قرآن پر عمل

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
1) قرآن مجید سے دلچسپی

قرآن مجید سے ہمارا تعلق اتنا مضبوط ہو، ہمیں اتنی دلچسپی ہو کہ یہ ہماری تمام تر توجہات کا مرکز بن جائے۔ ہماری اولین ترجیح یہی ہو۔ خواہ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں، ہم روزانہ باقاعدگی سے اس کی تلاوت کریں۔ ہم کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں، اس کے لیے ہر حال میں وقت نکالیں۔ یاد رہے کہ مطالعہ قرآن کے نتیجے میں‌ ہونے والی تبدیلی کی رفتار تیز نہیں ہوتی۔ یہ تبدیلی بتدریج آتی ہے۔ مطالعہ قرآن کا عمل تب ہی ثمر آور بنتا ہے جب اسے تسلسل و دوام کے ساتھ کیا جائے اور ہمارا ایک دن بھی قرآن کریم کی زیارت و ملاقات کے بغیر نہ گزرے۔ ہم جتنا قرآن کو وقت دیں گے، اتنا ہی وہ ہمیں نفع دے گا۔ جو خوش نصیب دن میں کئی بار قرآن شریف کا مطالعہ کرتا ہے وہ کامیاب و کامران ہوتا ہے۔ قرآن کے لفظ و معنی دونوں ہی سے استفادہ کرنا چاہیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
2) مناسب جگہ

قرآن شریف کے ذریعے تبدیلی لانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کے مطالعے کے لیے موزوں و مناسب جگہ منتخب کریں۔ ہم ایک معزز مہمان کا استقبال اپنے گھر میں جس طرح کرتے ہیں، اس سے کہیں بڑھ کر قرآن کا خیر مقدم کریں۔ شور و شغب سے خالی پُرسکون جگہ میں قرآن کریم سے ملاقات کریں۔ اس سے حسنِ فہم میں مدد ملتی ہے۔ گوشہ تنہائی میسر ہو تو از بس غنیمت ہے۔ ہم وہاں بیٹھ کر دورانِ مطالعہ اپنے احساسات کا بخوبی اظہار کر سکتے ہیں۔ تنہائی میں رونے، آنسو بہانے، دعا کرنے اور سبحان اللہ کہنے میں خاص لطف آتا ہے۔ قاری متعلقہ آیات کے مطابق اپنی باطنی کیفیت کے اظہار کا موقع پاتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
3) موزوں وقت

مناسب جگہ کے ساتھ ساتھ موزوں وقت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ انسان اس وقت قرآن شریف پڑھے جب ہو چست، چاک و چوبند اور جسمانی و ذہنی لحاظ سے مستعد و آمادہ ہو۔ اگر انسان تھکا ماندہ ہو، نیند آ رہی ہو، بخار یا درد ہو تو ایسی حالت میں مطالعہ قرآن نہ کرنا چاہیے۔ وضو کرنے کے بعد، جس میں مسواک بطورِ خاص ہو، قرآن شریف پڑھا جائے تو زیادہ نفع ہو گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
4) ٹھہر ٹھہر کا پڑھنا

ہم رک رک کر، ٹھہر ٹھہر کر قرآن مجید پڑھیں، الفاظ کی ادائیگی درست ہو۔ حروف و الفاظ مکمل اور درست ادا کریں۔ اس طرح تیز تیز پڑھنا کہ حروف ٹوٹ جائیں، الفاظ ادھورے رہ جائیں، حسنِ ترتیل کے خلاف ہے اور محض ایک بے فائدہ عمل ہے۔ ہمیں ورتلِ القراٰن ترتیلا “ اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو“ کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔

ہمارا مقصد قرآن ختم کرنا یا سورہ مکمل کرنا نہ ہو۔ ختم قرآن کے لیے ہم تلاوت کی رفتار بڑھا دیتے ہیں۔ خاص طور پر رمضان شریف میں کئی کئی ختم کرنے کا ہمارا شوق ہمیں تیز رفتاری پر آمادہ کر دیتا ہے۔ ہم اب تک نہ جانے کتنے ختم کر چکے ہیں۔ رمضان شریف میں ایک ایک مسلمان نے کئی کئی ختم قرآن کر ڈالے۔ مگر اس کا فائدہ کیا ہوا؟ اس سے ہمارے اندر کیا تبدیلی آئی؟ اپنے بہن بھائیوں اور دوست احباب کے ساتھ ہمارا مقابلہ مقدارِ تلاوت میں نہ ہو بلکہ اس بات پر ہو کہ ہم نے آیاتِ قرآنی سے کتنی باتیں سمجھی ہیں؟ کتنے نکات ہمارے ذہنوں میں آئے ہیں؟ ہمارے ایمان و یقین میں کتنا اضافہ ہوا ہے؟
 

شمشاد

لائبریرین
5) توجہ سے مطالعہ کرنا

قرآن کریم کا مطالعہ ہم کم از کم دینا کی کسی کتاب کی طرح تو کریں۔ ہم جب کسی کتاب، رسالے یا اخبار کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم جو کچھ پڑھتے ہیں، اسے سمجھتے جاتے ہیں۔ جو بات سمجھ نہیں آتی، اسے دوبارہ پڑھتے ہیں تاکہ سمجھ میں آئے۔ قرآن مجید کو بھی ہم ۔۔۔۔ کم از کم ۔۔۔۔ اسی طرح پڑھیں۔ ذہنی طور پر حاضر ہوں۔ اگر کسی وجہ سے ذہن پراگندہ ہو یا بھٹکنے لگے تو آیات کو دوبارہ پڑھیں۔ ہمیں پہلے پہل اس طرح مطالعہ کرنے میں دقت محسوس ہو گی کیوں کہ ہم الفاظ کو معانی سے الگ کر کے پڑھنے کے عادی ہیں لیکن مسلسل مشق سے ہماری یہ پرانی عادت جاتی رہے گی۔
 

شمشاد

لائبریرین
6) سرِ تسلیم خم

قرآن مجید کے مخاطب تمام انسان ہیں۔ یہ ان سے براہ راست خطاب کرتا ہے۔ اس خطاب میں سوال و جواب ہیں، وعدے وعید ہیں، اوامر و نواہی ہیں۔ لٰہذا پڑھتے وقت ہمارا فرض ہے کہ ہم قرآن کے سوالوں کے سوالوں کے جوابات دیں۔ اس کے احکام کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے، سبحان اللہ، الحمد للہ، اللہ اکبر اور استغفر اللہ کے کلمات حسبِ موقع و محل ادا کریں۔ سجدے کی آیات پر سجدہ کریں۔ دعا کے بعد آمین کہیں۔ جہنم کا بیان پڑھیں تو آگ سے پناہ مانگیں، جنت کا تذکرہ پڑھیں تو پروردگار سے جنت کا سوال کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا یہی طریقہ تھا۔ اس طرح کا طرزِ عمل اختیار کرنے سے ہم پراگندہ ذہنی اور عدم توجہ سے محفوظ رہیں گے۔
 

شمشاد

لائبریرین
7) ہدف - معانی

بعض پرجوش مسلمان جب تدبر قرآن کا آغاز کرتے ہیں تو ایک ایک لفظ پر غور و فکر کرتے ہیں مگر چند دنوں تک اسے نبھا پاتے ہیں۔ اکتا کر پھر اسی پرانی ڈگر پہ چل پڑتے ہیں اور فہم و تدبر کے بغیر ہی پڑھنے لکھنے لگتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سا طریقہ ہے کہ تدبر و تفکر بھی ہو اور غیر معمولی تاخیر بھی نہ ہو۔ آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم آیت کا اجمالی مطلب سمجھتے جائیں۔ جن الفاظ کے معانی، عربی جاننے کے باوجود نہیں جانتے، سیاق و سباق سے ان کے معنی سمجھیں، جیسے ہم انگریزی میں کوئی مضمون یا خبر پڑھتے ہیں تو ہمیں ہر لفظ کا تفصیلی مفہوم معلوم نہیں ہوتا مگر ہم کلام لے اسلوب و انداز اور سیاقِ کلام سے اس عبارت کا اجمالی مطلب سمجھ لیتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے “ قرآن یوں نہیں اترا کہ اس کا بعض حصہ دوسرے حصے کی تکذیب کرتا ہو، بلکہ اس کا ہر حصہ دوسرے حصوں کی تصدیق کرتا ہے۔ تم لوگ قرآن میں سے جو سمجھ جاؤ اس پر عمل کرو اور جس کا مطلب نہ سمجھ پاؤ اسے قرآن جاننے والے کی طرف لوٹاؤ (یعنی اس سے سمجھ لو)۔“ (یہ حدیث حس ہے۔ مسند امام احمد، سنن ابن ماجہ)۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم الفاظ کے معانی جاننے کی کوشش نہ کریں، یا کتب تفاسیر کی طرف سرے سے رجوع ہی نہ کریں۔ مطلب صرف یہ ہے کہ ہم تفسیر کے لیے الگ وقت رکھیں اور مطالعہ کتاب اللہ کے لیے الگ وقت مختص کریں۔ تلاوت سے ہمارا مقصد “ دل کو زندہ “ کرنا ہو۔ اس کے لیے ہمیں تفاسیر کے بغیر قرآن مجید سے براہ راست ملاقات کرنا ہو گی۔
 

شمشاد

لائبریرین
8 - آیات کو بار بار پڑھنا

ہم نے قرآن شریف سے استفادے کے لیے اب تک جو معروضات کی ہیں، یہ سب عقل سے تعلق رکھتی ہیں جو علم و دانش کا مرکز ہے۔ اب جو ہم طریقہ بیان کر رہے ہیں یہ قلب کے لیے ہے۔ قلب ایمان کا محل ہے۔ دل انسان کے اندرونی جذبات و احساسات کا مرکز ہے۔ دل میں جتنا ایمان زیادہ ہو گا اتنے ہی اعمال صالح ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان جذبہ و احساس سے عبارت ہے۔ ہمارا اثر قبول کرنا، سرِ تسلیم خم کر دینا، متاثر ہونا، نماز، دعا اور تلاوت کلام اللہ میں ایمان کا بڑھنا سب کا تعلق دل سے ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے : و اذا تُلِیت علیھم اٰیتہ زادتھُم اِیماناً (الانفال 2:8) - اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔“

قرآن مجید ایمان میں اضافہ کرنے کے اہم ذرائع میں سے ایک ہے۔ ابتدا میں قرآن کریم کی تاثیر کی مقدار کم ہو گی مگر جب بیان کردہ تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے تو اس میں بتدریج اضافہ ہو جائے گا۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور صحابیات رضی اللہ عنہا بعض اوقات ایک ہی آیت کو بار بار پڑھتے رہتے تھے۔ حضرت عبادۃ بن حمزہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ یہ آیت پڑھ رہی تھیں : فمن اللہ علینا و وقٰنا عذاب السموم (الطور 27:52) آخر کار اللہ نے ہم پر فضل فرمایا اور ہمیں جھلسا دینے والی ہوا کے عذاب سے بچا لیا۔“ میں ان کے پاس ٹھہرا رہا تو وہ اسی آیت ہی کو دہراتی رہیں اور دعا کرتی رہیں۔ اپنے مقصد سے فارغ ہو کر واپس آیا تو ابھی تک وہ اسی آیت کر دہرا رہی تھیں اور دعا کر رہی تھیں (مختصر قیال اللیل لمحمد بن نصہٰ ص 149)۔
 

شمشاد

لائبریرین
خواتین کے منفرد تجربات

حال ہی میں ایک عرب ملک میں قرآن کریم پر عمل کرنے کی عملی دعوت کا آغاز ہوا ہے۔ یہ تحریک جدید تعلیم یافتہ خواتین نے شروع کی ہے۔ تھوڑے ہی عرصے میں اس مبارک اقدام کے حیران کن مگر خوش گوار نتائج سامنے آئے ہیں۔ محترمہ سمیع رمضان اس تحریک کی بانی ہیں۔ انہوں نے سوکس اور پولٹیکل سائنسز کی اعلٰی تعلیم حاصل کی ہے۔ انہوں نے اس مضامین میں تخصص‌کی بجائے علوم شریعت کی رخ کیا اور کئی برس تک انہیں حاصل کیا۔ ان مضامین میں تخصص کرنے کے بعد انہوں نے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ وہ اپنی رفیقات کے ساتھ پڑوسیوں کے گھروں میں جا کر انہیں تعلیم دیتیں اور دینی معاملات سے متعارف کرواتیں۔

محترمہ سمیہ رمضان اپنے محلے کی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنے گئیں تو انہوں نے نماز کے بعد وہاں موجود خواتین سے گفتگو میں یہ طے کیا کہ ہفتے میں ایک بار جمعہ کی نماز کے بعد سب خواتین کی ایک نشست ہوا کرئے گی۔ ہر جمعے کو عورتوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ عورتیں اپنی رشتہ داروں اور پڑوسنوں کو ساتھ لانے لگیں۔ ان میں سے بہت سی عورتیں محترمہ سمیہ سے اپنے مسائل اور پریشانیاں بیان کرتیں۔ محترمہ انتہائی رازداری سے انہیں جواب دیتیں اور ہر مشکل کا حل بتاتیں۔ محترمہ اس نتیجے پر پہنچیں کہ ان میں سے بہت سی مشکلات کا حل معمولی سی کوشش سے ممکن ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے مسائل و مشکلات کو قرآن مجید کے سامنے پیش کریں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے مدد لیں۔

ایک دن درس دینے کے بعد محترمہ نے خواتین سے کہا آج ہم ایک نئے پروگرام کا آغاز کر رہے ہیں۔ ہم اپنی تمام مشکلات کو قرآن سے حل کریں گے اور ہم جو کچھ قرآن سے سمجھیں گے عملی زندگی پر اسے منطبق کریں گے۔ ہم ہر ہفتے ایک آیت لیں گے۔ پورا ہفتہ اسے ہی دہراتے رہیں گے۔ ہم یہ آیت حفظ کریں گے۔ اور پر عمل درآمد کریں گے۔ اس آیت کا عملی اطلاق کریں گے۔ اس آیت سے ہی ہم حرکت کریں گے، اس کے حکم اور منشا کی پابندی کریں گے اور یوں یہ آیت ہماری زندگی کا حصہ بن جائے گی۔ خواہ اس پر عمل کرنے میں ایک ہفتہ لگے یا ہفتے سے زیادہ وقت۔ اس کے بعد ہم پھر دوسری آیت لیں گے۔ اس پر اچھی طرح عمل ہو چکے گا تو پھر ایک اور آیت لیں گے۔ یوں ہم دیکھیں گے کہ نتیجہ کیا سامنے آتا ہے؟

قصہ مختصر، نتیجہ نہایت ہی شان دار نکلا۔ بہت سے مسائل حل ہوئے، بہت سی مشکلیں ختم ہوئیں، بڑی حد تک لوگوں کو سکون و اطمینان کی دولت ملی۔ خاندانی جھگڑے کم ہو گئے۔ اُجڑے ہوئے گھر بسنے لگے۔ روٹھے ہوئے راضی ہوئے۔ بہت سے شوہروں نے اپنی بیویوں کے رویے کی تبدیلی کو سراہا اور اسے ایک خوشگوار انقلاب قرار دیا۔ درس کے لیے اب عورتیں بڑی تعداد میں آنے لگیں، یہاں تک کہ عورتوں کے لیے مختص درس گاہ میں بیٹھنے کی گنجایش نہ رہی۔ اب درس مسجد کے مرکزی حصے میں، جہاں مرد نماز ادا کرتے ہیں، ہونے لگا مگر جلد ہی مسجد بھی تنگ معلوم ہونے لگی۔ یہ درس صرف عورتوں کے لیے ہوتے تھے۔ مردوں کو اجازت نہ تھی مگر عورتوں کے درس سننے کے نتیجے میں گھروں میں ماحول بدلا تو مردوں نے بھی مسجد کا رخ کیا۔ یہ دیکھ کر مسجد کی انتظامیہ نے مسجد کی توسیع کا فیصلہ کیا۔

یہ تو تھی اس مبارک سلسلے کے آغاز کی روداد۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ آیات پر عمل کیسے ہو رہا ہے؟ حکمِ قرآنی پر خواتین نے عمل کا تجربہ کیسے کیا؟ ان خوش گوار واقعات میں سے کچھ یہاں پیش کیئے جا رہے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
گھر میں چیخنا چلانا

ہفتہ وار درسِ قرآن ہو چکا تو حسبِ معمول گزشتہ ہفتے کے بارے میں خواتین نے اپنے تاثرات و مشاہدات سنانے شروع کیئے۔ ساتھ ساتھ ان پر تبصرے بھی ہوتے جا رہے تھے کہ ایک خاتون بولیں :

“ اللہ کا فضل ہے کہ میں نے اپنی ساری خامیوں اور کمزوریوں کو دور کر لیا ہے۔ میں نے، میرے خاوند اور میرے بچوں نے بفضل خدا مل کر گھر کے ماحول کو خوش گوار بنا رکھا ہے مگر میرے اندر ایک کمزوری ہے جس سے میں جان نہیں چھڑا سکی ہوں۔ یہ ہے میری بلند آواز۔ میری کئی بہنوں کو بھی اونچی آواز میں چلانے کا مرض ہے۔ وہ بھی اس سے چھٹکارا چاہتی ہیں۔“

اس پر میں نے کہا؛ “ آج ہماری نشست میں اس آیت پر غور ہونا چاہیے۔ “واغضض من صوتک، ان انکر الاصوات لصوت الحمیر (لقمان 19:31) اور اپنی آواز ذرا پست رکھ، سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے۔“ ہم اس آیت کے مطابق زندگی گزاریں گے۔ اسی آیت کی روشنی میں سوچیں گے اور اسی پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہم اسے برابر دہراتے رہیں گے تاکہ اللہ ہم سب کو اپنی آواز دھیمی کرنے کی توفیق دے۔ ہم سب خواتین نے یہ طے کر لیا کہ ہم اس آیت کو اتنا دہرائیں گی کہ یہ آیت گویا ہمارے دلوں میں سرایت کر گئی ہے اور ہمارے دلوں کو اس نے روشن و منور کر دیا ہے۔ آئیے دیکھیں کہ یہ آیت کریمہ کیا نتائج دکھاتی ہے؟

