اسکین دستیاب قصہ ء اگر گل

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 57
رکھا تھا اسے تونے کیا زلف پر
کہ خوشبو ئے مشک اس میں ہے سر بسر
لکھا تھا جو وہ اشتیاق و صال
سمجھ تو اسے ہے یہ خواب و خیال
پری سے کہاں وصل انسان ہوا
وہ مانند پروانہ سوزاں ہوا
محبت سے حالی ہے انساں کا دل
فریب و دغا ان میں ہے آب و گل
فقط چار دن کے ہیں یہ آشنا
یہ گل ہیں، نہیں ان میں بوئے وفا
شہزادے نے جواب وہ خط پڑھا، جانا کہ وہ بھی اشتیاق بھری ہوئی ہے اور یہ چند شعر جو اس نے بے پروائی کے لکھے ہیں، یہ عاشق فریبی ہے کے زیادہ اس کی نا شکیبی ہو۔ اس وقت جواب باصواب اس کو لکھا۔

جواب معشوق کے خط کا، عاشق کی طرف سے
اے راحت جان من سلامت
وے روح روان من سلامت
ظاہر ہو یہ بعد شوق دیدار
سیار نمط ہے چشم بیدار
ہر شب سوئےدر میری نظر ہے
محشر تیرے غم سے ہر سحر ہے
دل سے میرے لیے گیا ہے آرام
جانا ترا اے بت گل اندام
گر تیغ اجل ہو جاں کی دمساز
دلبر دلبر کی آئے آواز

ریختہ صفحہ 58
کیا تو نے لکھا تھا یہ سخن آہ
مت کیجیو میرےوصل کی چاہ
تو ہے کفِ خاک میں پری ہوں
سب حرص و ہوس سے میں بری ہوں
یوں تیرا غلام ہوں میں اے جان
گھر فخر کرو ں تو ہوں سلیمان
انسان سے نہیں ہے کوئی بہتر
ہے مہر و وفا بھی ختم ہم پر
یہ خط لال دیو کو دے کر ماہ پرور کے ملک کو روانہ کیا۔ وہ پری اپنے والدین کے ہمراہ باغ کی سیر کو گئی تھی، طاؤس طلسم اس کے پلنگ کے گرد پھر رہا تھا۔ یہاں لعل شہزادہ گل بادشاہ کی مجلس میں ساغر عیش بھر رہا تھا۔ اتفاقا بادشاہ نے جواہر وزیر سے خاصدان طلب کیا، وزیر نے حاضر کیا۔ بادشاہ نے پہلے شہزادے کو دیا، دوسرا پان آپ کھایا۔ شہزادے کو اس وقت محمود وزیر زیادہ یاد آ گیا تو بےساختہ مغموم ہوا۔
شعر
ڈبڈبائی آنکھیں آنسو تھم رہے
کاسہء نرگس میں جو ں شبنم رہے
گل بادشاہ نے کہا" اے برادر! اس وقت طبعیت کو ملول کرنے کا کیا باعث ہے؟" ہرچند اصرار کیا، شہزادے نے کچھ جواب نہ دیا وزیر باتدبیر نے حقیقت حال کو اپنی میزان عقل میں تول کر عرض کیا کہ شاید اس وقت شہزادہ ء آفاق کو اپنے وزیر زادہ کا خیال اور اس کی مفارقت کا ملال گزرا ہے۔ شہزاد ےنے اس کی فہم و فراست کی تحسین و آفرین کی، پھر گل بادشاہ نے سب احوال محمود وزیر زادے کا سنا ۔ شہزادے کے ملال پر بہت سر د ھنا اور
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 59
فورا تخت پر سوار ہو کر شہر خشخاش میں جا پہنچا، تفحص اور تجسس کرکے وزیر زادے کو کہ مانند مردے کے تہہ خانے کی قبر میں پڑا تھا ،نکالا ۔وعدہ ء وصل سے اس کو جلایا۔ طرفۃ العین میں شہزادے کے پہلو میں لا بٹھایا:
ابیات
ملے اس طرح سے وہ شیدا بہم
کہ دریا سے ہو جیسے دریا بہم
ہوئے رنج ہجراں بیان یک دگر
دکھائے بہم اپنے داغ جگر
شہزاد نے دفتر صعوبت کو وا کیا، وزیر زادے نے اپنا صورت حال دکھایا۔ قریش نے کہا" اے شہزادے! تیرے رونے سے دل ٹکڑے ہوتا ہے، آنسو پونچھ، شکر کر آج تجھے خدا نے تیرے مہجور سے ملایا۔" پھر وزیرزادے کو یاقوتی قوت دل کی کھلائی کہ اس میں توانائی آئی۔
اس طرف کا احوال سنیے؛ جب ماہ پرور دامن نظارہ گلگشت باغ سے معمور کرکے پھری، وہ طاؤس اپنے داغ دکھاتا ہوا اس رشک بہار کے سامنے آیا اور تعویذ کہ گلے میں بندھا تھا، دکھایا۔ ماہ پرور تعویذ کھول کر پڑھنے لگی۔
ابیات
کبھی وہ پری ہنس پڑی کھل کھلا
کبھی رہ گئی اپنے سر کو ہلا
رکھا چشم پر گاہ با صدسرور
کبھی زلف آسا کیا خط کو دور
کئی باہر کھولا، کئی بار پڑھا، جواب اس کا لکھ کر تعویذ بنا کر اس کے گلے میں باندھ دیا۔ لال دیو اس خط کو لے کر اپنے مکان

ریختہ صفحہ 60
میں آیا، لعل شہزادے کو نہ پایا، جانا کہ انہی کی صحبت میں ہوگا۔ دل میں کہنے لگا کہ اس کو بھی اپنی طرح مجھ سے دشمن کیا چاہتے ہیں۔ قریش کے محل میں گیا اور نظر تیز سے شہزادے کی طرف دیکھا۔ وہ وہاں سے اٹھا، منت کرنے لگا، دیو کے گلے سے لگ گیا۔ دیو نے کہا" کیا کہتے ہو، کہو۔" شہزاد ےنے کہا" بھائی جان نے مجھ پر بڑا سلوک کیا کہ میرے وزیر زادے کو مجھ سے ملایا۔ میں اس کے عوض میں چاہتا ہوں کہ تم اماں جان کی تقصیر بخشو اور بھائی صاحب کو چھاتی سے لگاؤ۔" دیو یہ بات سن کر بہت خوش ہوا، کہنے لگا" بہت اچھا، وہ اپنا جوگ اتاریں، انہوں نے تو ایک مدت سے اپنا اور ہی حال بنا رکھا ہے۔" شہزادہ جا کر قریش کے قدم پر گر پڑا، اس نے اپنی چھاتی سے لگایا، جو کہا وہ قبول کیا۔ پھر ایک بار ناگن کی طرح کیچلی ڈال کے نو د سانہ، بارہ برس کی ہوئی۔ گو یار شب دیجور چاندنی بن گئی ۔وزیر زادہ بھی لال دیو سے ملاقی ہوا، لال دیو شہزادے کو خلوت سرا میں لے گیا ، وہ خط اس کے آگے دھرا۔
جواب مضمون کاپری کی طرف سے
اے یار جانی و اے دوست جاودانی! اس سوختہء آتش فراق، دوختہ ء ناوک اشتیاق کی طرف سے معلوم ہو کہ خط تیرا حرف بہ حرف لفظ بہ لفظ پڑھا۔ جو تو نے اپنی اضطرابی اور بے قراری لکھی ہے، وہ میرے اضطراب کا ذرہ ہے اور اشک باری تیری کا ایک قطرہ ہے۔
ابیات
قابل شرح نہیں حال ہمارا ہیہات
کون سی اپنی پریشانی کی لکھیے تجھے بات
روز ہنگامہ ء محشر ہے تیری فرقت سے
خواب ہے خلق کو دشوار میری رقت سے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 61
جب بہت دل پر قلق ہوتا ہے، تصور میں سیر باغ کرتی ہوں۔ وہاں سے زیادہ مضطر و پریشان پھرتی ہوں۔ شہزاد نے جب مکتوب محبت اسلوب مطالعہ کیا، خوب رویا، ہر حرف اس کا آنسو سے دھویا۔ جواب اس کا مژگان قلم سے صفحہ ء دل پر رقم کیا۔
خط شہزادے کی طرف سے
غنچہء نودمیدہء گلزار خوبی و نو باوہ رسیدہ باغ محبوبی! زاد اللہ حسنہا، بعد چمن چمن شوق اور دستہ دستہ اشتیاق کے معلوم ہو کہ گلدستہ ءمحبت و ولا پہنچا، دل بلبل زار کو شوق تازہ، سرور بے اندازہ بخشا۔
ابیات
تیری ہی زبانی مجھ سے الفت
تیری سی نہیں ہے مجھ کو الفت
تو سیر بہار باغ میں ہے
ہاں تازگی دل کے داغ میں ہے
تو آب رو اں سے ہم قدم ہے
یا ں آنکھوں میں جوں حباب دم ہے
تو سبزے پر کررہا ہے رفتار
یاں پار دل کے ہے نشتر خار
تو تاک کے سائے میں کھڑا ہے
یاں زیست کا دن ہی ڈھل گیا ہے
یعنی ہوں تیرے لیے میں مضطر
دنوں مجھ پہ کٹے ہے روز محشر

ریختہ صفحہ 62
ہر شب ہوں بہ آہ و نالہ روتا
تو کیوں کہ ہے نیند بھر کے سوتا
یا ں بات نہیں کسی کی بھاتی
صحبت مجھ کو نہیں خوش آتی
ہر چند کہ قابل جفا ہو
کر رحم کہ بندہء خدا ہوں
لال دیو اس خط کو لے کر ماہ پرور کے پاس گیا، اس نے خط پڑھا۔ جواب اس کا بہ صد اشتیاق ملاقات اور چند در چند کے عذرات کے ساتھ دیا۔
جواب خط کا، پری کی طرف سے
نامہ ء محبت شمامہ کہ شکایت کا بھرا ہوا تھا، پہنچا۔ خدا آگاہ ہے کہ گلگشت میری، واسطے تفریح کے نہیں بلکہ حاصل اس سے تو یہ ہے کہ رخ کو تیرے گل، گیسو کو سنبل تصور کرتی ہوں۔ قد کو سرو و صنوبر، نرگس کو چشم و جادوگر سمجھتی ہوں۔ میری گلگشت میں نظارہ تیرا ہے، اگر منظور تیرا دیکھنا نہ ہوتا تو مجھے گلشن سے کام کیا تھا۔
شعر
بسا دل میں اپنے جو تو خوب روہے
جدھر دیکھتی ہوں ادھر تو ہی تو ہے
اگرچہ پری ہوں لیکن محض بے پری۔ مجھ میں تجھ میں اس قدر فرق ہے کہ جس کےتو بس میں ہے وہ تیرا محکوم اور میں اپنی بے بسی سےمغموم۔
شعر
نہیں کہتے ہیں اپنے دل سے ہم جس راز پنہاں کو
قلم کو کیجئے آگاہ اس اسرار سے کیوں کر
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 63
یہ خط لکھ کر لال دیو کو دیا کہ پریشانی خاطر اس پر ظاہر ہو۔ لال دیو اس خط کو لایا ، ماہ پرور کی پریشانی کا حال سنایا ۔شہزادے کو اس کے غم و الم کا نہایت قلق اور حیرانی سے چہرے کا رنگ فق ہوا۔
آگاہ ہونا منصورشاہ کا محمود کے بھی گم ہو جانے سے اور تخت پر بٹھانا وزیر کی دختر کو کہ نام اس کا "اگر " تھا
منصورشاہ کو لعل شہزادے کے گم ہو جانے کا ایسا صدمہ پہنچا کہ حضرت یعقوب کے مانند اپنے یوسف کے غم میں کور ہو گیا، آب و طعام ترک کیا۔ وزیر "خوشحال" کبھی کبھی قسمیں دلاکر بادشاہ کو کچھ کھلاتا۔ جب وزیر نے احوال محمود کے گم ہو جانے کا بادشاہ کے گوش گزار کیا، یہ صدمہ ءجاں گداز نے اور بھی بے قرار کیا۔ وزیر سے کہا " اس کے سوا کوئی تدبیر نہیں کہ آپ کو ہلاک کروں۔"
بیت
سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا
بس ہجوم یاس دل گھبرا گیا
میں سمجھتا تھا کہ محمود عاقبت کار مالک تحت و نگیں، تسلی دہ دل اندوہ گیں ہوگا۔ کوئی بات نہ بن پڑی اور ایک تدبیر راست نہ آئی۔
شعر
دانہ ء باروت بنتے ہیں میرے تخم امید
تا نہ برق ان پر گرے نشونما ہوتا نہیں"

