قرآن کی آڑ میں انکارِ حدیث ۔۔۔؟!

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

خرم

محفلین
فاروق بھائی میرے ناقص خیال میں ترتیب کا نقص تو احادیث کے معاملہ میں درگزر کرنا چاہئے کہ ان کو کئی ابواب میں اور ہر طباعت کے دوران تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ وجہ اس کی یہ کہ قرآن کے معاملہ میں تو فرمانِ نبوی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوا کہ اس آیت کو فلاں‌سورت میں فلاں جگہ پر رکھو اور اس سے روگردانی قرآن میں تحریف ہوئی۔ احادیث کی صورت میں یہ قید یقیناَ نہیں ہے۔ سو اگر ایک ہی حدیث آپ کو ایک کتاب کے شروع میں اور اسی کتاب کے کسی دوسرے ایڈیشن میں بعینہ آخر میں یا درمیان میں ملتی ہے تو یہ نقص نہیں ہے کیونکہ ایسی کوئی حد کتب حدیث‌پر ہے ہی نہیں۔ غور طلب بات صرف یہ ہے کہ ان احادیث‌کا مضمون ایک ہی ہے یا اس میں کمی بیشی ہے۔ اگر ایسا کچھ ہو تو پھر اس حدیث‌کو مانا جائے گا جس کی اسناد قوی اور جس کا حکم قرآن کے زیادہ موافق ہوگا۔ یہاں‌پر ہی ناسخ و منسوخ اور صحت و درایت کے علوم آ جاتے ہیں۔
سو عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ احادیث کے معاملہ میں قرآن کی سی لفظ بہ لفظ مطابقت ایک ہی راوی کی بیان کردہ ایک ہی حدیث کے معاملہ میں تو ہو سکتا ہے اس کے سوا نہیں۔
 

ساجداقبال

محفلین
سیفی نے کہا:
محترم فاروق صاحب ۔۔

نبی علیہ السلام پر اوجھڑی پھینکنے ، کوڑا پھینکنے اور پتھر مارنے کی باتیں آپ نے قرآن کی کونسی آیت میں پڑھ لیں۔ یہ تو انھی کتابوں کی روایات ہیں جن کو آپ بڑے دھڑلے سے من گھڑت باتیں قرار دیتے ہیں۔

آپ ذرا ان تینوں باتوں کا قرآن کی آیات سے حوالہ دیں۔ اور براہِ کرم لمبی چوڑی پوسٹ لکھ کر بات کو گول مول نہ کریں۔ صرف آیات لکھ دیں۔

خاکسار کے علم میں بھی ذرا اضافہ ہو جائے۔

والسلام
فاروق بھائی، براہ کرم جواب عنایت فرمائیں۔
 

سیفی

محفلین
محترمی فاروق صاحب۔

آپ نے حسبِ عادت میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے ایک لمبی چوڑی تحریر لکھ دی۔ حالانکہ میرا یہ سوال تھا ہی نہیں کہ توہینِ رسالت کی سزا کیا ہے اور ہندو مزدور کا واقعہ غلط ہے یا درست۔

میری آپ سے اب بھی گزارش ہے کہ اس سوال کا جواب عنائت فرمائیں کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اوجھڑی پھینکنے ، کوڑا پھینکنے اور پتھر مارنے کی باتیں قرآن کی کن آیات میں مذکور ہیں۔

صرف قرآن کی آیات بتا دیں۔


یہ باتیں اگر کسی بس کنڈیکٹر یا برف فروش نے کہی ہوتیں تو میں ہرگز استفسار نہ کرتا کہ انکی اہلیت جواب باالدلیل کی نہیں ۔ آپ سے اس لئے کہ آپ ایک نظریہ کے پرچارک اور مبلغ ہیں۔ اب یہ باتیں نہ تو چودہ سو سال پہلے آپ نے اپنے کانوں سے سنیں، نہ کسی جدید سائنسی مشین سے چودہ سو سال پہلے کے واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے ۔ اگر آپ اپنے مطلب کے لئے انھی کتبِ احادیث (جنھیں‌آپ من گھڑت روایات گردانتے ہیں ) سے حوالہ جات پیش کر رہے ہیں تو یقین کیجئے گا کہ آپ ہوائے نفس کا شکار ہیں۔ یا تو ان کتب کو درست مانئے یا ان سے حوالے دینا چھوڑ دیں۔

میں پھر آپ کو یاد دہانی کروا رہا ہوں کہ مجھے اس بحث سے غرض نہیں کہ آپ کے نزدیک توہینِ رسالت کی سزا کیا ہے اور ہندو مزدور کی ہلاکت درست ہے یا غلط۔

(باقی امریکی آئین اور نظام۔‌انصاف میں اسلامی تعلیمات کس حد تک شامل ہیں اسکی تعریف و توصیف کے لئے Outreach team, US State Department کے فواد صاحب ہی کافی ہیں۔ )

والسلام
 
میں نے دو جواب دئے ہیں آپ نے جلد بازی میں صرف دوسرا جواب پڑھا۔ پہلا جواب پڑھ لیں، آیات کا حوالہ دے چکا ہوں۔ جو کہ یہاں ہے ۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=252715&postcount=54
آپ کو یہ واقعات قابل قبول نہیں ۔ میں‌اصرار نہیں کرتا۔ میں‌ نے بھی درگزر کر تا ہوں ۔ اور ان آیات کا حوالہ دیا ہے جس میں رسول کی اہانت کی سزا خود خدائے بزرگ و برتر نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے۔ لیکن آپ کو قتل کرنے کا حق نہیں دیا ہے۔

اب آپ کی طرف سے ان آیات کے حوالے کا انتظار ہے جن میں توہین رسالت کی تفصیل اور اس کی سزا موت عرض‌کی گئی ہو۔

ذاتی مد میں عرض‌یہ ہے کہ بہت ہی تھوڑی سی احادیث جو کہ قرآن سے قریب اور قرآن کے واقعات سے ملتی جلتی ہیں میں ان پر یقین کامل رکھتا ہو۔ یہ واقعات بہت سے کتب میں‌پائے جاتے ہیں ۔ جن میں سے کچھ تاریخ‌ کی کتب ہیں ۔ لیکن موجودہ کتب روایات مکمل طور پر درست ہیں یہ تو بھائی کوئی بھی نہیں‌مانتا۔

صاحب میں کونسی کتب روایات مکمل طور پر درست مان لوں ؟ ہندوؤں کی، شیعہ حضرات کی، سنی حضرات کی؟ یہودیوں کی کالدانیوں کی ؟ ‌ آپ کون کون سی کتب روایات کو درست مانتے ہیں‌ کونسی کو غلط اور کیا آپ کو قابل قبول ہے اور کیا نہیں؟ روایات کے درست غلط اور کمزور، ضعیف ہونے کی لسٹ عطا فرمائیے۔ آپ کا دین آُپ کو مبارک ۔ یہ اپنے نظریہ کو منوانے ورنہ جینے کا حق چھین لینا آپ کی کتب آپ کو سکھاتی ہیں۔ کہ نظریاتی اختلافات کی سزا موت۔ قرآن ایسا کوئی حق نہیں دیتا۔ اگر ایسا ہے تو وہ آیات سامنے لائیے تاکہ ہمارے علم میں اضافہ ہو۔

بھائی جو ہتھکنڈہ یا پینترا آپ استعمال کررہے ہیں وہ پینترا ملا حضرات مرغے کی ایک ٹانگ کی طرح 600 سال سے استعمال کرتے آرہے ہیں اپنی کتب کے فروغ کے لیے۔ یہ غیر منطقی طریقے بہت ہی پرانے ہوچکے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب آپ کے اپنے مذہب کی روایات ہیں جو رسول اکرم کے عطا کردہ قرآن سے بہت دور ہے ۔ رسول اکرم کے زمانے میں یہ مذاہب موجود نہیں تھے۔ آپ کا مذہب اسلام سے ملتا جلتا ضرور ہے لیکن اس کا واحد مقصد نظریاتی اختلاف کی سزا موت یعنی دہشت گردی ہے ۔ جس کی تفصیل میں‌عرض‌ کرچکا ہوں :)

آپ اپنی کتب روایات کے حوالے مجھ سے کیوں‌ منوانا چاہتے ہیں ، ان کے ضمن میں اتنا ہی کافی ہے کہ اگر آپ ان کتب کو مانتے ہیں۔ اور یہ بات آپ کی سمجھ میں آجانی چاہئیے کہ آپ کی اپنی کتب کے مطابق، اہانت رسول کی سزا موت نہیں بلکہ اسوہء رسول کے مطابق درگزر ہے۔ ان میں سے ایک واقعہ کی آیات دوبارہ حاضر ہیں۔

ابو لہب کے رسول پرنور صلعلم کو تکلیف دینے اور توہین کرنے کے بارے میں میں آیات - یہ بہت واضح‌ہے کہ رسول اکرم کو یہ حکم نہیں‌دیا گیا کہ ابو لہب یا اس کی عورت کو قتل کردیا جائے۔ جب کہ ایسا بہت آسانی سے ممکن تھا۔۔۔ کیوں ؟؟؟ نوٹ‌کیجئے کہ مترجمین نے بریکٹ‌میں اصل واقعے کو اجاگر کیا ہے۔ آپ اپنی مرضی کا ترجمہ استعمال کرسکتے ہیں۔

