اسکین دستیاب قصہ ء اگر گل

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 177
عرصہ ءظہور میں آئے گی آپ پریشانی کو دور کریں، خاطر جمع رکھیں۔" لال دیو کمال بشاش ہو کر شہر خشخاش سے رخصت ہوا۔ گل کو وہ مژدہ سنایا، خوشی سے پھولا نہ سمایا۔
طمانچہ مارنا اگر صاحب کا شغل چوگان بازی میں افلاطون کو اور ملال ہونا گستاخی افلاطون سے عاشق مفتون کو
کہتے ہیں کہ جب سے اگر صاحب نے جوگی صاحب کے مکان کے قریب رہنا اختیار کیا، اکثر محل سرا میں رہے، سیر و تماشا سے انکار کیا۔ ایک دن کا ذکر سنیے کہ شہریار، بسنت، جواہر، منوچہر باریاب ہوئے۔ شہزادے نے کہا" تم کئی روز سے کہاں تھے؟" جواہر نے کہا " خانہ زاد تو کل بھی حاضر ہوا تھا، حضرت محل میں تشریف رکھتے تھے۔ بہت انتظار کیا، چلا گیا۔" بادشاہ نے حکم کیا ہے کہ بہت جلد زنانی پوشاک عروسانہ تیار لوں گا، اس میں کچھ غفلت کی تو اس علت میں بہت بیزار ہو ں گا۔" اگر صاحب نے کہا " تمہارے بادشاہ کے پیچھے ایک نہ ایک علت لگی رہتی ہے، وہ علتی ہوگیا ہے۔" بسنت نے بھی کہا" غلام بھی ان دنوں میں بہت عدیم الفرصت ہے، تیاری زیور کی مجھے خدمت ہے۔" شہر یار نے کہا ہے کہ غلام روشنی و جلوس وغیرہ کے تردد میں ہے۔ منوچہر نے کہا " خانہ زاد کو اہتمام محفل اور بخت طعام سپرد ہے۔ ظاہرا معلوم ہوتا ہے کہ کسی سے نامزد ہوا چاہتے ہیں۔" شہزادے نے کہا " ایسا نہ ہو، تمہارا بادشاہ شادی مرگ ہو جائے۔" وزیروں نے کہا " آپ اپنی زبان سے یہ نہ فرمائیں بلکہ اس کا رخیر کی خیر منائیں۔" القصہ یہ باتیں دیر تک رہیں۔ بعد ازاں اگر شاہ چوگان بازی میں مشغول ہوا۔

ریختہ صفحہ 178
کہ ناگاہ قلغی اگر شاہ کے تاج سے جدا ہو کر گر پڑی۔ افلاطون اس لحاظ سے کہ شاید کسی کا پاؤں پڑ جائے، اس طرح گھبرا کر اٹھانے کو دوڑا کہ شہزادے کے گال سے اس کا گال مل گیا۔ شہزادے نے غیرت پاکدامنی سے ایک طمانچہ اسے مارا، برا بھلا کہا۔ افلاطون نے اس روداد سے رو دیا۔ اگر شاہ کے دل میں گل بادشاہ کے خار رنج کا کھٹکا پیدا ہوا کہ شاید تحت ہوا پر سوار دیکھتا ہو۔ حسب اتفاق گل شاہ تحت ہوا پر سوار تھا، اس امر سے نہایت منقبض ہوا اور آزردہ ہو کر چلا گیا۔ یہاں شہزادہ بھی مکدر ہوا، چوگان بازی سے باز رہا، دریا کی طرف شکار کھیلنے کو گیا۔ بسنت سے کہا " ہمارے واسطے مچھلی کے کباب اپنے گھر سے پکا لا۔" ہم تو ادھر گیا، شہزاد ےنے کہا " اے جواہر! میرا جی گھبراتا ہے۔" اس نے کہا " گل بادشاہ کی طرف چلیے، دو چار گھڑی استراحت فرمائیے۔" شہزادہ اس کی طرف گیا، صاحب خانہ کو مکان میں نہ پایا، اس کی خواب گاہ میں سو رہا۔ گل بادشاہ اس کے آنے کی خبر سن کر کام نا تمام چھوڑ کر دوڑ ا آیا۔ کئی بار نام لے کر پکارا، اگر شاہ مطلق بیدار نہ ہوا۔ افلاطون کی حرکت سے شعلہ غصہ و غضب کا یوں سینے میں مشتعل تھا، ضبط نہ ہوسکا، آہستہ سے ایک طمانچہ مارا۔ شہزادہ خواب سے چونک اٹھا۔ گل رخسار سوسن کی طرح نیلگوں ہوگیا۔ کچھ نہ کہا۔ وہاں سے اپنے مکان میں آیا۔ حمید سے فرمایا " کسی کو اس وقت آنے نہ دینا۔" بسنت مچھلی کے کباب لے کر حاضر ہوا، حمید نے عرض کی۔ بسنت کو خدمت میں بلایا۔ اس نے کباب گزرانے۔ پھر عرض کی " ابھی رخسارہ ء قمر لقا جرم کلف سے مبرا دیکھا تھا اور کل آپ نے افلاطون کو طمانچہ مارا تھا۔ طرفہ ماجرا ہے کہ نشان اس کا چہرہ ءاقدس پر آج تک ہویدا ہے۔" شہزادے نے اس کو اور باتوں میں لگایا۔ ٹالا بالا بتایا۔ چند روز خلوت میں رہا۔ کئی دن
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ179