ریختہ صفحہ 64
آخرکار بادشاہ نے وزیر کی دختر کو کہ نام اس کا" اگر" تھا پسر قرار دے کر تخت سلطنت پر قائم مقام اپنا کیا اور خلق میں جابجا شہرت ہوئی کہ بادشاہ کا بیٹا کہ جس کوچشم خورشید نے بھی کبھی نہیں دیکھا تھا ،وہ تخت سلطنت پر جلوہ گر ہوا ہے۔ یہ مژدہء جاں بخش سن کر تمام شہر اس ولی عہد کی زیارت کو گیا۔ عمر دوازدہ سالہ، حسن اس کا رشک گل و لالہ، خوبصورت وہ خوش رو، زلف مشک بو، سیاہ گیسو، حسین نازنین، چودھویں رات کا چاند، عالم کو عالم عالم شادمانی اور جہاں کو جہان جہان کامرانی حاصل ہوئی۔ اکثر مقدمات اس نے فیصل کئے۔ ممالک محروسہ میں اس کی عدالت کی دھوم اور دانائی ہر صغیر و کبیر پر معلوم ہوئی۔ صورت میں یوسف، عدالت میں نوشیرواں، سخاوت میں حاتم، شجاعت میں رستم مشہور ہوا۔ خلل وفساد، قصہ و قضایا اس کے عہد دولت سے دور ہو گیا۔ بادشاہ کو تقویت اور سرور، خوشحال مسرور تھا۔" اگر" بادشاہ نے اپنے رہنے کا مکان شہر پناہ کے دروازے کے متصل بنایا۔ اہل فضل و کمال کو تحصیل علم کے واسطے بہم پہنچایا۔ چند روز میں علم کما ینبغی حاصل کرکے طبع رسا کو علم ریاضی پر مائل کیا۔
معلوم ہونا حال جوگی صاحب کے کمال کا اور فائدہ مند ہونے کا اگر شاہ کو ان کی ملاقات سے ازروئے علم نجوم کے
رہبری طالع سے علم نجوم اور رمل و جفر کو خوب معلوم کیا۔ قواعد سابق کو ذہن کی رسائی سے تقویم پار ینہ کر دیا۔ علم نجوم سے دریافت ہوا کہ ایک جوگی اس فن میں یکتا ہے، فلانے مقام پر آتا ہے۔ اگر وہاں ایک مکان پر تکلف تیار ہو اور اس میں اقسام ماکولات اور مشروبات سے جو کچھ لازمہ مہمانداری کا ہوتا ہے،
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 65
مہیا رہے تو ایک روز وہ جو گی اس مکان میں آن کر وارد ہوگا اور جو چیز تناول فرمائے گا ،اپنا جھوٹا کھلائے گا۔ اس کے اثر سے حال غیب کا مجھ پر ظاہر ہو گا اور نعمت غیرمترقب حاصل ہوں گے۔ اور اس کے سوا چالیس بادشاہ صاحب جاہ میرے حلقہ بگوش ہو کر خراج دیا کریں گے۔ جب قاعدہء نجوم ورمل سے یہ حال معلوم ہوا، تب اگر بادشاہ نے ایک نفیس مکان اس جگہ پر تعمیر کیا اور وقت شب مہمان کی تلاش میں بوئے خوش کی مانند ہر طرف متلاشی رہا۔ بعد چند دن کے جوگی صاحب کا اس جگہ گزر ہوا۔ اگر شاہ نے غبار پاؤں کا کحل البصر کیا اور بڑی عزت و تکریم سے اس مکان میں لا کر بٹھایا۔ جوگی صاحب نے متوجہ ہو کر کہا" صد آفرین تیری فہم و فراست پر! ہزار فرزند تجھے ایسی دختر پر قربان ہوں۔" بادشاہ نے کہا " شاہ صاحب! میں دفتر نہیں ہوں۔ آپ کو میری سادگی پر شبہ ہوا ہے۔" جوگی ہنسا اور کہا کہ الحق تو فرزند سے بہتر ہے۔ القصہ جوگی نے اس دعوت سے کچھ تناول کیا، اپنا پس خوردہ اسے کھلایا۔ پھر یہ کہا کہ اے فرزند! چالیس بادشاہ تیرے محکوم اور اسرار غیبی اور سخنان جا نوران تجھے مفہوم ہوں گے۔ اکثر علوم سینہ تعلیم کرکے رخصت چاہی۔ بادشاہ نے قدم کو بوسہ دے کر عرض کیا کہ میں حضرت کو قبلہ گاہ جانتا ہوں، بندہ پروری سے ہاتھ نہ اٹھائیے گا، ضرور کبھی کبھی تشریف لائیے گا۔
جوگی صاحب بہ سروچشم کہہ کر رخصت ہوئے۔ شہزادہ اپنے مکان میں آیا، صبح کی نماز سے فراغت حاصل کر کے تخت پر جلوہ گر ہوا۔ خبرداروں نے خبردی کہ کئی ملک کے سلاطین آمادہء جنگ ہو کر حضرت کی سرحد میں وارد و صادر ہوئے ہیں۔ منصور شاہ نے کہا کہ اس ملک کو اگر شاہ کا تصدق سمجھتا ہوں، جس کا جی چاہے وہ اس ملک کو لے لیکن اگر بادشاہ کو

ریختہ صفحہ 66
اذیت نہ دے۔ اگر بادشاہ نے عرض کیا" جو قبلہ عالم کو یہی منظور تھا، مجھے اپنا ولی عہد کیوں کیا؟" یہ سن کر شیرانہ مردانہ برق کی طرح ان کے خرمن ہستی پر گرا۔ فوج مخالف تاب مجادلہ و مقاتلہ نہ لا سکی، آخرکار صفیں کی صفیں اس صف شکن کے آگے عرصہء مصاف میں نظر آئیں۔ دھڑ پر دھڑ، مردے پر مردے گرائے، کشتوں کے پشتے لگائے۔ اگر بادشاہ کی فوج نے چالیس بادشاہوں کو محاصرہ کیا۔ فلک گنجفہ باز نے بازی کو ان کی اس طرح ابتر کیا کہ سب تاجدار اس کے ہاتھ آئے۔ پھر اس غیرت آفتاب نے چالیس مکان عالیشان تعمیر کیے۔ ہر ایک تاجدار کو جدا گانہ اس میں رکھا۔ اس فتح عظیم کی ملک بہ ملک و ھوم پڑ گئی۔ آدمی کیا، جن وہ پری تھرائے۔ منصورشاہ نے شادیانے فتح کے بجوائے۔ جتنا نقدی اور اسباب لوٹ میں آیا، سب اس کے تصدق میں لٹایا۔ تب سے اگر بادشاہ دن کو انتظام امور سلطنت میں مشغول رہتا تھا، شب کو خدمت گزاری میں جوگی صاحب کی بہ دل مصروف ہوتا تھا۔ یہاں تک کے اس کو راضی کیا کہ جوگی صاحب نے اس کی بودوباش کے واسطے اپنے ملک میں ایک باغ بے نظیر عنایت کیا اور کتاب " معدن البدایع" سے تیس اسم اس کو بخشے اور سو منتر برن بدلنے کے تعلیم کئے اور جو کچھ سرمایا عیاری اور جادوگری کا تھا، اس کو سکھلایا۔ اگر بادشاہ اپنے باغ کی سیر میں مشغول رہتے تھے۔ ایک دن جوگی صاحب کے مختار کار سے کہ مدار المہام تھا، ملاقات ہوگئی۔ اس نے کہا کہ آپ کون ہیں۔ جواب دیا کہ جوگی کا بیٹا ہوں۔ اس نے کہا کہ وہ تارک الدنیا ہیں، بیٹا کہاں سے پایا؟ یہ پھل اس سرزمین میں کب آیا؟ فرمایا کہ بارہ برس کے جوگ میں خدا نے یہ فرزند عطا کیا ہے۔وہ اٹھا، آداب بجا لایا۔ بادشاہ نے الطاف و عنایات سے اپنے اسے بہت رضی کیا۔ اس نے سرنگ
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 67
ایک اپنے مکان سے اس بنگلے تک کھدوائی اور عرض کیا کہ آپ تکلیف بہت اٹھاتے ہیں، اس راہ سے آمدورفت اختیار فرمائیے۔ جوگی صاحب نے یہ سن کر اپنے ہاتھ کی انگوٹھی کہ سب علم و کمال جس کے زیر نگین تھا، عنایت کی۔ نگینہ اس کا گوہر شب چراغ، اس کی روشنی سے وہ راہ تاریک روشنی ہوتی تھی۔ صبح کو اگر بادشاہ اپنے تخت کی طرف توجہ فرماتے، چالیس بادشاہ اس کے مجرے کو آتے۔ ایک مدت تک یہی معمول رہا۔ ایک دن جوگی صاحب سے کہا" اگر حکم ہو تو آپ کے ملک کے گرد و نواح کی بھی خبر لوں؟" جو برباد ہوا اس کو عدالت سے آباد کروں۔ اس واسطے کہ روز قیامت مظلمہ رعیت کا بادشاہ کے ذمہ ہے:
شعر
کیا خالق نے گر آباد تجھ کو
تو کر آباد تو خلق خدا کو
جوگی صاحب نے کہا" بہت بہتر، طبعیت کو رعیت پروری اور عدالت گستری پر مصروف رکھو۔"

داستان شہریار وزیر کی جو راجہ باسک کی بیٹی پر عاشق تھا کہ اگر شاہ نے کس ہمت سے عاشق و معشوق کو ملایا
اگر شاہ اکثر شب کو ماہ کامل کی طرح مصروف سیر و تماشا رہتا۔ ایک دن کیا دیکھتا ہے کہ ایک دروازے پر کوئی خستہ حال دل آرام کا نام لے کر پکارا۔ بہ مجرد آواز کے کسی نے اندر سے خشم آلود ہو کر اسے جواب دیا کہ اے بد بخت! اس وقت کیوں خلل انداز راحت و آرام ہے؟ دور ہو، نہیں مثل مرغ بے ہنگام کے بسمل کروں گا۔ وہ تو کلا م تلخ سے سرمہ در گلو ہوا، مگر دل آرام