[AYAH]111:1[/AYAH] ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ ہو جائے (اس نے ہمارے حبیب پر ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی ہے)
[AYAH]111:2[/AYAH] اسے اس کے (موروثی) مال نے کچھ فائدہ نہ پہنچایا اور نہ ہی اس کی کمائی نے
[[AYAH]111:3[/AYAH] عنقریب وہ شعلوں والی آگ میں جا پڑے گا
[[AYAH]111:4[/AYAH] اور اس کی (خبیث) عورت (بھی) جو (کانٹے دار) لکڑیوں کا بوجھ (سر پر) اٹھائے پھرتی ہے، (اور ہمارے حبیب کے تلووں کو زخمی کرنے کے لئے رات کو ان کی راہوں میں بچھا دیتی ہے)
[[AYAH]111:5[/AYAH] اس کی گردن میں کھجور کی چھال کا (وہی) رسّہ ہوگا (جس سے کانٹوں کا گٹھا باندھتی ہے)
 

سیفی

محفلین
منکرینِ حدیث کو جب دلیل نہیں ملتی تھی اور انکی اسلام کی من گھڑت تشریح جب باطل ہونے لگتی تھی تو وہ اسی طرح آئیں بائیں شائیں کرتے تھے۔
آپ نے لکھا کہ:
میں نے دو جواب دئے ہیں آپ نے جلد بازی میں صرف دوسرا جواب پڑھا۔ پہلا جواب پڑھ لیں، آیات کا حوالہ دے چکا ہوں۔ جو کہ یہاں ہے ۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=252715&postcount=54
آپ کو یہ واقعات قابل قبول نہیں ۔ میں‌اصرار نہیں کرتا۔)

پہلی بات یہ کہ میں نے جلدبازی میں آپ کی پہلی پوسٹ نظرانداز نہیں کی بلکہ بغور پڑھی مگر اس میں بھی آپ پوچھے گئے تینوں واقعات کا حوالہ دینے میں ناکام رہے۔ آپکی پوسٹ میں بیان کردہ آیات یہ ہیں:

سورۃ الحج:22 , آیت:47 اور یہ آپ سے عذاب میں جلدی کے خواہش مند ہیں اور اﷲ ہرگز اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہ کرے گا، اور (جب عذاب کا وقت آئے گا) تو (عذاب کا) ایک دن آپ کے رب کے ہاں ایک ہزار سال کی مانند ہے (اس حساب سے) جو تم شمار کرتے ہو۔

نوٹ‌کیجئے کہ مترجمین نے بریکٹ‌میں اصل واقعے کو اجاگر کیا ہے

سورۃ المسد / اللطب:111 , آیت:1 ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ ہو جائے (اس نے ہمارے حبیب پر ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی ہے)
سورۃ المسد / اللطب:111 , آیت:2 اسے اس کے (موروثی) مال نے کچھ فائدہ نہ پہنچایا اور نہ ہی اس کی کمائی نے
[سورۃ المسد / اللطب:111 , آیت:3 عنقریب وہ شعلوں والی آگ میں جا پڑے گا
[سورۃ المسد / اللطب:111 , آیت:4 اور اس کی (خبیث) عورت (بھی) جو (کانٹے دار) لکڑیوں کا بوجھ (سر پر) اٹھائے پھرتی ہے، (اور ہمارے حبیب کے تلووں کو زخمی کرنے کے لئے رات کو ان کی راہوں میں بچھا دیتی ہے)
[سورۃ المسد / اللطب:111 , آیت:5 اس کی گردن میں کھجور کی چھال کا (وہی) رسّہ ہوگا (جس سے کانٹوں کا گٹھا باندھتی ہے)
بصد تلاش کے مجھے ان تمام آیات میں کوئی ایسا حوالہ نظر نہیں آیا جس میں آپ کے بیان کردہ تین واقعات (نبی علیہ السلام پر اوجھڑی پھینکنے، کوڑا پھینکنے اور پتھر مارنے) کا ذکر ملا ہو۔ یہ آیات میں نے آپکی پوسٹ سے نقل کی ہیں۔ آپ کو کوئی حوالہ نظر آرہا ہو تو وہ محدب عدسہ مجھے بھی عنائت فرمایئے گا۔ رہی بات کہ مترجمین نے جو بریکٹ میں‌واقعہ کو اجاگر کیا ہے وہ تو انھی کتب کے حوالے سے کیا ہے جن کو ماننے کو آپ تیار ہی نہیں۔ یا پھر مترجمین دورِ نبوت میں خود موجود تھے اور اپنی آنکھوں سے یہ واقعات دیکھ رہے تھے۔

اب آپ کی طرف سے ان آیات کے حوالے کا انتظار ہے جن میں توہین رسالت کی تفصیل اور اس کی سزا موت عرض‌کی گئی ہو۔


میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ توہینِ رسالت کی سزا پر آپ کے عالمانہ نظریات پر مجھے بحث کا شوق نہیں۔ آپ اس کو کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھیں۔

ذاتی مد میں عرض‌یہ ہے کہ بہت ہی تھوڑی سی احادیث جو کہ قرآن سے قریب اور قرآن کے واقعات سے ملتی جلتی ہیں میں ان پر یقین کامل رکھتا ہو۔ یہ واقعات بہت سے کتب میں‌پائے جاتے ہیں ۔ جن میں سے کچھ تاریخ‌ کی کتب ہیں
۔

ان بہت ہی تھوڑی سی احادیث پر یقین کرنے کی کسوٹی ؟؟؟ جب ایک شخص بقول آپ کے ہزاروں جھوٹی اور من گھڑت باتیں اپنی کتاب میں بھر دیتا ہے تو اس کی چند احادیث پر یقینِ کامل رکھنے کا کیا مطلب۔----------------------- قرآن کے واقعات سے ملتا جلتا ہونا تو انکی صحت کی ضمانت کیسے بنے-------کیونکہ باقی واقعات بھی تو ملتے جلتے ہیں ۔

بھائی جو ہتھکنڈہ یا پینترا آپ استعمال کررہے ہیں وہ پینترا ملا حضرات مرغے کی ایک ٹانگ کی طرح 600 سال سے استعمال کرتے آرہے ہیں اپنی کتب کے فروغ کے لیے۔ یہ غیر منطقی طریقے بہت ہی پرانے ہوچکے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب آپ کے اپنے مذہب کی روایات ہیں جو رسول اکرم کے عطا کردہ قرآن سے بہت دور ہے ۔ رسول اکرم کے زمانے میں یہ مذاہب موجود نہیں تھے۔ آپ کا مذہب اسلام سے ملتا جلتا ضرور ہے لیکن اس کا واحد مقصد نظریاتی اختلاف کی سزا موت یعنی دہشت گردی ہے ۔ جس کی تفصیل میں‌عرض‌ کرچکا ہوں

جناب آپ عورتوں کی طرح کوسنا چھوڑیئے اور پھر آپ سے دست بستہ عرض کرتا ہوں کہ آپ نے اپنی پوسٹ میں جو تین واقعات نبی علیہ السلام کی توہین کے بیان کئے ان کے بارے میں صرف یہ بتا دیں کہ وہ آپ نے قرآن کی کس آیت میں پڑھے۔ واشنگٹن کے کسی ورژن میں یا براہِ راست الہام ہواہے۔

آپ صرف پوچھے گئے نکتہ کا جواب دے دیں تو مجھے اور آپکو اتنی لمبی چوڑی پوسٹس کا تردد ہی نہ کرنا پڑے۔

والسلام
 
میرا خیال ہے کہ میں اس بات کو بہت واضح طور پر کہہ چکا ہوں‌ کہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ اپنی ہی کتب روایات کو مانیں‌ یا نا مانیں۔ میں نے بہت واضح طریقہ سے بتایا کہ اگر آپ کو اس نظریہ کی تائید میں یہ حوالہ جات قبول نہیں ہیں تو اس نظریہ کی تائید میں‌ صرف قرآن سے آیات حاضر ہیں۔ لیکن خود آپ کے مطابق، آپ کو اس نظریہ کے بارے بات کرنے کا کوئی شوق نہیں‌بلکہ آپ کا شوق ہے یہودیوں رواج کے مطابق کردار کشی کرنے کا۔

عجیب احمقانہ اصرار ہے کہ آپ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ میں آپ کے مذہب کی کتب روایات کو قرآن سے ثابت کروں ۔ بھائی یہ آپ کا کام ہے کہ آپ ان کتب کو درست ثابت کریں۔ ان کی اصل کتب ڈھونڈیں اور ثابت کریں کہ جن کتب روایات پر آپ یقین رکھتے ہیں وہ 1000 سال پہلے بھی یہی تھیں ۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ کتب روایات، پچھلی کچھ صدیوں میں تصنیف ہوئی ہیں۔ ورنہ آپ ایک 1200 ع سے پہلے کی کتاب فراہم کیجئے جس کی روایات کا متن ، تعداد اور ترتیب آج کی کتب روایات جیسی ہو۔

آپ کو یہ حوالہ آپ کی کتب روایات سے دیا گیا ہے۔ جس طرح یہودیوں‌کو ان کی کتاب سے دیا جاتا ہے۔ عیسائیوں‌کو ان کی کتب سے دیا جاتا ہے کہ وہ انہی کتب پر یقین رکھتے ہیں۔ اس حوالہ دینے کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی کتب روایات کے ہر ورژن پر میں بھی یقین رکھوں۔ اگر آپ کے لیے آپ کی اپنی کتب روایات قابل قبول نہیں تو نہ ہوں ، ان کو درست ثابت کرنا میرا کام نہیں آپ کا کام ہے۔ آپ ڈھونڈھ کر نکالئے کہ قرآن میں ان واقعات کا تذکرہ کہاں کیا گیا ہے؟ میرا ایمان صرف اور صرف قرآن و سنت اور مستند احادیث پر ہے۔