کے بعد جواہر اور شہریار آیا۔ حمید سے عرض کروایا۔ کہا " میرے پاس ان کا پیام نہ لاؤ۔ ان سے کہو، جاؤ! اپنے بادشاہ کی خبر لو، اول منزل پہنچاؤ۔" غرض بہ کمال منت و سماجت پروانگی ہوئی، صحبت رہی۔ دستر خوان بچھا، کھانا کھانے کو فرمایا۔ وزیروں نے عذر کیا اور کہا " وہاں بھی حضرت کی عنایت ہے؟" اگر صاحب نے کہا " کچھ کہو تو، یہاں کھانے میں کیا قباحت ہے؟" کہا " کیا عرض کریں کہ جس دن تک حضرت تشریف لے گئے تھے، گل بادشاہ اچھی طرح کاروبار میں متوجہ تھے۔ بعد حضرت کے تشریف لانے کے عجب عارضے میں گرفتار ہیں، آب و طعام سے بیزار ہیں، خفقان ہیں، بیمار ہیں۔ دو چار دن میں فی الحقیقت نصیب دشمناں مردے کی صورت بن گئے ہیں۔ اصلا حال ان کا سمجھ میں نہیں آتا، کچھ کہا نہیں جاتا۔ جب وہ نوش فرمائیں گے، تب غلام بھی کھائیں گے۔" شہزادے نے کہا " اے بھائی! آؤ دو چار لقمے کھاؤ۔ وہ ایسے روز ہی فیل لاتا ہے، کوئی کسی کے ساتھ مر نہیں جاتا ہے۔" پھر انہوں نے عذر کیا۔ فرمایا " تمہارے رنج سے ہمارا بھی جی نہیں چاہتا۔ دسترخوان بڑھاؤ اور یہ خوان کھانے کے اپنے ساتھ لے جاؤ اور اس فاقہ کش کو کھلاؤ۔" القصہ وزیر یہاں سے رخصت ہوئے۔ خوان خاصے کے بادشاہ کی خدمت میں لائے۔ عرض کی کہ شہزادے نے آپ کے واسطے دعوت بھجوائی ہے، رد کرنا مناسب نہیں، کچھ نوش فرمائیے " بادشاہ نے کہا " وہ تو مجھ سے خفا ہیں۔" وزیروں نے کہا " نہیں بلکہ بر سر لطف و عطا ہیں۔ "
جانا اگر صاحب کا گل شاہ کی خواب گاہ میں اور عوض لینا طمانچے کا اس رسم واہ میں
کہتے ہیں کہ ایک دن شہزادہ سیر چاندنی میں مشغول تھا۔ کسی نے عرض کیا کہ اے شہزادہ ءدریا دل! جی لہراتا ہے کہ آج

ریختہ صفحہ 180
چادر مہتاب بر روئے آب دیکھیے اور دامن صحرا قطع کر کے دریا کا پاٹ لیجئے۔ شہزاد ےنے گوہر مقصود کو صدف اجابت میں بھرا، دریا پر گیا۔ وہ کنارہ دریا کا، سرد ہوا۔ سامان چاندنی کا بیان نہیں ہو سکتا۔ جوش خواب نے چشمہء چشم پر شہزادے کے عبور کیا۔ شہزادےکے خواص خمسہ کو طلاطم ہوا ، گرداب غفلت میں پڑے۔ شہزاد ےنے رفع غنودگی کے لیے منہ ہاتھ دھونے کو پانی ہلایا اور ہاتھ میں اٹھایا۔
شعر
معطراس کے اٹھانے سے بس کہ آب ہوا
حباب بحر ہر اک شیشہء گلاب ہوا
اس وقت مہتاب بھی اس کے مقابلے میں تھراتا تھا، پانی پانی ہوا جاتا تھا۔ ہر ایک جانور دریائی دو مہتاب کے تماشے کو نکلے، اکثر بحر تردد میں غوطہ زن تھے۔ اکثر فرح وسرور سے اچھلتے تھے۔ ہرچند شہزادے نے نیند کو ٹالا مگر غلبہ اس کا کم نہ ہوا۔ جواہر نے عرض کی کہ خواب گاہ گل شاہ کی یہاں سے نزدیک ہے، وہاں چلئے، استراحت فرمائیے۔ شہزادے نے کہا " وہ حیوان خصلت مخل خواب ہو گا۔ " اس نے کہا " وہ تو کئی دن سے اپنے چچا کے گھر میں تشریف رکھتے ہیں۔" اگر شاہ وہاں گیا اور اس کے پلنگ پر سو رہا۔ اتفاقا بادشاہ اسی وقت آگیا، پوچھا " کیا آپ آئے ہیں؟ " جواہر نے کہا " آئے ہیں، مگر اس وقت آپ کا تشریف لانا بندے کے حق میں برا ہوا۔؛ میں نے ان سے کہا تھا کہ وہ مہمان گئے ہیں۔" غرض کے گل شاہ خواب گاہ میں آیا، اس کے پہلو سے تکیہ اٹھا کر برابر لیٹ گیا۔ اس نے تکیہء پہلو سمجھ کر نیند میں اپنے پہلو سے خوب لپٹایا۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 181
شعر
کیوں نہ ممنون ہوں میں اپنے طالع بیدار کا
ہے میسر مجھ کو تکیہ پہلوئے دلدار کا
القصہ گل بادشاہ نے اس پری پیکر کی ہم آغوشی سے خوب حظ اٹھایا۔ نشہء عشق میں تمیز نیک و بد نہ رہی، سینے سے سینہ گال سے گال ملایا۔ ایک بار اگر صاحب کی آنکھ کھل گئی، بے باکی اس کو نہایت ناگوار ہوئی۔ ایک گھونسہ پہلو پر تان کر ایسا مارا کہ وہ دل پر ہاتھ رکھ کر بے ہوش ہو گیا۔ یہ گھوڑے پر سوار ہوکر حمید کو ساتھ لے کر روانہ ہوا۔
خوش طبعی کرنا اگر صاحب کا گل شاہ سے پتلی طلسم کی لاکر اور حیران و متعجب ہونا گل شاہ کا اس سے شرما کر
ایک دن شہزادے نے رفیقوں سے کہا " کون کون حاضر ہے؟ آج شغل تیر اندازی ہو، دیکھیں کون اس پر قادر ہے؟ " پے در پے ہر ایک نے شکر کیا کہ ان کی نشست سے ہماری طبیعت کو پستی حاصل ہوئی تھی، الحمدللہ کہ اس چلہ نشین کے گوشہ ء خاطر میں بلندی اور برجستگی آئی۔ تیر کی طرح کمربستہ دستہ آئی۔ جواہر نے نشانہ پوچھا، کہا " کوئی گل توڑ کر رکھ آ۔" کہا " اس نے کیا ایسی خطا کی کہ ہم نام تک نشانہ بنا۔" ہر چند وہ بچارا بار اندوہ سے شکل کمان ہو گیا ہے مگر آپ کی سخت گیری نہیں جاتی۔ یہ باتیں تھی کہ گل بادشاہ بھی آیا۔ دیکھا کہ اگر شاہ تیر کو کمان سے جوڑے کھڑا ہے۔ نشانہ بن کر سامنے کھڑا ہوا اور کہا " اے شہزادے!

