلسلہ میں ایک آدھ روز میں کوئی چیکنگ ٹیم وارد ہونے والی ہے۔ میری جانے بلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ اس طرح کی ٹیموں سے کس طرح نپٹا جاتا ہے اور ان کے کیا کیا ناز نخرے اٹھانا ضروری ہوتا ہے ۔ مجھے یہ خبر بھی نہ تھی ،کہ اس سلسلہ میں کوئی "پری پول"قسم کی ملاقات میرے رشتے کے نانا جان لاہور تعلیمی بورڈ کے سیکرٹری صاحب سے فرما چکے ہیں ۔ اتنا البتہ مجھے پتا چل گیا ،کہ لاہور بورڈ کے چئیرمین خواجہ ذکریا صاحب ہیں اور سیکرٹری صاحب کوئی حاجی محمد ڈوگر ہیں ۔ مجھے سمجھ آ گئی ، کہ برخوردار، یہ یقیناً وہی معاملہ ہے ، جس کا اشارہ مجھے ایک دن قبل نانا جان کا معتمد شیخ انور دے چکا ہے ، یعنی

ڈوگر کو ملے ڈوگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کر کر لمبے ہاتھ

اگلا دن آیا، سکول پہنچنے پہ خبر ہوئی کہ ایک مفصل ضیافت کا انتظام فرمایا گیا ہے اور اسی سلسلہ میں شیخ انور صاحب بھر پور مصروف بھی پھر رہے ہیں ۔ میں نے حسب معمول اپنی کلاسز لیں ۔ سکول کے کلرک جناب بھٹی صاحب اپنے رجسٹر وغیرہ سیدھے پدھرے کر رہے تھے اور تما م عملہ گویا ایڑیو کے بل کھڑا مہمانوں کا انتظار کر رہا تھا۔میں دس ایک بجے کے قریب جب دفتر آیا، تو فون کی گھنٹی بجی ۔ دوسری طرف کوئی صاحب تھے ، جو اپنا تعارف اسی چیکنگ ٹیم کے نمائندے کے طور پہ کروا رہے تھے۔ان سے میرا مندرجہ ذیل مکالمہ ہوا ۔

نمائندہ : ہم مارکیٹ تک پہنچ گئے ہیں ۔ ہمیں رستہ نہیں مل رہا۔

فلک شیر: آپ مین گیٹ سے آگے آئیں، طوبیٰ مسجد سے دائیں ہو جائیں اور پھر بائیں ہو جائیں ، آگے ہمارا سکول ہے۔

نمائندہ:یار ہمیں سکول نہیں مل رہا، آپ لوگوں نے چیکنگ کروانی ہے یا نہیں ؟ جلدی سے کسی کو کمبوہ مارکیٹ بھیج دیں اور ہمیں ریسیو کریں ۔

فلک شیر: جناب میرے پاس کوئی اضافی بندہ نہیں ، کس کو بھیج دوں ، آپ کسی سے پوچھ لیں اور آ جائیں۔

(اس پر نمائندہ صاحب نے غصہ میں فون سیکرٹری لاہور بورڈ جناب حاجی محمد ڈوگر صاحب کو دیا، وہ غالباً کچھ غصہ میں گویا ہوئے)

حاجی صاحب: یار تمہیں پتہ ہے کچھ، تم لوگوں نے الحاق کروانا ہے یا نہیں؟

(اس پر میرا "جاٹ پن "جاگ اٹھا اور میں نے انہیں قومی و اخلاقی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے کہا )

فلک شیر: سر! آپ جس کام کے لیے نکلے ہیں ، یہ آپ کی ڈیوٹی ہے۔ آپ مجھ پہ احسان نہیں کر رہے۔ آپ کو پہنچنا ہے، رستہ پتا کریں اور آ جائیں ۔

اس کے ساتھ ہی فون بند ۔

تھوڑی ہی دیر میں کیا دیکھتا ہوں ، کہ مذکورہ ٹیم سرکاری گاڑی میں سکول کے مرکزی دروازے کے باہر کھڑی ہے اور زرخیز خاں خالص فوجی سلیوٹ مار کر انہیں ریسیو کر رہا ہے ۔ میرے رشتے کے محترم نانا جان نے باہر نکل کر ٹیم کا استقبال کیا اور انہیں دفتر میں لے آئے ۔ حاجی صاحب نے چھوٹتے ہی سوال کیا، کہ ان کا فون کس نے سنا تھا۔ یہ سنتے ہی میں باہر برآمدے کی طر ف کھسک لیا، کہ بعض اوقات پسپائی ھی بہترین حکمت عملی ہوتی ہے