یہان قرآن کا حوالہ اس لئے نہیں‌فراہم کیاگیا کہ ان واقعات کی تصدیق کی جاسکے جو کہ کتب روایات سے پیش کئے گئے، بلکہ قرآن کا حوالہ اس نظریہ کی تائید میں فراہم کیا گیا ہے کہ آپ کو اہانت رسول کے مجرم کو قتل کا حق نہیں ۔۔ آپ کو یہ اصول سمجھ میں نہیں آتا رہنے دیجئے۔ جب عقل آجائے گی تو یہ اصول بھی سمجھ میں آنے لگیں گے۔

لیکن آپ کی توجہ اس اصول کی طرف نہیں بلکہ آپ کی توجہ میری طرف ہے۔ کہ میں‌درست یا غلط قرار دیا جاسکوں ۔ اس حربے کے بارے میں بھی میں " مولویت "‌ کے زمرہ میں لکھ چکا ہوں‌کہ ملاؤںً کا کردار کشی کا کیا حربہ ہے۔ ان کا سارا فوکس اسرائیلیات کے ماہرین کی طرح ایک شخص‌پر ہوتا ہے۔ اصولوں‌ سے بھاگتے ہیں اور قرآن سے دور دور رہتے ہیں۔ تو صاحب آپ کی مجھے غلط قرار دینے کی یہ کوشش آپ پر بیک فائر کررہی ہے اور یہ واضح‌ہوتا جارہا ہے کہ آپ کا ایمان خود اپنی کتب پر بھی نہیں ، جو واقعات قرآن کی کسوٹی پر پورے نہیں اترتے وہ قابل اعتبار نہیں۔

اگر آپ اب بھی، یہودیوں‌کی طرح، ایک نیا ہیرو، نیا رسول، ولئ ‌وقت ، مفتئ وقت یا خلیفہء وقت ڈھونڈھ رہے ہیں تو ڈھونڈتے رہئے، میں وہ شخص‌نہیں۔ رحمت اللعالمین کی بعثت کو 1400 سال سے زیادہ گذر گئے اور آپ اسرئیلیات کے ماہرین نے ان کو کبھی رسول نہیں تسلیم کیا بلکہ طرح طرح کی کتب و روایات کا اضافہ کرکے اسرائیلیات کو فروغ دیتے رہے۔ قرآن کے مطابق، سابقہ کتب کی کسوٹی قرآن ہے۔ اس طرح ان کتب روایات میں‌شامل اسرائیلیات کی کسوٹی بھی قرآن ہے۔ آپ کو تسلیم نہ ہو، میں اصرار نہیں کرتا۔

منکر حدیث وہ ہے جو رسول اللہ کی احادیث کا انکار کرے۔ کیا آپ شیعہ حضرات کی کتب روایات میں دی گئی احادیث کو قبول کرتے ہیں یا ان سے انکار کرتے ہیں۔ آپ کا تو ابھی تک یہی نہیں پتہ کہ آپ کا یقین کن کتب روایات پر ہے اور کن پر نہیں ہے۔ اپنی کتب کی لسٹ تو فراہم کیجئے۔ تاکہ پتہ چلے کہ آپ کا مذہب کیا ہے؟
 

سیفی

محفلین
الحمدللہ مجھے کتبِ احادیث پر اپنے ایمان اور یقین کو تقویت دینے کے لئے آپ سے دلائل طلب کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ جو فرما رہے ہیں کہ ان من گھڑت کتابوں (نعوذباللہ) میں درج واقعات کا قرآن سے ثبوت آپ کے ذمے نہیں بلکہ ہمیں خود تلاشنا چاہئے۔

حالانکہ آپ یہ بات بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں آپ کی لکھی گئی درج ذیل پوسٹ کے جواب میں آپ کی بیان کردہ بات کا حوالہ آپ سے طلب کر رہا ہوں۔ اب اگر آپ اپنی بیان کردہ بات کا حوالہ بھی دینے سے انکاری ہیں تو پھر میں کیا سر پھوڑوں۔

آپ کی پوسٹ نیچے درج ہے جس میں آپ نے واضح طور پر نبی علیہ السلام کو اذیت دینے کے کفار کے تین طریقے لکھے۔ میرا سوال صرف یہ تھا کہ یہ تین واقعات آپ نے قرآن میں کہاں پڑھ لئے۔ یہ تو آپ حدیث کی کتب میں ہیں جن کو نہ صرف آپ ماننے سے انکاری ہیں بلکہ اوروں کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ کتبِ احادیث جھوٹی ہیں۔

فاروق سرور خان نے کہا:
ہر قدم کا کوئی قانونی یا مذہبی جواز ضروری ہے۔ کوئی بھائی، مدد فرمائیں کہ توہین رسول پر قتل کردینے کے لئے کیا آیات ہیں؟ یا رحمت للعالمین رسول اللہ صلعم کی ذاتی سنت میں سے کوئی سنت یا اقدام پر روشنی ڈالیے کہ جب توہین رسالت کی گئی تو رسول اللہ نے فوراً یا مقدمہ چلا کر قتل کردیا۔

1۔ رسول صلعم کی متعدد بار توہین ان کی زندگی میں کی گئی۔ اوجھڑیاں و کوڑا پھینکا گیا۔ پتھر مارے گئے، بری باتیں‌کہی گئیں۔ رسول اللہ نے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ کیوں؟؟
جن لوگوں کو رسول اکرم عزیز ہیں وہ آج بھی عزت کرتے ہیں۔ جن کو نہیں‌عزیز وہ نہیں‌کرتے۔ آپ اللہ تعالی کے درج ذیل فرمان سے کیا سمجھتے ہیں ؟

[AYAH]18:29[/AYAH] اور فرما دیجئے کہ (یہ) حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے، بیشک ہم نے ظالموں کے لئے (دوزخ کی) آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی، اور اگر وہ (پیاس اور تکلیف کے باعث) فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ایسے پانی سے کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جو ان کے چہروں کو بھون دے گا، کتنا برا مشروب ہے، اور کتنی بری آرام گاہ ہے

ملاؤں‌کا یہ وطیرہ رہا کہ " توہین نبوت "‌ کا الزام لگا کر قتل کیا اور منہہ بند کردیا۔ کیا اس سے سارا ہند مسلمان ہوگیا؟ یا پھر اس کا جرمانہ لاکھوں جانو و عزتوں‌ کی شکل میں 1947 میں دیا گیا؟

مجھے ان قرآنی و سنت سے ثابت شدہ احکامات کا انتظار رہے گا جن میں توہین رسالت کی سزا قتل ہو۔ اس وقت تک ان اندھے، گونگے، بہرے لوگوں سے میں درگزر سے کام لوں گا۔ کہ میری معلومات کے مطابق، اس قسم کے معاملے میں درگزر سے کام لیا جائے، یہی اللہ تعالی کا حکم ہے اور یہی سنت رسول ہے ۔۔

والسلام

اوپر دی گئی اپنی پوسٹ کو بار بار پڑھیں۔ اور قرآن سے پورا اسلام ثابت کرنے کے اپنے دعوے کے موافق آیات پیش کریں۔ اگر آپ کے پاس جواب نہیں تو خدارا دوسروں کا ایمان مت خراب کریں۔

اور مجھے یہودی قرار دینے کی کوشش سے بہتر ہے کہ ایک دفعہ پھر قرآنی آیات تلاش کر لیں۔ صرف ایک بات کا جواب آپ کے لئے اتنا مشکل ہوگیا کہ آپ انہی ہتھکنڈوں پر اتر آئے جن کی دہائی دیتے ہیں۔
 

مغزل

محفلین
محترم جناب سیفی صاحب اور سردار فاروق صاحب۔
آداب و سلامِ مسنون
جناب کسی بھی موضوع پر بحث محض عقلی و منتقی دلائل سے نہیں ہوتی ، مزید یہ کہ بحث علم میں اضافے کا سبب ہے نہ کہ رنجشیں پیدا کرنے کا ۔۔ مقصد اپنا مطمعِ نظر دوسرے فریق تک اپنے دلائل پہنچانا ہے نہ کہ لٹھ لیکر پیچھے پڑجانے کو۔
آپ جن مذکورہ واقعات کو کتاب یا کتابوں میں شامل ہونا منوانا چاہتے ہیں وہ بات فاروق صاحب تک پہنچ چکی ہے وگرنہ وہ اس موضوع سے ہٹتے نہیں ۔۔۔ اب آپ بھی لٹھ بہ دست نہ بنیں ۔۔ تحمل سے کام لیجئے جس ذاتِ گرامی کی بابت یہ دھاگہ ہے ان کا عمل یہ نہیں ۔۔بلکہ حسن ِ اخلاق سے اور اپنے کردار سے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے دین کی باتیں اوروں تک پہنچائیں نہ کی طنز و تضحیک کا نشانہ بنا کر۔۔ اگر فاروق صاحب وہ جملے نہیں ادا کررہے جس سے آپ کی تفاخرانہ انا کو تسکین ملے تو نہ سہی اتنا ہی کافی ہے کہ آپ کی بات ان تک پہنچ گئی ۔۔ باقی یہ جانیں ۔۔ مانیں یا نہ مانیں ۔۔۔ ہم کوئی خدائی فوجدار نہیں ۔۔۔اب دیکھئے نبیءِ پاک صل اللہ علیہ والہ وسلم نے کتنے لوگو ں دعوت دی۔۔ کتنے ہی لوگ تھے جو آپ کو صادق اور امین بھی مانتے تھے مگر ایمان نہیں لاتے تھے ۔۔ کیا سرکار صل اللہ علیہ والہ وسلم نے ان پر جبر کیا ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔ اور فاروق صاحب آپ سے بھی دست بستہ التماس ہے کہ خوامخواہ اس بحث کو طول مت دیجئے۔۔۔ قابلِ احترام سردار فاروق صاحب اور سیفی صاحب جب بحث میں طنز و تضحیک شامل ہوجائے تو وہ اپنے اصل سے دور ہوکر محض شر پھیلانے کا سبب بنتی ہے۔

