گُلِ یاسمیں
لائبریرین
ریختہ صفحہ 57
رکھا تھا اسے تونے کیا زلف پر
کہ خوشبو ئے مشک اس میں ہے سر بسر
لکھا تھا جو وہ اشتیاق و صال
سمجھ تو اسے ہے یہ خواب و خیال
پری سے کہاں وصل انسان ہوا
وہ مانند پروانہ سوزاں ہوا
محبت سے حالی ہے انساں کا دل
فریب و دغا ان میں ہے آب و گل
فقط چار دن کے ہیں یہ آشنا
یہ گل ہیں، نہیں ان میں بوئے وفا
شہزادے نے جواب وہ خط پڑھا، جانا کہ وہ بھی اشتیاق بھری ہوئی ہے اور یہ چند شعر جو اس نے بے پروائی کے لکھے ہیں، یہ عاشق فریبی ہے کے زیادہ اس کی نا شکیبی ہو۔ اس وقت جواب باصواب اس کو لکھا۔
جواب معشوق کے خط کا، عاشق کی طرف سے
اے راحت جان من سلامت
وے روح روان من سلامت
ظاہر ہو یہ بعد شوق دیدار
سیار نمط ہے چشم بیدار
ہر شب سوئےدر میری نظر ہے
محشر تیرے غم سے ہر سحر ہے
دل سے میرے لیے گیا ہے آرام
جانا ترا اے بت گل اندام
گر تیغ اجل ہو جاں کی دمساز
دلبر دلبر کی آئے آواز
ریختہ صفحہ 58
کیا تو نے لکھا تھا یہ سخن آہ
مت کیجیو میرےوصل کی چاہ
تو ہے کفِ خاک میں پری ہوں
سب حرص و ہوس سے میں بری ہوں
یوں تیرا غلام ہوں میں اے جان
گھر فخر کرو ں تو ہوں سلیمان
انسان سے نہیں ہے کوئی بہتر
ہے مہر و وفا بھی ختم ہم پر
یہ خط لال دیو کو دے کر ماہ پرور کے ملک کو روانہ کیا۔ وہ پری اپنے والدین کے ہمراہ باغ کی سیر کو گئی تھی، طاؤس طلسم اس کے پلنگ کے گرد پھر رہا تھا۔ یہاں لعل شہزادہ گل بادشاہ کی مجلس میں ساغر عیش بھر رہا تھا۔ اتفاقا بادشاہ نے جواہر وزیر سے خاصدان طلب کیا، وزیر نے حاضر کیا۔ بادشاہ نے پہلے شہزادے کو دیا، دوسرا پان آپ کھایا۔ شہزادے کو اس وقت محمود وزیر زیادہ یاد آ گیا تو بےساختہ مغموم ہوا۔
شعر
ڈبڈبائی آنکھیں آنسو تھم رہے
کاسہء نرگس میں جو ں شبنم رہے
گل بادشاہ نے کہا" اے برادر! اس وقت طبعیت کو ملول کرنے کا کیا باعث ہے؟" ہرچند اصرار کیا، شہزادے نے کچھ جواب نہ دیا وزیر باتدبیر نے حقیقت حال کو اپنی میزان عقل میں تول کر عرض کیا کہ شاید اس وقت شہزادہ ء آفاق کو اپنے وزیر زادہ کا خیال اور اس کی مفارقت کا ملال گزرا ہے۔ شہزاد ےنے اس کی فہم و فراست کی تحسین و آفرین کی، پھر گل بادشاہ نے سب احوال محمود وزیر زادے کا سنا ۔ شہزادے کے ملال پر بہت سر د ھنا اور
رکھا تھا اسے تونے کیا زلف پر
کہ خوشبو ئے مشک اس میں ہے سر بسر
لکھا تھا جو وہ اشتیاق و صال
سمجھ تو اسے ہے یہ خواب و خیال
پری سے کہاں وصل انسان ہوا
وہ مانند پروانہ سوزاں ہوا
محبت سے حالی ہے انساں کا دل
فریب و دغا ان میں ہے آب و گل
فقط چار دن کے ہیں یہ آشنا
یہ گل ہیں، نہیں ان میں بوئے وفا
شہزادے نے جواب وہ خط پڑھا، جانا کہ وہ بھی اشتیاق بھری ہوئی ہے اور یہ چند شعر جو اس نے بے پروائی کے لکھے ہیں، یہ عاشق فریبی ہے کے زیادہ اس کی نا شکیبی ہو۔ اس وقت جواب باصواب اس کو لکھا۔
جواب معشوق کے خط کا، عاشق کی طرف سے
اے راحت جان من سلامت
وے روح روان من سلامت
ظاہر ہو یہ بعد شوق دیدار
سیار نمط ہے چشم بیدار
ہر شب سوئےدر میری نظر ہے
محشر تیرے غم سے ہر سحر ہے
دل سے میرے لیے گیا ہے آرام
جانا ترا اے بت گل اندام
گر تیغ اجل ہو جاں کی دمساز
دلبر دلبر کی آئے آواز
ریختہ صفحہ 58
کیا تو نے لکھا تھا یہ سخن آہ
مت کیجیو میرےوصل کی چاہ
تو ہے کفِ خاک میں پری ہوں
سب حرص و ہوس سے میں بری ہوں
یوں تیرا غلام ہوں میں اے جان
گھر فخر کرو ں تو ہوں سلیمان
انسان سے نہیں ہے کوئی بہتر
ہے مہر و وفا بھی ختم ہم پر
یہ خط لال دیو کو دے کر ماہ پرور کے ملک کو روانہ کیا۔ وہ پری اپنے والدین کے ہمراہ باغ کی سیر کو گئی تھی، طاؤس طلسم اس کے پلنگ کے گرد پھر رہا تھا۔ یہاں لعل شہزادہ گل بادشاہ کی مجلس میں ساغر عیش بھر رہا تھا۔ اتفاقا بادشاہ نے جواہر وزیر سے خاصدان طلب کیا، وزیر نے حاضر کیا۔ بادشاہ نے پہلے شہزادے کو دیا، دوسرا پان آپ کھایا۔ شہزادے کو اس وقت محمود وزیر زیادہ یاد آ گیا تو بےساختہ مغموم ہوا۔
شعر
ڈبڈبائی آنکھیں آنسو تھم رہے
کاسہء نرگس میں جو ں شبنم رہے
گل بادشاہ نے کہا" اے برادر! اس وقت طبعیت کو ملول کرنے کا کیا باعث ہے؟" ہرچند اصرار کیا، شہزادے نے کچھ جواب نہ دیا وزیر باتدبیر نے حقیقت حال کو اپنی میزان عقل میں تول کر عرض کیا کہ شاید اس وقت شہزادہ ء آفاق کو اپنے وزیر زادہ کا خیال اور اس کی مفارقت کا ملال گزرا ہے۔ شہزاد ےنے اس کی فہم و فراست کی تحسین و آفرین کی، پھر گل بادشاہ نے سب احوال محمود وزیر زادے کا سنا ۔ شہزادے کے ملال پر بہت سر د ھنا اور