قرآن فہمی ( مصنف : ڈاکٹر مرتضٰی مطھری )

صرف علی

محفلین
یہاں قرآن ذٰلِکَ اَزْکیٰ لَھُمْ کے مسئلے کو بیان کر رہا ہے۔ قرآن کہہ رہا ہے کہ یہ حکم تمہاری روح کو پاک کرنے کے لئے ہے۔ کیا مطلب؟ اس کا فلسفہ یہ ہے کہ اسلام انسانی فطرت کی طلب سے زیادہ مقدار میں ذہن و فکر کو جنسی شہوت کی جانب مشغول کرنا اور شہوت بھڑکانے والے عوامل فراہم کرنا نہیں چاہتا۔
انسان ان چیزوں کے متعلق غور و فکر نہیں کرتا جو اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو اور چونکہ لوگ اپنی شرمگاہوں کو ڈھانپ کر رکھتے ہیں (البتہ یہ بات اسلامی روایت کا حصہ ہے یورپین تہذیب کا نہیں) اس لئے ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی شخص دوسرے کی شرمگاہ کے متعلق غور کرے۔ یہ بات ”مفغول عنہ“ ہے۔ یعنی انسان ان کے طرف متوجہ ہی نہیں ہوتا۔ انسان کی سوچ، اس کا ذہن، دل اور خیال اس سے بلند تر اور منزہ تر ہے کہ وہ ان مسائل پر سوچے اور نہ ہی اس کی حاجت ہے۔
(اسلام نے شرمگاہ کو ڈھانپنے کا حکم دیا ہے) تاکہ آپ کا دل و دماغ ان مسائل پر توجہ کرنے سے محفوظ رہے کہ فلاں شخص کی شرمگاہ ایسی ہے اور دوسرے کی یوں ہے، اور نہ ہی کبھی کوئی ایسا واقعہ پیش آئے (اسلام نے شرمگاہ ڈھانپنے کا حکم دیا ہے) اور اس حکم کا بہت بڑا نتیجہ برآمد ہوا ہے۔ نتیجہ یہی ہے کہ اس نے اپنے پیروکاروں کے دل و دماغ کو اس کے متعلق سوچنے سے بچائے رکھا ہے۔ مسلمان شرمگاہ کے متعلق مطلق نہیں سوچتے۔ یورپ میں جو ناپسندیدہ اقدار پھیلی ہوئی ہیں او رتدریجاً پھیل رہی ہے، خصوصاً شمالی یورپ میں جس پسندیدہ بات کا بہت زیادہو رواج ہے دوسرے مقامات پر بھی رواج ہو رہا ہے اور رسل جیسے افراد جس کی رغبت دلا رہے ہیں وہ مسئلہ شرمگاہ کو ننگا کرنے اور اسے ڈھانپنے کے خلاف تحریک چلانے کا ہے۔ رسل نے تربیت کے بارے میں ایک کتاب تحریر کی ہے۔ اس کا نام بھی اس نے ”تربیت کے بارے میں“ رکھا ہے۔ اس میں بہت تاکید کے ساتھ کہتا ہے کہ شرمگاہ چھپانے کی بات سرے سے ختم ہو جانی چاہئے، جبکہ قرآن شرمگاہ کو ڈھانپنے پر بہت زور دیتا ہے۔ خصوصاً یہ جو اس نے بعد میں فرمایا ہے کہ ذٰلِکَ اَزْکیٰ لَھُمْ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرُ م بِمَا یَصْنَعُوْنَ۔“ تو قرآن کہنا چاہتا ہے کہ ہم بہتر جانتے ہیں، اسی لئے ہم نے اسے بیان کیا ہے۔
تو بعض مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ اس آیت یَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ کا مطلب یہ ہے کہ ”اپنی شرمگاہووں کو دوسروں کی نظروں سے بچا کر رکھیں، ان کو ڈھانپ کر رکھیں۔ “ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَرِھِمْ ”اپنی آنکھیں نیچی رکھیں۔“ اور نہ دیکھیں۔ کس چیز کو نہ دیکھیں۔؟ مفسرین کا کہنا ہے کہ شرمگاہوں کو نہ دیکھیں۔ لیکن ہماری رائے میں یہ آیت اعم ہے ”یَحْفَظُوْا فَرُوْجَھُمُ بھی اعم ہے اور یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ بھی۔ روایات میں جو بیان ہوا ہے کہ قرآن میں جس جگہ بھی شرمگاہ کی حفاظت کرنے کی بات ہو تو وہ زنا سے مربوط ہے۔ لیکن اس مقام پر اس سے نظر کرنا ہے تو بعید نہیں کہ یہاں دونوں ہی مراد ہوں اور یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ“ مجھ کو تقریباً یقین ہے کہ یہ آیت شرمگاہو کی طرف نگاہ کرنے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ممکن ہے کہ یہ آیت غیر شرمگاہ کی طرف نظر کرنے سے مخصوص ہو۔ ”غَضَّ“ کا مطلب ہے کم کرنا۔ ”غَضَّ بَصر“ یعنی کم دیکھنا یعنی ٹکٹکی باندھ کر نہ دیکھنا۔
بعد کی آیت میں ارشاد ہوتا ہے ”وَقُلْ لِلْمُوٴْمِنَاتِ یَغْضُضُنَ مِنْ اَبْصَارِ ھِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنَّ۔“ مسلمان عورتوں سے بھی کہہ دیجئے کہ وہ بھی اس کی پابندی کریں۔ اگر شرمگاہ مراد ہو تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کی شرمگاہوں کو نہ دیکھیں اور اپنے دامن کو زنا سے آلودہ نہ کریں۔ بعض دیگر مفسرین کے نظریئے کے مطابق آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی آنکھوں کو دوسروں کی شرمگاہوں کی طرف نگاہ کرنے سے آلودہ نہ کریں۔ ”غضِ بصر“ اور حفظِ فرج کے متعلق گزشتہ آیت میں جو مطالب بیان ہوئے ہیں ان کی طرف یہ آیت بھی اشارہ کر رہی ہے۔ عورتوں کو پردے کے متعلق دوسرے احکام بھی دیئے گئے ہیں۔ قرآن فرماتا ہے۔ ”وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلاَّ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلیٰ جُیُوْبِھِنَّ وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلاَّ لِبُعُوْ لَتِھِنَّ “ (سُورہٴ نُور، آیت ۳۱) جو کہ تفصیل طلب ہیں۔ ان کو بعد والی تقریر میں آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہِ الطَّاھِرِیْنَ
 

صرف علی

محفلین
پانچویں تقریر
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
…اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ​
وَقُلْ لِلمُوٴْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَرِ ھِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنَّ وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلاَّ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَلْیَضرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلیٰ جُیُوْبِھِنَّ وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلاَّ لِبُعُوْ لَتِھِنَّ اَوْ اٰبَآئِھِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِھِنَّ اَوْ اَبْنَآء ِھِنَّ اَوْ اَبْنَآ ءِ بُعُوْلَتِھِنَّ اَوْ اِخْوَانِھِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اِخْوَانِھِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اَخَوَاتِھِنَّ اَوْ نِسَآئِھِنَّ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُنَّ اَوِ التَّابِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِلطِفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْھَرُوْا عَلیٰ عَوْرَاًِ النِسَآءِ وَلاَ یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِھِنَّ وَتُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْموٴْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ۔ (نور۔ ۳۱)
اس کی تلاوت کی جا چکی ہے۔ اس میں مردوں کو دو حکم دیئے گئے ہیں، ایک تو ان کو نامحرم عورتوں کو دیکھنے سے منع کیا گیا ہے اور دوسرا ان کو شرمگاہ ڈھانپنے کو کہا گیا ہے۔ باالفاظِ دیگر ان کو زنا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ یعنی ان پرواجب ہے کہ اپنے دامن کو نگاہ سے بھی بچائیں یعنی اپنی شرمگاہوں کو ڈھانپ کر رکھیں اور فحشاء سے بھی بچائیں۔ پس مردوں پر واجب ہے کہ اپنی آنکھوں کو نامحرموں کے دیکھنے اور اپنے دامن کو زنا سے آلودہ ہونے سے بچائیں۔
مردوں کے متعلق نازل ہونے والی آیت عورتوں کے متعلق نازل ہونے والی آیت کے مقابلے میں چھوٹی ہے۔ وہ فقط اتنی ہی ہے۔ البتہ اس کے ذیل میں خدا نصیحت کرتا ہے کہ ہم نے جو تمہیں نامحرموں کی طرف دیکھنے اور بدکاری سے منع کیا ہے تو اس سے تم کو یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ہم تمہاری برائی کے خواہاں ہیں۔ نہیں ہم تو تمہاری پاکیزگی کے طالب ہیں۔ خدا بہتر جانتا ہے اور وہ تمہارے افعال سے اچھی طرح آگاہ ہے۔
دوسری آیت جو عورتوں کے بارے میں ہے اس میں بھی یہی دو حکم انہی الفاظ میں بیان کئے گئے ہیں۔ ان دونوں آیات میں فرق صرف یہ ہے کہ اس دوسری آیت میں موٴنث کی ضمائر استعمال کی گئی ہیں۔ خدا کا ارشاد ہے کہ عورتوں سے کہو کہ اپنی آنکھوں کو نامحرم مردوں کی طرف دیکھنے اور ان چیزوں کی طرف دیکھنے سے باز رکھیں جن کو دیکھنا سزاوار نہیں ہے اور اپنے آپ کو زنا سے محفوظ رکھیں۔ یعنی عورتوں کو بھی وہی دو حکم دیئے گئے ہیں جو مردوں کو دیئے گئے تھے اور یہاں بھی وہی الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو مردوں کے متعلق استعمال کئے گئے تھے۔
یہاں دو مطالب کو بیان کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس کے باوجود کہ عورت اور مرد میں اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں پایا جاتا لیکن عورت کے بارے میں ان مطالب کو قدرے تھوڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ ایک تو یہ کہ بعض خواتین شاید یہ خیال کرتی ہیں کہ فقط مردوں کو نامحرم عورتوں کی جانب دیکھنے سے منع کیا گیا ہے (مردوں کو نامحرم عورتوں کی طرف یکھنے کی یا تو بالکل اجازت نہیں یا لذت و شہوت کے ساتھ دیکھنے کی اجازت نہیں۔ اس پر ہم بعد میں بحث کریں گے)۔ ان کا خیال ہے کہ اگر نگاہ کرنا حرام ہے تو فقط مردوں کا عورتوں کو دیکھنا یا لذت و شہوت کے ساتھ دیکھنا حرام ہے۔ عورتوں پر مردوں کو دیکھنا حرام نہیں ہے۔ جبکہ یہ غلط ہے۔ اگر دیکھنا جائز ہے تو دونوں کے لئے جائز ہے اور اگر جائز نہیں ہے تو دونوں کے لئے جائز نہیں ہے۔ یعنی جس حد تک مرد کو منع کیا گیا ہے عورت کوبھی اسی حد تک منع کیا گیا ہے۔ لیکن عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ فقط مرد کوعورت کی طرف دیکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ یا تو بطور مطلق مرد کو منع کیا گیا ہے یا لذت اٹھانے کی نیت سے دیکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ اور اگر عورت مرد کو دیکھے اور مسلسل دیکھتی رہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ وہ تو عورت ہے اور وہ مرد کو دیکھ رہی ہے۔
حالانکہ یہ درست نہیں ہے اور قرآن نگاہ کے مسئلے میں عورت و مرد کے درمیان کسی فرق کا قائل نہیں ہے۔ البتہ بعض عورتیں اس مسئلے کی طرف متوجہ ہیں جبکہ شاید بہت سی عورتوں کی اس جانب مطلق توجہ نہیں ہے۔
دوسرا مطلب جو ہے اس پر اکثر لوگوں کی توجہ ہے۔ شاید بعض لوگ اس کی طرف متوجہ نہ ہوں اور وہ یہ ہے کہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہر عورت دوسری عورت کی محرم ہتی ہے حتیٰ کہ شرمگاہ کی نسبت بھی محرم ہوتی ہے۔ البتہ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ اکثر لوگ جانتے ہیں کہ یہ بات درست نہیں ہے۔ لیکن ا س کے باوجود چند لوگ ایسے بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ عورت ہر اعتبار سے دوسری عورت کی محرم ہے۔ جبکہ یہ خیال درست نہیں ہے۔ ایک عورت دوسری عورت کی شرمگاہ کی نسبت محرم ہے۔ حتیٰ کہ ماں بھی اپنی بیٹی کی محرم نہیں ہے۔ بیٹی بھی ماں کی محرم نہیں ہے۔ بہن اپنی بہن کی بھی محرم نہیں ہے۔
قرآن نے ان دو مطالب کے سلسلے میں جو حکم مردوں کو دیا ہے اسی سے ملتا جلتا حکم عورتوں کو بھی دیا ہے۔ جو حکم عورتوں کو دیا ہے اسی سے ملتا جلتا ہوا حکم مردوں کو بھی دیا ہے اور ساتھ ہی اس نے عورتوں پر مزید ایک چیز کو واجب قرار دیا ہے جبکہ مروں پر اسے واجب نہیں کیا۔ وہ ہے بدن کا ڈھانپنا۔ عورت پر اپنے بدن کو ڈھانپنا واجب ہے جبکہ مرد پر واجب نہیں ہے۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں ”عورتیں اپنی زینت ظاہر نہ کریں۔“ البتہ بدن سے جدا زینت (مثلاً وہ کنگن جو پاس گرا پڑا ہو) مقصود نہیں ہے بلکہ بدن کی زینت مراد ہے کیونکہ (اس کا ظاہر ہونا) عورت کو دیکھنے کے برابر ہے۔ عورتیں اپنی زینت ظاہر نہ کریں چاہے وہ زینت ایسی ہو جسے بدن سے جدا کیا جا سکتا ہو مثلاً کنگن، انگشتری یا وہ زینت جو بدن کے ساتھ چپکی ہوئی ہو مثلاً غازہ۔
عورت (دو مواقع کے علاوہ) اپنی زینت ظاہر نہ کرے۔ یہاں دو استثناء ہیں۔ ایک استثناء تو زینت کا ہے۔ یعنی بعض زینتوں کا ظاہر کرنا جائز ہے اور ان زینتوں کو قرآن نے ”ظاہری زینت“ کے نام سے بیان کیا ہے۔
دوسرا استثناء افراد کا ہے یعنی بعض افراد کے سامنے زینت ظاہر کرنا بھی جائز ہے۔ یعنی عورت شوہر کے علاوہ (شوہر کا مسئلہ تو واضح ہے) بعض دوسرے افراد کے سامنے اپنی زینت ظاہر کر سکتی ہے۔ ان افراد سے مراد والد، بیٹے، بھتیجے، بھانجے، شوہر کے بیٹے (اور ان کے علاوہ چند اور طبقات بھی) ہیں۔ ان استثناؤں کو بعد میں بیان کروں گا۔
 

صرف علی

محفلین
اس آیت کی تفسیر بیان کرنے سے قبل دو مطالب کو بیان کرنا بہت ہی ضروری ہے۔ ان کے بیان سے بات واضح ہونے میں مدد ملے گی۔ ایک مطلب تو یہ ہے کہ فقط عورت کو بدن ڈھانپنے کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟ مرد کو یہ حکم کیوں نہیں دیا گیا؟ پردہ عورت پر ہی کیوں واجب ہے مرد پر کیوں واجب نہیں؟
اس کا سبب واضح ہے وہ یہ ہے کہ عورت و مرد ایک دوسرے کے بارے میں ایک جیسے احساسات نہیں رکھتے۔ خلقت کے اعتبار سے بھی دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں یعنی ہمیشہ عورت ہی مرد کی آنکھ، اس کے اعضاء و جوارح، ہاتھ اور اس کے تمام بدن کے حملے کا شکار ہوتی ہے۔ مرد عورت کے حملے کی زد میں نہیں آتا اور یہ بات فقط عورت و مرد سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ دنیا میں ہر نر اور مادہ کا یہی حال ہے۔ نر کو ”لینے والا“ خلق کیا گیا ہے جبکہ مادہ کو اس طور پر خلق کیا گیا ہے کہ وہ نر کے حملے کا شکار ہوتی ہے۔ آپ حیوانات پر تحقیق کریں گے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ہمیشہ نر ہی مادہ کی تلاش میں نکلتا ہے۔ کبوتر، مرغ، اسپ، گدھا، چڑیا، شیر، گوسفند (وغیرہ) میں ہر ایک نوع میں یہی بات پائی جاتی ہے۔ تمام حیوانات میں نر کو ہی مادہ پر حملہ کرنے کا غریزہ سونپا گیا ہے۔ اگرچہ مادہ جنس بھی جنس نر کی طلبگار ہے لیکن وہ کبھی بھی نر کے سراغ میں نہیں نکلتی۔ اسی لئے انسانوں میں بھی جنس نر (مرد) ہی جنس مادہ (عورت) کے سراغ میں جانے، خواستگاری کرنے اور لڑکی کو نامزد کرنے پر ناگزیر ہے۔ لڑکا ہی خواستگاری کی خاطر لڑکی کے پاس جاتا ہے۔ رشتہ طلب کرنے کی خاطر لڑکے کا لڑکی سے رجوع کرنا ایک فطری بات ہے۔ ان آخری چند سالوں میں بعض لوگ جو نادانی کی بناء پر…یا بہتر کہیں کہ بے وقوف بنائے جانے کی وجہ سے ۔ عورت و مرد کے مساوی حقوق کی بات کرتے ہیں اور غلط فہمی سے تساوی کو تشابہ قرار دیتے ہیں، کے خیال میں عورت و مرد کے درمیان صرف شرمگاہ کا فرق پایا جاتا ہے۔ ن کے خیال میں شرمگاہ کے علاوہ ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں کہ یہ بہت برا رواج ہے! آخر لڑکے ہی لڑکیوں کی خواستگاری کو کیوں جائیں! یہ درست نہیں ہے اب کے بعد یہ رسم ہونی چاہئے کہ لڑکیاں بھی خواستگاری کے لئے لڑکوں کے پاس جائیں!
پہلی بات تو یہ ہے یہ قانون ِ خلقت کے خلاف ہے۔ اگر آپ اس قانون کو تمام جانداروں (جہاں دو جنس ہوں) میں تبدیل کر سکتے ہیں تو پھر اس جگہ (عورت و مرد میں بھی) تبدیل کر سکیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ فطرت کے اس قانون کے ذریعے جنسِ مادہ کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔ یعنی جنسِ نر کو اس طرح خلق کیا گیا ہے کہ ہمیشہ وہی طالب ہے۔ وہ جنسِ مادہ کی رضامندی حاصل کرنے پر مجبور ہے۔ اسی لئے جنس ِنر ہمیشہ جنسِ مادہ کی خدمت میں پیش پیش رہتی ہے۔ بہت سے حیوانات جن میں سے انسان بھی ایک ہے، میں مادہ کا نفقہ نر کے ذمے ہے۔ (حیوانات کے درمیان کم از کم حمل کے دوران یا جب تک مادہ انڈوں پر بیٹھتی ہے یہی معمول ہے) نر کے جذبات کو اس طور پر خلق کیا گیا ہے کہ جونہی مادہ اس کی شریکِ زندگی بننے پر رضامندی کا اظہار کر دے تو وہ اس کی خدمت پر تیار ہو جاتا ہے اور اس کی بنیاد دنیا میں موجود بڑی بڑی حکمتوں پر استوار ہے۔
مہر بھی اسی قبیل سے ہے۔ یہ جو کہا گیا ہے کہ مرد کسی چیز کو بعنوان ”صداق“ قرا ردے تو اس کی اساس بھی یہی اصل و قانون ہے، یعنی عورت کو ایک مقام پر اپنی حیثیت منوانی چاہئے۔ اسے کہنا چاہئے کہ تمہیں میری حاجت ہے، مجھے تمہاری حاجت نہیں۔ اور مرد اس بات کے اظہار پر مجبور ہو کہ اسے کوئی چیز عورت پر نثار کرنا ہے تاکہ عورت اس کی ہاں میں ہاں ملائے۔ مرد کو چاہئے کہ وہ کوئی تحفہ عورت کی خدمت میں پیش کرے۔ قرآن نے صداق کو بعنوانِ ”نحلہ“ بیان کیا ہے۔ وہ لوگ غلطی پر ہیں جو ”مہر“ کو ثمن، قیمت یعنی خریدنے کے پیسے قرار دیتے ہیں۔ قرآن نے تو اسے نحلہ اور ہدیہ قرار دیا ہے (جیسا کہ) آپ کسی کو اپنی حاجت روائی پر رضامند کرنے کے لئے اسے تحفہ دیتے ہیں۔ وہ آپ کو تحفہ نہیں دیتا۔ قرآن نے اسے ”صداق“ بھی کہا ہے، صداق یعنی کوئی چیز اس بات کے ثبوت کے لئے دینا کہ میری محبت سچی ہے۔ اس میں صداقت ہے۔ اس میں کھوٹ نہیں ہے۔ یہ شہوت رانی کے لئے نہیں ہے۔ شادی کے لئے ہے۔ فریب و دھوکہ دہی کے لئے نہیں ہے۔ بلکہ یہ سچی محبت ہے۔
درحقیقت خدا نے عورت و مرد کو خلق ہی ایک دوسرے سے مختلف کیا ہے۔ اسی لئے ہمیشہ عورت ہی مرد کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے بناؤ سنگھار کرتی ہے۔ مرد ہرگز اپنے بناؤ سنگھار کے ذریعے عورت کو اپنی جانب متوجہ نہیں کر سکتا۔ عورت اور زیور و زینت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ عورت ایک ظریف و لطیف مخلوق ہے۔ ہر جنس (حتیٰ کہ انسانوں کے علاوہ بھی) میں ہمیشہ مادہ ظریف تر ہے، وہی جمال و زیبائی اور آرائش کا مظہر ہے۔ اگر فتنے کا سدباب کرنا مقصود ہو تو جو مظہر جمال ہے اس سے کہا جائے گا کہ اپنے آپ کو ظاہر نہ کر۔ خشونت و قوت کے مظہر سے یہ بات نہیں کی جائے گی۔ جو دوسرے کو اپنی جانب متوجہ نہیں کرتا اس سے نہیں کہا جائے گا۔ بلکہ جو دوسرے کی نگاہوں کو اپنی طرف کھینچ لے اس سے کہا جائے گا کہ تم گمراہی کے اسباب فراہم نہ کرو۔
عصر حاضر میں (یہ دوسری بات لوگوں میں رواج پا رہی ہے) البتہ میں یقین سے کہتا ہوں کہ یہ بات ناپائیدار ہے۔ آخر شکست کھانے کے بعد لوگ قانونِ فطرت کی طرف لوٹ آئیں گے۔ عورتیں اپنے آپ کو مردوں کے روپ میں ڈھالنے کی کوشش کرتی ہیں اور مردوں کی کوشش ہے کہ وہ اپنے آپ کو عورتوں کے روپ میں ڈھال سکیں۔ یہ نہایت ہی زودگزر اور بچگانہ ہوس ہے۔ زیادہ تر لڑکوں میں دکھائی دیتی ہے۔ یہ ہمارے ہی زمانے کی ایجاد ہے۔ میری رائے میں یہ بہت زودگزر ہے۔ بعض لڑکوں کو لڑکیوں جیسا لباس پہننا، ان کے انداز اپنانا اور ان کی طرح زینت کرنا اچھا لگتا ہے۔ وہ اس حد تک ایسا کرتے ہیں کہ جب انسان کو ان میں کسی سے واسطہ پڑے تو اسے پتہ نہیں چلتا کہ یہ لڑکی ہے یا لڑکا۔ اور کسی نے تو کہا ہے ”یہ سمجھنے کے لئے یہ لڑکی ہے یا لڑکا، بہت عمیق، مطالعات کی ضرورت ہے، یہ رواج خلقت اور اصولِ فطرت کے خلاف ہے۔ انسان میں ایسی بچگانہ اور احمقانہ خواہش کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ یہ رواج تا دیر قائم نہیں رہ سکے گا۔ پس ایک مسئلہ یہ ہے کہ اب جبکہ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ عورت و مرد کو میل جول کے درمیان کھلی ” آزادی“ حاصل نہیں ہے یعنی ان کو ہر طرح کے تعلقات برقرار رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ تو پھر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فقط عورت کو جسم ڈھانپنے کا حکم کیوں دیا گیا ہے۔ مرد کو یہ حکم کیوں نہیں دیا گیا؟ اس کی وجہ یہی تھی جو میں نے بیان کی ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ بنیادی بات ہی کس لئے ہے؟ اس کی کیا ضرورت ہے؟ محرم و نامحرم کے مسئلے کو بیان کرنے کی کیا حاجت ہے؟ عورت پر کیوں واجب کیا گیا ہے کہ وہ اپنے بدن کو نامحرم مردوں سے ڈھانپ کر رکھے؟ اس میں کیا راز ہے اور اس کا کیا فائدہ ہے؟
اس کا پہلا اثر نفسیاتی ہے یعنی ذہنی سکون۔ جس معاشرے میں عورت و مرد کے تعلقات پاکدامنی کی بنیاد پر استوار ہوں (پاکدامنی ان اسلامی حدود کے اندر جن کو میں بعد میں بیان کروں گا) یعنی شادی کے دائرے سے باہر رہ کر عورتیں اپنا بناؤ سنگھار نہ کریں اور مردوں کو شہوت ابھارنے کے اسباب فراہم نہ کریں، مرد بھی آنکھ، ہاتھ وغیرہ کے ذریعے اپنی بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت سے لطف اندوز نہ ہوں تو دل اور روح سکون اور سلامتی سے ہمکنار ہوں گے۔ اور جس معاشرے میں اس کے برعکس حالت ہو گی اس معاشرے میں آنے والی سب سے پہلی مشکل ذہنی پریشانی ہو گی۔ بعض یورپین لوگ اسے تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ عورت و مرد کے ایک دوسرے کے دور ہونے کی صورت میں نفسیاتی الجھنیں اور ذہنی پریشانیاں وجود میں آتی ہیں جبکہ گزشتہ ایک صدی، بلکہ اس سے بھی کمتر مدت میں ثابت ہو چکا ہے کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنسی مسائل میں جتنی زیادہ آزادی ہو گی افراد میں التہا ب اتنا ہی زیادہ ہو گا۔ کیونکہ انسان کے جنسی غریزے (اس کے دوسرے چند غرائز مثلاً جاہ طلبی کے غریزے، طلبِ علم کے غریزے اور عبادت کے غریزے کی مانند) میں محض بدنی ظرفیت نہیں ہوتی بلکہ روحانی ظرفیت بھی پائی جاتی ہے۔ جن غرائز کی ظرفیت محض بدنی ہو مثلاً کھانا، ان کی ظرفیت محدود ہوتی ہے۔ انسان ایک معین مقدار تک کھانا کھا سکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں کھا سکتا۔ اگر اس سے کہا جائے کہ اس مقدار سے زیادہ کھاؤ تو اس کے لئے سزا کے مترادف ہو گا۔ سوال یہ ہوے کہ مالکیت کس قسم میں سے ہے؟ کیا یہ کھانے کی طرح ہے؟ کیا انسانی مالیکت کی ظرفیت کی کوئی انتہاء اور حد ہے؟ یعنی اگر کوئی انسان ایک لاکھ تومانوں کا مالک بن جائے تو پھر اس کی روح بھی مالیکت سے سیر ہو جاتی ہے؟ نہیں۔ جب اس کے پاس ایک لاکھ تومان آ جائیں تو وہ دو لاکھ کی آرزو کرنے لگتا ہے۔ جب دو لاکھ تومان اس کے ہاتھ لگ جائیں تو اس کا جی پانچ لاکھ تومانوں کے لئے للچانے لگتا ہے۔ لاکھوں کا مالک بننے کے بعد ارب پتی بننے کی آرزو کرنے لگتا ہے اور پوری دنیا میں جو شخص سب سے زیادہ مالدار ہے وہی دولت کا سب سے زیادہ پیاسا ہے۔
جاہ طلبی کونسی قسم میں سے ہے؟ وہ بھی اسی قسم میں سے ہے جس شخص کے پاس کوئی منصب نہ ہو وہ کمیٹی کا صدر بننے کی آرزو کرتا ہے۔ لیکن جب وہ کمیٹی کا صدر بن جاتا ہے تو کیا اس کی ظرفیت پُر ہو جاتی ہے اور وہ کہتا ہے بس یہی کافی ہے؟ نہیں۔ اس کے بعد اس کا دل زیادہ کی تمنا کرنے لگتا ہے۔ وہ کسی علاقے یا شہر کی کارپوریشن کا میئر بننا چاہتا ہے۔ اور پھر وہ اس سے بلند منصب حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اگرپوری دنیا کسی شخص کی تحویل میں دے کر اس سے کہا جائے کہ اب تم پوری دنیا کے سلطان بن چکے ہو تب بھی اس کو زیادہ کی ہوس رہے گی اور وہ سوچے گا کہ کیا مزید ایک کرہ کو تسخیر کر کے اس پر حکومت کی جا سکتی ہے؟ انسان کا جنسی غریزہ بھی اسی قسم میں سے ہے
 