میں یہ مراسلہ ایک بار پہلے بھی (قریبا 10 منٹ قبل) روانہ کرچکا تھا مگر کسی خرابی کی وجہ سے شامل نہ ہوسکا۔اس مراسلے کے تحریر کرنے میں یقینا مجھ ایسے جاہل سے غلطی سرزد ہوسکتی ہے جو آپ دونوں احباب کے ذوقِ سلیم پر حرف آنے اور طبعِ نازک پر گراں گزر سکتی ہے۔۔ جس کیلیئے میں آپ دونوں احباب سے معافی کا خواستگار ہوں۔

نیاز مند
م۔م۔مغل
 

سیفی

محفلین
مغل صاحب۔ --------------- یہ کوئی ذاتی لڑائی تو نہیں ہے کہ دو چار منٹ دھول دھپے کے بعد ایک ادھر اور ایک ادھر۔۔۔

یہ ایک بحث ہے اور بحث کو جاری رہنا چاہئے۔ انٹرنیٹ پر کوئی فورم بنانے کا مقصد بھی یہی ہے۔ اور ہر جگہ فاروق صاحب اسی نظریہ کا پرچار کرتے پھرتے ہیں کہ کتبِ احادیث جھوٹی ہیں اور صرف قرآن ہی مسلمان کے تمام دینی امور کے لئے کافی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ قرآن کتابِ ہدایت ہے مگر اسی قرآن کا کہنا ہے کہ: وما ینطق عن الھویٰ ۔۔۔ ان ھوا الا وحی یوحیٰ ------- کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پاس سے کچھ نہیں کہتے بلکہ جو بھی حکم دیتے ہیں وہ وحی الہی کی ہدایات کے مطابق ہے۔

جن صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ نے اللہ کے رسول سے قرآن سن کر یاد کیا اور آگے امت کو پہنچایا۔ انھی نے احادیثِ رسول کو بھی اپنے تلامذہ کو منتقل کیا۔ نہ انھوں نے قرآن میں خیانت کی نہ اقوالِ رسول میں۔

اب اگر احادیث کی کتابوں کو جھوٹا قرار دیا جائے گا تو کل کلاں کوئی اٹھ کر یہ کہہ دے گا کہ نعوذ باللہ قرآن بھی صحابہ نے جھوٹ شامل کرکے آگے نقل کیا ہے۔ کسی نے دلیل بھی دی کہ انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحٰفظون۔------ تو کوئی دریدہ دہن یہ بھی کہہ دے گا کہ یہ آیت بھی صحابہ اور تابعین نے اپنے مطلب کےلئے گھڑ کے ڈال لی ہے۔

نتیجہ آپ کے سامنے ہوگا۔ امت کے صدر اول سے امت کا رشتہ کاٹ کر اسلام کے شجر کو بے ثمر کرنا۔

نوٹ: مغل صاحب ۔۔۔ یہ پوسٹ میں نے آپ کے لئے لکھی ہے تاکہ واضح کروں کہ میری اور فاروق سرور خان صاحب کی کوئی ذاتی لڑائی نہیں ہے۔ کہ جس کو بیچ بچاؤ کروا کے بند کیا جائے۔ یہ ایک بحث ہے جس میں فریقین کو اپنے دلائل سے اپنی بات ثابت کرنا ہوتی ہے ۔ اور یہ بھی ایک اصول ہے کہ اگر آپ کی بات دلائل سے غلط ثابت ہو جائے۔ یا آپ کی بیان کردہ بات بے دلیل اور بے اصل ہو تو اس سے رجوع کر لیا جائے۔

فاروق سرور خان صاحب: براہِ کرم اس پوسٹ میں لکھی گئی بات پر کوئی نئی پوسٹ نہ شروع کردیں۔ میرا مقصد آپکی کردار کشی نہیں کہ میں آپکو جانتا بھی نہیں۔ مقصد صرف اتنا ہے کہ ہر پوائنٹ کو ایک ہی جگہ چھیڑ دیا جائے تو کھچڑی بن جاتی ہے اور اصل بات وہیں کی وہیں دھری رہ جاتی ہے۔ امید ہے آپ ناراض نہیں ہوں گے اور میرے اٹھائے گئے سوال کی ہی وضاحت کریں گے۔
 
سیفی صاحب،

آپ نے بات کا رخ‌ بدل کر قرآن و کتب روایات کی صحت کی طرف کر دیا ہے۔ اب آپ کا نکتہ ارتکاز اس 22 سالہ ہندو لڑکے کے بہیمانہ اور غیر اسلامی قتل کی طرف نہیں ہے بلکہ قرآن اور حدیث کی روایتی بحث‌ پر ہے۔ اس کے لئے ایک الگ دھاگہ کھول لیجئے۔

آپ قاصر ہیں کہ کوئی حتمی حوالہ قرآن سے دے سکیں کہ اہانت رسول پر قتل کرنا جائز ہے ۔

آپ کا فقط یہی اصرار ہے کہ جو حوالہ میں نے دیا اس کو قرآن سے ثابت کروں، جس کا جواب میں نے یہ دیا کہ روایات کا یہ حوالہ آپ کو قابل قبول نہیں، ہم ہٹا دیتے ہیں اور صرف قرآن سے جو ہمارے درمیان متفقہ ذریعہ اور کامن پروٹوکول ہے اس سے ہدایت لیتے ہیں۔ یہ بھی آپ کو قابل قبول نہیں۔

آپ کا نکتہ ارتکاز کبھی میری ذات ہے اور کبھی اس بات پر زور کہ کتب روایات کے بغیر ہمارا دین مکمل نہیں۔

آپ کو آپ کی کتب سے حوالہ دینے کا مطلب دینے کا مقصد یہ تھا کہ آپ جن کتب کو کو قابل اعتبار سمجھتے ہیں۔ جیسے یہودی اور عیسائی اپنی کتب کو قابل اعتبار سمجھتے ہیں۔

جب میں‌کسی یہودی یا عیسائی کو اس کی کتب روایات سے حوالہ دیتا ہوں تو وہ حوالہ اس کے لئے ہی ہوتا ہے کیونکہ یہ اس کا یقین اور ایمان ہے۔ اس لئے نہیں ہوتا کہ یہ میرا یقین ہے۔ اسی لئے آپ کو کہا کہ اگر آپ کو نہیں یقین تو نہ کریں یہ لیجئے وہاں سے ثبوت جہاں‌پر ہر دو متفق ہیں۔

کسی بھی عیسائی یا یہودی کا یہ تقاضا کہ چونکہ حوالہ اس کی کتاب سے دیا گیا ہے آپ کا تقاضا یہ ہے کہ جو ثبوت آپ کو پیش کیا گیا ہے اس پر میں بھی یقین کروں غیر منظقی ہے۔ جی۔
 
سیفی نے کہا:
مغل صاحب۔۔۔۔بہت شکریہ

مجھے اپنی تفاخرانہ انا کی تسکین کی ضرورت نہیں ۔ فاروق سرور خان صاحب نے نبی علیہ السلام کی توہین کے تین واقعات کا ذکر کیا تھا۔ چونکہ وہ کتبِ احادیث کو نہیں مانتے اور پورا اسلام صرف قرآن مجید سے ثابت کرنے کے داعی ہیں۔ اس لئے میں نے ان سے یہ سوال کیا ہے کہ ان تین واقعات کا قرآن سے ثبوت دکھا دیں۔

اب فاروق صاحب ثبوت دے دیں تو مجھ جیسے کم علم کو بھی پتہ چلے کہ بغیر احادیث کی کتب کے بھی دین مکمل ہو سکتا ہے کہ نہیں۔

بس اتنی سی بات ہے۔ (ہم نے اپنی انا کی تسکین کر کے کیا لے لینا ہے)

والسلام مع الاکرام

مٰں اس سلسلے میں عرض کر چکا ہوں کہ یہ حوالہ قرآن میں موجود نہیں، اگر آپ کے لئے قابل قبول نہیں تو صرف قران پر انحصار کرتے ہیں۔ جو کتب آپ کے لئے قابل قبول ہیں ان کی لسٹ‌فراہم کردیجئے۔ بنا کتب کی لسٹ کے بحث کیسی؟ اور یہ بحث اگر الگ دھاگہ میں ہو تو میں بخوشی شامل ہونے کے لئے تیار ہوں۔
 

سیفی

محفلین
جناب فاروق سرور خان صاحب

میں نے بات کا رخ نہیں بدلا بلکہ میں نے آپ سے دو سطروں کا سوال پوچھا تھا کہ ان واقعات کا تذکرہ آپ قرآن میں دکھا دیں۔ یاد رہے کہ آپ نے اپنی پوسٹ میں کہیں نہیں لکھا تھا کہ یہ ان کتبِ احادیث کا واقعہ ہے جنھیں میں جھوٹ کا پلندہ کہتا پھرتا ہوں۔

آپ نے اس دو سطری سوال کا جواب دینے کی بجائے، کبھی تو مجھے یہودیوں سے تشبیہہ دی کبھی سوال کو احمقانہ قرار دیا اور کبھی مولویوں کے ہتھکنڈے۔

آپ شاید اپنی ہی لکھی ہوئی پوسٹ کو دوبارہ پڑھ لیتے تو آپ پر معاملہ کھل جاتا۔ دلیل لانا ہمیشہ بات کرنے والے کے ذمہ ہوتا ہے۔