ریختہ صفحہ 182
شعر
درون سینہء من زخم بے نشان زدہ
بحیرتم کہ عجب تیر بے کماں زدہ
گل حاضر ہے، برائے خدا نشانہ کرو۔" شہزادہ کھل کھلا کر ہنس پڑا۔ پھر گل شاہ نے کہا " اے صاحب! کچھ شرط بھی تجویز کی ہے؟ " اگر شاہ نے کہا " جس کاتیر اس درخت کے پار ہو، وہ دوسرے کا مختار ہو۔" گل بادشاہ نے کہا " کیوں صاحب! اگر میرا تیر نشانے سے خطا کرے تو آپ مجھے کیوں کر رکھیں؟ " کہا " ناک کان چھدواؤں، زنانی پوشاک پہناؤں۔" اس نے کہا " چھدواؤ، ہم تو حاضر ہیں۔ دل سے ہارے ہیں، تمہارے حلقہ بگوش ہیں۔" یہ کہہ کر اس انداز سے تیر اس درخت پر لگایا کہ خطا کی۔ پھر شہزادے نے تیر کو اس درخت سے دو سار، حریف کو شرمسار کیا۔ منہ پھیر کر مسکرا کر کہا " میں تم سے شرط جیتا۔" گل نے کہا " صدقے اس کہنے کے اور قربان شرما کے مسکرانے کے۔ اب جلدی چلو۔ مجھے عورت بناؤ، مجھ سے خدمت لو، پاؤں دباؤ، پھر میری تیراندازی کی سیر دیکھو۔" غرض اسی طرح ہنستے بولتے رہے۔ وقت رخصت گل سے کہا " تم نہا دھوکے عورت بن رہنا، ہم آئیں گے۔" وہ ادھر گیا، شہزادہ اپنے مکان میں آیا۔ ماہ تاباں سے کہا " کوئی ایسا طلسم آپ کے پاس ہے کہ جس سے مردخجل ہو؟" اس نے کہا " ایک پتلی طلسم کی ہے۔ اگر مرد کے پہلو میں رکھ دو، وہ پتلی عورت بن جائے اور اپنے منہ سے وہ باتیں کرے کہ مردمنفعل ہو۔" شہزادہ وہ پتلی طلسم کی لے، حمید کو ساتھ لیا، گل شاہ کی خلوت گاہ میں آیا۔ اس کو سوتا پایا، وہ پتلی اس کے برابر لٹا دی اور آپ چھپ رہا۔ دفعتاً وہ پتلی سو برس کی بڑھیا بن گئی۔ سر سفید، زندگی سے نا امید، پشت خم، چشم پر نم ، ہاتھ پاؤں میں رعشہ، نوجوانوں کا تماشہ،
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 183
بلا سے بدتر، کریہ منظر، صورت دلالہ، شیطان کی خالہ، جو اسے دیکھے زندگی پر تاسف کرے۔
اشعار
ضعیف اس قدر تھی وہ دیرینہ سال
ہوئے تھے سفید اس کی پلکوں کے بال
جو لگتی بدن کو نسیمہ پگاہ
لرزتی تھی وہ مثل برگِ گیاہ
کوئی دانت منہ میں نہ تھا زینہار
کہ روتی ضعیفی کو وہ دھاڑ مار
ہوا جھریوں سے یہ حالِ بدن
چنیں جس طرح دامنِ پیرہن
مگر اس پر سرخ کپڑے پہنے، لکھوٹا جمائے، مسّی، مہندی لگائے گل بادشاہ سے وہ بلا کی طرح لپٹی مچھّیاں لینے لگی۔ گل اس کی گرمی سے بے تاب ہوا، جل بھن کے کباب ہوا۔ کہنے لگا " اے کم بخت! تو کون ہے؟" اس نے کہا "ہاں صاحب! آپ کا ہے کو پہچانئیے گا۔ غرض کے آشنا تھے، جب سے کہ تجھ سے سابقہ ہوا، تیرے عشق اور دامِ محبت میں گرفتار ہوں۔ تو اوروں پر مرتا ہے، میں تجھ پر مرتی ہوں۔ آج بعد مدت کے پھر اکیلا پا کے سرگرمِ احتلاط ہوئی ہوں۔" گل نے گریبان پھاڑ ا، وزیروں کو پکارا۔ وہ چمٹی ہوئی تھی کہ اگر شاہ موجود ہوا۔ گل نے چاہا کہ اس آفتِ ناگہانی سے چھڑا کر بھاگے، وہ کب چھوڑتی تھی؟ گھبرا کر شاہزادے کا ہاتھ پکڑا۔ اس نے کہا " یہ گر می اپنی نانی صاحبہ سے کیجئے، یہ قدیم سے آپ پر عاشق ہیں۔" گل شاہ شرم کے مارے عرق عرق ہوا، آنکھیں نیچی کر لیں، سر نہ اٹھایا، تلوار کی طرف ہاتھ

ریختہ صفحہ 184