جس خاتون کو اونچا بولنے اور چیخنے چلانے کا دورہ پڑتا تھا اور جس نے ہفتہ وار درسِ قرآن میں مجھ سے مشورہ طلب کیا تھا، اسے درس سنے اور درج بالا آیت کا نسخہ ہم سے لیے ابھی چند ہی دن ہوئے تھے کہ اس کی پڑوسن نے اسے ٹیلی فون کیا اور پوچھا۔ “ میں نے کئی دن سے آپ کی آواز نہین سنی، خیریت تو ہے؟“ متاثرہ خاتون نے جواب دیا “ بالکل خیریت ہے، آپ آ جائیے، درس میں تو ابھی بہت دن ہیں۔ میں اتنا انتظار نہیں کر سکتی تھی۔ اگر اپ کے پاس کچھ وقت ہے تو میری بات سننے کے لیے آ جائیے۔“ پڑوسن جلد ہی پہنچ گئیں تو خاتون نے کہا۔

“ جیسا کہ درس میں محترمہ سمیہ نے رہنمائی کی تھی، میں یہ آیت بار بار دہراتی رہی، حتٰی کہ مجھے حفظ ہو گئی۔ یوں ایک دن گزر گیا۔ اگلے دن کی صبح حسبِ معمول بچے اسکول جانے کے لیے تیاری کر رہے تھے۔ اس مرحلے پر جیسا کہ آپ کو معلوم ہے میری حالت انتہائی قابلِ رحم ہوتی ہے۔ ایک ہی وقت میں ہر کوئی اپنی اپنی چیز مانگ رہا ہوتا ہے۔ مجھے اس موقع پر چلانے کی عادت تھی، میں بچوں کے ساتھ چیخ چیخ کر باتیں کرتی تھی، مگر اس صبح میں نے آیت کریمہ واغضض من صوتک، ان انکر الاصوات لصوت الحمیر پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس آیت کے نفاذ کے حقیقی ٹسٹ کے وقت، بچوں کے رویے کی وجہ سے میرے رویے میں بھی شدت آنے لگی۔ میرے مزاج میں آج پھر تیزی آنے لگی، کیوں کہ ایک بچے کو جوتا نہیں مل رہا تھا، دوسرے کو بیلٹ تیسرے کو پین اور چوتھے کو بستہ۔ یہ سن کر میری کیفیت وہی ہو گئی جو پہلے ہوتی تھی۔ میں نے بچوں کو زور زور سے ڈانٹنا شروع کر دیا۔ مگر اسی لمحے میں نے محسوس کیا کہ میرا چہرہ سرخ ہو گیا ہے اور میری شکل گدھے کی سی ہر رہی ہے، کان گدھے کی طرح لمبے ہو رہے ہیں۔ میں نے فوراً سوچا کہ گدھے کی طرح آواز نکالنے سے تو ہمیں روکا گیا ہے۔ ہمیں اپنی آواز گدھے سے مشابہہ نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ تعالٰی نے جب روک دیا ہے، اپنا حکم دے دیا ہے تو پھر ہمیں اس حکم کی تعمیل کرنی چاہیے۔ کہیں ہماری شکل بگڑ نہ جائے، ہم یہودیوں کی طرح خنزیروں اور بندروں کی صورت میں مسخ نہ کر دیئے جائیں۔

میں چیخنے چلانے کی اس تشبیہہ کا تصور کر کے شرمندہ ہوئی، کیوں کہ اس طرح میں انسانوں سے نکل کر حیوانوں کے زمرے میں داخل ہو چکی تھی۔ یہ تصور آتے ہی میں بچوں کے لیے نرم پڑ گئی اور آہستہ آہستہ بولنے لگی۔ “ ہاں یہ لے لو، یہ تمھارا جوتا ہے۔ قلم بھی یہیں کہیں ہو گا۔ تم نے اپنی ضروری چیزیں کل ہی اپنے بستے میں کیوں نہ رکھ لیں۔“ یوں یہ مشکل ترین مرحلہ آسانی سے گزر گیا۔ ان چند منٹوں میں، میرا غصہ اپنی انتہا کو پہنچ جایا کرتا تھا اور مجھے اپنی جان نکلتی محسوس ہوتی تھی۔ اس دن یہ لمحے سکون و قرار سے گزر گئے۔

میں امتحان میں کامیاب ہو گئی، جی ہاں میں پاس ہو گئی۔ چند دن سے میرا یہی حال ہے۔ میرا یہ سکون و قرار اور دھیمی آواز اور لہجے کو دیکھ کر میرا خاوند پہلے تو پریشان ہوا۔ پوچھنے لگا، تم بیمار تو نہیں ہو؟ میں نے جواب دیا، جی ہاں میں بیمار تھی، مریضہ تھی۔ اللہ تعالٰی نے مجھے شفا دے دی۔ اللہ نے قرآن مجید پر عمل کے ذریعے مجھے صحت عطا فرما دی۔ میرے میاں نے میری یہ بات سنی تو اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔ پھر کہنے لگا یہ تو اچھی بات ہے۔ بڑا اچھا ہے کہ تبدیلی خود تمہاری طرف سے آئی ہے۔ کاش کہ یہ تبدیلی جاری رہے۔ میں نے جلدی سے جواب دیا، اب ان شاء اللہ یہی حالت رہے گی۔ اللہ تعالٰی کا فرمان میرے دل میں ہمیشہ جاگزیں رہے گا۔ مجھے تو اللہ کے قرآن نے زندگی کے ایک انتہائی خوش گوار رخ سے متعارف کروا دیا ہے۔“

قرآن کریم کی اس آیت پر عمل کرنے کا تجربہ تقریباً تمام خواتین نے اپنے اپنے گھروں میں کیا۔ تجربہ کامیاب رہا۔ واقعی قرآن مجید کو پاکیزہ انسانی نفوس پر کنٹرول حاصل ہے۔ صرف عمل کرنے کا ارادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن انسانوں کو تبدیل کرنے پر قادر ہے۔ جو انسان بھی ایک بار قرآن پر عمل کی حلاوت کا مزہ چکھ لیتا ہے وہ قرآن کو پھر کبھی نہیں چھوڑتا۔ یہ انسان اپنے آپ کو قرآنی سانچے میں ڈھالنے، اپنے آپ کو بہتر میں تبدیل کرنے اور بالآخر اپنے تیئں قرآن کے رنگ میں رنگنے کا عمل جاری رکھتا ہے۔ یہ مسلسل ارتقا کا عمل ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
نمازِ فجر کے لیے بیدار ہونا

قرآن مجید تو اترا ہی عمل کے لیے ہے۔ قرآن کی رہنمائی میں سفر زندگی طے کرنا دراصل دنیا میں جنت میں رہنا ہے۔ قرآن مجید پر عمل کرنے سے کتنے زخم مندمل ہوئے، کتنی جدائیاں ختم ہوئیں، کتنے گھر، جو تباہی کے کنارے پر پہنچ چکے تھے، سلامتی کے گھر بنے۔ یہ سب کچھ قرآن کریم پر عمل کرنے کی برکت ہے۔ قرآنی رہنمائی سے انفرادی اصلاح کس طرح ہوتی ہے؟ اس سلسلے میں ایک بہن کا تجربہ اس کے اپنے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔

“ مجھے رات دیر تک جاگتے رہنے کی عادت تھی۔ جب صبح مؤذن نمازِ فجر کے لیے اذان دیتا تھا، میں غافل و لاپروا سوئی رہتی۔ اللہ کے فرشتے مجھے نمازیوں میں نہ پاتے۔ اس مبارک وقت میں میں اور میرے گھر والے شیطان کی گرفت میں ہوتے تھے۔ ہم سب گہری نیند سوتے۔ بیدار ہونے کے بعد مجھے سارا دن قلق رہتا۔ میں نے کئی بار صبح سویرے نماز کے لیے اٹھنے کا فیصلہ کیا مگر اس فیصلے نے کبھی عمل کی صورت اختیار نہ کی۔ ہربار ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب محترمہ سمیہ رمضان کی زیرِ نگرانی قرآنی آیات پر عمل کا تجربہ شروع نہیں ہوا تھا۔ جونہی مجھے معلوم ہوا کہ محترمہ سمیہ نے بہت سی بہنوں کے مسائل حل کر دیئے ہیں تو میں نے بھی اپنا مسئلہ حل کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا۔ محترمہ سے مشورہ کیا تو انہوں نے مجھے اس ارشادِ الٰہی کے بار بار دہرانے کی تاکید کی “ الذی یٰرک حین تقُوم۔ و تقلبک فی السٰجدین۔ (الشعرا 219،218:26) - جو تمہیں اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب تم اٹھتے ہو اور سجدہ گزار لوگوں میں تمہاری نقل و حرکت پر نگاہ رکھتا ہے۔“ چنانچہ میں اس نورانی ارشاد کو دہراتی رہتی اور میں نے کوشش کی کہ یہ ارشاد مبارک جس طرح میری زبان پر جاری ہے اسی طرح دل میں بھی پیوست ہو جائے۔

بالآخر وہ وقت آ گیا، فیصلہ کن وقت، آیت کے مطابق حرکت کرنے کا لمحہ۔ ادھر مؤذن نے اللہ اکبر، اللہ اکبر کے کلمات ادا کیئے، ادھر میں نے اپنے بستر پر کروٹیں بدلنا شروع کر دیں۔ میں مؤذن کی آواز پر لبیک کہنے سے ہچکچا رہی تھی۔ شیطان میرے لیے نیند کو خوشگوار بنا کر پیش کر رہا تھا اور نماز کے معاملے کو میری نظر میں معمولی بنا کر دکھا رہا تھا۔ ادھر مؤذن کے کلمات مجھے یہ حقیقت یاد دلا رہے تھے کہ میں مسلمان ہوں۔ مؤذن کہہ رہا تھا : اشھد ان لا الٰہ الا اللہ۔ اب مؤذن میرے رسولِ محترم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کر رہا تھا۔ اشھد ان محمد رسول اللہ۔ مؤذن مجھے بتا رہا تھا کہ فلاح و کامیابی نماز ادا کرنے میں ہے : حی علی الفلاح۔ مؤذن کے یہ الفاظ اور قرآن کی اس آیت کے کلمات جسے بار بار پڑھنے اور عمل کرنے کا مجھے مشورہ دیا گیا تھا، مجھے نماز کے لیے پکار رہے تھے۔ پھر اذان اور آیت کے کلمات میرے دل میں پیوست ہوتے چلے گئے۔ اب نیند میری آنکھوں سے جا چکی تھی، میں نے اللہ رحمان کو اپنے قریب محسوس کیا اور اس احساس کے ہوتے ہی میں اٹھ کر بیٹھ گئی۔ میں نے اپنے کپڑے سنبھالے، بڑی شدت سے احساس ہوا کہ میں کمرے میں تنہا نہیں ہوں۔ یہاں کوئی اور بھی ہے۔ وہی جو میری شاہ رگ سے بھی زیادہ میرے قریب ہے۔ اس کے قرب کا احساس ہوا تو میں طہارت کے لیے لپکی، وضو کیا اور نماز فجر ادا کرنے کے لیے اپنے خالق و مالک کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ یہی وہ نماز تھی جس کے پڑھنے کی مجھے بے حد حسرت رہی۔ کتنی بار ارادے باندھے اور توڑے۔ میری آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں اور نماز کے بعد میرے ہونٹوں پر یہ الفاظ تھے : اللہ تیرا شکر ہے۔ وہ ذات ہر قسم کے عیب و نقص سے پاک ہے جس نے مجھے، میرے مرنے سے پہلے اس نماز کی توفیق دی اور یوں مجھ پر بڑا کرم کیا۔ اللہ نے مجھ پر چار نہیں پانچ نمازیں فرض کی تھیں مگر میں اپنی سستی و کاہلی کے سبب صرف چار نمازیں ہی ادا کرتی رہی۔ میں نے رو رو کر اللہ سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگی اور بارگاہِ الٰہی میں دُعا کی کہ وہ مجھے آخری عمر تک اسی طرح پانچوں نمازیں ادا کرنے کی توفیق دے۔

“ توبہ و استغفار کے بعد میں پُرسکون ہو کر بیٹھ گئی۔ میرے سامنے میری زندگی کی فلم چلنے لگی۔ میں چشمِ تصور سے اپنی گزری ہوئی زندگی کے مناظر دیکھ رہی تھی۔ میں ایک عام سی لڑکی تھی، جس کی زندگی کا کوئی واضح ہدف نہ تھا۔ میری زندگی کولھو کے ایک بیل کی مانند گھوم رہی تھی جس طرح مجھ سے پہلے بہت سے لوگ گھوم چکے تھے۔ ایک بے مقصد زندگی۔ بالآخر میری شادی ہو گئی۔ مجھے اپنے شوہر کے خیالات و افکار سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ مجھے تو اس کی پوزیشن اور مال و دولت سے غرض تھی۔ اسے بھی نماز روزے سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ صرف دنیا کی گہما گہمی سے سروکار تھا۔ زندگی کا گاڑی یونہی چلتی رہی۔ دنیا میں بچے بھی آ گئے۔ مجھے اپنے بچوں سے تعلق تھا تو اتنا کہ وہ کیا کھاتے ہیں؟ کیا پہنتے ہیں؟ اسکول جاتے ہیں؟ پڑھائی کیسی جا رہی ہے؟ ہوم ورک کیسے ہو رہا ہے؟ میں نے اپنے بچوں سے کبھی بھول کر بھی نہ پوچھا کہ انہوں نے نماز پڑھی ہے یا نہیں؟ انہوں نے کتنا قرآن شریف حفظ کر لیا ہے؟ کیا وہ انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات سے واقف ہیں؟ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں کچھ پتا ہے؟ مجھے بچوں کے ان معاملات میں قطعاً دلچسپی نہ تھی بلکہ میں تو دیر تک ان کے ساتھ ٹیلی ویژن سیٹ کے سامنے بیٹھی رہتی۔ میں ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والے پروگراموں، ڈراموں اور فلموں کی بچوں کے لیے تشریح کرتی تاکہ انہیں سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔

“ میں نماز پڑھ کے بیٹھی تھی، پچھلی زندگی کے بیتے ہوئے رات دن کی یہ فلم میرے ذہن کی اسکرین پر چل رہی تھی کہ میں یکایک اپنے خاوند کے خراٹوں سے چونک پڑی۔ مناظر دھندلا گئے۔ میرا رفیقِ زندگی خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔ میں نے چاہا کہ اسے جگاؤں، اسے نماز کے لیے بیدار کروں اور اپنا قصہ بھی سناؤں۔ میں نے اسے اس کا نام لے کر نہیں جگایا، جیسا کہ میرا معمول تھا بلکہ میں نے آج اس کے کندھوں پر جھک کر قدرے بلند آواز سے یہ آیت پڑھی : الذی یٰرک تقوم و تقلبک فی السٰجدین۔

“ یہ آیت سن کر میرا خاوند اٹھا، وضو کیا، نماز پڑھی اور پھر آ کر میرے پاس بیٹھ گیا۔ کہنے لگا، آج کی صبح کتنی مبارک اور کس قدر حسین ہے کہ آج مجھے تم سے قرآن سننے کا موقع ملا۔ میں اسے اپنی بڑی خوش قسمتی سمجھتا ہوں۔ میں نے کہا، خوش قسمتی تو میری ہے کہ میں نے آج مؤذن کی اذان سن کر قرآن کی آیت پر عمل کیا ہے۔ خوش قسمت میں ہوں کہ میں نے آج تمہیں پہلی بار نمازِ فجر پڑھتے دیکھا ہے۔ یہ سن کر میرے شوہر کا دل نورِ ایمان سے جگمگا اٹھا۔ اس نے کہا، “ میں تمہیں ایک عجیب بات سناتا ہوں۔ میرے ساتھ یہ واقعہ ہوا کہ میں کل جب گھر واپس آ رہا تھا اور اپنی گاڑی میں ریڈیو کی سوئی گھما رہا تھا تو یہ قرآن کریم اسٹیشن پر آ کر رک گئی۔ میں نے چاہا کہ اس اسٹیشن سے سوئی کو ہٹا دوں لیکن اس سے پہلے ہی ٹریفک پولیس نے مجھے گاڑی روکنے کا اشارہ کیا۔ مجھے اس وقت قرآن سنتے ہوئے یہی احساس ہوا کہ اللہ مجھ سے خطاب کر رہا ہے۔ تم جانتی ہو کہ میرا رب مجھ سے کیا کہہ رہا تھا : “وما قدروا اللہ حق قدرہ، والارض جمیعا قبضتہ یوم القیمۃ و السمٰوٰتُ مطویٰت بیمینہ، سبحٰنہُ و تعٰلٰی عما یشرکون (الزمر 67:39) - ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ (اس کی قدرتِ کاملہ کا حال تو یہ ہے کہ) قیامت کے روز پوری زمین اس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ پاک اور بالاتر ہے وہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔“ قرآن کریم کے اس ارشاد نے میرے پورے وجود کو ہلا کر رکھ دیا۔ میں سمندر کے ساتھ ساتھ جا رہا تھا، میں نے اپنے ہاتھ کی مٹھی کو دیکھا اور پھر سمندر کی جانب دیکھا۔ اس فرق نے مجھے جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ یہ سمندر تو کچھ بھی نہیں، اللہ کے ہاتھ میں تو پوری زمین ہے۔ اللہ کس قدر بڑا ہے؟ میں نے سنتے ہی یہ آیت یاد کر لی، مجھے محسوس ہوا گویا یہ آیت میرے دل میں ہے اور میرا دل اسی سے دھڑک رہا ہے۔ مجھے اپنے پورے جسم میں ایک سکون و حلاوت کا ادراک ہوا۔ اور میرے پروردگار کا فضل مجھ پر آج اس وقت پورا ہوا جب تم نے قرآن مجید کی آیت پڑھ کر جگایا۔ مجھے تم نے نہیں جگایا، بلکہ مجھے اللہ نے جگایا ہے، نمازِ فجر ادا کرنے کے لیے۔“