صرف علی

محفلین
چھٹی تقریر
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
…اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ​
اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ مَثَلُ نُوْرِہ کَمِشْکٰوةٍ فِیْھَا مِصْبَاحُ طاَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍ اَلزُّجَاجَةُ کَاَلَّھَا کَوْکَبُ  دُرِّیّ یُّوْ قَدُ منْ شَجَرَةٍ مُّبَارَکَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لاَّ شَرْقِیَّةٍ وَّ لاَ غَرْبِیَّةٍ یَّکَادُ زَیْتُھَا یُضِیْٓ ءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارُ ط نُوْرُ  عَلیٰ نُورٍط یَھْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِ۵ ٰ مَنْ یَّشَآ ءُ وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِطوَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْ ءٍ عَلِیْمُ ۔ (سُورہٴ نُور، آیت ۳۵)
سورہ مبارکہ نور کو اسی آیت کی بدولت ”سورہ نور“ کہا جاتا ہے چونکہ اس میں ” آیة نور“ آئی ہے۔ اسی مناسبت سے اس کا نام سورہ نور پڑ گیا ہے۔ تفسیر کے لحاظ سے یہ آیت قرآن مجید کی مشکل آیات میں سے ایک ہے۔ خصوصاً قرآن کریم کی اسی آیت کے آخر میں ایک جملہ آیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ آیت بہت زیادہ تدبر و تامل کے قابل ہے۔ ہر شخص اپنی اپنی قابلیت کے مطابق اس آیت کے معانی سمجھتا ہے۔ چونکہ مثال بیان کرنے کے بعد آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا جا رہا ہے ”وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الٰاَمْثَالَ للنَّاسِ“ خدا لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے۔ بعض دیگر آیات میں ارشاد ہوتا ہے۔ ”خدا لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے لیکن فقط علماء ان ہی ان مثالوں کی تہ تک پہنچ پاتے ہیں۔“ اس سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن مجید میں بیان شدہ مثالیں بہت عمیق ہیں، اس قدر عمیق کہ ہر کسی کو یہ دعویٰ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے کہ میں نے مثالوں میں بیان شدہ مطالب کو پورے طور پر سمجھ لیا ہے۔ اب ہم احادیث اور مفسرین کے اقوال کی روشنی میں چند مطالب بیان کریں گے۔ آیت یہ ہے ”اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ“ یعنی خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس نکتے پر توجہ کرنے سے کہ قرآن آسمانوں اور زمین کو مخلوقات کا ایک حصہ قرار نہیں دیتا بلکہ وہ تمام مخلوقات، علوی و سفلی، غیب و حضور، تمام کی تمام مخلوقات کو بیان کرنے کے لئے ” آسمانوں اور زمین“ کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ آیت کا معنی یہ ہو گا کہ خدا تمام کائنات کا نور ہے۔ پس اس آیت کی ابتدا میں خداتعالےٰ پر لفظ ”نور“ کا اطلاق ہوا ہے۔ لفظ ”نور“ سننے سے انسان کے ذہن میں اسی محسوس نور کا تصور ابھرتا ہے اور فزکس دانوں کی رائے میں اس حسی نور کی حقیقت بھی پورے طور پر معلوم نہیں ہو سکی۔ قدرِ مسلم یہ ہے کہ جھانِ مادہ میں ”نور“ کے نام کی کوئی چیز موجود ہے اگرچہ سائنسی اعتبار سے اس کی شناخت مشکل ہے۔
بعض اجسام نیر اور نور افشان ہیں مثلاً سورج، ستارے اور انسانوں کے ہاتھوں بنائے گئے چراغ اور بلب وغیرہ۔ اگر یہ روشنیاں نہ ہوتیں تو پوری دنیا تاریکی میں ڈوبی ہوئی ہوتی۔ ہاتھ کو ہاتھ بھی سجھائی نہ دیتا۔ اس نور کی وجہ سے جہان میں روشنی ہے۔ اس نور کو حسی و مادی نور کہا جاتا ہے۔ اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ قرآن میں جو کہا گیا ہے کہ ”خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے“ تو اس نور سے حسی نور مراد نہیں ہے۔ بلکہ حسی نور تو خود خدا کی ایک مخلوق ہے۔ سورہ مبارکہ انعام کی پہلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے ”الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّھِمْ یَعْدِلُوْنَ۔“ اللہ کی تعریف ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو خلق کیا اور ان میں تاریکیوں اور نور کو قرار دیا…“ تو ثابت ہوا کہ خدا اس نور کا خالق ہے۔ (وہ خود نورِ حسّی نہیں ہے) ۔ یہ اس قدر مسلم بات ہے کہ قرآن کی نظر میں اس میں کلام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ نہ فقط یہ نور خدا کی مخلوق ہے بلکہ قرآن ہمیشہ اس نور کے منابع یعنی سورج، ستاروں کے متعلق بحث کرتے ہوئے ان کو بھی ذاتِ اقدس کی مخلوق قرار دیتا ہے۔ ہو سکتا ہے کسی شخص کا خدا کے متعلق ایسا تصور ہو جو ”بڑھیا کے تصور“ سے مشہور ہے۔ اس بڑھیا کا خیال ہے کہ خداوند عرش پر نور کا ایک ذخیرہ ہے۔ وہ خدا کے نور کو بجلی و خورشید سے ملتی جلتی چیز ہی خیال کرتی ہے۔ اگر واقعی کسی کا یہی اعتقاد ہو تو اس کا عقیدہٴ توحید ناقص ہے اور اس کا ایمان کمزور ہے۔ حسّی نور کو تو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کے متعلق قرآن کہتا ہے ”لاَتُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَھُوْ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ۔“ خدا کو آنکھوں سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس صورت میں اگر کوئی شخص۔ نعوذ باللہ۔ خدا کو اس نور کی ایک قسم قرار دے تو ظاہر ہے کہ اس کا عقیدہٴ توحید ناقص ہو گا اور ایسے شخص کو مجسم کہتے ہیں کیونکہ اس نے خدا کو جسم اور نظر آنے والا فرض کیا ہے۔
لفظ ”نور“ کا مصداق حسّی نور میں ہی منحصر ہی نہیں ہے بلکہ لفظ نور ہر اس چیز کے لئے وضع کیا گیا ہے جو خود بھی روشن ہو اور دوسرے کو بھی روشن کرے یعنی خود بھی ہویدا ہو اور دوسروں کو بھی ہویدا کرے۔ ہم اس حسیّ نو رکو اسی وجہ سے ”نور“ کہتے ہیں کہ یہ خود بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہویدا ہے اور دوسری چیزوں کو بھی ہویدا کرتا ہے۔ جو چیز خود بھی آشکار ہو اور دوسروں کو آشکار کرنے والی ہو اس کو ہم ”نور“ کہہ سکتے ہیں (اور کہتے بھی ہیں) چاہے وہ جسم نہ بھی ہو، (حسّی نہ ہو)۔ مثلاً علم کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ ”علم نور ہے“۔ حدیث میں ہے ”اَلْعِلْمُ نُوْرُ  یَّقْذِفُہُ اللّٰہُ فِیْ قلْبِ مَنْ یَّشَآءُ۔“ اور یہ بات درست ہے۔ واقعی علم نور ہے کیونکہ علم خود بھی آشکا رہے اور غیر کو بھی آشکار کرتا ہے۔ علم اپنی ذات میں روشنی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ انسان پر دنیا کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ تاہم یہ بھی مسلم ہے کہ علم بجلی و سورج وغیرہ کے نور جیسا نور نہیں ہے۔ اصلاً علم جسم و جسمانیات کی اقسام میں سے نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم اسے نور کہتے ہیں۔ عقل کو بھی ”نور“ کہتے ہیں۔
 

صرف علی

محفلین
عقل بھی ایک نور ہے۔ قرآن کریم نے ایمان کو بھی ”نور“ سے تعبیر کیا ہے۔ ”اَوَمَنْ کَانَ مَیْتاً فَاَحْیَیْنَاہُ وَجَعَلْنَا لَہ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْھَا۔ “ (انعام۔ ۱۲۲) کیا وہ جو مردہ تھا اور ہم نے اسے زندہ کیا اور ہم نے اس کے لئے نور قرار دیا جس کی بدولت وہ لوگوں کے درمیان چلتا ہے…“ اس میں جو لفظ ”نور“ آیا ہے تو اس سے مراد ”نورِ ایمان“ اور ”دل کی روشنی“ ہے۔ ایمان فانوس، بلب اور سورج وغیرہ کے نور جیسا نور نہیں ہے۔ ایمان بذاتِ خود ایک غیرجسمانی حقیقت ہے۔ وہ غیر کو روشن او رظاہر کرنے کااثر اپنے اندر رکھتا ہے۔ وہ انسان کو ایک طرح کا شعور عطا کرتا ہے۔ انسان کی راہنمائی مقصد کی جانب کرتا ہے چونکہ ایمان انسان کے مقصد کا تعین کرتا ہے اور اسے سعادت بخش مقصد کی جانب لے کر جاتا ہے۔ اس لئے ہم ایمان کو ”نور“ کہتے ہیں۔ عرفاء عشق کو ”نور“ کہتے ہیں۔ مولانا جال الدین رومی فرماتے ہیں۔
عشق قہار است و من مقہورِ عشق
چون قمر روشن شدم از نورِ عشق!
عشق غالب ہے اور میں مغلوب ہوں۔ میں نورِ عشق سے چاند کی مانند منور ہو گیا ہوں۔
اب جبکہ ہم نے ”نور“ کا معنی یہ کیا ہے کہ وہ ایک ایسی واقعیت ہے جو خود بھی آشکار ہو اور غیر کو بھی آشکار کرے، یعنی خود بھی روشن اور غیر کو روشن کرنے والی حقیقت کا نام ”نور“ ہے اور مزید کسی چیز کو اس کی ماہیت میں دخل نہ دیں کہ مثلاً یہ نہ کہیں آنکھ، عقل یا دل کے لئے آشکار ہو۔ اس جہت سے ہمارا کوئی واسطہ نہ ہو کہ وہ کیونکر آشکار اور آشکار کرنے والا ہے تو اس معنی کے لحاظ سے خداوند تعالیٰ کو ”نور“ قرا ردینا درست ہے۔ ”خدا نور ہے“ اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک ایسی واقعیت ہے جو فِیْ ذَاتِہ آشکار اور آشکار کرنے والی ہے۔ اس معنی کے اعتبار سے کوئی چیز بھی خدا کے مقابلے میں نور نہیں ہے۔ یعنی اللہ کے سامنے تمام نور تاریکیاں ہیں۔ فقط اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی ہے جو فِیْ ذَاتِہ ظاہر اور ظاہر کرنے والی ہے۔ اگر دوسری اشیاء میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے تو یہ خصوصیت ان کی ذات میں داخل نہیں ہے۔ ان کی ذات میں تاریکی ہے۔ خدا نے ان کو ظاہر اور ظاہر کرنے والا بنایا ہے۔ خدا فرماتا ہے۔ ھُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ والظَّاہِرُ…!
خدا ظاہر ہے۔ ”ظاہر ہے“ کا مطلب ہے کہ آشکار ہے۔ خدا تمام اشیاء کا خالق ہے۔ یعنی اشیاء کو وجود میں لانے اور انہیں پیدا کرنے والا ہے۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ احادیث اور دعاؤں میں لفظ ”نور“ کو اللہ تعالیٰ کے ایک اسم کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ نور خدا کا نام ہے۔ دعائے کمیل کے اوائل میں دو کلمات ایسے ہیں جن سے اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ امیرالمومنین خداوند تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں ”یَا نُوْرُ یَا قُدُّوْسُ“ اے نور، اے بہت زیادہ مقدس اور بے عیب۔ ممکن ہے ”یاقدوس“ کو ”یا نور“ کے بعد لانے کی وجہ یہ ہو کہ کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ خداوند تعالیٰ ویسا ہی نور ہے جیسا کہ مانوی لوگ خیال کرتے ہیں۔ وہ خدا کو جسمانی نور قرار دیتے ہیں جبکہ خدا ایسی نسبتوں سے منزہ ہے وہ نور ہے لیکن ان حسّی و جسمانی انوار میں سے نہیں ہے۔ دعائے کمیل میں ہی یا نور یا قُدوس سے چند جملے قبل ایک بہت ہی لطیف جملہ ہے، وہ یہ کہ وَبِنُوْرِ وَجْھِکَ الَّذِیْٓ اَضَآءَ لَہ کُلُّ شَیْ ءٍ۔
عرفا اور شعراء محبوب کو ”شاہد“ سے تعبیر کرتے ہیں (یہ بات فارسی میں ہی نہیں عربی میں بھی پائی جاتی ہے)۔ شاہد اسے کہا جاتا ہے جو بزم میں موجود ہو۔ وہ اس طرح کہتے ہیں کہ اے محبوب! تم آتے ہو تو تمہارے چہرے سے ہماری محفل چمک اٹھتی ہے۔ اگر تیرا چہرہ نہ ہو تو ہماری محفل تاریکی میں ڈوبی رہتی ہے۔ حافظ کہتا ہے۔
اینہمہ عکس مے و نقش رخ مخالف کہ نمود
یک فروغِ رخ ساقی است کہ درجام افتاد
امیرالموٴمنین علیہ اسلام بھی فرماتے ہیں کہ ”وَبِنُوْرِ وَجْھِکَ الَّذِیْٓ اَضَآءَ لَہ کُلُ شَیْ ءٍ۔“ تجھے تیرے چہرے کے نور کی قسم کہ جس کی بدولت تمام اشیاء تابندہ ہیں۔ اگر تیرے چہرے کانور اور تیری ذات کا نور نہ ہو تو تمام اشیاء تاریک ہوں (یعنی سب کچھ تجھ سے منور ہے) اور ”سب کچھ تاریک ہو“ کا مطلب یہ ہے کہ اصلاً کوئی چیز بھی نہ ہو۔ ہر چیز معدوم ہوتی۔ یعنی یہ مطلب نہیں ہے کہ تمام چیزیں موجود ہوتیں لیکن تاریکی میں ہوتیں، اس تاریکی کی مانند جس میں ہم رات کے وقت ہوتے ہیں۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر تیری ذات کا نور نہ ہوتا تو کسی چیز کا بھی وجود نہ ہوتا اور تمام اشیاء نیستی کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی ہوتیں۔
ہمہ عالم بہ نورِ اوست پیدا
کجا اوگر دو از عالم ہویدا
شیخ صدق کی کتاب ”التوحید“ میں ایک روایت ہے کہ ایک غیرمسلم آدمی نے امیرالمومنین کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا علی! خدا کہا ں ہے؟ تو آپ نے ایندھن لانے کا حکم دیا۔ ایندھن لایا گیا (شاید رات کا وقت بھی تھا) تو آپ نے فرمایا اسے آگ لگائی جائے۔ جب آگ لگائی گئی تو ہر طرف روشنی پھیل گئی۔ آپ نے فرمایا بتاؤ نور کہا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ہر جگہ۔ آپ نے جواب دیا کہ یہ نور خدا کی ایک مخلوق ہے۔ تم نہیں بتا سکتے کہ یہ کہاں ہے۔ تمہارا کہنا ہے کہ نور ہر اس جگہ پر ہے جہاں تک اس کی روشنی پہنچ رہی ہے تو خدا بھی ہر جگہ ہے وہ بھی ہر اس جگہ پر ہے جہاں اس کی روشنی پہنچ رہی ہے۔ ہر جگہ خدا کی بدولت ہی روشن ہے۔ جگہ خود ایک ایسی چیز ہے جسے خدا نے روشن کیا ہے اور اس کے علاوہ اس کی کوئی حقیقت بھی نہیں ہے۔ وَبِنُوْرِ وَجْھِکَ الَّذِیْ اَضآءَ لَہ کُلُّ شَیْءٍ ۔“ پس ایک سوال تو یہ ہے کہ کیا ہم خداوند تعالیٰ پر لفظ ”نور“ کا اطلاق کر سکتے ہیں یا نہیں؟ جی ہاں، کر سکتے ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آئمہ نے بھی کیا ہے اور خود قرآن نے بھی کیا ہے اور عقلی طور پر بھی کوئی چیز اس سے مانع نہیں ہے۔ لیکن اس بات کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ خدا نو رہے تو اس سے یہ مراد نہیں ہوتی۔ نعوذباللہ۔ کہ خدا حسّی و جسمانی نور ہے کیونکہ یہ نور تو خدا کی مخلوق ہیں۔ بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ ذاتِ الٰہی ایسی ذات ہے جو سب سے زیادہ ظاہر ہے، سب سے زیادہ روشن ہے اور ہر چیز اسی کے جلوے کی بدولت روشن ہے۔ اور خدا کے نور ہونے کا یہی معنی ہے۔ خداوند تعالیٰ خودبخود ظاہر ہے، کسی دوسری چیز نے اسے ظاہر نہیں کیا بلکہ اس نے تمام اشیاء کو ظاہر اور روشن کیا ہے۔ اس معنی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم خداوند تعالیٰ پر لفظ ”نور“ کا اطلاق کر سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ نور میں ہدایت و رہنمائی جو کہ روشنی کا لازمہ ہے، کی خصوصیت بھی پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک مسئلہ اور بھی ہے جسے بعد میں بیان کروں گا۔ ایک اور نقطہ یہاں بیان کرنا چلوں کہ ہم خداوند تعالیٰ کو ”نور“ تو کہتے ہیں لیکن ”نورِ اعظم“ ہرگز نہیں کہتے۔ کیونکہ اس کا معنی یہ ہو گا کہ نور زیادہ ہیں، ان میں ایک سب سے بڑا نور ہے دوسرا چھوٹا۔ خدا سب سے بڑا نور ہے، بلکہ جب ہم کہتے ہیں کہ خدا نور ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ خدا کے علاوہ تمام اشیاء ظلمت میں ہیں۔ ہاں اگر خدا کا ذکر نہ کیا جائے ، فقط اشیاء کا ایک دوسری سے موازنہ کیا جائے تو اس صورت میں ان میں ایک چیز نور ہو گی اور دوسری نور نہیں ہو گی۔ مثلاً علم نور ہے۔ ایمان نور ہے۔ قوہ باصرہ نور ہے۔ قوہ عاقلہ نو رہے۔ اس معنی کو پیش نظر رکھا جائے تو خدا ”نور النور“ تو ضرور ہے مگر نورِ اعظم ہرگز نہیں ہے۔ وہ تمام انوار کا نور ہے یعنی خدا کے مقابلے میں تمام نور تاریکیاں ہیں۔ خدا نے ہی ان کو نور بننے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ اگر فقط اشیاء ہی پیش نظر ہوں تو پھر ہر شے میں اس کے حصے کا نور پایا جاتا ہے۔ ایمان نور ہے، علم نور ہے وغیرہ وغیرہ۔
 