دوڑایا۔ شہزادے نے حمید کی طرف اشارہ کیا، اس کو ہٹا دیا۔ کہا لعنت ہے اس اوقات پر، تف ہے ان حرکات پر۔ اس دن چوگان بازی میں نادانستہ میرے بھائی افلاطون سے وہ حرکت ہوئی، اس پر میں نے ہزار آدمی میں طمانچہ مارا، ذلت دی، تو بھی آپ کی بدظنی نہ گئی اور مجھ سے وہ حرکت ناشائستہ کی۔ اب میں اس کا آپ سے کیا عوض لوں؟ چاہیے کہ ہزار طرح سے ذلیل کروں " بادشاہ نے کہا" حضرت سلیمان کی قسم ہے، یہ بلائے ناگہانی ہے، یہ آفت آسمانی ہے۔" شہزاد ےنے کہا " جھوٹی قسمیں نہ کھاؤ، بس باتیں نہ بناؤ۔ سبحان اللہ! آنکھوں میں خاک ڈالتے ہو، چند راتے ہو، ٹالتے ہو؟" گل اس کے قدم پر گرا، شہزادہ ہنس کر اٹھا، رخصت ہوا۔ گل بادشاہ اس امر سے نہایت متعجب ہوا۔
بیانِ تزویج و مناکحتِ طالب و مطلوب وہ عقد و وصلِ حبیب و محبوب
لکھنے والا اس داستان شیریں بیان کا لکھتا ہے کہ لال دیو اور منصورشاہ میں برسوں پیغام سلام رہا ،کچھ بادشاہ سے وصلت کا انصرام نہ ہوا۔ آخر گل بادشاہ جوگی صاحب کی خدمت میں گیا، نہایت منت و سماجت سے پیش آیا۔ جوگی صاحب نے کہا " اگرچہ بہ سبب اہلیت کے آپ مجھ کو بزرگ جانتے ہیں اور اس فقیر کو مانتے ہیں، مگر میں بہت تھوڑا تھوڑا ہوتا ہوں کہ مجھ میں تم میں کیا مناسبت ؟ تم بادشاہ ہو، میں گدا ہوں۔" بادشاہ نے کہا " اللہ والے، دین دار، بادشاہ دین و دنیا ہیں اور دنیا دار ہم ایسے سگ د نیا ہمیشہ:
مصرع
بادشہ آتے ہیں پا بوس ِگدا کے واسطے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 185
اور آپ تو میرے عمّو بھی ہیں۔ باپ اور چچا میں کیا فرق ہے! میرا سب طرح سے آپ پر حق ہے۔" غرض ان باتوں کے بعد بادشاہ نے شمہ اپنے سوز نہانی کا ظاہر کیا اور پیامِ وصلت سے ماہر کیا۔ جواب صاف دیا کہ یہ فقیر شوریدہ سر کوئی دختر نہیں رکھتا۔ اگر ہوتی تو انکار نہ کرتا اور طریقہ ء شریعت سے باہر نہ ہوتا۔ سب جانتے ہیں کہ بارہ برس کی ریاضت میں حق تعالیٰ نے ایک فرزند عطا کیا۔ اس کے سوا یہ سرو آزاد کوئی ثمر نہیں رکھتا۔ بادشاہ نے کہا " تقصیر معاف، یہ تقریر ان کے مناسب حال نہیں۔ خوشحال وزیر نے بشرطِ رضامندی آپ کے ان کی نسبت میرے ساتھ کر دی ہے۔ اگر وہ صاحبزادہ ہوتا، وزیر اس امر پر کیوں آمادہ ہوتا؟* جوگی صاحب نے فرمایا " دریافت کیا جائے گا، اس کا جواب کل دیا جائے گا۔" پھر جوگی ماہ تاباں کے پاس گیا۔ کہا " تم اگر صاحب کو بلاؤ، گل شاہ کا آنا اور یہ گفتگو ان کو سناؤ اور پوچھو کہ شرع میں کیا شرم ہے؟ فضل الٰہی سے بالغ عاقل ہو۔ اگر تم کو تزویج میں اس سے عذر نہ ہو تو طریقہء مصالحت درمیان میں آئے اور نہیں کلامِ منازعت پیش کیا جائے۔ ہر چند جواب صاف میں خرابی ہے، طرفین کی بربادی ہے۔" اگر صاحب نے وہ پیام سنا۔ ماہ تاباں سے کہا " ہر چند یہ امر طبیعت پر بہت ناگوار ہے لیکن یہ خیال بربادی اس خاندان کے بشر وطہا اختیار کیا جاتا ہے: اول یہ لباس مردانہ نہ اترے، دوسرے میری رضا اپنی رضا پر مقدم سمجھے، تیسرے میرے مقدمے میں اور کو دخل نہ ہو، چوتھے جوگی صاحب کی ملاقات سے مانع نہ ہو۔" ماہ تاباں نے جوگی صاحب سے وہ مقدمہ بیان کیا۔ جوگی صاحب نے بے کم و کاست گل صاحب پرعیا ں کیا۔ فورا گل بادشاہ نے دستاویز لکھی ، مہر کر دی۔ جوگی صاحب نے منصور شاہ کو مع خوشحال وزیر بلا بھیجا۔ سب حال مفصل بیان کیا اور

ریختہ صفحہ 186
گل بادشاہ کی اہلیت اور حسنِ تدبیر پر ہزار آفریں، بادشاہ نے تحسین کی۔ گل بادشاہ بامراد شادشاد رخصت ہوا۔ لال دیو اور قریش بیاہ کی تیاری میں مصروف ہوئے، دولہا دولہن مانجھے بیٹھے۔ چند روز جھٹ پٹ گزر گئے۔ نوشاہ کی طرف ساچق بڑی دھوم دھام سے چلی، ہزاروں گھڑے سونے چاندی کے، لاکھوں تخت مرصع آر ائش کے:
شعر
ہر اک تخت تھا رشکِ تختِ سپہر
ہر اک پھول تھا غیرتِ ماہ و مہر
امیروں کا ازدہام،و زیروں کا اہتمام، آتش بازی کا چھٹنا، ہاتھی گھوڑوں کا بھڑکنا، اناروں کا زور اور چرخیوں کا شور، رسالہ سوار، پیادے قطارقطار، بڑی دھوم دھام سے ساچق گئی۔
جوگی صاحب نےبہ عزت تمام دولہا کو مسند پر بٹھایا۔ شربت پلایا، پان کھلایا، خلعت پہنایا، رفیقوں کو کشتیاں ہار، شاگرد پیشہ کو انعام بے شمار دیا۔ بعد فراغت دلہا کو رخصت کیا ادھر سے مہندی لے جانے کی تیاری ہوئی، اپنی طبع رنگین میں رنگینی رچی۔ یہ مضمون رنگین ہاتھ لگا کہ اس رنگ کو شنجرف خوش رنگ سے لکھوں یا رنگ حنائی سے رنگوں کہ دو نا رنگ دے گا۔ دوستان یک رنگ نے کہا کہ اور ہزاروں مضمون دست بستہ حاضر ہیں، انہیں دزد حنا کی طرح باندھو، یہ مضمون تو خود بخود رنگینی پیدا کرے گا۔ فقط مہندی سے ہزاروں خوان معمور ہوئے۔ آرائش اور حباب اور کنول کے تختوں کا، مہندی کی سینیوں اور گلکاری کی شمعوں کا، چوبھوں کا، چھڑیوں کا بیان ہو۔ چاروں بہنیں اگر کی سرو آسا اور عجوبہ پری، موتی رانی اور روشن رائے پری اربع عناصر کی طرح جمع ہوئیں۔ مہندی لے کر چلیں۔ نہایت کروفر، بڑے ٹھاٹ سے دولہا
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 187
کے مکان میں داخل ہوئیں۔ القصہ سر و آسانے گل کے ہاتھ میں مہندی لگائی۔ ایک چھلا اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ کہا " یہ اسی کا چھلا ہے کہ جس کے لئے تم نے اپنے تئیں انگشت نما کیا ہے۔" عجوبہ نے کہا " آخر تم نے پری کو شیشے میں اتار ا، کام کیا۔" روشن رائے نے کہا " چشم بد دور، دلہا تو خوب ہے لیکن اگر صاحب کے تلوے کی برابری نہیں کر سکتے۔" موتی رانی نے کہا کہ خبردار خبردار! یاد رکھنا، ان کی جوتی دیکھ کے کسی کا منہ نہ دیکھنا۔ گل شاہ یہ باتیں سنتا تھا، باغ باغ ہوتا تھا۔ غرض اسی طرح ہنستیاں بولتیاں رہیں، ہزاروں باتیں رمز و کنایہ کی کہیں۔ ماہ پروراور گلنار ان چاروں کا جواب دے کر ایک کے بدلے چار سنتی تھیں۔ خوب چھڑیاں چلیں۔ پھر ہار پھول کی کشتیاں بٹیں۔ ریت رسوم سے فراغت کر کے رخصت ہوئیں۔ دن برات کا آیا، گل بادشاہ کو دولہا بنایا۔ موتیوں کا سہرا باندھا۔ گھوڑا بھی اس کی سواری کا پری بنا؛ پھولوں کی پاکھرسہرا بندھا، سنہری زین، سم اس کے رنگین۔ اگر مانی و بہزاد دولہا کی تصویر کھینچیں تو ہم چشموں میں لجائیں شرمائیں اور گھوڑے کی تصویر کے تصور میں کوسو ں ہوش و حواس اڑ جائیں۔ غرض بڑے تجمل و تکلف سے سسرال میں پہنچا۔ ادھر اہتمام، بڑی تیاری، ادھر تکلف سے بیزاری، ہر ایک سے ہر ایک بات میں رکاوٹ، بگاڑ، اس کا لاکھ بناوٹ۔ گورے گورے بلوری ہاتھ، موتی کی لڑیاں دا نت، جو جو بات تھی حسرت و یاس کے ساتھ۔ ماہ تاباں نے تبدیل لباس کی، سو سو طرح سے ترغیب دی، منظور نہ ہوئی۔ ریت و رسم بھی خلاف رسم کے کی۔ خاطر نازک کا ہر ایک کو لحاظ اور پاس ، ان باتوں سے سوائے دولہا کے ہر ایک اداس ۔ دولہا کو اندر بھی نہ بلایا، آرسی مصحف بھی نہ دکھایا۔ مشہور کیا کہ اگر صاحب کی بہن

ریختہ صفحہ 188