بہرحال تھوڑی دیر میں ٹیم نے سکول کا دورہ کیا، کاغذی کارروائی کی اور اس کے بعد پر تکلف کھانے سے دو دوہاتھ کیے، جس سے ہم اپنی روایتی جھجک کی وجہ سے محروم رہے۔اب حاجی ڈوگر صاحب نے ظہر کی نماز ادا کرنا تھی، مجھے حکم ہوا کہ انتظام کروں ۔ میں حاجی صاحب کو لے کر پرنسپل آفس میں آ گیا، جہاں انہوں نے صبح کے فون والے واقعہ پہ کچھ خوشگوار جملے ارشاد فرمائے اور بات آئی گئی ہو گئی۔ نماز پڑھنے کے بعد انہوں نے ایک قصہ سنایا، جو مجھے آپ کو پیش کرنا تھا۔ لیکن تمہید کچھ طولانی ہو گئی اور قصہ رہ گیا۔ خیر اسے اگلی قسط تک اٹھا رکھتے ہیں ۔ اتنا ضرور بتا دوں، کہ قصہ تب سے اب تک میرے دل پہ لکھا ہے اور شاید آپ کے بھی لکھا رہ جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ بات ہی ایسی ہے
(قسط دوم)​

چوپالوں، بیٹھکوں، ڈیروں اور اوطاقوں کے رزق میں ازل سے "قصہ"لکھ دیا گیا تھا۔قصہ، جس میں بات سے بات نکلتی ہے اور انسانی زندگیوں کے ایسے ایسے گوشے سامنے آتے ہیں ،کہ کسی کتاب میں کہاں لکھے ہوں گے۔فی زمانہ بدلتے حالات،مقامات اور وسائل نے قصہ خوانی کے رنگ ڈھنگ اور انداز بدل کر رکھ دیے ہیں ۔ یہ قصہ جو میں بطور راوی آپ کی خدمت میں پیش کرنے جا رہا ہوں، یہ ایک استاد اور شاگرد کی کہانی ہے ، واقعہ پہلی قسط "قصہ حاجی محمد ڈوگر ۔۔۔۔۔ قسط اول"میں مذکور سیکرٹری بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن لاہور،حاجی محمد ڈوگر سے متعلق ہے، آئیے اُنہی کی زبانی سنتے ہیں :

"یہ آج سے کتنے ہی برس پہلے کی بات ہے، میں بھر پور زندگی گزار رہا تھا اور کسی قسم کی پریشانی مجھے لاحق نہ تھی۔ میٹھے پھلوں کے طباق کی طرح زندگی نے اپنی تمام مٹھاس میرے سامنے لا ڈھیر کی تھی۔ ایک سرکاری تعلیمی ادارے میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ میں سوشل سرکلز میں ایک باہمت، توانا اور مستعد آدمی کے طور پر بھی جانا جاتا تھا۔

ایک دن میں سو کر اٹھا، تو مجھے محسوس ہوا ، کہ میری آواز ٹھیک سے نہیں نکل رہی اور گلے میں کوئی مسئلہ ہے ۔ معمولی دوا دارُو کے بعد جب فرق نہ پڑا، تو مجھے پریشانی لاحق ہوئی ۔ویسے ہی بیماری سے بندہ پریشان ہوتا ہےاور استاذ کے لیے تو اُس کا گلا خاص طور پر اہم ترین چیزوں میں سے ایک ہوتا ہے۔بہرحال میں ایک اچھے ہسپتال میں چلا گیا اور اپنا چیک اپ کروایا۔ڈاکٹروں نے تفصیلی معائنے کے بعد کچھ ٹیسٹ تجویز کیے، جو میں نے اچھی لیبارٹری سے کروا لیے۔ آواز تھی، کہ بیٹھتی ہی چلی جارہی تھی۔ اگلے دن جب ان ٹیسٹوں کی رپورٹ آئی، تو میری تو دنیا ایک دم اندھیر ہو گئی ۔ مجھےبتایا گیا، کہ مجھے گلے کا کینسر ہو گیا ہے۔ اس موذی مرض کا تو نام ہی مریض کو ختم کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے ۔ مجھے لگا، اب میرا کچھ نہیں ہونے والا اور میرا معاملہ ختم ہونے والا ہے۔