صرف علی

محفلین
ہم عرض کر چکے ہیں کہ قرآن مجید نے بعض اشیاء کو ”نور“ کہا ہے۔ ان میں سے ایک خود قرآن ہے جسے ”نور“ کہا گیا ہے۔ قرآن خدا کا نور ہے یعنی یہ ایسا نور ہے جسے خدا نے خلق کیا ہے۔ قَدْ جَآ ءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرُ  وَّ کِتَابُ  مُّبِیْنُ  یَّھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہ سُبُلَ السَّلاَمِ وَیُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِہ وَیَھْدِیْھِمْ اِلیٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ۔“ قرآن نور ہے اور وہ نور جو کہ اللہ کی معرفت ہے، کی جانب راہنمائی کرتا ہے۔ پس اللہ کی معرفت بھی نور ہے۔
اگر کم سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد سے ”اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ“ کا معنی پوچھا جائے تو وہ اس کا معنی حسّی نور ہی کریں گے۔ مگر ہم یہاں بات کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھنے والے افراد کو مخاطب کرکے عرض کرتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ خدا نور عطا کرتا ہے بلکہ وہ بذاتِ خود بھی واقعاً نور ہے۔ اور خدا کا ایک نام ”نور“ ہے۔ نور کا معنی وہ نہیں ہے جو انسان کے خیال میں ہے اور وہ منحصر ہے حسّی نور میں۔ یہاں تک آیت کے پہلے جملے کی وضاحت تھی۔
دوسرے جملے میں خدا کے نور کی مثال بیان ہوئی ہے یعنی خود خدا کی مثال بیان نہیں ہوئی۔ مثال بین کرنے سے قبل ارشاد ہوتا ہے کہ ”اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ“ خدا بذاتِ خود آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ البتہ اس نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے واسطے ان کے درمیان چند نور بھیجے ہیں۔ اس آیت میں ”خدا کے نور“ کی تمثیل بیان کی گئی ہے، وہ نور کہ جس کے وسیلے سے لوگوں کو ہدایت کرتا ہے۔ اس تمثیل کے متعلق علماء کے مابین بہت زیادہ بحث ہوئی ہے۔ قرآن نے یہاں نور کی تمثیل کے لئے نور کے ایک قدیمی وسیلے (چراغ) کو بیان کیا ہے۔ وہ مثال کے لئے بڑے اور ان بلندپایہ گھر یا گھروں، معابد اور مشاہد کا ذکر کرتا ہے جن میں مشکوٰة یعنی چراغدان ہو اور چراغدان سے مراد وہ طاق ہے جو چراغ رکھنے کے واسطے دیوار میں بنایا جاتا تھا۔ قرآن مثال کی خاطر اس چراغ کا ذکر کر رہا ہے جو ایک شفاف چیز (مثلاً) قندیل یا شیشے کے اندر ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ جب چراغ شیشے کے اندر ہو تو انوار کے متعاکس ہونے یا احتراق کے کاملتر ہونے (بہرحال جو کچھ بھی ہو) کے باعث اس میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
وہ شیشے اور قندیل والا چراغ ایک کمرے کے اندر مشکوٰة میں ہے اور چراغ زیتون کے تیل، جو کہ جلنے کے لئے بہترین تیل ہے اور وہ بھی بہترین زیتون، سے استفادہ کرتا ہے۔ ایسے زیتون سے استفادہ کرتا ہے جس میں احتراق کی صلاحیت اس حد تک پائی جاتی ہے کہ گویا وہ آگ لگنے سے پیشتر ہی چمکنا اور نور افشانی کرنا چاہتا ہے۔ اس زمانے میں انسانی ایجادات میں سے چراغ ہی سب سے زیادہ منور، نورانی اور نور کا بہترین ذریعہ تھا۔
خدا نے اپنے نور کی مثال دینے کے لئے اس خاص چراغ کا انتخاب کیا ہے جو خاص قسم کے تیل سے جلتا ہے اور خاص صفات کے حامل گھر میں موجود ہو۔ مثال بیان کرنے کے بعد خدا ارشاد فرماتا ہے کہ ہم مثالیں بیان کرتے ہیں اور ان مثالوں میں غور و فکر کرنے کا کام لوگوں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ میں کئی مرتبہ عرض کرچکا ہوں کہ قرآن کی سنت لوگوں کو تفکر کی دعوت دینا ہے۔ وہ فقط یہی نہیں کہتا کہ جاؤ فکر کرو۔ بلکہ بعض اوقات ایک جانب تو غور و فکر کرنے کو کہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ موضوع کو اس طور پر پیش کرتا ہے کہ اذہان خودبخود اس کے متعلق غور و فکر کرنے لگتے ہیں اور وہ مطلب کی تہ تک پہنچنے کے لئے زیادہ سے زیادہ غور و فکر کرتے ہیں۔ جس طرح آٰپ حضرات اپنے بچوں کی ذہنی بالیدگی کی خاطر بعض مسائل پہیلیوں کی صورت میں ان کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ بچے ذہن کو کام میں لائیں اور زیادہ سے زیادہ غور و فکر کریں۔
قرآن نے اپنا مطلوبہ مقصد اسی تمثیل کے ذریعے حاصل کیا ہے۔ یعنی فقط مفسرین میں ہی اس مثال پر غور کرنے کی رغبت پیدا نہیں ہوئی بلکہ غیرمفسرین نے بھی اس پر غور کیا ہے کہ قرآن نے جو چراغ، شیشے، چراغدان، تیل، مبارک، درخت اور اس تیل کا ذکر کیا ہے جو خودبخود بھڑکنا اور آگ کے بغیر ہی نور افشانی کرنا چاہتا ہے تو ان سے قرآن کی مراد کیا ہے؟ (یعنی قرآن کس چیز کو بیان کرنا چاہتا ہے) مثلاً بوعلی سینا مفسر نہیں ہے اور تفسیر اس کا فن بھی نہیں تھا۔ اس کے باوجود اس نے بھی اس آیت میں غور کیا ہے۔ اس کے ذہن میں ایک بات آئی جسے اس نے بیان کیا ہے۔ غزالی بھی مفسر نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اس نے اس آیت پر ایک کتاب تحریر کی ہے۔ غزالی اور بو عی سینا دونوں نظریہ یہ ہے کہ یہ مثال انسان کی مثال ہے۔ قرآن نے جس نوکر کا ذکر کیا ہے کہ ”نور خدا کی مثال اس چراغدان کی سی ہے جس میں چراغ ہو اور وہ چراغ ایک قندیل میں ہو…“ اس سے مراد انسان ہے۔ البتہ بوعلی سینا او رغزالی کے طرزِ استدلال میں تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔
فلسفے کی سرگرمیوں میں سے انسان شناسی و نفسیات بھی ایک ہے۔ نفسیات کے مسائل میں فلسفی سب سے زیادہ اعتماد قوہ عاقلہ پر کرتا ہے۔ وہ معتقد ہے کہ انسان کی انسانیت اس کا قوہ عاقلہ ہی ہے۔ انسان کا کمال قوہ عاقلہ کے کمال کا نام ہے۔ انسان کی سعادت بھی قوہ عاقلہ کے کمال میں پنہاں ہے۔ وہ عقل عملی ہو چاہے عقل نظری اور پہلے درجے میں عقل نظری ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب فلاسفر قائل ہوئے کہ یہ مثال انسان کی ہے تو انہوں نے اسے انسان کے اصلی جوہر یعنی قوہ عاقلہ سے متعلق قرا ردیا … پھر انہوں نے اس کو ان مراحل و مراتب پر منطبق کیا جو وہ خود قوہ عاقلہ میں تشخیص دے چکے تھے۔ مثلاً انہوں مشکوٰة کو ”عقل ہیولانی“ پر منطبق کیا۔ یعنی وہ عقل جو قوة و استعداد محض کے مرحلے میں ہے۔ اور زجاجہ، شیشہ اور نور کو زیادہ کرنے والی چیز کو ”عقل بالملکہ“ پر منطبق کیا اور مصباح کو ”عقل بالفعل“ پر اور درخت کو ”درختِ فکر“ قرار دیا ہے۔ میں یہاں یہ بیان نہیں کرنا چاہتا کہ ان کی بات کس حد تک صحیح ہے۔ ان کی بات چاہے صحیح ہو یا غلط (البتہ ان کی بات کا صحیح ہونا کچھ بعید لگتا ہے۔) بو علی سینا نے اپنے نظریہ بیان کرتے ہوئے اسے آیت کی تفسیر قرار نہیں دیا۔ اس نے مراتب عقل کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اسے آیت کی تفسیر کا نام دیئے بغیر اس پر الفاظِ قرآنی کو منطبق کردیا ہے جبکہ غزالی کے طرز بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس آیت کی تفسیر بیان کرنا چاہتا تھا۔ بعض دیگر دانشمندوں کا کہنا ہے کہ مشکوٰة، مصباح اور زجاجہ سے فقط ایک ہی چیز خدا تعالیٰ کے مدنظر تھی۔ اور وہ ہے وہ نور جو بہت زیادہ روشن ہو۔ اگر ہم رات کے وقت اس مسجد جیسے کسی مکان میں ہوں اور اس میں بہت زیادہ نورانی چراغ موجود ہو تو اس صورت میں کیا کیفیت ہو گی؟ پھر کوئی شک و ابہام باقی نہیں رہے گا۔ تو ان دانشمندوں کا کہنا ہے کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اندھیری رات کے وقت ایک بند کمرے میں موجود فلاں فلاں خصوصیات کا حامل چراغ روشن، واضح اور ہویدا ہوتا ہے ویسے ہی اس چراغ کی طرح نورِ خدا اور ہدایتِ الٰہی بھی زیادہ واضح، روشن اور ہویدا ہے۔
ہماری احادیث میں اس آیت کی تفسیر دو طرح سے کی گئی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس آیت میں مختلف تفاسیر پر منطبق ہونے کی قابلیت پائی جاتی ہے۔ بعض روایات میں بھی اسے انسان کی مثال قرار دیا گیا ہے۔ البتہ ان روایات میں اسے انسان کی عقل پر نہیں بلکہ اس کے ایمان پر منطبق کیا گیا ہے۔ احادیث میں مشکوٰة، زجاجہ اور مصباح کو انسان کے بدن، سینے، دل، دماغ اور اس کے نورِ ایمان سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ ایمان کا نور کس طرح انسان کے دل میں جاگزین ہوتا ہے اور انسان کی روح کیسے اس کے بدن میں واقع ہوتی ہے، تو بعض احادیث میں اس کو ایمان کے پہلو سے انسان کی مثال قرا ردیا گیا ہے۔
بعض دیگر احادیث میں بھی اسے انسان کی مثال قرار دیا گیا ہے لیکن موٴمن کی مثال قرار نہیں دیا گیا بلکہ اسے انسانیت کی ہدایت کے مرکز یعنی نبوت اور وہ بھی خاتم النبین کی مثال بتایا گیا ہے۔ اس قول کی دلیل یہ ہے کہ آیت کے آخر میں ارشاد ہوتا ہے کہ ”یَھْدیِ اللّٰہُ لِنُوْرِہ مَنْ یَّشَآ ءُ “۔ واضح ہے کہ یہ اس نور کا تذکرہ ہے جس کے وسیلے سے خدا لوگوں کی راہنمائی کرتا ہے۔ حدیث میں چراغدان کو ”نبی اکرم کے سینے“ اور چراغ ایمان کو اس ”نورِ وحی“ پر منطبق کیا گیا ہے جو آپ کے مقدس قلب میں ہے۔ اس کے بعد یہ جو آیت میں ہے کہ ”اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍ“ تو چونکہ چراغ کو قندیل میں منتقل کیا جاتا ہے اس لئے آیت کے مدنظر اس انتقال کا پہلو ہے یعنی مراد یہ ہے کہ یہ نو رنبی اکرم سے امیر المومنین کی جانب منتقل ہوا ہے۔ زجاجہ سے مراد امیرالمومنین ہیں اور جس درخت کے تیل سے نورانیت میں اضافہ ہوتا ہے اس سے حضرت ابراہیم مراد ہیں۔ اور چونکہ آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ درخت نہ مشرقی ہے اور نہ مغربی، (حدیث میں ہے کہ ) اس اس سے مراد یہ ہے کہ ”مَا کَانَ اِبْرَاھِیْمُ یَھُوْ دِیًّا وَّلاَ نَصْرَانِیًّا۔“ ابراہیم کا جھکاؤ نہ تو دائیں جانب تھا او رنہ ہی بائیں جانب۔ آپ نہ تو یہودیوں کے غلط راستے پر تھے اور نہ ہی عیسائیوں کے غلط راستے پر بلکہ آپ جادہٴ حق پر گامزن تھے۔ ”وَلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا۔“
پس یہ آیت اور اس مثال کی مزید ایک تفسیر ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ یہ آیت ایسی آیت نہیں ہے جس کے متعلق میں دعویٰ کے ساتھ کہہ سکوں کہ اس مثال سے یقینی طور پر وہی مراد ہے جو میں بیان کر رہا ہوں۔ خدا نے اس لئے مثال بیان کی ہے کہ ہم اس میں غور و فکر کریں۔ یہ ایک ایسی جامع مثال ہے کہ اس تمام جہان کے لئے خدا کی ہدایت کی مثال بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یعنی پوری دنیا کو ایک ایسے گھر سے تشبیہہہ دی گئی ہے جو مکمل طور پر تاریک نہیں ہے بلکہ اس میں بہت زیادہ نورانی چراغ موجود ہے اور وہ خدا کا نور ہے۔ اس بات کو قرآن مجید کی دوسری آیات میں بھی بیان کیا گیا ہے اور یہ بات بہت ہی عمیق ہے کہ جہان کے تمام ذرات خدا کی تسبیح کرتے ہیں یعنی جہاں کے تمام ذرات اپنے خالق کے وجود سے آگاہ ہیں۔
 