میں نے کہا کہ مجھے بھی میرے رب ہی نے آیت کریمہ سے جگایا ہے۔ میرے اور تمہارے عمل سے یہ آیت زندہ متحرک ہوئی لے۔ میرے شوہر نے ندامت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ “ میری عمر چالیس سال سے زائد ہو گئی ہے۔ قرآن میرے گھر میں موجود ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میں قرآن پڑھتا نہیں ہوں۔ میں پڑھتا ہوں، بہت سی سورتیں اور آیتیں حفظ بھی ہیں۔ مگر میرے اور قرآن کریم کے درمیان ایک رکاوٹ تھی۔“ میں نے فوراً جواب دیا، “ جی ہاں، یہ رکاوٹ تھی، قرآن کے مطابق عمل نہ کرنے کی، قرآن کے مطابق حرکت نہ کرنے کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو زمین پر چلتا ہوا قرآن تھے۔ ہم بھی زمین پر چلتے ہیں مگر قرآن کے ساتھ نہیں۔“ میں نے کہ کہا اور زار و قطار رونے لگی۔

میرے خاوند کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے، وہ یک دم کھڑا ہو گیا۔ بچوں کے کمرے کی جانب بڑھا۔ اس نے کمرے کی لائٹ آن کر دی۔ پھر آف کر دی۔ چند بار ایسا کیا تو بچے جگ اُٹھے۔ اس نے نماز کے لیے زور سے اللہ اکبر کہا۔ بچے حیران و پریشان تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ میرے رفیقِ زندگی نے بچوں سے کہا، “ جانتے ہو ہمیں کون ملنے آیا ہے؟ اور ہمیں اب دیکھ رہا ہے؟ اللہ تم لوگوں سے ملنے آیا ہے۔“ بچوں نے ایک دوسرے کو دیکھا، ان کا والد بڑی میٹھی آواز میں پڑھ رہا تھا، “ جو تمہیں اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب تم اٹھتے ہو اور سجدہ گزار لوگوں میں تمہاری نقل و حرکت پر نگاہ رکھتا ہے۔“ پھر اس نے کہا۔ “ آج گھر میں نماز پڑھ لو۔ کل سے ان شاء اللہ مسجد میں نماز پڑھنے جائیں گے۔“ میرا شوہر بچوں کو نماز پڑھتے دیکھتا رہا۔ سب نے نماز پڑھ لی تو اس کا دل مطمئن ہوا۔ پھر اس کا ذہن اس آیت کی طرف منتقل ہوا۔ “ و کان یامُر اھلہ بِالصلٰوۃ، و کان عند ربہ مرضیا (مریم 55:19) - وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکٰوۃ کا حکم دیتا تھا اور اپنے رب کے نزدیک ایک پسندیدہ انسان تھا۔“ اس نے اللہ سے دعا کی۔ “ یا اللہ مجھ سے راضی ہو جا، مجھے معاف فرما دے، مجھ پر رحم کر۔“ پھر مجھ سے کہنے لگا۔ “ آج سے تم بچوں کی نگرانی کرو گی اور انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو گی۔“ میں نے کہا، یہ میری نہیں سنتے، مجھے انہیں نماز کا پابند بنانے میں کافی محنت کرنا پڑے گی۔ خاوند نے مجھے مشورہ دیا کہ تم انہیں اس آیت سے متحرک کرو، “ وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکٰوۃ کا حکم دیتا تھا اور اپنے رب کے نزدیک ایک پسندیدہ انسان تھا۔“

“ میں نے اپنے بچوں کو نماز کا پابند بنانے کا تہیہ کر لیا۔ میں نے ایک بڑا چارٹ لیا اور یہ آیت جلی خط میں اس پر لکھ دی۔ “ الذی یٰرک حین تقُوم و تقلُبک فی السٰجدین۔“

یہ تھی نمازِ فجر پڑھنے کے لیے قرآن کریم کے مطابق حرکت کرنے کی برکت کی حقیقی کہانی۔

اسی خاتون نے مسجد میں آ کر یہی آیت ایک بڑے چارٹ پر لکھوا کر وہاں آویزاں کر دی اور درس سننے آنے والی اپنی تمام بہنوں کو اپنے تجربے سے آگاہ کیا۔

ہم میں سے ہر ایک اس امر کا محتاج ہے کہ وہ اپنی آنکھوں پر پڑے ہوئے پردوں کو ہٹا دے، دلوں پر لگی مہروں کو کھرچ کھرچ کر پھینک دے۔ دلوں پر پڑے ہوئے غفلت کے پردوں کی وجہ سے ہم بلا سوچے سمجھے یونہی قرآن مجید پڑھتے رہتے ہیں۔ نہ ہم سمجھتے ہیں، نہ عمل کرتے ہیں۔ ہماری یہ دعوت صرف مسلمان عورتوں کے لیے ہی مخصوص نہیں ہے۔ ہم پوری دنیا کے مسلمانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیے، ہم قرآن کا مطالعہ روحِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ارواح صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ کریں۔ وہی جذبہ، وہی ولولہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں تھا ہمارے اندر آ جائے۔ ہم قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت یہ احساس کریں کہ یہ نورانی آیات کتابوں، کیسٹوں اور سی ڈیوں سے نکل کر ہمارے سامنے کھڑی ہیں۔ وہ ہمیں بلا رہی ہیں، پکار رہی ہیں۔ اور خالق و مالک کی وحدانیت کا اعلان کر رہی ہیں۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ قرآن جس بات کا ہمیں حکم دے گا ہم اس کی تعمیل کریں گے، اور جس بات سے روکے گا اس سے رک جائیں گے۔
 

شمشاد

لائبریرین
طلاق کی دھمکی

خواتین میں قرآنِ عظیم پر عمل کرنے کی اس تحریک کا مقصد اپنی زندگی کی ہر چیز کو اللہ کی پسند کے مطابق بدلنا ہے۔ یہ دعوت دنیا میں جنتی زندگی گزارنے کی دعوت دیتی ہے یعنی قرآنِ کریم کی آیات کو عملی شکل دینے کی دعوت۔ ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ محض تلاوت پر اکتفا نہ کریں، تلاوت کی اور بس قرآن مجید بند کیا اور یوں آیتوں کو بھی بند کر دیا۔ قرآن کی آیتوں کو عملی صورت دینا ہر مسلمان کا فرض ہے تا کہ ان آیتوں سے دل دھڑکیں اور اعضا و جوارح اس کے مطابق کام کریں۔ جب ہم قرآن کے مطابق عمل کریں گے تو یہ کتاب ہمارے دلوں کی بہار بن جائے گی اور ہمارے سارے دکھ اور غم جاتے رہیں گے۔ اب ہم قرآن کریم کی ایک آیت پر عمل کا حقیقی زندہ تجربہ بیان کرتے ہیں۔ اس تجربے میں عورتوں کے ایک گروپ نے حصہ لیا۔ ان عورتوں کو اس بات کی تعلیم و تربیت دی گئی کہ انہیں آیات قرآنی پر کس طرح عمل کرنا ہے۔ اس تجربے کے مفید اور دوررس نتائج نکلے۔ آئیے اس تجربے کی تفصیلات دیکھتے ہیں۔

طلاق ایک ایسا خطرناک اور تباہ کن اقدام ہے جس سے پل بھر میں ہنستا بستا گھر اُجڑ جاتا ہے۔ خوشی و مسرت غمی اور دکھ میں بدل جاتی ہے۔ طلاق پر سکون مستحکم خاندان کو اکھیڑ کے رکھ دیتی ہے۔ طلاق معاشرے میں سیاہ دھبے چھوڑ دیتی ہے۔ بیوی کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔ بچے الگ حیران و پریشان ہوتے ہیں۔ ماں کے ساتھ رہیں تو باپ کی شفقت و نگرانی سے محروم، باپ کے پاس رہیں تو ماں می ممتا اور مہربانی سے محروم۔ خاوند الگ پریشان اور مخبوط الحواس ہو جاتا ہے۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا کرئے؟ وہ پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اسی ادھیڑبن میں رہتا ہے کہ نئی شادی کر لے یا کچھ عرصہ کے لیے رک جائے؟ نئی شادی کرنے کے بعد بہت سے باپ اپنی پہلی بیوی کی اولاد کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور انہیں یوں بھول جاتے ہیں جیسے ان کے بچے تھے ہی نہیں۔

مشکلات کا ایک ایسا چکر چل پڑتا ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتا۔ یہ مشکلات دنوں، مہینوں میں ختم نہیں ہو جاتیں بلکہ سالہا سال تک رہتی ہیں۔ معاشرے کو طلاق کی وجہ سے کئی مشکلات سے واسطہ پڑتا ہے۔ گھر نحوست کدے بن جاتے ہیں اور عدالتوں میں معاشرے کی معزز خواتین و حضرات ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ گھروں کے پردے کی باتیں عدالتوں میں برسرِعام بیان ہوتی ہیں تو رسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ خود میاں بیوی ہر سننے اور دیکھنے والے کے لیے اپنے راز بیان کرتے ہیں۔ بچوں کا اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں ہوتا۔ وہ ماں باپ کے ہوتے ہوئے بھی دونوں کی شفقت و پیار سے محروم ہو جاتے ہیں۔ نہ باپ سے بات کر سکتے ہیں نہ ماں سے۔ اگر ماں کے پاس رہ رہے ہیں تو وہ انہیں ان کے باپ سے بات تک نہیں کرنے دیتی اور اگر باپ کے پاس رہ رہے ہوں تو وہ انہیں ان کی ماں سے بات کروانے یا ملاقات کا روادار نہیں ہوتا۔ طلاق کے اس بھیانک مسئلے کا حل بھی اللہ تعالٰی نے اپنی کتاب میں رکھ دیا ہے۔ افسوس، کہ ہم کتاب اللہ کے الفاظ کو پڑھتے اور سمجھتے ہیں مگر ان پر عمل نہیں کرتے۔

ہم نے مسجد میں ہفتہ وار درسِ قرآن کے دوران اس پیچیدہ اور مشکل مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کی۔ مسجد میں ہم تمام عورتوں نے یہ عہد کر رکھا تھا کہ ہم جس زوال و پستی کا شکار ہیں اس سے نکلنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک آیاتِ قرآنی کے ذریعے زوال کے گڑھے سے نکلے۔ چنانچہ اس عہد کو وفا کرنے کے لیے جب اگلے ہفتے کے لیے قرآن کریم کی آیت کا انتخاب کرنے کا مرحلہ آیا تو ہم نے ایک بار پھر یہ عہد کیا کہ قرآن کریم کی آیت پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنی خواہشات اور اپنے ماحول کی بندشوں اور رسموں کی پرواہ نہیں کریں گے۔

اس مرتبہ ہم نے اس ارشاد ربانی کے بارے میں طے کیا :

يَا َيُّھَا النَّبِيُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء فَطَلِّقُوھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَ، وَاتَّقُوا اللَّہَ رَبَّكُمْ، لاَ تُخْرِجُوھُنَّ مِن بُيُوتِھِنَّ وَلاَ يَخْرُجْنَ اِلاَ اَن يَاْتِينَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَيِّنَۃٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّۃِ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّۃِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَۃُ لاَ تَدْرِي لَعَلَّ اللَّہَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ اَمْرًا (الطلاق 1:65)۔

“ اے نبی، جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے لیے طلاق دیا کرو اور عدت کے زمانے کا ٹھیک ٹھیک شمار کرو اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے۔ (زمانہ عدت میں) نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں الاّ یہ کہ وہ کسی صریح برائی کی مرتکب ہوں۔ یہ اللہ کی مقرر کر دہ حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرئے گا، وہ اپنے اوپر خود ظلم کرئے گا ۔ تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ (موافقت کی) کوئی صورت پیدا کر دے۔“

تلاوت کے بعد جب اس آیت کی تفسیر بیان ہوئی تا کہ خواتین کو یہ معلوم ہو سکے کہ اس آیت پر کیسے عمل کرنا ہے اور اس کے ذریعے اللہ کے واضح حکم کو کیسے نافذ کرنا ہے تو درس میں شامل ایک خاتون نے پکار کر کہا، “ ذرا ٹھہریئے، آپ لوگ کیا بات کر رہے ہیں؟ کیا طلاق یافتہ عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوران عدت اپنے (خاوند کے) گھر میں ٹھہرے؟ میں نے اس خاتون پر واضح کر دیا کہ مطلقہ کے لیے خاوند کے گھر میں عدت گزارنے کا حکم اللہ رحمان و رحیم نے دیا ہے تاکہ اس دوران موافقت کی کوئی صورت پیدا ہو جائے۔ میاں بیوی اپنے گھر میں ایک ساتھ رہیں اور اپنے اپنے اہلِ خاندان کی مداخلت سے محفوظ رہیں تو شاید ان میں ساز گاری پیدا ہو جائے اور وہ ازسرِنو خیروعافیت کے ساتھ رہنے لگیں۔ بیوی کا گھر سے نکل کر جانا یا اسے نکال دینا اشتعال کا سبب بنتا ہے جس سے بہتوں کے دلوں کو تپش و حرارت پہنچتی ہے۔ غصہ، نفرت، اشتعال، مخالفت اور شکوہ شکایت کا ماحول شیطان کے لیے موسمِ بہار ہوتا ہے۔ معاملات کی باگ ڈور شیطان کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے تو علیحدگی اور جدائی تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ یوں شیطان کی خوشی کی کوئی حد نہیں رہتی۔

میری یہ وضاحت سن کر سوال کرنے والی خاتون نے بتایا، “ ہائے میری بدبختی و بدنصیبی کہ دینِ اسلام سے ناواقفیت میرے گھر کے اجڑنے کا سبب بنی۔ قرآن کریم سے میری لاعلمی نے میرے بچوں کو مجھ سے دور کر دیا۔ میرے خاوند اور میرے درمیان معمولی سا اختلاف ہوا۔ بات بالکل چھوٹی سی تھی۔ اس بات سے میرا خاوند مشتعل نہ ہوتا مگر میں نے بلا وجہ کچھ ایسی باتیں کر دیں کہ اس کا غیض و غضب اپنی انتہا کو جا پہنچا۔ غصے کے سبب میرا شوہر ہوش و ہواس میں نہ رہا اور اس نے طلاق کا لفظ بول دیا۔ یہ لفظ سنتے ہی میں نے جلدی سے اپنا سامان باندھا اور گھر سے نکل پڑی۔ دل درد سے لبریز تھا اور آنکھیں آنسوؤں سے۔ میں جونہی اپنے میکے پہنچی تو میری کہانی سن کر میرے میکے کا ہر فرد میرے خاوند سے میری توہین کا بدلہ لینے کے لیے بے تاب تھا۔ میرے خاوند نے کہلا بھیجا کہ گھر واپس چلی آؤ مگر میں نے اس کی یہ پیش کش حقارت سے ٹھکرا دی۔ یوں میرے نفس نے اور میری انانیت نے مجھے غوروفکر اور درست فیصلہ کرنے سے محروم کر دیا۔

آپ نے جو آیت ابھی پڑھی ہے، میں یہ آیت کئی بار پڑھ چکی ہوں مگر افسوس کہ میں نے اسے سمجھنے کی ایک بار بھی کوشش نہ کی۔ مجھے نہ اس کی سمجھ آئی اور نہ میں نے کبھی اسے سمجھنے کی کوشش کی۔ عدت گزارنے کے بعد، ہم میاں بیوی میں علیحدگی ہو گئی۔ عدت کے دوران اپنے گھر سے نکلنے کے گناہ کا ارتکاب بھی کیا۔ میں خاوند سے بھی محروم ہوئی اور اللہ تعالٰی کے صاف اور واضح حکم کی مخالفت کا گناہ بھی مول لیا۔“

اس غمزدہ خاتون نے زار و قطار روتے ہوئے کہا، “ ہائے میری شامت و بد بختی، میں‌‌ آپ سب سے درخواست کرتی ہوں کہ آپ لوگوں نے کتاب اللہ پر عمل کو جا عہد کیا ہے، اس پر مہربانی فرما کر سختی سے کاربند رہنا۔“

یہ دکھ بھری داستان سن کر ہم نے ایک بار پھر آیت کریمہ پر عمل کرنے کے پختہ عہد کی تجدید کی اور پورے عزم کے ساتھ اس راستے پر گامزن رہنے کا عہد کیا۔

کچھ عرصہ بعد ہم نے بہنوں سے طلاق کے بارے میں‌ ارشاد رب العزت پر عمل کے تجربات سننے کا ارادہ کیا۔

ایک بہن نے کہا، “ جب سے میں نے مولٰی کریم کے ساتھ یہ عہد کیا تھا کہ میرے قول و فعل پر آیت کریمہ ہی کی حکمرانی ہو گی تو میں ہمیشہ یہ دعا کرتی رہتی تھی کہ جب حقیقی عمل کا موقع آئے تو اللہ مجھے استقامت دینا تاکہ میں عملاً قرآن کے مطابق اقدام کروں۔ میرا خاوند جذباتی آدمی ہے، اکثر غصے میں‌ آ کر اول فول بکنے لگتا ہے۔ آیت کریمہ پر عمل درآمد کے دور سے پہلے تو میں بھی مشتعل ہو جاتی اور اسے ترکی بہ ترکی جواب دیتی۔ ہم میاں بیوی کی یہ حالت دیکھ کر ہمارا چھوٹا بیٹا چپ چاپ رہتا، صدمے سے کچھ نہ بولتا تھا۔ ہم میاں بیوی اس کیفیت میں ایک دوسرے کی بات سننے کی بجائے اپنی اپنی بات پر ڈٹے رہتے۔

