قرآن پر عمل

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
والدین میں تبدیلی

جب یہ بہن اپنا ایمان افروز واقعہ سنا چکیں تو محفل میں سے ایک آواز ابھری، “ کیا میں کچھ عرض کر سکتی ہوں۔ کیا آپ لوگ میرا واقعہ سننا پسند کریں گے؟“ ہم سب کی نظریں آواز کی سمت اٹھیں تو ایک دوشیزہ کھڑی تھی۔ اس کی عمر ابھی بیس سال بھی نہ ہوئی تھی۔ اس نے اپنا واقعہ کچھ یوں سنایا۔

“ میں ماں باپ کی اکلوتی بیٹی ہوں۔ میرا کوئی اور بہن بھائی نہیں۔ اس لیے والدین میرا بہت خیال کرتے ہیں۔ بہت پیار کرتے ہیں۔ انہوں نے مجھے لاڈ پیار سے پالا ہے اور میری ہر بات مانی ہے۔ زندگی بڑے مزے سے گزر رہی تھی۔ والد جو کما کر لاتے، ہم حلال حرام کی تمیز کیے بغیر کھاتے۔ زندگی اسی ڈگر پر چل رہی تھی کہ اللہ نے مجھے آپ جیسی محترم مستورات کی محفل میں شرکت کی توفیق بخشی۔ یوں مجھے ایک نئی شیریں چیز کے ذائقے سے آشنا ہونے کا موقع ملا۔ یہ پیاری اور میٹھی چیز قرآن کریم ہے۔ اللہ سبحانہ کا کلام۔ اس کی حلاوت و لذت کا کیا کہنا۔ میری اس سے بڑی کیا سعادت ہو سکتی ہے کہ میں اپنے آپ کو آیت قرانی کے سپرد کر دوں، اس پر عمل کروں اور لوگوں کو میرے ذریعے یہ معلوم ہو کہ قرآن پر عمل کا تجربہ کیسے ہوتا ہے۔“

“ یہ سعادت تو بہت بڑی ہے، مگر ہمارے گھر میں ایک کش مکش شروع ہو گئی۔ میرے اور میرے والدین کے درمیان ایک تصادم کی صورت پیدا ہو گئی۔ وہ چاہتے تھے کہ میں ان کی مرضی پہ چلوں، وہ کام کروں جو وہ اپنے تصور کے مطابق، میرے دنیوی فائدے کے لیے چاہتے تھے۔ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کا فرق نہ کروں۔ وہ مجھے مجبور کرنا چاہتے تھے کہ میں ان کے ساتھ کلب جایا کروں، وہاں دوست بناؤں۔ وہاں جا کر دوستوں سے کھیلوں، ورزشیں کروں اور مختلف کھیلوں میں حصہ لوں۔ میں کلب جانے کے لیے ان کی پسند کا لباس زیبِ تن کروں تاکہ سب کی نظروں میں جچوں، سب مجھے پسند کریں۔ کلب کے کھیلوں میں لازماً شرکت کروں تاکہ وہاں نوجوان مجھے دیکھیں، پسند کریں۔ ان کی خواہش تھی کہ میرے جسم کا زیادہ تر حصہ بے لباس ہو۔ وہ مجھے مجبور کرتے تھے کہ میں تھیٹر دیکھوں، ڈرامے دیکھوں، خواہ وہ کتنے ہی بے ہودہ اور لچر کیوں نہ ہوں۔“

“ والدین کے تقاضے اور ان کا اصرار اس مجلسِ درسِ قرآن سے بالکل متصادم تھا۔ میں نے اگر آپ کی اس مبارک محفل میں شرکت نہ کی ہوتی تو شاید میں اپنے والدین کے اصرار پر ان کے مطالبات مان لیتی مگر میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے اس مقدس مجلس میں شرکت کا موقعہ ملا۔ شروع شروع میں تو میں والدین کے سامنے چلا چلا کر بولتی تھی۔ میں ان کے ساتھ کلب اور تھیٹر میں جانے سے انکار کر دیتی اور اپنے کمرے میں گھس کر اندر سے دروازہ بند کر لیتی۔ میں جب بھی ان سے ملتی نہایت ترش روئی کے ساتھ، روکھے پھیکے انداز میں۔ میں سمجھتی تھی کہ میرا اپنے والدین کے ساتھ اس طرح ترش روئی سے پیش آنا اطاعتِ الٰہی کی معراج اور جہادِ اکبر ہے۔ مگر جب آپ کی طرف سے “فَلاَ تَقُل لَّھُمَآ اُفٍّ وَلاَ تَنْھَرْھُمَا (بنی اسرائیل 23:17)“ پر عمل کرنے کا کام تفویض ہوا تو صورتِ حال بالکل بدل گئی۔تیوری چڑھانے کے بجائے میں مسکرانے لگی۔ دروازہ بند کرنے کے بجائے میں انکے ساتھ بیٹھنے لگی۔ میں اس نے محبت و احترام سے بات کرتی، ان کی مدد کرتی۔ میں ان کا شکریہ ادا کرتی کہ انہوں نے میرے لیے اتنی تکلیفیں برداشت کیں ہیں اور اتنا مال صرف کیا ہے۔ میں تو امرِ الٰہی کی پابندی کر رہی تھی۔ میں نے آہستہ آہستہ انہیں اپنی نئی سہلیوں سے واقف کروایا۔ میں نے انہیں بتایا کہ یوں کریں تو اللہ خوش ہوتا ہے، فلاں کام کریں تو اللہ راضی ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰی کا فلاں چیز کے بارے میں یہ حکم ہے۔ اللہ نے فلاں کام سے روکا ہے۔“

“ میں نے دیکھا کہ میرے والدہ کافی بدل گئی ہیں۔ وہ مجھ سے قرآن کریم اور اسلام کے بارے میں زیادہ معلومات لینے میں دلچسپی لے رہی ہیں۔ وہ اپنے سابقہ خیالات و اعمال پر نادم ہیں۔ یہ ندامت ان کے چہرے سے عیاں تھی۔ میں آپ سب کو یہ بتا کر حیران کرنا چاہوں گی کہ میری امی میرے ساتھ بیٹھی ہیں۔“

ماں نے اٹھ کر اپنی بیٹی کو گلے لگایا اور وہ اس کے چہرے کو مسلسل چومنے لگی۔ ہم سب نے یہ دیکھا تو اللہ سبحانہ کی قدرت پر حیران تھیں کہ وہ کس طرح دلوں کو بدل دیتا ہے۔ اپنے بندوں پر کس قدر مہربان ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ایک بہن کا عجیب تجربہ

یہ ایمان افروز منظر ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ ایک خاتون کھڑی ہوئیں۔ انہوں نے حسرت بھری نظر ماں بیٹی پر ڈالی اور پھر یوں گویا ہوئیں، “سبحان اللہ، یہ سب کچھ کیسے ہو گیا؟ میری امی تو میری کوئی بات نہیں مانتیں۔ میں نے انہیں منانے اور قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے مگر بے سود۔“

ہم نے اس بہن کو بتایا کہ اس کے لیے صبر و برداشت چاہیے۔ ہمیں محنت کرنی چاہیے۔ استقلال سے کام لینا چاہیے۔ آپ کو آیات پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ دعا سے بھی کام لینا چاہیے۔ ال لیے کہ دل تو اللہ سبحانہ و تعالٰی کے قبضے میں ہیں۔ وہ جس طرف چاہے دلوں کو پھیر دیتا ہے۔ آپ کا کام عمل کرنا ہے، دعا کرنا ہے اور رحمت الٰہی سے کبھی بھی مایوس نہ ہونا ہے۔ اس کے بعد تمام شرکائے درس نے وعدہ کیا کہ سب رات کی تنہائیوں میں اس بہن کی والدہ کے لیے دست بہ دعا ہوں گی۔

اختتامِ درس پر ہم نے یہ طے کیا کہ ابھی اس آیت پر ہی عمل رہے گا۔ اس کے ساتھ اس آیت کے مزید یہ الفاظ بھی شامل ہوئے “ وَقُل لَّھُمَا قَوْلاً كَرِيمًا (بنی اسرائیل 23:17) - بلکہ ان سے احترام سے بات کرو۔“ اب ہم اس آیت کے ساتھ ہفتہ گزاریں گے۔ ہم اس آیت کو دہراتے رہیں گے حتٰی کہ یہ آیت ہمارے دلوں میں جاگزیں ہو جائے۔ پھر ہمارے اعضا و جوارح اس پر عمل کریں گے۔ ہم اپنے حواس بھی اس آیت پر عمل کے لیے استعمال کریں گے اور آئیندہ ملاقات میں اس آیت کے تجربات بیان ہوں گے۔

بات تو بظاہر بہت آسان معلوم ہوتی ہے۔ مگر ہر انسان کی کچھ مخصوص عادات ہوتی ہیں۔ جن پر اس کی پرورش ہوئی ہوتی ہے۔ ان عادات کو چھوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ والدین کے ساتھ بات کرنے اور عام انسان کے ساتھ بات کرنے میں بہت فرق ہے۔ کوئی تو اپنے والدین کے ساتھ ترش رو ہو کر بات کرتا ہے۔ ان کی ہر بات کو رد کر دیتا ہے۔ لاپرواہی سے جواب دیتا ہے۔ کوئی اپنے ماں باپ سے عام روائتی طریقے کے مطابق بات کرتا ہے۔ جب کہ کوئی شخص اپنے والدین کے ساتھ سختی سے پیش آتا ہے اور اسے اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ کوئی ایسا بھی ہے جسے یہ بات یاد نہیں کہ اس نے اپنی پوری زندگی میں کبھی ایک بار بھی اپنے والد یا والدہ کا ہاتھ چوما ہو۔ ذیل میں کچھ تجربات درج کیئے جاتے ہیں جس سے بات واضح ہو جائے گی۔
 

شمشاد

لائبریرین
والدین سے محبت کا اظہار

“ جب میں اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد “ بلکہ ان سے احترام سے بات کرو“ دہرایا کرتی تھی تو میں سمجھتی تھی کہ یہ تو محض چند منتخب الفاظ دہرا دینے کی بات ہے۔ والدین کے سامنے چند جچے تلے جملے کہہ دیئے جائیں تو ان کا احترام ہو جاتا ہے۔ مگر یہ میرا محض گمان ثابت ہوا، اس کا حقائق سے کوئی تعلق نہ تھا۔ میں ایک بار اپنی والدہ محترمہ کے پاس گئی، پہلے سے کچھ جملے سوچ لیے تھے۔ خیال یہ تھا کہ یہ جملے دہرا دوں گی۔ میں نے والدہ کے سامنے جا کر یہ رٹے ہوئے فقرے ادا کرنے چاہے مگر میری زبان بند ہو گئی۔ مجھے سخت صدمہ پہنچا کہ میں اپنی والدہ کے روبرو چند جملے نہ کہہ پائی اور پہلی ہی کوشش میں ناکام ہو گئی۔ پھر میں نے ازسرِ نو اپنے اندر جرات کو مجتمع کیا اور چاہا کہ اپنے والد بزرگوار کے سامنے اپنے ادب و احترام کا اظہار کر پاؤں، ان کو یہ باور کرا دوں کہ مجھے ان سے کتنا پیار اور تعلق ہے۔ مگر اس بار بھی جملے دھرے کے دھرے رہ گئے۔“

“ اس بار میں نے اپنے آپ سے کہا اللہ چاہے گا تو ناکام نہیں رہوں گی۔ بات تو معمولی سی ہے۔ مجھے کیا ہو گیا ہے؟ میرے اندر سے آواز آئی، جب تو یہ فقرے ادا کرئے گی تو تیرے ماں باپ حیران ہو جائیں گے۔ ہو سکتا ہے تو ہنس پڑے اور اپنے بہن بھائیوں کے تمسخر کا نشانہ بنے۔ اس پر میں نے اللہ سبحانہ سے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اپنی آیت پر عمل کا شرف عطا فرما۔ پھر مجھے ایک خیال آیا۔ میں بازار گئی، جہاں گل فروش پھول بیچتے ہیں۔ میں نے وہاں سے اپنی امی اور ابا کے لیے پھول خریدے۔ گھر آ کر میں نے پہلے اپنی امی کو پھول پیش کیے اور ساتھ ہی یہ الفاظ کہے، “ میری میٹھی ماں، یہ آپ کے لیے ہیں۔“ اس پر میری امی مسکرائیں۔ میں ان کی اس مسکراہٹ کو کبھی بھول نہ سکوں گی۔ مرتے دم تک یاد رکھوں گی۔ وہ مجھے کہہ رہی تھیں، “ کیا میں تمہارے نزدیک ایسی ہوں؟“ میں نے جواب دیا، “امی آپ مجھے پوری دنیا سے زیادہ پیاری ہیں۔ آپ مجھے کُل جہاں سے زیادہ عزیز ہیں۔ آپ میرے نزدیک اس کائنات میں سب سے زیادہ قیمتی ہیں۔ آپ کے بغیر یہ عالم سراب ہے۔“

“ میں نے یہ الفاظ کہہ دیئے اور اپنی امی کا ردِ عمل جاننے کا انتظار نہیں کیا، سیدھی اپنے والد صاحب کے پاس چلی گئی اور انہیں پھول پیش کرتے ہوئے کہا، “ میری طرف سے آپ کے لیے چند پھول۔ اللہ بہترین جزا دے۔ میں آپ کے لیے بہت دعا کرتی ہوں۔“ ابا جی نے مجھ سے کہا، “ خیر ہو، خیریت ہے؟ آج آپ بہت خوش ہیں، کیا بات ہے؟“ میں نے جواب دیا، “ جی ہاں۔ میں آپ دونوں سے بہت خوش ہوں۔“

“ میں نے فوراً اپنے کمرے کا رخ کیا۔ میرا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا، بات تو بہت آسان تھی۔ اب میں کتنی خوش بخت ہوں۔ میرے والدین نے میرے اظہار محبت کو قبول کر لیا ہے۔ اب میں والدین کے ہاتھوں پر بوسہ دیتی ہوں۔ میری زندگی اب بامعٰنی ہو چکی ہے۔ مجھے زندگی کا اس سے پہلے کبھی اتنا لطف نہیں آیا تھا۔ میں آپ سب سے یہی درخواست کرتی ہوں کہ قرآن کریم کے اس حکم پر عمل کیجیئے اور سعادت دارین حاصل کیجیئے۔“
 

شمشاد

لائبریرین
ایک بھائی کا والدین سے حسن کلام

اس کے بعد ایک خاتون نے کہا، “ جس بہن نے ابھی ابھی اپنا واقعہ بیان کیا ہے وہ بہت خوش نصیب ہے۔ میں نے تو اپنے والدین کے سامنے اتنے اچھے جملے ادا نہیں کیئے۔ البتہ میرا ایک بھائی ہے۔ وہ میرا انتظار کرتا رہتا ہے۔ میں جوں ہی درسِ قرآن سن کر گھر جاتی ہوں تو فوراً میرے پاس آتا ہے اور معلوم کرتا ہے کہ آج کے درس میں عمل و حرکت کے لیے کون سی آیت منتخب ہوئی ہے۔ میں اس آیت کی شرح و تفسیر بیان کرتی ہوں۔ معانی اور سبب نزول بتاتی ہوں۔ چنانچہ اس نے مجھ سے عمل کے لیے یہ آیت لے لی “ وَقُل لَّھُمَا قَوْلاً كَرِيمًا (بنی اسرائیل 23:17)۔ یہ آیت اس کی زبان پر رواں ہو گئی اور اس کے عمل کا محرک بنی۔ اس کے بعد والدین کے ساتھ اس کا طرزِ عمل بالکل بدل گیا ہے۔ میرے ماں باپ اس کے لیے ہر وقت دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ میں چند دن پہلے اپنی امی کو یہ کہتے ہوئے سن چکی ہوں کہ شاید اللہ تعالٰی مجھے یہ نیک و فرماں بردار بیٹا جننے کی وجہ سے جنت میں داخل فرمائے گا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ میں اب کیا کروں؟ میرا بھائی مجھ سبقت لے گیا ہے۔“

اس پر ایک خاتون نے اس کی ہمت بندھاتے ہوئے مشورہ دیا کہ آپ بار بار کوشش کریں۔ ہم سب کو قرآن کریم پر عمل کے لیے محنت و کوشش سے کام لینا چاہیے۔ قرآن کریم کے مطابق عمل کرنا ہی سب سے زیادہ بہتر ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
میراث

میراث اللہ کی حدوں میں سے ایک حد ہے۔ اسے اللہ سبحانہ و تعالٰی نے خود ہی مقرر فرمایا ہے۔ میراث کی تقسیم کے اصول و قواعد کا تعین اللہ نے کر دیا ہے۔ اسے کسی انسان کی مرضی اور صواب دید پر نہیں چھوڑا۔اس نے اپنی حکمت بالغہ اور عدل سے کام لیتے ہوئے میراث کے بارے میں جامع احکام دے دیئے ہیں۔ نصاب اور حدیں مقرر فرما دی ہیں۔ ورثا متعین کر دیئے ہیں۔

ہم نے انے درس قرآن میں آیات میراث کی تشریح و توضیح کی تا کہ ہم سب ان آیات کے مطابق چلیں اور اپنے اوپر ان کا اطلاق کریں۔ درس کے بعد متفقہ طور پر یہ طے پایا کہ ورثے کی ان تمام آیات پر عمل درآمد کیا جائے جن کا آغاز اس آیت سے ہوتا ہے، “ يُوصِيكُمُ اللّہُ فِي اَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الاُنثَيَيْنِ (النساء 11:4) - تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے۔ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔“
 

شمشاد

لائبریرین
زیورات کی تقسیم

ایک خاتون میرے پاس آئیں اور مجھے بتایا، “ میری والدہ فوت ہو گئیں، ان کے وارث ہم دو بہن بھائی تھے۔ میں نے اپنی والدہ کا سارا سونا لے لیا۔ جیسا کہ ہمارے ملک میں دستور ہے۔ زمین بیٹے لے لیتے ہیں، بہنوں کو نہیں دیتے تاکہ کوئی غیر ہماری آبائی زمین کا حصہ دار نہ بن سکے۔ بیٹیا سونا اور زیورات لے لیتی ہیں تاکہ کوئی غیر عورت ان زیورات کو نہ پہن سکے اور مرحومہ کی بیٹیاں ہی انہیں استعمال کریں۔ میری والدہ کو فوت ہوئے کئی سال گزر چکے لیں۔ سونا ابھی تک میرے پاس ہی ہے۔ بھائی نے اس میں سے نہ کچھ لیا ہے، نہ ہی میں نے اسے دیا ہے اور نہ ہی میرے بھائی نے مجھ سے کبھی اس کا مطالبہ کیا ہے۔ اب میں ورثے والی آیات پر عمل کرنا چاہتی ہوں۔ آپ بتائیے میں‌ کیا کروں؟ میری والدہ اور میری بھابھی کے مابین چپقلش سی رہتی تھی۔ اس لیے میں اپنی بھابھی کو دیکھنے کی بھی روادار نہیں ہوں۔ کجا یہ کہ میں اسے اپنی والدہ مرحومہ کے زیورات پہنے دیکھوں۔ میری وہ والدہ جسے اس بھابھی نے ستایا اور ان سے ترک تعلق کیئے رکھا۔“

میں نے کہا، “ میری عزیز بہن، میراث تو دراصل اللہ کی ملکیت ہے۔ اللہ نے ہمیں اس میں نائب بنایا ہے۔ جب بھی کسی مسلمان کی وفات ہوتی ہے تو اللہ کے ارادے اور اذن کے مطابق ہی ان آیات کی رو سے اس کی میراث مستحقین میں تقسیم کی جاتی ہے۔ لٰہذا اس اصول کے مطابق یہ سونے کے زیورات آپ کی ملکیت نہیں ہیں، نہ آپ کا حق ہیں۔ یہ زیورات اللہ کا حق ہیں۔ اللہ نے یہ بتا دیا ہے کہ اس کا مستحق کون ہے۔ پس اللہ کی منشا و مراد یعنی اس کے قرآن کریم کی رہنمائی کے مطابق ہی یہ زیورات تقسیم ہوں تو اللہ راضی ہے۔ جو شخص اللہ کا حق ادا نہیں کرتا، اسے اللہ سبحانہ کی طرف سے سخت سزا ملے گی۔“