صرف علی

محفلین
ساتویں تقریر
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
…اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ​
اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ مَثَلُ نُوْرِہ…
اس آیتِ کریمہ کی تفسیر کو دو حصوں میں بیان کیا جا چکا ہے۔ پہلا حصہ ذات الٰہی پر لفظ ”نور“ کے اطلاق کے متعلق تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ”اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرضِ دوسرے حصے میں اس مثال پر بحث کی گئی جس کا ذکر آیتِ کریمہ میں آیا ہے۔ آیت میں درحقیقت ایسے گھر یا گھروں کو فرض کیا گیا ہے جو چراغ کے ذریعے (اسی ترتیب کے ساتھ جس کو گزشتہ تقریر میں بیان کر چکا ہوں) منور ہوں۔ قرآن نے اسے خدا کی مثال قرار نہیں دیا بلکہ خلق میں نور خدا کی مثال قرار دیا ہے۔ میں نے اس مثال کے مضمون کے متعلق چند نکات بیان کئے تھے اور وعدہ کیا تھا کہ ان کا نتیجہ آج کی تقریر میں بیان کروں گا۔
پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ یہ آیت ان آیات میں سے ہے جنہوں نے مفسرین اور غیرمفسرین سب کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی ہے۔ اب میں ایک نکتہ بیان کرتا ہوں، شاید وہ کسی حد تک اس آیت کے مضمون کو واضح کر سکے۔ وہ یہ ہے کہ ہماری احادیث میں ”معرفة اللّٰہ“ یعنی خداشناسی کے باب میں ایک مطلب آیا ہے جو ابتدا میں بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہر چیز کو خدا کے ذریعے پہچانا جاتا ہے اور خدا کی معرفت اس کی اپنی ذات کے ساتھ ہوتی ہے۔ بلکہ ہماری احادیث میں بہت عمدہ قول وارد ہوا ہے، ظاہراً عبارت یہ ہے۔ ”کُلُّ مَعْرُوْفٍم بِغَیْرِہ مَصْنُوْعُ ۔ یعنی ہر وہ چیز جس کو غیر کے ذریعے پہچانا جائے وہ مخلوق ہے، خدا نہیں ہے۔ یہ بہت ہی عمدہ جملہ ہے کہ ”خدا کو اس کی ذات کے ذریعے سمجھا جاتا ہے اور غیر خدا کو خدا کے ذریعے“، جبکہ ہم خیال کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی خیال کرتے ہیں کہ فقط یہی ایک راستہ ہے اور کہتے ہیں کہ ہم جھان کو جھان کے ذریعے سمجھتے ہیں یعنی ہم مخلوقات کی شناخت مخلوقات کے ذریعے کرتے ہیں اور خدا کی شناخت بھی مخلوقات کے ذریعے کرتے ہیں۔ بعض مسلمان رائٹرز نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ (شروع میں اس نظریے کو مصریوں نے پیش کیا، بعد میں دوسرے بھی اسی کے معتقد ہو گئے کہ) مخلوقات خدا کو پہچاننے کا واحد راستہ ہیں۔ خدا کو فقط اور فقط مخلوقات کے ذریعے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے اس انحصار کو قرآن سے منسوب کر دیا جبکہ یہ انحصار بطور مسلم غلط ہے۔ (البتہ) عوام الناس کے لئے یہ صحیح ہے یعنی عوام الناس کو خدا کی یاددہانی کرانے کا پہلا راستہ اور پہلی کلاس یہی ہے۔ قرآن نے بھی یہی کیا ہے۔ اس نے مخلوقات کو اللہ تعالیٰ کی آیات اور نشانیاں قرار دیا ہے ۔ البتہ اس طریقے سے انسان کو خدا کا فقط ایک اجمالی اور مبہم سا نشان ہی ملتا ہے۔ معرقتِ خدا اور خداشناسی تک اس کی رسائی نہیں ہوتی۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم میں ہمیں ایک قانون نظر آتا ہے (جس کی طرف گزشتہ تقریر میں بھی اشارہ کر چکا ہوں)۔ وہ قانون ہدایت ہے۔ یعنی قرآن کسی چیز کو بھی اندھا اور گمراہ نہیں سمجھتا۔ وہ تمام اشیاء کو بینا اور راہ یافتہ قرار دیتا ہے البتہ انسان کا مسئلہ ان سے جدا ہے کیونکہ اسے اپنا راستہ خود ہی تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے وہ اپنے فرض کی ادائیگی میں ایک نسبی گمراہی سے دوچار ہو جاتا ہے، میں یہاں دنیا کے تکوینی نظام کی بات کر رہا ہوں۔
قرآن نے تمام مخلوقات کی ہدایت کے موضوع کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس نے موسیٰ علیہ اسلام کے قول کو نقل کیا ہے جب فرعون نے کہا کہ تمہارا خدا کون ہے۔ ہمیں اپنے خدا کے بارے میں بتاؤ۔ تو موسیٰ علیہ اسلام نے کہا۔ ”رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْ ءٍ خَلُقَہ ثُمَّ ھَدٰی“ اس آیت میں دو دلیلوں کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔ ایک برھانِ نظم کی جانب یعنی ہر چیز میں جس شیٴ کی لیاقت پائی جاتی ہو وہ اللہ تعالیٰ نے اسے دی ہے۔ یعنی موجودہ نظام کی جانب اشارہ ہے اور دوسری دلیل ”ثُمَّ ھَدٰی“ ہے۔ یعنی خدا نے ہر چیز کی ہدایت اس کے مستقبل ہدف اور کمال کی جانب بھی کی ہے۔
سورہ اعلیٰ میں ارشاد ہوتا ہے ”اَلَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَھَدیٰ“ اور مفسرین میں سے میں نے فقط فخرالدین رازی کو ا س نکتے کی جانب متوجہ پایا ہے (اور ظاہراً یہ بھی اسی کا قول ہے) کہ سب سے پہلے قرآن نے یہ نکتہ لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے کہ اصل نظام مخلوقات ایک مطلب ہے اور یہ اللہ کے وجود کی ایک دلیل ہے۔ موجودات کی ہدایت کا قانون دوسرا مطلب ہے اور اللہ تعالیٰ کے وجود کی دوسری دلیل ہے۔ کائنات چونکہ ایک مشین ہے اس لئے اس کا ایک سسٹم ہے۔ (بالفاظِ دیگر نظام مخلوقات ایک اصل ہے) اور یہ کہ غریزے جیسی ایک نامرئی طاقت ہر چیز کو آگے کی جانب کھینچ رہی ہے۔ یہ دوسری اصل ہے۔ یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ مخلوقات کی ہدایت سے کیا مراد ہے اور خداوند تعالیٰ نے کن معنوں میں ہر چیز کی ہدایت اس کے مقصد کی جانب کی ہے؟ یہ بھی بالکل معرفت کے مسئلے کی طرح ہے یعنی ہر چیز کی ہدایت پہلے خدا کی جانب اور بعد میں کسی دوسرے مقصد کی جانب کی جاتی ہے۔ یعنی خدا تعالیٰ ”غایة الغایات“ ہے، ہر مقصد مقصد بننے کی صلاحیت خدا سے حاصل کرتا ہے۔
یہ بات کہ خدا آسمانوں اور زمین کانور ہے اور ہر چیز کی نورانیت خدا کی جانب سے عطاء کردہ ہے، درحقیقت یہ وہی بات ہے کہ ہر چیز کو خدا کے ذریعے سمجھا جاتا ہے اور خدا کو اس کی اپنی ذات کے سمجھا جاتا ہے۔ ہر چیز خدا کی وجہ سے ظاہر ہے اور خدا خودبخود ظاہر ہے۔ ہر چیز خدا کے وسیلے سے ”مھتدی الیہ“ یعنی اس کا سراغ لگایا جاتا ہے اور اسے مقصد قرا ردیا جاتا ہے۔ صرف الہ کی ذات ایسی ہے جو تمام کائنات اور مخلوقات کی مقصود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید تمام مخلوقات اور تمام ذرات کی ایک طرح کی زندگی اور شعور کا قائل ہے۔ بعد کی دو تین آیات میں ہمارے اس بیان کی تصدیق موجود ہے۔ ”اَلَمْ تَرَاَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّعُ لَہ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّیْرُ صَآفَّاتٍ کُلُّ قَدْ عَلِمَ صَلاَتَة وَتَسْبِیْحَہ یہ اسی مطلب کا منطقی نتیجہ ہے۔ اَللّٰہُ نُورُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرضِ کا منطقی نتیجہ وَاِنْ مِّنْ شَیْ ءٍ اِلاَّ یُسَبِّعُ بِحَمْدِہ وَلکِنْ لاَّ تَفْقَھُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ“ ہے۔
جس طرح موجودات کے درجات و مراتب ہیں ویسے ہی ان کے درجات کے تناسب سے ان کی ہدایت میں فرق پایا جاتا ہے۔ جمادات کی ہدایت ان کے اپنے وجودی درجے کے مطابق ہے۔ نباتات کی ہدایت ان کے اپنے وجودی درجے کے مطابق ہے۔ حیوانات کی ہدایت ان کے اپنے وجودی درجہ کے مطابق ہے اور انفرادی و اجتماعی لحاظ سے انسان کی اپنی حد کے مطابق اس کی ہدایت کے درجات ہیں۔
گزشتہ تقریر میں عرض کر چکا ہوں کہ روایات اور غیرروایات یعنی علماء و مفسرین کے اقوال اس مثال کے بارے میں مختلف ہیں۔ بعض نے اسے تمام جہان کی مثال قرا ردیا ہے۔ یعنی انہوں نے استعاروں کے اس مجموعے کو ایک ہی چیز قرار دیا ہے، وہ یوں کہ یہ دارِ وجود و ہستی تاریک گھر نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا گھر ہے جس میں سب سے زیادہ نورانی چراغ موجود ہے۔ (چراغ کی مثال کو اس زمانے کے سب سے زیادہ نورانی چراغ کے مصداق کے طور پر ذکر کیا گای ہے) تو جہان تاریک و نابینا نہیں ہے۔ بعض نے اس مثال کو انسان پر منطبق کیا ہے۔ گزشتہ تقریر میں انسان کے متعلق کچھ مطالب عرض کر چکا ہوں۔ اب ایک مختصر سا بیان پیش کرتا ہوں جو ان سب پر محیط ہے۔
کہتے ہیں کہ ہدایت کی چند اقسام ہیں۔ ”ہدایتِ طبیعی“ جو بے جان اشیاء میں بھی پائی جاتی ہے۔ ”ہدایتِ حسّی“۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہمارے حواس سب کے سب ہدایت کے چراغ ہیں جو حیوان و انسان کے وجود میں پائے جاتے ہیں۔ ”ہدایتِ جبلی“۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر حیوان کی اپنی ایک جبلت ہے جو اسے اس کے مقصد کی جانب راہنمائی کرتی ہے۔ ”ہدایتِ عقلی“۔ قوہ عاقلہ بذاتِ خود ایک نور ہے جو انسان کو عطا کیا گیا ہے تاکہ وہ تفکر و تدبر کے ذریعے اس نور سے استفادہ کرے۔ دین بھی ہدایت کی ایک قسم ہے جسے ”ہدایتِ وحی“ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ بعض دانشمندوں نے اس مثال کو موجودات کی عام ہدایت پر منطبق کیا ہے جبکہ بعض نے اسے انسان کی ہدایت پر منطبق کیا ہے۔ (البتہ بعض کا کہنا ہے کہ انسان میں پائی جانے والی تمام حسّی، عقلی، جبلی، یہاں تک کہ ہدایتِ وحی، یہ تمام کی تمام ہدایات مراد ہیں جبکہ بعض نے اس کو ”ہدایتِ عقل“ ہی قرار دیا ہے۔ جیسا کہ عرض کر چکا ہوں کہ بو علی سینا کا بھی یہی عقید ہے) ۔ بعض نے اس کو ”ہدایتِ وحی“ پر منطبق کیا ہے اور احادیث میں یہ مطلب آیا ہے کہ مشکوٰة سے مراد نبی اکرم کا دل ہے او رمصباح سے مراد وحی الٰہی ہے جو آپ پر نازل ہوئی جیسا کہ پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں۔
 

صرف علی

محفلین
یہ آیت جو کہ ہدایت الٰہی کے اس نور کو بیان کر رہی ہے جس نے پوری کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے تو اگر اس سے مذکورہ تمام ہدایات مراد ہوں تو اس سے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ خاص کر جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے احادیث میں اس کی تفسیر دو طرح سے کی گئی ہے۔ دونوں میں اس مثال کو انسان پر ہی منطبق کیا گیا ہے۔ ایک تفسیر میں اسے موٴمن پر منطبق کیا گیا ہے اور دوسری میں ہدایتِ وحی کے اعتبار سے انسانی معاشرے پر۔ یہ دونوں تفسیریں بہت ہی عمیق ہیں۔ بعد والی یہ آیت بھی اس باریکی و گہرائی کا پتہ دیتی ہے۔ ”فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرُفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہ “۔
ایک حدیث، جس کا کچھ حصہ گزشتہ تقریر میں عرض کر چکا ہوں، میں بتایا گیا ہے کہ قرآن نے مثال کو ایک خاص پیرائے میں ذکر کیا ہے۔ آیت کہتی ہے کہ نورِ الٰہی اور ہدایتِ الٰہی ایک مشکوٰة کی مانند ہے۔ ایک چراغ دن جس میں چراغ پڑا ہوا ہو۔ وہ چراغ قندیل یا شیشے کے اندر واقع ہو۔ فطرتاً یہ سوال پیش آتا ہے کہ قرآن نے یوں کیوں کہا ہے جبکہ وہ اس طرح بھی کہہ سکتا تھا: ”کَمِشْکوٰةٍ فِیْھَا زُجَاجَة فِی الزُّجَاجَةِ مِصْبَاحُ  (فِیْھَا مِصْبَاحُ  ) “ چراغ ہو۔ لیکن وہ کہہ رہاہے کہ خدا کے نور کی مثال اس مشکوٰة کی سی ہے جس میں چراغ ہو اور بعد میں کہتا ہے کہ چراغ شیشے میں ہو۔ ہماری احادیث میں اس آیت کی تفسیر اس طرح کی گئی ہے کہ وہ چراغ پہلے ایک مشوٰة میں ہو، پھر مشکوٰة سے زجاجہ میں منتقل ہو جائے۔ آیت کی تفسیر اس طرح کرنے کافلسفہ یہ ہے کہ مشکوٰة سے مراد نبوت کی مشکوٰة ہے۔ زجاجہ سے مراد امانت و ولایت ہے اور جس بابرکت درخت سے مشکوٰة، زجاجہ اور مصباح وجود میں آئے ہیں اس سے شجرہٴ ابراہیم مراد ہے۔ یہ سب حضرت ابراہیم کی دعا کا نتیجہ ہیں۔ اس آیت کے بارے میں آج جو مطالب میں نے عرض کئے ہیں یہ درحقیقت گزشتہ تقریریں بیان کئے جانے والے مطالب کے حاشیے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
بعدکی آیت ہے ”فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہ یُسَبِّعُ لَہ فِیْھَا بالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ رِجَالُ  لاَّ تُلْھِیْھِمْ تِجَارَة وَّلاَ بَیْعُ  عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوةِ وَاِیْتَآءِ الزَّکٰوةِ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ۔“ …… (یعنی یہ چراغ) ایسے گھروں میں ہے جن کی نسبت خدا نے حکم دیا ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے۔ ن میں صبح و شام اس کی پاکیزگی ایسے لوگ بیان کرتے رہتے ہیں جو دنیاوی کاموں میں مشغولیت سے کہ جو ان کی ذمہ داری بھی ہے، لحظہ بھر بھی اپنے اللہ سے غافل نہیں رہتے۔
اب یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ اس ”فِیْ بُیُوْتٍ“ (گھروں میں) کا کیا مطلب ہے؟ شاید تمام مسفرین نے کہا ہے کہ خدا یہ کہنا چاہتا ہے کہ جس چراغ کو ہم نے بطور مثال پیش کیا ہے وہ ان خصوصیات کے حامل گھروں میں ہوتا ہے۔ تو پھر یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ اگر خدا کا مقصود یہی ہوتا تو پھر اتنا کہہ دینا ہی کافی تھا کہ جس گھر میں یہ چراغ ہو، یعنی ان خصوصیات کو ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ گھروں میں فلاں فلاں خصوصیات پائی جاتی ہوں۔ خصوصیات کو بیان کرنا ہی بتاتا ہے کہ ان گھروں سے مراد عام گھر نہیں ہیں۔ یہ عام گھروں کی مثال نہیں ہے بلکہ انسان کی مثال ہے۔ تفسیر صافی میں ایک حدیث ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ”ھِیَ بُیُوْتَاتُ الْاَنْبَیآءِ وَالرُّسُلِ وَالْحُک۔َمَآءِ وَاَئِمَّةِ الْھُدٰی“ یعنی قرآن میں جن گھروں کا ذکر آیا ہے ان سے مراد انبیاء ، مرسلین، حکماء اور ائمہ کے گھر میں یہ انسان کے روحانی اکابر کے گھر ہیں۔ اب یہاں یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ خدا کے برگزیدہ بندوں اور عام لوگوں کے گھروں میں کیا فرق ہے؟ حالانکہ عمارت، اینٹوں، گارے اور سیمنٹ وغیرہ کے لحاظ سے تو ہمیشہ عام لوگوں کے گھر انبیاء کے گھروں سے بہتر ہوتے ہیں۔
تو آیت سے بھی پتہ چلتا ہے اور احادیث میں بھی آیا ہے کہ ان گھروں سے مراد اینٹوں، سیمنٹ وغیرہ سے بنائے جانے والے گھر نہیں ہیں، بلکہ ان گھروں سے مراد انسان اور ان کے ابدان ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ انسان ایسے ہیں جن کے بدن ان کی روحوں کی مساجد و معابد ہیں۔ ہماری احادیث میں بھی ان گھروں کا معنی انسان ہی کیا گیا ہے۔
”قَتَادہ“ جو اپنے زمانے کے مفسرین و فقہاء میں سے ہیں (البتہ یہ ایک سنی مفسر ہیں) ان کی رہائش کوفے میں تھی۔ ایک دفعہ جب مدینہ گئے تو امام محمد باقر علیہ اسلام کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے۔ انہوں نے امام محمد باقر علیہ اسلام سے چند سوالات کئے اور جوابات سنے۔ لیکن امام کے سوالات کا جواب نہ دے سکے اور انہیں شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر انہوں نے امام سے عرض کیا کہ میں نے بہت سے علماء سے بحث و گفتگو کی ہے لیکن کسی کے سامنے بھی میں اس قدر بدحواس نہیں ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اس وقت تم کس کے سامنے ہو؟ بَیْنَ یَدَیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہ ان کے سامنے ہو جن کو خدا نے ”بیوت“ کا نام دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اب جو ہستی تمہارے سامنے ہے وہ ان بیوت میں سے ہے۔ تو انہوں نے انصاف سے کام لیتے ہوئے امام کی بات کا اقرار کر لیا اور کہا یا بن رسول اللہ میں بھی تصدیق کرتا ہوں کہ قرآن میں جن بیوت کا ذکر آیا ہے ان سے پتھر و مٹی کے گھر مراد نہیں ہیں بلکہ ”انسانی گھر“ مراد ہیں۔
یہاں ایک نکتہ ہے جو توحید کے باب میں کام آتا ہے چاہے ان گھروں کو عام گھر قرار دیں یا انسانی گھر۔ (البتہ یقیناً انسانی گھر ہی مراد ہیں)۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ قرآن کہتا ہے کہ یہ ایسے گھر ہیں جن کے بارے میں خدا نے اجازت دی ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے، ان کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ اگر عام گھر بھی مقصود ہوں تو ہم جانتے ہیں کہ دینِ مقدس اسلام میں مسجد کی تعظیم سب پر واجب ہے۔ اس کی بے حرمتی کرنا حرام ہے۔ اسے نجس کرنا حرام ہے۔ اگر وہ نجس ہو جائے تو اسے پاک کرنا واجبِ کفائی ہے۔ اسے فوراً پاک کرنا واجب ہے۔ اب اگر کوئی کہے کہ یہ توحید کے خلاف ہے، مسجد تو گارے، خاک، مٹی، اینٹ، پتھر وغیرہ کا مجموعہ ہے، کعبہ بھی اسی طرح ہے۔ کعبہ ان چند پتھروں کے علاوہ کچھ نہیں جن کو اوپر تلے چنا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پتھر بھی اس قابل ہوتے ہیں کہ انسان پر ان کا احترام واجب ہو جائے؟ ہم جواب دیں گے کہ نہیں۔ پتھر ہرگز قابل احترام نہیں ہوتا۔ بلکہ خدا اور عبادت خدا کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ عبادت گاہ کا احترام اس کے عبادت گاہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ معبود نے ہمیں معبد کا احترام کرنے کی اجازت دی ہے۔ معبود کی اجازت سے عبادت گاہ کا احترام کرنا درحقیقت معبود کا احترام ہے۔ نہ فقط یہ کہ شرک نہیں ہے بلکہ عین توحید ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ بات فقط عبادت گاہ سے مخصوص ہے؟ نہیں۔ کیا اگر معبود کسی شخص کے عبادت گزار ہونے کی وجہ سے ہم کو اس کی تعظیم کرنے کی اجزت دے تو یہ شرک ہو گا؟ نہیں۔ یہ بھی عین توحید ہے۔ کیا نبی اکرم یا اَئمّہ طاہرین یا ان سے کم درجے کے لوگوں کی تعظیم شرک ہے؟ نہیں۔ یہ ”بُیُوْتُ  اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَفِیْھَا اسْمُہ “ جس طرح عام عبادت گاہ کی تعظیم کی اجازت خدا نے دی ہے اس طرح انسانی گھر کی تعظیم کی اجازت بھی دی ہے۔ بلکہ انسانی گھر تو انسان کی روح کی عبادت گاہ ہے اور یہ گھر دوسرے گھروں سے کئی درجے بلند تر ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ عام گھر کا احترام اس کے عابدوں کی وجہ سے ہے۔ کعبہ کا احترام ابراہیم، اسماعیل، انبیاء اور دوسروں کی وجہ سے ہے۔ اس کا احترام اس لئے ہے کیونکہ یہ ”اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ“ دنیا کی سب سے پہلی عبادت گاہ ہے۔ چونکہ یہ سب سے پہلی عبادت گاہ ہے یہ سب سے پہلا مکان ہے جو خدا کی عبادت کے لئے بنایا گیا ہے۔ اس لئے اس کا احترام کیا جاتا ہے۔ پس اس کا احترام عبادت اور عبادت گزار کی وجہ سے ہے۔
 