جب آپ ہروقت کتبِ حدیث کے جھوٹا ہونے کا راپ الاگتے رہتے ہیں تو اپنی تحریر کو کیوں ان روایات سے تقویت دیتے ہیں۔ جھوٹی روایات (آپکے بقول ) اپنی تحریر میں شامل کرنا آپکی مجبوری کیوں بن جاتی ہے جب کہ آپ کے لئے قرآن کافی ہو جانا چاہئے۔ اور اگر آپ انھی کتبِ احادیث سے روایات اپنے مطلب کے لئے شامل کرتے ہیں تو آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ یہ روایات تو سچی ہیں اور باقی سب جھوٹی ہیں جو آپ کے موقف کی صریح نفی کرتی ہیں۔

میرا سوال پوچھنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ جس بات کو آپ بنیاد بنا کر آپ اپنی تحریر کا ہوائی محل کھڑا کرنے جارہے ہیں اس کی اصل کے بارے میں آپ کے پاس کچھ بھی نہیں۔ کھلے الفاظ میں کچھ یوں ہے کہ آپ نے نبی علیہ السلام کو اذیت دینے کے تین طریقوں کا جو تذکرہ کیا ہے آپ کے پاس ان کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اگر ہے تو دکھا دیں۔

بے شک اللہ تعالی باطل کو یونہی ننگا کرتا ہے اور حق واضح ہو کر رہتا ہے۔

یہ آپ بار بار میرے مسلک اور کتبِ احادیث کے حوالے طلب کرکے موضوع سے بھاگنے کی کوششیں چھوڑ دیں۔ شاتمِ رسول کی سزا پر تو بات جب آگے بڑھے کہ آپ نے اپنی تحریر کے لئے جو بنیاد بنائی کہ نبی علیہ السلام کو یہ یہ اذیتیں دی گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہیں کہا ، اسکا ثبوت تو قرآن سے لا دیں۔

امید ہے کہ آگر آپ آنکھیں کھول کر اپنی اور میری پوسٹ کو پڑھ لیں ، اور میرے دو سطری سوال کا جواب دے دیں تو قضیہ ہی ختم ہوجائے۔

مگر مجھے یقین ہے کہ آپ تو کیا منکرینِ حدیث کے بڑے بڑے سرکردہ لوگوں کے پاس اس کا جواب نہیں اور یہی باطل کے جھوٹ اور فریب کی نشانی ہے۔

والسلام مع الاکرام


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیا دھاگہ شروع کرنے کی ضرورت میں اس لئے نہیں سمجھتا کہ میرا سوال اسی موضوع میں پیش کی گئی ایک بات کی دلیل طلب کرنے سے متعلق ہے۔ باقی ادھر ادھر کا مواد فاروق صاحب کا بکھیڑا ہے۔
 

خاور بلال

محفلین
عنوان توہین رسالت سے متعلق ہے اور ہمیشہ کی طرح آخر میں قرآن بمقابلہ حدیث کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ اس سلسلے کی روک تھام کے لیے میری چند گذارشات ہیں۔

احادیث سے متعلق فاروق صاحب کے خیالات کا زیروبم مرتعش رہتا ہے اور کروٹیں بدلتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر کبھی ان کا اعتراض احادیث کے متن کے حوالے سے ہوتا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ ایسی احادیث بھی ہیں جن میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین موجود ہے، شروع میں انہوں نے ایک کتاب کا حوالہ دیا جس میں تحقیق سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ احادیث میں قابل اعتراض مواد بھی پایا جاتا ہے، ایسے میں قسیم حیدر صاحب نے ان احادیث کے اقتباس کے ساتھ اپنی تحقیق پیش کرنا شروع کی اور ان اعتراضات کو رفو کرنا شروع کردیا۔ میں نے واضح طور پر اندازہ لگایا کہ فاروق صاحب نے قسیم صاحب کی اس بہترین کاوش کو ماننے سے ہی انکار کردیا اور عام فہم باتوں کو اس لیے رد کردیا کہ اگر ان کو مان لیا گیا تو پھر احادیث سے انکار کیسے ممکن ہوگا۔ یہ میرا اندازہ ہے ہوسکتا ہے کہ غلط ہو لیکن جو لوگ حقیقت جاننا چاہتے ہیں میں انہیں دعوت دوں‌گا کہ ان دھاگوں کا مطالعہ کریں جہاں قسیم صاحب نے ان اعتراضات کا جواب دیا ہے جو متن کے لحاظ سے کیے گئے ہیں۔ قسیم صاحب کے اس سلسلے کا اختتام اس طرح ہوا کہ فاروق صاحب نے قسیم بھائ سے گذارش کی کہ آپ کی باتیں میرے پلے نہیں پڑتیں‌اور میری باتیں آپ نہیں‌سمجھتے لہٰذا بہتر یہ ہے کہ ہم یہ سلسلہ بند کرکے قرآن فہمی کا سلسلہ شروع کریں۔ کیونکہ درایت کے لحاظ سے اعتراضات کا حال یہ دیکھ چکے تھے سو اب ان کے اعتراضات نے کروٹ بدلی اور درایت کی جگہ روایت نے لے لی۔ اس میں بھی کبھی یہ متواترروایات کو تسلیم کرتے ہیں اور کبھی تو احادیث کے تمام سلسلے کو ہی من گھڑت قرار دے کر ایرانیوں سے منسوب کرکے قصہ تمام کردیتے ہیں۔ آپ کو اندازہ ہوگا کہ کبھی کبھی یہ موضوع کو ہائی جیک کرنے کے لیے ایسے تاریخی واقعات کا ذکر بھی کربیٹھتے ہیں جو خود انہیں کے فارمولے کے لحاظ سے ناقابل اعتبار ہوتے ہیں جیسا کہ اسی دھاگے میں ہوا۔ لیکن کیونکہ توہین رسالت کے حوالے سے یہ واقعات ان کے موقف کو تقویت دیتے ہیں لہٰذا انہوں نے یہ واقعات نقل کر ڈالے۔ اراکین محفل نے اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے "سنت کی آئینی حیثیت" برقیانے کا فیصلہ کیا جوکہ الحمدللہ پایہ تکمیل کو پہنچ گئی۔ سنت کی آئینی حیثیت ایک منکر حدیث کے خطوط اور اس کے جوابات پر مشتمل ہے۔ آپ اس کا مطالعہ کیجیے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ انکار حدیث کرنے والوں کے موقف تھالی کے بینگن کی طرح لڑھکتے پھرتے ہیں اور ہر معقول جواب کے بعد انکار حدیث کے لیے مزید نکات تلاشنے شروع کردیتے ہیں۔ منکرین احادیث کی اخلاقیات کا صحیح اندازہ آپ کو سنت کی آئینی حیثیت پڑھ کر ہی ہوگا۔ جب بات کسی صورت نہیں بنتی تو یہ کوسنے دینے شروع ہوجاتے ہیں کہ ملا قرآن کے بجائے احادیث کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ حالانکہ ساری امت اس بات پر متفق ہے کہ قرآن خدا کا آخری کلام ہے اور ہماری رہنمائ کا واحد ذریعہ۔ مسلم امت احادیث کو (نعوذباللہ) قرآن کے بمقابل نہیں سمجھتی۔ بلکہ امت کا موقف یہ ہے کہ یہ توصاحبِ قرآن کے ارشادات و اطوار ہیں جو کہ قرآن کی تشریح ہیں اور قرآن سے ہدایت اخذ کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ رہبر و رہنما ہونے کی حیثیت سےجو معاشرہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ترتیب دیا اور قرآن کے احکامات کو جس طرح عملی جامہ پہنایا کیا وہ اس قابل نہیں کہ عملی زندگی میں قرآن کی پیروی کرنے کے لیے اس سے مدد لی جائے؟ فارق صاحب یہ موقف اچھی طرح جانتے ہیں لیکن زبردستی اس “غلط فہمی“ کا شکار رہتے ہیں کہ احادیث کو قرآن کا درجہ دیا جاتا ہے۔ تو اب میری فاروق صاحب سے التماس ہے کہ وہ اپنے موقف کو بار بار بدلنے کی زحمت سے بچیں اور صاف صاف کہہ دیں کہ میں احادیث کو نہیں مانتا بھاویں کچھ ہوجاوے۔ مجھے امید ہے کہ اس کے بعد کوئ آپ کو دلیل سے احادیث کی حلت سمجھانے کی کوشش نہیں کرے گا اور آئے روز کا یہ سلسلہ ختم ہوجائے گا۔

امید ہے کہ فاروق صاحب کو یہ آئیڈیا پسند آئیگا اور اس سے ان کو سہولت بھی ہوجائے گی۔ باقی اگر فارق صاحب کو میری پوسٹ میں کوئ “ذاتی حملہ“ نظر آئے تو میں ادب کے ساتھ پیشگی عرض کردوں کہ مجھے آپ کی ذات سے اعشاریہ ایک فیصد بھی اعتراض نہیں، میں یہاں صرف آپکے موقف کی بات کررہا ہوں۔ میں بحث و مباحث میں ذات پات کا قائل نہیں۔

آخر میں ایک بات یاد آگئی۔ ایک دفعہ ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم سے سنت و احادیث کی بابت پوچھا گیا انہوں نے کہا؛
“اگر کوئ شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کہتا کہ صاحب میں وحی پر تو ایمان لاتا ہوں لیکن آپ کے ذاتی احکامات کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ ان کو مانوں۔ ایسے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود ہوتے تو اس شخص کا کیا حال ہوتا؟“
 
سیفی میں اپ کو آپ کے دو سطری سوال کا بارہا جواب دے چکا ہوں کہ یہ واقعات قرآن سے نہیں ہیں۔ اور قرآن سے جواب پیش خدمت ہے۔