تاریخ کا صفحہ 68
کی عورت نے اس سے کہا " اے شخص! اہل حاجت سے اتنی بے اعتنائی اور درشتی نہ چاہیے۔ جو کچھ اس کا معین ہے اسے دے۔" دلآرام نے چند برگ پان اسے دیے۔ وہ شخص حدھر سے آیا تھا چلا۔ اگر شاہ بھی اس کے ساتھ ہوا۔ ایک باغ میں آیا وہاں چار شخص منوچہر، جواہر، بسنت، بہرام، گل بادشاہ کے وزیر مانند اربع عناصر کے جمع تھے۔ یہ پانچواں وزیر بھی کہ نام اس کا شہریار تھا، راجا باسک کی بیٹی کے دام عشق میں گرفتار تھا۔
نظم
وہ اس کی ناگنی زلفوں کا مارا
گریباں تا بہ دامن پارا پارا
رخ اس کا زرد تھا اور چشم خونبار
کہ یہ ظاہر محبت کے ہیں آثار
مثل حواس خمسہ کے صحبت احباب میں شریک ہوا بعد اس کے اگر بادشاہ بھی مہمان ناخواندہ کی طرح خوان صحبت احباب پر حاضر ہوا۔ اگرچہ اس کا جانا ناگوار گزرا مگر حسن نمکین اورسخن شیریں اس کے سے مزہ اٹھایا۔ شہریار نے کہا" آپ کون ہے اور یہاں کیوں کر آئے؟" اگر شاہ نے کہا " فلانے شخص کا پسر ہوں ، اکثر دشت و بیاباں کی سیر کرتا ہوں۔" جب وہ اس کے احوال سے ماہر ہوئے، بادشاہ نے کہا " اے شہریار! تیرے چہرے سے آثار عشق معلوم ہوتے ہیں لیکن کیا وجہ کہ وصل یار سے محروم ہے؟" اس نے کہا " شرطیں میرے معشوق کی احاطہءامکاں سے باہر ہیں۔ چنانچہ پہلے اژدہا بن کے دوڑے، پھر اپنے تئیں تیل کے کڑھاؤ میں جلائے، پھر بارہ برس کے گرم حمام میں نہاوے۔" بادشاہ نے کہا" پروانے کو آگ میں جلنا آب بقا ہے اور خیال زلف معشوق کا ایک اژدہا ہے۔ کیا دشوار ہے جو تجھ سے نہیں ہو سکتا؟
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 69
مگر جذب صادق اور عشق کامل نہیں" شہریار نے کہا" صاحب زادہ! ہنوز نیش محبت سے آپ بیگانہ ہیں، نہ کسی شمع عارض کے آپ پروانہ ہیں، آپ کیا جانیں محبت کسے کہتے ہیں، یہ لاف زنی اور یہ دل شکنی آپ کو مناسب نہیں" بادشاہ نے کہا " اے شہریار! اپنی تیغ مجھے دے کہ اپنا جوہر تجھ پر آیا کروں۔" غرض وہ خود غرض اس کو اپنی تیغ دے کر کہنے لگا " اگر یہ کام آپ سے سر انجام ہوگا تو عمر بھر آپ کا غلام رہوں گا "
اگر شاہ وہاں سے چلا، دل آرام کے دروازے پر آ کر پکارا۔ اس نے کہا" اے عزیز! آیا تجھے خلل دماغ ہوا ہے کہ گھڑی گھڑی مجھ کو پکارتا ہے؟ اے کمبخت دور ہو یہاں سے۔" بادشاہ نے کہا " وہ شخص میں نہیں ہوں کہ جسے تو نے پان دے کر رخصت کیا تھا بلکہ میں اس جوگی کا بیٹا ہوں کہ تو اس کی رعیت سے ہے اور عاشق ہو ں راجہ باسک کی بیٹی پر۔ تو میری رہبری کر اور اس راستے پر لگا دے۔" دلارام خوفزدہ ہوکر باہر نکل آیا اور دعائیں دے کر یہ زبان پر لایا
رباعی
اس راہ سے درگزر ہے بہتر
یعنی یہ نہیں رہ سلامت
قاصد جو ہوا رہ فنا کا
وہ لے گیا دل پہ داغ حسرت
بادشاہ نے کہا" شاید میں تیرے قدم سے چلوں گا جو تجھے راہ بتانے میں یہ اندیشہ ہے۔" ہر چند دلارام نے عذر کیے لیکن کچھ پیش نہ گئی۔ غرض دلارام نے مجبور ہوکر سب سراغ اور نشانی بتا کر اگر شاہ کو ادھر رخصت کیا اور ادھر فورا آ کر یہ ماجرا جوگی صاحب سے بیان کیا۔ جوگی صاحب بیتاب ہو کر اس کے

ریختہ صفحہ 70
ساتھ چلے۔ راجا باسک کے دروازے پر اگر شاہ سے ملاقات کرکے کہا" اے فرزند! تیری کوشش وسعی کے قابل یہ مہم نہیں۔ اس میں خوف جان ہے۔ آدمی کیا، دیو جن سے بھی ممکن نہیں کہ وہ شرطیں بجا لاوے۔" شہزادے نے کہا کہ میں نے زبان سے کہا ہے، بات پر جان بھی جائے تو دریغ نہیں ہے۔ جو کچھ ہو ضرور جاؤں گا۔ اب امیدوار ہوں کہ آپ منع نہ فرمائیں۔" یہ سن کے جوگی صاحب نے ایک پھول، خاصیت اس کی یہ کہ پنکھڑی کی خوشبو سے آدمی اژدہا ہو جائے ، جڑ کو سونگھنے سے جیسا تھا ویسا ہو جاوے، اور ایک انگوٹھی کہ شعلہ ء آتش کو سرد کر دیتی تھی، اگر شاہ کو دے کر رخصت کیا۔ جب راجہ باسک کو اس کے آنے کی خبر پہنچی، روبرو طلب کیا۔ محو جمال ہوکر یہ سوال کیا" تم اپنے معشوق کی شرطیں ادا کرو گے اور جان اپنی اس پر فدا کر سکو گے؟" شہزادے نے کہا " ان شاء اللہ تعالی۔
بیت
جان تک اس کی محبت میں گنوا بیٹھے ہیں
ہاتھ جینے سے سردست اٹھا بیٹھے ہیں "
راجہ باسک نے کہا" پہلی شرط یہ ہے کہ اژدہا بن کر ہمارے ساتھ دوڑو۔" اگر بادشاہ نے بسم اللہ کہہ کر پھول کو سونگھا اور اژدہا ء د مان بن کر اس سانپ کے ساتھ کئی کوس دوڑا اور خس و خاشاک کو شعلہء دم سے جلایا، کہیں اس کا ساتھ نہ چھوڑا۔ جب اس شرط سے باسک کی نشان خاطر ہوئی، کہا " اے عاشق صادق! اب جلتے ہوئے تیل کے کڑھاؤ میں کود پڑو۔" اگر شاہ بسم اللہ کہہ کر اس کڑھاؤ میں کو دا اور انگوٹھی کی برکت سے سمندر کی طرح اس میں سے صحیح و سالم نکلا۔ تیسری شرط گرم حمام میں نہانے کی مقرر کی، اگر بادشاہ نے وہ بھی ادا کی۔ جب وہ کار نمایاں اس
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 71
کی کوشش سے ظہور میں آیا، تب راجا با سک نے تیاری اپنی بیٹی موتی رانی کی شادی کی اور اگر شاہ اپنی تلوار کے ساتھ نکاح موتی رانی کا پڑھوا کے بڑی دھوم دھام سے بیاہ کر کےدلہن کو ساتھ لے کر اپنے باغ کی طرف روانہ ہوا۔ یہاں شہریار وزیر کے پاس آن کر کہا " لو صاحب، موتی رانی تم کو مبارک ہو۔" یہ مژدہ ء جان بخش سن کر شہر یار متحیر ہوا، کئی بار اگر شاہ کے تصدق ہوا اور بہت سی دعا وثنا کی۔ غرض شہرہ اگر شاہ کی ہمت و مروت کا چار طرف پڑ گیا۔ ایک روز اگر شاہزادہ اپنے ملک میں منصور شاہ کے تخت پر بیٹھا متوجہ امور سلطنت اور انتظام مملکت تھا کہ سامنے سےایک اژدہا خاک پر لوٹتا، سر پٹکتا، آنکھوں سے لہو برساتا، شعلے آہ کے منہ سے نکالتا، بحضور اگر شاہ آن کر مستغاثی ہوا کہ اے شاہ معدلت پناہ! میں ایک روز گل بادشاہ کی مملکت میں گیا تھا اور وہاں ایک ناگنی پر عاشق ہوا۔ گل بادشاہ نے اس گناہ پر مجھے تو شہر سے اپنے نکلوا دیا، اس ناگنی کوریچھ اور بندروں کی قید میں رکھا ہے، لہذا میں امیدوار عدالت اور منصفت کا ہوں کہ بدولت تیرے اپنی جفت کو پاؤں۔ بادشاہ نے اس اژدہے کو شیر سے سیر کیا اور فرمایا کہ رات کے وقت حاضر ہونا۔اژدہا رخصت ہوا۔ بادشاہ اپنے خلوت خانے میں شب کو اس کا منتظر بیٹھا تھا، وہ اژدہا پھر آیا۔ جوگی کا دیا ہوا پھول سونگھ کر اگر بادشاہ بھی ایک اژدہائے خونخوار بن گیا اور اس اژدہے پر کہ داد خواہی کو آیا تھا، سوار ہو کر گل بادشاہ کے ملک کو روانہ ہوا۔ جہاں وہ ناگن قید تھی، وہاں پہنچا۔ ریچھ و بندر بھاگ گئے۔ ناگن نے کہا " اے بادشاہ! ہزار آفرین اور تحسین تیری ہمت پر اور ملامت اور نفرین اس گل پرخار پر جس نے بے گناہ مجھے میرے جوڑے سے چھڑایا۔" ایک ساعت کی ساعت وہ دونوں اژدہے وہاں