صرف علی

محفلین
اہلِ تشیع کی بہت سی احادیث میں یہ بات بیان کی گئی ہے اور اہلِ سنت کی احادیث میں بھی آیا ہے کہ ان گھروں سے مراد وہ انسان ہیں جن کے وجود واقعی سراپا عبادت ہیں۔ درحقیت وہ انسان مسجد ہیں۔ جب انسان کا سننا، دیکھنا، کہنا، سوچنا، چلنا، کھانا پینا اور سونا خدا کے لئے ہو تو اس کے بدن کو ”معبد“ کے علاوہ کوئی دوسرا نام دیا ہی نہیں ج اسکتا۔ دیکھئے کہ امیرالمومنین دعائے کمیل میں خدا سے کیا عرض کرتے ہیں؟ ”یَا ربِّ یَا رَبِّ قَوِّ عَلیٰ خِدْمَتِکَ جَوَارِ حِیْ وَاشْدُدُ عَلَی الْعَزِیْمَةِ جَوانِحی وَھَبْ لِیَ الْجِدَّ فِیْ خَشْیَتِکَ وَالدَّ وَاَمَ فِی الْاِتِصَالِ بِخِدْمَتِکَ۔“ … اے پروردگار، اے پروردگار، اے پروردگار! میرے ہاتھ پاؤں تو اپنی خدمت کے لئے مضبوط کر دے اور اس خدمت میں علی کے عزم کو مصمم کر دے۔ مجھے اس بات کی توفیق دے کہ میں حقیقتاً تیرا خوف کھاؤں اور مسلسل تیری خدمت میں رہوں۔ میرا ایک لحظہ بھی کسی اور کی خدمت میں بسر نہ ہو۔ یہی کچھ آپ کے پاس تھا، خدا نے آپ کو یہ عطا کیا تھا۔ آپ جیسی شخصیت کے تمام اعضاء عبادت گاہ ہیں اور وہ بھی بہت عظیم عبادت گاہ۔ کعبہ ہرگز یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میں اس عبادت گاہ جیسی عبادت گاہ ہوں۔
اسی لئے اس مثال والی آیت کو مفسرین اور احادیث دونوں نے انسان پر منطبق کیا ہے اور مشکوٰة، مصباح اور زجاجہ کو انسانی ہدایات قرار دیا ہے۔ البتہ بعض نے اسے ہدایتِ عقل قرار دیا ہے، بعض نے ہدایتِ وحی اور بعض نے تو ہدایتِ حسّی کو بھی شامل کر دیا ہے۔ چراغ ہدایت کس گھر میں ہے؟ انسانی وجود کے گھر میں ہے …… ”ہدایتِ وحی“ خاص کر اولیاء کے گھر میں ہے۔ ”فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہ “ ایک دفعہ ایک شخص نے سید مہدی قوام مرحوم جو کہ بہت ہی خداپرست تھے۔ خدا ان پر اپنی رحمت نازل کرے۔ سے ایک بات نقل کی جو مجھے بہت پسند آئی۔ اس شخص نے کہا کہ ایک مجلس کا انعقاد کیا گیا جس کا نام مجلسِ تبری رکھا گیا۔ سید مہدی قوام مرحوم منبر پر تشریف لے گئے اور اس آیت کو موضوع قرار دے کر اس پر بہت عمدہ بحث کی ”وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللّٰہِ اَنْ یُّذْکَرَ ِفِیْھَا اسْمُہ۔“ یعنی اس شخص سے زیادہ ستمگر کون ہے جو اللہ کی مساجد میں اللہ کے ذکر سے منع کرتا ہو۔؟ سید مہدی نے اپنی تقریر میں اس آیت کو اس پر منطبق کیا کہ ہر شخص کا بدن او راس کے اعضاء و جوارح اس کی روح کی مسجد ہیں۔ اس بدن اور اس مسجد کو ذکرِ خدا کا مقام بننے کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنا بہرصورت ظلم ہے۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ ”ایک موٴمن کا قتل ایک مسجد ڈھانے کے برابر ہے“ اور اس سے بڑا ظلم اولیاء کو قتل کرنا ہے جو درحقیقت عظیم ترین مساجد کو نابود کرنا ہے۔
ان گھروں میں صبح و شام خدا کی تسبیح کی جاتی ہے۔ مفسرین کا کہنا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ خدا کی تسبیح مسلسل ہو رہی ہے۔ یعنی یہ مطلب نہیں ہے کہ فقط صبح اور شام کے وقت خدا کی تسبیح ہوتی ہو اور باقی وقت غلفت میں گزر جاتا ہو۔ تسبیح کرنے والے کون ہیں؟ قرآن کے الفاظ پر توجہ فرمائیے ”رِجَالُ  لاَّ تُلْھِیْھِمْ تِجَارّة وَّلاَ بَیْعُ  عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ“ جیسا کہ مفسرین نے بھی ذکر کیا ہے ”رجال“ سے مراد یہ نہیں ہے کہ عورتیں تسبیح پڑھنے والوں میں شامل نہیں۔ یعنی خصوصیت کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ بلکہ ”بلند ہمت افراد“ کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ بعض اوقات جب ہم بلند ہمت افراد کو ذکر کرنا چاہتے ہیں تو لفظ ”رجال“ (مرد) استعمال کرتے ہیں۔ اس میں مرد و عورت میں تفریق نہیں ہوتی۔ (یعنی اس رجل سے بلند ہمت عورت بھی مقصود ہوتی ہے۔) تو یہاں آیت یہ کہہ رہی ہے کہ بلند ہمت افراد کو تجارت، خریدوفروخت خدا کے ذکر سے باز نہیں رکھ سکتی۔
البتہ یہاں تجارت اور خریدوفروخت کو بطور مثال بیان کیا گیا ہے۔ یعنی تدریس، وعظ، تقریر، معماری، خطابت وغیرہ بھی اسی قبیل سے ہیں۔ یعنی بلند ہمت افراد کو ان کے پیشہ ورانہ اور دیگر سرگرمیاں خدا کی یاد سے باز نہیں رکھ سکتیں۔
یہیں سے قرآنی عرفان اور دیگر عرفانوں میں پایا جانے والا فرق بھی واضح ہو جاتا ہے۔ قرآن ہرگز یہ نہیں کہتا کہ مردانِ الٰہی کام، تجارت، خریدوفروخت، معماری، لوہاری، تدریس الغرض اپنے فرائض سے دست بردار ہو کر خدا کا ذکر کرتے ہیں۔ بلکہ وہ کہتا ہے کہ یہ ایسے بلند ہمت افراد ہیں جو اپنے کاموں میں مصروف ہونے کے باوجود خدا کو فراموش نہیں کرتے۔ صرف خدا کی ذات ہی ایسی ہے جسے وہ کسی حال میں بھی فراموش نہیں کرتے۔ ایسے ہی آدمیوں کے بدن واقعی مساجد ہیں۔ چونکہ ان کے ابدان میں ہر وقت یاد خدا، ذکرِ خدا اور تسبیح خدا ہوتی رہتی ہے، یہ اشخاص دوسرے افراد کی طرح اپنے دنیاوی کام بھی انجام دیتے ہیں۔ جس طرح دوسرے لوگ دفتر جاتے ہیں مردِ صالح بھی دفتر جاتا ہے۔ وہ بھی ان تمام سرگرمیوں میں حصہ لیتا ہے جن میں دوسرے لوگ شریک ہوتے ہیں۔ جس طرح دوسرے لوگ عوام کی خدمت میں حصہ لیتے ہیں اسی طرح وہ بھی اس سلسلے میں اپنا فرض نبھاتا ہے۔ دوسرے لوگوں اور اس میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ کام میں مشغول رہنے کے باوجود پل بھر کے لئے بھی یادِ خدا سے غافل نہیں ہوتا۔
ممکن ہے آپ کے ذہن میں یہ سوال آئے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص آنِ واحد میں کسی کام میں بھی مصروف ہو اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک دوسری چیز سے بھی غافل نہ ہو؟ تو جناب یہ ممکن ہے۔ خاص کر جب انسان کامل ہو جائے تو پھر تو بالکل ممکن ہے۔ بلکہ اگر کامل نہ بھی ہو تب بھی یہ ممکن ہے۔ اس کی وضاحت کے لئے ایک مثال آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ جب انسان بے انتہا خوش ہو تو وہ پل بھر کے لئے بھی اس خوشی کو فراموش نہیں کرتا۔ مثلاً ایک ایسا نوجوان لڑکا جو کسی لڑکی کو دل دے بیٹھا ہو، ہر وقت اس کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح اس سے رشتہ طے ہو جائے۔ عرصہ دراز کی کوششوں کے بعد جب اس کو مثبت جواب ملتا ہے تو وہ جس کام میں بھی مصروف ہو لمحے بھر کے لئے بھی اس خوشی و مسرت سے غافل نہیں رہتا۔ ایک مسرت ہمیشہ اس کے دل میں موجود رہتی ہے۔ واحد چیز جو ہر وقت حتیٰ کہ نیند کی حالت میں بھی اس کے ذہن سے محو نہیں ہوتی، محبوب، اس کا خیال اور وہ خوشخبری ہے جو اسے سنائی گئی ہے۔ یا اگر خدانخواستہ کسی شخص پر کوئی مصیبت آ پڑے۔ مثلاً کسی ماں یا باپ کو اپنی اولاد کا داغ دیکھنا پڑے تو وہ چاہے جس کام میں بھی مشغول ہو اسے اپنا غم نہیں بھولے گا۔ حقیقی موٴمن وہ ہے جس کا یادِ خدا کے سلسلے میں یہ حال ہو۔ وہ کسی لمحے بھی خدا کو فراموش نہیں کرتا۔ بلکہ وہ تو جس کام کو بھی انجام دیتا ہے خدا کے حکم اور اس کے فرمان کی وجہ سے انجام دیتا ہے اور خدا کی یاد ہی اسے کام کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔
لین دین اگر مستقل طور پر کاروبار کی صورت اختیار کر لے تو اس کو ”تجارت“ کہا جاتا ہے۔ لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص ایک آدھ مرتبہ انجام دیتا ہے یعنی مستقل طور پر اس کو نہیں اپناتا۔ مثلاً آپ اپنا گھر فروخت کرنا چاہتے ہیں تو اسے ”بیع“ کہا جائے گا، ”تجارت“ نہیں کہا جائے گا۔ قرآن نے مال کو خصوصی طور پر بطور مثال اس لئے پیش کیا ہے چونکہ مال ہی دوسری ہر چیز سے بڑھ کر انسا ن کی غفلت کا سبب بنتا ہے۔ تو آیت یہ کہہ رہی ہے کہ خدا کے ان بلند ہمت بندوں کو نہ تو تجارت ذکرِ خدا سے باز رکھ سکتی ہے اور نہ ہی بیع۔ نیز نماز اور زکوٰة سے بھی تجارت اور بیع ان کو منع نہیں کر سکتی۔ ان کے دلوں پر ہر وقت خوفِ خدا اور اس دن کا خوف طاری رہتا ہے جس دن دل اور آنکھیں الٹ پلٹ ہو جائیں گی اور روح پر اضطراب حکم فرما ہو گا۔ خدا تعالیٰ سب کو اس خوف کی توفیق عطا کرے۔
 

صرف علی

محفلین
آٹھویں تقریر
بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
…اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ​
”لِیَجْزِ یَھُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ مَاعَمِلُوْا وَیَزِیْد ھُمْ مِّنْ فَضْلِہ وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآ ءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ۔ “ (سُورہٴ نُور، آیت ۳۸)
گزشتہ آیات پر بحث کرتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ تمام ہدایتوں کا مرکز خداتعالےٰ کی ذات ہے۔ اس نے اپنے ”نور ہدایت“ کی مثال ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے۔ ”یَھْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہ مَنْ یَّشَآ ءُ “ خدا جسے چاہتا ہے اس نور کے ذریعے ہدایت کرتا ہے۔
نور الٰہی سے استفادہ کرنے کے بہت سے فوائد ہیں۔ ایک فائدہ یہ ہے کہ انسان کے عمل کو اہمیت حاصل ہو جاتی ہے۔ کیا مطلب؟ انسان اس دنیا میں بعض اعمال انجام دیتا ہے بلکہ اس کی پوری زندگی کوشش، حرکت اور فعالیت ہی کا نام ہے۔ جب آپ فجر کے ہنگام بیدار ہوتے ہیں تو چاہے اپنی زندگی کا جائزہ لیجئے یا دوسروں کی زندگی کا، آپ کو پتہ چلے گا کہ زندگی کوشش، حرکت، جنبش اور دوڑ دھوپ ہی کا نام ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ساری محنت کیوں کی جاتی ہے؟ اگرچہ ہر شخص اپنے خاص مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے فعالیت کرتا ہے لیکن ایک چیز سب میں مشترک ہے، وہ یہ کہ ہر شخص اپنی سعادت کا طالب ہے۔
انسان فطری طور پر اپنی سعادت کا خواہاں ہے۔ کوئی شخص بھی اپنے لئے تیرہ بختی کا طالب نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص ایسے اعمال انجام دینے کے درپے ہو جو اس کی تیرہ بختی کا موجب بنیں تو وہ یہ اعمال تیرہ بخت ہونے کی خاطر انجام نہیں دیتا بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ کام کرنے کے بعد میں سعادت مند ہو جاؤں گا۔ پس یہ بات یقین ہے کہ انسان حصول سعادت کے لئے ہی فعالیت کرتا ہے اور کسی شخص کی بھی نیت یہ نہیں ہوتی کہ اسے اپنی فعالیت کے عوض میں بدبختی نصیب ہو۔ البتہ بعض اوقات انسان سعادت حاصل کرنے کے لئے بہت دوڑ دھوپ کرتا ہے لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کی ساری کوشش اکارت گئی ہے، یا وہ اس دوڑ دھوپ کی وجہ سے سعادت مند بننے کی بجائے تیرہ بخت بن چکا ہے اور اگر وہ محنت و کوشش نہ کرتا تو اس کے حق میں بہتر ہوتا۔ خدا پر ایمان لانے اور نورِ خدا سے منور ہونے کے آثار میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کا عمل حقیقی اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے، یعنی اس کا عمل اور اس کی کوشش واقعی اس کی سعادت، وہ بھی ابدی سعادت کا موجب بن جاتی ہے۔ یہاں ایک مسئلے کو زیربحث لایا گیا ہے جس کی صراحت بعد کی آیت میں کی گئی ہے۔ وہ مسئلہ یہ ہے کہ کیا انسان کا کوئی اچھا یا برا کام اس کے ایمان پر موقوف ہے؟ کیا اچھا کام ہر حالت میں اچھا اور سعادت بخش ہے چاہے کام انجام دینے والا مومن نہ بھی ہو؟ برا کام ہر حالت میں برا ہے چاہے کام کرنے والے کا خدا کی ذات پر مطلق ایمان نہ ہو اور اس کے دل تک نورِ الٰہی کی شعاعیں نہ پہنچی ہوں؟
اس مسئلے پر بہت زیادہ بحث کی جاتی ہے۔ خاص کر اس زمانے میں نوجوان اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ اس بات کی کیا دلیل ہے اور اس کی ضرورت ہی کیا ہے کہ بارگاہِ الٰہی میں انسان کے اعمال کے مقبول ہونے کے لئے ضروری ہو کہ انسان کا خدا پر ایمان بھی ہو۔ وہ مسلمان اور مومن بھی ہو۔ (یا ان آیات کی تعبیر کے مطابق وہ نورِ الٰہی کے ساتھ منور ہو چکا ہو) نیک کام تو بہرصورت نیک ہے۔ خدا بھی غنی ہے۔ اس لئے خدا کے نزدیک کیا فرق ہے کہ نیک کام کرنے والا یا برا کام کرنے والا شخص خدا کو پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو۔ وہ چونکہ خدا ہے، بڑا ہے، عظیم ہے، غنی ہے، بے نیاز ہے، اس لئے اسے اپنے بندوں، چاہے وہ بندہ ایسا ہو جو اسے پہچانتا ہو، اسے سجدہ کرتا ہو، نمازگزار ہو، روزہ دار ہو، چاہے وہ ایسا بندہ ہو جو سرے سے ہی اسے نہ پہچانتا ہو بلکہ سرکش اور مخالف ہو چونکہ دونوں نے نیک کام کیا ہے، کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرنا چاہئے اسے لوگوں کے نزدیک۔ پس قیامت کے دن ایمان کو نہیں دیکھا جائے گا فقط عمل کو دیکھا جائے گا۔ تو اس کو سامنے رکھنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگر کسی ایسے شخص نے کوئی نیک کام مثلاً انسانیت کی خدمت کی ہو جو خدا اور انبیاء کا منکر ہے تو خدا پر لازم ہے کہ اس کو بھی ویسے ہی جنت میں داخل کرے جس طرح کسی صاحب ایمان نیکو کار کو جنت میں داخل کرے گا۔ اس کے علاوہ کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر اس کے سوا ہو تو پھر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ۔ نعوذباللہ۔ خدا بھی ایسا سردار ہے جو اپنی تعظیم اور خوشامد کرنے والے افراد سے امتیازی سلوک روا رکھتا ہے جبکہ ہم اسے اچھا سردار قرار دیتے ہیں جو کسی سے امتیازی سلوک نہیں کرتا، جو فقط افراد کے کام کو دیکھ کر ان کو جزا دیتا ہے، بہت سے لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں۔ میں نے اپنی کتاب ”عدلِ الٰہی“ کے آخری حصے میں اس مسئلے کو چھیڑا اور اس پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ یہاں میں اس میں سے چند مطالب جو ان تین آیات سے متعلق ہیں، آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن نے فقط عمل پر زور نہیں دیا بلکہ اس نے عمل اور ایمان دونوں کا کہا ہے۔ قرآن ہمیشہ کہتا ہے ”اَلَّذِیْنَ اٰمَنوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ۔“ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اعمالِ صالحہ انجام دیئے۔ قرآن سعادت سے ہمکنار کرنے کے لئے نہ تو ایمان کو کافی سمجھتا ہے، یعنی وہ نہ تو یہ کہتا ہے کہ اگر تمہارا ایمان درست ہو تو تم سعادت مند ہو جاؤ گے عمل چاہے جیسا بھی ہو۔ اور نہ محض عمل کو کافی سمجھتا ہے۔ یعنی وہ یہ بھی نہیں کہتا کہ اَلَّذِیْنَ عَمِلُواالصَّالِحَاتِ سَوَآ ءُ  اٰمَنُوْٓا اَوْلَمْ یُوٴْمِنُوْا چاہے ایمان لائے ہوں چاہے ایمان نہ لائے ہوں۔ بلکہ اس کا کہنا ہے کہ ایمان اور عمل دونوں ہونے چاہئیں۔
بعض لوگ معتقد تھے کہ عمل کسی کام نہیں آتا سب کچھ ایمان ہی ہے۔ ہمارے درمیان بھی بعض ایسے افراد موجود ہیں جو عمل کو بے وقعت قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان کی سعادت میں عمل کوئی کوئی دخل نہیں، فقط ایمان کو دخل ہے۔ بعض لوگ اس کے برعکس معتقد ہیں کہ فقط عمل ہی انسان کی نجات کا ضامن ہے، ایمان کی کچھ حیثیت نہیں ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ خود قرآٰن کریم نے بعض آیات میں اسی کی تائید کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن نے یہ نہیں کہا ”اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُضِیْعُ اَجْرَالْمُحْسِنِیْنَ “ خدا نیک لوگوں کی کوشش ضائع نہیں کرتا۔ قرآن نے یہ تو نہیں کہا کہ وہ نیک لوگ موٴمن ہوں یا موٴمن نہ ہوں۔ دوسری آیت جو وہ پیش کرتے ہیں یہ ہے کہ ”اِنَّا لاَ نُضِیْعُ اَجْرَ مَنْ اَحْسَنَ عَمَلاً “ یعنی ہم نیک کام کرنے والے کے اجر کو ضائع نہیں کرتے۔ (کہف۔ ۳۰)
یہ سوال اس لئے کیا جاتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہم ایسے اشخاص کو جانتے ہیں جنہوں نے انسانیت کی بڑی خدمات کی ہیں اور کر رہے ہیں حالانکہ وہ مسلمان نہیں ہیں۔ ان میں سے بعض نہ فقط مسلمان ہی نہیں اور انہوں نے اسلام ہی قبول نہیں کیا، وہ نبی اکرم پر ایمان نہیں لائے بلکہ وہ تو خدا ہی کے منکر ہیں۔ مثلاً جن نے پنسلین دریافت کی تھی اس نے انسانیت کی کتنی بڑی خدمت کی ہے۔ کتنی ہی ایسی بیماریاں تھیں جو پنسلین کی دریافت سے قبل لا علاج تھیں۔ کتنے ہی بچے تھے جو خناق کا شکار ہو کر ہلاک ہو جاتے تھے۔ ان کا علاج نہیں ہوتا تھا لیکن پنسلین کی دریافت کے بعد ان کا علاج ہونے لگا۔ اسی طرح وہ شخص جس نے Tetanus کا ٹیکہ دریافت کیا اور ان جیسے دوسرے لوگ جو خدا پر ایمان نہیں رکھتے لیکن اس کے باوجود انسانیت کی خدمت کرتے ہیں۔ تو کیا خدا فقط اس جرم میں ان افراد کے عمل سے صرفِ نظر کرے گا کہ یہ لوگ ایمان نہیں لائے تھے؟
اب ہم دیکھتے ہیں کہ حقیقت حال کیا ہے۔ قرآن نے سورہ بنی اسرائیل میں ایک قاعدہ کلیہ کا ذکر کیا ہے جو صحیح صورتِ حال سمجھنے میں ہماری مدد کرے گا۔ وہ قاعدہ یہ ہے:
مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَہ فِیْھَا مَا نَشَآ ءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَہ جَھَنَّمَ لَصْلٰھَا مَذْمُوْمًا مَّدْ حُورًا، وَمَنْ اَرَادَالْاٰخِرَةَ وَسَعٰی لَھَا سَعْیَھَا وَھُوَ مُوٴْمِنُ  فَاُ ولٰئِکَ کَانَ سَعْیُھُمْ مَّشْکُوْرًا، کُلاًّ نُّمِدُّ ھٰوٴُ لَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّکَ وَمَا کَانَ عَطَآ ءُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًا۔“ (اسراء۔ ۱۸ تا ۲۰)
ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص جس راستے پر گامزن ہو، جس مقصد کے حصول کے لئے دوڑ دھوپ کر رہا ہو، وہ اپنی اس منزل اور مقصد کو حاصل کر لے گا۔ خدا اس کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دے گا۔ خدا تعالیٰ نے اس دنیا کو ایک کھیتی قرار دیا ہے جس میں بونے اور کاٹنے کا عمل جاری ہے۔ آپ کو کسی کھیتی سے کیا امید وابستہ ہوتی ہے؟ آپ یہی توقع کرتے ہیں کہ آپ نے جواس میں بویا ہے وہی کاٹیں گے اور کھیتی، چاہے بہت زرخیز ہی کیوں نہ ہو، سے یہ امید رکھنا غیرمعقول ہے کہ انسان اس میں بوئے کچھ اور کاٹے کچھ۔ اگر آپ کسی زرخیز کھیت میں گندم بوئیں گے تو گندم ہی کاٹیں گے۔ اگر جو بوئیں گے تو جو ہی کاٹیں گے۔ پھلدار درخت لگائیں گے تو پھل پائیں گے۔ ناشپاتی کا بوٹا لگائیں گے تو ناشپاتی حاصل کریں گے۔ تُمّہ کاشت کریں گے تو تُمّہ ہی اگے گا۔ اگر خاردار درخت لگائیں گے تو خار ہی پائیں گے۔ اگر پھولوں والے بوٹے لگائیں گے تو پھول حاصل کریں گے۔ کسی کھیت کے زرخیز ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس میں پھول ہی اگیں چاہے اس میں خاردار درخت یا کوئی اوردرخت لگائے جائیں۔ یا اس میں جو کاشت کئے جائیں لیکن گندم اگے تو یہ بالکل غلط ہے۔ ہر انسان کی فعالیت و دوڑ دھوپ کے پس منظر میں کوئی نہ کوئی مقصد پوشیدہ ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ تمام انسان سعادت کے خواہاں ہیں لیکن وہ اپنی سعادت کس چیز میں ڈھونڈ رہے ہیں؟
 