اگر آپ کے لئے یہ قابل قبول ہیں تو بہت خوب۔

آپ کا یہ استدلال کے چونکہ میں نے ان کتب سے یہ روایات پیش کیں تو میرا مکمل ایمان ان کتب کے ہر نکتے پر ہونا چاہیئے ایک بے معنی استدلال ہے اور ایسا ناممکن ہے ان کتب کی سب روایات پر مثل قرآن یقین لے آؤں تو بھائی اس ضمن میں بحث کے لئے اوپر دیا ہوا دھاگہ بہتر ہے۔ تھالی کا بینگن ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ کبھی روایات قابل قبول اور کبھی ناقابل قبول۔

یہ ملاؤں کا پرانا وطیرہ رہا ہے۔ اور آپ ان حربوں کا شکار ہیں، اس کی مثالیں:
1۔ مخالف فرقے کی کتب میں‌درج روایات اھادیث و اعمال رسول ناقابل قبول ہیں۔ لیکن ان کی احادیث سے انکار کرکے آپ منکر الحدیث نہیں ہوتے (‌تھالی کا بینگن؟؟ )
2۔ جو روایات ہمارے موقف کی حمایت نہیں کرتی ہیں، خود کا نا پسند ہوں‌ یا موقف کے مخالف ہوں و نا پسندیدہ روایات اپنی کتب روایات سے ہونے کے باوجود ضعیف ہیں۔ (‌تھالی کا بینگن؟؟ )
3۔ آپ ہر روایت پر مکمل یقین رکھئے، اس کا ایک نقطہ بھی تبدیل نہیں ہوا ہے۔ ان رویات پر ایمان بالمثل القرآن ضروری ہے۔ (‌تھالی کا بینگن؟؟ )
4۔ ارے یہ کیا، ایسا تو نہیں ہے۔ احادیث کا درجہ قرآن جیسا تھوڑی ہے۔ تو صاحب پھر کیا ہے؟ خود ہی انکار اور خود ہی اقرار۔(‌تھالی کا بینگن؟؟ )
5۔کلتب روایات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ پرانی کتب ذرا دبلی ہیں، کھا پی کر بعد میں موٹی ہوگئی ہیں ۔ یعنی تبیدیلیاں آتی رہیں ؟ِ؟؟؟ (‌تھالی کا بینگن؟؟ )
6۔ صرف ہمارے فرقے کی کتب روایات میں تمام روایات درست ہیں ۔ دوسرے فرقے کی کتب روایات سے ہم انکار کرتے ہیں، لیکن اس انکار کے باوجود ہم منکر الحدیث تھوڑی ہیں۔ (‌تھالی کا بینگن؟؟ )
7۔ جی ، کچھ روایات یقیناً دشنمنان اسلام نے شامل کردی ہونگی ۔ لیکن ہم سب روایات پر یقین رکھتے ہیں۔ دشمنان اسلام کی شامل شدہ روایات پر بھی ، ٹھیک ہے کہ اس میں اہانت رسول و انبیا اور اہانت اللہ اور قران سے مخالف واقعات شامل ہین - لیکن کیا ہے کہ ہم بتا نہیں سکتے کہ وہ حتمی طور پر وہ کون سے واقعات ہیں ، ہم ان سب واعات پر جو دشمنان اسلام نے شامل کی ہیں یقین رکھتے ہیں۔ پھر بھی منکر الحدیث تھوڑا ہی ہیں۔۔۔ واہ صاحب واہ، (‌تھالی کا بینگن؟؟ )

جب ان سب کی سب تمام فرقون کی روایات، واقعات و احادیث پر آپ ایمان بالمثل القرآن نہیں تو پھر کیا ہے؟ ایمان یا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ تھوڑا سا ایمان ہوتا ہے یا آدھا ایمان ہوتا ہے۔ ایمان کا مطلب ہے - مان لینا۔ اور تکفیر کا مطلب ہے نا ماننا آدھے ادھر اور آدھے ادھر کو کہتے ہیں (‌تھالی کا بینگن؟؟ )

آپ میں سے کوئی بھی یہ ثابت کرنے سے قاصر ہے کہ کسی بھی رسول کی اہانت کی سزا موت ہے۔ لہذا ان ذاتی حملوں کی مدد سے اور ان دیگر بیانات سے آپ لوگوں کو الجھا رہے ہیں۔ وہ اس لئے کہ آپ ان کتب روایات پر ایمان بالمثل القران رکھتے ہیں کہ ان کتب روایات کا ایک نکتہ بھی تبدیل نہیں ہوا۔ یہ وہ بیان ہے جس کے کوئی پاؤں نہیں ۔ لہذا جھوٹ‌و باطل بالکل واضح‌ہے۔

مجھے تو اب تک یہی نہیں پتہ کہ وہ کتب روایات ہیں کونسی جن پر آپ کا ایمان بالمثل القران ہے؟ آپ ان کتب کی لسٹ فرہم کردیجئے تاکہ معاملہ کی وضاحت ہو سکے۔
 
شکریہ باسم۔ میں آپ کے ترجمے اور طرز استدلال سے بہت حد متفق ہوں، جو فرق ہے وہ لکھ دیا ہے۔ ہم مان لیتے ہیں کہ وہ تمام لوگ جن کا تذکرہ ان آیات مبارکہ میں ہوا ہے اور ان آیات کی شان نزول یہ ہے کہ اگر --- ان میں سے کسی کی بھی توہین کی گئی ، تو ---- یہ وجہ ہے تکلیف کی اللہ کے لئے اور رسول کے لئے۔ اس مد میں آپ کی تمامتر بات درست ہے۔ اس نکتہ تک یہ درست ہے جہاں رسول اللہ کو اٹھا کر کھڑ ا کرنے کا تذکرہ ہے۔ اس حصہ پر غور فرمائیے۔

[arabic]لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ[/arabic]
یہ آیت بہت خوبی سے اس وقت کے آفیسر انچیف کو " نک " یعنی تم (‌مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے) کو دو بار خطاب کرتی ہے۔ اور اس اٹھا کھڑا کرنے کی وجہ کیا بتائی گئی ہے

1۔ اگر نہ باز آئے [arabic]لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ [/arabic]
2۔ منافقوں کا گروہ [arabic]الْمُنَافِقُونَ [/arabic]
3۔ اور وہ ان لوگوں کا گروہ جن کے دلوں میں روگ ہے [arabic] وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ [/arabic]
4۔ اور ان لوگوں‌ کا گروہ جو ہیجان انگیز افواہیں پھیلاتے ہیں [arabic]وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ[/arabic]

آپ دیکھتے ہیں المنافقون، الذین فی قلوبھم مرض اور المرجفون یہ تین گروہوں کی بات ہورہی ہے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں اگر وہ باز نا آئے تو پھر کیا ہوگا؟ رسول اللہ کو ان تین گروہوں‌ کے خلاف اللہ اٹھا کھڑا کر دے گا۔ یقیناً‌ رسول اللہ اکیلے ان تین گروہوں سے نہیں‌ جہاد فرمائیں گے۔ بلکہ جس وقت رسول اکرم کو حکم ہوگا تو اس وقت موجود تمام مسلمان ان کا ساتھ جہاد کی تمام شقیں پوری کریں ۔ گویا ہر محمود و ایاز کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ ان تین تکلیف پہنچانے والے گروہوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہو بلکہ اتھارٹی جس کو سونپی گئی ہے وہ فیصلہ کرے گا اور باقی مسلمان اس فیصلہ پر لبیک کہیں ۔ یہ مقصد ہے، اس مخصوص زبان کا۔ ورنہ جمع کا صیغہ استعمال کیا جاتا جہاں‌ اٹھا کر کھڑا کرنے کی بات کی گئی ہے۔

ورنہ بہت ہی آسان تھا اللہ تعالی کے لئے کہ اس حکم کے لئے یا ایھا الذین امنو اقتلو ۔۔۔۔۔ کہہ کر شروع کرتے اور یہ قانون بنادیتے کہ ہر شاتم رسول کو فوری کیفر کردار تک پہنچا دو۔ لیکن ایسی کوئی آیت نازل نہیں ہوئی۔ کیوں؟

لہذا میرا قیاس یہ ہے کہ ایسے گروہوں کو جو ان تین کیٹیگری میں پورے اتریں اور باز نا آئیں تو اس وقت کی اتھارٹی یا حکومت (جیسا کہ رسول اکرم اپنے وقت کی فوجی اتھارٹی تھے) یہ فیصلہ کرسکتی ہے کہ ان کے خلاف قتال یعنی جنگ کی جائے۔ لیکن ایک عام آدمی کو صرف اس بات پر کہ میری سمجھ میں اس شخص کی بات نہیں آئی تو اسے منکر الحدیث کا فتوی لگا کر یا شاتم رسول کا فتوی لگا کر بنا ثبوت ، بنا ثابت کئے فوری قتل کردیا جائے۔ یہ بے معنی ہے۔ میری معلومات کے مطابق،اس مخصوص واقعہ کو -- جس کی شان نزول یہ آیات ہیں --- وجہ بنا کر رسول اکرم نے کبھی جہاد نہیں شروع کیا۔

مثال کے طور پر اگر اس طرح زبانی الزام لگا کر کون کرنا جائز ہوتا جیسے کہ خاور بلال صاحب کے اپنی سمجھ کے مطابق الزامات مجھ پر ہیں، شکر خدا کا یہ ہے کہ میرے اور دوسرے افراد کے تمام مباحثہ لکھے ہوئے ہیں۔ لیکن اگر یہی باتیں زبانی ہوئی ہوتیں تو پھر میرے پاس کیا ثبوت ہوتا ان الزامات کا۔ کوئی نہیں ۔ بلکہ جذباتی طور پر ابھرا ہوا مجمع تو میری کوئی بات بھی نا سنتا۔ اب آپ اس جگہ اپنے آپ کو رکھ کر دیکھئے، کیا آپ کسی مجمع کو ایسا حق دینے کے لئے تیار ہیں کہ ایک شخص یا دو اشخاص آپ پر شاتم رسول کا الزام لگائیں اور مارنا پیٹنا شروع کردیں۔ اور بناء‌ کسی عدالت میں پیش کئے آپ کو سزائے موت دے دیں۔