سوال کرنے والی خاتون نے اپنے چہرے کو ہتھیلیوں کی گرفت میں لیتے ہوئے کہا، “ معاذ اللہ، میرا مقصد اللہ کی حدود سے تجاوز کرنا نہیں ہے۔ میں تو یہ بتانا چاہتی تھی کہ ہمارے یہاں رواج اور عرف کیا کیا ہیں؟ انہی رواجوں پر کئی نسلوں سے عمل درآمد ہوتا چلا آ رہا ہے۔“

میں نے کہا، “ اسی لیے تو ہم نے آیاتِ قرآنی پر چلنے کا عہد کیا ہے تاکہ غیر اللہ کے طریقوں کو چھوڑ دیں۔ اس قسم کے رسم و رواج تو محض خواہشاتِ نفسانی ہیں۔ لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں حالانکہ اللہ نے ان رسوم و رواج کے حق میں کوئی آیت نازل نہیں کی۔“

پیاری بہن، آپ اصل مالک سے مدد لیجیئے، اس کے حکمت بھرے احکام کے آگے جھک جائیے۔ اللہ سبحانہ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق تمام ورثہ تقسیم کر دیجیئے۔ ہر حق دار کو اللہ کے قانون کے مطابق اس کا حصہ دیجیئے۔ آپ کے بھائی کے پاس آپ کا کوئی حق ہے تو تقاضا کیجیئے، مطالبہ کیجیئے۔ اللہ کے حکم و امر کو نافذ کیجیئے۔ جب ہر حق دار اپنا حق لے لے، تو اس کے بعد اگر وہ دل سے چاہے تو کسی چیز سے کسی دوسرے کے حق میں دست بردار ہو سکتا ہے۔ کوئی چیز اپنے کسی عزیز کو ہبہ کر سکتا ہے۔ اس کے لیے کامل رضا مندی ہونا ضروری ہے۔ اس میں شرم و لحاظ، عرف و رواج اور پیرویِ خواہشات کا دخل نہیں ہونا چاہیے۔“

سوال پوچھنے والی بہن نے کہا کہ “ میں ان شاء اللہ اللہ کی آیات کے مطابق چلوں گی۔“

چند دنوں کے بعد یہی بہن میرے گھر آئی۔ خوشی و مسرت سے اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔ آتے ہی کہنے لگی، “ پیاری باجی اللہ کی آیات نے میرے سینے کے بوجھ کو بالکل ہلکا کر دیا ہے۔ میں جب آپ سے ملاقات کے بعد گھر پہنچی تو مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میں چور ہوں اور میں معاذ اللہ اللہ کا مال چرایا ہے۔ اللہ کا مال جس میں وہ اپنی حکمت و ارادے سے تصرف کرتا ہے۔ میں نے اللہ کی ملکیت میں سے وہ کچھ چرا کر اپنے پاس رکھ لیا ہے، جس کی میں شرعاً و قانوناً حق دار نہ تھی۔ میں نے مالکِ حقیقی سے اجازت لیے بغیر مال پر قبضہ کر لیا ہے۔ مجھے رہ رہ کر یہ خیال آتا رہا کہ یہ مال اللہ کا تھا۔ اللہ نے میری والدہ کو اس کا مالک بنایا تھا۔ والدہ فوت ہوئیں تو اس مال کا مالگ پھر اللہ پاک بن گیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس مال کو اللہ کے بتائے ہوئے قوانین و احکام کے مطابق حق داروں میں تقسیم کیا جاتا۔ والدہ کی وفات کے ساتھ ہی ان کا حق ملکیت ختم ہو گیا تھا۔ میں نے اللہ کے مال پر قبضہ جما کر چوری کی۔ مجھے یہ احساس شدت سے رہنے لگا۔“

میں نے کہا، “ گھبرایئے نہیں۔ یہ احساس زیاں بہت قیمتی ہے۔ گویا آپ اپنے کیئے پر نادم و پشیمان ہیں اور اللہ کی آیات پر عمل کے لیے آمادہ ہیں۔“

“ بہن، آپ نے درست فرمایا۔ یہ احساسِ جرم واقعی ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ یہ احساس ہی مجھے مجبور کر رہا تھا۔ چنانچہ میں اپنے بھائی کے پاس گئی، اپنے ساتھ امی کا سارا سونا اور زیورات لیتی گئی۔ میں نے جا کر بھائی سے کہا، اب وقت آ چکا ہے کہ سارے فیصلے اللہ کے حکم کے مطابق ہوں۔ ہمارے اور آپ لوگوں کے مابین تمام جھگڑوں کا فیصلہ قرآن کے مطابق ہو گا۔ ہم سب کو ان آیات پر عمل کرنے کا اجر و ثواب ملے گا۔ اب ہم سونے اور زیورات کو تقسیم کریں گے۔ مگر یہ تقسیم ہماری خواہشات اور رسوم رواج کے مطابق نہ ہو گی بلکہ اللہ کے ارادے کے مطابق ہو گی۔“

“ میرے بھائی نے شرم و لحاظ اور مروت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، “ میں آپ کے حق میں اپنے تمام حقوق سے دست بردار ہوتا ہوں۔“ میں نے جواب دیا، “ بھائی جان، ابھی نہیں۔ پہلے آپ اپنا پورا حصہ لے لیں۔ پھر آپ اپنی مرضی سے جو کچھ مجھے دیں گے، میں قبول کر لوں گی۔ اپ ابھی سے کچھ طے نہ کریں۔ دو دن تک آپ اپنا حصہ اپنے پاس رکھیں۔ دو دن کے بعد آپ جو چاہیں فیصلہ کریں۔ مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا۔“

“ دو دنوں کے بعد بھائی صاحب میرے پاس تشریف لائے۔ ان کے پاس کچھ زیورات تھے۔ انہوں نے زیادہ تر زیورات اپنے پاس رکھ لیے تھے۔ بھائی صاحب بولے، “ میری طرف سے یہ آپ کے لیے تحفہ ہے۔“ میں قسم اٹھا کر کہتی ہوں کہ ان تھوڑے سے زیورات کو بطور تحفہ وصول کر کے اتنی زیادہ خوشی ہوئی جتنی مجھے تمام زیورات لے کر بھی حاصل نہ ہوئی تھی۔ اللہ کی آیات نے مجھ پر بہت کرم کیا ہے۔ میں قرآن نازل کرنے والے کی شکرگزار ہوں اور پھر درس قرآن کا اہتمام کرنے والوں کی سپاس گزار ہوں۔“

اس بہن کی گفتگو سے میں بہت متاثر ہوئی۔ عورتوں کو سونے، چاندی اور زیورات سے بہت دل چسپی ہوتی ہے۔ لیکن اس بہن نے جرات سے کام لے کر اپنی تمام تر خواہشات و ترغیبات کو بالائے طاق رکھ کر، رسم و رواج کو چھوڑ کر، اللہ کے مضبوط قلعے میں پناہ لی۔ اس جرات آمیز اقدام سے اس کے ایمان میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
 

شمشاد

لائبریرین
دوسرا تجربہ

میں اپنی ایک سہیلی کے گھر گئی تاکہ اسے اس کی بیٹی کی شادی کی مبارک دے سکوں۔ دورانِ ملاقات میری میزبان نے کہا، “ اللہ کا شکر ہے جو آپ کو یہاں لے آیا۔ میرے اور میری امی کے درمیان کچھ اختلافات ہیں۔ ہم دونوں آپ کو منصف بناتی ہیں۔ آپ ہمارے اس جھگڑے کا فیصلہ کریں۔ آپ کو فیصلہ ہم دونوں ماں بیٹی صدق دل سے قبول کر لیں گی۔“ اس کی امی بھی وہیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ اس ایک بیٹی کے سوا ان کی کوئی اولاد نہ تھی اور نہ ہی اس بیٹی کے سوا دنیا میں ان کا کوئی اور قریبی عزیز تھا۔ اسی لیے وہ اپنی بیٹی کے پاس رہ رہی تھیں۔ اس سے الگ نہ رہ سکتی تھیں، نہ اس نے کبھی اپنی بیٹی سے الگ رہنے کا سوچا تھا۔ میں نے ماں کی طرف دیکھا تو مجھے اس کے چہرے پر حیرت اور پریشانی نظر آئی۔

میزبان خاتون نے کہا، “ باجی جیسا کہ آپ جانتی ہیں میں اپنی والدہ کی اکلوتی اولاد ہوں۔ میں اور امی گویا یک جان ہیں۔ میرا ایک ماموں ہے جو کبھی اپنی بہن سے ملنے کے لیے نہیں آتا، نہ ہی ان کی خیر و عافیت دریافت کرتا ہے۔ میری والدہ کی وفات کے بعد لازمی طور پر اسے بھی ترکے میں سے حصہ ملے گا حالانکہ اس نے میری والدہ کا کوئی حق بھی ادا نہیں کیا۔ میں امی سے کہتی رہتی ہوں کہ وہ ایک دستاویز لکھ دیں جس کی رو سے ان کے سارے ترکے کی میں ہی وارث بنوں۔ میرا ماموں وارث نہ بن سکے اور امی کے مال و سامان سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ میری امی کہتی ہیں کہ میں بھی یہی چاہتی ہوں مگر اللہ سے ڈرتی ہوں۔ اس لیے ہمیں آپ کی رائے اور مشورے کی ضرورت ہے۔

میں نے اس کی والدہ کی طرف بہت احترام سے دیکھا اور عرض کیا، میں آپ کی رائے خود آپ سے سننا چاہتی ہوں۔ والدہ نے کہا، “ میں اللہ سے ڈرتی ہوں۔ زندگی اور عمر اس کے قبضے میں ہے۔ میں یہ دستاویز کیسے لکھ دوں۔ اگر اتفاق سے میری بیٹی مجھ سے پہلے فوت ہو جائے تو کیا میرا داماد اور اس کے بچے مجھے جائیداد سے محروم نہ کر دیں گے۔ یوں میری زندگی میں وہ مجھے میرے مال سے محروم کر دیں گے اور میرا سارا مال و دولت ان کی ملکیت بن جائے گا۔“

بیٹی نے جواب دیا، “ امی آپ چاہتی ہیں کہ میں آپ کی زندگی میں مر جاؤں؟ اور آپ میرے بعد زندہ رہیں۔“ ماں نے کہا، “ بیٹی زندگی کے بارے میں صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ کس نے کتنا زندہ رہنا ہے کس نے پہلے فوت ہونا ہے اور کس نے بعد میں۔“

بیٹی صحت مند اور توانا تھی۔ ماں بوڑھی تھی مگر اس کا چہرہ ایمان سے تمتما رہا تھا۔ میں نے ماں کی بجائے اس کی بیٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا، “ میری پیاری بہن، زندگی اور موت کے فیصلے ساتوں آسمانوں کی بلندیوں پر بہت پہلے ہو چکے ہیں۔ خالقِ کائنات نے یہ فیصلے کر دیئے ہیں۔ آپ کی والدہ جب خوفِ خدا کی بات کرتی ہیں تو انہیں ایسا کرنے کا حق ہے۔ ورثے کی تقسیم کا تعلق حدودِ الٰہی سے ہے۔ کسی بھی جوان مرد یا عورت کو اس میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں خواہ وہ اپنے آپ کو کتنا ہی عقل مند اور ذہین کیوں نہ سمجھتا ہو۔ آپ کی والدہ اگر اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے تیاری کر رہی ہیں، تو اس میں آپ کا کیا نقصان ہے؟ اور آپ کو کیا اعتراض ہے؟ آپ کی والدہ صحیح کہتی ہیں کہ ان کی وفات کے بعد مال ان کا نہیں رہے گا بلکہ یہ اللہ کا مال ہو جائے گا۔ اللہ کا حق ہو گا اور وہی اس کا مالک ہو گا۔ اس مال کو تقسیم کرنے کا حق بھی اللہ ہی کو ہے۔ وہ جیسے چاہے تقسیم کرے۔

“ باقی رہا آپ کا اپنی والدہ سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ ساری بائیداد آپ کے نام لکھ دیں، یہ سراسر احکامِ الٰہی سے تجاوز ہے۔ ماموں کے بے رخی کو آپ نے انہیں جائیداد سے محروم کرنے اور خود اس پر قبضہ کرنے کا ایک حیلہ بنا رکھا ہے۔ یہ حیلہ آپ کے ذہن کی اختراع ہے۔ یہودیوں نے بھی احکامِ الٰہی کی تعمیل سے بچنے کے لیے اسی قسم کی حیلہ تراشیاں کی تھیں۔ اسی لیے انہیں بندر اور سؤر بنا دیا گیا تھا۔ کیا آپ نے اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد نہیں سنا “ فَاِن كُنَّ نِسَاء فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَاِن كَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَھَا النِّصْفُ (النساء 11:4) - اگر میت کی (وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے۔“

“ آپ اس آیت کو بار بار پڑھیے اور پھر اپنے آپ سے پوچھیئے کہ اللہ تعالٰی نے یہ آیات اپنے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کیوں اتاری ہیں؟ پھر یہ بھی سوچیئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیات ہم تک پہنچانے کے لیے کتنی تکالیف برداشت فرمائی ہیں۔ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ساری محنتیں اور مشقتیں اور یہ ساری تگ و دو محض اس لیے کی ہے کہ یہ آیات کتاب کے اندر بند پڑی رہیں اور کتاب کو خوبصورت جلد اور منقش و مزین غلاف میں لپیٹ کر رکھ دیا جائے؟“

“ میری بہن، خواہشات کی بیڑیوں نے آپ کی حرکت روک رکھی ہے۔ اس لیے آپ آیات کے مطابق چلنے سے قاصر ہیں۔ آپ سوچیں اور بار بار سوچیں کہ اللہ نے اپنی آیات بند رکھنے کے لیے نازل کی ہیں یا اس لیے اتاری ہیں کہ دنیا کو صداقت و عدالت اور نور سے بھر دیں۔ آپ بار بار اللہ کے اس حکم کو دہرائیں، بار بار پڑھیں “ وَاِن كَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَھَا النِّصْفُ (النساء 11:4) - اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے۔“

“ نصف تو آپ کا ہے مگر باقی نصف میں تصرف کرنے کا اختیار آپ کو نہیں۔ باقی نصف اللہ کی ملکیت ہے۔ وہ اس کے حکمت و عدل سے بھرپور قانون کے مطابق تقسیم ہو گا۔ آپ اللہ پر اعتماد کریں، اس پر یقین کریں۔ آپ اس محبت کو یاد کریں جو اللہ سے آپ کو ہے۔ آپ تصور میں لائیں اس نماز کو جو آپ اللہ کی بندگی کرتے ہوئے ادا کرتی ہیں۔ اپنے روزوں اور صدقہ و خیرات کو یاد کریں جنہیں آپ اللہ کے حکم کی تعمیل اور اس کی محبت میں رکھتی اور دیتی ہیں۔ میراث کے بارے میں اللہ کا حکم نماز، روزے اور صدقے کے حکم سے الگ نہیں ہے۔ جس طرح آپ اللہ کی خاطر اس کے باقی احکام کی تعمیل کرتی ہیں، اسی طرح آپ کو ترکے کی تقسیم کے بارے میں بھی اس کے حکم کی اطاعت کرنا چاہیے۔ میں تو سمجھتی ہوں کہ آپ کو ایسی عظیم عورت کی بیٹی ہونے پر فخر کرنا چاہیے جو شریعتِ اسلامیہ کے احکام پر عمل کرنے کے لیے اپنی خدمت گزار محبوب اکلوتی بیٹی کی بھی پرواہ نہیں کرتی۔“

یہ باتیں ہو چکیں تو میں نے واپسی کے لیے اجازت مانگی۔ میں ان دونوں کے لیے دعا کرتی رہی کہ اللہ انہیں متفق کرئے اور ماں بیٹی دونوں کو حکمِ رب کی اتباع کو توفیق ارزاں ہو۔

درس قرآن کے دن ماں بیٹی دونوں آئیں۔ بیٹی نے ہنستے ہوئے بتایا کہ “ میں غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ میرے خیالات شیطانی وسوسوں کے سوا کچھ نہ تھے۔ میں اللہ کے فیصلے پر راضی ہوں۔ میرے دل میں اپنے ماموں کے خلاف اب ذرا بھی کدورت نہیں۔ میرا دل الحمد للہ اب بالکل صاف ہے۔“

میراث کے بارے میں حکمِ الٰہی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کے بعد ابھی ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ یہ بیٹی اللہ کو پیاری ہو گئی۔ ماں اب تک موجود ہے، زندہ ہے اور اپنا رزق کھا رہی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہماری اس بہن کو اللہ کے حکم پر چلنے کی توفیق ملی، اس سے پہلے کہ اس کی قبر پر مٹی پڑتی۔
 

شمشاد

لائبریرین
بروقت تقسیم​

ایک خاتون کا شوہر فوت ہو گیا۔ اس کی اولاد میں سے کچھ شادی شدہ تھے، باقی چھوٹے تھے اور اس بیوہ کی سرپرستی میں تھے۔ خاوند کے وفات کے بعد بیوہ نے مرحوم کی تمام جائیداد اپنے پاس رکھ لی، تقسیم نہ کی اور جس طرح شوہر کی زندگی میں گھر کا نظام چل رہا تھا اسی ڈگر پر چلتا رہا۔ بیوہ کا کہنا یہ تھا۔ کہ اس کے چھوٹے بچوں کی تربیت و تعلیم کے لیے مال کی ضرورت ہے۔ اس نے جس طرح اپنے بڑی بچوں کی تعلیم و تربیت کی ہے، اسی طرح وہ اپنے چھوٹے بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرئے گی۔ شادی شدہ بچوں نے والدہ کی بات سے اتفاق کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے بطیب خاطر ایسا نہ کیا بلکہ محض شرم، لحاظ اور مروت میں آ کر۔ گویا بامر مجبوری اور بادلِ نخواستہ اپنی والدہ کی رائے مانی۔ وہ دل سے رضامند نہ تھے۔ شوہر نے ایک بڑی دکان ترکے میں چھوڑی تھی جو بہت کامیابی سے چل رہی تھی اور اس سے خاطر خواہ آمدنی ہوتی تھی مگر جب بیوہ نے تمام انتظام و انصرام سنبھالا تو آہستہ آہستہ تجارت کساد بازاری کا شکار ہونے لگی۔ دکان کی آمدنی دھیرے دھیرے کم ہوتی چلی گئی۔ اگر صورتحال یونہی جاری رہتی تو پورا گھر متاثر ہوتا۔ اپنی معاشی حالت ابتر دیکھ کر بیوہ خاتون نے مسجد کا رخ کیا۔ درسِ قرآن سننے لگی تاکہ درسِ قرآن کی برکت سے اللہ تعالٰی اسے اور اس کی اولاد کو تاریک مستقبل سے محفوظ رکھے۔

جب ہم نے ایک درسِ قرآن میں عمل درآمد کے لیے میراث کی آیات منتخب کیں تو بیوہ خاتون نے کہا، “ میں سمجھتی ہوں کہ ہماری تجارت کو جس خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کی وجہ میرا وہ رویہ ہے جو میں نے اللہ کے واضح و صریح احکام کے خلاف اختیار کیا ہے۔ میں نے اپنی مرضی مسلط کی۔ کسی سے کوئی مشورہ نہیں لیا۔“

اس بیوہ خاتون نے مجلسِ درسِ قرآن میں اظہارِ ندامت و پشیمانی کرنے کے بعد گھر جا کر اپنے تمام چھوٹے بڑے بچوں کو اکٹھا کیا اور اللہ سبحانہ کی ہدایات کے مطابق تمام جائیداد تقسیم کر دی۔ اس کے بعد اس نے اپنے حصے اور چھوٹے بچوں کے حصے کی جائیداد میں کاروبار شروع کر دیا۔ تھوڑے ہی عرصے بعد کاروبار پھلنے پھولنے لگا۔ یہ سب اللہ کی آیت پر عمل کرنے کا نتیجہ تھا۔ باقی رہا وہ اجر و ثواب جو آخرت میں ملے گا تو اس کا کون شمار کر سکتا ہے؟