کے ساتھ گل صاحب کی شادی ہے۔ جب نکاح سے فراغت ہوئی، شربت پلایا، ہار پان بٹے، جواہرات تصدق میں لٹے۔ برات کی رخصت کا وقت آیا، سر و آسا کو دلہن بنایا، سکھ پال مرصعی میں سوار کر کے رخصت کیا۔ جہیز اس قدر دیا کہ دبیر چرخ بھی اس کی تعداد و شمار میں قاصر، دیوان قدرت کے سوا منشیان کائنات کے احاطہء تحریر سے باہر۔ دولہا کی فرط خوشی دیکھ کر جوگی صاحب کو بڑا تردد اور پس و پیش تھا کہ دشمن اس کے شادی مرگ نہ ہو جائیں۔ دانستہ طرح طرح کے کلام ناملا ئم پیش کرتا۔ وہ عاشق سنتا بھی نہ تھا بجز قبول اور بہت خوب کے اور جواب کیسا؟ بڑے سامان سے برات چلی، دلہا کے دروازے پر پہنچے، سوار ی خود اتاری۔ فورا زمین نیاز پر گرا ، سجدہ ءشکر کو طول دیا۔ پھر چند بار سکھ پال کے گرد پھرا، تصدق ہوا۔ بسنت نے کہا " اے بادشاہ! برائے خدا ایسا نہ گھبراؤ، ایکذرا ہوش میں آؤ۔ آج سب مرادیں حاصل ہیں دلہن پہلے سے علیحدہ مکان میں داخل ہیں۔ جلد جائیے، اپنے تئیں وہاں پہنچائیے۔ یہ عجب تماشہ ہے، سکھ پال میں سرو آسا ہے۔" گل شا جلدی جلدی وہاں پہنچا، گرد پھرنے لگا۔ تصدق ہونے لگا۔ دیکھا کہ رات کی بیداری سے دلہن کے تصور غم پر لشکر خواب نے غلبہ ء تام کیا، روتے روتے آرام کیا۔ قطرے پسینے کے گویا مہتاب پر الماس جڑے ہیں اور بہت سے موتی آنسوؤں کے گل تکیوں کے پاس پڑے ہیں۔ یہ حال دیکھ کر ضبط نہ ہو سکا، گل شاہ بھی بے ساختہ رونے لگا۔ اگر صاحب کی آنکھ کھل گئی۔ کہا" مجھے تم نے ساری خدائی میں شرمندہ کیا۔ ہمیں دیکھ کے ایک ایک آنکھ بچا کے ہنستے ہیں۔ کچھ لوگ سرگوشی کرتے ہیں، کچھ اشارہ کرتے ہیں، کچھ بولیاں بولتے ہیں۔ خیر جو کچھ کیا،
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 189
اچھا کیا، کسی کو کیا منہ دکھائیں؟ یہ جان لو اپنی یہیں تک تھی، اب ہم بھی اپنی جان پر کھیلتے ہیں۔" یہ کہہ کر زہر کی گولی رومال سے کھولی۔ گل شاہ نےدھوکہ دیا۔ پوچھا " یہ زہر ہلاہل کہاں پایا؟" باتوں میں لگایا۔ پھر جھپٹ کے وہ گولی ہاتھ سے لے لی۔ کہا " حق بجانب ہے، تمہارا رنج بجا ہے، آپ نے مجھ ڈوبتے کو سنبھالا، مردے کو زندہ کیا۔ تمام عمر تابع فرمان ہوں، بندہء احسان ہوں۔ سمجھایا بوجھایا۔" غرض دیر تک بہت سی منت اور خوشامد کرتا رہا ۔پھر گھر میں تاکید کی کہ خبردار سوائے شہزادے کے انہیں کچھ نہ کہنا اور ان کے غضب سے خوفناک رہنا۔ گل بادشاہ کی ایک د دا تھی، کمال نک چڑھی، بوڑھی بڑی ہوا سے لڑتی۔ اگر صاحب کی بے لطفی اور بد مزاجی پر اسے غصہ آیا۔ کسی بات میں دخل دیا۔ اس کو برا بھلا کہا، نکال دیا۔ روتی ہوئی اپنے صاحبزادے کے پاس حمایت کی آس میں گئی۔ وہ اور بھی جھنجھلایا۔ ملزم کیا کہ تم نے ان کی بات میں کیوں دخل دیا؟ ہم نے تو پہلے ہی منع کیا تھا کہ کبھی دخل نہ دینا۔ اچھا ہوا، جیسا کیا ویسا پایا۔ بعد عرصے کے ایک دن خود اگر صاحب نے بادشاہ سے کہا " تمہیں اس ددا نے پرورش کیا، گود میں کھلایا، میں نے اسے برا بھلا کہا، نکال دیا، لوگ کیا کہیں گے؟ مجھے بد نام کریں گے۔" غرض اسے بلایا، اس کی خاطر داری بہت سی کی۔ سمجھایا کہ میرے ان کے درمیان میں کبھی دخل نہ دیا کیجئے، یہ بازو بند مرصع لیجئے۔ اس نے وہ زیورطلائی لیا اور پہنا اور اس بات کو کس کر گوہر نایاب کی طرح گرہ میں باندھا۔

ریختہ صفحہ 190
جوگی صاحب کو غنیم سے شکست فاش ہوئی، اگر صاحب نے اس ملک میں آن کر اس کی پاداش کی