اب آئیے الزامات کی بات کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ یہاں یہ سمجھتے ہیں کہ وہ نعوذ باللہ رسول اللہ ہیں ۔ میں تو اپنے بارے میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن جب بھی ان کی کسی بھی بات سے اختلاف کیا جائے یا ممکنہ ہونے والے جرائم جو کتب روایات کے ساتھ ہوتے رہے ہیں ، ان کا تذکرہ کیا جائے تو یہ فوراً‌رسول اللہ بن جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان سے ذاتی اختلاف رسول اللہ سے اختلاف ہے۔ میں منکر رسول و منکر حدیث ہوں کہ ان سے اختلاف کیا۔

تو صاحب میں اس کے لئے ایک بہت ہی سادہ حل تجویز کرتا ہوں۔ آپ میں سے کوئی سے دو اشخاص اللہ کی قسم کھا کر کہہ دیں کہ کوئی روایت درست ہے یا حدیث درست ہے ، اس لئے کہ اس کے یا تو آپ خود عینی شاہد ہیں (‌جو ممکن نہیں، یا رسول اللہ ہیں اور فرما رہے ہیں، جو کہ ممکن نہیں )‌ یا پھر یہ حدیث رسول (قول یا عمل ) کسی عینی گواہ یا عینی شاہد کے ذریعے سینہ بہ سینہ آپ تک پہنچی ہے۔ اور اگر کہنے والا جھوٹا ہے تو تمامتر گناہ خود اس کے سر۔ میں ایسی کسی بھی روایت کو ماننے کے لئے تیار ہوں، شرط یہ ہوگی کہ وہ مسئلہ قرآن میں بیان ہوا ہو اور قرآن کے مخالف نہ ہو۔ کہ رسول اکرم قرآن کے مخالف نہیں جاسکتے۔ اور اگر وہ مسئلہ اتنا ہی اہم تھا تو اللہ تعالی اس سے غافل نہیں رہ سکتے۔

میں کسی بھی روایت کو قران کی رو سے دیکھتا ہوں اگر پوری اترتی ہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن اگر یہ مضمون قرآن میں نہیں یا قرآن کے مخالف نظریات کا داعی ہے تو جناب اس کو ایک طرف رکھ دیتا ہوں اور اس کو کبھی پیش نہیں کرتا۔

آپ پوچھیں گے کہ میں ان لکھنے والوں کا یقین کیوں‌نہیں کرتا۔ اس لئے کہ میرے پاس جدید احادیث کی کتب کے علاوہ، 1929ع کی اور 1600 کی چھپی ہوئی دو عدد کتب روایات موجود ہیں اور اس دورانیہ کی متعدد کتب میرے دوستوں کے پاس موجود ہیں جو انہوں نے اپنے معصومانہ یقین کے باعث خریدی تھیں‌۔ ان کتب کے مندرجات، ترتیب اور تعداد کا واضح فرق یہ بتاتا ہے کہ ان کتب روایات کا کوئی معیار نہیں، لہذا جانچنا ضروری ہے اور کسوٹی قرآن ہے۔ یہ ایک ایسی پرکھ ہے جس سے کوئی مسلمان کیونکر انکار کرسکتا ہے؟ اگر یہ کتب کسی کام کی ہوتیں تو یقیناًَ ان کی حفاظت بہت ہی بڑے پیمانے پر کی جاتی۔ میں ایسے لوگون کو جانتا ہو جو ذاتی طور پر صحیح‌بخاری ازبر کرکے بیٹھے ہیں اور مساوی طور پر جدید و قدیم کتب کو پڑھ کر کنفیوژ ہوتے ہیں کہ یا اللہ کیا مانوں اور کیا نا مانوں ۔ کہ یہ حدیث 1600 والی کتاب میں کیوں نہیں ؟ نہ صرف یہ، میں نے کچھ اقتباسات 1920 میں لاہور سے چھپی ہوئی ایک حدیث کی کتاب سے یہاں دئے۔ لیکن صاحب وہ کسی نے بھی قبول نہیں کئے۔ چھاپنے والے صاحب مفتی کا درجہ رکھتے تھے اور پنجاب کے اسکولوں کے ہیڈ ماسٹر جنرل تھے۔ یہ ہم سب کی پیدائش سے پہلے کی کتاب ہے۔ ذہن میں رکھئے کہ میرا تمام تر اعتراض‌ روایات کی کتب کی ترتیب، طباعت، تدوین، تعداد اور متن کی بے تحاشا تبدیلیوں پر ہے کہ ان کتب کی معیاری کوالٹی کی وجہ سے یہ ممکن نہیں کہ کسی قول و فعل رسول کا بناء ضوع القرآن کے حتمی فیصلہ کیا جاسکے کہ یہ روایت "مظبوط" ہے ۔

یہ صرف میرا انداز فکر ہے جو کہ میری تحاریر میں نمایاں ہے۔ آپ کو اس سے متفق ہونے کی میں دعوت نہیں دیتا۔ میں صرف اور صرف قرآن پڑھنے اور شئیر کرنے کی دعوت دیتا ہوں ۔ الحمد للہ اب تک 16 سے زائد غیر مسلم (عیسائی اور یہودی اور واشنوا ہندو ) ، میری دعوت پر قرآن مکمل طور پر پڑھ چکے ہیں اور ان کے اور میرے مابین ہونے والے ڈسکشنز سے واضح ہے کہ وہ قرآن کے بنیادی نظریات کو گولڈن رولز کہہ کر تسلیم کرتے ہیں۔ بلکہ حیران ہیں کہ ان کی نظر میں اسلام کا ایک مختلف تصور کیوں تھا۔ اس مقصد کے لئے جو اصحاب مزید تکلیف کرنا چاہتے ہیں وہ اس ویب سائٹ پر دئے گئے قرآن کے اصول اور امریکی آئین کے اصولوں کا موازنہ انگریزی میں پڑھ سکتے ہیں۔
http://www.openburhan.net/usconst

مجھے اب تک اس کے بارے میں ایک بھی اعتراض کسی بھی امریکی سے موصول نہیں ہوا۔ اگر آپ کوئی اعتراض‌تلاش کرسکیں تو بہت عنایت ہوگی اور میں اس درستگی کے لئے کوشش کرو نگا۔

ایک بار پھر باسم کا شکریہ کہ اس نے یہ آیات ہم سب سے شئیر کیں ۔
باسم ۔ "قرآن ایک رکوع روزانہ" کا دھاگہ ، آپ کی راہ دیکھ رہا ہے۔

میں ندیم نائیک صاحب کے ساتھ ہر دوسرے اتوار شام 6:00 سے 7:00 سینٹرل امریکن وقت کے مطابق موجود ہوتا ہوں۔ اس کی ویب سائٹ ہے http://www.kchn1050.com/
پروگرام کا نام ہے قرآن کیا کہتا ہے۔ زیادہ تر پروگرام انگریزی میں ہوتا ہے ، ماڈریٹر ندیم نائیک صاحب ہیں ۔آپ اس کو انٹرنیٹ‌پر بھی سن سکتے ہیں۔
 

سیفی

محفلین
اسے میرے اک سوال نے پھنسا دیا جسے گفتگو میں کمال تھا (شاعر سے معذرت)


فاروق سرور خان صاحب ! یہ شعر آپکی ذات کے لئے نہیں ہے بلکہ آپ کے بے سروپا موقف اور مذہب کے لئے ہے۔


آپ مجھے تھالی کا بینگن قرار دیں یا یہودی ٹھہرائیں۔ ۔۔۔ ۔۔ ۔ ۔ میرے سوال کو احمقانہ گردانتے رہیں یا بے معنی نکات اٹھا کر اصل سوال سے بھاگیں۔


یہ بات اب روزِ روشن کی طرح واضح ہوچکی ہے کہ فتنہ انکارِ حدیث کے متوالوں کے پاس نہ کوئی بنیاد ہے نہ کوئی دلیل۔

اگر آپ مانتے ہیں کہ نبی علیہ السلام کو اذیت دینے کے واقعات قرآن میں مذکور ہی نہیں‌ ہیں تو آپ نے اپنی عالمانہ تحریر میں کیوں انکو درج کیا اور ساتھ یہ بھی نہیں کہا کے میرے غریب ہم وطنو یہ جو واقعات میں تمہیں سنا رہا ہوں کہ نبی علیہ السلام کی اتنی توہین کی گئی اور انھوں نے کوئی بدلہ نہیں لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب واقعات (نعوذباللہ) جھوٹی کتابوں کی جھوٹی روایات ہیں۔۔۔

دیانت کا تقاضہ تو یہ تھا کہ آپ ان واقعات کا تذکرہ ہی نہ کرتے جنھیں آپ جھوٹا سمجھتے ہیں۔ بلکہ اپنی عالمانہ تحریر کے لئے قرآن سے دلیل لاتے۔ کھوپڑی میں چڑیا جتنی عقل رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کتاب یا مصنف کو جھوٹا کہتا ہے تو اپنی تحریر و تقریر میں اپنے موقف کی حمایت کے لئے اسی شخص یا کتاب کا اقتباس شامل نہیں کرتا۔