ڈاکٹروں نے مجھے ہسپتال میں داخل کر لیا اور یوں میں اپنی بھری پری دنیا سے اٹھ کر اسپتال کے بستر پہ ہمہ دم کم ہوتی آواز اور گلے کے کینسر کے ساتھ آن پڑا تھا۔ جیسے کوئی فوجی اباؤٹ ٹرن ہو لے اچانک، ایسے ہی ایک ایک سو اسی درجے کا موڑ آ گیا تھا میری زندگی میں ۔ چند دن ایسے ہی اسپتال میں پڑا رہا ، میرے اعصاب آہستہ آہستہ جواب دیتے جا رہے تھے۔دوسری یا تیسری رات میں بستر میں پڑا سوچ رہا تھا، کہ یہ کیا ہو گیا میرے ساتھ۔ آخرکس گناہ کی سزا مل رہی ہے مجھے!

جونہی یہ سوچ میرے ذہن میں آئی، میں سنجیدگی سے اس طرف سوچنے لگا، کہ زندگی میں مجھ سے آخر کون سی ایسی بڑی غلطی سرزد ہو ئی ہے، جس کا بدلہ مجھے اس ناگہانی آفت کی صورت میں دیکھنا پڑ رہا ہے۔سوچتے سوچتے میرے ذہن میں ایک بجلی سی کوندی اور میں نے خود کو لگی ڈرپس وغیرہ اتار کر ایک طرف کر دیں اور باہر کی سمت لپکا۔ تھوڑی ہی دیر میں ، میں اپنی گاڑی میں بیٹھا تھا اور میری گاڑی شہر کے ایک معروف رہائشی علاقے کی سمت رواں دواں تھی۔

آپ سوچ رہے ہوں گے، کہ اسپتال سے فرار کا یہ واقعہ کسی فلم میں تو ہو سکتا ہے، حقیقت میں نہیں ۔ لیکن یہ حقیقت تھی، کہ بستر پہ لیٹے لیٹے مجھے اپنے دورِ طالبعلمی کے ایام یاد آ گئے تھے ، جب میں پاکستان کی مشہور ترین جامعہ میں زیرِ تعلیم اور ایک طلباء تنظیم سے منسلک تھا۔ جوانی دیوانی کا دور دورہ تھا اور رستے میں آنےوالی ہر چیز کوروند کر رکھ دینے کا جذبہ عروج پہ۔ ایسے میں طرہ یہ کہ جس طلباء تنظیم سے میں نے تعلق جوڑا تھا، اس کے متعلقین اپنے جوش و جذبے اور ولولہ انگیز مہما ت کے لیے معرف و مقبول تھے اور کسی حد تک اب بھی ہیں ۔

انہی ایام کے دوران ایک دن میں یونیورسٹی آیا، تو مجھے پتہ چلا، کہ میری تنظیم کے لوگوں کی کچھ اساتذہ سے تلخ کلامی ہوئی ہے اور ایک استاذ ،قریشی صاحب(فرضی نام) نے ہماری تنظیم کے مقامی ذمہ دار کو برا بھلا بھی کہا ہے اور شاید ایک آدھ گالی وغیرہ بھی دی ہے۔ یہ سُن کر میرا خون کھولنے لگا اور میں نے دیوانگی میں آؤ دیکھا نہ تاؤ اور قریشی صاحب کو ڈھونڈنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ انہوں نے میری تنظیم کے ذمہ دار کو برا بھلا کیسے کہہ ڈالا ۔ میرے ساتھیوں نے مجھے روکنے اور ٹھنڈا کرنے کی بھر پور کوشش کی ، لیکن مجھ پہ تو تنظیمی بھوت سوار تھا، میں کہاں رکنے والا تھا ۔ آخر جب قریشی صاحب مجھے مل گئے، تو میں نے کچھ سوچے سمجھے بغیر انہیں ایک تھپڑ رسید کر دیا۔ قریشی صاحب تو جیسے زمین میں گڑ گئے ، کہ ایک طالب علم نے ان پہ ہاتھ ہی اٹھا دیا تھا، وہ بھی سب کے سامنے ۔اُن کا سارا مان، وقار اور عزت خاک ہی میں تو مل گئی تھی۔ قریشی صاحب کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے ، اور مجھے انہوں نے صرف ایک جملہ ہی کہنے پہ اکتفا کیا:

میرا کوئی بیٹا نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر ہوتا، تو تم سے بدلہ لیتا

یاد رہے، کہ پروفیسر موصوف کی کوئی نرینہ اولاد نہٰن تھی، صرف بیٹیا ں ہی بیٹیاں تھیں۔ یہ واقعہ ہوا، وقت گزرا اور میرے سمیت دیگر لوگ بھی بھول بھال گئے ۔ لیکن آج بستر پہ لیٹے جب میں نے اپنی زندگی کی پچھلی فلم چلائی، تاکہ اپنی غلطیاں ڈھونڈ سکوں، تو مجھے قریشی صاحب اور ان کے ساتھ کی گئی اپنی زیادتی یاد آ گئی۔ اور یہ تو اب آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں، کہ میری گاڑی کا رُخ انہی کی رہائش کی طرف تھا، کہ اُن سے تہِ دل سے معافی مانگ سکوں، شاید اسی سے میں کینسر جیسے موذی مرض کے چنگل سے چھوٹ پاؤں۔ کیونکہ مسلمان یونے کی حیثیت سے ہمارا ایمان ہے، کہ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اسی دنیا میں ہماری پکڑ کر لیتا ہے اور مقصد ہمارے لیے آخرت میں آسانی کرنا ہوتا ہے اور حقوق العباد تو اس سلسلہ میں خاص اہمیت کے حامل ہیں۔


خیر ، میں پروفیسر صاحب کی اس رہائش پہ پہنچا، جس کا مجھے آج سے کئی برس قبل تک پتہ تھا۔ سامنے وہ گھر آ یا، میں نے دروازے کی گھنٹی بجائی اور ایک صاحب باہر نکلے ۔ میں نے اُن سے قریشی صاحب سے متعلق پوچھا، انہوں نے مجھے جو جواب دیا، وہ جواب ایسا تھا، کہ میں بس گرنے ہی والا تھا ۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے ، کہ اس نے مجھے کئی برس قبل قریشی صاحب کے اس دنیا سے چلے جانے کا بتایا تھا۔ میرا دل میرے بس میں نہ تھا۔ میں سوچ رہا تھا، کہ یہی سہارا تھا، اب قریشی صاحب کو کہاں سے ڈھونڈوں ، کہاں جاؤں، کیا کروں۔

تب مجھے ایک خیال آیا اور میں نے ان صاحب سے پوچھا، کہ ان کی بیٹیا ں بھی تو تھیں ، وہ کیا ہوئیں؟

انہوں نے کہا، کہ وہ شادی شدہ ہیں اور ان میں سے ایک اسی گھر میں مقیم ہیں اور وہ اس خاتون کے خاوند ہیں۔ اس پر میری کچھ ڈھارس بندھی اور میں نے اُن صاحب سے درخواست کی، مجھے اُس محتر م خاتون سے ملوا دیں، کہ کچھ ضروری بات کرنا ہے ۔ وہ تھوڑے ہچکچائے، لیکن پھر تیار ہو گئے ۔ کچھ ہی لمحوں بعد ہم اندرونی نشست گاہ میں تھے ۔ وہ خاتون تشریف لائیں ، ان کے خاوند بھی وہیں بیٹھ گئے ۔ میں نے انہیں ساری کہانی سنائی ، اس واقعے سے لے کر آج رات تک کی ساری کہانی۔ اور پھر اُن سے کہا،کہ قریشی صاحب تو اس دنیا سے چلے گئے ، اب آپ ہی ان کی وارث ہیں۔ میں آپ سے معافی کا خواستگار ہوں ۔وہ خاتون اس عظیم آدمی کی بیٹی تھی، اُس نے کہا:

جو ہونا تھا، وہ تو ہو گیا، ابو بھی چلے گئے ، آپ اب بیمار ہیں ، میں آپ کو اُن کی طرف سے معاف کرتی ہوں

یہ سُن کر مجھے لگا، کہ میرے سینے کا بوجھ اتر گیا ہے، کچھ دیر میں وہاں رہا اور پھر اپنی گاڑی میں واپس اسپتال چلا آیا۔ ڈاکٹر اور نرسیں حیران تھیں ، کہ میں کہاں چلا گیا تھا ور خود ہی واپس بھی آ گیا ہوں ۔ میں نے انہیں کسی طرح مطمئن کر دیا۔میں خود کو روحانی طور پر بہتر محسوس کر رہا تھا۔

اگلا دن چڑھا، ڈاکٹروں نے دوپہر کو میرے کچھ اور ٹیسٹ لیے ۔ دوست احباب آئے اور دن یونہی گزر گیا ۔ رات گزری اور اگلا دن آن پہنچا۔ اس دوپہر کو ان ٹیسٹوں کی رپورٹ آئی، ڈاکٹر تقریباً دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور کہنے لگا، کہ آپ کی تو رپورٹس بالکل کلئیر آئی ہیں ۔ میری آواز بھی اس دن پہلے سے کچھ بہتر تھی۔ یہ سُن کر مجھے لگا، میں دنیا میں واپس آ گیا ہوں ۔ بہر حال اگلے چند دنوں میں مزید ٹیسٹ ہوئے ، جو بالکل کلئیر تھے ۔ میری آواز معجزانہ طور پہ بالکل ٹھیک ہو گئی، پہلے کی طرح کڑک دار۔

اس واقعے نے میرا ایمان اُستاد اور شاگرد کے رشتے پہ ایسا قائم کیا ہے، کہ میں جہاں بھی جاتا ہوں، یہ بات سُنا کر بچوں اور بچیوں کو بتاتا ہوں کہ ماں باپ اور اساتذہ کے سامنے ہاتھ تو بہت دور کی بات ہے ، آنکھ اور خیال بھی بلند نہیں کرنا۔ ان کی اطاعت و عزت اور مان کر چلنے میں دنیا آخرت کی کامیابیاں تمہارے پاؤں چومیں گی۔اُن کے دامن سے چمٹے رہنے میں خیر ہی خیر ہے ۔اُن کے جوتے سیدھے کرنے والے بادشاہی کرتے ہیں ۔ہماری اسلامی روایات ہمیں یہی درس دیتی ہیں "

قصے کی روایت میری ہے ۔ دس ایک برس پہلے سنا تھا، شاید حافظہ کی کمزوری کے سبب کہیں کہیں واقعات تھوڑے بہت آگے پیچھے ہو گئے ہوں،لیکن سپرٹ اور کردار وہی ہیں ، بعینہ ۔

حاجی صاحب کا قصہ آپ نے پڑھ لیا ، امید ہے آپ اسے آگے شئیر بھی کریں گے اور بچوں بچیوں کو خاص طور پہ پڑھوائیں گے ، شاید کسی دل میں یہ بھولا ہوا قصہ تازہ ہو جائے ۔



نوٹ: تحریر چونکہ میرے بلاگ نوائے نے پہ ایسے ہی دو قسطوں میں شامل تھی، اس لیے اس کا فارمیٹ تبدیل کیے بغیر ویسے ہی یہاں پیش کر دیا ہے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
جناب چیمہ صاحب، السلام علیکم،

آپ نے بہت اچھا کیا کہ مکافاتِ عمل اور فضل ربی پر مبنی ایک عملی تجربے کی روئدادمیں ہمیں شریک کیا ہے۔ اس کے لئے سپاس شکرگذاری۔