“ یہ منظر اب پھر سامنے آیا لیکن اب میرے دل کی کیفیت بدل چکی تھی۔ میں نے اللہ سے لو لگائے رکھی اور قرآن کریم کی آیات پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ آج میری پوری کوشش یہ تھی کہ میں خاوند کو مشتعل نہ کروں۔ مجھ پر بے چینی و بے قراری کی ایک عجیب کیفیت طاری تھی۔ میں چاہتی تھی کہ گھر سے نکل کر اپنے گھر کے قریب مسجد میں چلی جاؤں، مسجد ہی کو اپنی پناہ گاہ اور سکون قرار کی جگہ سمجھتی تھی۔ کبھی یہ خیال آتا کہ اپنی کسی مسلمان بہن کے پاس چلی جاؤں تا کہ وہ ہمدردی کے چند بول بول کر مجھے تسلی دے اور میری ڈھارس بندھائے اور یوں میرے دل کو سکون و ٹھنڈک نصیب ہو۔ میری حالت تو یہ تھی، ادھر میرا خاوند آپے سے باہر ہو رہا تھا، غصے کے مارے اس کا برا حال تھا، اس کی غضب آلودہ باتوں سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ مجھے طلاق دینے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔

“ کئی بار خاوند کو جواب دینے کا شیطانی خیال دل میں آیا مگر میں نے ہر بار اپنے اوپر قابو پا لیا۔ میں نے اللہ کا ذکر اور اس کی تسبیح و تقدیس شروع کر دی۔ میں ساتھ ساتھ یہ بھی سوچتی رہی کہ اگر خدانخواستہ میرے خاوند نے طلاق کا لفظ منہ سے نکال ہی دیا تو پھر مجھے خاوند کے گھر میں یہیں رہنا ہو گا۔ میں تو چاہتی ہوں کہ مسجد میں جاؤں وہاں ہفتہ وار درسِ قرآن سنوں۔ عدت کے دوران تو میں گھر سے باہر نہ نکل سکوں گی۔ کیا میں درسِ قرآن کی مجلس سے بھی محروم ہو جاؤں گی۔ یہ خیال میرے لیے سوہانِ روح بن رہا تھا۔ اللہ کے گھر میں جا کر تو ہم پاکیزہ فضاؤں میں قرآن مجید کی آیات سمجھتی ہیں اور پھر ان پر عمل کا اقرار کر کے وہاں سے باہر نکلتی ہیں۔ عدت گزرانے کے لیے اپنے خاوند کے گھر میں یوں پابند ہو کر رہنا کہ درس قرآن سننے کے لیے مسجد میں بھی نہ جا سکوں، میرے لیے بے چینی کا سبب بن رہا تھا۔ درسِ قرآن کے حلقے نے تو میری زندگی کو ایسی تابندگی بخشی تھی جس کا میں اس سے پہلے تصور بھی نہ کر سکتی کتھی۔ میں کثرت سے قرآن پڑھا کرتی تھی مگر اللہ کا کلام میرے گلے سے نیچے نہیں اترتا تھا۔ میں تصورات کی دنیا سے باہر نکلی تو کیا دیکھتی ہوں کہ میرے بچے نے اپنے باپ پر نظریں گاڑ رکھی ہیں، گویا زبانِ حال سے اسے کہہ رہا ہے کہ وہ بھی امی کی طرح خاموش ہو جائے۔ میں نے بچے کو اپنی گود میں لے لیا اور اللہ سے دعا کرنے لگی کہ وہ خاوند کو پرسکون کر دے۔

“ آہستہ آہستہ میرے شوہر کے غصے کا پارہ نیچے اترنے لگا اور وہ خاموشی کسے اپنے کام کرنے لگا۔ پھر بیٹھ کر استغفار پڑھنے لگا جب کہ میں اپنی جگہ سے نہ ہٹی، تسبیح و ذکر میں مشغول رہی اور اللہ سے دعا کرتی رہی۔ بعد میں جب انکا غصہ ٹھنڈا ہو گیا تو انہوں نے کہا، “ میں بہت معذرت خواہ ہوں، مجھے برابر اس بات کا اندیشہ رہا کہ تم میری باتوں کا حسب عادت تابڑ توڑ جواب دو گی۔ آج طلاق کا لفظ میرے ہونٹوں کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا۔ میں حیران ہوں کہ آج تم نے طلاق کا مطالبہ نہیں کیا۔ پہلے تم کہتی تھیں کہ مجھے طلاق دے دو، مگر میں نہیں دیتا تھا۔ آج میں نے سوچ رکھا تھا کہ تمہاری طرف سے طلاق کا مطالبہ ہوتے ہی میں تڑاق سے طلاق دے دوں گا۔ تم نے آج حسبِ معمول طلاق کا مطالبہ کیوں نہی کیا؟“ میں نے جواب دیا، “ میرے رب نے مجھے اپنی کتاب کے ذریعے اور اپنے احکام کے ذریعے ادب سکھا دیا ہے۔ میں پہلے سوچا کرتی تھی کہ طلاق سے مجھے آزادی مل جائے گی مگر میرے سوچ اللہ کی کتاب کی عملی تعبیر سے یکسر متصادم تھی۔“

اس بہن نے اپنی یہ داستان سنا کر ہمیں بتایا، “ اس دن کے بعد سے اب تک ہم گھر میں خوش و خرم پیار محبت سے رہ رہے ہیں۔ ایسا اتفاق، امن و سلامتی اور سکون و اطمینان ہمیں اس سے پہلے کبھی نصیب نہیں ہوا تھا۔ شکر ہے کہ میرے زبان اس دن قرآن کی برکت سے بند رہی اور میں نے کہیں خاوند سے یہ نہیں کہہ دیا کہ مجھے طلاق دے دو۔ پہلے مجھے شیطان طلاق کو خوش نما بنا کر پیش کرتا تھا۔ وہ اسے میری آزادی قرار دیتا تھا۔ جب کہ فی الحقیقیت طلاق تو پابندی ہے۔ اس واقعے کے بعد میرے خاوند میں بھی کافی تبدیلی آ چکی ہے۔ اس کا رویہ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ اس نے اپنے غیض و غضب اور نفرت و عناد پر قابو پا لیا ہے کیوں کہ میرے پُرسکون ردِ عمل پر اسے کافی کچھ معذرت کرنا پڑتی تھی۔ میں جتنا بھی اللہ کا شکر ادا کروں، کم ہے کہ اس نے میرے لیے قرآن سمجھنے کا کام آسان کر دیا۔ اسی نے قرآن کے مطابق رویے اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ شکر گزاری بھی اسی مہربان کی توفیق سے ممکن ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس کی کتاب قرآن مجید کی ایک آیت پر عمل کرنے کی برکت سے میرا گھر بربادی سے بچ گیا۔“

جب یہ بہن اپنا واقعہ سنا چکی تو حلقہ درس میں موجود خواتین میں سے ایک خاتون نے بات کرنے کے لیے اپنا سر اٹھایا، لیکن پھر شرما کر جلدی سے نیچے کر لیا۔ تھوڑی دیر تک وہ اس کش مکش میں مبتلا رہی، پھر ہمت کی اور بات کرنے کی اجازت طلب کی۔

اجازت ملنے کے بعد اس نے بتایا، “ میرا خاوند دل کا اچھا ہے مگر ہے غصے والا، اپنے فیصلوں میں جلد باز اور عجلت پسند، مجھے بھی اس سے کچھ کچھ نفرت تھی۔ اگر وہ میرے خلاف ایک بات کرتا تو میں اس کے خلاف دس باتیں کرتی۔ میں اس کو ہر گام پر ٹوک دیتی اور اسے شدید تنقید کا نشانہ بناتی۔ وہ اگر مجھے کوئی کام کرنے کے لیے کہتا تو میرے ردِ عمل کے بعد اسے یوں محسوس ہوتا جیسے اس کا واسطہ کسی چٹان سے پڑا ہے۔ ایک روز ہمارے درمیان تلخ کلامی نے شدت اختیار کر لی۔ بک بک اور جھک جھک کے ایک ایسے ہی دورے کے بعد اس نے مجھے آواز دی۔ میں سمجھی کہ شاید میرے ساتھ صلح صفائی کرنا چاہتا ہے۔ میں نے اس کی طرف توجہ کی تو میرا نام لے کر کہنے لگا، “ تمہیں طلاق ہے۔“ میں نے کہا، “ تم کیا کہہ رہے ہو؟ میرے بچوں کا کیا بنے گا؟ میرے پانچ بچے ہیں، ان کا انجام کیا ہو گا؟ طلاق کا لفظ تم نے کتنی آسانی سے کہہ دیا ہے۔“ میری ان باتوں کا اس پر بالکل اثر نہیں ہو رہا تھا۔ گویا میرا چیخنا چلانا بے سود اور فضول تھا۔ میں جلدی سے اپنے کمرے کی طرف لپکی، اور انتہائی غصے کی حالت میں اپنے سوٹ کیس میں خاص خاص کپڑے رکھنے لگی۔ اس دوران بچے رو رہے تھے، چلا رہے تھے۔ ان کے رونے کی آواز سن کر سنگ دل سے سنگ دل شخص کا دل بھی پسیج جاتا۔ میں نے اپنا سوٹ کیس بند کیا تو اس کے ساتھ ہی اس ظالم شخص کی طرف سے اپنے دل کو بھی بند کر لیا۔“

“جونہی میں نے گھر سے نکلنے کا ارادہ کیا تو مجھے اللہ تعالٰی کے اس حکم نے باہر جانے سے روک دیا۔ “و لا یخرجن“ “اور نہ وہ خود نکلیں۔“ میں دروازہ بند کر کے کمرے میں بیٹھ گئی اور سوچنے لگی یا اللہ اب میں کیا کروں؟ میں مسلسل رو رہی تھی، میرے پاس میرے بچے بیٹھ کر مجھے تسلی دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ میرے آنسو پونچھ رہے تھے۔ جب مجھے قدرے سکون ہو گیا تو خاوند کمرے کے دروازے کے پاس آ کر کہنے لگا، “ تم گئیں کیوں نہیں؟ کیا میں نے تمہیں طلاق نہیں دے دی؟“ میں نے اس سے بڑے انکسار سے کہا، “ ایک بہت بڑی چیز مجھے جانے سے روک رہی ہے؟“ اس نے تمسخر کرتے ہوئے کہا۔ “ یہ بہت بڑی چیز کیا ہے؟“ میں نے کہا، “ اللہ ۔ اللہ نے اپنی ایک آیت کے ذریعے مجھے جانے سے روک رکھا ہے۔“ خاوند بولا، “ اب تم قرآن کی بات کر رہی ہو۔ تم جب پہلے میری حکم عدولی کرتی تھیں اور میرے حقوق کو نظر انداز کرتی تھیں تو اس وقت تمہیں قرآن یاد نہیں آتا تھا؟ اب تم ایک طلاق یافتہ عورت ہو اور تمہیں یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں۔“ میں نے جواب دیا، “ یہ تو آپ کہہ رہے ہیں اور اس گھر کا مالک کچھ اور کہہ رہا ہے۔ وہ تو طلاق دینے والے مردوں سے مخاطب ہو کر فرما رہا ہے۔ لاَ تُخْرِجُوھُنَّ مِن بُيُوتِھِنَّ وَلاَ يَخْرُجْنَ (الطلاق 1:65)۔“ نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں۔“ اللہ کا یہ حکم مجھ پر بھی نافذ ہے اور آپ پر بھی۔ میرے لیے اتنی سزا کافی ہے جو میں نے قرآن کے مطابق نہ چل کر پا لی ہے۔“ جب میرے خاوند نے دیکھا کہ میں یہاں ہی رہنے پر بضد ہوں تو اس نے بھی اللہ کے حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

“ اپنے خاوند کے ساتھ طلاق کے بعد رہنے کے قرآنی حکم پر عمل کرنے کا خوش گوار نتیجہ یہ نکلا کہ میرے خاوند نے میرے ساتھ بول چال شروع کر دی۔ آہستہ آہستہ ہم دونوں ایک دوسرے کے قریب آنے لگے اور ایک دوسرے کو خوش رکھنے کی کوشش کرنے لگے۔ ایک ماہ کے بعد ہی گھر سکون و قرار اور محبت و پیار کا گہوارہ بن گیا۔ میرے خاوند نے طلاق سے رجوع کر لیا۔ اس کے اس اقدام نے میرے مسرتوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ میری دعائیں رنگ لائیں اور قرآن کی برکت سے میری زندگی، میرا گھر، میرے بچے اور میرا خاندان ایک بہت بڑے معاشرتی المیے سے بچ گئے۔ میرے بچے بھٹکنے اور نفسیاتی مریض بننے سے بچ گئے۔ میں بے حد خوش و خرم ہوں اور کہتی ہوں کہ میرے سچے دانا رب نے کس قدر درست فرمایا تھا : لَعَلَّ اللَّہَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ اَمْرًا (الطلاق 1:65)۔شاید اس کے بعد اللہ موافقت کی کوئی صورت پیدا کر دے۔“ صدق اللہ الصادق الحکیم۔

“ میری عزیز بہنو، میں اپنے گھر میں اپنے کے ساتھ رہنے پر بہت خوش ہوں۔ میرے مشکل دن گزر گئے۔ میری اب یہی کوشش ہوتی ہے کہ ہر ممکن طریقے سے اپنے خاوند کو خوش کروں اور اس کے کھانے پینے، لباس اور راحت کا خیال رکھوں۔ مجھے افسوس ہے کہ پہلے میرا طرزِ عمل درست نہیں تھا۔ مجھے اپنے سابقہ رویے پر سخت ندامت ہے، میں اس قصور و کوتاہی کی تلافی کے لیے خاوند کی زیادہ خدمت کرتی ہوں، نوافل اور استغفار کرتی ہوں۔ میں دعا کیا کرتی ہوں کہ اللہ تعالٰی اب مجھے اتنی فرصت دے کہ میں اپنی خدمت و محبت سے اپنے خاوند کا دل جیت لوں۔ وہ فی الحقیقت ایک اچھا آدمی ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ میں اس کی شرافت کو اس کی کمزوری نہ سمجھوں۔“

“ یہ ہے میرا واقعہ۔ اس وقت ہمارے تعلقات بہت زیادہ خوشگوار ہیں۔ ہم میں جو محبت، رواداری اور ہم آہنگی اس وقت ہے وہ پہلے کبھی نہ تھی۔ پاک ہے اللہ، انسانوں کو پیدا کرنے والا، نفسِ انسانی کو جاننے والا، اس لیے اس نے یہ حکم دیا کہ مطلقہ خاتون اپنے گھر میں خاوند کے ساتھ رہے تاکہ عدت کے دوران میں اس مسئلے کا کوئی خوشگوار و پسندیدہ حل نکل آئے۔ میں اپنی بہنوں سے درخواست کرتی ہوں کہ اگر کسی بہن کو خدانخواستہ ایسی صورت حال سے دوچار ہونا پڑے تو وہ گھر سے نہ نکلے، اپنی نفسانیت و انانیت کو ترجیح نہ دے بلکہ اللہ سبحانہ کے حکیمانہ حکم پر عمل کرئے۔ عورتوں کو ایسے مواقع پر اپنی “ عزت “ کا بھرم رکھنے کے لیے نہیں سوچنا چاہیے، بلکہ اللہ کے حکم کی تعمیل میں ہی عزت سمجھنا چاہیے۔ اللہ کے حکم کی نافرمانی کر کے خود ہی اپنے گھر کو برباد کر لینا کہاں کی دانشمندی ہے۔“

یہ تھا اس متاثرہ خاتون کا واقعہ۔ میں نے یہ سن کر بارگاہِ الٰہی میں سجدہ شکر ادا کیا۔ کیا عظمت ہے آیات قرآنی کی۔ ہم نے جب اپنے ہفتہ وار درس قرآن میں یہ تجربات سنے، دیکھے تو اللہ حکیم کی حکمت اور اللہ علیم کے علم پر ہمارے ایمان میں اضافہ ہوا۔ اللہ سبحانہ، تنہا اس بات پر قادر ہے کہ وہ ہماری جہالت اور ناسمجھی سے جنم لینے والے تمام مسائل حل کر دے۔ اللہ کی مضبوط رسی ہمیں جہالت کی تاریکیوں سے علم و دانش کی روشنی میں لے جانے کے لیے کافی ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم آیاتِ قرآنی کے مطابق چلیں اور ہمارا ردِ عمل اللہ رحمان کے احکام کے مطابق ہو۔

یہ تو صرف چند مثالیں ہیں۔ قرآن مجید کے درس اور ہر ہفتے کے لیے ایک آیت کا انتخاب، اس کے مطابق زندگیوں کو ڈھالنے کا پختہ عہد جاری ہے۔ ہم نے اس کے علاوہ بھی اللہ کی کتاب کے مطابق چلنے کے کئی خوش گوار تجربات و مشاہدات سنے جن کے نتیجے میں گھر سکون کا گہوارہ بنے اور اہل خانہ نے اطمینان و سکنیت کے ماحول میں زندگی گزارنی شروع کی۔ یہ سب نتیجہ ہے قرآنِ مجید کو سمجھنے کا، اس کے مطابق چلنے کا اور قرآن کے احکام کے مطابق اپنی اصلاح کرنے کا۔
 