صرف علی

محفلین
کبھی یوں ہوتا ہے کہ انسان اسی دنیا میں نتیجہ وغیرہ حاصل کرنے کے لئے فعالیت کرتا ہے۔ خدا اور آخرت اس کے پیش نظر نہیں ہوتے۔ یعنی اس کا بویا ہوا بیج فقط دینوی ہوتا ہے۔ وہ فقط مادی امور کے حصول کے لئے محنت کرتا ہے۔ لیکن کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ اس کی فعالیت مادی امور کے لئے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے اور اخروی سعادت حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہے۔ اور قانون یہ ہے کہ اگر کسی نے آخرت کی خاطر کوئی عمل انجام دیا ہو تو اس کی پاداش اسے آخرت میں دی جائے۔ اگر اس کا عمل اس دنیا کے لئے ہو تو اسی دنیا میں اسے اپنی محنت کا ثمرہ ملے۔ قرآن کہہ رہا ہے ” کُلاًّ نُّمِدُّ “ ہم ان کی امداد بھی کرتے ہیں جو خدا اور آخرت کے خواہاں ہیں، جن کا مقصد مادی امور کے حصول سے بالاتر ہے۔ اور ان کی امداد بھی کرتے ہیں جو اس مرحلے تک پہنچنا نہیں چاہتے، جو اپنی کوشش اور محنت کا پھل اسی دنیا میں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ ایک فرق ان دونوں صورتوں میں یہ پایا جاتا ہے کہ چونکہ دنیا اسباب و علل کے ٹکراؤ کا مقام ہے اس لئے خدا اس بات کا وعدہ نہیں کرتا کہ جو شخص فقط دنیا اور دینوی مقاصد کے حصول کی خاطر محنت کرے گا تو اسے اپنا مقصد پورے طور پر حاصل ہو جائے گا، اس لے کہ ممکن ہے کہ اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی ہو جائیں۔ وہ دینوی مقصد کے حصول کے لئے بیج بوئے لیکن اس کا بویا ہوا بیج گل سڑ جائے یا کسی دوسری آفت کا شکار ہو جائے۔ خداوند تعالیٰ نہ تو یہ وعدہ کرتا ہے کہ تمام افراد اپنا اپنا مقصد حاصل کر لیں گے، نہ ہی افعال کا ذمہ لیتا ہے کہ ہر عمل کی پاداش ملے گی۔ دینوی مقصد کے لئے کیا جانے والا کام اکثر اوقات کسی آفت کا شکار ہو جاتا ہے۔ خدا کا قرب اور آخرت کی نجات کے لئے بویا جانے والا بیج کسی صورت میں بھی ضائع نہیں ہوتا۔ وہ مزاج جہان کے مطابق ہے اس لئے ضائع نہیں ہوتا بلکہ انسان کو اس کی محنت سے زیادہ پھل ملتا ہے۔
اب میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ یہ قانون کلی کیسا ہے؟ منطقی ہے یا نہیں؟ دوسری آیات میں بھی اسی مطلب کو دوسرے پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ سورہ شوریٰ میں ارشاد ہے۔ ”مَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَةِ نَزِدْلَہ فِیْ حَرْثِہ وَمَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُوٴْتِہ مِنْھَا وَمَا لَہ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ نَّصِیْبٍ۔“ ( کاشتکاری اور زراعت قرآن ہی کی تعبیر ہے)
جو شخص آخرت کے قصد سے بذرافشانی کرے گا (آخرت کے قصد سے ایک بیج بوئے گا، یہ نہیں کہ دو طرح کے بیج ہوں، دینوی اوراخروی، بلکہ ایک ہی بیج انسان کی نیت سے بدل جاتا ہے۔ اگر اسے آخرت کی نیت سے بویا جائے گا تو وہ اخروی ہوا، اگر اسی کو دنیا کی نیت سے بوایا جائے گا تو وہ دینوی ہو گا)۔
ہم اس کو عطا کریں گے۔ بلکہ زیادہ عطا کریں گے۔ اور جس کا مقصد دنیا ہو گا (اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جا رہا کہ اسے بھی ہم دیں گے اور زیادہ دیں گے) اس کو بھی محروم نہیں کریں گے۔ (نُوٴْتِہ مِنْھَا)
آپ کے خیال میں یہ ایک معقول بات ہے یا نہیں؟ میرے خیال میں تو اس پر معمولی سا اعتراض بھی نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو قابلِ اعتراض ہوتا۔
کس کا عمل قبول ہو گا اور کس کا عمل قبولیت کا شرف حاصل نہیں کرے گا اس کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ جو شخص دنیا کے لئے کوشش کر رہا ہے یقیناً اس کے پیش نظر کوئی مقصد ہے۔ اگر مقصد شہرت، ناموری، ہر دلعزیزی، ملکی ترقی، ہم نژادوں یا ہم وطنوں کی شہرت ہو تو وہ اپنے مقصد کو پا لے گا۔ لیکن جو کام اس مقصد کے لئے انجام دیا گیا اس سے آپ کو دوسرے مقصد کے حصول کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ یعنی اس نے یہ کام خدا کا قرب پانے کے لئے انجام نہیں دیا بلکہ لوگوں کا قرب پانے کے لئے انجام دیا ہے۔ اس لئے وہ لوگوں کا قرب پا لے گا مگر خدا کا قرب نہیں ملے گا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ انسان کسی ایسے راستے پر چل کر اس منزل تک پہنچ سکے جو اس راستے کی منزل نہیں۔ مثلاً کسی شخص کا ارادہ قم جانے کا ہو اور وہ قم جانے کے لئے تہران کے شمال کی طرف چلنا شروع کر دے تو کیا وہ قم پہنچ جائے گا؟ ہرگز نہیں۔ اگر انسان شمال کی طرف سفر کرے گا تو شمال ہی پہنچے گا، اگر جنوب کی طرف جائے گا تو جنوب پہنچے گا۔ انسان جس راستے پر بھی چلے گا اسی کے اختتام تک پہنچے گا۔
ایمان اس پہلو کے اعتبار سے عمل کی قبولیت کی شرط ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ۔ نعوذباللہ۔ خدا کہہ رہا ہو کہ جو لوگ میری خوشامد کریں گے میں ان کا عمل قبول کروں گا، دوسروں کا نہیں چاہے ان کے اعمال ایک جیسے ہی کیوں نہ ہوں۔ نہیں حقیقت یہ ہے کہ جس کا خدا پر ایمان نہ ہو وہ درحقیقت خدا کا طالب ہی نہیں ہے۔ اس لئے اس کو خدا نہیں ملے گا۔ وہ صاحب ایمان نہیں ہے۔ آخرت کا طلب گار نہیں ہے۔ جب آخرت کا طلب گار نہیں ہے تو پھر اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہو گا۔ کیونکہ انسان وہی چیز حاصل کر سکتا ہے جس کا وہ خواہاں ہو۔ یہ معقول نہیں ہے کہ جس کا انسان خواہاں نہ ہو، جس کے لئے اس نے جدوجہد نہ کی ہو وہ اس کو دے دی جائے۔
یہ بھی درست ہے کہ کسی شخص کے عمل کے قبول ہونے کی شرط یہ نہیں ہے کہ وہ شخص لازمی طور پر مسلمان یا شیعہ ہو۔ اگر کسی کا خدا پر ایمان ہو، وہ خدا کی شناخت رکھتا ہو، آخرت پر بھی اس کا اعتقاد ہو اور وہ شخص خدا اور آخرت کے لئے کوئی کام کرے تو اس کا یہ کام فی نفسہ بارگاہِ الٰہی میں شرفِ قبولیت حاصل کر لیتا ہے مگر یہ کہ وہ کوئی ایسی آفت ایجاد کر دے جو اس کے عمل کو نابود کر دے۔ اس آفت کا نام ”کفر“ و ”عناد“ ہے۔ بعد میں اس کی وضاحت کروں گا۔ پنسلین دریافت کرنے والے نے یقینی طور پر انسانیت کی خدمت کی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس نے کس مقصد کو پیش نظر رکھ کر یہ خدمت کی ہے؟ تو جو مقصد اس کے پیش نظر ہو گا خدا اس میں اس کو کامیاب کرتا ہے۔ کسی دوسرے مقصد میں خدا کامیاب نہیں کرتا۔ بلکہ جس مقصد کے حصول کے لئے کوشش ہی نہیں کی گئی اس میں کامیاب کرنا محال بھی ہے اور نامعقول بھی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انسان جس راستے پر نہ چلا ہو اس کی منزل کو حاصل کر لے۔ پس یہ جو ہم نے عرض کیا ہے کہ خدا کے نور سے روشن ہونا یا بالفاظ دیگر خدا پر ایمان لانا انسان کے کام کو وقعت عطا کرتا ہے تو وہ اس لئے کہ ایمان اسی دنیا میں انسان کے عمل کو تبدیل کر دیتا ہے۔ اگر دو شخص ایک جیسا کام کریں، ان میں سے ایک شخص کا دل نورِ الٰہی سے منور ہو چکا ہو جبکہ دوسرے کے دل پر نورِ الٰہی کی شعاعیں نہ پہنچی ہں تو بظاہر انہوں نے ایک ہی طرح کا کام کیا ہے لیکن حقیقت میں ان دونوں کے عمل میں زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔ ”اِلَیْہِ یَصْعَدُ الُکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہ۔“ اس آیت کی تفسیر دو طرح سے کی گئی ہے۔ دونوں تفسیریں ہی صحیح ہیں۔ جیسا کہ میں پہلے بھی یاددہانی کرا چکا ہوں کہ یہ معقول نہیں ہے کہ ہم قرآنی آیات کو کسی خاص معنی پر حمل کریں۔ اگر کسی مقام پر دیکھیں کہ ایک ہی وقت میں کسی ایک آیت کے دو معانی کئے جا سکتے ہیں تو وہاں دونوں معانی مراد ہوتے ہیں۔ یہ قرآن کے خصائص اور اس کے معجزہ ہونے کا حصہ ہے کہ بعض اوقات وہ ایسے جملے لاتا ہے جن کے متعدد معانی ہوتے ہیں اور سب کے سب صحیح ہوتے ہیں۔ بعض اوقات شاعر ایک شعر کہتا ہے جس کے متعدد معانی کئے جا سکتے ہیں۔ اگر خود شاعر سے دریافت کیا جائے کہ اسے کس طرح پڑھیں کہ درست ہو تو وہ یہی جواب دے گا کہ آپ جیسے بھی پڑھیں اور جو اس کا معنی کریں وہی ٹھیک ہے۔ سعدی شیرازی کے اس معروف شعر، جو کہ بدائع کے آغاز میں ہے، کو چند طریقوں سے پڑھا جا سکتا ہے۔
از در بخشندگی و بندہ نوازی
مرغ ہوا را نصیب ماہی دریا
یعنی بندہ نواز اور بخشش کرنے والے خدا نے ہوا کا پرندہ اور سمندر کی مچھلی انسان کے نصیب کی ہے۔
اس شعر کو مزید سات آٹھ طریقوں سے پڑھا جا سکتا ہے مثلاً یوں بھی کہ۔
از در بخشندگی و بندہ نوازی
مرغ، ہوا را نصیب و ماہی، دریا
یعنی خدا نے مرغ ہوا کو اور مچھلی سمندر کو عطا کی ہے۔ نیز:
از در بخشندگی و بندہ نوازی
مرغِ ہوا را نصیب، ماہی دریا
یعنی خدا نے سمندری مچھلی پرندے کے نصیب میں رکھی ہے۔
 

صرف علی

محفلین
اگر آپ ان کی تلفیق کریں تو اس کو مزید چند طریقوں سے پڑھا جا سکتا ہے اور اس کے معانی مختلف ہوں گے۔ البتہ قرآن اور اس میں فرق یہ ہے کہ شعر کو پڑھتے وقت لہجہ تبدیل کرنا پڑے گا۔ ایک مرتبہ کہیں گے ”مرغ ہوا را نصیب و ماہی دریا۔“ ایک مرتبہ یوں کہیں گے کہ ”مرغ ، ہوا را نصیب و ماہی، دریا، جبکہ قرآنی آیات کو متعد طریقوں سے پڑھنے کی حاجت نہیں ہے۔ ایک ہی طریقے سے پڑھنے کے باوجود بھی ان میں متعدد معانی پائے جاتے ہیں۔
”اِلَیْہِ یَصْعَدُالْکَلِمُ الْطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہ۔“ معاشرتی تعلقات کی بہتری کو عدالت اور معاشرتی روابط کے بگاڑ کو ظلم کہا جاتا ہے ۔ اگر کوئی قوم مسلمان اور صاحبِ ایمان ہو اور اپنے بقول ”خدا شناس“ بھی ہو، اپنے آپ کو ملت قرآن شمار کرتی ہو، بہت زور و شور سے اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ اور اَشْھَدُ اَنَّ عَلِیًّا وَّلِیُّ اللّٰہِ“ کہتی ہو جبکہ قرآن کا بیان کردہ قانون لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ان کے درمیان نافذ نہ ہو، ان کے اجتماعی تعلقات پر نظر دوڑیائیں تو ہر طرف برائی، دروغ، تہمت، فحشاء اور ظلم و ستم ہی نظر آئے تو قرآن نہ فقط اس قوم کے قابل بقا ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا بلکہ قرآن کا دعویٰ ہے کہ ایسی قوم قابل بقاء نہیں ہے اور اس کی وجہ بھی یہی قانون ہے کہ ہر فرد اور ہر قوم اسی منزل کو حاصل کرے گی جس کے راستے پر گامزن ہو گی۔ اسے ایسی منزل تک پہنچنے کی توفیق نہیں رکھنی چاہئے جس کے راستے پر اس نے قدم ہی نہ اٹھایا ہو۔ قرآن کہتا ہے کہ اگر کوئی مادہ پرست فرد یا قوم اپنے دینوی راستے کو اچھے طریقے سے طے کرے تو وہ اپنے دینوی مقصد میں کامیاب ہو جائے گی اور اگر کوئی خداشناس قوم اسی راستے کو غلط طور پر طے کرنے کی کوشش کرے تو وہ حصولِ مقصد میں ناکام رہے گی۔ بعینہ اگر کسی کافر نے خدا کے راستے میں قدم ہی نہ اٹھایا ہو، اس نے قربت حق، جنت اور اخروی سعادت کے حصول کی کوشش ہی نہ کی ہو تو اسے کس چیز کی توقع ہے؟ جس طرح ہم کو دنیا میں اس سعادت کے حصول کی توقع نہیں رکھنی چاہئے جس کے لئے ہم نے کوشش ہی نہیں کی اسی طرح آخرت میں ایسی کوئی توقع نہیں رکھنی چاہئے جیسا کہ روایات بھی بتاتی ہیں اور خود اس آیت سے بھی پتہ چلتا ہے۔ یہی وہ ہے کہ آیت نور کہ جس کی ساری توجہ ہدایت الٰہی پر ہے اور اس آیت کے ذیل میں بھی ارشاد ہوتا ہے ”یَھْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہ مَنْ یَّشَآ ءُ “ کے بعد ارشاد فرماتا ہے ”لِیَجْزِیَھُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَیَزِیْدَ ھُمْ مِّنْ فَضْلِہ (قرآن اپنے مطالب بہت ہی عمدہ پیرائے میں بیان کرتا ہے) لِیَجْزِیَھُمُ اللّٰہُ کی بازگشت یا تو یَھْدِی اللّٰہُ “ کی جانب ہے یا ”فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہ یُسَبِّعُ لَہ فِیْھَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ“ کی جانب۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ چاہے ہم کہیں کہ خدا ان کی ہدایت اس مقصد کے لئے کرتا ہے یا کہیں کہ ہدایت یافتہ لوگ اس طور پر درست عمل کرتے ہیں اور خدا کو اس مقصد کے لئے فراموش نہیں کرتے ”لِیَجْزِیَھُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا“ ہدایت کا یہ نور اسی لئے تھاکہ خدا ان کو ان کے بہترین اعمال کا بہتر سے بہتر بدلہ دے۔ یہ وہی بات ہے جس کو میں نے پہلے ان الفاظ میں بیان کیا تھا کہ ایمان انسان کے عمل کو وقعت اور اہمیت عطا کرتا ہے، اس عمل کی زیادہ سے زیادہ جو جزا اس کے فاعل کو ملنی چاہئے، اسے ملتی ہے، کیا پاداش ملتی ہے؟ واضح ہے کہ آخرت میں تو پاداش قربِ خدا، ابدی حیات، بہشتِ جاوداں اور گناہوں کی مغفرت کی صورت میں ملے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا میں کیا پاداش ملتی ہے؟ تو قرآن دنیا اور آخرت کے درمیان ہرگز تناقض کا قائل نہیں ہے۔ کیا دنیا اور آخرت میں تضاد پایا جاتا ہے؟ میں آپ کی خدمت میں ایک ضرب المثل بیان کروں گا۔ توجہ کیجئے کہ تضاد ہے یا نہیں۔ ضرب المثل یہ ہے کہ ” چونکہ صد آمد نو دھم پیش ماست“ (یعنی جب سو ہمارے ہاتھ لگے تو پھر نوے بھی ہمارے ہی پاس ہیں)۔ مولانا جلال الدین رومی نے دوسری مثال بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فرض کریں یا تو آپ اونٹوں کی قطار خریدنا چاہتے ہیں یا فقط ان کی مینگنیاں اور اون۔ تو اگر آپ اونٹوں کی قطار خریدیں گے تو آپ ان کی مینگنیوں اور اون کے بھی مالک بن جائے گے، لیکن اگر آپ ان کا گوبر خریدیں گے تو اونٹوں کی قطار کے مالک آپ نہیں بن سکتے۔ مولانا جلال الدین رومی نے اپنی اس مثال کو اس طرح بیان کیا ہے۔
آخرت قطار اشتردان عمو
درتبع دنیاش ہمچون پشک دمو
اگر آپ آخرت کے لئے کوشش کریں گے (یہ نہیں کہ آپ آخرت کے لئے اس لئے کوشش کریں کہ دنیا سے محروم رہیں) تو آپ کو دنیا بھی ملے گی لیکن اگر آپ کی ساری کوشش دنیا کے لئے ہو گی تو آخرت آپ کو نہیں ملے گی۔ اگر آپ اونٹوں کی قطار خریدیں گے تو ان کی پشم اور گوبر بھی آپ کو مل جائیں گے لیکن اگر آپ فقط گوبر اور پشم خریدیں گے تو اونٹوں کی قطار آپ کو نہیں ملے گی بلکہ وہ کسی دوسرے کے حصے میں آئے گی۔
انسان کس صورت میں اپنے عمل سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکتا ہے؟ وہ کس صورت میں دینوی اور اخروی سعادت اور تقربِ الٰہی سے ہمکنار ہو سکتا ہے؟ فقط اس صورت میں کہ جب اس کادل خدا کے نور سے روشن ہو چکا ہو اور وہ جو کام کرے خدا کی خاطر کرے۔ اس صورت میں ”لِیَجْزِیَھُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا“ ہو گا یعنی کسی کام کی زیادہ سے زیادہ جزا جو ملنی چاہئے اسے ملے گی۔ وہ کسی پہلو سے محروم نہیں ہو گا۔ وہ دنیا بھی حاصل کرے گا اور آخرت بھی۔ اس کے بعد خدا فرماتا ہے ”وَیَزِیْدَ ھُمْ مِّنْ وَضْلِہ“ خدا اپنے فضل سے اس سے زیادہ بھی دیتا ہے یعنی زیادہ سے زیادہ پاداش دینے کے علاوہ اپنے فضل کی بدولت مزید دیتا ہے۔ اس بات کو قرآن مجید میں مختلف عبارتوں میں بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ راہِ خدا پر گامزن ہوں ان کو ان کے اعمال کی زیادہ سے زیادہ پاداش بھی ملتی ہے اور جو وہ چاہتے ہیں وہ بھی ان کو ملتا ہے ”وَمَنْ اَرَادَالْاٰخِرَةَ وَسَعٰی لَھَا سَعْیَھَا وَھُوْ مُوٴْمِنُ  فَاُولٰئِکَ کَانَ سَعْیُھُمْ مَّشْکُورًا۔“ لَھُمْ مَّا یَشَآ ءُ وْنَ فِیْھَا کے ساتھ ساتھ ”وَلَدَینَا مَزِیْدُ  “ بھی ہے۔ چونکہ اس صورت میں انسان فطرت کے ٹھیک ٹھیک راستے پر چلا ہے اور اس نے صحیح راستے کو طے کیا ہے اس لئے اس کو بعض ایسی چیزیں ملیں گی جو اس نے طلب نہیں کی ہوں گی۔ جو اس کی تمنا سے بالاتر ہوں گی۔ اس بات کو دوسری جگہ یوں بیان کیا گیا ہے ”مَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَةِ نَزِدْلَہ فِیْ حَرْثِہ۔“
ایک اور تعبیر قرآن میں متعدد مقامات پر آئی ہے اور بہت ہی عمدہ تعبیر ہے۔ قرآن کی بعض آیات میں آیا ہے کہ جو شخص برا کام کرے گا اسے اس کے کام کے مطابق برابر برابر سزا ملے گی جبکہ نیکی کا کام کرنے والے کو کام سے کئی گناہ زیادہ پاداش ملے گی۔ ”مَنْ جَآ ءَ بِالْحَسَنْةِ فَلَہ عَشْرُ اَمْثَالِھَا“ جو نیکی کرے گا اسے دس گناہ پاداش ملے گی۔ قرآن کی ایک اور بہت ہی لطیف اور عالی منطق یہ ہے کہ ”وَمَنْ یَّقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْلَہ فِیْھَا حُسْنًا“ (یہ بہت ہی عمدہ او رعجیب ہے) جو شخص نیک کام کرے گا ہم اس کے کام کے حسن کو چار چاند لگا دیں گے۔ جب کام فطرت اور رضائے الٰہی کے لئے ہو تب ایسا ہوت اہے۔ اگر آپ خدا کی خوشنودی کے حصول کے لئے کوئی کام کریں تو ممکن ہے اس میں عیوب و نقائص پائے جاتے ہوں۔ ان نقائص کو خدا اپنے فضل و کرم سے برطرف کر دیتا ہے۔ وہ کام کے بھدے پن کو ختم کرکے اس میں حسن پیدا کر دیتا ہے۔ خدا نیک کام کے سلسلے میں آرائش گر کا کام کرتا ہے۔ وہ نیک کام کے عیوب کو چھپا کر اس میں زیبائی پیدا کرتا ہے۔
پس یہاں دو مطالب ہیں۔ ایک یہ کہ جب کوئی شخص نیک کام کرتا ہے تو خدا اس کو دس نیکیاں شمار کرتا ہے۔ یہ ہے کمیت کے اعتبار سے کام کا پہلو۔ یعنی خدا اس کی مقدار کو زیادہ کر دیتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کام کا ایک اور پہلو بھی ہے جو کیفیت کے اعتبار سے ہے۔ وہ یہ کہ انسان کوئی کام کرتا ہے جو کسی حد تک زیبا ہے لیکن مکمل طور پر زیبا نہیں ہے، اس میں کچھ خامیاں رہ گئی ہیں تو خدا اس کی زیبائی کو چار چاند لگا کر اسے مکمل طو رپر زیبا بنا دیتا ہے، اس کے حسن میں کوئی کسر باقی نہیں رہ جاتی۔ او ریہ سب باتیں اس صورت میں ہوتی ہیں جب انسان ان اعمال سے قبل اس سراسر عالم میں پھیلے ہوئے نور سے منور ہو چکا ہو، وہ اندھا گمراہ اور اس کا دل تاریک نہ ہو۔ یہ تمام معجزات ایمان کے نور اور خلقت کے حقیقی مقصد کے روشن ہونے ہی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ ”لِیَجْزِیَھُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا“ تاکہ خدا ان کو ان کے اس عمل کی جزا دے جو انہوں نے بطریق احسن انجام دیا ہے۔ یعنی انہوں نے جو عمل انجام دیا ہے تو جس حد تک اسے بطریق احسن انجام دیا جا سکتا تھا وہ انجام دیتے ہیں اورخدا بھی اس کی بہترین جزا ان کو دیتا ہے۔ یہ جزا ان کے اس عمل کی ہے جو انہوں نے انجام دیا ہے اور اس جزا کے وہ خواہاں تھے۔ اس کے ساتھ خدا یہ بھی کہتا ہے کہ ”وَیَزِیْدَ ھُمْ مِّنْ فَضْلِہ“ خدا اپنے فضل سے انہیں مزید عطا کرتا ہے۔ ”وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآ ءُ بِغَیْرِ حِسَابٍِ“ خدا جسے چاہتا ہے بے حساب اور بے اندازہ رزق عطا کرتا ہے۔ رزق فقط روٹی یا پانی نہیں ہے بلکہ اس سے مراد خدا کا فضل اور اس کی رحمت ہے۔ خدا جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔
البتہ خدا کا چاہنا قرعہ یا لغو امور پر موقوف نہیں ہے۔ پھر خدا کن لوگوں کے لئے چاہتا ہے؟ ان لوگوں کے لئے چاہتا ہے جن کا ذکر اس نے خود کر دیا ہے۔ اب میں بعد کی دو آیات کی جانب فقط اشارہ کروں گا اور آئندہ تقریر میں ان پر تفصیلی گفتگو کروں گا۔
جس آیت پر یہاں تک بحث کی گئی ہے وہ مومن کے عمل کے متعلق تھی۔ جو لوگ موٴمن نہیں ہیں، نہ فقط موٴمن و قاصر ہی بلکہ مقصر اور معاند بھی ہیں تو خدا نے ان کے اعمال کو تین مثالوں کے ساتھ بیان کیا ہے۔ جن میں سے دو کا ذکر یہاں آیا ہے۔ ان تینوں مثالوں میں سے ہر مثال ایک بنیادی مطلب کو بیان کر رہی ہے۔ قرآن ایک جگہ کہتا ہے کہ کفار کے اعمال خاکستر کے ڈھیر کے مانند ہیں جس کو تیز ہوا (جس دن وہ ہوا چلے) بکھیر دیتی ہے۔ اسی مطلب کو دوسری آیات میں بھی بیان کیا گای ہے البتہ ان آیات میں مثال کی صورت میں بیان نہیں کیا گیا مثلاً یہ کہ ”وَقَدِمْنَآ اِلیٰ مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاہُ ھَبَآ ءً مَّنْثُوْرًا“ پس اس آیت میں کہا جا رہا ہے کہ کفار کے عمل کی کچھ نہ کچھ حیثیت ہے، (ایسا نہیں ہے کہ ان کے اعمال کالعدم ہوں) لیکن ہوا کا جھونکا آتا ہے جو ان کو پراگندہ کر دیتا ہے، ان کو بکھیر دیتا ہے۔ خدا نے دوسری جگہ کفار کے اعما ل کو سراب سے تشبیہہ دی ہے۔ بیابانوں خصوصاً پتھریلے بیابانوں کو اگر انسان دور سے دیکھے تو وہ اسے موجیں مارتا ہوا سمندر سمجھتا ہے اور وہ اپنی پیاس بجھانے کے لئے اس کی طرف بڑھتا ہے لیکن جوں جوں اس کے نزدیک پہنچتا ہے وہ اتنا ہی اس سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ پھر دھیرے دھیرے انسان کی سمجھ میں آتا ہے کہ فقط اس کا خیال تھا، یہ پانی نہیں ہے بلکہ نور کے انعکاس کی وجہ سے پانی دکھائی دے رہا ہے۔ اس نے پانی کا روپ تو دھار لیا ہے لیکن پانی نہیں ہے۔
ایک جگہ قرآن کفار کے اعمال کو ان اندھیروں سے تشبیہہ دیتا ہے جن سے انسان ایک گھٹا ٹوپ اندھیری رات میں سمندر کی طوفانی موجود کے اندر دوچار ہوتا ہے۔ سمندر ہے کہ مسلسل ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ بادل بھی چھائے ہوئے ہیں۔ روشنی ک انام و نشان تک نہیں۔ تیرگی ہے کہ امنڈتی ہی چلی آتی ہے۔ ایسے اندھیرے میں انسان اپنا ہاتھ اپنی آنکھوں کے قریب تو لے جاتا ہے لیکن اسے دیکھ نہیں سکتا۔
ان تینوں مثالوں میں سے ہر مثال ایک خاص مطلب کو مدنظر رکھے ہوئے ہے۔ ایک مثال کفار کے برے اعمال کی ہے جو ”ظُلُمَاتُ مبَعْضُھَا فوْقَ بَعْضٍ“ ایک مثال ان کے اچھے اعمال کی ہے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ انہوں نے اچھا کام انجام دیا ہے لیکن بعد میں انہیں پتہ چلتا ہے کہ وہ سراب تھا، پانی نہیں تھا اور ایک مثال ان کے اچھے کاموں کی ہے جن کی کچھ نہ کچھ وقعت و حیثیت تھی۔ لیکن ان کے بعد وہ کوئی ایسا کام کر بیٹھتے ہیں جو ان کے کاموں پر پانی پھیر دیتا ہے۔
بِاسْمِکَ الْعَظِیْمِ الْاَعْظَمِ الْاَعَزِّ الْاَجَلِّ الْاَکْرَرمِ یَآ اَاللّٰہُ…
 