ہمارا فرض ہے کہ رسم و رواج کے بجائے اللہ کے احکام پر عمل کریں۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کریں۔ خواہشات و اغراض کی تاریکیوں سے نکل کر قرآن کی روشنی میں آ جائیں۔ ہمیں اپنے تمام افعال و اعمال کو قرآن و سنت کے سامنے پیش کرنا ہو گا اور اپنی عاداتِ باطلہ کو ترک کرنا ہو گا۔ یوں ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائیں گے جس میں دنیا کو قرآن متحرک نظر آئے گا۔ جب ایسا ہو گا تو ہم ہی زمین کے وارث ہوں گے۔ اللہ کا ہم سے یہ وعدہ ہے۔ اس وقت زمین اپنے پروردگار کے نور سے جگمگا اٹھے گی۔ زمین نور، رحمت اور محبت سے بھر جائے گی۔
 

شمشاد

لائبریرین
نفسیاتی کیفیت کا شکار نوجوان

مسجد کے درسِ قرآن میں شرکت کرنے والی بہنوں میں سے کچھ بہت سرگرم تھیں۔ ایک بہن تو بہت ہنس مکھ تھیں۔ ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملتیں اور مسکرا مسکرا کر باتیں کرتیں۔ باتیں اتنی شیریں و دلچسپ جیسے منہ سے پھول جھڑ رہے ہوں۔ ایک روز دیکھا تو مسکراہٹ غائب، افسردہ و پژمردہ۔ نہ باتوں میں مٹھاس، نہ ملنے ملانے میں تپاک، اگلے درس میں آئیں تو کئی جسمانی عوارض کی شکایت کرنے لگیں۔ میں چاہتی تھی کہ تخلیے میں ان سے ملوں کہ شاید ان کے کسی کام آؤں اور کوئی مدد کر سکوں۔ مجھے تخلیے کے لیے زیادہ زحمت نہ کرنا پڑی۔ جلد ہی اس کا موقع مل گیا۔ وہ بھی گویا ملاقات کی منتظر اور اس کے لیے تیار تھیں۔ میرے پوچھنے پر بولیں :

“ واللہ میں بہت دکھی ہوں، پریشان ہوں۔ ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے تند و تیز آندھی مجھے اٹھا کر گھما رہی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں کہاں ہوں؟ میری زندگی سلیقے و قرینے سے چل رہی تھی۔ میں الحمد للہ اپنے بچوں کی تربیت میں مصروف تھی۔ کتاب و سنت کی راہ نمائی میں بچوں کی تربیت ہو رہی تھی۔ میں نے خاوند کا انتخاب اپنی مرضی سے کیا تھا۔ وہ ایک صالح، باعمل، صاحب علم شخص ہیں۔ وہ علم و حکمت اور خوفِ خدا کے سلسلے میں میرے معاون ہیں۔ میں جیسے خاوند کی متمنی تھی، وہ ایسے ہی نکلے، بلکہ اس سے بھی بہتر۔“

“ میرے بچے مجھ سے زیادہ دین دار نکلے، بچے بھی اور بچیاں بھی۔ میرا ایک بیٹا مسجد میں جا کر باجماعت نماز پڑھتا تھا۔ عمدہ اخلاق کا مالک تھا، شریف و متین، کم گو، مگر اچانک نہ جانے اسے کیا ہوا کہ اس کی خاموشی ختم ہو گئی۔ اب وہ بجلی کی طرح کڑکتا ہے، اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ چلا چلا کر کرخت لہجے میں بات کرتا ہے۔ حٰتی کہ وہ اپنے والد کے ساتھ بھی بدتمیزی کر لیتا۔ نمازیں پڑھتا ہے مگر فرض کی حد تک، سنت اور نفل ترک کر دیے ہیں۔ پہلے وہ گھر بھر میں ہر دل عزیز تھا، اب سب اُس سے دور رہنا چاہتے ہیں اور اس کے ساتھ بات چیت کرنے سے بھی اجتناب کرتے ہیں۔“

“وہ اب ہر وقت اپنے کمرے میں بیٹھا رہتا ہے۔ کہیں ادھر ادھر نہیں جاتا۔ اگر میں اصرار کر کے اسے اپنے کمرے سے نکلنے پر مجبور کروں یا بہن بھائیوں کے ساتھ آ کر بیٹھنے پر زور دوں تو اس کا رویہ ایسا وحشت انگیز اور تکلیف دہ ہوتا ہے کہ مجھے ندامت ہونے لگتی ہے۔ سوچتی ہوں، کاش، میں نے اسے کمرے کی تنہائی سے باہر نکلنے پر مجبور نہ کیا ہوتا۔ وہ نفسیاتی مریض بن چکا ہے۔ اپنے آپ کو مظلوم سمجھتا ہے۔ اپنے ارد گرد کے تمام افراد کو ظالم سمجھتا ہے۔ حال یہ ہے کہ میں جب بھی اللہ کی رضا کی خاطر کوئی کام کرنے لگتی ہوں تو وہ میرے راستے میں حائل ہو جاتا ہے۔ آج کل میرا ذہن ہر وقت اسی کے بارے میں سوچتا ہے۔ میں اس کے بارے میں سوچ سوچ کر تھک چکی ہوں۔ وہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ میں نے اس کی پرورش، نگہداشت و پرداخت میں اپنی بہترین صلاحیتیں استعمال کی ہیں۔ میں نے اس کی خاطر کتنی راتیں جاگ کر گزاری تھیں۔ مگر میری ساری محنت اور تگ و دو رائیگاں گئی۔ مختصر یہ کہ اس کے بہن بھائی ناراض ہیں۔ کوئی اس کے ساتھ بات چیت کرنے کا بھی روادار نہیں۔ آپ میری حالت کا خود اندازہ کیجیئے، میں جو لوگوں میں صلح کراتی رہتی تھی، دوسرے لوگوں کے معاملات کی درستی کے لیے کوشاں رہا کرتی تھی، اب اپنے گھر کی سدھار سے قاصر ہوں۔ میرا لختِ جگر میری بات نہیں مانتا۔“

اس بہن کی یہ درد ناک داستان سن کر میں نے کہا، میری عزیزہ، کہ صرف تنہا آپ کا مسئلہ نہیں ہے۔ بہت سے دین دار گھرانے اسی نوعیت کے مسائل اور نفسیاتی خلفشار سے گزر رہے ہیں۔ ہر پابندِ شریعت گھرانے میں کوئی ایسا لڑکا یا لڑکی بگڑ کر گھر والوں کے لیے وبالِ جان بن جاتا ہے۔ اس نوجوان یا اس دوشیزہ کے خیالات، اقوال اور اعمال سب سے مختلف ہوتے ہیں۔ زیادہ تر ایسا عمر کے اس حصے میں ہوتا ہے جسے اوائل بلوغت کا دور کہا جاتا ہے یعنی جب لڑکپن اور نوجوانی کا سنگم ہوتا ہے۔ عمر کے اس نازک حصے میں نوجوان بے پناہ صلاحیتوں سے بھرا ہوتا ہے۔ اس عمر میں اس کے وجود میں قوت دھماکہ خیز ہو جاتی ہے۔ وہ کسی آتش فشاں کی طرح پھٹ رہا ہوتا ہے۔ نوجوان اپنے اندر آزادی اور قوت کا ادراک کرتا ہے۔ عنفوانِ شباب کے اس دور میں “ نہیں “ کا لفظ اس کی خصوصیت بن جاتا ہے۔

قرآن کریم نے بہت سے نوجوانوں کے واقعات و حالات قیامت تک کے انسانوں کی رہنمائی کے لیے محفوظ کر دیئے ہیں۔ ان نوجوانوں کی قوتیں باطل کے انکار میں نقطہ عروج پر تھیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام، اصحاب کہف اور کھائیوں والے (اصحاب الاخدود) سب نوجوان ہی تھے۔ انہوں نے باطل نظام کے خلاف حریت کا علم بلند کیا۔ انہوں نے “ نہیں “ استعمال کیا لیکن باطل کے خلاف۔ ان افراد نے اپنے اقوال و اعمال سے باطل کی نفی کی اور حق کا اثبات کیا۔ اس کے برعکس حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے نے حق سے سرتابی کی، گویا حق کے خلاف “ نہیں “ کہا اور سرِ تسلیم خم کرنے سے انکار کر دیا۔

بات صرف سمجھنے کی ہے۔ بہت سے والدین گھبرا جاتے ہیں۔ وہ عمر کے اس دور کی نزاکت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ہو حیران ہوتے ہیں کہ بچوں نے سرتابی، سرکشی، مخالفت اور مزاحمت کا رویہ کیوں اپنا لیا ہے؟ وہ اپنی اولاد کی “ نہیں “ سے بے تاب ہو جاتے ہیں۔ والدین اپنی اولاد کو نرمی یا سختی سے سمجھاتے ہیں۔ بچے بے رخی اور عدم التفات سے پیش آتے ہیں۔ زیادہ تر والدین کی کوشش مفید ہونے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔

پریشان بہن بول پڑیں، “ واللہ ہمارے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ آپ کے بیان سے تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ گویا آپ ہمارے ساتھ ساتھ تھیں۔“

میں نے کہا، “ آپ کے بچے کا کیس اتنا بگڑ چکا ہے کہ اب اس کی اصلاح کرنا ہمارے بس میں نہیں رہا۔ اب تو اس کا ایک ہی حل ہے کہ اللہ کی طرف رجوع کیا جائے۔ اس کا بتایا ہوا حل استعمال کیا جائے۔ اللہ نے ہماری رہنمائی کر دی ہے۔ ہمارا فرض ہے۔ کہ ہم اس رہنما کا ہاتھ تھامیں اور اپنے تمام مسائل حل کر لیں۔

“ بہن میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کہ میں اس رہنما کا ہاتھ کبھی نہ چھوڑوں گی۔ آپ مجھے صرف وہ آیت بتا دیجیئے جس پر مجھے عمل کرنا ہے، جس کے مطابق مجھے چلنا ہے۔“

میں نے کہا، ارشادِ الٰہی ہے، “ وَمَن يَتَّقِ اللَّہَ يَجْعَل لَّہُ مَخْرَجًا (الطلاق 2:65) - جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرئے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا۔“ جیسا کہ آپ دیکھ رہی ہیں اللہ کے راستے کے سوا، سب راستے بند ہو چکے ہیں۔ آپ کے سامنے صرف اللہ کا تقوٰی اختیار کرنے کا راستہ کھلا ہے۔ معاف کرنا، میرا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ آپ اللہ سے ڈرتی نہیں، بلکہ مطلب یہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے میری بات کاٹ دی اور بولی “ میں خوب سمجھتی ہوں جو کچھ آپ کہنا چاہتی ہیں۔ میں ہر حالت میں تقویٰ کا دامن پکڑے رہوں گی۔ کسی بھی حال میں تقویٰ ترک نہیں کروں گی۔ تقویٰ، میرے احوال، میرے افعال، میرے اقوال بلکہ میری فکر میں ہمیشہ رہے گا۔“

اپنے بیٹے کے بارے میں پریشان خاتون نے تقویٰ اختیار کرنے کا عہد و پیمان کرنے کے بعد اجازت طلب کی۔ خدا حافظ کہنے کے لیے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا۔ اس وقت اس کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے۔ “ وَمَن يَتَّقِ اللَّہَ يَجْعَل لَّہُ مَخْرَجًا (الطلاق 2:65)۔“ میرے رب نے سچ فرمایا ہے۔ اللہ کے وعدہ سچا ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اب مجھے اللہ کے وعدے کی صداقت کا اپنے اوپر تجربہ کرنا ہے۔“


جاری ہے ۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
۔۔۔۔۔۔۔ گزشتہ سے پیوستہ

نفسیاتی کیفیت کا شکار نوجوان​

میں نے اس پریشان حال بہن کو اللہ حافظ کہا، اس کے لیے دعا کی۔ صدق دل سے اس کی کامیابی و کامرانی کی دعا۔ اب جب بھی ملاقات ہوتی تو وہ ضرور اس آیت کو دہراتی، مجھ سے دعا کی درخواست کرتی، بلکہ ہر ملنے والی سے یہ کہتی کہ وہ اس کی ثابت قدمی کے لیے دعا کرئے۔ پہلے تو اس کی سوچ کا محور اس کا بیٹا اور اس کے اقوال و اعمال تھے۔ وہ لوگوں سے کہتی کہ اس کے بیٹے کے لیے دعا کریں کہ اللہ اسے ہدایت دے۔ مگر اب اس کی فکر کا مرکز یہ ہوتا کہ وہ کیسے تقوٰی اختیار کرئے۔ بالآخر وہ تقوٰی اختیار کر کے اپنے بیٹے کو راہِ راست پر لانے میں کامیاب ہو گئی۔ اس کی داستان اسی بہن سے سنیے۔ مسجد میں حلقہ درسِ قرآن میں‌ اس نے اپنی روداد سناتے ہوئے کہا :

“ میری عزیز بہنو، میں نے اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اپنے تمام امور و معاملات کو تقوٰی کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے بہت کچھ کیا۔ میں اپنے بیٹے کو شیطان کی گرفت سے بچانا چاہتی تھی۔ اس لیے فیصلہ کیا کہ نمازِ فجر سے پہلے تہجد کیوں نہ پڑھ لیا کروں۔ ابتدا میں فجر سے پہلے دو رکعت نماز تہجد پڑھ لیتی۔ پھر بتدریج آٹھ رکعت تک پڑھنے لگی۔ نماز تہجد ادا کرنے سے ایسا سکون ملا جیسے مجھے دنیا میں جنت اور اس کے خزانے مل گئے ہوں۔ میں نے فجر کی نماز میں طویل قرات کرنے کا تہیہ کیا تو مجھے اس کے لیے قرآن کریم کی مزید سورتیں حفظ کرنا پڑیں۔ حفظ کرنے سے مجھے بے پناہ سکون و اطمینان ملا۔ اس کا اندازہ صرف اسی کو ہو سکتا ہے جو قرآن کریم کی آیات حفظ کرتا ہو۔ اس کے ساتھ ہی یہ جذبہ پیدا ہوا کہ لوگوں کے ساتھ میرے معاملات صاف ہوں۔ خاص طور پر اپنی اولاد کے ساتھ میرا رویہ درست اور پُرسکون ہو۔“

“ میری یہ بھی کوشش رہی کہ اپنے پروردگار کی رضا کے لیے اپنے خاوند کو خوش کروں۔ میں خاوند کی خدمت و اطاعت کرتے وقت یہ احساس کرتی کہ میرا مقصد رب کی رضا حاصل کرنا ہے۔ مجھے بہت اطمینان حاصل ہوتا۔ یقین تھا کہ میرا پروردگار مجھے اس کا اجر عطا فرمائے گا۔ میں جو کام بھی کرتی، خلوصِ نیت سے کرتی۔ اس کے ساتھ ساتھ میں کثرت سے اپنے بیٹے کے بدل جانے کی دعا کرتی رہتی تھی۔“

“ اس خلوص سے عبادت، معاملات اور دعائیں کرنے کے نتیجے میں میرا روحانی مورال بہت بلند ہو گیا۔ کبھی تو مجھے ایسا محسوس ہوتا جیسے میں فضا کی پنہائیوں میں محو پرواز ہوں، بلندیوں میں اڑ رہی ہوں۔ میں نے پڑوسنوں اور سہیلیوں کے ساتھ اپنے تعلقات پر بھی نظر ثانی کی۔ اسی طرح میں نے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بھی تعلقات بحال کیے۔ کیوں کہ مجھے یہ حدیث یاد آ گئی، “ انی خلقت الرحم و اشتققت لہ اسماّ من اسمی فمن و صلہ و صلتہ و من قطعہ قطعتہ۔ (حدیث قدسی) - میں نے رحم پیدا کیا اور اپنے نام سے رکھا۔ جس نے صلہ رحمی کی میں اسے ملوں گا اور جس نے صلہ رحمی کو قطع کیا میں بھی اسے قطع کر دوں گا۔“

“ مجھے یہ حدیث یاد آئی تو میں نے فوراً کپڑے تبدیل کیئے، اپنے ایک چچا کے گھر چل پڑی جو میرے ساتھ ناراض تھے۔ ان کے فلیٹ پر پہنچ کر میں نے خلاف معمول لفٹ استعمال نہ کی، بلکہ سیڑھیوں کے ذریعے اوپر چڑھنے لگی۔ ہر سیڑھی پر پاؤں رکھتے ہوئے یہ دعا کرتی تھی کہ یا اللہ میں تیرے حکم کی تعمیل میں قریبی رشتہ داروں سے تعلقات جوڑ رہی ہوں، تو بھی مجھے اپنے ساتھ جوڑ، میں سیٹرھیوں سے اتروں تو تعلقات بحال ہوں۔ دعائیں کرتے کرتے میں اپنے چچا کے گھر کے دروازے پر جا پہنچی۔ جب دروازہ کھولا تو مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے اللہ تعالٰی نے میرے لیے رحمت کا دروازہ کھول دیا ہے۔ میں ہنستی مسکراتی سلام کرتی ان کے پاس پہنچی۔ واپس آئی تو گھر آتے ہوئے مجھے مکمل سکون و اطمینان حاصل تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے سینے سے بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہے۔“

“ اب جب بھی میں اللہ کی رضا کی خاطر کوئی نیک کام کرتی ہوں تو اپنے رب کو اپنے قریب محسوس کرتی ہوں اور مجھے اتنا سکون ملتا ہے جیسے میں نے ایک ہزار رکعت نوافل ادا کیئے ہوں۔“

“ مجھے اس تجربے نے اس قابل کر دیا ہے کہ میں تقلیدی و وراثتی ایمان اور حقیقی یقین و ایمان کے مابین فرق محسوس کرتی ہوں۔ مجھے اس آیت کریمہ “ وَمَن يَتَّقِ اللَّہَ يَجْعَل لَّہُ مَخْرَجًا (الطلاق 2:65) پر عمل کرنے کا خوب خوب موقع ملا ہے۔ جلد ہی میرے حالات بدل گئے، میرا دکھ ختم ہو گیا اور غم خوشی میں بدل گیا۔“

“ میں نے اپنے بیٹے کے ساتھ طرزِ عمل میں صبر و برداشت سے کام لیا۔ میں نے اپنے بیٹے کے لیے بہت دعائیں کیں۔ میں سجدے میں اس کے لیے بہت دعائیں کرتی تھی۔ جب بھی نماز پڑھتی، تلاوت کرتی، ذکر کرتی تو اپنے بیٹے کے لیے دعائیں کرتی رہتی۔ اس میں کئی سال بیت گئے۔ حتٰی کہ اللہ کریم نے میرا بیٹا مجھے واپس کر دیا۔ اس نے اپنی تنہائی ختم کر دی۔ گوشہ نشینی ترک کر دی۔ بدتمیزی چھوڑ دی۔ ان نے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ جب اپنا گستاخانہ رویہ ترک کر دیا تو گھر والوں نے بھی اسے ازسر نو قبول کر لیا۔“

جب یہ بہن اپنے گستاخ بیٹے کی بے راہ روی ترک کرنے اور دوبارہ محبت و اطاعت کا رویہ اپنا لینے کی ایمان افروز داستان سنا رہی تھی تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ مجلسِ درسِ قرآن کی تمام شرکا کی آنکھیں بھی اشکبار تھیں۔ تمام حاضرین نے اسے مبارکباد دی۔