شمشاد

لائبریرین
لڑنا جھگڑنا اور ناراضی

لڑنے جھگڑنے اور پھر ناراض ہو کر قطع تعلق کر لینے کو بہت سے لوگ مشکلات و مسائل کا آسان ترین حل سمجھتے ہیں۔ باخصوص عورتیں حقائق سے فرار کے لیے قطع تعلق اور ناراضی کو اپنا مؤثر ہتھیار سمجھتی ہیں۔ اپنی نادانی سے وہ اسے اپنا حامی و مددگار جانتی ہیں حالاں کہ ناراضی سب سے زیادہ نقصان دہ چیز ہے۔ ایک عورت اپنے سسرال والوں سے لڑ جھگڑ کر بول چال بند کر لیتی ہے۔ دوسری عورت اپنی پڑوسن سے جھگڑا کرنے کے بعد آنا جانا بند کر دیتی ہے۔ کوئی خاتون اپنے بھائی اور اپنے بھائی کے گھر والوں سے مخاصمت رکھتی ہے۔ کوئی اپنی نند سے بے زار ہے اور اس سے مسلسل محاذ آرا ہے۔ حتٰی کہ کئی عورتیں اپنے ماں باپ سے بھی تعلقات ختم کر لیتی ہیں۔ جب ان عورتوں سے اس کا سبب پوچھا جاتا ہے تو وہ جواب دیتی ہیں کہ کیا اللہ تعالٰی نے اپنی کتاب میں یہ نہیں فرمایا، “ واھجر ھُم ھجرا جمیلا (المزمل 10:73) - اور شرافت کے ساتھ ان سے الگ ہو جاؤ۔“

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ سارے عزیز و اقارب، رشتہ دار اور پڑوسی کافر ہیں؟ کیوں کہ اس آیت میں تو کافروں سے الگ ہو جانے کا حکم ہے۔ اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ تو صلہ رحمی کی تاکید کی گئی ہے۔ جب ایسی زود رنج جھگڑالو خواتین سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا یہ سارے لوگ کافر ہیں، تو ان کا جواب نفی میں ہوتا ہے۔ جب آپ بھی مسلمان ہیں، تو پھر ان سے قطع تعلق کیوں؟

یہ حقیقت ہر مسلمان پر واضح ہے کہ جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان سے قطع تعلق کر لیتا ہے اس کا کوئی عمل بھی اس وقت تک آسمان کی بلندیوں کی طرف نہیں جب تک کہ تعلقات بحال نہ ہوں اور ناراضی ختم نہ ہو جائے۔ جھگڑا ایک ایسا تیر ہے جس کا ہدف دشمن نہیں ہوتا بلکہ ہمارا اپنا گلا ہوتا ہے۔ اگر ہمارے نیک اعمال قبول نہ ہوں تو ایسی دنیا کا ہمیں کیا فائدہ؟

کئی خواتین کا موقف یہ ہوتا ہے کہ وہ ناراضی اور قطع تعلقات کے ذریعے امن و سکون میں آ جاتی ہیں، مشکلات سے بچ جاتی ہیں۔ ان کا کسی سے تصادم ہوتا ہے نہ جھگڑا۔ ان کا یہ موقف سراسر غلط ہے اس لیے کہ ہم اپنے قریبی رشتہ داروں کے بغیر کیسے زندہ رہ سکتے ہیں؟ کیا کوئی عورت اپنے خاوند سے ناراضی مول لے کر سکون سے زندگی گزار سکتی ہے؟ کیا ایسی “ زندگی “ زندگی ہے؟ کیا ایسی عورت یا مرد خوش بخت ہے۔ لڑنا جھگڑنا، قطع تعلق اور ناراضی تو مسلم معاشرے کے لیے انتہائی ضرر رساں ہے۔ اس سے محبتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ چاہتیں باقی نہیں رہتیں، الفت ختم ہو جاتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کوئی مسلمان مرد یا عورت کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لے، حقائق سے نظریں چرائے، بدبختی کو خوش بختی، شقاوت کو سعادت اور حرماں نصیبی و محرومی کو کامرانی خیال کرئے۔

میں نے اپنے ایک ہفتہ وار درس قرآن میں اپنی تمام سننے والیوں سے درخواست کی کہ آئیے ہم سعادت کی کنجی پکڑیں اور پھر اسے استعمال کر کے دیکھیں کہ ہمیں کتنا سکون، چین اور قرار ملتا ہے۔ ہم پر ابدی سعادت کے دروازے کیسے کھلتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ آج کی کنجی یہ ارشادِ الٰہی ہے “ اِدفع بِالتی ھِی احسنُ فاِذا الذِی بینک و بینہ عداوۃ کانہ ولِی حمیم۔ ( حم السجدہ 34:31) - تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔“

میں نے اس آیت کا مدعا و مفہوم واضح کیا اور بہنوں کو بتایا کہ اس آیت پر عمل کرنے کے لیے ہمیں اللہ پر کامل یقین اور مسلسل صبر و برداشت سے کام لینا ہو گا۔ میں نے دعا کی کہ اللہ تعالئ اس آیت کے منشا پر عمل کرنے اور اس کے مطابق چلنے کی توفیق عطا فرماے۔اب ہمیں عمل کے نتیجے کا انتظار کرنا ہو گا۔ اب تک ہم اپنے مسائل کو نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ ہمیں مشکلات سے فرار کی عادت پڑ چکی ہے۔ ہمیں‌ اب حقائق کا سامنا کرنا ہو گا۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے مخالف کے ساتھ ایک عملی تجربہ کرنا ہو گا۔ پھر ہم دیکھیں گے کہ دشمن کو “ جگری دوست “ میں تبدیل کرنے میں کتنا وقت لگتا ہے اور کتنی محنت درکار ہوتی ہے؟ ہو سکتا ہے کہ آپ میں سے کئی اگلے ہفتو کے درسِ قرآن میں آ کر رو رو کر یہ بتائے کہ جی میں تو اپنی فلاں مخالف کے پاس گئی تھی، اسے منانے اور راضی کرنے کے لیے بہت کوشش کی لیکن مجھے کامیابی نہیں ہوئی۔ میں اپنی ان بہنوں سے کہوں گی کہ وہ اپنے ساتھ صبر و برداشت کی دولت بھی لے کر جائیں۔ آپ مخالف کے پاس اکیلی نہ جائیں، اپنے ساتھ صبر و برداشت کو لے کر جائیں، بار بار جائیں، مایوس نہ ہوں۔

کئی دن بیت گئے، کئی ہفتے بیت گئے۔ ابھی ہم نے قرآن کریم کی اس آیت پر ہونے والے عمل کا جائزہ نہیں لیا تھا۔ ایک دن میں نے معزز خواتین سے کہا، “ آج آپ لوگوں کے تجربات سننے کا وقت آن پہنچا ہے۔ وہ کون کون خوش قسمت ہیں جنہوں نے اس آیت کریمہ پر یقین کرنے اور اسے دل میں جگہ دینے کے بعد اپنے حواس و جوارع سے بھی اس پر عمل کیا ہے؟

اس پر حاضرین میں سے ایک نے بتایا، “ الحمد للہ، مجھے اس پر عمل کی توفیق ملی ہے۔ میرا اپنی نند کے ساتھ جھگڑا تھا۔ وہ بڑی زود رنج ہے۔ مجھے اس سے کئی ناپسندیدہ و ناگوار باتیں سننا پڑتی تھیں۔ اس لیے میں نے اس سے نہ ملنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس نے میرے اس فیصلے کا ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ میں اصل میں اسے پسند کرتی ہوں کہ وہ میرے شوہر کی بہن ہے، میری نند ہے، میرے بچوں کی پھوپھی ہے۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ شیطان ہمیں بہکاتا ہے، ہمارے غلط کام خوش نما بنا کر پیش کرتا ہے تو ہم انہیں اچھا سمجھنے لگتے ہیں۔ جب یہاں درسِ قرآن کریم میں اس آیت کے بارے میں طے کیا تو میں نے گھر جا کر اس آیت کریمہ کو بار بار پڑھا اور فیصلہ کیا کہ میں دل و جان سے اس آیت پر عمل کروں گی۔ فیصلہ کر لینا تو آسان تھا مگر اس پر عمل درآمد اتنا آسان نہ تھا۔ خطرہ تھا کہ میری نند نہیں مانے گی، رکاوٹ ڈالے گی۔

میں مناسب موقعے کی تلاش میں تھی تاکہ اس ناراضی کو ختم کروں۔ مجھے جلد ہی موقعہ مل گیا۔ مجھے معلوم ہوا کہ میری نند ہسپتال میں داخل ہے۔ اس کے یہاں تیسرے بچے کی ولادت ہوئی تھی۔ میں نے اپنے خاوند سے اصرار کیا کہ وہ مجھے ہسپتال لے جائے تاکہ میں اس کی بہن سے ملاقات کروں۔ پہلے تو وہ حیران ہوا۔ پھر بڑی خوشی سے مجھے اپنے ساتھ ہسپتال لے گیا۔ میرا دل زور سے دھڑک رہا تھا۔ دھک دھک کر رہا تھا۔ میں نے دروازہ کھولا اور مسکراہٹ کے ساتھ اندر چلی گئی۔ میں نے اپنی نند کو بچے کی پیدائش پر اور اس کی جان کی سلامتی پر مبارک دی۔ مگر وہ میرے طرف متوجہ نہ ہوئی اور اپنے بھائی سے ہی باتیں کرتی رہی۔ میرا خاوند پریشان تھا اور اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرئے۔ میں نے نومولود بچے کو اٹھایا، اسے پیار کیا۔ میں نے نند کو خوش خبری دی کہ اس کا بچہ خوبصورت ہے اور ان شاء اللہ سعادت مند بنے گا۔

میری یہ باتیں سن کر وہ ہلکی سی مسکرائی۔ خیر ہماری ملاقات ختم ہوئی۔ میں کار میں بیٹھی تو میں نے ایک آہ سرد کھینچی جو میرے خاوند نے سن لی۔ میں نے اسی وقت اپنے دل میں تہیہ کر لیا کہ میں کبھی ہار نہ مانوں گی۔ اللہ کا کلام سچا ہے۔ میرے اندیشے غلط ہیں۔ میں نے تو حسنِ سلوک کیا ہے، اب صرف “ جگری دوست “ بننا رہ گیا ہے۔ مجھے صبر کرنا ہو گا۔ صبر کے لیے وقت درکار ہے۔ گھر پہنچتے ہی میں نے اندیشہ ہائے دور دراز کر اپنے دل و دماغ سے جھٹک دیا اور بدی کو نیکی سے دفع کرنے کا عزم مصمم کر لیا۔ میں نے بچوں کے لیے کھانا تیار کیا اور کھانا لے کر نند کے گھر جا پہنچی۔ ان کی خیریت دریافت کی۔ واپس آ کر رات کو انتہائی امن و سکون سے سوئی۔ مجھے اللہ کے حکم کی تعمیل کی مسرت تھی اور اس بات کا یقین تھا کہ مفید نتائج جلد سامنے آئیں گے۔

اگلے دن میں نے اپنی نند کے ردِ عمل کے بارے میں دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ میرے طرزِ عمل سے خوش ہے اور میری شکر گزار ہے۔ میں نے اس کے بچوں کے ساتھ جو سلوک کیا تھا اس کا اس پر خوش گوار اثر پڑا۔ میں نے اس دن بھی کھانا تیار کیا، یہ کھانا پہلےکھانے سے بڑھ کر تھا۔ میں کھانا لے کر پھر نند کے گھر گئی۔ اب میری کوششوں اور محنت کا نتیجہ سامنے آنے لگا تھا۔

میں اس کے بچوں کا خیال رکھنے لگی۔ اب میری نند میرے ساتھ محبت و نرمی سے باتیں کرنے لگی۔ اس نے مجھے اپنے بیٹے کے عقیقے کی تقریب میں شامل ہونے کے لیے کہا۔ مجھے کیا انکار ہو سکتا تھا۔ جب میں تقریب میں شرکت کے لیے اس کے گھر گئی تو اس نے بڑی گرم جوشی سے میرا خیر مقدم کیا، یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ ایک طویل جدائی کے بعد مجھ سے مل رہی ہے۔ میں نے اسے گلے لگا لیا۔ مجھے اپنی خوش بختی پر رشک آ رہا تھا۔ اللہ نے میرے عمل کو قبول فرما لیا تھا اور مجھے انعام سے نوازہ تھا۔ اب مجھے اپنی نند سب عورتوں سے محبوب تھی۔

حالانکہ شیطان نے ہمارے مابین غلط فہمی ڈال دی تھی۔ میری عزیز بہنو، قرآنی الفاظ بڑے جامع اور پُر حکمت ہیں۔ نفسِ انسانی جب اللہ کی اطاعت کر لیتا ہے تو اس میں کتنی بڑی تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے۔

اس خاتون نے اپنا تجربہ بیان کر لیا تو میں نے اس خاتون سے کہا، “ آپ کی نند میں تبدیلی اس لیے آئی کہ آپ نے پہل کی۔ آپ کے سامنے ایک ہدف تھا۔ وہ تھا اللہ کی رضا۔ آپ نے پیشِ نظر مقصد کے لیے قرآن کا ذریعہ اختیار کیا۔ آپ نے قرآن مجید پر عمل کیا۔ اللہ سے مدد طلب کی اور صبر سے کام لیا تو اللہ تعالٰی جو دلوں کا خالق اور جسموں کا مالک ہے اس نے دلوں کو آپ کے لیے نرم و گداز کر دیا، دشمنی دوستی میں بدل گئی۔

ایک اور خاتون نے کہا، “ کیا آپ کے پاس اتنا وقت ہے کہ میں اپنا تجربہ بیان کروں۔ مجھے خود اس تجربے کے نتیجے کا یقین نہیں آ رہا۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے۔“ میں نے اسے اپنا واقعہ بیان کرنے کی اجازت دی تو وہ یوں گویا ہوئی۔

“ میری ایک پڑوسن تھی جسے میں بہت پسند کرتی تھی۔ مجھے اس سے اتنی محبت ہو گئی کہ میں نے اپنے کئی رازوں سے اسے آگاہ کر دیا۔ بات یہ ہے کہ میرے میکے والے یہاں سے بہت دور ہیں، کوئی اور قریبی عزیز بھی یہاں نہیں رہتا، اس لیے یہ پڑوسن ہی میری قریبی اور عزیزہ تھی۔ محبت و دوستی کے چند سال بعد میں نے دیکھا کہ میری پڑوسن کا رویہ تبدیل ہو گیا ہے۔ وہ میرے بارے میں بدگمانی میں مبتلا ہو گئی ہے۔ مجھ سے کھچی کھچی رہنے لگی ہے۔ وہ میری طرف ایسی باتیں منسوب کر دیتی جو میں نے کبھی نہ کی ہوتیں۔ میں نے اسے منانے اور اس کی غلط فہمیاں دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر بے سود۔ ان نے شیطانی وسوسہ اندازی کا شکار ہو کر مجھ سے بالاخر مکمل قطع تعلق کر لیا۔ بول چال، آنا جانا سب بند ہو گیا۔ وہ اب میرے ساتھ بیٹھنے کی بھی روادار نہ رہی۔ اب تو میں نے بھی اپنی عزت و حمیت اسی میں سمجھی کہ اس کے ساتھ تعلقات منقطع کر دوں۔ یہی صورت حال جاری تھی کہ میں درسِ قرآن میں شمولیت اختیار کر لی اور ہم نے سورۃ حم السجدۃ کی اس آیت پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب اس آیت کی تشریح ہو رہی تھی تو میں سوچ رہی تھی کہ میں نے تو کوشش کی مگر رائیگاں گئی۔ میں یہ سوچ ہی رہی تھی کہ ہماری استانی صاحبہ نے ان الفاظ کی تلاوت کی “ وَمَا يُلَقَّااِلا الَّذِينَ صَبَرُوا (حٰم السجدہ 35:41) - یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں۔“ اس وقت میں پکار اٹھی کہ صبر تو میں نے کیا ہی نہیں۔ میں مسجد کے حلقہ درسِ قرآن سے واپس آئی تو میں نے یہ پختہ عہد کر لیا تھا کہ میں مسلسل کوشاں رہوں گی اور ناکامی سے بچنے کے لیے صبر کرتی رہوں گی۔ میری یہ ناراض سہیلی چوتھی منزل پر رہتی تھی۔ ہر سیڑھی پر شیطان یہی کہتا تھا کہ واپس چلی جاؤ مگر میرا عزم صمیم مجھے شیطانی وسوسے کا شکار ہونے سے روکتا رہا اور میں برابر سیڑھیاں چڑھتی چلی گئی۔ اب میں اپنی سہیلی کے گھر کے دروازے کے سامنے کھڑی تھی۔ میں نے ایک بار اس تحفے کو دیکھا جو میں اس کے لیے لائی تھی۔ کال بیل پر ہاتھ رکھا تو سوچا کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ میں نے ہر قسم کے ردعمل کا سامنا کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کر رکھا تھا۔ کیونکہ میں یہاں اپنی پڑوسن کے لیے نہیں آئی بلکہ اللہ کے لیے آئی ہوں۔ میرا مقصد اس کی رضا حاصل کرنا ہے۔

“ دروازہ کھلا تو وہ میرے سامنے کھڑی تھی۔ میں نے پورے اعتماد اور محبت سے کہا، “ کیا آپ مجھے اندر آنے کی اجازت دیں گی؟“ اس نے یک دم پورا دروازہ کھول دیا۔ مجھے اندر لے گئی۔ وہ ایک طویل جدائی کے بعد میرے وہاں آ جانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ ہم نے باتیں شروع کیں۔ ہر قسم کے موضوعات پر، مگر عتاب و ملامت کے ادنٰی اشارے کے بغیر۔ مکھے ایسے معلوم ہو رہا تھا کہ میں اپنی سہیلی کے گھر میں نہیں بلکہ اللہ رحمان و رحیم کے باغ میں بیٹھی ہوں۔ میں نے کچھ دیر وہاں بیٹھنے اور باتیں کرنے کے بعد سوچا کہ اللہ تعالٰی کی ایک آیت پر چلنے اور اس کے مطابق حرکت کرنے کے نور نے میرے روح و بدن کو تاریکیوں کی نحوست سے نکال دیا ہے۔ اب میری پڑوسن میری گرم جوش جگری سہیلی بن چکی ہے۔ میں نے صبر سے کام لیا۔ صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ برائی کا بدلہ اچھائی سے دیا۔ مایوس نہیں ہوئی۔ میں اپنی خوش قسمتی پر نازاں ہوں۔ میں اپنی مسرت کا اظہار الفاظ کی صورت میں کرنے سے عاجز ہوں اور آپ کی شکر گزار ہوں۔“