ریختہ صفحہ 72
رہے، بعد اس کے وہاں سے پھر ے۔ گل بادشاہ نے یہ خبر سن کر چوکیداروں پر شدت کی۔ انہوں نے کہا" ہمیں یہ خیال گزرا کہ حضرت سلامت برن بدل کر تشریف لائے ہیں۔" آخر کار گل بادشاہ نے اس ناگن کے ماں باپ کو ملک سے نکال دیا، گھر بار ان کا تاخت و تاراج کر کے اس ناگن کو سات سمندر پر لے جاکر قید کیا۔اس اژدہے نے یہ خبر سن کر پھر بادشاہ سے فریاد کی۔ اگر شاہ نے اس کی بہت تشفی کی اور کہا " خاطرجمع رکھ" اگر شاہ اسی تردد اور پریشانی سے ایک صحرائے لق و دق میں گیا، وہاں بیٹھ کر بین بجانے لگا۔ پرند و چرند صحرا کے اس کے سننے کو آئے۔ سوا ایک روباہ کے کہ بہت فیلسوف تھی، کوئی باقی نہ رہا۔ کسی نے اس سے کہا کہ تو کیوں نہیں چلتی ہے؟ اس نے کہا " جب وہ شیر خصلت خود میرے لینے کو آئے گا یا باعزاز و اکرام بلائے گا، تو میں حاضر ہوں گی" بادشاہ نے یہ سن کر کہا، " کہ جو جانور کے ذی رتبہ ہیں، اس کے لینے کو جاویں " القصہ وہ لومڑی بعد از رو باہ بازی بسیار کے آئی اور ایک پھول نذر لائی:
شعر
وہ گل تھا کہ گلدستہ ء مکروفن
کہ بو کر کے زن مرد ہو ،مرد زن
بادشاہ نے تحفہ لے کر اس سے فرمایا کہ تو سات سمندر طے کر کے اس اژدہے کی ناگن کولا۔ غرض وہ روانہ ہوئی، موج کی طرح پار اتری،اس ناگن کو فورا وہاں سے لائی۔ بادشاہ کو اپنی خدمت گزاری سے شاد اور اژدہے کو آباد کیا۔ جب یہ خبر گل بادشاہ نے سنی، گل کی طرح داغدار اور اگر شاہ سے آمادہء پیکار ہوا۔ بعد چند نامہ و پیام کے اگر شاہ نے گل کو لکھا کہ تیرے پاس لشکر دیو پری کا ہے، میرے پاس انسان کا۔ بظاہر زور اور
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 73
قوت میں اپنے تئیں غالب جانتا ہے، اسباب جنگ و ستیز کا طالب ہے، لیکن باطن میں ہم تجھ سے اشرف ہیں کہ حضرت سلیمان نے دیو پری کو اپنا متطیع و فرماں بردار کیا تھا۔ بہتر یہ ہے کہ بندگان خدا تلف نہ ہوں۔ ہم تم لڑیں جھگڑیں، جو غالب ہو اس کی متابعت کریں۔ شہریار گل بادشاہ کا وزیر کہ اختیار کل رکھتا تھا اور اگر بادشاہ کا بندہ ء احسان تھا، گل بادشاہ کی طبیعت کو بالکل اصلاح پر لایا اور باعث صلح کا ہوا۔
بیاہ ہونا لعل شہزادے کاما ہ پرور کے ساتھ لال دیو کی کوشش و تدبیر سے
نخل بندان گلشن حسن و عشق گلدستہ ء سخن وصل کو یوں آر ائش دیتے ہیں کہ جب ماہ پرور کا چمن حسن سموم ہجراں سے زرد و ژولیدہ اور لعل شہزادے کا گل رخسار خار مفارقت سے پژمردہ و افسردہ ہوا، وہ مثل شمع سحر گاہ کوئی دم کی مہمان، یہ مانند نسیم صبح سر بہ سر پریشان۔
ابیات
گریبان چاک تھا یا ں صورت گل
وہ تھی فریاد کش مانند بلبل
وہ اپنی زلف سے گر بے خبر تھی
پریشانی یہاں مدنظر تھی
وہاں تھی اشک سے گر یک مژہ نم
یہاں تھا چشم میں دریا کا عالم
لعل شہزادے نے حالت اضطرار و بےقراری میں دیوسے کہا " باوجود اس شفقت کے جو آپ میرے حال پر رکھتے ہیں، شومئ طالع سے آج تک مبتلائے مرض فراق اور شربت وصال کا

ریختہ صفحہ 74
مشتاق ہوں۔ اب میرے دل کو تاب مفارقت اور صبر مہاجرت نہیں۔ کوئی دن میں چراغ سحر کی طرح بجھ کر رہ جاؤں گا۔
شعر
ٹک اپنے جگر سوختہ کی جلد خبر لے
کیا یار بھروسہ ہے چراغ سحری کا"
لال دیو نے کہا" میں نے آپ کی رضامندی میں کچھ قصور نہیں کیا اور کوئی تدبیر نامہ و پیام کی اٹھا نہیں رکھی، مگر مقدر سے لاچاری ہے" یہ کہہ کر دیر تک غوطہ زن بحر تردد میں رہا۔ گوہر مقصود صدف آغوش میں پاکر کہا" ایک تدبیر اور ذہن میں آئی ہے، بن پڑنا بات کا شرط ہے۔" فورا اٹھ کر وہ دیو، پری کے پاس گیا۔ شہزادے کی کمال بے قراری اور اضطرا بی ظاہر کی۔ ماہ پرورنے بہت دل داری اور خاطر داری کی۔
شعر
وہ پردہ جو حائل تھا اس کو اٹھایا
دھڑکنا اسے اپنے دل کا دکھایا
دیو نے کہا" آخر یہ بے قراری طرفین کی اور یہ اضطرابی جانبین کی کیوں کر دور ہو؟ دل تمہارے کیوں کر مسرور ہوں؟" پری نے کہا" مجھ سے کیا تدبیر ہو سکے؟ ماں باپ کا خوف ایسا غالب نہیں کہ سر اٹھاؤں ، نگوڑی ناٹھی نہیں کہ تمہارے ساتھ چلی جاؤں۔ میں سوختہ قسمت تو مجبور ہوں، تدبیر کیا بتاؤں۔" دیو نے کہا" ایک تدبیر یہ ہے کہ میں تجھے وہ دوا کھلا دوں جس کی تاثیر سے خون کا استفراغ اور غم کے ہاتھ سے فراغ ہو۔" پری نے کہا " علاج وصال میں زہر ہلاہل بھی تریاق ہے۔"
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 75
شعر
دوا تو کیا ہے کہ انکار زہر سے بھی نہیں
تپ فراق سے مجھ کو کہیں نجات ملے
القصہ دیونے وہ دو اکھلا ئی کہ جس کے کھانے سے خون کی قے آئی۔ ماں باپ گھبر اکے دوا علاج کی تلاش میں جا بجا دوڑنے لگے۔ دیو نے اپنے تئیں برہمن بنایا۔ صندل اور سیندور ماتھے پر لگایا۔ ہر ہر کرتا، مالا جپتا ادھر سے ہو نکلا۔ کسی نے کہا" مہاراج دیوتا! ہماری شاہزادی کو سایہ سکہ ہوا ہے، پوتھی دیکھ کر پرشن بچارو۔" برہمن نے بچار کر بتایا " کل ایک شہزادہ بیاہ کیے ہوئے ادھر آئے گا، کشتی اس کی طوفان سے تباہ ہو گی، اگر اس کے ساتھ اس پری کی شادی ہو، اس بیماری سے اسے رہائی ہو۔ پوتھی میں نکلتا ہے کہ وہ شہزادہ تو مر جائے گا مگر اس کا مرض جاتا رہے گا۔ سوا اس کے کوئی علاج نہیں۔" پری کے ماں باپ نے کہا " ہمیں قبول ہے، آپ اس کی تلاش میں رہیں، جس وقت وہ کشتی آئے فورا ہمیں خبر ہو۔" یہ کہہ کر برہمن وہاں سے غائب ہو اپنے باغ میں آیا۔ شہزادے کو دولہا بنایا، سمجھایا، بجھایا، کشتی پر سوار کر کے روانہ کیا۔ صبح ہوتے ہی لعل شہزادے نے گریبان کو چاک کیا، سر پر خاک ڈالتا ہوا دریا کے کنارے پہنچا۔
ابیات
صدا اس کی یہ تھی کہ واہ حسرتا!
مرا خانماں غرق دریا ہوا
اٹھے کیوں نہ طوفان میرے دل سے آہ
کیا ہے حوادث نے مجھ کو تباہ
یہ کہتا تھا اور دھاڑیں مارمار روتا تھا۔ خبر اس کی بادشاہ

ریختہ صفحہ 76
کو ہوئی، برہمن کے کہنے کا یقین ہوا۔ امیروں وزیروں کو بادشاہ نے سمجھا کر دریافت حال کے واسطے بھیجا۔ کسی نے پوچھا" اے عزیز! کیوں تو روتا ہے اور کس لئے جان کھوتا ہے؟" اس نے کہا" آہ! کیوں کر نہ روؤں اور جان نہ کھوؤں؟ کل شادی کی، آج بے خانماں ہوا۔ ایک گوہر ناسفتہ کو صدف کے مانند بارہ برس تشنہ لب رہ کر پایا تھا، اسے شورش دریا قطرہ نیساں کی طرح لے گیا۔" اس نے کہا " مرضی خدا سے کیا چارہ ہے؟ اگر اس شہر کے بادشاہ کی بیٹی ماہ پرور کے ساتھ شادی قبول ہو تو تمہاری سفارش بادشاہ سے کی جائے۔" دولہا نے کہا " سبحان اللہ! میرا تو یہ حال ہے، تم شادی کو کہتے ہو؟" غرض ہر ایک نے بہت سا سمجھایا اور بیاہ کرنے پر آمادہ کیا۔ دولہانے کہا" خیر اس شرط اور اقرار پر کہ جہاں چاہوں گا اسے لے جاؤں گا۔ اگر سب خویش و برادر، مادر و پدر اس کے اپنی مہر یں کر دیں، مجھے قبول ہے۔" ان کے تو دل سے لگی ہوئی تھی اور یہ جانتے تھے کہ اس کا صدقہ اس کی جان ہے، وہ اچھی ہو جائے گی، یہ مر جائے گا، اقرار نامہ پر چھوٹے وبڑے نے مہر و گواہی کر دی۔ شادی کی تیاری ہونے لگی۔ ماہ پرور کو دلہن بنایا۔
نظم
کروں اس کی تزئین کا کیا میں بیاں
کیا مالک کو غیرت کہکشاں
وہ گیسو کہ تھے سینکڑوں اس میں دل
ہوئی لیلۃ القدر ان سے خجل
کماں کہئیے ابرو کو اس کے اگر
مژہ ترکش تیر تھے سر بہ سر
وہ آنکھیں کہ آہو تھے ان سے خجل
وہ آہو کہ جن کے چراگاہ دل
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 77
عجب خوش نما ان میں کاجل دیا
مگر مردم دیدہ کو حل کیا
عجب معدن حسن تھے اس کے کاں
وہ بینی کہ خود منہ ہو جس سے عیاں
لب اس کے تھے یا ریزہ ہائے نبات
دہن اس کا یا حوض آب حیات
فقط اس پہ مستی تھی بہر شگوں
تصور سے بوسے کے وہ نیلگوں
گلو اور گردن یہ شفاف تھے
وہ دو شیشہ ء بادہ ء صاف تھے
وہ ساعد نہ تھی شاخ بلورتھی
بعینہ وہ شمع سر طور تھی
وہ پنجہ نہ تھا پنجہ ء مہر تھا
وہی باعث الفت و مہر تھا
خجل اس کے سینے سے گوہر کی آب
مگر سطحء آب پر دو حباب
کہاں تک کوئی اس کا پردہ کرے
وہ دو قمقے رنگ کے تھے بھرے
جڑاؤ جو اس گل کی انگیا تھی وہ
نہ انگیا تھی سونے کی چڑیا تھی وہ
شکم تھا جو مانند آئینہ صاف
تو عکس زنخداں تھی وہ اس کی ناف