ایک دن کا ذکر ہے کہ ایک خواجہ سرا جوگی صاحب کے خدمت گزاروں میں سے اگر صاحب کی خدمت میں باریاب ہوا۔ اس نے پوچھا: " میاں صاحب! جوگی صاحب کی خیر و عافیت بیان کرو۔" خواجہ سرا نے کہا " کیا عرض کروں، ان پر تو عجب طرح کا حادثہ پڑا ہے۔ حریفوں نے چار طرف سے نرغہ کیا، ملک چھین لیا، لشکر منتشر، مفقود الخبر ہوا:
شعر
نیر اقبال ان کے آپ تھے
آپ کیا آئے مقدر پھر گیا"
اس خبر وحشت اثر سے طاقت ضبط نہ رہی۔ حمید کو مع اسپ طلب کیا۔ ہر چند گل بادشاہ نے بہت سمجھایا کہ میں اپنی فوج بھیجتا ہوں، نہ مانا، فورا روانہ ہوا۔ اثنائے راہ میں حمید کی نظر صحرا میں ایک طرف جا پڑی۔ جوگی صاحب کو دیکھا کہ خار غم میں ایک طرف الجھا پڑا تھا۔ زمین سے اٹھا کر فیل فلک شکوہ پر سوار کیا۔ شہزادے کے آنے کی خبر سن کر ہمایوں، بوقلموں دونوں وزیر جوگی کے اس کی رکاب ظفر انتساب میں حاضر ہوئے۔ حقیقت حال مفصل عرض کی۔ شہزاد ےنے کہا " وہ علی گوہر خاک چھاننے سے دستیاب ہوا، خاطر جمع رکھو۔" قصہ کوتاہ حریف سے مقابلہ ہوا۔ اگر صاحب کے آفتاب جمال کے آگے لشکر غنیم ستاروں کی طرح درہم و برہم ہوا۔ اس رستم زمانہ نے اپنے بیگانے کا انتظار نہ کیا۔ مردانہ شیرانہ حریف سے سرگرم پیکار ہوا۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 191
ابیات
ہوا اس طرح روکش و ہم نبرد
پریشاں کیا سب کو مانند گرد
گیا جس پہ تلوار وہ تول کر
سپر اس نے رکھ دی وہیں کھول کر
جواں مرد عاجز ہوئے مثل زن
نہیں تھی وہ زن بلکہ تھی تیغ زن
وہ لڑائی فتح کی مگر دو زخم تلوار کے اس کے بدن پر لگے۔ کہا انہیں ہاروں کے اشتیاق و انتظار میں آج تک پھولوں کے ہار سے انکار رہا۔ بادشاہ نے سنا کہ اگر صاحب نے زخم کاری بدن پر کھایا، حریفوں کو بھگایا۔ جواہر سے کہا " دیکھتے ہو، مجھے نشانہ تیر ملامت کا کیا میں جب تک تدبیر کروں، اپنے تئیں پہنچاؤں، اپنے واسطے سامان ہلاکت کا کیا۔" اس بات کا گل نے ہر ایک سے شکوہ کیا اور اس جرأت کا اسے ملال رہا۔ اگر شاہ نے کہا " آپ خفا نہ ہوں ، آج سے عہد کیا ہے کہ تا زندگی قدم باہر نہ رکھوں، اپنے بیگانے کے سامنے نہ ہوں۔" وہ تو یہی چاہتا تھا، دل میں شاد شاد ہوا۔ ظاہر میں کہا " اس واسطے آزردہ ہوتا ہوں کہ خدانخواستہ اگر آپ کے دشمن ضائع ہوتے ،ہم تصدق تو ہوتے مگر بد نام ہو کے ہوتے۔ پھر سرو آسا سے کہا کہ مرہم سلیمانی کے پھائے بناکر زخموں پر رکھ دو۔ اسی مرہم کی تاثیر سے دو تین روز میں زخم اچھے ہو گئے، غسل صحت کیا، ہر ایک جگہ سے تصدق آیا، جشن ہوا۔

ریختہ صفحہ 192
بہ سبب نازک مزاجی کے دنیا داری بھی نہ ہوتی تھی۔ کسی روز مہربان پایا، گلے سے لگایا اور جو اس پر بھی رخ نہ کیا، دور ہی سے دیکھ لیا۔
شعر
معشوق نمی شود بفرمان
گر بند ہ ء زر خریدہ باشد
ایک روز اس کی ددانے خوشامد کی۔ سر سے قدم تک بلائیں لیں، دعا دی۔ اگر صاحب نے کہا " کہو کیا کہتی ہو؟" کہا " اگر رد نہ کرو تو کہوں۔" کہا " رد نہ ہوگا ۔" ددا نے کہا " جی چاہتا ہے آپ کو زنانی پوشاک پہنے دیکھوں۔" کہا " ہم نے وہ لباس کبھی نہیں پہنا مگر تمہارے کہنے سے پہنتے ہیں۔" وہی جوڑا بیاہ کا کہ بڑے تکلف سے بنا تھا، آراستہ کیا۔
نظم
کرو ں دفترِ حسن کو اس کے باز
سراپا تھی سرمایہ ءحسن و ناز
اعانت کریں شب کی گر اس کے بال
طلوعِ سحر تا قیامت محال
سیاہی درازی میں تھی بے بدل
شبِ ہجر عمرِ حضر فی المثل
قدم تک گئی تھی وہ زلف صنم
سرِفتنہ تھا اس کے زیرِ قدم
جبینِ صنم لوح روئے کتاب