میں نے اس بہن سے کہا، آپ میرا شکریہ ادا نہ کریں بلکہ خالق کائنات اور مالکِ جسم و جان کا شکر ادا کریں جس نے ہمیں اپنی خواہشات کا شکار نہیں بننے دیا۔ ہمیں دوسرں کی اغراض و خواہشات کا نشانہ بننے کے لیے تنہا نہیں چھوڑ دیا بلکہ اپنے کلام مقدس سے ہماری رہنمائی فرمائی۔ قرآن مجید پر عمل کی توفیق ارزاں فرمائی۔ خالقِ نفس و جان ہی بہتر جانتا ہے کہ انسانوں کی بھلائی کس میں۔ پس شکرِ لا محدود ہے اس ذاتِ بزرگ و برتر کا، جس نے انسانوں کی بہبود و منفعت کے لیے اپنی آخری کتاب اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دنیا میں بھیجی۔
 

شمشاد

لائبریرین
نفرت و کدورت

میرے ہفتہ وار درسِ قرآن سننے والی خواتین میں سے ایک معزز خاتون میرے غریب خانے پر تشریف لائیں اور کہنے لگیں، “ باجی، میں مسجد میں آپ کا درس سنتی ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں فضا میں اڑنے والا کوئی پرندہ ہوں۔ آپ کی باتوں سے میرے دل و دماغ کو تسکین ملتی ہے، مگر گھر پہنچ کر زندگی کے تقاضوں کی تلخی اتنی شدید ہوتی ہے کہ مسجد میں بیان ہونے والے اقوال اور میرے افعال میں کوئی مناسبت نہیں رہتی۔“ یہ کہہ کر وہ بہن زار و قطار رونے لگیں۔ میرے لیے یہ کوئی انوکھی بات نہ تھی۔ بہت سی بہنوں کو اسی تضاد کا سامنا ہے۔ حتٰی کہ کئی شوہر محض اس لیے اپنی بیویوں کو درسِ قرآن میں ہی جانے سے روک دیتے ہیں کہ ان خواتین کی زندگیوں اور کاموں پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ خیر میں نے اس ملاقاتی بہن کو دلاسا دیا، اس کی ڈھارس بندھائی اور دریافت کیا کہ وہ اپنا اصل مسئلہ بتائے تاکہ مجھے رونے کا سبب معلوم ہو سکے۔ حوصلہ پا کر اس بہن نے بتایا :

“ میرا خاوند نہایت جذباتی اور غصیلا ہے۔ بہت جلد بھڑک اٹھتا ہے۔ اس کے اس مزاج کی وجہ سے میں بھی اسے سخت الفاظ میں جواب دینے پر مجبور ہو جاتی ہوں۔ وہ بھی اسی طرح جواب دیتا ہے۔ میں اس سے نفرت کرتی ہوں اور دل میں اس کے خلاف کدورت رکھتی ہوں۔ میں اپنے اس رویے پر دل ہی دل میں نادم بھی رہتی ہوں۔ مجھے یہ تلخ احساس ستاتا رہتا ہے کہ میرا انجام بہت برا ہو گا۔“

میں نے مسکرا کر کہا، اس کا علاج یہ ہے کہ ہم قرآن مجید کا دامن تھام لیں، قرآن کی طرف رجوع کریں اور اس کے مطابق چلیں۔ وہ بہن کہنے لگی، “ اسی لیے تو میں آپ کے پاس آئی ہوں۔“ اب اس نے اپنے آنسو پونچھ لیے تھے اور اس کی آنکھوں میں امید کی کرن چمک رہی تھی۔ میں نے اس سے کہا، اللہ سبحانہ نے اپنی آیتیں نازل ہی اس لیے کی ہیں کہ ہم ان کا مطالعہ کریں، انہیں سمجھیں اور پھر ان پر عمل کریں۔ ہمیں پہلے ایک اصول پر متفق ہو جانا چاہیے۔ کیا آپ میرے ساتھ اس بات پر اتفاق کریں گی کہ آپ کی جنت کی کنجی آپ کے خاوند کے ہاتھ میں ہے؟ اور جب تک آپ کا شوہر یہ کنجی خوشی سے آپ کو نہ تھما دے آپ جنت میں نہیں جا سکتیں۔ اس نے جواب دیا، “ یہی بات تو مجھے پریشان کرتی ہے۔“ میں نے عرض کیا، اگر آپ کو یقین ہے کہ اپنے خاوند سے چابی لیے بغیر آپ جنت کا دروازہ نہیں کھول سکتیں تو میری عزیز بہن، اپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کا سرتاج آپ کا دشمن نہیں ہے۔ وہ تو سب لوگوں سے بڑھکر آپ کا قریبی اور محبوب ہے۔ اسی کی رضامندی کی بدولت آپ اپنے رب کی رضا کی مستحق بن سکتی ہیں۔ اللہ تعالٰی کی عنایات حاصل کرنے کہ یہی طریقہ ہے۔

“ہم اب قرآن مجید کی آیات پر عمل کر کے اس کدورت کا علاج کریں گے جو آپ کے دل میں اپنے خاوند کے خلاف ہے۔ آپ ہی نہیں بلکہ قرآنی ارشادات کی برکت سے درس میں شریک تمام بہنیں اپنے خاوند، بھائی، بہن، پڑوسن اور بچوں کے خلاف اپنے دلوں میں موجود کدورت کا علاج کر سکیں گی۔ آپ کا شوہر اگر آپ کے ساتھ بدسلوکی کرئے تو بھی آپ اس کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ اگر وہ آپ کے ساتھ لڑ جھگڑ کر اپنے کام پر چلا جائے تو آپ گھبرائیں نہیں۔ شش و پنج میں مبتلا نہ ہوں۔ شیطانی وسوسوں پر کان نہ دھریں۔ اپنے اعصاب و افکار پر بوجھ نہ ڈالیں۔ خاوند کی برائی کے مقابلہ میں اچھائی کریں۔ آپ قرآن مجید کی اس آیت پر عمل کریں “ اِدْفَعْ بِالَّتِي ھِيَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَہُ عَدَاوَۃٌ كَاَنَّہُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ (حٰم السجدۃ 34:21) - تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا۔“ آپ اللہ کا نام لے کر اس کے حکم کی تعمیل کے لیے کھڑی ہو جائیے اور اس سلسلے میں اپنی پوری طاقت استعمال کیجیئے۔ عمدہ سے عمدہ تدبیر کیجیئے۔ اپنے شوہر کو راضی کرنے کے لیے ہر ترکیب آزمائیے۔ وہ گھر آئے تو مسکرا کر اس کا استقبال کیجیئے۔ اس کے لیے اس کا پسندیدہ کھانا تیار کیجیئے۔ بہترین کپڑے زیبِ تن کیجیئے۔ خندہ پیشانی سے پیش آنا، مسکراہٹ قائم رکھنا، بات بات نہ نہ الجھنا، ان اصولوں کو اپنائیے۔ اگر اس کی کسی بات پر ناراضی کا اظہار بھی کرنا ہے تو اس کے لیے مناسب وقت کا انتخاب ہونا چاہیے۔ آپ جائیں اور اس آیت مبارکہ پر عمل کریں۔ آپ دیکھیں گی کہ اس کے کتنے عمدہ نتائج سامنے آتے ہیں۔ آپ سے پہلے کئی بہنیں اس آیت پر عمل کر چکی ہیں۔ آپ بھی تجربہ کر لیں۔ لوگ اس آیت کو پڑھتے ہیں مگر اس پر عمل بہت کم ہی کرتے ہیں۔“

میری یہ نصیحت آموز باتیں سن کر وہ بہن بولی، “ واللہ، یہ کام تو بہت مشکل معلوم ہوتا ہے۔“ میں نے جواب میں کہا، “ آپ کا یہ خیال درست نہیں۔ یہ شیطانی اکساہٹ ہے۔ قرآن مجید تو انسانوں کی طبیعتوں اور مزاجوں کی مناسبت سے ہی راہنمائی دیتا ہے۔ اللہ اپنی مخلوق کو بہتر جانتا ہے۔ لٰہذا یہ کہنا کہ اس قرآن کی کسی آیت پر عمل کرنا دشوار ہے، قرآنی حکمت اور ربانی مصلحت کے خلاف ہے۔ اگر آپ کے ذہن میں کبھی اس قسم کا خیال پیدا ہو تو فوراً اس آیت پر عمل کیجیئے “ وَاِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّہِ، اِنَّہُ ھُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ہ (حٰم السجدۃ 36:41) - اور اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔“ جب آپ سننے دیکھنے اور جاننے والی ذات کی پناہ میں آ جائیں گی تو وہ آپ کو شیطانی وسوسوں سے محفوظ رکھے گا۔ یہ سن کر وہ کہنے لگی، “ میں ان شاء اللہ ایسا ہی کروں گی اور کر کے رہوں گی۔“ میں نے کہا، “ آپ کے علاوہ بہت سے لوگ اس آیت پر عمل کر چکے ہیں۔ اگر پھر بھی آپ کو امر الٰہی اور حکم ربانی پر عمل درآمد میں سستی و کوتاہی کا سامنا کرنا پڑے تو آپ یہ کلمات پڑھ لیا کریں۔ “ وَقُل رَّبِّ اَعُوذُ بِكَ مِنْ ھَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ، وَاَعُوذُ بِكَ رَبِّ اَن يَحْضُرُونِ ہ (سورۃ المؤمنون 98،97:23) - پروردگار، میں شیاطین کی اکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں، بلکہ اے میرے رب، میں تو اس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں۔“ آپ یہ بات بھی یاد رکھیں کہ قرآن مجید پر عمل کرنے کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے۔ صبر و استقامت اور اللہ سے قوی اُمید۔ ان دونوں صفات کے ساتھ اللہ تعالٰی کے احکام پر عمل آسان ہو جاتا ہے۔ “ وَمَا يُلَقٰھَا اَِلاّ الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقٰھَا اِلاّ ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ہ (حٰم السجدہ 35:41) - یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں، اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیب والے ہیں۔“

وہ بولی، “ اے رحٰمن میری مدد کر۔“

میں نے کہا، “ آپ رحٰمن کی مدد چاہتی ہیں تو اپنے خاوند کو معاف کر دیں اور یاد کریں کہ جب وہ غصے کی حالت میں نہیں ہوتا تو اس نے آپ پر کتنے احسانات کیے ہیں۔ آپ کے ساتھ کیسا حسنِ سلوک کیا ہے۔ آپ غصے سے بچیں۔ کیوں کہ ایمان والوں کی صفت تو یہ ہے کہ “ وَاِذَا مَا غَضِبُوا ھُمْ يَغْفِرُونَ ہ (الشوری 37:42) اور اگر غصہ آ جائے تو درگزر کر جاتے ہیں۔“ کیا آپ نے کئی گناہ اور غلطیاں نہیں کیں جن کے بارے میں آپ چاہتی ہیں کہ اللہ تعالٰی انہیں معاف فرما دے۔ یہ آپ کے لیے ایک سنہری موقعہ ہے، اسے غنیمت سمجھ کر فائدہ اٹھائیے۔ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا اَلاَ تُحِبُّونَ اَن يَغْفِرَ اللَّہُ لَكُمْ، (النور 22:24) انہیں معاف کر دینا چاہیے اور درگزر کرنا چاہیے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے؟“ اللہ تعالٰی کو تو یہ معلوم ہے کہ اس وقت آپ کا دل غصے سے بھرا ہوا ہے۔ اگر آپ نے اپنے غصے پر قابو پا لیا تو اللہ آپ کو صالحین کا مرتبہ عطا فرمائے گا۔ آپ اپنے قول و فعل میں غصے کے اظہار سے اجتناب کریں، “ وَالْكٰاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللّہُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (آل عمران 134:3) - جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں، ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔“

وہ بولی، “ سبحان اللہ، مجھے تو ایسے معلوم ہو رہا ہے کہ یہ آیت میں پہلی بار سن رہی ہوں۔“

میں نے کہا، میں چاہتی ہوں کہ آپ اس آیت پر عمل کریں اور اس کی حلاوت سے لطف اندوز ہوں۔ اس نے کہا، “ باتیں کرنا تو بہت آسان ہے لیکن میرے لیے اپنے غصے پر قابو پانا کیسے ممکن ہو گا۔ میرا غصہ تو ایک آتش فشاں لاوے کی طرح ہے، جب تک پھٹ نہیں جاتا اسے سکون نہیں ہوتا۔“

میں نے کہا، “ کیا میں آپ کو یہ بتا نہیں چکی ہوں کہ اللہ جو ہمارا خالق ہے، مالک ہے، وہی ہمارے مسائل کے حل کا صحیح طریقہ جانتا ہے۔ اس خلاق علیم نے آپ کو اپنے غصے کے آتش فشاں پر کنٹرول کرنے کی صلاحیت دے رکھی ہے مگر آپ اب تک اس صلاحیت کو بروئے کار نہیں لائیں۔ ارشادِ الٰہی ہے “ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَاْتِيَكَ الْيَقِينُ ہ (الحجر 99،98:15) اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، اس کی جناب میں سجدہ بجا لاؤ اور اس آخری گھڑی تک اپنے رب کی بندگی کرتے رہو، جس کا آنا یقینی ہے۔“

اب میں آپ کے سامنے ایک تعلیم یافتہ سمجھدار بہن کا عملی تجربہ بیان کرتی ہوں جس نے اللہ کی آیتوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالا۔ اس نے اس بات کا تہیہ کر لیا تھا کہ کہ قرآن کریم اس کے صرف قلب و لسان پر نہ ہو بلکہ اس کے تمام اعضا قرآن کے مطابق حرکت کریں گے۔ یہ بہن اپنی داستان یوں سناتی ہے :

“ ایک دن میرے خاوند نے مجھے معمولی سی بات پر ڈانٹنا شروع کر دیا۔ اس کا غصہ دھیرے دھیرے بڑھنے لگا، وہ زور زور سے چیخنے چلانے لگا۔ میں پہلے تو آرام سے سنتی رہی پھر میرے اندر غصہ بھڑکنے لگا۔ غصے کا ایک آتش فشاں لاوا تھا جو پھٹنے اور باہر نکلنے کے لیے بےتاب و بےقرار تھا۔ میں اسے چلا چلا کر جواب دینے کے لیے تقریباً تیار ہی تھی، کہ میرا دھیان اللہ کے کلمات کی طرف چلا گیا۔ میں اللہ کے کلمات اپنے زیادہ قریب محسوس کرنے لگی۔ مجھے آیاتِ قرآنی سے تقویت مل رہی تھی۔ میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ میرے ردِ عمل کا صحیح علاج یہ ہے کہ میں اللہ کی تسبیح کروں، جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے “ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَاْتِيَكَ الْيَقِينُ ہ (الحجر 99،98:15)“ میں نے اپنے آپ سے کہا، کیا میں اس وقت تسبیح کرنے کی پوزیشن میں ہوں؟ میں نے شیطان مردود کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کی اور اپنے آپ سے کہا کہ میرے نفس میں جو کچھ ہے، اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ یہ سوچ کر میں نے وَذَا النُّونِ لاّ اِِلٰہ اِلا اَنتَ سُبْحَانَكَ اِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ اور اسی طرح کے دیگر تسبیح کے کلمات پڑھنے شروع کر دیے۔ ادھر میرا خاوند جو اس کے منہ میں آتا تھا، مسلسل بلا مقصد بکے جا رہا تھا۔ گویا شیطان نے اس قبضہ کر لیا تھا۔ وہ شیطانی وسوسہ اندازی کا نشانہ بنا ہوا تھا۔ میں نے اب معرکہ کارزار سے پسپائی اختیار کی۔ وضو کیا اور سجدہ گزاروں میں شامل ہونے کا ارادہ کر کے نماز شروع کر دی۔ نماز شروع کرنا تھی کہ خاوند خاموش ہو گیا۔ وہ حیران و ششدر تھا۔ ندامت و خجالت میں مبتلا تھا۔ اس نے تھی “ میدانِ جنگ“ سے رخ موڑ کر اللہ کی طرف منہ کر لیا۔ وہ استغفار کرنے لگا حٰتی کہ بالکل پُرسکون ہو گیا۔ اب وہ مجھے راضی کرنا چاہتا تھا۔ میں غصے میں آئی ہی نہ تھی اس لیے پُرسکون و مطمئن تھی۔ وہ مجھے نرم دم گفتگو پا کر حیران ہوا۔ میں مسکرا رہی تھی اور اس کے غصے کے دورے پر اسے ڈانٹ ڈپٹ بھی نہیں کر رہی تھی۔ اس پر وہ سراپا حیرت تھا۔ میں نے پہل کرتے ہوئے کہا، “ میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ آپ مجھے میری جنت کی کنجی دے دیجیئے۔ مجھے جنت کا بہت اشتیاق ہے۔ میں شیطان کو اپنے اس خواب کی تعبیر پانے میں حائل نہیں ہونے دوں گی۔“

خاوند نے یہ سن کر کہا، “ آپ ہمیشہ کہا کرتی تھیں، قرآن دنیا کی جنت ہے۔ آج آپ نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ واقعی قرآن دنیا کی جنت ہے۔“ اسی دن سے میں اور میرا خاوند “ درسِ قرآن“ کے دن کا انتظار کرتے رہتے ہیں تاکہ دیگر آیات پر بھی عمل کا موقع ملے۔ یوں ہم سب قرآن کریم پر عمل کرتے ہیں۔ ہم میاں بیوی بھی اور ہماری اولاد بھی۔ اللہ کے فضل اور قرآن کریم کے معجزے کی برکت سے ہمارا گھر جنت بن چکا ہے۔“