دیکھیئے ایک آیت کریمہ پر صبر و استقلال سے عمل کرنے کا نتیجہ کیسا خوش گوار نکلا۔ اگر ہم اپنی مشکلات کا حل قرآن کریم کے ذریعے کریں تو ہماری تمام مشکلات اور ہمارے تمام مسائل حل ہو جائیں۔ قرآن کریم کے بابرکت ہونے کا یہی مطلب ہے کہ اگر اس کی آیات کے احکام و نواہی پر اور ان آیات کی حکمت و دانش پر عمل کیا جائے، اس کے بیان کردہ قصص سے عبرت حاصل کی جائے تو اس سے انفرادی و اجتماعی دونوں سطح پر برکات و سعادات ملتی ہیں۔ مسلم معاشرہ اپنی منزل، جنت کی طرف رواں دواں رہتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
مزاروں پر دعائیں​

مجھے ایک گاؤں کی طرف سے دعوت ملی کہ میں وہاں عورتوں سے خطاب کروں اور انہیں دین اسلام کے حقائق سے روشناس کروں۔ یہ گاؤں اب شہر کے مضافات میں شامل ہو چکا ہے۔ بلکہ اسے دارلحکومت کا حصہ کہا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ شہر کا حصہ شمار ہونے کے باوجود یہ گاؤں ہے کیونکہ اس کے مکینوں کے عقاید و نظریات میرے ملک کے جنوبی علاقے کے بہت سے دیہاتوں سے ملتے جلتے ہیں۔ گویا یہ گاؤں اپنے محل و وقوع کے لحاظ سے تو شہر کا حصہ ہے لیکن اپنے اعتقادات کی رو سے ملک کے کسی پسماندہ گاؤں کی مانند ہے۔ مجھے یہ دعوت ملی تو خوشی ہوئی۔ اللہ مجھے اس گاؤں کی عورتوں سے متعارف ہونے کا موقع فراہم کر رہا تھا۔ میں سمجھتی ہوں کہ عورت گھر کا آئینہ ہوتی ہے۔ آپ کسی عورت کے ذریعے اس کے گھر والوں کی حقیقت کو بہت قریب سے جان سکتے ہیں۔ اسی طرح کسی گاؤں کی بہت سی عورتوں کو دیکھ کر، اس گاؤں کے باشندوں کے بارے میں ایک رائے قائم کی جا سکتی ہے۔

مجھے اجتماع گاہ تلاش کرنے میں کسی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ یہ مسجد کے قریب ایک مشہور گھر تھا۔ گاؤں کی عورتیں جمع تھیں۔ میں نے سلام و دعا کے بعد حاضرین پر نگاہ ڈالی تو عورتوں کی ایک بڑی تعداد کو موجود پایا۔ وہ غیر معمولی طور پر خوش تھیں۔ ان عورتوں کے قریب ہی طرح طرح کے برتن پڑے تھے۔ کھانے پینے کی برتنوں کے ڈھیر دیکھ کر میں‌ حیران ہوئی۔ میں نے برتنوں کے بارے میں پوچھا تو مجھے بتایا گیا “ فلاں بزرگ کا آج یومِ ولادت ہے۔ وہ آپ کے دائیں طرف دفن ہیں۔“ میں نے تیزی سے دائیں طرف دیکھا تا ایک مزار نظر آیا۔ میں نے ان بہنوں سے نرمی سے پوچھا، “ اس دن آپ لوگ کیا کرتے ہیں؟“ خواتین بولیں، “ ہم تو جی اس دن کا پورا سال بے تابی سے انتظار کرتے ہیں۔ جانور ذبح کرتے ہیں۔ اس دن کے لیے خصوصی کھانے تیار کیے جاتے ہیں۔ ہم صاحبِ مزار سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے دعا کریں۔“

یہ سن کر مجھے صدمہ پہنچا۔ کیا یہ اعلانیہ شرک نہیں ہے؟ میں نے جب وضاحت کی اور حقیقت سے آگاہ کیا تو ایک عورت بولی۔ “ ہم اس بزرگ کی عبادت نہیں کرتے۔ ہم تو اللہ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس نیک بزرگ کا قرب عطا فرمائے۔ اس لیے یہ ایک مبارک و متبرک بزرگ ہیں اور ان کے مزار پر مانگی جانے والی ہر دعا قبول ہوتی ہے۔“

یہ عورت بزعمِ خویش اس طرح وضاحت کر رہی تھی جیسے میری جہالت کو دور کر رہی ہو۔ میں نے بحث و تکرار اور مجادلہ و مناظرہ سے بچتے ہوئے خاموشی اختیار کر لی اور درسِ قرآن کریم شروع کر دیا۔ مجھے یہاں درس کے لیے ہی مدعو کیا گیا تھا۔ درس کے آغاز میں ہی اس آیت نے مجھے اپنی طرف کھینچا، اس لیے میں نے اس کی تشریح و توضیح کرنا ہی بہتر سمجھا اور یہ بھی بتانا چاہا کہ اس آیت کریمہ پر عمل درآمد کیسے کرنا ہو گا؟ آیت یہ تھی “ فَاعْبُدِ اللَّہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّينَ (الزمر 2:39) - لٰہذا تم اللہ ہی کی بندگی کرو، دین کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے۔“

میں نے مناسب سمجھا کہ گاؤں کے ماحول سے ہی ایک مثال پیش کروں : “ کسی زراعت پیشہ خاندان کو ایک بیل خریدنے کی ضرورت تھی۔ گھر کی مالکن نے ہمت کی اور تھوڑی تھوڑی رقم بچا کر رکھتی رہی۔ حتٰی کہ اس کے پاس اتنی رقم اکٹھی ہو گئی جس سے ایک بیل خریدا جا سکتا ہے۔ باہمت کسان عورت نے وہ رقم اپنے خاوند کو دی۔ خاوند ایک بڑے زمیندار کے پاس گیا اور اس کے یہاں سے من پسند بیل خرید لایا۔ بیل گھر آیا تو گھر والوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ بیوی نے بیل کو دیکھا تو بہت خوش ہوئی۔ بچے خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔ گھر کا ہر فرد بے حد مسرور تھا۔ انہوں نے بیل کی خدمت شروع کر دی۔ گھاس ڈالا، چارہ ڈالا، پانی پلایا۔ پھر وہ خوشی خوشی اسے رہٹ پر لے گئے تاکہ بیل کے ذریعے کنویں سے پانی نکالیں اور کھیتوں کو سیراب کریں۔

رہٹ میں بیل جوتنے کا خوش نما منظر دیکھنے کے لیے پڑوسی تھی آئے تھے۔ اب کسان نے آگے بڑھ کر بیل کو رہٹ سے پانی نکالنے کے لیے جوتنا چاہا تو بیل نے کسان کو سینگوں سے مارنے کی کوشش کی۔ ہوشیار کسان بیل کی ٹکر سے بچ گیا۔ اب جو کوئی بھی بیل کے قریب جاتا، بیل اسے سینگوں سے دھکیلنے کے لیے تیار رہتا۔ بیل بہت غصے میں تھا۔ بالآخر ایک دلیر پڑوسی کسان ہمت کر کے آگے بڑھا اور اسے پکڑ کر اپنے ڈیرے کی طرف لے جانے لگا۔ بیل اس کے ساتھ جا رہا تھا اور کچھ مزاحمت نہ کر رہا تھا۔ پڑوسی کسان نے اسے اپنے رہٹ میں جوت دیا تو وہ بیل بڑے مزے سے گھومنے لگا۔ پہلے دن تو یہی ہوا۔ دوسرے دن پھر ایسے ہی ہوا۔ بیل کھاتا پیتا تو اپنے مالک کے پاس تھا، مگر اسے سکون پڑوسی کے کھیت اور اس کے رہٹ سے پانی نکالنے میں ملتا تھا۔ میں آپ بہنوں سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ ایسے بیل کے بارے میں، جو کھاتا اپنے مالک کے پاس ہو مگر اسے سکون غیر کے پاس کام کرنے سے ملتا ہو، مالک کا ردِ عمل کیا ہو گا؟ اپنے مالک کی زمین سے گھاس کھاتا ہو مگر وہ خدمت اپنے مالک کے بجائے کسی اور کی کرتا ہو؟ آپ خود بتائیے کہ ایسے بیل کا مالک اس کے ساتھ کیا سلوک کرئے؟“

ایک خاتون نے جواب دیا، “ بہت عجیب بات ہے۔ ایسا بیل اس لائق ہے کہ اسے بیچ دیا جائے یا ذبح کر دیا جائے۔“

میں نے مسکرا کر گاؤں کی عورتوں سے کہا، “ اللہ کتنا مہربان ہے، کتنا کریم ہے۔ وہ نہ ہمیں ذبح کرتا ہے، نہ بیچتا ہے، بلکہ اپنی اطاعت کی دعوت دیتا ہے۔ ہم اللہ کا رزق کھاتے ہیں مگر اپنے جانوروں کو اوروں کے لیے ذبح کرتے ہیں۔ ہم ایسے جشن مناتے ہیں جن کی اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری۔ بلکہ ہم میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرے بھی نفع نقصان پہنچانے والے ہیں۔ یہ عقیدہ رکھ کر ہم انہی کو اپنی حاجت روائی کے لیے پکارتے ہیں۔“

ایک عورت نے کھڑے ہو کر کہا، “ مگر ہم تو اپنے اس بزرگ کی عبادت نہیں کرتے۔“

میں نے بزرگ کے مزار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، “ یہ بزرگ جو یہاں اپنی قبر میں آرام فرما ہیں، وہ تو آپ کی دعاؤں کے محتاج ہیں۔ آپ کو چاہیے کہ اللہ حیّ و قیوم کو پکاریں۔ اس سے دعا کریں کہ وہ اس بزرگ پر بھی رحم فرمائے اور آپ سب پر بھی رحم فرمائے۔ بات یہ ہے کہ میت بے اختیار ہو جاتی ہے۔ اگر زندہ کے پاس کچھ بھی اختیار ہو تو وہ کبھی نہ مرے۔ نہ مٹی کے نیچے دفن ہو۔“

یہ سن کر ایک عورت بے تاب ہو کر اٹھی۔ وہ بہت غصے میں تھی۔ کہنے لگی، “ پیاری باجی، ہم اللہ کی خاطر آپ سے محبت کرتی ہیں۔ آپ ہمیں بہت پسند ہیں۔ مگر اندیشہ یہ ہے کہ کہیں ہمارے یہ بزرگ آپ کو مار نہ ڈالیں۔“

میں نے سب عورتوں کی جانب دیکھا اور کہا، “ آپ کی یہ بہن سمجھتی ہے کہ ایک فوت شدہ آدمی کے پاس اتنی قوت ہے کہ وہ زندہ کو مار ڈالے۔“

اس بات چیت کے بعد میں نے زیرِ درس آیت کی تشریح و تفسیر کرنا شروع کر دی۔ میں نے حاضرین کو بتایا کہ اس آیت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہِ حسنہ کی روشنی میں کس طرح عمل کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے لیے نمونہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں نہ کہ ہمارے آباؤ اجداد۔

اب میں نے تمام بہنوں سے درخواست کی کہ وہ اپنی اپنی زندگی کا وہ سخت ترین واقعہ یاد کریں جب وہ کسی تکلیف یا بیماری میں مبتلا ہو گئی ہوں اور پھر مجھے سوچ کر بتائیں کہ انہوں نے سب سے پہلے کس کو پکارا، کِسے یاد کیا۔ ارشادِ الٰہی ہے، “ وَظَنُّواْ اَنَّھُمْ اُحِيطَ بِھِمْ دَعَوُاْ اللّہَ مُخْلِصِينَ لَہُ الدِّينَ (یونس 22:10) - اور (جب) مسافر سمجھ لیتے ہیں کہ طوفان میں گِھر گئے، اس وقت سب اپنے دین کو اللہ ہی کے لیے خالص کر کے اس سے دعائیں مانگتے ہیں۔“

کئی عورتوں نے بیک زبان کہا، “ ہم سب سے پہلے اللہ کو پکارتی ہیں۔ پھر ہم کھانے پینے کی کچھ چیزیں لے کر بارگ کے مزار پر حاضری دیتی ہیں اور یہ چیزیں یہاں تقسیم کر دیتی ہیں۔ ہم مزار کے پاس آ کر دعائیں کرتی ہیں۔“

میں نے جواب دیا، “ میں اسی بات کی تشریح کرنا چاہتی ہوں۔ خلوص و اخلاص کا تقاضا تو یہ ہے کہ آپ ہمیشہ اللہ سے ہی مانگیں۔ اللہ کے سوا کسی اور سے نہ مانگیں۔ دعا کرتے ہوئے آپ کے قلب و فکر میں اللہ کے سوا کچھ نہ ہو۔ اللہ لا شریک سے ہی مانگیں۔ وہ قادر و قیوم ہے۔ وہ اپنی مدد کے لیے کسی کا محتاج نہیں بلکہ ہر ایک کی اعانت فرمانے والا ہے۔ جو بہن بھی “ فَاعْبُدِ اللَّہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّينَ (الزمر 2:39)“ پر عمل درآمد کا ارادہ کرنا چاہے، تو یوں محسوس کرئے جیسے اللہ کے سوا اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔“

گاؤں کے درس سے فارغ ہو کر میں گھر آئی۔ اپنے معمول کے درسِ قرآن کے لیے جب میں درس گاہ پہنچی تو یہ دیکھ کر میرے حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس گاؤں کی عورتوں کی ایک تعداد وہاں موجود تھی۔ مجھے حیرت کے ساتھ ساتھ مسرت بھی ہوئی۔ میں نے ان کا والہانہ خیر مقدم کیا۔ اب وہ ہماری مجلس کی مستقل شرکا تھیں۔ عمل کے لیے جو آیت ملتی، ہمارے ساتھ وہ بھی اس میں شریک ہوتیں اور اپنے ایمان افروز تجربات سے ہمیں آگاہ کرتیں۔ یہ بہنیں اپنے گاؤں کی دوسری عورتوں سے بھی رابطے میں رہتیں۔ ان کی تعلیم کا بندوبست کرتیں۔ انہوں نے اپنی ان تھک محنت سے عورتوں کی آنکھوں پر پڑی غفلت کی پٹی اتار دی اور ان کے دماغوں پر چڑھے ہوئے جہالت کے غلاف اتار دیئے۔ میں نے گاؤں میں جا کر جس آیت کریمہ کی تفسیر کی تھی اور اس کے مطابق چلنے کی ترغیب دی تھی، دھیرے دھیرے گاؤں کی تمام بہنوں پر اس کا اثر ہوا۔ بزرگ کے مزار پر بزرگ کی خوشنودی کے لیے ہونے والے ذبیحے اب متروک ہو چکے ہیں۔

اس گاؤں میں اب بھی کچھ بہنیں بے چاری غافل ہیں۔ میں اپنی ان بہنوں کو غفلت میں مبتلا سمجھتی ہوں۔ انہیں مشرک نہیں کہتی۔ قبروں پر کبھی کبھار حصولِ عبرت کے لیے جانا برا نہیں۔ وہاں رک کر اہلِ قبور کے لیے دعا کرنا بھی ممنوع نہیں۔ البتہ عورتوں کا باقاعدگی کے ساتھ، زیب و زینت کر کے قبروں پر جانا دینِ اسلام کی نظر میں مستحن نہیں۔ اسی طرح قبروں میں مدفون اولیاء اللہ اور بزرگوں کو حاجت روا، مشکل کشا اور فریاد رس سمجھنا اور ہر طرح کے اختیارات کا مالک سمجھنا بھی اسلامی تعلیمات سے غفلت کا نتیجہ ہے۔

درسِ قرآن میں شریک ایک بہن نے تمام بہنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا،

“ میں نے جب سے درسِ قرآن دینے والی ہماری بہن محترمہ سمیہ رمضان سے اس آیت کی تشریح سنی ہے، یعنی، “ تم اللہ ہی کی بندگی کرو، دین کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے“ غفلت کے پردے اتر گئے ہیں۔ میں نے اس آیت کو اپنا شعار بنا لیا ہے۔ میں ہر کام سے پہلے اس آیت کو پڑھتی ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صدقہ مصیبت کو ٹال دیتا ہے​

میں ایک دن ایک مریضہ کی عیادت کے لیے گئی۔ اسے اتنے سخت درد ہوتے تھے کہ ٹلنے کا نام نہ لیتے تھے۔ میں نے اسے تسلی دی اور اسے اللہ کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دی۔ میں نے اس سے درخواست کی کہ وہ دفعِ مصیبت کے لیے صدقہ دے۔ مریضہ نہ کہا، “ میں نے بہت صدقے دیے ہیں اور کسی کو بھی نہیں چھوڑا۔ میں نے اللہ کے لیے صدقہ دیا۔ اپنے گاؤں کے امام صاحب کو صدقہ دیا۔ بلکہ میں نے ملک کے تمام مشہور اولیاء کے لیے صدقے بھیجے ہیں، مگر فائدہ کوئی نہیں ہوا۔“ اس کی باتوں سے مجھے مصیبت کی جڑ مل گئی۔ میں سمجھ گئی کہ خرابی کہاں ہے؟ یہ عورت غفلت کا شکار ہے۔ میں نے اسے اس غفلت سے نکالنے کا پختہ ارادہ کر لیا۔

میں نے کہا، “ صدقات تو صرف خالصتاً اللہ کے لیے ہوتے ہیں اور جو صدقات غیر اللہ کے لیے ہوتے ہیں، پروردگار انہیں قبول نہیں کرتا۔ آپ خالصتاً اللہ کو پکاریں، اس کے ساتھ کسی کو ذرہ برابر شریک نہ کریں۔ صرف تنہا وہی آپ کو شفا دینے پر قادر ہے۔“

“ میں اللہ کے نام پر آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ آپ اس ارشاد الٰہی کے مطاطق چلیں، “ فَاعْبُدِ اللَّہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّينَ (ال۔مر 2:39)۔ صرف اللہ سے مانگیں۔ کسی اور سے مانگنے سے احتراز کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ دوا دارو بھی جاری رکھیں۔ تمام اسباب اختیار کریں۔ اللہ کے حضور توبہ کریں۔ اپنی نادانی و غفلت پر اللہ سے معذرت کریں۔ ہر وقت اسی سے مانگیں۔ دعا و التجا میں الحاح و اصرار کریں۔ کوئی آپ کو اللہ سے نہ پھیرنے پائے۔“

اس بیمار عورت نے وعدہ کیا کہ وہ میری باتوں پر عمل کرئے گی۔ میں جب بھی اس سے ملنے جاتی، ہر ملاقات پر اسے یاد دلاتی کہ ہمارے مابین کیا طے پا چکا ہے۔ وہ بھی اقرار کرتی کہ وہ اپنے عہد و پیمان پر قائم ہے۔ میں رات کی تنہائیوں میں اس کے لیے بہ کثرت دعائیں کرتی کہ اللہ اس کی غفلت سے بھی اسے نجات دے اور دردوں سے بھی نجات بخشے۔ یہ بہن دھیرے دھیرے بہتر ہونے لگی۔ اللہ تعالٰی سے اس کا تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔ اسے تجربے سے معلوم ہو گیا کہ اللہ تعالٰی کتنا قریب ہے، کتنا فریاد رس ہے، کتنا دعاؤں کو قبول فرمانے والا ہے۔ جتنا اس کے یقین میں اضافہ ہوا اتنی ہی اس کو جلد شفا ملی۔ وہ اپنے ماضی پر نادم اور اس کی تلافی کے لیے کثرت سے استغفار کرتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
حاجات اللہ پوری کرتا ہے

ایک خاتون ہمارے درسِ قرآن کی مجلس میں تشریف لاتی ہیں۔ انہوں نے ایک قابل رشک کام سر انجام دیا۔ ان کی خوش نصیبی کا کیا کہنا۔ اللہ تعالٰی نے ہماری اس بہن کے ذریعے کئی عورتوں کو اسلام کی صحیح تعلیمات سے روشناس کرا دیا ہے اور اب وہ سب قرآن کریم کی روشنی میں سفرِ زندگی طے کر رہی ہیں۔