آپ کا ایک جواب یہ بھی تھا کہ چونکہ عوام ان کتابوں پر یقین رکھتے ہیں تو اس لئے حوالہ دے دیا۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نے اس جملہ سے پہلے یہ بات کہیں نہیں لکھی کہ ہوشیار ، خبردار ، یہ حوالہ (نعوذباللہ) جھوٹی کتابوں کی جھوٹی روایات سے آپ کے ذوقِ طبع کے لئے ہے۔ اور اس حوالے کے بغیر بھی میرا دعویٰ دوسرے دلائل کی مجودگی سے قوی ہے۔

دوسری بات کہ جن لوگوں کو ان کتب پر ایمان ہے ان کے لئے اس حوالے کے علاوہ بیسیوں حوالے اور بھی ہیں جنھیں وہ بخوبی جانتے ہیں۔ آپ پہلے ہوم ورک مکمل کرلیں کہ کسی طرح دینِ اسلام کا کوئی ورژن کتبِ احادیث کے بغیر بھی مکمل کر کے دکھا دیں۔

اور تیسری اور آخری بات:


کہ اب بھی ----------------- اب بھی--------------------- آپ مجھے قرآن مجید کی کسی آیت-----------سورہ لھب سمیت -------------- کا ترجمہ بغیر قوسین/ بریکٹس کے دکھا دیں جس میں آپ کے مذکورہ تین طریقوں سے نبی علیہ الصلوہ والسلام کو اذیت دینے کا واقعہ موجود ہو- بریکٹس کے اندر کی عبارت تو مترجمین نے احادیث کی روشنی میں لکھی ہے آپ نے بریکٹس کے اندر کی عبارت کہاں سے نازل کروا لی کیونکہ آپ کا تو احادیث پر ایمان ہی نہیں۔

اگر آپ مانتے ہیں کہ قرآن کے اندر ایسا کوئی واقعہ مذکور ہی نہیں ہے کہ نبی علیہ السلام کو پتھر مارے گئے، اوجھڑی پھینکی گئی اور راستے میں کانٹے بچھائے گئے،اور اللہ نے آپ کو ان سے بدلہ لینے کی بجائے آخرت میں کفار کو عذاب دینے کا بتلایا-------------تو آپ کس بنیاد پر یہ کہہ رہے ہیں کہ بھئی نبی علیہ السلام کی توہین کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لو۔

آپ نے اپنی پوسٹ میں کفار کو آخرت میں عذاب دینے کی آیات کو کیسے اس بات پر منطبق کیا کہ نبی علیہ السلام کو اذیت دینے کی وجہ سے وہ صرف آخرت میں عذاب کے مستحق ہیں اور دنیا میں بری ہیں۔

آپ کے پاس ان آیات کے شانِ نزول کے کیا شواہد ہیں۔ جبریل علیہ السلام تو نہیں بتا سکتے کہ جناب یہ اس موقعہ پر میں نے آیات نبی علیہ السلام تک لائیں۔ یا قرآن مجید کے آخر میں کوئی انڈیکس کی طرح کی چیز بھی اللہ نے نہیں اتاری کہ اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے۔

؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
یہ آپ نے میرا مسلک معلوم کرنے کیا رٹ شروع کی ہے کہ آپ اپنی عادت کے موافق سپیم پیغامات کا آغاز کرلیں غیر متعلقہ باتوں پر----آپ سوال کا جواب دیں صرف اتنا ہی کافی ہے

والسلام مع الاکرام



////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////
فاروق سرور خان صاحب کی تمام تر کوشش کے باوجود کے یہ دھاگہ کسی طرح صحتِ احادیث کی بحث بن جائے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ بات کو توہینِ‌رسالت کی سزا کے حوالے سے جاری رکھوں اس لئے میرے خیال میں دوسرے دھاگے میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
 

رضا

معطل
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نے اس جملہ سے پہلے یہ بات کہیں نہیں لکھی کہ ہوشیار ، خبردار ، یہ حوالہ (نعوذباللہ) جھوٹی کتابوں کی جھوٹی روایات سے آپ کے ذوقِ طبع کے لئے ہے۔ اور اس حوالے کے بغیر بھی میرا دعویٰ دوسرے دلائل کی مجودگی سے قوی ہے۔

دوسری بات کہ جن لوگوں کو ان کتب پر ایمان ہے ان کے لئے اس حوالے کے علاوہ بیسیوں حوالے اور بھی ہیں جنھیں وہ بخوبی جانتے ہیں۔ آپ پہلے ہوم ورک مکمل کرلیں کہ کسی طرح دینِ اسلام کا کوئی ورژن کتبِ احادیث کے بغیر بھی مکمل کر کے دکھا دیں۔
فاروق صاحب!درج بالا سوال جواب نہیں دیا؟؟؟
 
برادر محترم، رضا، میں روایات کے بارے میں اپنا خیال بہت واضح طور پر لکھ چکا ہوں۔ اس سوال کا جواب اس سے پچھلی پوسٹ میں بہت واضح ہے اور یہاں ہے۔ http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=254097&postcount=80


پچھلی پوسٹ پڑھئیے اور دیکھئے کہ پوچھنے والے کا اپنا ایمان بھی ان کتب روایات پر نہیں ہے، ان کتب کی لسٹ کہاں ہے اور کس کس نے منظور کی ہے بنیادی طور پر یہ لوگوں کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ قرآن کبھی مکمل تھا ہی نہیں۔ 6 یا 7 لاکھ آیات باقی تھیں اور اللہ تعالی نے (نعوذ باللہ) مغالطہ میں یہ ڈیک۔ل۔ئر کردیا کہ " لو آج تمہارا دین مکمل کردیا " اس طرح یہ قرآن میں مزید کتب کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں اور وہ بھی اپنی مرضی کا ۔ جو کچھ یہ دوسروں کو یقین دلانا چاہتے ہیں اس پر ان کا یقین ہی نہیں پھر بھی ان کتب کی وکالت کا ذمہ کیوں اپنے سر لیتے ہیں ۔ آپ سے بھی استدعا ہے کہ جب بھی قرآن سے باہر کوئی روایت پیش کی جائے اتنا استفسار کرلیجئے کہ خود پیش کرنے والے کا ایمان اس بات پر ہے یا نہیں۔ اس مناظرے کو کم رکھنے کے لئے میں عموماً قرآن کے علاوہ کسی اور کتاب سے کوئی حوالہ پیش کرنے سے اجتناب برتتا ہوں۔

اس دھاگہ میں 22 سالہ ہندو لڑکے کی موت پر بات کیجئے اور قرآن سے حوالہ درکار ہے کہ یہ قتل کیونکر جائز تھا۔ کوئی واضح قرآنی ثبوت اس قسم کی بربریت کا نہیں۔ ہم میں ایسے نظریات بری طرح گھس بیٹھے ہیں جو غیر قرآنی ہیں ، جو وقت کے ساتھ ساتھ ہی دور ہونگے
 

سیفی

محفلین
فاروق سرور خان صاحب۔

یہ تو آپ کے اکابرینِ بانیانِ فتنہ انکارِ حدیث کا بھی وطیرہ رہا ہے کہ انھیں دوسروں کے سوالات تو نظر ہی نہیں آتے اور وہ بے مقصد اور غیر متعلق سوالات کی رٹ لگائے رکھتے ہیں۔ آپ مطمئن رہیں میں آپ کے جھانسے میں نہیں آؤں گا اور اپنے اسی سوال پر زور دوں گا جو آپ سے پہلے بھی پوچھ چکا ہوں جو اس دھاگے کے موضوع سے مطابقت رکھتا ہے کہ:



اب بھی ----------------- اب بھی--------------------- آپ مجھے قرآن مجید کی کسی آیت-----------سورہ لھب سمیت -------------- کا ترجمہ بغیر قوسین/ بریکٹس کے دکھا دیں جس میں آپ کے مذکورہ تین طریقوں سے نبی علیہ الصلوہ والسلام کو اذیت دینے کا واقعہ موجود ہو- بریکٹس کے اندر کی عبارت تو مترجمین نے احادیث کی روشنی میں لکھی ہے آپ نے بریکٹس کے اندر کی عبارت کہاں سے نازل کروا لی کیونکہ آپ کا تو احادیث پر ایمان ہی نہیں۔


آپ نے اپنی پوسٹ میں کفار کو آخرت میں عذاب دینے کی آیات کو کیسے اس بات پر منطبق کیا کہ نبی علیہ السلام کو اذیت دینے کی وجہ سے وہ صرف آخرت میں عذاب کے مستحق ہیں اور دنیا میں بری ہیں۔

آپ کے پاس ان آیات کے شانِ نزول کے کیا شواہد ہیں۔ جبریل علیہ السلام تو نہیں بتا سکتے کہ جناب یہ اس موقعہ پر میں نے آیات نبی علیہ السلام تک لائیں۔ یا قرآن مجید کے آخر میں کوئی انڈیکس کی طرح کی چیز بھی اللہ نے نہیں اتاری کہ اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے۔


آپ جب تک میرے اس پہلے اور بنیادی نکتہ کا جواب نہیں دیں گے بات کیسے آگے بڑھے گی۔ آپ کی یہ خوش فہمی یا غلط فہمی بھی دور ہو جانی چاہئے کہ آپ مجھے ادھر ادھر کی بحث میں الجھا کر اپنا دامن بچا جائیں گے

آپ کے نکتہ نمبر 7 کے بارے عرض ہے کہ مجھے قطعی شوق نہیں کہ آپ پر کوئی زبردستی کروں کہ آپ کتبِ احادیث پر ایمان لائیں۔------- [ARABIC]یھدی من یشاء و یضل من یشاء [/ARABIC]----------آپ اس بات پر بحث کرنا چھوڑ دیں اور صرف اپنے موقف کی وضاحت کردیں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top