ڈوگر صاحب کی اس رونگٹے کھڑے کر دینے والی کہانی میں اُستاد ، شاگرد اور والدین اور اولاد کے مابین باہمی رشتے کے تقاضوں کا جو بیان ہے، جب ہمیں اپنے ارد گرد اس کے بر عکس مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں تو د ل بے حددُکھی اور خائف ہوتا ہے۔ روز مرہ مشاہدے میں آنے والے واقعات کے علاوہ چند ذاتی تجربات کی بنا پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ احترام ، چاہے شاگرد کی طرف سے استاد کے لئے ہو یا اولاد کی طرف سے والدین کے لئے ہو، فی زمانہ بالکل مفقود ہوتا نظر آرہاہے۔ ا س فقیر کے ناقص خیال میں اس کا سبب مسائل ِروزگار میں اُلجھے رہنے کی بنا پر والدین کی طرف سےاولادپر توجہ کا فقدان، دینی تعلیم وتربیت کی کمی، معاشرے میں بڑھتی ہوئی مادیت پسندی اور بے راہروی اور جائز، ناجائز ذرائع سےدولت کے حصول کی دوڑ، حلال اور حرام رزق کی شناخت کا نہ ہونا، اور ان سب وجوہ کے نتیجے میں خاندان جیسے مضبوط ادارے کی شکست و ریخت ہے۔

زندگی کے آخری حصے میں پریشان کن نتائج سے بچنے کی خاطر والدین کا فرض ہے۔ کہ جب بچےسیکھنے کی عمر میں ہوتے ہیں تو ان کی تربیت پرخصوصی توجہ دینے کی ذمہ داری پوری کریں۔ اور پھر اپنی اولاد کی ہدایت کے لئے باری تعالے کے حضور دعا بھی کرتے رہیں کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ تمام تدابیر کے باوجود ہدایت دینے والی وہی ذات با برکات ہی ہے۔ اور ہم سب اسی کے محتاج ہیں۔
 

فلک شیر

محفلین
جناب چیمہ صاحب، السلام علیکم،

آپ نے بہت اچھا کیا کہ مکافاتِ عمل اور فضل ربی پر مبنی ایک عملی تجربے کی روئدادمیں ہمیں شریک کیا ہے۔ اس کے لئے سپاس شکرگذاری۔

ڈوگر صاحب کی اس رونگٹے کھڑے کر دینے والی کہانی میں اُستاد ، شاگرد اور والدین اور اولاد کے مابین باہمی رشتے کے تقاضوں کا جو بیان ہے، جب ہمیں اپنے ارد گرد اس کے بر عکس مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں تو د ل بے حددُکھی اور خائف ہوتا ہے۔ روز مرہ مشاہدے میں آنے والے واقعات کے علاوہ چند ذاتی تجربات کی بنا پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ احترام ، چاہے شاگرد کی طرف سے استاد کے لئے ہو یا اولاد کی طرف سے والدین کے لئے ہو، فی زمانہ بالکل مفقود ہوتا نظر آرہاہے۔ ا س فقیر کے ناقص خیال میں اس کا سبب مسائل ِروزگار میں اُلجھے رہنے کی بنا پر والدین کی طرف سےاولادپر توجہ کا فقدان، دینی تعلیم وتربیت کی کمی، معاشرے میں بڑھتی ہوئی مادیت پسندی اور بے راہروی اور جائز، ناجائز ذرائع سےدولت کے حصول کی دوڑ، حلال اور حرام رزق کی شناخت کا نہ ہونا، اور ان سب وجوہ کے نتیجے میں خاندان جیسے مضبوط ادارے کی شکست و ریخت ہے۔

زندگی کے آخری حصے میں پریشان کن نتائج سے بچنے کی خاطر والدین کا فرض ہے۔ کہ جب بچےسیکھنے کی عمر میں ہوتے ہیں تو ان کی تربیت پرخصوصی توجہ دینے کی ذمہ داری پوری کریں۔ اور پھر اپنی اولاد کی ہدایت کے لئے باری تعالے کے حضور دعا بھی کرتے رہیں کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ تمام تدابیر کے باوجود ہدایت دینے والی وہی ذات با برکات ہی ہے۔ اور ہم سب اسی کے محتاج ہیں۔
یہ سب کچھ جو آپ نے لکھ دیا ہے، سمجھ لیجیے کہ تحریر کو اسی تتمہ کی ضرورت تھی۔ جو آپ کی شفقت اور عنایت سے میسر آ گئی۔سو فیصد درست تجزیہ فرمایا آپ نے۔
 
Top