صرف علی

محفلین
نویں تقریر
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ​
وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓ ا اَعَمَالُھُمْ کَسَرابٍم بِقِیْعَةٍ یَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَآ ءً حَتّیٰٓ اِذَا جَآ ءَ ہ لَمْ یَجِدْہُ شَیْئًا وَّ وَجَدَاللّٰہَ عِنْدَہ فَوَفّٰہُ حِسَابَہط وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ اَوْ کَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَّغْشٰہُ مَوجُ  مِّنْ فَوْقِہ مَوْجُ  مِّنْ فَوْقِہ سَحابُ ط ظُلُمَاتُ م بَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍطاِذَآ اَخْرَجَ یَدَہ لَمْ یَکَدْ یَرٰھَا وَمَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰہُ لَہ نُوْرًا فَمَا لَہ مِنْ نُّورٍ۔ “
ان آیات میں کفار کے اعمال کے انجام کوبیان کیا گیا ہے۔ اگر کوئی کافر اپنے خیال کے مطابق نیک کام کرے تو اس کا انجام کیا ہو گا اور اگر برا کام کرے گا تو اس کا انجام کیا ہو گا۔ میں یہاں تمہید کے طور پر ایک دو مطلب بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ایک یہ کہ قرآن کے نزدیک کافر کون ہے؟ کیا کافر سے مراد ہر غیر موٴمن ہے؟ کیا ہم ہر غیرمسلم کو ” کافر“ کہہ سکتے ہیں؟ اور یہاں جو قرآن نے ”کافر“ کہا ہے کیا وہ ہر غیرمسلم پر صادق آتا ہے، یا کافر کا ایک خاص معنی ہے یعنی کافر فقط اس غیر مسلم کو کہا جاتا ہے جو اپنی کوتاہی کی وجہ سے مسلمان نہ ہوا ہو؟ اس کے برعکس اس غیر مسلم کو کافر نہیں کہا جا سکتا جو اسلام نہ لانے میں بے قصور ہو؟
علماء ایک اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ اس اصطلاح کا سرچشمہ قرآن ہے۔ وہ جاہل کو مقسم قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جاہل کی دو قسمیں ہیں، قاصر اور مقصر۔ خلاف ورزی کرنے والا یا قاصر ہو گا یا مقصر ”قاصر“ یعنی بے قصور۔ اور مقصر کا مطلب ہے کوتاہی کرنے والا۔ اگر کوئی شخص کسی مسئلے سے آگاہ نہ ہو یا اس نے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہو تو یا تو اس کی وجہ عدم دسترس ہو گی، یعنی اس کی اپنی غلطی نہیں ہے، اس نے اپنی طرف کوئی کوتاہی نہیں کی بلکہ اس کے پاس اس کے سوا چارہ ہی نہیں تھا۔ اس کی وجہ اس کی اپنی کوتاہی ہے۔ یعنی وہ مقصر ہے۔ مقصر اسے کہتے ہیں جو جانتے اور سمجھتے ہوئے اپنی ہوس پرستی اور نفس پرستی کی وجہ سے اس حقیقت کا انکار کرے جس کو وہ جانتا ہو۔ ایسے اشخاص کے متعلق قرآن کی اپنی اصطلاحات بھی ہیں۔ البتہ قرآن نے قاصر و مقصر کے الفاظ ان کے لئے استعمال نہیں کئے۔ قرآن نے ان کے لئے دوسرے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ مثلاً ”اَلْمُسْتَضْعَفِیْنَ “ یعنی جن کو کمزور شمار کیا گیا ہے۔ بعض مقامات پر ”مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّہِ“ کے الفاظ ہیں اور ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو ہرگز اس گروہ کے انجام کا فیصلہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس گروہ کا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ خدا خود بہتر جانتا ہے کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جانا چاہئے۔ البتہ یہ بذاتِ خود رحمت کی ایک نوید ہے۔
ممکن ہے ایسے اشخاص مسلمان نہ ہوں۔ اب بھی دنیا میں ایسے علاقے موجود ہیں (افریقہ، امریکہ، یورپ، سرزمینِ مشرق میں اور دوسری جگہوں میں) جہاں کے باشندوں نے ممکن ہے اسلام کا نام بھی نہ سنا ہو۔ بعض مقامات پر تو اس پالیسی کے ساتھ حکومت کی جاتی ہے کہ لوگوں کو شروع سے ہی دین اور خدا کا نام تک معلوم نہ ہو سکے۔ ایک اعتبار سے تو یہ بھی کافر ہیں یعنی مسلمان نہیں ہیں۔ لیکن کوئی ان کو ہٹ دھرم کافر نہیں کہتا۔ ہٹ دھرم کافر اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کے سامنے اسلام کو پیش کیا گیا تو اس نے اسلام کو حق جانا لیکن اس کا ذاتی مفاد، جاہ طلبی او رتعصب اسلام قبول کرنے میں آڑے آیا ہو۔ جس اس نے حق کو اپنے خلاف پایا تو اس کے خلاف آواز اٹھا دی ہو۔ حقیقت میں کفر کا معنی یہی ہے۔ ہم ہر غیرمسلم، اگرچہ اس کے سامنے اسلام کو پیش نہ کیا گیا ہو کہ وہ اس کے خلاف اپنا ردعمل ظاہر کر لے، کو ایک معنی کے اعتبار سے کافر کہہ سکتے ہیں لیکن دوسرے معنی کے لحاظ سے اسے کافر نہیں کہہ سکتے۔ قرآن نے اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا کہا ہے۔ اس سے یہ گروہ مراد نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد وہ گروہ ہے جس کے سامنے حقیقت کو پیش کیا گیا ہو لیکن اس نے اس کا انکار کر دیا ہو۔ ”کفر“ کا مطلب ہے چھپانا۔ یہ گروہ حقیقت پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے یعنی اس گروہ کے افراد مقصر ہیں۔ ان کے بارے میں قرآن فرماتا ہے، ”وَجَحَدُوْا بِھَا وَاسْتَیْقَنَتْھَآ اَنْفُسُھُمْ “
یعنی اگرچہ اپنے دل کی گہرائیوں سے اس پر یقین رکھتے ہیں اس کے باوجود ہٹ دھرمی کرتے ہیں۔ اسلام اس کا نام نہیں کہ کوئی جانتا ہے یا نہیں جانتا بلکہ اس کی حقیقت تسلیم کرنے سے عبارت ہے۔ کسی شخص کا فقط جان لینا اور حقیقت کو سمجھ لینا ہی اس کے مسلمان ہونے کے لئے کافی نہیں ہے۔ جب انسان پر حقیقت آشکار ہو جائے تو اس کے مقابلے میں اس کا ردعمل ”اٰمَنَّا وَسَلَّمْنَا وَصَدَّقْنَا“ ہونا چاہئے اور اسی کواسلام کہتے ہیں۔
اگر ایسا نہ ہو تو میں آپ سے پوچھتا ہو کہ شیطان کافر ہے یا نہیں؟ بے شک وہ کافر ہے۔ قرآن بھی کہتا ہے ”وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ “ لیکن میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ شیطان (جسے قرآن نے کافر گردانا ہے) خدا کو پہچانتا ہے یا نہیں؟ کیا وہ جانتا ہے کہ خدا موجود ہے یا نہیں؟ وہ بہتر طور پر جانتا ہے۔ وہ اس حد تک خدا کو پہچانتا ہے فَبِعِزَّتِکَ (تیری عزت کی قسم)۔ کیا شیطان کو انبیاء اور مخلص بندوں کا علم ہے یا نہیں؟ بہت اچھی طرح علم ہے کیونکہ اس نے کہا تھا ”اِلاَّ عِبَادَکَ مِنْھُمُ المُخْلَصِیْنَ۔“ اسے خدا کے مخلص بندوں کے ایک گروہ کا علم تھا جن کو سامنے رکھ کر اس نے ان کو ”مخلص بندوں“ کا نام دیا تھا اور اعتراف کیا تھا کہ ان تک میری رسائی نہیں ہو گی۔ وہ ان کو اس حد تک پہچانتا تھا کہ اس نے کہا تھا ”لیکن ان تک میری دسترس نہیں ہے۔ ان میں کوئی کمزوری نہیں پائی جاتی جس سے فائدہ اٹھاکر میں ان پر اپنا تسلط جما سکوں۔“
آ ئمّہ کو جانتا ہے یا نہیں؟ انبیاء کی طرح آئمہ کو بھی بہت اچھی طرح جانتا ہے۔ کیا قیامت پر اس کا اعتقاد ہے یا نہیں؟ یعنی کیا اسے معلوم ہے کہ قیامت کا ایک دن مقرر ہے یا وہ نہیں جانتا؟ اس کا بھی اسے یقین ہے۔ اس نے کہا تھا ”فَاَنْظِرْ فِیْٓ اِلیٰ یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ۔“ اے خدا مجھے قیامت تک مہلت دے۔ (ص۔ ۷۹)
جو خدا او رانبیاء کو پہچانتا ہو اور قیامت پر بھی اس کا یقین کامل ہو (ان تین ارکان پر ایمان لانے کو ہم مسلمان ہونے کی شرط قرار دیتے ہیں) لیکن اس کے باوجود قرآن اس کو کافر کہہ رہا ہے۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جاننا یا نہ جاننا نہ تو کفر کا معیار ہے نہ اسلام کا۔ اسلام کا معیار یہ ہے کہ انسان حقیقت کو جاننے کے بعد اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے اور کفر کا معیار یہ ہے کہ انسان جانتے بوجھتے حقیقت کے انکار اور اس کی مخالفت پر اتر آئے۔
پس قرآن نے جو ایک مقام پر کافروں کے اعمال کو خاکستر کے ڈھیر سے تشبیہہ دی ہے اور دوسرے مقام پر سراب سے تشبیہہ دی ہے اور تیسرے مقام پر سمندر کی گہرائیوں میں پائی جانے والی تاریکیوں سے تشبیہہ دی ہے تو یہ سب ان کافروں کے اعمال کی تشبیہہ ہے جن کے سامنے حق پیش کیا گیا لیکن انہوں نے اسے قبول کرنے کی بجائے اس کے خلاف محاذ آرائی کر لی۔ قرآن ایک مقام پر ایک عجیب نقشہ کھینچ رہا ہے۔ ”وَاِذْ قَالُوْا اعلّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَالْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآ ءِ کہتا ہے کہ اس وقت کو یاد کرو کہ جب انہوں نے آسمان کی طرف ہاتھ بلند کرکے کہا تھا کہ اے خدا اگر نبوت کا دعویٰ کرنے والے اس محمد کی بات سچ ہے اور وہ واقعی پیغمبر ہے اور تیری جانب سے مبعوث ہوا ہے تو آسمان سے ہم پر پتھر برسا کر ہمیں نابود کر دے تاکہ ہم نہ دیکھیں۔ کفر کا معنی یہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر یہی حق ہے تو ہم کو نابود کر دے تاکہ ہم اسے دیکھنے نہ پائیں۔
دوسرا گروہ، یعنی ایسے کافر کہ جن کے کافر ہونے کامعنی یہ ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں لیکن قاصر ہیں اور قرآن کے الفاظ میں ”مُستضعفین“ اور ”مُرجَون لِاِمر اللّٰہ“ ہیں۔ (غیرمسلموں اور کفار کی اکثریت کا تعلق شاید اسی گروہ سے ہو اللہ ہی جانتا ہے)۔ وہ عورت یا بچہ یا دیہاتی یا جاہل جو پسماندہ علاقوں میں رہتا ہے اس کے سامنے حقیقت کو پیش ہی نہیں کیا گیا اور بعض اوقات تو دانشمند افراد کی بھی حقیقت تک دسترس نہیں ہوتی۔ میں نے اپنی کتاب ”عدل الٰہی“ میں ڈیکارٹ کے متعلق بیان کئے جانے والے واقعے کو نقل کیا ہے۔ ڈیکارٹ ایک معروف فلسفی ہے اس نے اپنے فلسفہ کی بنیاد شک پر استوار کی ہے۔ یعنی پہلے اس نے محسوس کیا کہ فلسفے کی جس ڈگر پر وہ چل رہا ہے وہ اسے منزل مقصود تک نہیں پہنچا سکتی اس لئے اس نے ہر چیز پر خطِ بطلان کھینچ دیا اور اپنے دل سے کہا کہ اب میں اول سے شروع کروں گا۔ اس نے یہ دیکھنے کے لئے کہ یقین کہاں سے حاصل ہوتا ہے ہر چیز میں شک کرنا شروع کر دیا۔ فقط مذہبی مسائل میں ہی اس نے شک نہیں کیا بلکہ ہر چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیا۔ کہنے لگا شاید خدا نہ ہو، انبیاء نہ ہوں، بلکہ ممکن ہے کہ دنیا ہی نہ ہو، رنگ، حجم، جسم اور حرارت کابھی وجود نہ ہو۔ یہ سب کچھ خیالی امور ہی ہوں۔ کیا ایسا نہیں ہوتا کہ انسان خواب میں ایک بہت وسیع اور عظیم دنیا کو دیکھتا اور خواب کے وقت اس کے حقیقت ہونے میں شک نہیں کرتا مگر جب بیدار ہوتا ہے تو اس وقت اسے پتہ چلتا ہے کہ جو کچھ میں نے دیکھا تھا خیال تھا۔ ڈیکارٹ پھر کہنے لگا کہ میں ہر چیز می شک کر سکتا ہوں لیکن ایک چیز میں شک نہیں کر سکتا اور وہ یہ ہے کہ ”میں شک کرتا ہوں۔“ یعنی میں اس میں شک نہیں کر سکتا کہ ”میں شک کرتا ہوں۔“ پس دو چیزیں تو یقیناً موجود ہیں، ایک شک اور دوسرا شک کرنے والا جو کہ میں خود ہوں۔ پس اگر جہان میں کوئی اور چیز نہ بھی ہو تب بھی میں اور میرا شک تو یقینی طور پر موجود ہیں۔ پھر اس نے کہا کہ ایک بات واضح ہو گئی۔ میں اسے اپنا زینہ قرار دے کر ایک ایک قدم اٹھاتا ہوا آگے بڑھوں گا۔ پھر اس نے اپنی ذات سے تحقیقی کا آغاز کیا اور کہا کہ میں بھی موجود ہوں، میرا شک بھی ہے۔ تو اب سوال یہ ہے کہ کیا میں اور میرا شک کسی اور چیز کے سہارے کے بغیر ہی موجود ہیں یا ہمارے وجود کے لئے ضروری ہے کہ کوئی اور چیز بھی موجود ہو؟ تو وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ دوسری چیز کا ہونا بھی ضروری ہے۔ وہ ایک ایک قدم اٹھاتا ہوا آگے بڑھا (یہ واقعہ مفصل ہے) اور اس نتیجے پر پہنچا کہ خدا کا انکار نہیں کیا جا سکتا، خدا ہے، روح ہے، جسم ہے، آہستہ آہستہ اس نے ان بہت سی باتوں کو قبول کر لیا جن کا وہ پہلے بھی قائل تھا۔ بہت سی باتوں کا انکار بھی کیا۔ اس کے بعد اس نے مذہب کے متعلق تحقیق کی (اس مقام پر انسان ڈیکارٹ کو انصاف پسند قرار دیتا ہے) اور وہ اپنے اردگرد کے تمام مذاہب کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ ان میں سے عیسایت ہی سب سے اچھا مذہب ہے۔ اس نے کہا کہ میں عیسائیت کو دنیا میں موجود تمام مذاہب سے بہتر قرار نہیں دیتا کیونکہ مجھے معلوم نہیں کہ دنیا میں کون کونسے مذاہب پائے جاتے ہیں۔ (ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ ساڑھے تین سو سال قبل ڈیکارٹ کا زمانہ آجکل کی طرح کا نہیں تھا۔ اب بھی جہان کے تمام حقائق آشکار نہیں ہوئے چہ جائیکہ ڈیکارٹ کے زمانے میں آشکار ہوئے ہوں) ۔ شاید دنیا میں عیسائی مذہب سے بہتر مذاہب موجود ہوں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب ڈیکارٹ نے کسی ایسے دور دراز علاقے کو بطور مثال پیش کرنا چاہا جس میں پائے جانے والے مذہب کا اس کو علم نہیں تھا تو اس نے ایران کا نام لیا اور کہا کہ ممکن ہے ایران میں ایسا مذہب موجود ہو جو عیسائیت سے بہتر ہو۔
تو ڈیکارٹ جیسے غیرمتعصب شخص، جو حق قبول کرنے کے لئے جان و دل سے آمادہ ہو (ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ڈیکارٹ حق تک نہ پہنچ سکا) کا شمار مستضعفین اور قاصرین میں سے ہو گا۔ اس کا شمار مقصرین اور معاندین میں سے نہیں ہو گا۔
 

