میر مہدی مجروح قتل کرتا ہے تو کر خوف کسی کا کیا ہے - میر مہدی مجروح

کاشفی

محفلین
غزل
(میر مہدی مجروح)
قتل کرتا ہے تو کر خوف کسی کا کیا ہے
سر یہ موجود ہے ہردم کا تقاضا کیا ہے
نزع کے وقت یہ آنکھوں کا اشارا کیا ہے
سامنے میرے دھرا ساغرِ صہبا کیا ہے
اپنا یوں دُور سے آ آکے دکھانا جوبن
اور پھر پوچھنا مجھ سے کہ تمنّا کیا ہے
چشم پُر آب مری دیکھ کے ہنس کر بولے
یہ تو اک نوح کا طوفان ہے رونا کیا ہے
تیرا پیکان نہیں ہے تو بتا اے قاتل
سانس کے ساتھ یہ سینہ میں کھٹکتا کیا ہے
کیا برآئے وہ طلب جو کہ محالات سے ہو
پہلے سمجھو تو سہی خواہشِ موسیٰ کیا ہے
جو کہ خود ہیچ ہو، ہیں اُس کے سب اسباب بھی ہیچ
جبکہ دنیا ہی نہیں دولتِ دنیا کیا ہے
اس کے آشوب سے عاشق ہی کا دل واقف ہے
تم کو معلوم نہیں چشم ستم زا کیا ہے
دلِ مضطر کی عبث ہے مرے سینہ میں تلاش
دیکھئے کا آنکھ جھُکا کر یہ تہ پا کیا ہے
لاکھ ہوں سامنے وہ آنکھ ملاتا ہی نہیں
گلہء یار سنو شکوہء اعدا کیا ہے
کر کے غارت دلِ عاشق کو بھلا لے گا
تیری حسرت کے سوا اور وہ رکھتا کیا ہے
خواب میں جلوہء جاں سوز دکھایا کس نے
پوچھے یوسف سے کوئی جرمِ زلیخا کیا ہے
آنکھ کھل جائے گی برقع کو جلایا جس دم
ابھی سمجھے وہ نہیں آہِ شرر زا کیا ہے
کون رکھتا ہے توقع کہ جیئں گے کل تک
فکر کر آج کی اندیشہء فردا کیا ہے
کہتے ہیں دل ہی نہ دیتے جو سمجھتے دلبر
واہ اُس شوخ کا اندازِ تقاضا کیا ہے
حالتِ نزع ہے، لب ہوا ہوا چاہتے ہیں
اب تو مجروح سے پوچھو کہ تمنّا کیا ہے
 

مغزل

محفلین
تیرا پیکان نہیں ہے تو بتا اے قاتل
سانس کے ساتھ یہ سینہ میں کھٹکتا کیا ہے

کیا کہنے کاشفی بھائی بہت عمدہ انتخاب ہے سلامتی ہو ۔۔۔ لاجواب
 
Top