قبر کا کوئی در نہ دروازہ ۔ رفیق اظہر

فرخ منظور

لائبریرین
قبر کا کوئی در نہ دروازہ
کیا سنے گا وہ میرا آوازہ

کِھنڈ گئی تن پہ موت کی زردی
زندگانی ہے عارضی غازہ

مَر کے بیمار نے کیا آرام
طے ہوا کشمکش کا خمیازہ

دفن کرتے ہیں موتیوں کو لوگ
داب آئے ہیں ہم گُلِ تازہ

(رفیق اظہر)
 
Top