اس سعادت مند خاتون کی ملاقات اتفاقاً سر راہے عورتوں کے ایک گروپ سے ہوئی۔ یہ عورتیں ملک کے ایک بڑے شہر جانا چاہتی تھیں۔ انہیں معلوم ہوا تھا کہ وہاں ایک عورت رہتی ہے جس کا دعوٰی یہ ہے کہ وہ ہر کام کر سکتی ہے۔ بگڑی تقدیر بنا سکتی ہے۔، بیماروں کو صحت، مریضوں کو شفا، بے اولادوں کو اولاد اور بانجھ کو حاملہ بنا سکتی ہے۔ ملک کے دوردراز گوشوں سے عورتیں اس کے حضور حاضر ہوتی ہیں بلکہ عالم عرب سے بھی عورتیں اس کی شہرت سن کر وہاں جا پہنچتی ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں عورتیں اس کے گھر کے سامنے زمین پر بیٹھی رہتی ہیں۔ ساری رات زمین پر انتظار میں براجمان رہتی ہیں تا کہ صبح اس سے جلد مل سکیں۔ یہ عورتیں اسی گاؤں کی رہنے والی تھیں جس گاؤں میں، میں درسِ قرآن کے لیے گئی تھی۔ اس خاتون نے اپنے گاؤں کی ان عورتوں سے جو اپنے گھروں سے نکل کر آمادہ بہ سفر تھیں، کہا، “ کیا آپ لوگ اس عہد و قرار کو بھول گئی ہیں، یا جان بوجھ کر بھلا دیا ہے، جو ہم نے اپنے گاؤں میں اس دن کیا تھا، جب شہر سے محترمہ سمیہ رمضان درس کے لیے آئی تھیں۔ ہم سب نے “ فَاعْبُدِ اللَّہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّينَ (الزمر 2:39) کی آیت کے مطابق چلنے کا اقرار کیا تھا۔

ایک عورت نے کہا، “ ہم جو کچھ کرنے جا رہی ہیں وہ اس آیت کریمہ کی خلاف تو نہیں۔ ہم جس نیک عورت کے پاس جا رہی ہیں، وہ تو محض ایک سبب ہے، کرنے والا تو اللہ ہے۔ فاعل حقیقی وہی ہے۔“

اس خاتون نے کہا، کیا وہ عورت غیب کی دعوے دار نہیں ہے؟ کیا اس کا یہ دعویٰ نہیں کہ وہ بیمار کو شفا دینے پر قادر ہے؟ دوشیزاؤں کی شادی کرا سکتی ہے؟ بانجھ کو حاملہ بنا سکتی ہے؟ اللہ کے لیے بندگی کو خالص کرتے ہوئے، کیا غیر اللہ کی طرف رجوع کرنا درست ہو سکتا ہے؟ ادھر ہمیں حق تعالٰی وحدہ لا شریک کی قدرت پر اعتقاد ہے اور اُدھر ہم انسانوں کے پاس مرادیں پانے کے لیے چل پڑتے ہیں۔ یہ عورت لمبے چوڑے دعوے کرتی ہے مگر اس کے پاس اتنا علم نہیں کہ وہ کسی کام کی اہل ہوتی۔ وہ ڈاکٹر یا طبیبہ تو ہے نہیں کہ اس کے ہاتھ میں اللہ نے شفا دی ہو۔ باقی رہا کنواریوں کی شادی کرانا تو یہ صرف اللہ واحد ہی کا کام ہے۔ پھر آپ لوگ ایک طویل سفر کرنے کے بعد وہاں جائیں گی۔ سفر کی مشقت برداشت کریں گی۔ آپ لوگوں کا خیال بلکہ عقیدہ ہے کہ یہ عورت آپ کو نفع پہنچانے پر قادر ہے۔ آپ وہاں جا کر اس سے اپنی حاجت مانگیں گی۔ پھر اسے مال بھی دیں گی۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ سب کو اس عورت کی غیر معمولی قدرت پر یقین ہے۔ حالانکہ اللہ کے سوا کسی اور کے بارے میں‌ اس قسم کا عقیدہ رکھنا توحید کے منافی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم صرف اللہ تعالٰی کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔ ساتھ ساتھ اسباب و ذرائع بھی کام میں لائیں۔ ایسا کرنے سے ہمیں کچھ نقصان نہ ہو گا۔ بلکہ ہمیں سفر کیے بغیر اور مال خرچ کیے بغیر مکمل فائدہ ہو گا۔ اللہ سے امید رکھنا، اسی کے حضور دست بدُعا رہنا ہی ہمارا کام ہے۔“

جس عورت کی شادی ہوئے کئی سال ہو چکے تھے اور وہ اب تک اولاد کی نعمت سے محروم تھی، میں نے اس کی طرف دیکھا اور کہا، “ میں ایک ڈاکٹر کو جانتی ہوں۔ وہ بہت تجربہ کار ہے اور آپ کے جیسے مرض کی خصوصی ماہر ہے۔ میں آپ کو اس کے پاس لے جاؤں گی۔ مگر اس کے لیے آپ کو اپنے دینی فرائض کی ادائیگی کا خصوصی اہتمام کرنا ہو گا۔ نفلی عبادات زیادہ کرنا ہوں گی۔ سب نیک کام محض اللہ کی رضا و خوش نودی کی خاطر کرنا ہوں گے۔ آپ کو رات کی خاموشی میں نماز فجر سے پہلے کچھ رکعتیں ادا کرنا ہوں گی۔ اس کے ساتھ ہی آپ کا یہ پختہ یقین ہونا چاہیے کہ اللہ ہی قادر ہے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف سے ملنے کے لیے میں پہلے سے وقت مختص کروا لوں گی۔ اپ ہمیں اللہ کا نام لے کر اپنے کام کر شروع کر دینا چاہیے۔“

بے اولاد عورت بولی، “ سبحان اللہ، مجھے افسوس ہے کہ میں آیت کریمہ سے غافل رہی اور اس عہد و پیمان کو فراموش کر دیا جو ہم نے اپنے گاؤں میں درس قرآن کی تقریب میں کیا تھا۔ ان شاء اللہ اب اس آیت پر ضرور عمل کروں گی۔ مجھے اللہ کی ذات پر بہت بھروسہ ہے۔“

اب میں اس ماں کی طرف متوجہ ہوئی جو اپنی بیٹی کی شادی کے لیے بے چین تھی۔ میں نے اسے یاد دلایا کہ آخر اس کی بھی تو شادی ہوئی تھی۔ کیا وہ شادی کو اتنا مشکل کام سمجھنے لگی ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کے پاس جانے لگی ہے۔ اس نے کہا، “ شیطان مردود نے مجھے بہکا دیا۔ اللہ مجھے ابلیس لعین کے شر سے بچائے۔ شکر ہے کہ آپ سے ملاقات ہو گئی۔ اب میں زندگی بھر اس عورت کے پاس نہیں جاؤں گی۔ اب اللہ کے حضور گڑگڑاؤں گی۔ اس کے حضور دعا کروں گی۔“

میں نے اُس ماں سے کہا، “‌ آپ اگر چاہتی ہیں کہ آپ کی بیٹی کی جلد شادی ہو جائے تو آپ اور آپ کا میاں دونوں زیادہ سے زیادہ نیکی کے کام کریں اور تقوٰی اختیار کریں۔ جو کوئی تقوٰی اختیار کرتا ہے، اللہ اس کے لیے مشکل سے نکلنے کی کوئی سبیل پیدا کر دیتا ہے۔ آپ سب اللہ سے مانگیں۔“

بیمار عورت سے میں نے عرض کیا، قرآن کریم کی اس آیت پر آپ نے غور نہیں کیا، جس میں اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول نقل کیا ہے، “ وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ يَشْفِينِ ہ (الشعراء 80:26) - اور جب بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔“

درد کی تکلیف میں مبتلا عورت نے جواب دیا، “ اللہ کی قسم مجھے اتنا درد ہوتا ہے کہ مجھ ڈوبتی ہوئی کو تنکے کا سہارا بھی بہت ہے۔“

میں نے کہا، خواہ اس تنکے میں آپ کی ہلاکت ہی کیوں نہ ہو؟ آپ کا تعلق صرف اللہ سے ہونا چاہیے، وہی آپ کو شفا دینے پر قادر ہے۔ آپ صرف اللہ سے مانگیں۔ صدقِ نیت اور خلوصِ دل سے “ فَاعْبُدِ اللَّہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّينَ (الزمر 2:39) کے ارشادِ ربانی پر عمل کریں۔

پھر ہم سب نے متفقہ طور پر یہ طے کیا کہ ہم سب رات کی مخصوص گھڑی میں اپنے اپنے گھر میں اللہ کے حضور حاضر ہوں گی۔ اللہ واحد الاحد سے ملیں گی۔ اس سے درخواست، طلب، دعا اور التجا کریں گی۔

میں ہر رات اللہ کے حضور گڑگڑا کر یہ دُعائیں کرتی تھی کہ اللہ ہم سب کو سورۃ زمر کی آیت “ فَاعْبُدِ اللَّہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّينَ “ پر عمل کرنے کی توفیق دے اور سب بہنوں کو ان کی مرادیں ملیں۔ ادھر اللہ کی رحمت ہمارے انتظار میں تھی۔ اب میں درس قرآن کی مجلس میں حاضر سب بہنوں کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ جو عورت بے اولاد تھی، استقرار حمل سے محروم تھی، آج وہ یہاں میرے پاس بیٹھی ہے۔ اس کے ساتھ اس کا بچہ بھی ہے۔ جس لڑکی کی شادی نہیں ہو رہی تھی وہ بھی آج میرے قریب بیٹھی ہے۔ میں اسے دلہن ہی کہوں گی۔ اس کی شادی ہوئے چند ماہ گزرے ہیں۔ یہ دیکھیے یہ محترمہ جن کے ہاتھ میں‌ تسبیح ہے، یہ بیمار تھیں، دردوں سے نڈھال رہتی تھیں۔ اب الحمد للہ یہ تندرست ہیں۔ اللہ نے اپنی قدرت سے انہیں شفا دی ہے۔ مسجد میں بیٹھی تمام خواتین نے ان عورتوں کی طرف دیکھا جن کی طرف میں نے اشارہ کیا تھا۔

اب ہر عورت پورے یقین و اعتقاد کے ساتھ اللہ سے اپنی مرادیں مانگ رہی تھی۔
 

شمشاد

لائبریرین
جن نکالنا

اپنی مہمان کا میں نے پرجوش خیر مقدم کیا مگر وہ پریشان حال، افسردہ خاطر اور غمگین تھی۔ مجھے بالکل یاد نہیں کہ میں اس سے پہلے کب ملی تھی۔ بات صرف اتنی ہے کہ اس نے مجھ سے میر گھر آ کر ملنے کا کہا تو میں نے اسے فوراً بلا لیا۔ ابھی میں یہ ارادہ ہی کر رہی تھی کہ اس کی کبیدہ خاطری اور افسردگی کا سبب دریافت کروں کہ مہمان خاتون نے کہا، “ اللہ آپ کو معاف کرئے، آج سے چند ماہ پہلے آپ لیکچر دینے کے فوراً بعد درس گاہ سے اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔ اگر اس دن آپ کو جلدی نہ ہوتی تو آپ میری بات سن لیتیں۔ اگر اس دن مجھے آپ سے ملنے کا موقع مل جاتا اور میں آپ سے مشورہ کر لیتی تو وہ کچھ نہ ہوتا جو ہوا ہے۔“

میں نے اس کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا، میری پیاری بہن، “ اگر “ تو شیطانی وسوسہ ہوتا ہے۔ جو ہونا تھا سو ہو گیا۔ آج کی بات کریں۔ نئے دن، نئی امید کی بات کریں۔ سختی کے بعد آسانی آتی ہے۔ تکلیف کے بعد آرام ملا کرتا ہے۔ عسر کے بعد یسر ہے۔ خاتون یہ سن کر رونے لگی۔ میں نے اس کو تسلی دی، اس کے آنسو خشک کیئے۔ اسے سکنجین کا گلاس پلایا۔ میں برابر اس کی دل جوئی کرتی رہی، حتٰی کہ وہ پُر سکون ہو گئی۔ اور اس نے اپنی داستانِ درد و غم سنانی شروع کی۔

“ اس دن میں آپ سے ملنا چاہتی تھی۔ اپنے بارے میں آپ سے مشورہ کرنا چاہتی تھی۔ میری بیٹی بہت زیادہ بیمار تھی۔ میرے گھر والوں نے مجھے کہا کہ میں اسے ایک مشہور “ پیر “ کے پاس لے جاؤں۔ وہ پیر جعلی تھا۔ میں نے اپنی مجبوری، نادانی، کم علمی، کم تجربہ کاری اور کسی صاحبِ علم کے مشورہ و نصیحت کے لیے دستیاب نہ ہو سکنے کی بنا پر گھر والوں کی بات مان لی۔ ہم اپنی بیٹی کو اسی جعلی پیر کے پاس لے گئے۔ اس پیر نے عجیب بات کہی، “ تیری بیٹی بیمار ہے اور اس کی بیماری کا سبب تو خود ہے، تو جو اس کی ماں ہے۔ ایک جن تیرے وجود کے اندر داخل ہے جو تیری بیٹی کو بیمار کیئے ہوئے ہے۔ اگر تو اپنی بیٹی کو شفا و صحت دلانا چاہتی ہے، اسے تندرست دیکھنا چاہتی ہے تو پھر تیرے وجود سے وہ جن نکالنا پڑے گا۔“

یہ بات سن کر میں نے فوراً کہا، “ یہ دھوکہ باز ہے، فراڈ کرنے والا ہے، دجال ہے۔“

اس خاتون نے افسردہ لہجے میں کہا، “ کاش میں یہ الفاظ اس روز آپ کے منہ سے سن لیتی جس دن میں آپ سے مشورہ کرنا چاہتی تھی۔ مگر افسوس کہ یہ الفاظ نہ میں نے آپ سے سنے، نہ کسی اور سے۔ اس جعلی پیر کی بات ہم سب نے مان لی۔ میرے گھر والوں اور میں نے اس عامل کے ساتھ یہ طے کر لیا کہ وہ فلاں روز ہمارے گھر آئے گا تا کہ وہ میرے وجود سے جن نکالنے کی کاروائی کرئے۔ وہ مقررہ دن اور وقت پر آ پہنچا۔ اس نے آتے ہیں مختلف ہدایات دیں۔ اس نے میرے گھر والوں کو بتایا کہ وہ بچی کی ماں کے ساتھ تنہا کمرے میں داخل ہو گا۔ کیوں کہ یہ جن بہت طاقتور ہے، اس لیے عین ممکن ہے کہ وہ اپنے ارد گرد لوگوں کو دیکھ کر مشتعل ہو جائے اور کسی کو نقصان پہنچا دے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ عامل اور جن کے مابین سخت معرکہ آرائی کا اندیشہ ہے۔ اس لیے اگر آپ مریض بچی کی ماں کی چیخیں سنیں تو گھبرائیں نہیں، یہ دراصل جن کی چیخیں ہوں گی۔ اس وقت کوئی اندر آنے یا مداخلت کی کوشش نہ کرئے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ لوگوں کی دخل اندازی سے ماں کو کوئی نقصان پہنچے، اس کی زندگی کو خطرہ پیش آ جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جن دخل دینے والے کو پکڑ لے۔

“ میرے سادہ لوح گھر والوں نے عامل کی ہر بات مان لی اور اسے مکمل فرماں برداری کا یقین دلایا۔ انہوں نے اسے میرے ساتھ تنہائی میں داخل ہونے کی اجازت دے دی۔ اسے یہ بھی کہہ دیا کہ وہ اندر سے دروازہ بند کر لے۔ میں اس وقت خوفزدہ اور پریشان تھی کہ دیکھوں میرے ساتھ کیا معاملہ پیش آتا ہے؟ جلد ہی میرا خوف اور میری پریشانی سخت گھبراہٹ میں بدل گئے جب مجھے اس عامل کے حقیقی ارادوں کا پتہ چلا۔ وہ دراصل چاہتا تھا کہ تنہائی سے فائدہ اٹھائے مگر میں نے شدید مزاحمت کی اور پوری قوت سے اسے دھکا دیا۔ دروازہ کھولا اور میں روتی ہوئی باہر نکل آئی۔ میرا حجاب کش مکش میں اتر گیا۔ اگر میں باہر بھاگنے میں دیر کرتی تو میرے کپڑے بھی پھٹ جاتے۔ قدرتی طور پر میرے گھر والوں نے اسے عامل اور جن کے مابین لڑائی سمجھا۔ میں نے بھی بہتر یہی سمجھا کہ اپنے گھر والوں کو اصل حقیقت سے مطلع نہ کروں تاکہ میرا خاوند میرے بارے میں کسی بدگمانی میں مبتلا نہ ہو۔“

اس باہمت خاتون کی یہ بات سن کر میں نے اظہار افسوس کرتے ہوئے بتایا، “ آپ کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے یہ ایک کہانی ہے جو بیسوں سالوں سے دہرائی جا رہی ہے۔ یہ کہانی ہوتی بہت ہے مگر سامنے بہت تھوڑی آتی ہے۔ آپ اللہ کا شکر کیجیئے کہ سلامت رہیں اور اس مکار و دغاباز عامل کی حقیقی نیت کو سمجھ گئیں۔ آپ نے دلیری سے کام لیا ہے۔ آپ آئیندہ درسِ قرآن سننے ضرور تشریف لائیے۔ میں مسجد میں ‌آپ کا انتظار کروں گی۔“

میں نے ان عاملوں، جعلی پیروں اور دھوکہ بازوں کے خلاف کھلم کھلا اعلان جنگ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ میں ان خطرناک و مہلک توہم پرستی کے خلاف ایک زبردست مہم چلانے جا رہی تھی۔ آئیندہ درس قرآن کا موضوع “ عالم جنات “ تھا۔ وہ عالمِ نامعلوم جس کے بارے میں ہم انسان بہت کم جانتے ہیں۔ بلکہ جو کچھ قرآن اور حدیث میں آیا ہے، اسے بھی صحیح نہیں سمجھ پائے۔ قرآن و سنت میں جنات کے بارے میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہی حق ہے۔ اس کے ماسوا زیادہ تر قیاس آرائیاں اور خرافات ہیں۔

جنوں کے موضوع پر درس قرآن ہوا تو حاضرین نے حیران ہو کر بڑی توجہ سے سنا۔ بہت دلچسپی لی۔ وہ درس سننے میں اتنی محو اور منہمک تھیں کہ کسیکی حرکت کرنے کی آواز تک نہیں آ رہی تھی۔ اختتام درس کے بعد حسب معمول جو آیات عمل کے لیے منتخب ہوئیں وہ تھیں سورۃ الاعراف کی آیت 37 اور سورۃ سبا کی آیت 14۔ اس دونوں آیتوں سے یہ دو حقیقتیں بالکل واضح تھیں :

1 - جنات ہمیں دیکھتے ہیں مگر ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔

2 - جنات علم غیب نہیں رکھتے۔

“ يَا بَنِي آدَمَ لاَ يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا اَخْرَجَ اَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّۃِ يَنزِعُ عَنْھُمَا لِبَاسَھُمَا لِيُرِيَھُمَا سَوْءَاتِھِمَا اِنَّہُ يَرَاكُمْ ھُوَ وَقَبِيلُہُ مِنْ حَيْثُ لاَ تَرَوْنَھُمْ اِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ اَوْلِيَاء لِلَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ ہ (الاعراف 27:7) - اے بنی آدم، ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں پھر اسی طرح فتنے میں مبتلا کر دے جس طرح اس نے تمھارے والدین کو جنت سے نکلوایا تھا اور اس کے لباس ان پر سے اتروا دیے تھے تاکہ ان کی شرم گاہیں ایک دوسرے کے سامنے کھولے۔ وہ اور اس کے ساتھی تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ ان شیاطین کو ہم نے اس لوگوں کا سرپرست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔“

“ فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْہِ الْمَوْتَ مَا دَلَّھُمْ عَلَى مَوْتِہِ اِلَّا دَابَّۃُ الْاَرْضِ تَاْكُلُ مِنسَاَتَہُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ اَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُھِينِ ہ (سبا 14:34) - پھر جب سلیمان علیہ السلام پر ہم نے موت کا فیصلہ نافذ کیا تو جنوں کو اس کی موت کا پتہ دینے والی کوئی چیز اس گھن کے سوا نہ تھی جو اس کے عصا کو کھا رہا تھا۔ اس طرح جب سلیمان علیہ السلام گر پڑا تو جنوں پر یہ بات کھل گئی کہ اگر وہ غیب جاننے والے ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں مبتلا نہ ہوتے۔“

میں نے عرض کیا کہ اس مرتبہ ہم کو نہ صرف اپنے اعضا وجوارع اور حواس سے ان دونوں آیتوں سے واضح ہونے والی حقیقت پر عمل کرنا ہے بلکہ اپنے معاشرے کے تمام لوگوں کو بھی اس سے خبردار کرنا ہے تاکہ علم و دانش کی روشنی پھیلنے سے خرافات کے اندھیرے چھٹ جائیں اور دجالوں، شعبدہ بازوں اور شہوت پرستوں کے لیے کام کرنا ناممکن ہو جائے۔ یہ بھی طے پایا کہ آئیندہ درس میں بہنیں اپنے تجربات بیان کریں گی۔


جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
گزشتہ سے پیوستہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جن نکالنا

جس دن درسِ قرآن ہونا تھا، اس سے پہلی رات میرے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ ریسیور اٹھایا تو معلوم ہوا کہ ایک بہن اپنا تجربہ بیان کرنا چاہتی ہے۔ وہ درس کے وقت کا بھی انتظار نہ کر سکی۔ چنانچہ اس نے بتایا :

“ آپ کا درس سنتے ہی میں مسجد سے نکلی تو اپنی سہیلی کے گھر کا راستہ لیا۔ اس سہیلی کی عادت تھی کہ وہ ہمیں جنوں اور دیووں کے بارے میں جھوٹے واقعات سناتی تھی۔ ہم اپنی نادانی سے اس کی باتوں اور کہانیوں کو سچ سمجھتے رہے۔ وہ کہتی تھی کہ وہ جنوں کو دیکھتی ہے، ان سے باتیں کرتی ہے اور ان کے ساتھ اس کے کئی معاملات ہیں۔ بلکہ اس کا ایک بھائی بھی ایک جننی سے شادی کر چکا ہے۔ وہ ہمیں اس جن کے بارے میں بتاتی کہ وہ سفید کپڑے پہن کر اس کے پاس بیٹھا رہتا ہے۔ اس نے ہمیں ایک اور جن کے بارے میں بتایا کہ اس کی ٹانگیں بکرے کی طرح ہیں۔ میں جب اس سے یہ کہانیاں سن کر گھر آتی تھی تو سخت خوف زدہ ہوتی تھی۔ مجھے اپنے ارد گرد سے خوف محسوس ہوتا تھا۔ حتٰی کہ میں اپنے خیال سے بھی سہم جاتی تھی۔ میری سہیلیوں کا بھی یہی حال تھا۔ ہم سب کتاب و سنت سے لاعلم اور بے خبر ہونے کی وجہ سے اس کی باتوں کو درست سمجھتے تھے۔ مگر جب آپ نے گزشتہ درسِ قرآن میں یہ بتایا کہ انسان جنات کو نہیں دیکھ سکتے اور جنوں کو علم غیب نہیں ہے تو مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے روشنی کی ایک کرن میرے وجود میں سما گئی ہے اور جہالت ختم ہو گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی مجھے اپنے والد محترم کی بات یاد آ گئی جو وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ علم نور ہے۔“

“آپ کا درس قرآن سننے کے فوراً بعد میں سیدھی اپنی اس سہیلی کے پاس گئی۔ اس دفعہ میں خوف و دہشت اور مرعوبیت کے ساتھ اس کے گھر نہیں جا رہی تھی۔ اب تو میں یقین، علم اور اعتماد کے ساتھ جا رہی تھی۔ ملاقات ہونے پر میں نے بلا تکلف کہا، مجھے اس بات کا یقین ہو چکا ہے کہ ہم جنات کو بالکل نہیں دیکھ سکتے۔ آپ جو یہ کہتی ہیں کہ آپ جن دیکھتی ہیں یہ محض آپ کے خیالات ہیں۔ ان خیالات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں نے اسے قرآن شریف کی آیت سنائی اور کہا کہ وہ آئیندہ نہ اس قسم کی باتیں کیا کرئے اور نہ ان خیالات و خرافات کو بیان کرئے۔ پھر میں نے اس سے کہا، آپ اپنے آپ سے سوال کریں کہ آپ سچی ہیں یا اللہ کی کتاب؟ اس نے فوراً جواب دیا، “ اللہ کی کتاب سے بڑھ کر کس کی بات سچی ہو سکتی ہے؟ تاہم میں کئی چیزیں دیکھتی ہوں۔“ میں فوراً بھانپ گئی کہ اس کو وقتاً فوقتاً بے ہوشی اور مرگی کے دورتے پڑتے رہتے ہیں۔ یہ خیال آتے ہی میں نے بڑی شفقت و محبت سے اسے کہا، “ میری پیاری بہن، اپ کو کسی ماہر نفسیات سے ضرور اور جلد ملنا چاہیے۔ تاخیر نہ کریں، کہیں آپ کی حالت زیادہ خراب نہ ہو جائے۔ مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ نفسیاتی علاج سے آپ جلد صحت مند ہو جائیں گی۔“ میرے اصرار پر وہ اس شرط پر علاج کرانے کے لیے رضامند ہو گئی کہ میں‌کسی کے سامنے اس کا تذکرہ نہ کروں تاکہ لوگ اسے “نفسیاتی مریضہ“ نہ سمجھنے لگیں۔ میں نے اس کی شرط قبول کر لی اور اپنی طرف سے یہ پابندی عاید کر دی کہ وہ اب پہلے کی طرح خرافات بیان کرنے سے اجتناب کرئے گی۔ اس نے وعدہ کر لیا۔“

اگلی صبح بیس سال کی ایک لڑکی پہلے سے ملاقات کا وقت طے کیئے بغیر مجھ سے ملنے آ گئی۔ اس نے شرماتے ہوئے کہا، “ میں آپ کے سامنے اپنا ایک راز رکھنا چاہتی ہوں۔ اس راز نے مجھے بے چین و بے قرار کیا ہوا ہے اور میرا سکون غارت کر رکھا ہے۔ میں آپ کے پاس رہنمائی کے لیے حاضر ہوئی ہوں۔ میں نہیں جانتی کہ اللہ تعالٰی میرا گناہ معاف کرئے گا یا نہیں؟ میں اپنے والدین کے خلاف ایک بڑے گناہ یعنی گستاخی کی مرتکب ہوئی ہوں۔ میں اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہوں۔ زیادہ لاڈ پیار نے مجھے والدین کا گستاخ بنا دیا ہے۔ میں ان کے سامنے چیختی چلاتی بلکہ انہیں ڈانتی بھی تھی۔ میں ان کی حکم عدولی کرتی، مجھے جو بھی کام کہتے میں اس کے خلاف کرتی۔ میں گھر کے کام کاج میں اپنی والدہ کا ہرگز ہاتھ نہ بٹاتی، اس کی مدد بالکل نہ کرتی بلکہ والدہ کے ساتھ ہمیشہ سکتی سے پیش آتی۔ میں اپنے ابا کا مذاق اڑاتی۔ جب گھر میں لوگ ملنے آئے ہوتے تو بھی میں اپنے والد کا مذاق اڑاتی، مجھے ان کی بڑی عمر کا بھی خیال نہ آتا، نہ ان کی شرافت کا لحاظ کرتی۔ میرا ان کے ساتھ یہ رویہ تھا مگر والدین مجھ سے بے حد پیار کرتے۔ ان کی محبت میں کمی نہ آئی۔ ایک دن ابا گھر آئے تو ان کے ساتے میں نے ایک اجنبی آدمی دیکھا۔ دراصل میرے والدین چاہتے تھے کہ جتنا بھی خرچ ہو جائے، مال کی پرواہ نہیں مگر میرا جن نکل جائے۔ یہ اجنبی صاحب میرے وجود سے جن کو الگ کرنے کے لیے تشریف لائے تھے۔“

“ میں دل ہی دل میں ‌مسکرائی اور اس جن والے ڈرامے کا حصہ بننے کا فیصلہ کر لیا۔ جن نکالنے والے صاحب کے سامنے بیٹھنے سے میں نے انکار نہ کیا۔ اس نے میرے قریب بیٹھ کر عجیب و نامانوس جملے بولنے شروع کر دیئے۔ وہ بیچ بیچ میں قرآنی آیات کے کچھ حصے بھی ملا دیتا تھا۔ وہ قرآنی آیات کو بھی درست طریقے سے نہیں پڑھ سکتا تھا۔ میں نے دل ہی دل میں سب کا مذاق اڑانے کا فیصلہ کر لیا۔ چند ہی لمحوں بعد میں نے اپنا لہجہ بدل لیا۔ جب وہ گھبرایا تو ایک بار تو میری ہنسی چھوٹنے لگی مگر میں نے اپنے آپ پر قابو پا لیا۔ کیوں کہ یک دم کھلکھلا کر ہنسنے سے سارا کھیل چوپٹ ہو جاتا۔“

“ اپنے آپ پر ضبط پانے کے بعد میں نے اپنی آواز مزید سخت و کرخت کر لی۔ میں نے کچھ مہمل و فضول الفاظ بولنا شروع کر دیئے۔ یہ دیکھ کر میری امی غم میں رونے لگیں۔ پہلے تو وہ مجھے گستاخ سمجھتی تھیں، اب انہوں نے مجھے “ جن زدہ “ بھی سمجھنا شروع کر دیا۔ میرے ابا نے شفقت پدری سے بے قرار ہو کر مجھے اپنے قریب کرنا چاہا مگر میری نظر اس وقت “ بابائے جنات “ کی چھڑی پر پڑی۔ وہ اس چھڑی سے بیماروں کو پیٹتا تھا اور یہ تاثر دیتا تھا کہ وہ کسی انسان کو نہیں بلکہ جن کو پیٹ رہا ہے۔ اس چھڑی کی مار سے کتنے مرد، عورتیں، نوجوان لڑکیا اور لڑکے بری طرح متاثر ہوئے تھے اور نفسیاتی مریض بن چکے تھے۔

“ جونہی میری نظر چھڑی پر پڑی، میں نے اس کے ہاتھ سے چھڑی چھین لی۔ اب میں نے سب کی پٹائی کی۔ ماں، باپ، جن نکالنے والا، سبھی میری زد میں تھے۔ وہ چیختے، چلاتے اور روتے تھے۔ مگر میرا دل پتھر کی مانند ہو چکا تھا۔ اس واقعے کے بعد ماں باپ پریشان تھے اور پہلے سے بڑھ کر میرا ہر مطالبہ مانتے تھے۔

“ اللہ تعالٰی کو میرے والدین کی حالت پر رحم آیا۔ اس نے مجھے آپ لوگوں کے حلقہ درس میں شرکت کی توفیق دی۔ میں بہت تیزی سے بدل گئی۔ والدین کے ساتھ گستاخی، حکم عدولی، ضد وغیرہ سب کچھ چھوڑ دیا۔ میں نے آیات زیر درس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا شروع کر دیا۔ آپ نے پچھلے ہفتے جنات کے متعلق جو کچھ بتایا، اس نے میری آنکھیں کھول دیں۔ میں اپنے والدین کے ساتھ جو گستاخی کرتی رہی ہوں، اسے تو شاید اللہ تعالٰی معاف فرما دے، مگر میں نے انہیں جو چھڑی سے پیٹا ہے، اسے معاف نہ کرئے گا۔ مجھ سے گناہ کبیرہ کا ارتکاب ہوا ہے۔ میں بہت پریشان ہوں۔ آپ اللہ کے لیے میری مدد کیجیئے۔ کیا اللہ میرے اتنے بڑے جرم کو معاف فرما دے گا؟“

میں نے اس سے کہا، “ آپ صدق دل سے توبہ کریں۔ والدین سے حسنِ سلوک کریں۔ ان کی خدمت کریں۔“

چند دنوں بعد اس خاتون نے مجھے آ کر بتایا، “ باجی میں نے آپ کی باتوں پر عمل کرنا شروع کیا تو میرے ماں باپ نے میری بدلی ہوئی حالت دیکھ کر اسے “ عامل “ کا کرشمہ قرار دیا۔ وہ دونوں اس کے پاس شکرانے کی رقم اور تحائف لے کر جا رہے تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ مجھے اللہ کے قرآن نے درست کیا ہے۔ وہ عامل تو فراڈی اور نوسرباز تھا۔ میں نے اپنے والدین سے کہا ہے کہ وہ عامل کو تحائف دینے کی بجائے اللہ کا شکر ادا کریں اور یہ رقم کسی مستحق کو دے دیں۔“

قرآنی آیات پر عمل کرنے سے ان شاء اللہ توہم پرستی، جہالت اور شعبدہ بازی کے بادل چھٹ جائیں گے اور زمین اپنے رب کے نور سے جگمگا اٹھے گی۔ “ وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُورِ رَبِّھَا (الزمر 69:39) - زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی۔“
 

شمشاد

لائبریرین
غیب کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں

یہ بات پہلے عرض کر چکی ہوں کہ ہمارے یہاں درس قرآن روایتی طریقے سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ پہلے زیر درس آیات کا تفصیلی تعارف پیش کیا جاتا ہے۔ یعنی ان کی تفسیر بیان ہوتی ہے۔ ان آیات سے اگر فقہی احکام متعلق ہوں تو انہیں پیش کیا جاتا ہے۔ شانِ نزول و اسباب پر گفتگو کی جاتی ہے۔ آیات محکم ہیں یا متشابہہ، ناسخ ہیں یا منسوخ اس کا بھی تذکرہ ہوتا ہے۔ پھر زیر درس آیات اگر آسانی سے حفظ ہو سکیں تو انہیں حفظ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تلاوت کے احکام و آداب سکھائے جاتے ہیں۔ پھر سب سے آخر میں یہ عرض کیا جاتا ہے کہ ان آیات پر کیسے عمل کرنا ہے؟ آئیند درس میں‌ عمل درآمد کے دوران پیش آنے والے تجربات سنے جاتے ہیں۔ بعض اوقات قرآنی علوم کے ماہرین کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔ علم و معرفت سے لگاؤ رکھنے والی خواتین اور لڑکیاں باہمی محبت و مؤدت کے ماحول میں قرآنی دسترخوان سے سیر ہوتی ہیں۔

ہم نے علم تجوید و قرات کے ایک ماہر سے التماس کی کہ وہ ہمارے درس میں آ کر اس علم کے اصول و قواعد کی تعلیم دیں تاکہ تلاوت درست اور صحیح ہو سکے۔ قاری صاحب تشریف لانے لگے۔ شرکا بہت خوش تھیں۔ وہ علم تجوید کے قواعد کے مطابق قرآن شریف بہتر طور پر پڑھنے کے قابل ہو رہی تھیں۔ روز بروز ان کے علم میں اضافہ ہو رہا تھا۔ ان کی زبانیں اور گلے تجوید کے اصول و ضوابط کے مطابق حرکت کر رہے تھے۔

قاری صاحب اپنے فن کے ماہر تھے مگر ان میں ایک خرابی یہ تھی کہ وہ دورانِ درس ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگتے تھے۔ وہ مزارات کی اہمیت اور اصحاب مزارات کی تقدیس میں مبالغے سے کام لیتے تھے۔ شرکائے درس ان کی مبالغہ آرائی کو ناپسند کرتی تھیں کیوں کہ انہیں قبروں کی زیارت کے احکام و آدات اچھی طرح معلوم تھے۔ تاہم خواتین کی ناپسند ابھی تک اکتاہٹ و بیزاری کے درجے میں نہ پہنچی تھی کیونکہ معلمِ تجوید کے علم و فن سے استفادہ زیادہ عزیز تھا۔ لٰہذا وہ ان کی ان باتوں کو صبر و برداشت سے سنتیں۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا۔ حتٰی کہ ایک دن قاری صاحب نے ایک ایسی بات کہہ دی کہ خواتین کا برداشت کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور نوبت بحث و مباحثہ اور تکرار تک جا پہنچی۔

قاری صاحب ایک پیر کے عقیدت مند تھے۔ وہ پہلے بھی ان کا تذکرہ کرتے رہتے تھے۔ مگر اس دن انہوں نے اپنے شیخ کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے۔ یہاں تک کہہ دیا کہ میرے پیر صاحب تو غیب کا علم بھی جانتے ہیں۔ انہوں نے ایک قصہ سنایا کہ ایک دفعہ ایک جوڑے کا نکاح پڑھانے کے بعد حضرت نے دولہا اور دلہن کی تاریخ پیدائش دریافت فرمائی۔ پھر آپ نے ایک کاغذ پر اپنے قلم سے کچھ لکھا۔ کچھ حساب کیا اور دولہا کو ایک طرف لے جا کر کہا، “ آپ کی شادی کا انجام ناکامی ہے۔ آپ جلد ہی دلہن کو طلاق دے دیں گے۔“ دولہا نے حضرت پیر صاحب کو بہ نظرِ حقارت دیکھا اور آپ کے ارشاد کی کچھ پرواہ نہ کی۔ ابھی چند ہی ماہ گزرے تھے کہ اس دولہا نے اپنی دلہن کو طلاق دے دی۔ اب اس دولہا نے دوبارہ شادی کا ارادہ کیا تو حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ حضرت کچھ حساب کتاب کر کے یہ بتائیں کہ دوسری شادی اور دلہن کا انجام کیا ہو گا۔

قاری صاحب جب یہ واقعہ بیان کر چکے تو میں نے حاضرین کی طرف دیکھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ انتہائی افسردہ و پریشان خاطر ہوں۔ میں نے معلمِ تجوید پر نگاہ ڈالی تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ وہ اپنی واضح کامیابی اور دندان شکن دلیل پر مسرور تھے۔ انہوں نے گویا یہ ثابت کر دیا تھا کہ ان کے حضرت صاحب کو علمِ غیب حاصل ہے۔ ادھر مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ مسجد کے ستون کانپ رہے ہیں اور استادِ قرات کے اس دعوی کی تردید میں کتاب اللہ کی آیات پڑھنے کے لیے بےقرار ہیں۔ وہ گویا زبانِ حال سے اس قاری قرآن کے من گھڑت اور جھوٹے بیان کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ میں نے بآوازِ بلند یہ آیت پڑھی، “ عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْھِرُ عَلَى غَيْبِہِ اَحَدًا (الجن 26:72) - وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔“

تجوید کے مدرس نے انتہائی غصے سے میری طرف دیکھا۔ اس نے چیلنج کرنے والے انداز میں چلا کر کہا، “ پوری آیت پڑھو، اس پر میں نے کہا، “ اِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَاِنَّہُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ رَصَدًا۔ لِيَعْلَمَ اَن قَدْ اَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّھِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَيْھِمْ وَاَحْصَى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا۔ (الجن 28:27:72) - سوائے اس رسول کے جسے اس نے (غیب کا علم دینے کے لیے) پسند کر لیا ہو، تو اس کے آگے اور پیچھے وہ محافظ لگا دیتا ہے۔ تاکہ وہ جان لے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیئے اور وہ ان کے پورے ماحول کا احاطہ کیئے ہوئے ہے اور ایک ایک چیز کو اس نے گن رکھا ہے۔“