ریختہ صفحہ 78
کھلا تھا نہ وہ گل،تھی اب تک کلی
تصور سے جس کے رہے بے کلی
رگ گل سے نازک شگاف نہاں
ہوا و ہوس کو گزر واں کہاں
پھسلتی تھی زانو پہ اس کے نگاہ
انھیں جس نے دیکھا کہا واہ واہ
وہ نازک قدم چشم پر ہوں اگر
گرانی کرے پھر مژہ چشم پر
وہ سر سے قدم تک قیامت تمام
قیامت تھا وہ قد و قامت تمام
مختصر یہ کہ اس زہرہ کو ماہ کے ساتھ قران السعدین کیا۔ نکاح کے بعد نوشہ کو اندر بلایا، دولہن کو پہلو میں بٹھایا۔اس کی صورت دیکھتے ہی لعل شاہزادہ غش کھا کر گر پڑا۔ دولہن والے خوش ہوئے کہ برہمن کی بات بمطابق ہوئی۔ دولہن نے گلاب اشک چھڑکا، بارے ہوش میں آیا،گل کی طرح بدن میں پھولا نہ سمایا ۔مدعی خجالت سے سر افگندہ بلکہ پراگندہ ہوئے۔ دولہا نے دولہن کی گردن میں ہاتھ اپنے حمائل کیے۔پستہء لب کے، بادام چشم کے، انار پستان کے خوب مزے اڑائے، گلے سے لگایا، بغل میں دبایا، گدگدایا، ہنسایا، غنچے کو گل رسیدہ ، صدف کو نیساں دیدہ کیا۔ پھر جوش دل کے ساتھ آرام فرمایا۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 79
اگر تمہیں خانہ دامادی قبول ہو تو رہو، نہیں اپنی راہ پکڑو۔" شہزادے نے وہ اقرار نامہ کہ ان سے لکھوا لیا تھا، پیش کیا؛ آخرکار کچھ پیش رفت نہ گئی۔ دلہن کی رخصت کا ایک کہرام ہوا۔ ہر ایک کا دل ماہ پرور کی مفارقت سے پسنے لگے۔ چھوٹے بڑے گلے لگا کر ملنے لگے۔ سامان رخصت کا ہوا، جہیز نکلنے لگا۔ بیان جہیز باعث طول ہے۔ پھر دولہاکے سامنے ہاتھ جوڑے اور یہ کہا،" ہم یہ لونڈی خدمت کے واسطے دیتے ہیں۔" لال دیو نے کہا" یہ آپ نہ فرما ویں، یہ ہماری مخدوم ہیں۔" ماں باپ کے رونے کا شور، نوبت کی ٹکور، القصہ بڑی دھوم دھام سے دلہن رخصت ہوئی۔ شہزادہ ہنسی خوشی سے دلہن سمیت اپنے باغ میں آیا۔ محمود وزیر زادے نے سجدے شکر کے کیے۔ گل بادشاہ نے گوہر شب چراغ اس پر نثار کیا۔ قریش نے آنکھوں کو دلہن کے پاؤں کا فرش بنایا۔ ہر ایک نے رونمائی میں جواہر بیش بہا دیا۔ گل بادشاہ نے آنے میں تامل کرکے کہا " اے بھائی! الحیاء من الایمان۔" شہزاد ےنے کہا: مصرع
" چھپے ہے کہیں بھائی سے بھی بہن
تمہیں میرے سر کی قسم! تشریف لاؤ۔" گل بادشاہ سر جھکائے ہوئے گھر میں آیا۔ ماہ پرور نے سلام کرنے سے انکار کیا کہ ہم بادشاہ ، یہ سب ہمارے مجرئی ہیں۔ مگر دولہا کے اشارے سے سلام کیا۔
دوبارہ قریش اور گل بادشاہ کا شادی کرنا لعل شہزادے کی اور ظاہر ہونا عشق گل کا اگر سے
گل بادشاہ نے اپنی ماں سے کہا" میرا جی چاہتا ہے لعل شہزادے کا دوبارہ بیاہ ہو، تا ہم بھی تماشا دیکھیں کہ بھائی صاحب کیسے دولہا بنتے ہیں۔ آپ دلہن کی طرف ہوں،میں

ریختہ صفحہ 80
دولہا کا مہتمم ہوں۔" قریش نے کہا" میرا بھی یہی جی چاہتا ہے کہ ماہ پرور کو دلہن بناؤں۔ تم نے یہ بات میرے دل کی کہی، صدقے گئی، باپ کی بھی مرضی دریافت کرو۔" القصّہ لال دیو کو بھی راضی کر کے بیاہ کی تیاری کی۔ جابجا رقعے بھیجے۔ جوگی صاحب کو بھی کہ اگر شاہ کا پیر و مرشد تھا، یہ نامہ ءمحبت انجام لکھا: "عمومی صاحب قبلہ! میرے بھائی کی شادی ماہ پرور پری سے فلانی تاریخ کو مقرر ہوئی ہے، حضرت بھی مع صاحب زادہ ء والا قدر کہ وہ آپ کے شجرہ ء پرستش کا گل نورس ہے اور بارہ برس کے بعد ہاتھ آیا ہے، تشریف لائے اور ان امور سے کہ بہ سب مقتضائے سن کے صاحبزادے نے مجھ سے کیے ہیں پس و پیش نہ فرمائیے۔" جوگی نے بہ خیال انہی باتوں کے کہ اکثر معاملات میں اگر نے گل کو زک دی تھی اور بارہا شوخ طبعی سے گستاخی کی تھی، اپنا جانا بہتر نہ جانا۔ عذر چند در چند پیش کیے۔ جواب صاف بھیجاکہ مجھے بہ سبب کسل طبیعت کے ھرج دشوار ہے اور فرزند میرا ابھی کہیں جانے کے سزاوار نہیں۔ اس شادی میں میرا پہنچنا نہیں معلوم ہوتا۔ گل بادشاہ اس کے لطائف الحیل سے درہم و برہم ہوا۔ شہریار وزیر سے کہا" اگر میں یہ جانتا کہ وہ جوگی بچہ نہ آئے گا تو ہرگز نہ بلاتا۔ مجھے اس کے نہ آنے کا اور جوگی کی حیلہ بازی کا نہایت ملال ہے۔" غرض کہ شادی کا سامان جیسا چاہیے ،ویسا مہیا ہوا۔ مان ہر طرف سے بڑے کروفر کے ساتھ آئے:
ابیات
بنا ایسا نو شاہ وہ بادشاہ
ٹھہرتی نہ تھی اس کے رخ پر نگاہ
شاہانہ لباس اور گورا بدن
بعینہ بہار گل یاسمن
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 81
پڑا منہ پہ سہرا جواہر نگار
خط مہر تھا اس کا ہر ایک تار

وہ مہندی وہ مسی وہ گوٹوں کے ہار
نہیں بھولتی آج تک وہ بہار

جوانی کا ایام عہد شباب
حسینان عالم میں وہ انتخاب

دراز اس کی قا مت سے زلف رسا
غرض فتنہ ء دہر سر تا بہ پا

وہ چشم سیہ شرم سےتھی خجل
وہ چتون پسے جس پر لاکھوں کا دل

مژہ جوہر تیغ نظارے تھے
دل عاشقاں جس سے صد پارہ تھے
وہ جوان رعنا ایسا دلہا بنا کہ کبھی پیر فلک نے بھی دیکھا نہ سنا۔ قمر کے مانند برات لئے سب براتی ستارے معلوم ہوتے۔ دلہن کے گھر آیا۔ آتش بازی چھوٹنے لگی، نسرین و نسترن سے ہرکو چہ گلشن ہوا، چراغاں کی روشنی پر ہر ایک دل پروانہ، شہنائی کی آواز پر تان سین دیوانہ تھا۔ گل بادشاہ نے لے جاکر دولہا کو مسند پر بٹھایا، شربت پلایا، ہار پہنایا، پان کھلایا، مبارک سلامت کی ادھر ادھر دھوم دھام ہوئی، راگ رنگ شروع ہوگیا۔ گل بادشاہ نے جواہر و شہریار سے کہا" میں نے یہ تقریب شادی کی فقط اس جوگی بچے کے بلانے کے واسطے کی تھی، وہ نہ آیا، مجھے اس کا نہایت خار ہوا۔ تم تخت پر سوار ہو کر ادھر جاؤ، دیکھو تو وہ جوگی بیمار ہے یا اس نے فریب کیا ہے۔" غرض وہ دونوں وزیر با تدبیر تخت پر سوار ہوکر ادھر چلے۔ گل بادشاہ بھی وزیروں سے پوشیدہ ادھر روانہ ہوا۔ اس بلائے آسمانی سے بے خبر، افشائے راز سے بے خطر،

ریختہ صفحہ 82
ہنستے بولتے طرفۃ العین میں اس ملک میں پہنچے۔ دیکھا جوگی صاحب درد سر میں مبتلا ہیں۔ اگر شاہ جبین نیاز کو آستا نہ ءحضرت بےنیاز پر صندل کی طرح گھس رہا ہے۔ کبھی جوگی پاس جاتا ہے ،کبھی باہر آتا ہے:
مصرع
کہیں قرار نہیں اس کو بے قراری سے
شہریار وزیر نے سلام کیا۔ بادشاہ نے کہا" آج تمہارے یہاں تقریب شادی کی تھی، تم کیوں کر آئے؟" وزیر نے کہا " ہم نے پیشاب کا بہانہ پیش کیا اور چلے آئے۔" بادشاہ نے کہا " شاباش اپنے آقا کے منہ میں شاشا کرتے رہو۔" اہل مجلس قہقہہ مار کر ہنسے۔ وہ دونوں اپنے دل میں کٹے۔ گل بادشاہ تخت پر سوار اگر شاہ کے سر پر منڈلا رہا تھا، یہ کہنا اس نے سنا، متعجب ہوا۔ اس کے سر سے قدم تک نگاہ کی، محک عقل پر طلا ئےحسن اس کے کو لگایا تو اس مرد کو عورت پایا۔ تیر عشق کا جگر کے پار ہوا، نہایت بے قرار ہوا، چار و ناچار بادل خار خار وہاں سے پھرا
بیت
تماشہ دیکھنے آیا تھا وہ گل
کیا عشق " اگر "نے اس کو بلبل
وہ صحبت اس کو بزم ماتم، خاطر اس کی شمع کی طرح درہم و برہم ہوئی۔ لعل شہزادے نے کہ نیش محبت سے آشنا ہو چکا تھا، معلوم کیا کہ اس کا دل بھی کہیں آیا، کسی کی زلف نے اسے بھی دام میں پھنسایا۔ عاشق سے اپنے ہم پیشہ کا حال نہیں چھپتا۔ یہ سب ایک پری کے دیوانے ایک شمع کے پروانے ہیں۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 83
شعر
چھپے ہم درد سے کیا حال ہم درد
محبت کی علامت ہے رخ زرد
شہزادہ اس کو بد مزہ دیکھ کر اداس ہوا۔ریت رسوم برخاستہ خاطری سے کرکے اپنی دلہن کو لے کر محل میں داخل ہوا مگر گل کا اندو ہ باعث ملال خاطر رہا۔
بیان درد سر کا جوگی صاحب کے اور سرگرداں پھرنا اگر صاحب کا تدبیر علاج میں
اگر شاہ بہ سبب ناسازی طبیعت جوگی صاحب کے اپنی چشم کی طرح بیمار اور زلف کی مانند پریشان ہو اس کے درد بے درماں کی تلاش میں سیر بیاباں کرتا تھا؛ ایک شب دریا کے کنارے ایک سیمرغ نے اس کو بادل پر غم اور چشم پر نم دیکھ کر کہا " اے جوان! کیا سانحہ تجھے درپیش ہے اور سبب تیرے تکدر خاطر کا کیا ہے؟" اگر شاہ نے کہا" ایک فقیر سے ارادت صادق ہے، اس کے درد سر نے ہلاک کر رکھا ہے۔" سمیرغ کے دل میں رحم آیا، اپنے بازو کا ایک پر توڑ اسے دیا اور یہ کہا " اے ہمارے اوج سلطنت! اس پر کو گھس کر دو تین قطرے اس کے گوش اور بینی میں ٹپکا دینا، درد سر اس کا عنقا ہو جائے گا۔" شہزاد ےنے اسے دعائےخیر دے کر وہ لے لیا اور پھر رخصت ہو کر جوگی کی خدمت میں آیا۔ اسی دست معجزنما سے پر کو گھس کر عرق اسکا اس کی بینی میں ٹپکایا۔ جوگی کو صحت کامل حاصل ہوئی۔ قصہ کوتاہ جوگی صاحب نے(کہ) ایک مدت سے بے خور و خواب اور درد دل سے بے تاب تھے، راحت و آرام پاکر استراحت کی