صرف علی

محفلین
اس مطلب کو اچھی طرح جاننے کے بعد اب ہم خدا کی بارگاہ میں انسان کے اعمال کے قبول ہونے، قرآن کے الفاظ میں انسان کے عمل کے اوپر جانے کی وضاحت کرتے ہیں۔ درحقیقت عمل قبول ہونے کا معنی اس کا اوپر جانا ہی ہے۔ خدا کا قبول کرنا ہمارے قبول کرنے جیسا نہیں ہے۔ انسان جو اعمال انجام دیتا ہے ان کی ماہیت اس کے خلوص، نیت اور روح کی پاکیزگی سے وابستہ ہے۔ انسان کا عمل کبھی خدا کی جانب اوپر جاتا ہے۔ (اِلَیْہِ یَصْعَدُالْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہ) اور کبھی اوپر کی بجائے نیچے جاتا ہے۔ (اِنَّ کِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِیْ سِجِّیْنٍ) حدیث بتاتی ہے کہ ہم جو نماز پڑھتے ہیں بعض اوقات وہ ایک نورانی جسم میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ (ہم کو عالمِ غیب کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں لیکن یہ یقینی ہے کہ عالمِ غیب ہمارے اس جہان سے زیادہ وسیع اور منظم ہے اور اس کے امور زیادہ دقیق ہیں)۔ تو بعض اوقات ہماری نماز نورانی جسم میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ وہ اوپر جاتی اور ہفتگانہ پردوں کو پھاڑ دتی ہے۔ اور بعض اوقات ہماری نماز ایسی ہوتی ہے کہ جو فرشتے اسے اوپر لے جانے پر مامور ہیں جب ایک بلند مقام پر لے کر جاتے ہیں تووہ مقام ان سے کہتا ہے لُوُّوْہُ فِیْ خِرْقَةٍ اسے ایک کپڑے میں لپیٹ کر پڑھنے والے کے سر پر دے مارو۔ بہت سی نمازیں ایسی ہیں جو اوپر جانے کی بجائے نیچے جاتی ہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ انسان بعض اوقات کوئی نیک کام قُرْبَةً اِلَی اللّٰہِ“ انجام دیتا ہے۔ مثلاً قُرْبَةً اِلَی اللّٰہِ“ کسی شخص کی حاجت روائی کرتا ہے۔ تو اس کا یہ عمل ایک نورانی عمل بن جاتا ہے اور مقامات عالیہ میں جگہ پیدا کر لیتا ہے۔ لیکن بعد میں شیطان اس کو بھٹکا دیتا ہے۔ اس کے باوجود اس نے ریاکاری کی نیت سے عمل انجام نہیں دیا تھا۔ اس کا عمل پاک تھا۔ عمل انجام دینے کے بعد ریاکاری کر بیٹھتا ہے۔ کسی محفل میں بیٹھا ہو تو اس عمل کا خیال بار بار اس کے ذہن میں آتا ہے اور زبان پر آنے کی کوشش کرتا ہے بالکل اس بلی کی مانند جسے تھیلے میں بند کر دیا گیا ہو اور وہ فوراً باہر نکلنا چاہتی ہو۔ آخرکار اس سے نہیں رہا جاتا اور وہ کہہ دیتا ہے کہ جب ہمیں پتہ چلا کہ فلاں آدمی پر مشکل آ پڑی ہے تو ہم نے اس کی دستگیری کی! جب وہ شخص یہ بات کہتا ہے تو فرشتے کو حکم دیا جاتا ہے کہ اس کے اس نیک عمل کو ایک درجہ نیچے لے جایا جائے۔ (وہ دوبارہ اپنی اس مدد کا تذکرہ کرتا ہے تو اس کا عمل بھی مزید نچلے درجے پر آ جاتا ہے)۔ جب تیسری مرتبہ اس کا ذکر کرتا ہے تو حکم دیا جاتا ہے کہ اس کے کام کو اوپر سے اٹھا کر سجین (دوزخ) میں پھینک دو۔ یعنی پھر اس عمل کو شراب خواری کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہی عمل جو شروع میں اوپر ہو گیا تھا اس کے نیچے لانے کا حکم دیا جاتا ہے۔
پس انسان کے افعال کا ایک حقیقی نظام ہے۔ انسان کے عمل کے اوپر جانے کے لئے ضروری ہے کہ اس نے عمل کے اوپر جانے کا قصد کیا ہو۔ اسی کو ہم ”قصدِ قربت“ سے تعبیر کرتے ہیں۔ انسان کا عمل اس صورت میں ہی اوپر جاتا ہے جب اس نے اسے خلوص نیت اور اس کے اوپر جانے کی نیت سے انجام دیا ہو۔ یہ محال ہے کہ اس نے عمل کے اوپر جانے کی نیت نہ کی ہو اس کے باوجود وہ اوپر چلا جائے۔ اسی لئے ہم خدا اور آخرت پر ایمان (جو قصدِ قربت کی شرط ہے) کو ضروری سمجھتے ہیں۔ جو آدمی خدا پر ایمان نہ رکھتا ہو اور اس نے قصدِ قربت بھی نہ کیا ہو تو اسے اپنے عمل کے اوپر جانے کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ جب اس نے اپنا عمل اوپر بھیجا ہی نہیں تو پھر وہ کیونکر اوپر جائے گا؟ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص ایک پتھر نیچے کی طرف پھینک کر کہے کہ یہ پتھر اوپر کی طرف کیوں نہیں جا رہا؟ اس نے پتھر اوپر کی جانب کب پھینکا تھا کہ وہ اوپر کی جانب جاتا۔ خدا اور آخرت پر ایمان لانا عمل کے قبول ہونے اور اس کے اوپر جانے کی اصلی شرط ہے۔ لیکن بعض چیزیں ایسی بھی ہیں جو آفت کا درجہ رکھتی ہیں۔ یعنی وہ صحیح کام کو نابود کر دیتی ہیں۔ ان میں سے ایک تو یہی کفر و عناد ہے جس کے بارے میں عرض کرچکا ہوں۔ جو انسان حق کے ساتھ دشمنی و عناد برتے گا تو عناد اس کے گزشتہ اعمال کو نابود کر دے گا۔ اگر کوئی متدین عیسائی کسی کام کو قصدِ قربت سے انجام دے تو یقینی طور پر اس کا عمل خداتعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہوگا۔ البتہ اگر وہی شخص کسی دوسرے موقع پر عناد سے کام لے، مثلاً پیغمبر اکرم کی کوئی بات سنتے ہی مخالفت شروع کر دے تو اس کا یہ کفر اس کے پہلے عمل کو ضائع کر دے گا۔ اسی طرح ممکن ہے کہ کوئی سنی کسی کام کو قُرَُْبَةً اِلَی اللّٰہِ کی نیت سے انجام دے اور اس کا یہ عمل پاک و پاکیزہ ہو کر اوپر چلا جائے لیکن اگر امیرالمومنین کی امامت کا مسئلہ اس سے بیان کیا جائے تو وہ اپنے عناد کی وجہ سے اسے قبول نہ کرے تو اس کے تمام اعمال ضائع ہو جائیں گے۔ فقط عناد ہی اعمال کے ضائع ہونے کا موجب نہیں بنتا بلکہ ہم میں بہت سے دیگر امور بھی پائے جاتے ہیں جو ہمارے اعمال کو ضائع کر دیتے ہیں۔ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ فقط کفار اور اہلِ سنت کے اعمال ہی ضائع ہوتے ہیں۔ لازم نہیں کہ عناد فقط توحید، نبوت یا امامت کے مسئلے میں پایاجاتا ہو۔ بلکہ دوسرے مقامات میں بھی اس کا عمل دخل ہے۔ ممکن ہے انسان کسی دوسرے اعتبار سے معاند ہو۔ فرض کریں کہ کوئی شخص مجھ سے ایک مسئلہ پوچھے اور میں اس کا جواب دوں۔ بعد میں وہ شخص وہی مسئلہ کسی دوسرے سے بھی پوچھے اور وہ اس کو دوسرا جواب دے۔ پھر وہ شخص میرے پاس آ کر کہے کہ آپ نے یہ جواب دیا تھا جب کہ فلاں شخص نے دوسرا جواب دیا ہے۔ تو یہ جانتے ہوئے کہ اس کا جواب میرے جواب سے بہتر ہے میں معذرت کرنے اور اپنی غلطی کااعتراف کرنے کی بجا ئے اپنے جواب کی تاویل شروع کر دوں اور اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کی پوری کوشش کروں تو یہ بھی عناد کا ایک درجہ ہے۔ اور جب میں اس قدر خودغرض اور معاند ہوں کہ اپنی غلطی کا اعتراض کرنے اور دوسرے شخص کے صحیح جواب کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تو ایسی صورت میں میری ماز صحیح نہیں ہو سکتی۔
حسد بھی ایک آفت ہے پیغمبر اسلام نے فرمایا اِنَّ الْحَسَدَ لَیَاکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَاتَاْ کُلُ النَّارُ الْحَطَبَ “ حسد انسان کی نیکیوں کو اسی طرح کھا جاتا ہے۔ جیسے آگ ایندھن کو یعنی انسان نیک اعمال انجام دیتا ہے او راس کے نامہٴ اعمال میں بہت سے اعمالِ صالح ہوتے ہیں مگر بعد میں وہ کسی سے حسد کر بیٹھتا ہے جس کی وجہ سے اس کے وہ تمام اعمالِ صالحہ نیست و نابود ہو جاتے ہیں۔ پیغمبر اکرم نے بعض اعمال و اذکار کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص یہ عمل انجام دے گا یا یہ ورد پڑھے گا تو خدا تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک درخت لگائے گا۔ حاضرین میں سے ایک نے عرض کیا یا رسول اللہ پھر تو جنت میں ہمارے بہت سے درخت ہوں گے۔ آپ نے فرمایا ہاں بشرطیکہ تم یہاں سے آتش بھیج کر ان کو جلا نہ ڈالو۔ پس آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اگرکافر خدا پر ایمان نہ لایا ہو اور نہ ہی قیامت کا معقتد ہو اور اس نے کام کو اوپر بھیجنے کی نیت سے بھی نہ انجام دیا ہو تو اس کا کام اوپر نہیں جا سکتا۔ اور اگر اس نے ایسا کام انجام دیا ہو جو اوپر جانے کی صلاحیت رکھتا ہو لیکن اس نے اپنی ہٹ دھرمی کی بناء پر کفر اختیار کر لیا ہو اور ہوس پرستی کی بنا پر حق کو قبول نہ کر رہا ہو تو اس کا یہ کفر بارگاہِ الٰہی میں اس کے عمل کے قبول ہونے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے اور اس کے عمل کو نابود کر دیتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جس طرح حسد مسلمانوں کے اعمال کو نابود کر دیتا ہے۔ وہ اعمالِ صالح جو خدا کی خوشنودی اور ا سکے تقرب کی نیت سے انجام نہ دیئے گئے ہوں کھوکھلے، فضول اور سراب ہیں۔ وہ خیال کرتا ہے کہ اس نے کام دیئے ہیں لیکن جب آخرت میں اس کی آنکھوں سے پردہ ہٹے گا تو مشاہدہ کرے گا کہ جن کاموں کو وہ اپنے لئے مفید سمجھتا تھا بے جان، فضول اور مردہ ہیں۔ وہ ان کو پانی سمجھتا تھا حالانکہ یہ سب سراب تھے۔ اس سے زیادہ بری حالت تو کافر کی ہو گی، خاص کر جب اس نے اپنی ہٹ دھرمی اور عناد کی وجہ سے کفر اختیار کیا ہو۔ اور وہ کافر ہوتے ہوئے گناہ کا بھی ارتکاب کرے تو پھر ”ظُلُمَاتُ م بََعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍ “ ہوں گی۔ قرآن نے اس گروہ کی عجیب مثال بیان کی ہے ان کے اعمال اس تاریکی جیسے ہیں جس کے اندر بھی تاریکی ہو۔ ”اَوْ کَظُلُمَاتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجُیٍ“ قرآن نے ”بَحْرٍ لُّجُیٍ“ سمندر کو فرض کیا ہے۔ یعنی ایسا سمندر جس کا کچھ حصہ گہرا ہو یا سارے کا سارا سمندر بہت زیادہ گہرائی میں ہو۔ سوال یہ ہے کہ قرآن نے کفار کے اعمال کو تشبیہہ دینے کے لئے گہرے سمندر کی تہہ میں پائی جانے والی تاریکیوں کو کیوں فرض کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہم کسی ایسی جگہ کی مثال بیان کرنا چاہیں جہاں ذرا برابر روشنی نہ ہو اور انسان کو ایسی جگہ پر لے جانا چاہیں جہاں روشنی کا نام تک نہ ہو تو اس کا طریقہ یہی ہے کہ اس کو کسی گہرے سمندر کی تہہ میں لے جائیں۔
جدید زمانے میں عہدِ قدیم کی نسبت زیادہ بہتر طور پر ثابت ہو چکا ہے کہ روشنی پانی کے اندر بھی داخل ہو جاتی ہے۔ یعنی جس طرح وہ ہوا کو روشن کرتی ہے ویسے ہی پانی کو بھی روشن کرتی ہے۔ اس لئے اگر حوض میں صاف ہو تو آپ حوض کی تہہ کو بھی دیکھ سکتے ہیں کیونکہ روشنی پانی کے اندر پہنچتی ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ بہت زیادہ گہرے سمندروں میں چند ہزار میٹر سے زیادہ گہرائی میں روشنی بالکل نہیں پہنچ سکتی۔ وہاں تاریکی ہی تاریکی ہے۔
قدیم زمانے میں خیال کیا جاتا تھا کہ سمندروں کے نچلے حصوں میں جاندار موجود نہیں ہوتے کیونکہ وہاں کسی طور پر بھی روشنی نہیں پہنچتی اور پانی کا دباؤ بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن عصر حاضر میں ثابت ہو گیا ہے کہ سورج کی روشنی نہ پہنچنے کے باوجود بھی وہاں جاندار موجود ہیں۔ خدا نے وہاں کی مخلوقات کو اس طور پر پیدا کیا ہے کہ وہ خود اپنی ذات سے ہی روشنی پیدا کرتی ہیں اور جس نورانی چیز کیان کو ضرورت ہوتی ہے ان کے اپنے بدن سے ہی پیدا ہوتی ہے بناء بریں اگر ایسی جگہ جہاں روشنی کا نام تک نہ ہو انسان کو وہاں لے جانا قابل فرض ہو، کی مثال بَحرٍ لُّجّی ہے۔ قرآن نے بحر نہیں کہا کیونکہ بحر ہر سمندر کوکہا جاتا ہے۔ اور اعتراض ہو سکتا تھا کہ بعض سمندر ایسے ہیں جن کی تہہ میں روشنی پہنچتی ہے۔ بلکہ قرآن نے بَحرٍ لُّجّی کہا ہے۔ بَحرٍ لُّجّی بہت زیادہ گہرے سمندر کو کہتے ہیں۔ بَحرٍ لُّجّی کہہ کر خدا نے ان سمندروں کی طرف اشارہ کیا جو اس حد تک گہرے ہیں کہ ان میں روشنی کی رسائی نہیں۔
قرآن کہنا چاہتا ہے کہ تاریکی کے متعد اسباب نے ان کفار کا محاصرہ کر رکھا ہے جب کہ اگر ان میں سے فقط ایک عامل بھی ہوتا تو وہ کفار کو تاریکی میں لے جاتا۔ صرف یہی نہیں کہ کفار تاریکی میں ہیں بلکہ وہ بہت سی تاریکیوں کے گھیرے میں ہیں اور متعدد عوامل جمع ہو گئے ہیں۔ اگر ان میں سے فقط ایک عامل بھی ہوتا تو وہ بھی ان تک روشنی نہ پہنچنے دیتا۔ ایک عامل یہ ہے کہ وہ گہرے سمندر میں ہیں۔ گہرے سمندر میں روشنی نہیں پہنچ سکتی۔ دوسرا عامل یہ ہے کہ سمندر کی سطح بھی پرسکون نہیں ہے بلکہ مسلسل لہریں اٹھ رہی ہیں اور یہ لہریں دو پہاڑوں کی طرف سمندر سے اوپر چلی جاتی ہیں۔ اس صورت میں بھی سمندر میں روشنی نہیں پہنچ سکتی۔ ان عوامل سے بڑھ کر یہ کہ گھٹائیں بھی چھائی ہوئی ہیں جو سورج، چاند اور ستاروں وغیرہ کی روشنی نہیں پہنچنے دیتیں۔ تو آپ اندازہ لگائیں کہ اس صورت میں کس حد تک بے پناہ تاریکی ہے۔
قرآن کہہ رہا ہے کہ جن کفار نے ہٹ دھرمی کی وجہ سے حق کو قبول نہیں کیا اگر وہ گناہ کا ارتکاب بھی کر لیں تو ان کو تاریکیوں نے اس حد تک اپنے گھیرے میں لے رکھا ہوے کہ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو ایک ایسے گہرے سمندر کی تہہ میں ہو جس میں روشنی پہنچنے کے سارے دروازے بند ہوں۔ یہ مثال آیت نور کی مثال جس کو ہم بیان کر چکے ہیں کے بالکل برعکس ہے اور کہہ چکے ہیں کہ اس کی چند طرح سے تفسیر کی جا سکتی ہے۔ ان میں سے ایک تفسیر، جیسا کہ حدیث بھی بتاتی ہے، یہ ہے کہ یہ مومن کی مثال ہے ”مَثَلب نوْرِہ کَمِشکوٰةٍ فِیْھَا مِصْبَاحُ طاَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍطاَلزُّجَاجَةُ کَاَنَّھَا کَوْکَبُ  دُرِّیّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبَارَکَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لاَّ شَرْقِیَّةٍ وَّلاَ غَرْبِیَّةٍ یَّکَادُ زَیْتُھَا یُضِیْٓ ءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارُ طنُوْرُ  عَلیٰ نُوْرٍطیَھْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہ مَنْ یَّشَآ ءُ۔“ اس آیت میں ایسے انسانوں کو فرض کیا گیا ہے جو ایسے ماحول میں ہیں جہاں نور علی نور ہے۔ نُورِ فطرت، نُورِ نبوّت، ہر طرف نُور ہی نُور ہے۔ جبکہ بعض انسان ایسے بھی ہیں جو ایسی جگہ ہیں جہاں اوپر تلے تاریکی ہی تاریکی ہے۔ انہوں نے اپنی فطرت کا نور بجھا دیا ہے۔ نور فطرت کو بجھانا بذاتِ خود ایک تاریکی ہے اور اس تاریکی پر عناد کی تاریکی کی تہہ بھی جم گئی ہے۔ گناہ اور مسلسل نافرمانیاں جو انسان کی روح کی موجوں اور طوفانوں کی حیثیت رکھتی ہیں ”مَوْجُ  مِّنْ فَوْقِہ مَوْجُ  “ مزید ایک تاریکی ہے، ہر تاریکی چونکہ کسی نور کا نقطہٴ مقابل ہے۔ جہاں نور نہیں ہو گا تاریکی ہو گی، جہاں ہدایتِ وحی نہیں ہو گی وہاں تاریکی ہو گی۔ جہاں فطرت کا چراغ گل ہو چکا ہو گا ہواں تاریکی ہو گی۔ عمل صالح بھی نور ہے (چونکہ ہم بیان کر چکے ہیں۔ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہ عمل صالح کا اثر یہ ہے کہ وہ انسان کے دل کو روشن کرتا ہے)۔ اگر انسان نیک عمل انجام نہ دے تو اس کا دوسرا پہلو اندھیرا ہو گا۔ جس قدر اہلِ ایمان کے گروہ پر نور نے احاطہ کیا ہوا ہے اسی قدر کفار کے اس گروہ کا متعدد تاریکیوں نے محاصرہ کر رکھا ہے۔
الغرض قرآن نے یہاں کفار کے اعمال کی دو مثالیں بیان کی ہیں۔ ایک یہ کہ ان کو سراب کی مانند قرار دیا ہے۔ اس مثال میں قرآن کی نظر کفار کے ان نیک کاموں پر ہے جن پر وہ آس لگائے بیٹھے ہیں۔ بے چارو تمہارا خیال باطل ہے۔ جب تک خدا پر ٹھیک طرح سے تمہارا ایمان نہیں ہو گا، جب تک تم خدا کے نور سے منور نہیں ہو گے اس وقت تک تمہارے اعمال میں جان نہیں پڑ سکتی۔ تمہارے اعمال میں پانی کی کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی جو تمہاری پیاس کو برطرف کر سکے۔ دوسری مثال کفار کے گناہوں کی ہے۔ مفسرین نے یہ دو مثالیں بیان کرنے کی چند وجوہات بین کی ہیں۔ شاید زیادہ مفسرین نے اس وجہ کو بیان کیا ہے اور یہی وجہ بہتر ہے کہ پہلی مثال کفار کے نیک کاموں کی ہے او ردوسری برے کاموں کی ہے جو تاریکی در تاریکی ہیں۔
میں نے بیان کیاتھا کہ کفار کے اعمال کی ایک اور مثال قرآن نے بیان کی ہے۔ یعنی ایک مقام پر قرآن نے کفار کے اعمال کو خاکستر کے اس ڈھیر سے تشبیہہ دی ہے جو تیز ہوا چلنے سے بکھر جاتا ہے۔ گزشتہ تقریر میں بیان کر چکا ہوں کہ اس مثال میں قرآن کی نظر کفار کے ان نیک کاموں پر ہے جو انہوں نے قربة الی اللّٰہ کی نیت سے کئے ہیں اور واقعی کام کئے ہیں۔ مگر بعد میں ان کا عناد، کفر یا دوسری کوئی چیز ان کو نابو دکر ڈالی ہے۔ بہرحال قرآن کی منطق یہ ہے کہ چاہے کوئی مسلمان ہو چاہے کافر۔ وَقَدِمْنَآ اِلیٰ مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاہُ ھَبَآ ءً مَّنْثُوْرًا۔“ (فرقان۔ ۲۳) قرآن کہتا ہے کہ اکثر یوں ہوتا ہے کہ نیک اعمال کا ایک ڈھیر ہوتا ہے لیکن ہم اسے غبار کی مانند بکھیر دیتے ہیں۔ البتہ خدا تعالیٰ ہرگز نیک اعمال کو ان کے نیک ہونے کی بنا پر نابود نہیں کرتا بلکہ ہمارا تکوینی نظام ہی ایسا ہے کہ اگر کفار نیک اعمال بجا لانے کے بعد گناہوں کا ارتکاب کریں تو ان کے وہ اعمال بطور کلی نابود ہو جاتے ہیں۔
قرآن کریم نے کفار کے اعمال کی یہ تین مثالیں بیان کی ہیں اور جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں ان کفار سے مراد تمام غیرمسلم نہیں ہیں بلکہ وہ کفار مراد ہیں جو حق کی مخالفت او راس کے خلاف محاذآرائی کرتے ہیں۔ ان دو آیات کے برعکس کہ جنہوں نے نور (نور وحی و نور فطرت) سے محروم ہونے کہ جس کا نام تاریکی ہے کا نقشہ کھینچا ہے بعد والی آیت نور کا نقشہ کھینچ رہی ہے۔ یہ آیت انسان، خاص کر حق کی مخالفت کرنے والوں کے بارے میں نہیں ہے بلکہ کائنات کے تمام ذرات کے بارے میں ہے۔ کائنات کے تمام ذرات نورِ الٰہی کی بدولت منور ہیں۔ ہر مخلوق اپنی دنیا میں خدا کو پہچانتی ہے او راس کی تسبیح گو ہے۔ سب سے پہلے قرآن نے ہی کہا تھا کہ اگر تمہارے کان قوتِ سماعت رکھتے ہوں اور تمہارا دل آگاہ و روشن ہو تو تم مشاہدہ کرو گے ساری کائنات میں خداشناسی، ذکر خدا اور اس کی تسبیح کا ہمہمہ ہے۔ اس کی تفسیر انشاء اللہ آئندہ تقریر میں بیان کروں گا۔
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہِ الطّاھِرِیْنَ
 
Top