اس پر قاری صاحب نے انتہائی نفرت سے کہا، “ تم نے دیکھا؟“

میں نے بڑے وثوق و اطمینان سے جواب دیا، “ یاد رکھیئے، آپ کے پیر صاحب ہوں یا کوئی نجومی، عمل کرنے والے، قسمت کا حال بتانے والے، ہندسے لکھ کر حساب کتاب کرنے والے، ان میں سے کوئی بھی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ وہ اللہ کا برگزیدہ و منتخب رسول ہے۔ جب کہ اللہ اپنے علم غیب میں
‌سے کچھ سے انہیں ہی سرفراز فرماتا ہے۔ جو واقعہ آپ نے بیان کیا ہے، اگر یہ سچا بھی ہو تو یہ آپ کے پیر صاحب کی غیب دانی کا ثبوت نہیں بلکہ محض ایک گمان ہے۔ گمان کبھی درست ہو جاتا ہے اور کبھی غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ لوگوں کے مستقبل کے بارے میں اس قسم کے تُکے تخمین افترا کے سوا کچھ نہیں۔

یہ سن کر اس آدمی کو سخت غصہ آیا۔ غصے سے اس کا بدن کانپ رہا تھا۔ اس نے انتہائی بلند آواز میں چیخ کر کہا، “ میں آپ کو یہ اجازت نہیں دے سکتا کہ آپ میرے پیر و مرشد کی شان میں گستاخی کریں اور میرے سامنے ان کی توہین کریں۔“ اب قاری غصے سے بےتاب ہو کر منہ سے جھاگ نکال رہا تھا۔

مسجد کے احترام کے پیش نظر میں نے خاموش رہنے کو ترجیح دی۔ قاری صاحب نے کہا کہ مجھے اجازت دیجیئے، مجھے اس وقت کہیں کام کے لیے جانا ہے۔ کسی سے وعدہ کر رکھا ہے۔ تاخیر نہ ہو جائے۔

معلم تجوید کے جانے کے بعد میرے حافظے کی اسکرین پر بہت سے نقوش ابھرنے لگے۔ مجھے شاعر کا یہ شعر یاد آیا۔

۔۔۔۔۔ حکم المنجم ان طالع مولودی ۔۔۔۔ یقضی علی بمیتۃ الغرق
۔۔۔۔۔ قل اللمنجم صبحۃ الطوفان ھل ۔۔۔۔ والد الجمیع بکوکب الغرق

ترجمہ، “ اگر نجومی میری پیدائش کا زائچہ بنائے اور دیکھ لے تو وہ میرے بارے میں ڈوب کر مرنے کا فیصلہ کرئے گا۔ نجومی سے طوفان کی صبح کہہ دیجیئے کہ کیا سارے لوگ، ڈوبنے والے ستارے ہی کے حساب سے پیدا ہوئے تھے۔“

اس کے ساتھ ہی مجھے نہروان کا وہ واقعہ یاد آ گیا جو صحیح مسلم میں درج ہے۔ “ حضرت امیر المؤمنین علی رضی اللہ تعالٰی عنہ بن ابی طالب نے جنگ کے لیے کوچ کا حکم دیا تو مسافر بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا، “ یا امیر المؤمنین، آپ اس گھڑی کوچ نہ فرمائیں، بلکہ دن کی تین گھڑیاں گزر جائیں تو اس وقت کوچ فرمائیں۔“ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پوچھا، “ کیوں؟“، جواب دیا، “ آپ اگر اس وقت کوچ کریں گے تو آپ کو اور آپ کے ہمراہیوں کو تکلیف و مصیبت سے واسطہ پڑے گا اور سخت نقصان پہنچے گا اور اگر آپ میری تجویز کر دہ گھڑی پر کوچ کریں گے تو آپ کو فتح نصیب ہو گی اور آپ کی تمنا پوری ہو گی۔“ یہ سن کر حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا، “ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نجومی نہیں تھے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہم میں سے کوئی نجومی ہے۔ جس کسی نے تمہاری بات کو سچ جانا، میں اسے اس لوگوں میں شمار کروں گا جو اللہ کو چھوڑ کر اوروں کو کارساز سمجھ لیتے ہیں۔ اے اللہ، تیری فال کے سوا کوئی فال نہیں اور تیری خیر کے سوا کوئی خیر نہیں۔“ پھر آپ نے مسافر بن عوف سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا، “ ہم تجھے جھوٹا سمجھتے ہیں، تیرے مشورے کے خلاف چلتے ہیں اور ہم اسی وقت روانہ ہوں گے جس وقت چلنے سے تو ہمیں رکنے کا کہہ رہا ہے۔“ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے لشکریوں سے مخاطب ہو کر فرمایا، “ اے لوگو، علمِ نجوم مت سیکھو، ہاں صرف اتنا سیکھو، جس سے تم خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ تلاش کر سکو۔ یاد رکھو کہ نجومی جادوگر کی مانند ہے۔ اور جادوگر کافر کی مانند جہنم کی آگ میں ہو گا۔ اے مسافر بن عوف اللہ کی قسم، اگر مجھے یہ اطلاع ملی کہ تو ستاروں میں دلچسپی لے رہا ہے اور پھر نجومیوں کی طرح کام کر رہا ہے تو میں تجھے قید میں رکھوں گا۔ جب تک تو زندہ ہے اور میں زندہ ہوں۔ میں اپنے اختیارات سے کام لے کر تجھے تمام عطیات سے بھی محروم کر رکھوں گا۔“

خطاب کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسی وقت کوچ کیا جس وقت کوچ نہ کرنے کا آپ کو مشورہ دیا گیا تھا۔ دشمنوں سے مقابلہ کیا اور انہیں تہس نہس کر دیا۔ لڑائی کے بعد آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اہل لشکر سے فرمایا، “ اے لوگو، اللہ پر توکل کرو اور اس پر بھروسہ کرو۔ اللہ دوسروں کے مقابلے میں تمہارے لیے کافی ہو گا۔“ (القرطبی جلد 29، ص 28)۔

اس کے ساتھ ہی مجھے خلیفہ معتصم باللہ کا واقعہ یاد آ گیا۔ معتصم نے ایک مسلمان عورت کی بے ادبی کا بدلہ لینے کے لیے، جس نے وامعتصماہ، کہہ کر اسے پکارا تھا اور رومیوں کی عداوت اور مسلمانوں پر ظلم و تشدد کا بدلہ لینے کے لیے عموریہ پر چڑھائی کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے لشکر کو تیاری اور کوچ کا حکم دے دیا۔ نجومیوں نے حسبِ عادت خلیفہ کے مقرر کردہ وقت پر لشکر کے کوچ کرنے کی مخالفت کی کیوں کہ یہ گھڑی نحس تھی، سعد نہ تھی۔ اس کے حساب سے غیر مناسب تھی۔ مگر خلیفہ نے نجومیوں کی بات کی پرواہ کیے بغیر اسی وقت کوچ کا حکم دیا، لشکر کی قیادت کی اور عموریہ فتح کیا۔ رومیوں کو ذلت آمیز شکست ہوئی۔

مجھے یہ بات پہلے سے معلوم تھی کہ ہمارے مدرسِ تجوید کی اولاد نہیں ہے۔ اس کی بیوی مسلسل زیر علاج ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر قاری صاحب کے پیر کو علم غیب ہے تو انہوں نے اسے اس عورت سے شادی کرنے سے کیوں نہیں روکا؟

میں اپنی سوچ سے باہر آئی۔ حاضرین کو دیکھا وہ حیرت زدہ اور گومگو کی کیفیت میں تھیں۔ ایک طرف ان کا علم غیب کے بارے میں قرآن و سنت پر مبنی علم تھا دوسری طرف استاذِ تجوید کا تجربہ اور دعویٰ تھا۔ میں نے اس تذبذب کو ختم کرنے کا فوری فیصلہ کیا۔ ان سے گفتگو شروع کی۔ پہلے میں نے انہیں بتایا کہ میں کیا سوچ رہی تھی۔ میں نے اس نے سوال کیا کہ اس ارشادِ الٰہی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ “ قُل لاَّ اَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلاَ ضَرًّا اِلاَّ مَا شَاء اللّہُ وَلَوْ كُنتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لاَسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ اِنْ اَنَاْ اِلاَّ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ہ (الاعراف 188:7) - اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہو کہ میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کی اختیار نہیں رکھتا، اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے۔ اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی نقصان نہ پہنچتا۔“

تمام خواتین نے بیک زبان جواب دیا، “ بے شک اللہ بزرگ و برتر نے سچ فرمایا ہے۔“

ایک خاتون نے کہا، “ بعض علم غیب کے دعوے دار کہتے ہیں کہ انہیں غیب کا علم جنات کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔“ میں نے اس کی تردید میں‌ یہ آیت پڑھی :

“ فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْہِ الْمَوْتَ مَا دَلَّھُمْ عَلَى مَوْتِہِ اِلَّا دَابَّۃُ الْاَرْضِ تَاْكُلُ مِنسَاَتَہُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ اَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُھِينِ ہ (سبا 14:34) - پھر جب سلیمان پر ہم نے موت کا فیصلہ نافذ کیا تو جنوں کو اس کی موت کا پتہ دینے والی کوئی چیز اس گھن کے سوا نہ تھی جو اس کے عصا کو کھا رہا تھا۔ اس طرح جب سلیمان گر پڑا تو جنوں پر یہ بات کھل گئی کہ اگر وہ غیب کے جاننے والے ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے۔“

میں نے عرض کیا کہ جنات غیب دانی کا دعویٰ کرتے تھے مگر اللہ نے ان کا جھوٹ کھول دیا اور انہیں رسوا کر دیا۔ مگر افسوس کہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگ اب تک جنوں اور دھوکہ بازوں کے ان دعووں کو درست سمجھتے ہیں اور اللہ سبحانہ کے کلام سے چشم پوشی کر لیتے ہیں۔ دیکھیے حضرت سیدنا نوح علیہ السلام اللہ کے نبی و رسول ہیں۔ اس کے باوجود وحی الٰہی کے ماسوا کسی بھی طرح سے معرفتِ غیب کی اپنی ذات سے نفی کرتے ہیں، “ وَلاَ اَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَآئِنُ اللّہِ وَلاَ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلاَ اَقُولُ اِنِّي مَلَكٌ (ہود 31:11) - اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، نہ یہ میرا دعوی ہے کہ میں فرشتہ ہوں۔“

میں نے حاضرین کے چہروں پر سکون و اطمینان محسوس کیا، اس لیے کہ آیاتِ الٰہی اس قدر واضح و قاطع ہیں کہ ان میں شک و شبہ کی گنجایش ہی نہیں۔

قرات و تجوید کے مدرس جب اگلے درس میں تشریف لائے اور دورانِ درس حسب معمول حکایات و واقعات اور قصے بیان کرنے شروع کیے تو کسی نے بھی ان کی باتوں کو توجہ سے نہ سنا۔ خواتین کو اگر استاد کا احترام ملحوظ نہ ہوتا تو شاید قاری صاحب کو ذلت کا سامنا کرنا پڑتا۔ قاری صاحب جب تشریف لے گئے تو تمام خواتین نے سخت بیزاری کا اظہار کیا اور درخواست کی کہ انہیں اس امر کا پابند کر دیا جائے کہ وہ آئیندہ اس قسم کے خلافِ قرآن واقعات بیان نہ کریں، نہ ہی اپنے انتہا پسندانہ نظریات کا پرچار کریں۔ میں نے اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر یہ اعلان کر دیا کہ آئیندہ ہمارے عمل کے لیے یہ آیت ہو گی، “ عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْھِرُ عَلَى غَيْبِۃِ اَحَدًا ہ (الجن 26:72) - وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔“

تمام حاضرین نے میری بھرپور تائید کی۔ ایک خاتون نے کہا، “ ہو سکتا ہے کہ یہ قاری صاحب اور اس قماش کے دیگر لوگ اپنے دعووں کو حقیقت سمجھتے ہوں۔“ ایک اور خاتون بولیں، “ میں نے سنا ہے کہ کچھ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ فرشتوں کو دیکھتے اور ان سے بات چیت کرتے ہیں۔ کئی تو اس حد تک جسارت کرتے ہیں کہ عرشِ الٰہی کو دیکھنے کا تصور کرتے ہیں۔“

تمام خواتین نے مدرسِ تجوید کے خیالات سے بحثییت مجموعی اظہار بیزاری کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ ہم آئیندہ قاری موصوف کی خدمات سے استفادہ نہیں کریں گی۔ بلاشبہ وہ اپنے فن کے ماہر ہیں مگر علم کسی خاص شخص یا طبقے تک محدود نہیں۔ چنانچہ آئیندہ درس میں قرات و تجوید سکھلانے کے لیے ایک ایسی خاتون تشریف لائیں جو اس فن میں ماہر تھیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
اولاد کے لیے دُعا​

اللہ کے فضل و کرم سے مجھے کئے کالجوں اور مختلف زبانیں سکھانے والے اداروں میں قرآن کریم کی آیات پر عملی شکل دینے کے موضوع پر لیکچر اور دروسِ قرآن کا موقعہ ملا۔ طالبات اور معلمات کی ایک اچھی خاصی تعداد نے مثبت ردِ عمل ظاہر کیا۔ ان دروس کی برکت سے طالبات و معلمات کے مابین قریبی تعلقات قائم ہوئے۔ تعلیمی مصروفیات بھی اس تعلقِ قلبی میں حائل نہ ہو سکیں۔ حتٰی کہ طالبات جب تعلیم سے فارغ ہو کر عملی زندگی میں آئیں تو بھی یہ تعلقات بحال رہے۔ کئی ایک نے شادی کے بعد بھی ان تعلقات کو برقرار رکھا۔

میری ایک طالبہ کو شادی کے بعد ایک بڑے نفسیاتی خلفشار سے دو چار ہونا پڑا۔ شادی ہوئے پانچ برس بیت چکے تھے مگر وہ اب تک اولاد کی نعمت سے محروم تھی۔ اس کا خاوند اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس لیے اس کے سسر اور ساس اور دیگر قریبی رشتہ دار ہمیشہ اولاد کا ذکر حسرت سے کرتے۔ ان کے چہروں پر گویا یہ مطالبہ تحریر تھا کہ ان کی بہو کے ہاں اولاد ہونی چاہیے۔ اولاد کا نہ ہونا اس کا سب سے بڑا دکھ تھا۔ یہی اس کی فکر کا محور تھا۔ ایک دن تو اس کے ساس سسر نے زبان سے برملا کہہ دیا کہ اگر اس کے ہاں اولاد نہ ہوئی تو ان کی نسل نہ چلے گی اور وہ گوشہ گمنامی میں‌ جا پڑیں گے۔ دونوں نے اپنی بہو سے مشاہرۃ کا مطالبہ کیا۔

اسے ابتدا میں تو کچھ سمجھ نہ آیا کہ اسے کیا کرنا ہے؟ مشاہرۃ کیا چیز ہے؟ یہ عمل حلال ہے یا حرام؟ بالآخر وہ میرے پاس آئی تو میں نے اسے بتایا کہ یہ مشاہرۃ ایک قسم کا ٹونا ٹوٹکا ہے۔ اس کے کئے طریقے ہیں۔ عوام سمجھتے ہیں کہ جب خاص حالات میں کوئی عورت بانجھ ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسے کوئی بانجھ عورت ملنے کے لیے آئی تھی جس کی نحوست کی وجہ سے وہ بھی بچے جننے کی صلاحیت سے محروم ہو گئی ہے۔ بانجھ پن دور کرنے کا ایک ٹوٹکا یہ ہے کہ شوہر اور عورت کو خاص قسم کی سبزیاں اور ترکاریاں دی جاتی ہیں۔ اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ایک مخصوص ہیت پر جسے توہم پرست لوگ متعین کرتے ہیں اپنی بانجھ بیوی کے پاس جاتا ہے۔ غرض یہ کہ اس قسم کے طریقے اختیار کرنے کو عرب عوام مشاہرۃ کہتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ان باتوں کی تائید میں‌ کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ میں نے اس خاتون کو بتایا کہ آپ سے جس چیز کا مطالبہ کیا جا رہا ہے یہ محض خرافات ہے۔ یہ سب جھوٹ اور باطل ہے۔ شیطان اسے لوگوں کے سامنے خوش نما بنا کر پیش کرتا ہے۔ افسوس کہ اس قسم کی خرافات عام لوگوں کے عقائد کا جز بن چکی ہیں۔

میری یہ بات سن کر اولاد کی متمنی میری یہ طالبہ رونے لگی اور ذرا سنبھلی تو کہا، “ آپ جانتی ہیں کہ مجھے ماں بننے کی شدید خواہش ہے۔ اگر میں ان لوگوں کی بات مان لوں تو بھی میرا کچھ نقصان نہ ہو گا۔ اب تو میری یہ حالت ہے جیسے میں رات کے وقت قبرستان میں چل رہی ہوں یا ۔۔۔۔۔۔ “ میں نے اس کی بات کاٹ کر اسے دلاسہ اور تشفی دیتے ہوئے کہا، “ آپ یہ مت کہیں کہ آپ کا نقصان نہ ہو گا۔ آپ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہو گا کہ آپ حق پر ثابت قدمی ترک کر کے باطل کے سامنے سرنگوں ہو جائیں گی۔ نجات کی امید پر ہلاکت کا راستہ اختیار کرنا کہاں کی دانش مندی ہے؟ میری عزیزہ، امید صرف اللہ یکتا و واحد سے رکھو۔ صرف اور صرف اللہ ہی اس بات کی قدرت رکھتا ہے کہ وہ آپ کی تمنا پوری کرئے۔ غیر اللہ سے یہ امید رکھنا سراسر نادانی اور عدم توکل کی نشانی ہے۔

پھر آپ جو کچھ گھر والوں کے کہنے پر کرنے جا رہی ہیں، یہ علاج بھی تو نہیں ہے بلکہ آزمائش ہے۔ اس آزمائش کے ذریعے اللہ آپ کے ایمان بالحق کو جانچنا چاہتا ہے۔ آپ کے اخلاص کو دیکھنا چاہتا ہے۔ کیا آپ صرف اللہ دعا کرتی ہیں یا کسی اور سے بھی۔ اللہ سبحانہ اس کا جائزہ لینا چاہتا ہے۔ یہ بھی یاد رکھیئے کہ اللہ عالم الغیب ہے۔ دلوں کے بھید جانتا ہے۔ اس ابتلا، آزمائش اور جانچ کا مقصد و منشا یہ ہے کہ آپ کو خوبیوں اور خامیوں کو آپ پر واضح کر دیا جائے تاکہ آپ کو اپنی اصل حثییت معلوم ہو، “ ھُوَ الْحَيُّ لَا اِلَاَ اِلَّا ھُوَ فَادْعُوہُ مُخْلِصِينَ لَہُ الدِّينَ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ہ (المومن 65:40) - وہی زندہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کو تم پکارو اپنے دین کو اس کے لیے حالص کر کے۔ ساری تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔“

آپ کو قرآن کریم اور سنت مطہرہ کے مطابق عقیدہ رکھنا ہے اور اسی کے مطابق چلنا ہے۔ اللہ ہی کو پکارنا ہے۔ ارشادِ رب العزت ہے “ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المومن 60:40) - تمہارا رب کہتا ہے، مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔“ صرف اللہ ہی دعا سنتا ہے اور اسے قبول فرماتا ہے۔ میری بیٹی، ان آیات کے مطابق چلو، انہیں یاد رکھو، ان کے مضمون و مدعا کو ہمیشہ نظروں کے سامنے رکھو حتی کہ ان آیات کا مفہوم و مقصود تمارے قلب و دماغ میں رچ بس ہو جائے۔ ان آیات سے تمہاری زبان تر رہے۔ پھر تم اس مقام پر پہنچ جاؤ کہ ایسے یقین سے سرشار ہو جاؤ کہ اللہ ہی تمہاری آرزو پوری کر سکنے پر قادر ہے۔ اس کی قدرت ہمارے تصور سے بلند تر و بالا ہے۔