ریختہ صفحہ 84
جانا اگر شاہ کا جوگی صاحب کی محل سراؤں میں اور ملاقات ہونی ان کے محلات سے
اگر شاہ نے دیکھا کہ کچھ کنجیاں جوگی صاحب کے سرہانے رکھی ہیں۔ فرصت وقت غنیمت سمجھ کر کنجیاں نکال کر ہر ایک دروازہء مقفل کو وا کیا۔ دیکھتا کیا ہے کہ ایک جوگن خوبصورت خوش سیرت، منہ پر بھبھوت ملے ہوئے منکے ٹھنکے پہنے، تنبورا ہاتھ میں لیے، بیٹھی کچھ گا رہی ہے۔ شہزادے کو دیکھ کر پوچھنے لگی" اے سادہ رو، جوان خوش خو! تو کون ہے؟ تجھے میں نے کہیں نہیں دیکھا۔" اس نے کہا " میں جوگی کا فرزند ہوں۔" جوگن نے اس کی بلائیں لیں اور دعائیں دیں۔ پیٹھ پر ہاتھ پھیرا، پہلو میں بٹھایا۔ دو بیڑے پان کے اسے دیے۔ ایک پان کھایا اور ایک چھپایا۔ وہاں سے رخصت ہوا، دوسرے مکان میں آیا۔ وہاں دیکھا ایک شہزادی پری پیکر، خورشید منظر، مسند ناز پر با صد امتیاز تکیہ دیے ہوئے بیٹھی ہے۔ تعجب سے وہ بھی مستفسر ہوئی۔ اگر شاہ نے اسی طرح جواب دیا۔ وہ بھی بھبھو ت رانی کے طور سے پیش آئی۔ وہاں سے اٹھ کر تیسرے مکان میں آیا، ایک پری، جوبن میں بھری، صاحب جمال، پندرہ برس کا سن وسال، نظر آئی۔ پری نے کہا" اے دل دار گل رخسار! تو کوئی بادشاہ یا فرشتہ یا ماہ ہے؟" بادشاہ نے کہا" جوگی کا پسر، تیرا نور نظر ہوں۔" وہ متعجب ہو کر کہنے لگی" بید میں کس نے ثمر دیکھا ہے اور اس پتھر سے یہ لعل کب نکلا۔" اگر شاہ نے کہا " خداوند بے نیاز کو سب طرح کی طاقت ہے۔" اس نے بھی دو بیڑے پان کے دیے۔ ایک کھایا، دوسرا غائب کیا۔ وہاں سے چوتھی محل سرا میں داخل ہوا؛ ایک تخت پر تین عورتیں نظر آئیں؛ ایک ماہ تاباں، دوسری زہرا، تیسری مشتری، آپس میں یہ کہہ رہی تھیں " اگر کوئی ہم کو اپنے ساتھ
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 85
پری زادوں کے فلانے ملک میں لے چلے، ہم اس ملک کی حکومت بے تردد اس کے قبضہ ء تصرف میں کردیں۔" ماہ تاباں نے کہا " اگر ایک پھول شاہ لالہ کے باغ کا ہاتھ لگتا تو میں بارہ برس کی ہو جاتی۔ کیا کیجئے، جوگی کےاولاد نہیں۔" ناگاہ ان میں سے ایک کی نظر اگر شاہ پر جا پڑی، ہکا بکا ہو کر پوچھنے لگی" تم کون ہو؟" بادشاہ نے کہا " جوگی کا خلف ہوں۔" ماہ تاباں نے کہا " غلط ہے۔" اگر شاہ نے ثابت کیا۔ کمال مسرور ہوئی۔ اس نے دو بیڑے پان کے دیے۔ اگر شاہ نے کہا " اے مادر مہربان! شاہ لالہ کے باغ کا مجھ سے بیان کرو کہ وہ کہاں ہے؟" اس نے کہا " وہ جائے خطرناک، موضع خوف و ہلاک ہے، وہاں کوئی نہیں گیا۔ اس باغ میں ایک حوض ہے ، اس کے منہ پر لوہے کا توا دیا ہے۔ ہزار ہا دیو جمع ہوں، تب وہ توا اٹھایا جائے۔ علاوہ اس کے دروازہ بھی اس کا دس بیس سے نہیں کھل سکتا۔" بادشاہ ان باتوں پر مصروف تھا، یہاں جوگی کی آنکھ کھلی، پوچھا اگر شاہ کہاں ہے؟ کسی نے کہا " آپ کی محل سرا میں تشریف لے گئے ہیں۔" جوگی نے محل سرا میں جا کر دریافت کیا ۔اس نے کہا "دوسرے محل کی طرف گیا ہے ۔" اگر شاہ نے یہ خبر سن کر آپ کو جلد اس کی خدمت میں پہنچایا۔ پوچھا۔" آپ کا درد سر کیسا ہے؟" اس نے کہا" الحمد اللہ کہ فضل خدا سے اور تیری کوشش سے تندرست ہوں۔" اگر شاہ نے عرض کیا کہ حضرت سلامت مجھے اپنے محلوں کے نام سے آگاہ فرمائیے۔ جوگی نے کہا" جوگن کا نام تو بھبھوت رانی، شہزادی کا خورشید، پری زاد کا مہتاب، چوتھی کا ماہ تاباں ہے۔" پھر اگر شاہ جوگی سے رخصت ہوکر خلوت خانہء خاص میں تشریف لایا ، آرام فرمایا۔ آدھی رات کے وقت جوگی کی خدمت میں گیا۔ بعد نماز صبح زہرہ و مشتری کو اپنے ساتھ لے کر شاہ لالہ کے باغ کی طرف چلا۔

ریختہ صفحہ 86
جانا اگر شاہ کا شاہ لالہ کے باغ میں اور لانا عجوبہ پری معشوقہ جواہر وزیر کی اور پانا پھول شاہ لالہ کے باغ کا اور حمید وفادار اور ا سپ خوش رفتار کا
کہتے ہیں کہ اگرشاہ زہرا و مشتری کو کہ وہ دونوں ماہ تاباں کی خواصیں تھیں ، ساتھ لے کر قمری کی طرح سریع السیرہوا۔ اس شہر میں پہنچا جس میں وہ باغ تھا۔ باغبان سے کہا کہ ہمیں اس میں سے ایک پھول توڑ لا دے۔ اس نے پری کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر بادشاہ آیا ہے ،ایک پھول طلب کرتا ہے۔ پری نے کہا" چار پانچ سوار جاویں ،اس کی زلفیں پکڑ کے لے آئیں۔" زہرہ و مشتری نے آمد سواروں کی سن کر ٹانگیں اپنی دست دعا کی طرح پھیلا دیں۔ وہ سوار کہ اپنے تیئں پانچویں سواروں میں گنتے تھے، ٹانگوں میں گھوڑوں سمیت غائب ہو گئے۔
شعر
وہ تہہ خانہ تھا ایک بحر عمیق
مع اسپ اس میں ہوئے سب غریق
پری زاد میں غصے ہو کر بھی سوار اور بھیجے، ان کا بھی تھل بیڑا نہ لگا۔ فوج فوج سوار، موج موج پیادے آئے، وہ دونوں اپنے تہ خانہ ءسحر میں بھرنے لگیں۔ قصہ کوتاہ سارے لشکر کو ٹانگ کے نیچے سے نکالا۔ رنڈیوں سے ہزاروں نے شکست پائی۔ اگر بادشاہ نے کہا" اے زہرہ ! مجھے تشنگی غالب ہے، کیا عجب ہے کہ زہرہ آب ہو جائے۔" اس نے کہا کہ یہاں کا پانی پینا مناسب نہیں، آگے بڑھ چلئے، وہاں آب خوشگوار و باغ میوہ جات موجود ہیں۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
آگے بڑھا، کے ایک باغ خوش تزئین با میوہ ہائے شیریں، در و دیوار رنگین، درخت لہلہاتے، جانور چہچہاتے، فوارے چھٹے ہوئے نظر آئے۔ اگر شاہ اس باغ کو دیکھ کر خوش وخرم ہوا اور چاہا کہ پانی ہاتھ سے اٹھا کر پئے کہ ایک قفس آویختہ سے مینا اور طوطے کی آواز آئی " اے بندہ ءخدا! اس نہر سے پانی پینا مناسب نہیں ہے۔" اگر شاہ پانی سے ہاتھ اٹھا کر ان سے مخاطب ہو احوال پوچھا، مینا نے کہا" اے شہریار! مالک اس باغ کا تین دن سے بے آب و دانہ ہے۔ مہمان کو لازم ہے کہ میزبان کے بغیر اکل و شرب سے اجتناب کرے۔" اگر شاہ نے کہا کہ" صاحب باغ کا نشان دو، نام بتاؤ، اس کا حال سناؤ، وہ کون ہے؟ آب و دانہ کیوں ترک کیا ہے؟ بیمار ہے، قید ہے، کسی پر مبتلا ہے؟" طوطے نے کہا" سنیے، نام تو اس کا جواہر ہے، گل بادشاہ کا وزیر، ایک پری کے عشق سے دل گیر، صدمہ مفارقت سے مانند تصویر کے ہو گیا ہے۔" اگر شاہ نے کہا:
ابیات
ہمیں اس سے مدت سے ہے رسم و راہ
ہوا رنج اس کا، خدا ہے گواہ
بتاؤ ہمیں جلد وہ ہے کہاں
ابھی اس طرف ہوتے ہیں ہم رواں
طوطے نے اس کے مکان کا نقشہ دیا۔ شہزادہ اس طرف کو روانہ ہوا۔ جواہر کا باپ دیوان خانے میں بیٹھا روتا تھا، اگر شاہ مستفسر حال ہوا۔ اس نے کہا کہ حال اس کا کیا بیان کروں۔ تین دن سے بے آب و دانہ، ننگ و ناموس سے بیگانہ، دروازہ بند کر کے بیٹھا ہے۔ بادشاہ نے بیت الحزن پر پکارا۔ جواہر کی جان میں جان آئی۔ دروازہ کھولا، اگر شاہ اس کا حال زار دیکھ کر رو دیا۔ اپنی تمام وکمال سرگزشت جواہر نے بیان کی۔ اگر شاہ اس کو