ہر ابرو تھا اک مصرع انتخاب
مژہ دستہ تیر ہائے خدنگ
نگہ برقِ شمشیرِ الماس رنگ
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 193
قیامت نہاں گوشہ ء چشم میں
اجل کا مکاں غمزہ ء خشم میں
کیا دل نے یہ وصف بینی قبول
کہ اک شاخ میں ہیں دو نرگس کے پھول
دمک اس کے عارض میں تھی اس طرح
مطّلا ہو مصحف کو رو جس طرح
یہ نازک تھا لعل لبِ دلستاں
کہ دنداں ہوئے پشتِ لب سے عیاں
مرصع تھے زیور سے یوں اس کے گوش
پری کا ہوا بال طاؤسِ جوش
بنائے جو وہ دستِ قدرت نے ہاتھ
لئے چوم صانع کے صنعت نے ہاتھ
یہ بازو تھے گول اور شانے بھرے
پھسل جائے گر چشم بھی تِل دھرے
کلائی کا یہ رنگ تھا ہر دو سُو
نہ ہو شمع میں جس طرح پشت و رُو
کہوں اس کے پنجے کو گر اسم ذات
لکھوں آبِ زر سے وہ رنگیں نکات
نہ دیکھا کوئی عضو میں نے کرخت
مگر ایک سینہ تھا البتہ سخت
ز بس آئینہ ساں تھی تن کی صفا
کہ سینے پہ پڑتا ہے عکس آنکھ کا


ریختہ صفحہ 194
پسینے کے قطروں میں بوئے گلاب
صفائے شکم سے خجل ماہتاب
درخشندہ ناف اس دُرِ پاک کی
مگر زہر تھی پردہ ء خاک کی
وجودِ کمر کی لطافت گواہ
نہاں چشم سے مثلِ تارِ نگاہ
وہ رانیں بنائی تھیں سانچے میں ڈھال
پھسل جائے جن پر نگاہِ خیال
نہ ہو ساک کیوں روکشِ شمعِ طور
کہ تھی پشتِ پا رشکِ رخسارِ حور
وہ نازک قدم جس کو مژگاں ہو خار
رکھے چشم پر گر کوئی بے قرار
قد و قامت اس کا وہ آفت تمام
قیامت کرے جس کو جھک کر سلام
خموشی تھی ان چتونوں سے پدید
بنازم کہ مارا چنیں آفرید
جس وقت وہ پری بن ٹھن کے آراستہ ہوئی، ناگاہ گل بادشاہ آیا۔ یہ اسے دیکھ کر خلوت گاہ میں آئی۔آنکھ بچا کر کتراتا ہوا وہ بھی پیچھے پیچھے چلا۔ہر چند وہ نہیں نہیں کرتی رہی، اس نے آغوش میں اٹھایا، چھپرکھٹ میں لٹایااور کہا:
شعر
ملا دے ،شبِ وصل میں ،شرم کیسی
دہن سے دہن کو، زباں سے زباں کو
غرض بہت سا چھیڑا، گدگدایا، ستایا اور رلایا ۔ اٹھایا لٹایا۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 195
شعر
آغوش تمنا میں اس گل نے اگر مسکا
لب ہائے نزاکت سے اک شور تھا بس بس کا
ہر چند من بھائے منڈیا ہلائے، تیوری چڑھائی، ناک بھوں بنائی، مگر وہ نشہ ءشوق سے چور، بادیء ذوق میں معمور آج کب سنتا تھا:
نظم
ہوا پھر وہ گل اس کی گردن کا ہار
نکالے، جو تھے ہجر کے دل میں خار
ملادیر تک گال سے اس کے گال
لئے بوسہ ء لب علی الاتصال
لیا خوب سیب ذقن کا مزا
عجب ہاتھ اک نار ۔۔۔لگا
ہوا پھر تو پوشیدہ سب آشکار
نہ عقدے کو چھوڑا وہاں ز ینہار
ہوا سفتہ الماس سے اس کا در
صدف کو کیا آب نیساں سے پر
اٹھے بستر خواب سے پھر شتاب
ہوا ایک کو دوسرے سے حجاب
وہ بدلی جو پوشاک تھی پاش پاش
مبادا ہو راز اس علامت سے فاش
اس نازنین نے وہ پوشاک ٹکڑے ٹکڑے کرکے پھینک دی اور کہا" اس کمبخت نے میری آنکھ شرمندہ کی۔ گل شاہ ہنستا ہوا وہاں

رشتہ صفحہ 196
سے باہر نکل آیا۔ پھر تو وہ حجاب طرفین سے برطرف ہوا، روزمرہ جام عیش چھلکنے لگا۔ ہر وقت ہر ایک بہکنے لگا۔ پھر اگر صاحب نے چار مکان بلند چاروں بہنوں کے واسطے اپنے مکان کے نزدیک خالی کیے، چھت و پردے سے مکمل ہر ایک کی بودوباش کے لئے دیئے۔ جس طرح اس داستان میں ہر ایک اپنی مراد کو پہنچا، ہر حاجت مند کے مقصد و مرام کا انصرام نیک ہو۔
شعر
الہی یہ حق شہ انبیاء
تو کرعفو ناصر کے جرم و خطا

تمت
 
Top