یہ ایمان افراز واقعہ سن کر میری مہمان بہن نے اقرار کیا، “ آج سے ہی میں کتاب اللہ کے مطابق اپنے آپ کو تبدیل کروں گی۔“

مہمان بہن رخصت ہوئی۔ میں اس کے لیے دعا گو رہی۔ ایک دن میں‌جب درسِ قرآن دینے کے لیے مسجد گئی تو مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ یہی بہن ایک اور خاتون کے پاس بیٹھی اس کے آنسو پونچھ رہی تھی اور اسے دلاسہ دے رہی تھی کہ کس طرح قرآن کریم کے مطابق چلنے میں ہی ہمارے تمام مسائل و مشکلات کا حل ہے۔ اس کا چہرہ سکون و طمانیت کی مظہر تھا۔ اس کی خوبصورتی پہلے سے بڑھ کر تھی۔ مجھے یہ دیکھ کر ایک صحابی یاد آئے۔ ان کے بارے میں‌ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اہل جنت میں‌ سے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس ٹوہ میں لگے کہ معلوم کریں کہ اس صحابی کا وہ کون سا عمل ہے جس کی بنا پر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جنتی قرار دیا ہے۔ وہ اس مقصد کے لیے چند دن تک اس صحابی کے گھر مہمان بن کے رہے تا کہ دیکھیں کہ یہ کیا کرتے ہی؟ ان کا آنا جانا، اٹھنا بیٹھنا کیسا ہے؟ ان کی عبادات کی کیا کیفیت ہے؟ وہاں رہ کر دیکھا کہ ان کی نمازیں، روزے، تہجد اور نوافل تو کوئی زیادہ مقدار میں نہیں۔ آخر جب جنت کی بشارت دیئے جانے کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی حکمت نہ سمجھ پائے تو خود اس صحابی سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے بارے میں فرمایا تھا “ انہ من اھل الجنۃ۔“ آخر آپ کون سا ایسا عمل کرتے ہیں جس کی بنا پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت دی ہے۔ مجھے بتائیے تا کہ میں بھی آپ کی پیروی کروں۔ اس صحابی نے اس کے جواب میں سوچ کر کہا، “ میرے اندر اور تو کوئی خاص ایسا نمایاں و منفرد وصف نہیں۔ البتہ یہ ہے کہ جب میں سونے لگتا ہوں تو میرے سینے میں‌ کسی انسان کے خلاف کدورت نہیں ہوتی۔ میں عفو و درگزر کر کے مطمئن و پُر سکون ہو کر سوتا ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
تسبیح

کچھ عورتیں مجھ سے ملنے آئیں۔ وہ قرآن مجید پر عمل کرنے کے پروگرام کے بارے میں جاننا چاہتی تھیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ قرآن پر عمل کرنے کے لیے سب سے بہترین مثال اور نمونہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم آیات کو قرآن کے صفحات سے باہر نکال کر عمل کی دنیا میں لے جائیں۔ یوں ہم اپنی دنیا کو اللہ کی رضا اور منشا کے مطابق تعمیر کریں۔ پہلے تلاوت و قرات کا طریقہ درست کریں۔ پھر اس کی تفسیر و تشریح سمجھیں۔ پھر ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم نے کس طرح اس آیت پر اپنے اقوال و افعال کے ذریعے عمل کیا ہے۔ اس کے بعد ہم میں سے ہر ایک اپنے آپ سے یہ پوچھے کہ اللہ حکیم و کبیر کی نازل کردہ یہ آیت مجھ سے کیا مطالبہ اور تقاضا کر رہی ہے؟

ان میں سے ایک خاتون نے کہا، “ یہ تو ایک مشکل اور طویل المیعاد کام ہے۔ مجھے نتیجے تک پہنچنے میں بہت وقت لگے گا۔ اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ میں مطلوبہ نتیجے تک پہنچ سکوں گی یا نہیں۔“

میں نے کہا، “ یہ قرآن مجید کا ہی بتایا ہوا طریقہ ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔اللہ سبحانہ نے اپنے نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام پر قرآن نازل فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کر کے دکھایا۔ اب ہمیں قرآن کے احکام پر عمل کرنا اور اس کی منشا کے مطابق چلنا ہے۔ ہم اپنی زندگیاں قرآن کے مطابق ڈھالیں گے تو دنیا میں اخلاق حسنہ کا دور دورہ ہو گا اور ہم اللہ کے وعدے کے مطابق زمین کے وارث بنیں گے۔ “وَعَدَ اللَّہُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّھُم فِي الاَرْضِ ۔ (النور 55:24) - اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنائے گا۔“ ہم لوگ باتیں تو بہت بناتے ہیں مگر کتاب اللہ کی ایک آیت پر بھی عمل کے لیے آمادہ نہیں ہوتے۔

ان خواتین کے ساتھ یہ طے پایا کہ صرف ایک آیت پر ہم سب مل کر عمل کریں گے، چنانچہ ہم نے ایک آیت مقرر کر لی۔ میں نے اس آیت کی تفسیر بیان کی۔ پھر میں نے ان خواتین سے عرض کیا “ اس آیت پر عمل درآمد کیسے کیا جائے؟ میں اس کی کیفیت آپ کے سامنے بیان نہیں کروں گی۔ میں اسے آپ پر چھوڑتی ہوں۔ مگر میں آپ سے یہ درخواست ضرور کروں گی کہ آپ اس آیت کو بار بار دہرائیں اور اس کے مطلب کو اپنے ذہنوں میں رکھیں۔ آیت یہ تھی : “ وَاِن مِّن شَيْءٍ اِلاَّ يُسَبِّحُ بِحَمْدَہِ وَلَ۔كِن لاَّ تَفْقَھُونَ تَسْبِيحَھُمْ (بنی اسرائیل 44:17) ۔ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو۔“

میں نے بہنوں سے یہ بھی کہا کہ یہ آیت صرف آپ کی زبانوں پر ہی نہ رہے بلکہ آپ کے دلوں میں بھی موجود رہے۔ یہ خواتین رخصت ہوئیں۔ چند دنوں کے بعد وہ مجھ سے بھی پہلے وقتِ مقررہ پر درس گاہ میں پہنچ گئیں۔ ہر بہن یہ چاہتی تھی کہ وہ پہلے بولے۔ میں نے دریافت کیا کہ آیت کریمہ کے ساتھ آپ لوگوں کی ہم نشینی کیسی رہی؟ ایک خاتون نے پرجوش انداز میں‌ اپنا تجربہ یوں بیان کیا :

“ میں شادی شدہ ہوں اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ ہمارے گھر میں کوئی خادمہ نہیں۔ سارا کام مجھے ہی کرنا ہوتا ہے۔ میرا شوہر کام کے لیے باہر جاتا ہے اور ہر روز تاخیر سے گھر پہنچتا ہے۔ بڑے بچے اپنے اسکولوں میں جاتے ہیں جب کہ چھوٹے بچے گھر میں میرے پاس ہوتے ہیں۔ صبح سویرے سے لیکر شام تک مجھے مسلسل کام کرنا پڑتا ہے۔ گھر کے چھوٹے بڑے سب کام مجھے ہی کرنے ہوتے ہیں۔ گھر کا ہر فرد مجھ سے کوئی نہ کوئی کام کرنے کے لیے کہتا ہے۔ کبھی کبھی تو شیطان میرے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے، تم کیا ہو؟ تم ایک نوکرانی ہو، بلکہ نوکرانی تم سے بہتر ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اس کے کام کی مقدار اور نوعیت مقرر و متعین ہوتی ہے، پھر اسے تنخواہ ملا کرتی ہے۔ میں کئی بار اس وسوسہ اندازی سے متاثر بھی ہو جاتی، یعنی شیطان مجھے بہکانے میں کامیاب ہو جاتا۔ میں سستی سے کام کرنے لگتی۔ پھر بھی بادلِ نخواستہ ہی سہی، گھر کے سب کام مجھے ہی کرنا تھے۔“

“ یہ میری اور میرے اہل خانہ کی خوش قسمتی ہے کہ مجھے آپ کے یہاں درس قرآن کی محفل میں شرکت کا موقعہ ملا اور پھر آپ کی طرف سے متعین کردہ آیت پر عمل کا ارادہ کیا۔ میں ایک دن صبح سویرے بیٹھی یہ سوچ رہی تھی کہ آج تو مجھے بہت سے کام کرنا ہیں۔ سخت کام کاج کے تصور سے ہی میرا مورال پست ہو رہا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے پوچھا پہلے کون سا کام کروں؟ میں آیت کریمہ کو بھی دہرا رہی تھی کہ میری نظر میز کی طرف گئی۔ اس پر دھول پڑی تھی۔ میں نے اپنے آپ سے پوچھا، سبحان اللہ، کیا یہ میز بھی تسبیح کرتی ہے؟ پھر میرے منہ سے یہ الفاظ خودبخود نکلے “ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو۔“ میں دیکھتی ہوں یہ میز کیسے تسبیح کرتی ہے؟ میں نے اپنے آپ سے پوچھا۔ مجھے فوراً یہ جواب ملا، “ تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو؟“

“ میں ایک غیر ارادی حرکت کے ساتھ اٹھی، کپڑا لیا اور تسبیح کرنے والی میز سے دھول صاف کر دی۔ مجھے میز سے انس سا محسوس ہوا۔ ہم دونوں تسبیح کرنے والے ہیں۔ پھر میں نے گھر کی کتابوں کی، الماری اور دوسری چیزوں کی صفائی کی۔ اب میں باورچی خانہ میں تھی۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے یہاں کی ہر چیز تسبیح کر رہی ہو۔ دیواریں، چولہا، گیس، برتن، میں نے سوچا، جو کھانا میں تیار کرتی ہوں وہ بھی اللہ کی تسبیح کرتا ہے۔ مجھے ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ ہر چیز کی تسبیح کرنے کے ادراک کے ساتھ ہی میری زندگی میں کتنا بڑا انقلاب آ چکا ہے۔ یہ حقائق جان کر زندگی کتنی خوش گوار، حسین اور بامقصد ہو چکی ہے۔ ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ اب گھر کے کام کاج میں پہلے سے کم وقت لگنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی مجھے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا یاد آئیں۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک خادمہ کی درخواست کرنے گئیں تاکہ خادمہ کام کاج میں ان کا ہاتھ بٹائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خادمہ عطا کرنے کے بجائے خادمہ سے بہتر جو چیز عطا فرمائی وہ تسبیح کا عمل تھا۔ میں پہلے یہ خیال کرتی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تسبیح کرنے کے لیے اس لیے فرمایا تاکہ انہیں نفسیاتی تقویت ملے اور وہ کام کو آسان سمجھنے لگیں۔ میں نے تو کبھی یہ سوچا بھی نہ تھا کہ تسبیح کرنے سے کام کرنے میں مدد ملتی ہے۔ انسان کے لیے کام کی مشقت آسان ہو جاتی ہے لٰہذا وہ تھوڑے وقت میں زیادہ کام کر لیتا ہے۔“

“ مسلمان تسبیح کرتے وقت ایک خوش گوار بلکہ شاندار ذہنی و نفسیاتی کیفیت سے سرشار ہوتا ہے۔ اسے تھکاوٹ اور مشقت کی احساس ہی نہیں ہوتا، یا بالکل معمولی تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔ میں اپنی ہر بہن بلکہ ہر فرد اور محنت کش انسان کو یہ مشورہ دیتی ہوں کہ وہ کام کرتے ہوئے سبحان اللہ، سبحان اللہ، سبحان اللہ سبحان اللہ العظیم جیسے تسبیح کے کلمات کی ادایگی کو اپنا طریقہ بنائے۔ کام آسان بھی ہو گا اور خوش گوار بھی۔ جلد بھی اور بسہولت بھی۔“

اس بہن نے جب اپنا تجربہ بیان کر لیا تو میں نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، میری پیاری بہنوں، قرآن مجید کے مطابق عمل کرنے اور اپنے آپ کو قرآن کے سانچے میں ڈھالنے سے یہی مراد ہے۔ جیسے ہماری اس بہن نے صرف آیت کے الفاظ دہرانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آیت کو اپنے دل میں جگہ دی اور اپنے حواس اور جوارح کو آیت سے ہم آہنگ کیا۔ قرآن پر عمل کا یہی طریقہ کار ہونا چاہیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
تسبیح

ٹی وی اور دیواروں کی تسبیح

ایک لڑکی نے اٹھ کر کہا، “ اب میری بات سنو، میرا معاملہ بہت ہی عجیب ہے۔ میں میڈیکل کالج کی طالبہ ہوں۔ میرے اساتذہ یہ بتاتے رہتے ہیں کہ اللہ نے انسان کو کس طرح بنایا ہے، وہ جسم انسانی کے مختلف نظاموں سے ہمیں آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ میں خالق کی کاریگری پر متعجب ہو کر “ سبحان اللہ “ کہہ دیا کرتی تھی۔ مگر یہ الفاظ صرف میری زبان سے ادا ہوتے تھے۔ مجھے اس بات کا علم نہ تھا کہ مجھے اللہ کی نعمتوں کا شکر عملی طور پر بجا لانا چاہیے۔ مجھے اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو خالق کی رضا کے لیے استعمال کرنا چاہیے اور میرا نصب العین صرف اللہ کو راضی کرنا ہونا چاہیے۔ مگر مذکورہ آیت تفویض کیئے جانے کے بعد تو اللہ سبحانہ نے میرے قلب و ذہن کو روشن کر دیا۔ میں اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے اور سوتے جاگتے اس آیت کو دہراتی رہتی تھی حٰتی کہ اس آیت کی محبت میرے دل میں سرایت کر گئی۔“

“ ایک دن میں نے حسبِ معمول ریموٹ کنٹرول ہاتھ میں لیے ٹیلی ویژن سکرین پر اپنی پسند کی فیچر فلم دیکھنا چاہی۔ فلم شروع ہو گئی۔ کئی مناظر سامنے آئے۔ میں فلم دیکھ رہی تھی مگر ایک مسلمان کی حثیت سے میرے جذبات مجروح ہو رہے تھے۔ یک دم مجھے خیال آیا کہ یہ ٹیلی ویژن سیٹ بھی ضرور اللہ کی تسبیح کرتا ہو گا؟ پھر مجھے اپنے خیال کی معقولیت کا احساس ہوا۔ اس لیے کہ ۔۔۔۔۔ “ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو۔“ مجھے اس بات کا پختہ یقین ہو گیا کہ ٹیلی ویژن سیٹ اور یہ پورا سسٹم اللہ کی تسبیح کر رہا ہے۔ میرے رب کی تسبیح کر رہا ہے۔ اللہ نے تو اس سسٹم کر اپنی تسبیح کے لیے مسخر کیا ہے۔ اللہ نے اسے ہمارے ماتحت کر دیا ہے تا کہ اللہ ہمیں آزمائے کہ کون اچھے عمل کرتا ہے اور کون برے۔ مجھے اپنے اندر سے یہ آواز سنائی دی کہ ٹیلی ویژن سیٹ تو تسبیح کرنے والوں میں سے ایک ہے لیکن میں نے اسے اذیت دی ہے۔ کیوں کہ میں نے اس کی اسکرین پر ایسی چیز پیش کر دی جو اللہ کو ناراض کرنے والی ہے۔ معاً مجھے خیال آیا کہ ٹیلی ویژن سیٹ مجھ سے نفرت کرتا ہے، اسے بےہودہ پروگراموں، فضول ڈراموں اور لچر فلموں سے بھی سخت نفرت ہے مگر وہ مجبور ہے۔ یہ سیٹ روزِ قیامت بارگاہِ الٰہی میں میرے خلاف گواہی دے گا۔ اللہ کے حضور میری شکایت کرئے گا۔“

“ بس اسی خیال کا آنا تھا کہ غیر شعوری طور پر میری انگلیاں ریموٹ کنٹرول پر پڑیں اور میں نے وہ فلم بند کر دی۔ یوں اللہ تعالٰی نے اپنی اس آیت کی برکت سے مجھے بے ہودہ فلموں اور ڈراموں سے نجات دلا دی۔ اسی لمحے میں نے یہ عہد کر لیا کہ میں کبھی بھی ٹیلی ویژن سیٹ کو اذیت نہیں پہنچاؤں گی اور اس پر وہی چیز چلاؤں گی جو اللہ کو پسند ہو گی۔

“ میرے اس فیصلے سے مجھے جو سکون و قرار اور طمانیت و نفسیاتی مسرت ملی، اس کا اندازہ آپ شاید نہ لگا سکیں۔ میں جس طرح اپنی عمرِ عزیز ضائع کر رہی تھی، اب اس پر ندامت ہوتی ہے۔ میں فضولیات سے بچ گئی ہوں، مجھے اللہ کی نعمتوں پر عملی شکر ادا کرنے کا طریقہ معلوم ہو گیا ہے۔ میرا ہاتھ اللہ کی رضا کے لیے کام کرئے تو یہ اللہ کا شکر ہے۔ میری آنکھ اللہ کی رضا کے لیے دیکھے تو یہ اللہ کا شکر ہے۔ میرے پاؤں ان مقامات کی طرف چلتے ہیں جہاں اللہ کی اطاعت کی جاتی ہے تو یہ پاؤں کی نعمت پر اللہ کا شکر ہے۔ غرض یہ کہ اللہ کی نعمتوں کا شکر اور اس کی تسبیح زبان بھی کرتی ہے، حواس بھی کرتے ہیں اور جوارح بھی۔“
 