ریختہ صفحہ 88
تسلی دے کر وہاں سے اٹھا، طوطا مینا کے پاس آیا۔ انہوں نے کہا" آپ مہم سر کرنے کو چلتے ہیں تو ہمیں ساتھ لیجیے۔ ایک مشت ہم پر بھی اعتماد کیجیے۔ وہ ہمارے اوج اقبال طوطے مینا کو واسطے تلاش عجوبہ پری کے اپنے ساتھ لے کر روانہ ہوا۔ جب اس پری زاد کے مکان کے نزدیک پہنچا، شور و غلغلہ برپا دیکھا۔ سبب اس کا پوچھا۔ کسی نے کہا" مدت مدید سے ایک پری زاد کے سر میں درد ہے اور چہرہ زرد ہے۔ رات دن سر پٹکتا ہے، نہ جیتا ہے، نہ مرتا ہے۔" مینانے اگر شاہ سے کہا " شاہ لالہ کا باغ جو اس پری زاد کے قبضے میں ہے، اس میں مشرق کی طرف ایک چمن ہے، اس چمن میں ایک پھول ہے کہ جس کے باعث سے یہ گل پھولا ہے اور عوام اس کے خواص سے آگاہ نہیں، پہلے وہ آئے تو اس کا درد سر جائے۔" بادشاہ نے کہا" میرے سوا کون ہے جسے بھیجوں، آپ جاتا ہوں۔" طوطے نے کہا" اے شہزادے! ایک دیو حمید نام کہ مدت سے اسے بیماری جذام کی ہے، اس نے نجوم میں دیکھا ہے کہ رہبری طالع سے وہ شرف آفتاب کہ نام جس کا اگر شاہ ہے، ایک دن اس باغ میں آئے گا۔ اس امید پر وہ دیو اس باغ میں فلانے برج میں مقیم ہے۔ اگر اپنے ہاتھ پاؤں دھو کر تھوڑا سا پانی چھڑک دیجئے، اچھا ہو جاوے،تو وہ جاکر پھول لائے۔" شہزادہ ادھر آیا اور دو رکعت نماز شکرانہ ادا کرکے وہ پانی کہ وضو سے بچ رہا تھا، اس پر چھڑکا ،فورا آزادرحمید کا دور ہو گیا۔ جب کہ حمید کا بدن صحیح و سالم ہوا، وہ سجدہء شکر بجا لاکے بادشاہ کے قدم پر گرا کہ اس احسان کا زیست بھر بندہ رہوں گا، دامن دولت سے جدا نہ ہوں گا۔ بادشاہ نے کہا " فلانے باغ میں جاؤ ، وہاں سے ایک پھول توڑ لاؤ۔" حمید نے کہا" بہت بہتر، جان اپنی غلام تصدق کرتا
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 89
ہے۔" فرمایا کہ تنہا نہ جاؤ، ہم بھی چلتے ہیں۔ اگر شاہ اور حمید، طوطا و مینا، زہرہ و مشتری ادھر روانہ ہوئے۔ طوطے نے کہا" اے بادشاہ! جس وقت وہ پھول توڑنا، اس باغ کی سیر سے منہ موڑنا۔ پھر نظر اس طرف نہ کیجیو، شوروغل پر کان نہ دیجیو:
شعر
نہیں تو سنگ ہو جاویں گے صاحب
تمامی عمر پچھتاویں گے صاحب"
قصہ مختصر جب اس کے دروازے پر پہنچے، حمید نے جھٹ پٹ ایک پھول توڑ لیا۔ پھول کے توڑتے ہی شور گیر و دار ہوشیارباش بلند ہوا۔ ہزاروں دیو باہر نکل پڑے، زہرہ و مشتری نے مجس مخصوص میں گرفتار کر لیے۔ پری زاد یہ خبر سن کر بہت جھنجھلایا اور کہلا بھیجا" انشاء اللہ تعالی تمہاری زیادتی کا ایسا عوض ہوگا کہ پھر عمر بھر یاد کرو گے۔" بادشاہ نے یہ جواب دیا کہ خار اس گل کے لینے کا خاطر مبارک سے دور اور بندے کو دامادی سے مسرور فرمائیے۔ از خورداں خطا، وا از بزرگاں عطا" وہ اس پیغام سے اور بھی خفا ہو کر کہنے لگا " یک نہ شد دو شد " غرض بعد گفتگوئے بسیار کے اس نے کہا" خیر دو شرط پر یہ پیام تمہارا قبول ہے، اگرچہ طبع ہماری تمہاری گستاخی سے ملول ہے؛ اول یہ کہ عارضہء درد سر سے مجھے افاقہ ہو، دوسرے یہ کہ زوجہ میری علیل ہے، تندرست ہو جاوے۔" اگر شاہ نے کہا " جو تم رنجور ہوں تو ہم مجبور ہیں۔ خدا مسبب الاسباب ہے۔" یہ کہہ کر حمید کو لے کر اس پری زاد کے محل میں داخل ہوا۔ پھول پری زاد کو سنگھایا، درد سر بالکل زائل ہوا۔ مدت سے بے خور وخواب تھا، خوب سویا، ماندگی کو کھویا۔ پھر پہر بھر کے بعد آنکھ کھولی، گرانی درد سر سے بدن کو سبک بار پایا۔

ریختہ صفحہ 90
سجدہ ءشکر بجا لایا۔ اگر شاہ کو خاص محل میں لے گیا۔ عورت اس کی کہ ازخودرفتہ تھی، ایک آدمی کا روز خون کرکے کھا جاتی تھی اور نہایت بے قرار اور بیمار تھی، سامنا کیا۔ حمید نے اس کے آزار کو عقل و فراست سے دریافت کرکے، ایک کڑھاؤ میں دودھ بھر کے اس کی پائنتی رکھا۔ ایک سانپ کی کھوپڑی آگ میں ڈالی، اس کی بو سے ایک کالا اژدہا موٹا تازہ ، پھنپھناتا بانبی سے باہر نکل آیا۔ وہ عورت ہوش میں آئی۔ یہ بات زبان پر لائی۔" یہ نامحرم کون لوگ ہیں؟" پری زاد نے کہا " الحمدللہ تمہیں تمیز اپنے بیگانے کی ہوئی۔ اگرچہ یہ نامحرم ہیں لیکن حرمت میری ان سے رہی۔" حاصل یہ کہ وہ پری زاد ممنون منت ہو کر مصروف سامان شادی ہوا۔ کمال عزت و تکریم سے اگر بادشاہ کو مسند دامادی پر بٹھایا۔ اگر شاہ نے اپنا نام جواہر بتایا۔ بلبل کا بلبل سے صیغہ پڑھا، زہرہ کا زہرہ سے عقد کیا، جہیز میں لعل و گوہر، اشرفی، روپے، لونڈی، غلام کے سوا ایک گھوڑا ایسا دیا جس کی جست و خیز کا یہ عالم تھا:
شعر
گاہ آجائے نظر، گاہ نظر سے غائب
گہ ہوا بیچ وہ شب رنگ تھاجگنو کی چمک
حمید نے کہا " اے بادشاہ! گھوڑا نایاب ہے، اس سے بہت کام نکلے گا۔ حمید سا غلام، ایسا اسپ خوش گام قسمت سے ہی ملتا ہے۔ یہ وہ گھوڑا ہے کہ میدان جستجو میں جس کے سمند صبا بھی رہ جائے، گھوڑا وہم و قیاس کا ٹھوکریں کھائے۔" حمید کی باتیں سن کر گھوڑا ہنسا۔ شہزادہ اس کے خلاف ادب ہنسنے سے آزردہ ہوا۔ اس بے زبان نے رفع ملال کے واسطے حمید سے یہ خطاب کیا: " جس روز سے خالق انس و جان نے مجھے پیدا کیا ہے، آج تک مجھ
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 91
پر کوئی سوار نہیں ہوا۔ یہی تمنا ہے کہ اگر شاہ مجھ پر سوار ہو۔"
بادشاہ اس کی گویائی سے راضی ہوا، سواری کا وعدہ کیا۔ غرض عجوبہ پری کو ماں باپ نے رخصت کیا۔ طوطا مینا چہچہا کرتے ہوئے اور زہرہ ومشتری قہقہہ مارتے ہوئے ساتھ ہوئیں۔ بادشاہ نے حمید سے کہا" تم آگے جاؤ ، جواہر کو یہ مژدہ سناؤ۔"
شعر
پیام وصل اے قاصد نہ کہنا بے دھڑک اس سے
مبادا سنتے ہی اس کو وہ شادی مرگ ہو جاوے "
حمید ادھر گیا، جواہر کو یہ مبارکباد دے کر کہا" اٹھو، بیٹھو، ہنسو، بولو، جس سے لو لگائی تھی وہ شمع رو اگر شاہ کے اقبال سے تجھ پروانہ کی زیب انجمن ہوئی۔" جواہر خوشی سے شعلے کی طرح بھڑکنے لگا۔ اس مکان کو رشک جنان کر کے اگر شاہ کے استقبال کے واسطے روانہ ہوا۔ اگر شاہ، عجوبہ پری کو جواہر کی صدف آغوش تمنا میں دے کر فورا گھوڑے پر سوار ہوکر شاہ لالہ کے باغ کا پھول لئے ہوئے جوگی کی خدمت میں پہنچا۔ اس نے کہا" اے بندہ ءخدا! ناحق اپنی جان غیروں کے واسطے ہلاکت میں ڈالتا ہے، تیرا پدر بھی جوان ہے، اس کے واسطے عجوبہ کو لایا ہوتا۔" عرض کی کہ بہت خوب، اب کی مرتبہ حضرت سلامت کی خاطر حاضر کروں گا۔ یہ کہہ کر ہنستا ہوا محل سرا میں گیا، شاہ لالہ کے باغ کا پھول ماہ تاباں کو دیا ، اس تحفے کی جہت سے وہ بارہ برس کی ہوگئی۔ وہاں سے اپنی تخت گاہ میں تشریف لایا۔ چالیس بادشاہ کے اس کے حلقہ ءغلامی میں تھے، ان کو تاج بخشی کرکے ہر ایک کے ملک کو رخصت کیا۔