اس کے بعد میں نے اسے مزید سمجھاتے ہوئے کہا۔ شاید آپ ہمارے حلقہ ہائے درس میں طے شدہ طریق کار کو فراموش کر چکی ہیں۔ ہم نے یہ طے کیا تھا کہ ہم کتاب اللہ اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق عملی زندگی گزاریں گے۔ قرآن و سنت پر ہمارا عمل حقیقی اور زندہ ہو گا۔ قرآن کریم کو سمجھنا اور پھر اس پر عمل کرنا، یہی تو ہمارے درسِ قرآن کی امتیازی خصوصیت ہے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ ہمارے حلقہ درس قرآن کی تمام خواتین دعا کے سلسلے میں قرآنی آیات پر عمل کریں۔ آپ بھی اسی دعا کے طریقے کو اختیار کریں۔ ٹونے ٹوٹکے آپ کے لیے نقصان دہ ہیں۔ دنیا و آخرت کی بہتری اور منفعت صرف آیاتِ قرآن پر عمل کرنے میں مضمر ہے۔ آپ اس ارشاد الٰہی کے مطابق چلیں، “ وَاسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَۃِ وَاِنَّھَا لَكَبِيرَۃٌ اِلاَّ عَلَى الْخَاشِعِينَ ہ الَّذِينَ يَظُنُّونَ اَنَّھُم مُّلاَقُو رَبِّھِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَيْہِ رَاجِعُونَ ہ (البقرۃ 45:2-46) - صبر اور نماز سے مدد لو، بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے۔ مگر ان فرماں بردار بندوں کے لیے مشکل نہیں جو اللہ سے ڈرتے ہیں۔“

“ يَا اَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَۃِ اِنَّ اللّہَ مَعَ الصَّابِرِينَ ہ (البقرۃ 153:2) - اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“

آپ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک پر عمل کرنا ہو گا۔ “ اقرب ما یکون العبد من ھو ساجد فاکثرو الدعآء (مسلم شریف) - سجدے کی حالت میں بندہ اپنے پروردگار کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ پس دعا زیادہ کیا کرو۔“ لٰہذا جب آپ سجدہ کریں تو انتہائی عاجزی، انکساری اور گڑگڑا کر فریاد کریں۔ اس نے قبول کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ آپ ادھر ادھر جانے کی بجائے اپنے پروردگار کے حضور حاضر ہوں۔ کسی اور کے در پر جانے کے بجائے اپنے گھر میں رہ کر اپنے مولٰی سے ملیں۔ رات کی آخری تہائی میں بیدار ہو کر اللہ سے مناجات کریں۔ بخاری شریف میں ہے “ ہمارا پروردگار تبارک و تعالٰی ہر رات آسمانِ دنیا پر نزول اجلال فرماتا ہے۔ جب رات کا ایک تہائی باقی رہ جاتا ہے۔ اس وقت وہ فرماتا ہے، “ کون ہے جو مجھے پکارے کہ میں اس کی پکار کو قبول کروں؟ کون ہے مجھ سے مانگنے والا کہ میں اس کا مطالبہ پورا کروں؟ کون ہے جو مجھے سے مغفرت مانگے تاکہ میں اسے معاف کروں۔“

میری پیاری بیٹی، آپ ان مبارک لمحوں میں کہاں ہوتی ہیں؟ اگر واقعی آپ یہ چاہتی ہیں کہ اللہ آپ کی آرزو پوری کرے تو پھر اپنے دل سے شکوک و شبہات کے کانٹے نکال کر پھینک دیجیئے۔ آپ کو اللہ کی قدرت میں ذرہ برابر بھی شک نہ ہونا چاہیے۔ آپ جس بیٹے کے لیے ترس رہی ہیں، اللہ کے لیے عطا کرنا کچھ مشکل نہیں۔ آپ کو چاہیے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے مطابق کثرت سے استغفار اور تسبیح کریں۔ اپنے خاوند، اپنے والدین، اپنے قریبی عزیزوں، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے ساتھ اور زیادہ حسن سلوک کریں۔ یاد رکھیئے اللہ آپ کے بہت ہی قریب ہے۔ آپ اس کے ساتھ رہیں۔ اللہ کے ماسوا کسی اور کی طرف مائل نہ ہوں۔ اس ارشاد الٰہی کہ ہمیشہ سامنے رکھیئے، “ وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَاِنِّي قَرِيبٌ اُجِيبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُواْ لِي وَلْيُؤْمِنُواْ بِي لَعَلَّھُمْ يَرْشُدُونَ ہ (البقرۃ 186:2) - اور اے نبی صلی اللہ علی وسلم، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لٰہذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ (یہ بات تم انہیں سنا دو) شاید کہ وہ راہِ راست پا لیں۔“

یہ ہیں اللہ کے ارشادات اور یہ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات۔ انہیں میں دنیا و آخرت کی سعادت ہے۔ اب آپ بتائیے کہ آپ کب اللہ کی پیش کش کو قبول کر رہی ہیں اور اس پر کب سے عمل شروع کر رہی ہیں؟

پریشان حال خاتون وعدہ کر کے چلی گئی۔ دن گزرتے گئے۔ دو ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا کہ ٹیلیفون کال آئی۔ میں نے سنا تو یہی خاتون تھی۔ مگر اب کی بار اس کی آواز می خوشی و مسرت تھی، جوش تھا۔ وہ کہہ رہی تھی، “ جب اللہ عظیم کیس ذلیل و محتاج و حقیر بندے پر کرم کرتا ہے تو اسے بڑی آسانی اور سہولت کے ساتھ وہ کچھ عطا فرما دیتا ہے جس کے حاصل کرنے سے یہ بندہ عاجز و ناتواں ہو چکا ہوتا ہے۔ وہ اس حصول میں مال اور وقت ضائع کر چکا ہوتا ہے۔ اللہ سبحانہ اس کی مراد اتنی آسانی سے پوری کر دیتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ یہ بندہ اللہ سبحانہ کی قدرتِ کاملہ کے سامنے کتنا بے بس و ناتواں ہے۔“

میں نے دریافت کیا، “ آپ کس کے بارے میں بات کر رہی ہیں؟“

اس نے کہا، “ میں حمل سے ہوں۔ جی ہاں اللہ نے مجھے دکھ کے بعد سکھ دیا ہے اور حزن و غم کے بعد خوشی و مسرت سے نوازہ ہے۔ لیبارٹری رپورٹ میرے سامنے ہے جو مثبت (positive) ہے۔“

میں نے کہا، “ جی ہاں، یہ سب اللہ سبحانہ کا کرم و انعام ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور پورے خلوص سے اللہ کے حضور دعا کی۔“

اس نے بتایا، “ میں گزشتہ پانچ برسوں میں نامی گرامی معروف ڈاکٹروں کے پاس جا چکی ہوں۔ مرد ڈاکٹروں اور خاتوں ڈاکٹروں کے پاس۔ میں اپنے پروردگار سے ان پانچ برسوں میں دعا کرتی رہی ہوں مگر یہ دیا رسمی تھی۔ ہم نے دعاؤں کے الفاظ رٹے ہوئے ہیں۔ مثلاً ہمارا رب دیتا ہے، ہمارا رب آسانیاں فراہم کرتا ہے۔ ہمارا رب کریم ہے وغیرہ وغیرہ۔“ اس قسم کے دعائیہ جملے میرے منہ سے نکلتے تھے مگر ان جملوں کا کوئی اثر میرے دل و دماغ پر نہیں پڑتا تھا۔ میرا جسم، میری روح، میری عقل ان جملوں کا کوئی اثر محسوس نہیں کرتی تھی۔ زبان پر تو دعائیں رہتیں مگر میرا دل دنیا سے متعلق تھا۔ قلت و لسان میں ہم آہنگی نہ تھی۔

جب اللہ رحمان کی رحمت نے مجھے ڈھانپ لیا تو زبان سے پہلے میرے دل نے آیاتِ قرآنی کے اثر کو محسوس کرنا شروع کیا۔ مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا میں نے یہ آیت پہلے بار سنی ہو، “ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المومن 60:40)۔ مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میرے جسم کا رواں رواں ہر لمحہ اللہ کو پکارتا ہے۔ مجھے اس وقت محسوس ہوا صرف کہ کانوں سے قرآن سننے اور قرآن سمجھنے، محسوس کرنے اور اس پر عمل کرنے میں کتنا فرق ہے۔ اللہ سبحانہ نے اپنی عظیم اور مبارک آیتیں نازل فرما کر مجھ پر کتنا کرم کیا ہے۔

میں باقاعدگی کے ساتھ تہجد کی نماز پڑھنے لگی۔ تہجد کی نماز ایک گھنا سایہ دار باغ ہے۔ تہجد کی مبارک ساعتوں میں ہی مجھے اللہ کے وجود، اس کے قرب، اس کی قدرت، اس کی قوت، اس کی ہمہ گیری اور ہر چیز پر اس کے تسلط کا احساس ہوا۔ یہ احساس جتنا تہجد کے وقت قوی ہوتا تھا کسی اور وقت نہیں۔ مجھے مکمل سکون و اطمینان مل گیا۔ میں جب آسمانوں اور زمیں کے پروردگار کے سامنے، مشرقوں اور مغربوں کے پروردگار کے حضور، واحد، قادر، غالب، عطا کرنے والے کے روبرو کھڑی ہوتی تھی تو مجھے اپنے پورے وجود میں سکون و اطمینان کی لہر سی دوڑتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔

ادھر اللہ سبحانہ نے میرے لیے ایک نشانی مقرر کرنے کا ارادہ فرما لیا۔ مجھے کچھ ایسا ہی احساس ہوا۔ ہم اپنی ساس سے ملنے گئے تو انہوں نے کہا کہ میں نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا ہے۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے سامنے ایک شال پڑی ہے۔ ایک آواز آئی کہ یہ شال منٰی کو دے دینا کہ اس نے مشاہرۃ (ٹونے ٹوٹکے) سے انکار کیا تھا۔

میں نے اپنی ساس کے منہ سے جب یہ خواب سنا تو مجھے اپنے پورے جسم میں مسرت کا احساس ہوا۔ یہ گویا میرے لیے میری ساس کی زبانی ایک بشارت و خوش خبری تھی۔ یہی وہ خاتون تھیں جنہوں نے ٹونے ٹوٹکے کے لیے مجھ پر بے حد دباؤ ڈالا تھا اور بہت زیادہ اصرار کیا تھا جب کہ میری طرف سے انکار ہی تھا تو اللہ سبحانہ نے مجھے اس کا انعام دیا۔ اللہ نے میرے اس عمل کو شرفِ قبولیت سے نوازا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا، کیا اللہ نے میری دعا، آرزو اور التجا کو سن نہیں لیا؟ اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔ اس نے مجھ پر کتنا کرم کیا ہے۔ کس شان سے اور کس طریقہ سے مجھے نوازا ہے؟

جب ہم میاں بیوی واپس آ رہے تھے، یعنی میرا خاوند اپنی والدہ اور میں اپنی ساس سے ملکر اپنے گھر کی طرف جا رہے تھے تو میں نے خاوند سے کہا، آپ کی امی نے ایک خواب بیان کیا ہے۔ کیوں نہ ہم لیبارٹری سے ٹیسٹ کرواتے چلیں۔ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔ اس حیرت میں شفقت و محبت بھی شامل تھی۔ اس سے پہلے میں بیسیوں بار ٹیسٹ کروا چکی تھی اور ہر بار نتیجہ منفی (negative) ہوتا تھا۔ مگر آج اپنی ساس کا خواب سننے کے بعد مجھے یقین سا ہو چکا تھا کہ میں حمل سے ہوں۔ میں نے خاوند پر لیبارٹری جانے کے لیے زور دیا۔ میں نے لیبارٹری میں ٹھہر کر رپورٹ کا انتظار انتہائی بے تابی سے کیا۔ یہ لمحے صدیوں کی طرح طویل تھے۔ لیبارٹری کے کارکن نے جب میرا نام لے کر رزلٹ سنایا تو مجھے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے میرے دل کی دھڑکن ہر کوئی سن رہا ہے۔ میرا دل سکون، اطمینان اور رضا سے معمور تھا۔ میں طمانیت کی بلند فضا میں محو پرواز تھی۔ مجھے ایسے سنائی دیا جیسے میرا خاوند کہہ رہا ہے، “ کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ رپورٹ ہماری ہی ہے؟ کیا یہ رپورٹ واقعی میری بیوی کی ہے؟ کیا واقعی نتیجہ “ پازیٹو “ ہے؟“

میرا دل بارگاہ رب العزت کی پناہ میں جُھک رہا تھا۔ میرے جسم نے میرے دل کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کی۔ میں فوراً سجدے میں گر پڑی، عاجزی و انکساری کے ساتھ، ربِ رحیم کا شکر ادا کرنے کے لیے۔

میں چاہتی تھی کہ میں سجدے سے اُٹھ کر تمام لوگوں سے بات کروں۔ میں ہر طبقے اور ہر سطح کے لوگوں سے خطاب کروں۔ میں ہر انسان سے ملوں اور چیخ چیخ کر پکار پکار کر کہوں، “ آؤ، اللہ کی قدرت دیکھو۔ اللہ کی قدرت کا نظارہ کرنا ہو تو مجھے دیکھو، قدرت الٰہی نے میرے وجود میں ایک اور وجود ڈال دیا ہے۔ مجھے یہ وجود اللہ کے سوا کوئی اور نہ دے سکتا تھا۔ میرے بدن و روح کے مالک نے مجھے کتنے کرم سے نوازا ہے۔ سبحان اللہِ العظیم۔

بلا شبہ قرآن عظیم کی آیات اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث نے ہی مجھے صراطِ مستقیم پر قائم رکھا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ : اس کتاب کا پہلا ایڈیشن نومبر 2005ء میں شائع ہوا تھا۔

چند دن پہلے اس خاتون منٰی کو اللہ نے ایک بیٹے سے نوازا ہے جس کا نام محمد رکھا گیا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
قرآن کے مطابق زندگی

از خرم مراد

قرآن کی پیروی

اگر آپ پہلے ہی لمحے سے اس خدا کے آگے کامل سپردگی میں اپنے اندر تبدیلی لانا اور اپنی زندگی کی تعمیر نو کرنا شروع نہ کر دیں جس نے آپ کو قرآن دیا ہے تو قرآن پڑھنے سے آپ کو بہت تھوڑا فائدہ ہو گا، آپ کے حصے میں نقصان اور پریشانی تھی آ سکتی ہے۔ اگر عمل کے لیے قوتِ ارادی اور کوشش نہ ہو تو قلب کی کیفیات، روح کی وجد آفرینی اور علم میں اضافے سے آپ کو کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ اگر قرآن آپ کے اعمال پر کوئی اثر نہ ڈالے اور آپ اس کے احکامات کی اطاعت نہ کریں اور جو وہ منع کرتا ہے، اس سے نہ رکیں تو پھر سمجھ لیجیئے آپ قرآن کے قریب نہیں ہو رہے۔

قرآن کے ہر صفحے پر سرتسلیم خم کرنے، اطاعت کرنے، عمل کرنے اور تبدیلی لانے کی دعوت ہے۔ جو اس کے حکم تسلیم نہ کریں، انہیں کافر، ظالم اور فاسق کہا گہا ہے (المائدہ 44:5-47)۔ جن لوگوں کو اللہ کی کتاب دی گئی ہے لیکن وہ نہ اس کو سمجھتے ہیں نہ اس پر عمل کرتے ہیں، انہیں ایسے گدھے قرار دیا گیا جو بوجھ لادے ہوئے ہیں مگر جو کچھ لادے ہوئے ہیں، نہ اس کو جانتے ہیں نہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں (الجمعۃ 5:62)۔

یہ وہ لوگ ہیں جن کے خلاف اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے روز فریاد کریں گے، “ اے میرے رب، میری قوم نے اس قرآن کو پس انداز کردہ چیز بنا لیا تھا (الفرقان 30:25)۔

قرآن کو ترک کر دینا، ایک طرف رکھ دینا اس کا مطلب ہے اس کو نہ پڑھنا، نہ سمجھنا، نہ اس کے مطابق زندگی گزارنا۔ اس کو ایک قصہ پارینہ سمجھنا جس کا اب کوئی کام نہیں رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی پیروی پر زور دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

“ میری امت کے بہت سے منافق قرآن پڑھنے والوں میں سے ہوں گے۔“ (احمد)

“ وہ شخص قرآن کا سچا ماننے والا نہیں ہے جو اس کے حرام کیئے ہوئے کو حلال سمجھتا ہے۔“ (ترمذی)

“ قرآن کی تلاوت کرو تا کہ تم جو کچھ وہ منع کرتا ہے، اس سے رک سکو، اگر یہ تمہیں اس قابل نہ بنائے کہ تم رک جاؤ تو تم نے اس کی حقیقی معنوں میں تلاوت نہیں کی ہے۔“ (طبرانی)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے لیے قرآن سیکھنے کا مطلب، اس کو پڑھنا، اس پر غور و فکر کرنا اور اس پر عمل کرنا ہوتا تھا۔ روایت ہے کہ :

“ جو لوگ قرآن پڑھنے میں مشغول تھے، بتاتے ہیں کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے لوگ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دس آیات سیکھ لیتے تھے تو جب تک ان آیات میں علم اور عمل کے حوالے سے جو کچھ ہوتا تھا، اسے واقعی نہیں سیکھ لیتے تھے، آگے نہیں بڑھتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ انہوں نے قرآن اور علم ایک ساتھ سیکھا ہے۔ اس طرح بعض وقت وہ صرف ایک سورت سیکھنے میں کئی برس صرف کرتے تھے۔“ (سیوطی : الاتقان فی علوم القران)۔

حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں، “ تم نے رات کو اونٹ سمجھ لیا ہے جس پر تم قرآن کے مختلف مراحل سے گزرنے کے لیے سواری کرتے ہو۔ تم سے پہلے والے لوگ اسے اپنے مالک کے پیغامات سمجھتے تھے۔ رات کو اس پر غور و فکر کرتے تھے اور دن اس کے مطابق گزارتے تھے۔“ (احیاء العلوم)

قرآن کے مطالعے سے آپ کے دل میں ایمان پیدا ہوتا چاہیے۔ اس ایمان کے مطابق آپ کی زندگی کو ڈھلنا چاہیے۔ یہ کوئی تدریجی مرحلہ وار عمل نہیں ہے جس میں آپ پہلے کئی برس قرآن پڑھنے میں، پھر اسے سمجھنے میں، پھر ایمان مضبوط کرنے میں صرف کریں۔ اور پھر اس کے بعد اس پر عمل کریں۔ جب آپ کلامِ الٰہی سنتے ہیں یا تلاوت کرتے ہیں تو آپ کے اندر ایمان کی چنگاری روشن ہو جاتی ہے۔ جب اندر ایمان داخل ہو جاتا ہے، تو آپ کی زندگی بدلنی شروع ہو جاتی ہے۔ جو بات آپ کو یاد رکھنی چاہیے وہ یہ کہ قرآن کے مطابق زندگی گزارنے کا سب سے زیادہ بنیادی تقاضا یہ ہے کہ آپ ایک بڑا فیصلہ کریں۔ دوسرے جو کچھ بھی کر رہے ہوں، معاشرے کے مطالبات کچھ بھی ہوں، آپ کے آس پاس کوئی بھی افکار غالب ہوں، آپ کو اپنی زندگی کا راستہ مکمل طور پر تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ عظیم قربانیاں چاہتا ہے۔ لیکن اگر آپ قرآن کو خدا کا کلام تسلیم کر کے اس پر ایمان لا کر چھلانگ لگانے کو تیار نہ ہوں تو آپ جو وقت قرآن کے ساتھ صرف کر رہے ہیں، اس کا کوئی اچھا نتیجہ سامنے نہیں آئے گا۔

پہلے قدم پر، پہلے ہی لمحے یہ بالکل واضح کر دیا گیا ہے کہ قرآن صرف ان لوگوں کے لیے ہدایت ہے جو خدا کی مرضی کے خلاف زندگی گزارنے کے نقصانات اور اس کی ناراضی مول لینے سے بچنے کے لیے عمل کرنے کو تیار ہیں اور جو نتائج رکھتے ہیں، یہی متقی ہیں۔ (البقرۃ 1:2-5)ِ

قرآن علم اور عمل کے درمیان اور ایمان اور عمل صالح کے درمیان کوئی دوری اور فاصلہ تسلیم نہیں کرتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ختم شد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top