شمشاد

لائبریرین
تسبیح

تسبیح کی برکت سے گناہ کبیرہ چھوڑ دیا

اس لڑکی کا بیان ابھی ختم ہی ہوا تھا کہ ایک اور بہن نے اپنا تجربہ بیان کرنا شروع کیا۔ انہوں نے کہا “ اس آیت کریمہ پر عمل کی برکت سے اللہ تعالٰی نے مجھے گناہ کبیرہ ترک کرنے کی توفیق دی۔“ سب حاضرین نے حیران ہو کر اس کی طرف دیکھا تو اس نے کہا، “ جی ہاں، اس قرآنی آیت کی برکت عظیم سے میں نے غیبت جیے گناہ کبیرہ کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ بات یہ ہوئی کہ ایک دن میں نے اپنی امی کو فون کیا تا کہ ان کی خیریت و عافیت معلوم کروں۔ بات شروع ہوئی تو اس کا رخ کئی رشتہ دار خواتین کی طرف پھر گیا۔ ہم ماں بیٹی بڑے مزے کے ساتھ باتیں کر رہی تھیں۔ دشمن غالب تھا اور ہم دونوں غیبت کیئے جا رہی تھیں۔ اسی دوران اچانک میرے دل میں خیال آیا کہ یہ ٹیلی فون سیٹ تو تسبیح کرتا ہے، وان من شیء الا یسبح، لٰہذا ٹیلی فون سیٹ ہماری اس گفتگو سے خوش نہ ہو گا۔ میں نے والدہ سے رشتہ دار عورتوں کے متعلق غیبت پر مبنی گفتگو کو منقطع کر دیا اور اب قران حکیم پر عمل کرنے کے موضوع پر گفتگو کرنے لگی۔ میں نے امی کو بتایا کہ ان دنوں ہمیں کون سے آیت عمل کے لیے تفویض ہوئی ہے۔ میں نے انہیں یہ بھی بتا دیا کہ ابھی ابھی ٹیلی فون سیٹ کے تسبیح کرنے کے بارے میں میں نے کیا سوچا ہے۔ میں نے امی کو بتایا کہ غیبت جیسے گناہ کبیرہ کے لیے استعمال کر کے اس تسبیح کرنے والے آلے کو ہم نے کتنی اذیت پہنچائی ہے۔“

“ غرض یہ کہ میں نے ارشادِ الٰہی “ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو مگر تم اس تسبیح سمجھتے نہیں ہو“ پر عمل کیا۔ میں نے غیبت کے موضوع کو چھوڑ کر قرآن کریم پر عمل، تہجد، فجر کی نماز وغیرہ کے بارے میں گفتگو شروع کر دی۔ یوں ہماری ٹیلی فون پر گفتگو ختم ہوئی مگر مجھے ایک آئیڈیا ملا۔ میں پہلے بھی ٹیلی فون سیٹ صاف رکھتی تھی اور اس کے ارد گرد کی چیزیں بھی صاف کرتی تھی لیکن اگ مجھے ٹیلی فون سیٹ اور اپنے مابین ایک دلچسپ تعلق کا احساس ہوتا ہے۔ ہم دونوں ایک ہی رب کی تسبیح کرنے والے ہیں۔ ہمارے عمل کرنے سے آیاتِ الٰہی بالکل واضح اور نکھر کر ہمارے سامنے آ جاتی ہیں۔“

ایک اور بہن اپنا واقعہ سنانا چاہتی تھیں لیکن وقت ختم ہونے کی وجہ سے ہم ان کی بات نہ سن سکے۔

غرض یہ کہ اس آیتِ کریمہ کے بارے میں محفل درسِ قرآن کے شرکا کے تجربات نے تمام بہنوں پر خوشگوار اثرات چھوڑے۔ یہ بھی واضح ہوا کہ قرآن پر عمل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس کے لیے آمادہ ہو جائیں، تدبر و تفکر سے کام لیں اور پھر عمل پیرا ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
تسبیح

بچوں پر اثرات

میں جب مسجد سے نکل کر گھر کے لیے روانہ ہونے لگی تو ایک بہن نے گھر تک میرے ساتھ چلنے پر اصرار کیا۔ راستے میں اس نے ایک ایسی بات بتائی جس نے مجھے بے حد متاثر کیا۔

اس بہن نے بتایا، “ میرا ایک بھانجا ہے جو پانچ سال سے کچھ ہی بڑا ہے۔ وہ میزوں، دیواروں اور دروازوں پر لکیریں بناتا رہتا ہے۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ وہ اس حرکت سے باز آ جائے، نرمی و سختی سے سمجھایا، مار پیٹ بھی کی مگر بے سود۔ جب میں نے آپ کے درسِ قرآن میں شمولیت اختیار کی اور اللہ سبحانہ کا یہ ارشاد “ وَاِن مِّن شَيْءٍ اِلاَّ يُسَبِّحُ بِحَمْدَہِ وَلَ۔كِن لاَّ تَفْقَھُونَ تَسْبِيحَھُمْ (بنی اسرائیل 44:17) ہمیں عمل کرنے کے لیے تفویض ہوا تو میں‌ اس آیت کو دہراتی رہتی تھی۔ مجھے اس بات کا بے حد اشتیاق تھا کہ میرے حواس اور جوارح میں سے کوئی ایک اس پر کسی طرح عمل کرئے، اس کے مطابق میری سوچ بنے، اس کے مطابق میرے اعضائے بدن کام کریں۔“

“ میں نے اپنے بھانجے کو دیکھا کہ وہ ایک نئی میز پر ہر طرف سے مارکر سے لائنیں لگا رہا ہے۔ اس نے میز پر لکیریں ہی لکیریں بنا دیں۔ میں نے بھانجے کو اپنے پاس بلا کر بڑے پیار اور سکون سے کہا، کیا تم جانتے ہو کہ یہ میز تسبیح کرتی ہے؟ اس نے سخت حیرانی کے ساتھ میرے طرف دیکھا۔ اس کا منہ کھلا ہوا تھا۔ اس نے کہا، “ سچ؟“ میں نے اسے بتایا، جی ہاں، یہ بات ہمیں اللہ نے بتائی ہے، جو ہر چیز کو جانتا ہے۔ تم جانتے ہو کہ تم میز کو کتنا گندا کر دیا ہے؟“ ضرور میز غصے میں ہے اور یہ اللہ کے حضور تمہارے خلاف شکایت کرئے گی۔“

“ بچے نے میری طرف دیکھا، پھر میز کی طرف دیکھا۔ پھر اپنا کان میز سے لگا کر بولا، “ مگر مجھے تو کوئی آواز نہیں آ رہی۔ میں تو کچھ بھی نہیں سن رہا۔۔“ میں نے کیا، “ مجھے معلوم ہے، یہ بات اللہ پاک نے بتا دی ہے کہ ہم لوگ ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں۔“ بچہ تھوڑی دیر ٹھہرا رہا۔ پھر اس نے ایک کپڑا اٹھایا اور انتہائی خاموشی کے ساتھ میز صاف کرنے لگا۔ آہستہ آہستہ لیکن جوش و جذبے سے وہ میز صاف کر رہا تھا۔ اس کی رفتار میں تیزی آ رہی تھی تا کہ وہ جلد از جلد میز کو مارکر کے نشانات سے صاف کر دے۔ پھر اس نے ایک اور کپڑا لیا اور دوسری نشان زدہ چیزوں کو صاف کرنے لگا۔ میں نے کہا، اب میں بھی تمہاری مدد کروں گی۔ بولا، “ ہاں خالہ، آپ میری مدد کریں تاکہ ہم تمام چیزوں سے نشانات صاف کر دیں۔ کیونکہ یہ ساری چیزیں تسبیح کرتی ہیں۔“

“ شام کو اس کی والدہ ڈیوٹی سے واپس آئیں تو ان سے لپٹ گیا۔ کہنے لگا، “ امی، کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ میز تسبیح کرتی ہے؟“ اس نے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے میز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اس کی امی نے جواب دیا، “ ہاں بیٹا، کیوں نہیں۔ ہر چیز اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتی ہے۔“ میرے بھانجے نے اب پہلے میری طرف دیکھا اور پھر کمرے کی ہر چیز کی طرف دیکھا۔ وہ جلد ہی گہری نیند سو گیا۔ اس دن کے بعد اس نے سوائے لکھنے کے مخصوص کاغذ کے سوا کبھی کسی چیز پر لکیریں نہیں لگائیں۔ اگ وہ اپنے ہم عمر ساتھیوں سے کہتا رہتا ہے کہ میں تسبیح کرتا ہوں۔ ایک بار میں نے خود سنا کہ وہ اپنے بڑے بھائی سے کہہ رہا تھا، “ مجھے مت مارو، میں تسبیح کرتا ہوں۔“ تو مجھے بہت ہنسی آئی اور میں شدتِ مسرت سے رو پڑی۔“

قرآنی آیات پر عمل کی بہت ضرورت ہے۔ قرآن مجید اللہ نے اتارا ہی اس لیے ہے کہ لوگ اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں۔ جس بات کو ایک پانچ سال کے بچے نے سمجھ لیا، نہ جانے بڑی عمر کے لوگ اسے کب سمجھیں گے؟
 

شمشاد

لائبریرین
والدین سے حسن سلوک

والدین سے حسن سلوک کے بارے میں گفتگو کرنا تو بہت آسان ہے۔ اس موضوع پر تقریر کا اہتمام بھی کوئی مشکل کام نہیں۔ مگر عملاً والدین کی خدمت کرنا، ان سے نیک برتاؤ کرنا اتنا آسان نہیں۔ اس کے لیے اللہ پر گہرا اور مضبوط ایمان چاہیے۔ صبر و برداشت چاہیے۔ سب سے بڑھ کر ایک بیٹی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کے لیے شیریں زبان ہو۔ اللہ تعالٰی نے ماں باپ کے ساتھ مسلسل حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ اپنے رازوں کو وہی بہتر جانتا ہے۔ والدین سے اچھا برتاؤ ایک ایسا عملِ صالح ہے جس سے اخلاص کی خوشبو مہکتی ہے۔ یہ اللہ کی دائمی اطاعت کا ثبوت ہے۔ غرض یہ کہ والدین سے حسن سلوک کا شمار ان بنیادی خوبیوں میں ہوتا ہے جن کی تربیت مسلم معاشرے کے تمام افراد کو ملنی چاہیے۔ نہ صرف قرآن مجید نے بلکہ رسول کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے۔

ہم نے اپنے ہفتہ وار درس قرآن مجید میں یہ طے کیا کہ ہم اس بار اس ارشادِ الٰہی پر عمل کریں گے۔ “ فَلاَ تَقُل لَّھُمَآ اُفٍّ وَلاَ تَنْھَرْھُمَا (بنی اسرائیل 23:17) - پس انہیں اُف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو۔“ ہم نے اپنے دستور کے مطابق اس آیت کی تشریح و تفسیر بیان کی۔ اس پر مکمل گفتگو کی۔ پھر یہ طے پا گیا کہ ہم میں سے کوئی بھی نہ تو اپنے ماں باپ کو جھڑکے اور نہ ہی انہیں اذیت پہنچائے خواہ وہ کچھ ہی کریں یا کہیں۔

جب کچھ عرصہ بعد تجربات بیان کرنے کا وقت آیا تو درس میں شریک ہونے والی خواتین میں سے پانچ خواتین نے قرآن کریم کی آیت کے اس مختصر حصے پر عمل کرنے کے اپنے تجربات سے آگاہ کیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
عامل کے بجائے اللہ

“ میری امی مجھ سے ملنے کے لیے میرے گھر آئی ہوئی تھیں۔ وہ دکھی اور پریشان نظر آ رہی تھیں۔ میں نے خیریت دریافت کی تو کہنے لگیں “ تیری بہن کی شادی میں کافی دیر ہو چکی ہے۔ مجھے کچھ لوگوں نے بتایا ہے کہ اس غیر معمولی تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ اس پر جادو کیا گیا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ اس کوئی جن قابض ہے جو اس کی شادی نہیں ہونے دیتا۔ اس لیے بیٹی آپ میرے ساتھ چلیں، تاکہ لوگ جس عامل کا بتاتے ہیں، ہم اس کے پاس جائیں تاکہ وہ ہماری مدد کرئے اور تیری بہن کی شادی جلد ہو جائے۔“ میری امی نے یہ بات کی تو مجھے بہت صدمہ پہنچا۔ میں نے انہیں یہ آیت پڑھ کر سنائی “ وَاِن يَمْسَسْكَ اللّہُ بِضُرٍّ فَلاَ كَاشِفَ لَہُ اِلاَّ ھُوَ، وَاِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَھُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدُيرٌ ہ (الانعام 17:6) - اگر اللہ تمہیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو تمہیں اس نقصان سے بچا سکے، اور اگر وہ تمہیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔“

والدہ غصے میں تھیں، وہ کہنے لگیں “ میں اپنی بیٹی کو نقصان سے بچانے جا رہی ہوں۔ اس میں کیا حرج ہے؟ میں کسی کو ضرر نہیں پہنچا رہی۔ کسی کا نقصان نہیں کر رہی۔ مگر تم اپنی بہن کے ساتھ تعاون کرنا نہیں چاہتیں، تم اس کے فائدے میں خوش نہیں ہو۔“ اس پر ہم دونوں ماں بیٹی میں جھگڑا ہونے لگا۔ میں نے یہ سمجھا کہ میں حق پر ہوں، میری ماں باطل پر ہے، مجھے حق کی حمایت کرنا ہے۔ لیکن افسوس کہ میں شیطان کی اکساہٹ پر حق کی حمایت باطل طریقے سے کرنے لگی۔ میں نے اپنی والدہ کا خیال نہ کیا اور حق کی حمایت کے جوش میں اپنی آواز امی کی آواز سے بلند کر لی۔ فوراً مجھے خیال آیا کہ ہم نے مجلس درسِ قرآن میں کیا طے کیا تھا؟ مجھے آیت یاد آ گئی۔ میں نے اپنی آواز بالکل دھیمی کر لی۔ مجھے اب سکون محسوس ہونے لگا۔ جذبات کی شدت و حدت ختم ہو گئی۔ والدہ کا احترام غالب آ گیا۔ میں نے آگے بڑھ کر اپنی والدہ کا ہاتھ چوم لیا۔ گستاخی پر معذرت کی اور انہیں راضی کرنے کی بھرپور کوشش کرنے لگی۔

“ اب امی بھی خاموش اور پُرسکون تھیں۔ کچھ دیر کے بعد انہوں نے مجھ سے دریافت کیا، “ اچھا تو میرے ساتھ کب چلے گی؟ یہ عامل بڑا مشہور ہے۔ دور دور تک اس کی شہرت پہنچ چکی ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ بندہ تیری بہن کی شادی کے سلسلہ میں ہماری مدد کرئے گا۔ میں اس کو معاوضہ دوں گی۔“ میں نے بڑی محبت اور چاہت سے کہا، لیکن ایک اور صاحب بھی ہیں جو آپ کی مدد بھی کریں گے، آپ سے کوئی فیس بھی طلب نہیں کریں گے۔ ان کا عمل بھی یقینی ہے۔ ان کے کام کی مکمل گارنٹی ہے۔ بلکہ جب تک آپ کا یہ کام ہو نہیں جاتا وہ ذاتی طور پر آپ کو سکون و اطمینان فراہم کریں گے۔

یہ سن کر میری والدہ نے بے ساختہ سبحان اللہ کہا اور بولیں “میری سہلیوں اور جاننے والی عورتوں نے تو مجھے ایسے عامل کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ لیکن اگر تجھے اس پر اعتماد ہے، یقین ہے تو کوئی بات نہیں، ہم اسی کے پاس چلے جائیں گے۔ اس میں کوئی مشکل نہیں۔“ میں نے عرض کیا، “ امی جان، اس عامل کا کیا کہنا۔ اس کی صلاحیت اور استعداد تو بے حد و بے شمار ہے۔ بلکہ اس کا تو یہ حال ہے کہ جب وہ کسی کام کے کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ کام فوراً ہو جاتا ہے۔ وہ آپ سے مال بھی نہیں لے گا کیوں کہ وہ خود مال دار ہے۔ اس میں لالچ و طمع نہیں، وہ تو سخی ہے، خود لوگوں کو دیتا ہے۔ امی جان، آپ اسی سے ملئیے اور اس سے درخواست کیجیئے۔“

“ میری والدہ میری یہ باتیں سن کر بہت خوش ہوئیں۔ کہنے لگیں “ واللہ میں اس عامل کے بارے میں تمہاری باتیں سن کر بہت خوش ہوں۔ مگر میری پیاری بیٹی، ہمیں اب دیر نہیں کرنی چاہیے۔ تم اس سے ملنے کا وقت لے لو، تو ہم اس کے پاس جائیں۔ اس بات کا خیال رکھنا کہ وقتِ ملاقات جلد مل جائے۔“ میں نے عرض کیا، ٹھیک ہے۔ ہم دیر نہیں کرتے۔ ہم اس کے پاس چلتے ہیں۔ دیکھیں وہ تو ہمارے پاس ہی آ گئے ہیں۔ امی نے حیران و پریشان ہو کر دائیں بائیں دیکھا۔ میں نے فوراً قبلہ کی طرف رخ کر لیا اور دعا کرنے لگی۔“

“ میں گڑ گڑا کر، تضرع اور آہ و زاری سے فریاد کرتی رہی۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی سے مدد مانگتی رہی، اس کے سامنے دستِ سوال دراز کرتی رہی۔ میری والدہ زار و قطار رو رہی تھیں۔ وہ سجدے میں گر پڑی تھیں۔ توبہ و استغفار میں مشغول تھیں۔ اللہ سے مانگ رہی تھیں۔ جب مانگنے والا اس طرح مانگتا ہے تو اس کی مانگ پوری کی جاتی ہے۔ وہ سخی داتا کب کسی کی جھولی کو خالی ہاتھ جانے دیتا ہے۔“

جب یہ بہن اپنا ایمان افروز واقعہ سنا رہی تھیں تو ہر آنکھ اشک بار تھی۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top