ریختہ صفحہ 92
سیر کو جانا اگر شاہ کا جوگی صاحب اور ان کے محلات کے ساتھ مع مو تی رانی اور عجوبہ پری کے اور ملاقات سیمرغ کی اور خبر پانی شہباز کی اسی سے، پھر آوارگی شہباز کی تلاش میں
جب سیمرغ زریں بال مغربی، تاج مرصع سر پر رکھ کر طرف مشرق کے خراماں ہوا، اگر شاہ نے موتی رانی اور شہر یار اور عجوبہ پری اور جواہر کو حمید کے تئیں بھیج کر طلب کیا۔ بہ مجرد طلب کے سب حاضر ہوئے۔ پھر جوگی صاحب سے کہا" آج میرا جی چاہتا ہے کہ حضرت کے چاروں محلوں کے ہمراہ رکاب باغ کی سیر کو جاؤں، دو چار گھڑی دل کو بہلاؤں۔" جوگی صاحب نے کہا " بابا! میں بھی چلوں گا۔" اس نے کہا " بہت خوب!" اگر شاہ مع جوگی صاحب اور شہریار اور جواہر اور حمید سوار ہوا، زنانی سواریاں ہمراہ تھیں۔ ایک باغ کے دروازے پر پہنچے۔ اگر شاہ نے قفل اس کا کلید انگشت سے کھولا۔ باغ میں داخل ہوئے، حاضرین متعجب ہوئے۔ کسی نے کہا " یہ تو کرامات آپ کی دیکھی مگر یہ بھی طاقت ہے کہ برن بدلیے، روح کو اور قالب میں لائیے؟" کہا " البتہ سو طرح سے برن بدل سکتا ہوں۔" یہ کہہ کر اس پری پیکر نے دیو مہیب کی صورت بنائی۔ منہ سے شعلے نکلنے لگے۔ ایسی صورت خو فناک تھی کہ موتی رانی اور عجوبہ پری سہم گئیں۔ اتفاقا اگر بادشاہ بھی اس وقت تخت پر سوار ادھر سے آ نکلا۔ یہ کارخانہ دیکھ کر بہت سا جلا بھنا اور کہنے لگا۔
ابیات
وہ فن کون سا ہے جو اس میں نہیں
کہیں دیو ہے یہ ، پری ہے کہیں
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 93
یہ ہے صورت اژدہا شعلہ ور
اسے شعلہء آہ سے کیا خطر
گل بادشاہ تو اس طرح سے کہہ رہا تھا، جوگی کی نظر اس پر جا پڑی ۔اگر پر غصے ہوا، شور کیا۔ وہ اس کے کہنے سے صورت اصلی پر آیا۔ واہ واہ کی صدا زمین سے آسمان تک بلند ہوئی۔ گل بادشاہ متعجب ہو کر کہنے لگا۔
شعر
شعلہ ہے، برق ہے، ہوا ہے یہ
کچھ نہ ثابت ہوا کہ کیا ہے یہ!
اگرچہ گل ہر ادا پر نثار اور ہر صورت پر بے قرار تھا لیکن بہ مجبوری اپنے ملک کو روانہ ہوا۔ اگر شاہ نے اس باغ میں جشن نوروز ی ترتیب دیا، ارباب نشاط کو طلب کیا، صحبت ناچ و رنگ کی ہوئی۔ یہ خبر سیمرغ نے جو پائی، وہ بھی اس باغ میں آیا۔ دعا دے کر کہنے لگا: الحمدللہ! دوبارہ تیرے دیدار سے آنکھیں روشن ہوئیں۔ میں نے سنا ہے کہ حضور وقت تبسم غنچہء دہن سے گل ا فشانی فرماتے ہیں، دامن نظارہ کو گل آگیں کیا چاہتے ہیں؟" وہ نو بہار گلستان محبوبی اس کی تمنا پر ہنس پڑا۔ پھولوں سے سیمرغ کا دامن بھر گیا۔ شہر یار اور جواہر نے اپنے دل میں کہا کہ گل بادشاہ اگر یہ گل فشانی دیکھتا تو ہزار دل سے تصدق ہوتا۔ سیمرغ نے ایک تاج مرصع نذر کیا۔ وہ تاج اس کے فرق مبارک پر نہایت مزیب ہوا۔ پھر اس سیمرغ نے عرض کیا " اے بادشاہ ! اور تو سب کچھ عنایت ایزدی سے حضور میں سامان سلطنت مہیا اور موجود ہے، لیکن دست مبارک شہباز سے خالی ہے۔ مگر وہ شہباز جو تجھ سے سراپا ناز کے قابل ہے، خواص عنقا کا رکھتا ہے۔ میسر ہونا اس کا محال، کس کی مجال

ریختہ صفحہ 94
جو طائر وہم ادھر اڑائے، سات سمندر پار جائے۔ اس کا لانا بہت دشوار ہے۔ دو طرف دریائے آب جوشاں، دو طرف سے آتش سوزاں۔ دریا میں گرے نیست و نابود، آتش میں پڑے تو دود ہووے۔ اور بالفرض اس را ہ سے اگر سلامت گزرے، جوں ہی شہباز کا نام لے کر پکارے، آواز کے تمام ہوتے ہیں خاک کا تودہ ہو کر گر پڑے۔ آدمی کیا، پری زاد بھی اسے نہیں لا سکتا، دیو و دد بھی نہیں جا سکتا۔" شہزاد ےنے کہا " ان شاءاللہ ہم جائیں گے اور تائید ربانی سے اسے لائیں گے۔" سیمرغ نے کہا کہ خبردار! زنہار ادھر کا قصد نہ کرنا، اس طرف بھولے سے بھی قدم نہ دھرنا۔ اس نے نہ مانا۔ پھر حمید اور گھوڑے سے پوچھا، دونوں نے متفق اللفظ ہو کر التماس کیا کہ یہ سفر سراسر پر خطر ہے، اس میں جان کا ضرر ہے، کسی طرح جانا وہاں کا مناسب نہیں۔ جانور لا یعقل کےکہنے پر عمل کرنا عقل و فراست سے دور ہے۔ اگر شاہ نے ایک نہ سنی، جانے پار مستعد ہوا۔ مجبور ہوکر حمید نے کہا" میں نے یہ بھی سنا ہے کہ شہباز مرد کے سوال کا جواب نہیں دیتا ہے۔ یہی منظور ہے کہ لباس زنانہ قامت پرراست کیجیے۔" اگر شاہ پوشاک زنانہ کہ اس کے قد و قامت پر قطع ہوئی تھی، پہن کر گھوڑے پر سوار ہوا، حمید کو ساتھ لیا، مردانہ وار اسپ فلک سیر پر سوار ہو کر روانہ ہوا۔ فضل خدا سے سب راہیں پرخطر اور ساتوں سمندر طے کرکے ساحل مراد کو پہنچا۔ شہباز کو آواز دی کہ اے یار جانباز! بڑی جاں بازی سے تجھ تک پہنچا ہوں۔ تجھے قسم ہے اس بے نیاز کی کہ میرے پاس آ۔ یہ سنتے ہی شہباز پرواز کر کے بازی معشوقانہ کرتا ہوا اس زہرہ جبیں کے ہاتھ پر آ بیٹھا
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 95
شعر
نہیں معلوم کیا لذت ملی ان کو اسیری میں
کہ مرغان چمن یوں دام میں آ آکے پھنستے ہیں
اگر بادشاہ دام اندوہ سے مخلصی پائی اور کہنے لگا " ہم نے عنقا کو بھی دامن محبت سے شکار کیا۔" اس باغ کی سیر کی، انواع و اقسام کے میوے لگے ہوئے دیکھے ۔چاہا کہ کچھ کھا وے، اس اندیشے سے کہ کوئی اور گل نہ پھولے، تامل کیا۔ گھوڑے نے کہا "اندیشہ نہ کیجیے ،شوق سے نوش فرمائیے۔" دو چار دانے انار کے تناول فرما لئے ،کچھ میوے تر و تازہ توڑ کر گھوڑے کی خر جین میں بھر لیے ،پھر وہاں سے سوار ہوئے۔ اسپ فلک سیر نے عالم بالا کا تماشا دکھایا۔ القصہ اس سرزمین کو طے کرکے اپنی مملکت میں پہنچے، ناگاہ جوگی کی نظر ان پر جا پڑی۔ خیال گزرا کہ کوئی دیو اڑا جاتا ہے، اس قادر انداز نے تیر کمان میں جوڑا۔ وزیر نے کہا" ہاں ہاں کیا غضب کرتے ہو۔ اگر شاہ کو بھی سیروشکار کی عادت تھی۔" جوگی نے تامل کیا، اتنے میں دیکھا کہ شہزادہ اسپ باد رفتار پر سوار، شہباز ہاتھ پر، حمید جلودار، آسمان سے اترا ۔ جوگی نے وزیر کی تحسین کی، حمید کو گھر کا، گھوڑے کو جھڑکا، یہ زبان پر لایا" تمہی اسے ساری خدائی میں آوارہ لیے پھرتے ہو، اب غضب ہوا تھا، تیر کمان میں جوڑ کر چاہا تھا کہ اسے نشانہ کروں، خود ہدف ملامت ہوں، وزیر نے منع کیا، اس کا ممنون ہوا
شعر
غضب تھا گر اسے کرتا ہدف میں
تو ہوتا اپنے ہاتھوں پھرتلف میں"
اور شہزادے سے کہا " ان بدبختوں کو اپنے پاس سے دور کر۔"

ریختہ صفحہ 96
شہزادے نے کہا" بہت بہتر" پھر جوگی صاحب نے شہباز کے لانے کی بڑی خوشی منائی، بہت سی دولت اس کے تصدق میں لٹائی۔وہ مژدہ ہر ایک بادشاہ کو پہنچا، مبارکباد کو ہر طرف سے قاصد آیا، تصدق لایا۔ شہزادے نے میوےاس باغ کے جوگی جی کو کھلائے، منصور شاہ کو دو چار خوان بھجوائے۔ بادشاہ و وزیر دونوں خوش حال ہوئے۔ سیمرغ بھی مبارک باد کو آیا، یہ زبان پر لایا۔
شعر
ترے شہباز ہمت نے کیا عنقس کو صید اپنا
اسے تسخیر کہتے ہیں ، اسے اقبال کہتے ہیں
پھر اگر بادشاہ نے گل بادشاہ سے کہلا بھیجا کہ ہمارے سفر کرنے کی ، شہباز کے لانے کی ، یقین ہے کہ خبر پہنچی ہوگی ، طوطے ہاتھ کے اڑ گئے ہوں گے ،بدحواسی میں اتنی توفیق نہ ہوئی کہ صدقہ تیل ماش بھی بھیجتے۔ یہ کارنمایاں بہت ناگوار گزرا۔" گل بادشاہ نے اس کے جواب میں کہلا بھیجا کہ میں نے صدقہ اس لیے نہیں حاضر کیا کہ میں اپنے تیئں آپ کی ایڑی چوٹی پر تصدّق کروں گا گا اور قریب ہے کہ ایک شخص ہماری طرف سے حاضر ہوگا ۔ جو راہ ورسم ہماری اور جوگی صاحب کی ہے، گزارش کرےگا۔ خاطر جمع رکھو۔ دوسرے دن جواہر وزیر کو لال دیو نے جوگی صاحب کے پاس بھیجا، اس نے تہنیت اور مبارک باد اگر بادشاہ کے آنے کی، شہباز کے لانے کی عرض کی اور اگر شاہ کو لعل شہزادے ، محمود وزیر زادے کا سلام پہنچایا۔ اگر شاہ نے ہنس کر جواہر سے فرمایا کہ تیرا بھی بادشاہ کتنا حسیس اوردنی ہے۔ جواہر نے کہا" آپ جو چاہیں فرمائیں مگر وہ جان و مال سے آپ پر نثار ہیں۔" القصہ جواہر رخصت ہوا، گل بادشاہ کی خدمت میں
 
Top