قبل از نسبت

نوید اکرم

محفلین
جنہیں ہے بتانی حیات اپنی ساری
انہیں گفتگو کی اجازت نہیں ہے

یہ شرم و حیا ہے کہ ناقص خیالی
عیاں یہ تو مجھ پر حقیقت نہیں ہے

مگر شہر کے اے عزیزو! یہ سن لو
یہ مذہب نہیں ہے، شرافت نہیں ہے
 

الف عین

لائبریرین
بحر و اوزان تو درست ہیں۔ لیکن دھاگے کا عنوان،ا ور اشعار کا تعلق بلکہ اشعار کا مفہوم بھی واضح نہیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جنہیں ہے بتانی حیات اپنی ساری
انہیں گفتگو کی اجازت نہیں ہے

یہ شرم و حیا ہے کہ ناقص خیالی
عیاں یہ تو مجھ پر حقیقت نہیں ہے

مگر شہر کے اے عزیزو! یہ سن لو
یہ مذہب نہیں ہے، شرافت نہیں ہے

میرا خیال ہے کہ یہ اشعار شادی سے پہلے طریفین کے درمیان (جائز) تعلقات کے بارے میں ہیں ۔ :) لیکن جیسا کہ اعجاز عبید صاحب نے فرمایا ہر چیز مبہم سی ہے ۔

پہلے مصرع میں بِتانی میں ب کو مکسور کردیں۔ اعراب ان الفاظ پر ضرور لگانے چاہئیں کہ جہاں ان کے عدم استعمال سے کوئی اور لفظ پڑھے جانے کا اندیشہ ہو ۔ :)

تیسر شعر میں شہر کے عزیزو سے کیا مراد ہے سمجھ میں نہیں آیا۔ (شہر کسی لڑکی کا نام تو نہیں ہوسکتا :)) ۔ شہر کا ذکر غیر ضروری لگتا ہے ۔ میری ناچیز رائے میں یہ مصرع دوبارہ کہہ لیں ۔
اور میری رائے میں عنوان کو بھی زیادہ واضح ہونا چاہئے کہ جو بغیر غور و فکر کے قاری کے ذہن کو موضوع تک لے جائے ۔ آپکے خیالات اچھے ہیں اور ایک اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے آپ نے۔ لیکن موضوع کے ساتھ انصاف کرنا ابھی باقی ہے ۔
 

نوید اکرم

محفلین
بحر و اوزان تو درست ہیں۔ لیکن دھاگے کا عنوان،ا ور اشعار کا تعلق بلکہ اشعار کا مفہوم بھی واضح نہیں۔
میرا خیال ہے کہ یہ اشعار شادی سے پہلے طریفین کے درمیان (جائز) تعلقات کے بارے میں ہیں ۔ :) لیکن جیسا کہ اعجاز عبید صاحب نے فرمایا ہر چیز مبہم سی ہے ۔
اور میری رائے میں عنوان کو بھی زیادہ واضح ہونا چاہئے کہ جو بغیر غور و فکر کے قاری کے ذہن کو موضوع تک لے جائے ۔

مفہوم:
ہمارے ہاں بہت سے گھروں میں رشتہ طے کرنے سے پہلے لڑکے اور لڑکی کو (تنہائی میں جائے بغیر) آپس میں گفت و شنید نہیں کرنے دی جاتی۔ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں: ایک یہ کہ لڑکی شرم کی وجہ سے خود ایسا نہیں کرنا چاہتی اور دوسری یہ کہ اس کے پیچھے کوئی ناقص سوچ پائی جاتی ہے۔ یہ بات تو میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ کونسی وجہ زیادہ پائی جاتی ہے تاہم میں شہر کے عزت دار لوگوں کو یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ یہ نہ تو ہمارے مذہب کی تعلیم ہے اور نہ ہی اس سے ان کی شرافت پہ کوئی حرف آتا ہے۔ (چناچہ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا مذہب ہمیں یہ کہتا ہے تو انہیں ایسا سمجھنا بند کر دینا چاہئے اور اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شریف لوگوں کے ہاں ایسا نہیں ہوتا تو بھی انہیں اپنی یہ سوچ ترک کر دینی چاہئے)
عنوان:
ویسے تو یہ ایک قطعہ ہے اور قطعہ کا عنوان لازمی نہیں ہوتا لیکن اشعار سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ یہ کس وقت کی بات کی جارہی ہے جب گفتگو کی اجازت نہیں ہے۔ اس ابہام کو دور کرنے کے لیے میں نے اسے "قبل از نسبت" کا عنوان دیا۔ واضح کر دوں کہ میں نکاح یا شادی سے پہلے نہیں بلکہ رشتہ طے کرنے سے پہلے یا منگنی سے پہلے گفتگو کی بات کر رہا ہوں تاکہ لڑکے اور لڑکی کو ایک دوسرے کے خیالات جاننے کا موقع مل سکے اور ان کے لئے یہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہو کہ آیا وہ ساری زندگی ایک دوسرے کے ساتھ گزار سکتے ہیں کہ نہیں۔
اگر عنوان "قبل ازنسبت گفتگو" کر دیا جائے تو کیسا رہے گا؟
 

نوید اکرم

محفلین
تیسر شعر میں شہر کے عزیزو سے کیا مراد ہے سمجھ میں نہیں آیا۔ (شہر کسی لڑکی کا نام تو نہیں ہوسکتا :)) ۔ شہر کا ذکر غیر ضروری لگتا ہے ۔ میری ناچیز رائے میں یہ مصرع دوبارہ کہہ لیں ۔
شہر کے عزیزو سے مراد شہر کے عزت دار لوگ ہیں۔ یہاں عزیز "رشتہ دار" کے مفہوم میں نہیں بلکہ" عزت والا اور صاحب مرتبہ " کے مفہوم میں ہے۔
 

نوید اکرم

محفلین
پہلے مصرع میں بِتانی میں ب کو مکسور کردیں۔ اعراب ان الفاظ پر ضرور لگانے چاہئیں کہ جہاں ان کے عدم استعمال سے کوئی اور لفظ پڑھے جانے کا اندیشہ ہو ۔ :)
آپ کی بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں ۔ تاہم "تدوین" کی آپشن نہ ہونے کی وجہ سے اس پر عمل کرنے سے قاصر ہوں
 
Top