یوں تو روزانہ سینکڑوں لو گ پیدا ہوتے ہیں لیکن ایسے افراد جو قوموں کی رہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ہر روز پیدا نہیں ہوتے ۔ زمانے میں فکر ی کام کرنے والے لو گ کم ہی ہوتے ہیں لیکن ایک فکر انگیز شخصیت اُن لاکھوں لو گوں پر سبقت رکھتی ہے جو صرف ہتھیار چلانا جانتے ہیں۔ کام کا مَر د اگر ایک ہی پیدا ہو جائے تو وہ قوموں کی تقدیروں کے رُخ بدل دیتا ہے ایک لمبے عرصے تک لو گ کسی قائد کے پیدا ہو جانے کا انتظار کرتے ہیں ۔ رہنما کے بغیر کئی دہائیوں کی محنت وہ رنگ نہیں لاتی جو رہنما کی سر کر دگی میں چند برسوں میں لے آتی ہے ۔ اس کی بہت سی وجو ہات ہوتی ہیں ۔ مثلا ایک خاص وجہ تو یہ ہے کہ رہنما اور قائد لو گ صرف اپنی ذات تک ہی نہیں سو چتے ۔ قائد کو صرف اپنے گھر کی ہی فکر نہیں ہوتی ۔ اُسے پوری قوم کی اجتماعی فکر ہوتی ہے ۔ وہ لو گوں کو متحد ہو کر اپنی قوم کی حفاظت کرنے کی سو چ دیتا ہے جبکہ عوام کے ذہنوں میں یہ خیال موجود ہو تا ہے کہ وہ کسی دوسرے کے لیے کیوں کام کریں ۔ عوام یہ سو چتے ہیں کہ بس جی اپنا رزق کماؤ اپنے بال بچوں کو اچھا کھانا کھلاؤ یہی اچھی زندگی ہے ۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر اپنی قوم کے لیے اجتماعی کام اور اجتماعی حفاظت کو چھوڑ دیا جائے تو پھر تو جب یہ قوم ہی باقی نہ رہے گی پھر ہمارے بچوں کی حفاظت کیسے ممکن ہو گی رزق تو ان کے بچے بھی کھاتے ہیں جو سخت گرمیوں کی دو پہروں میں اور سر دیوں کی برفانی ٹھٹھرتی ہوئی راتوں میں جاگ کر قوم کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں عوام کے لیے پہر ہ دیتے ہیں ۔
قائد اپنے عوام کو یہ حقیقتیں بتاتا ہے کہ وہ بھی اجتماعی طور پر قوم کے لیے کام کریں ۔ اپنی کمائی میں سے قوم و ملک کے لیے سرمایہ فراہم کریں تاکہ اُسی سرمایے میں سے اُن نو جوانوں کی تنخواہوں کا بند و بست ہو سکے جو راتوں کو جاگ کر پہر ہ دیتے ہیں اور عوام بڑے مزے کے ساتھ اپنے آرام دہ کمروں میں آرام فرماتے ہیں اور نیند کے مزے لو ٹتے ہیں ۔ قائد اگر حقیقی مخلص اور درست سمت میں رہنمائی کرنے والا ہو تو وہ قوم کو بتاتا ہے کہ اپنے ارد گرد نظر رکھیں اور معاشرے کا غور سے مطالعہ کرتے رہیں ۔ کہ کس کس انداز سے قوم کو نقصان پہنچانے کے لیے لو گ تحریکیں بنا کر اور انفرادی طورپر کام کر رہے ہیں ۔ اُن عناصر پر نظر رکھیں جو اشیاء ضروریات کو مہنگے داموں فروخت کرکے قوم کا سرمایہ غرق کر رہے ہیں اور لو گوں کی سوچ کو صرف مہنگائی کی زد میں لا کر محدود کرتے جا رہے ہیں ۔ قائد ہی بتا تا ہے کہ دیکھو مختلف سیاسی تحریکیں عوام کو تقسیم کرنے کے لیے اور آپس میں نفرتیں پھیلا نے کے لیے کہیں علاقائی علیحدگی کے لیے کام کر رہی ہیں اور کہیں کسی خاص زبان کو بولنے والے لو گوں کو مشتعل کر کے انتشار پھیلا نے کا کام کیا جارہا ہے تو کہیں نئے صوبے بنانے کے نام پر منا فقت جنم لے رہی ہے ۔ عوام کو ایک امت ، ایک ملت ، ایک قوم ہونے کا جو احساس اسلامی تعلیمات سے ملتا ہے اس کو ختم کرنے کے لیے طرح طرح کے گھناؤ نے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں ہماری بدقسمتی ہے کہ آج ہم کسی کو اپنا قائد تسلیم کرنے پر رضا مند اور متحد نظر نہیں آرہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس قوم کو متعد د بار استعمال کیا گیا ۔ کبھی اسلام کے نام پر اور کبھی جمہوریت کے نام پر بنی سیاسی پارٹیوں نے روٹی ، کپڑا اور مکان یا دیگر منشور بنا کر قوم کو ان مقاصد کے لیے استعمال کیا جن سے ان کا اپنا پیٹ بھرنے کی راہ ہموار ہوتی ہو اورجن سے امریکہ و دیگر کافر ممالک کی حکومتوں والے آقا خوش ہوتے ہوں ۔ اور یہ پارٹیاں اور جماعتیں بڑے منظم انداز سے کام کرتی نظر آئیں ۔ کیونکہ بُرے لو گ ہمیشہ منظم ہوتے ہیں ۔ آج بھی کچھ تنظیمیں کفار کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے اس وطنِ پاک کے خلاف طرح طرح کے حربے استعمال کر رہی ہیں اور عوام کو اپنے ہی ملک کے خلاف کام کرنے کی سوچ فراہم کر رہی ہیں ۔اور عوام کو چونکہ کسی ایک قائد کی رہنمائی میں متحد ہو جانے کا شعور نہیں اس لیے وہ کسی نہ کسی تنظیم کو منتخب کر لیتے ہیں اور اسلام کے نام پر کام کرنے کے دھو کے میں وہ اپنے ہی وطن کو غیر محفوظ بنانے مین مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔ اپنی ہی اجتماعی طاقت کو ختم کر رہے ہیں اور اپنے دین اسلام ہی کے مخالف کفار کے لیے کام کر رہے ہیں ۔ صاف ظاہر ہے کہ جب آپ اپنے وطن کے خلاف کر یں گے تو ملک ٹوٹ جائے گا ( خدا نخو استہ ) اور جب ملک ہی نہ رہے گا تو پھر کیسی حفاظت اور کیسا اسلام کا قلعہ ؟ تب یہ تنظیمیں اس خام خیالی میں ہوں گی کہ ہم نے اپنے کافر آقاؤں کے لیے کام کیا تھا ان کے لیے راہ ہموار کی تھی اب وہ ہمیں تو بڑی بڑی مراعات دیں گے اور ہماری بڑی عزت افزائی ہوگی ۔ تو تب یہ تنظیموں والے دیکھیں گے کہ کفار پہلے ان کار گڑا نکالیں گے کیونکہ کفار کا موقف ہو گا کہ تم تو اپنے ہم مذہبوں اپنے ہم وطنوں اور اپنی قوم کے خیر خواہ نہیں تھے ہمارے وفادار کیسے رہو گے ؟ پھر ان تنظیموں اور پارٹیوں کی بھی خیر نہ ہو گی اس سے پہلے کہ خدا نخواستہ کہیں اس طرح کے حالات پید ا ہوں اور ہمیں ان مصائب کا سامنا کرنا پڑے ہماری قوم کو ضرورت ہے کہ وہ حالات کا باریک بینی سے مطالعہ کرے اوراپنے بچوں کو لقمہ حلا ل کھلا کر ان کی تعلیم و تربیت اسلامی انداز میں کرے اور بچوں کو ہر طرح کا شعور فراہم کرے اُن کو اغیار کے پھیلا ئے ہوئے پھندوں میں پھنسنے سے روکے اور ان کو اسلام کا سپاہی بننے کی تربیت دے ۔ ان کو کفار کی غلا م اور کفار کے لیے کام کرنے والی گمراہ تنظیموں سے بچنے کے لیے اسلام کا درست مطالعہ کروائے ۔ بچوں کو مسجد میں بھیج کر دین کا علم سکھائے ۔ بچوں کے اندر دینی مدارس کی عزت و عظمت کو پروان چڑھائے ۔ بچوں کو اپنے دین وملت کے لیے کام کرنے کی سوچ فراہم کرے ۔ اُنہیں نئے نئے فرقوں اور نئی نئی جماعتوں سے بچنے کا درس دے ۔ جو کہ اسلام کے نام پر لو گوں کو گمراہ کر کے کفار کی مرضی کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی جھولی میں ڈال دیتی ہیں اورجہاد جیسے مقدس فریضے کے نام پر عوام کو استعمال کر کے اپنے ہی ملک کو تباہ و برباد کرنے کا سامان پیدا کر تی ہیں ۔ بچوں کو بتایا جائے کہ ہمارے ملک کی اسلامی فوج جہاد ہی کے لیے ہے اور ہمیں اُسی فوج کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ۔ ورنہ ہم اپنی طرح طرح کی جماعتوں کے ذریعے فساد کر کے اللہ کے اس فرمان کے مصداق کا فر اور فسادی ثابت ہو رہے ہیں۔
اور اس کے ساتھ ساتھ اس ملک و قوم اور فوج کی جڑیں کمزور ہو رہی ہیں ۔ ہمیں تو متحد ہو کر اپنے ملک کو اسلام کا قلعہ ثابت کر کے یہاں صالح لو گوں کو اس کی قیادت فراہم کر کے پوری دنیا پر عالم اسلام کا پر چم لہرانا تھا لیکن یہ کیا ہم تو اپنے ہی ملک کے خلاف اپنے ہی دین کے خلاف اپنی ہی دینی درس گاہوں کے خلاف کفار کے لیے کام کرنے کو کھڑے ہوگئے اور اس کو جہاد کا نام دے دیا ۔ بھئی جہاد تو مسلمانوں پرفرض ہے اور جو لوگ ہوں ہی کفار کے گماشتے۔۔۔۔ کافروں کے ایجنٹ ۔۔۔تو کیا خیال وہ جہاد کر رہے ہیں یا اسلام کے خلا ف فساد کر رہے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہم تو اصلا ح کرنے والے ہیں ۔ حالا نکہ اللہ فرماتا ہے کہ وہ فساد کرنے والے ہیں ۔ یا د رکھیں کے ان فسادیوں کے پیچھے فکری کام ان لو گوں کا ہے جو کفار کے زر خرید غلام تھے ۔ انہوں نے عیسائی انگریز حکمرانوں کے کہنے پر قرآن پاک کے غلط ترجمے کیے اور انگریز حکومت سے شمس العلماء اور’’سر ‘ کے خطابات وصول کرنے کو اللہ کے محبوب کی غلامی اختیار کرنے پر ترجیح دی اور اُن لو گوں نے مسلمانوں کو اپنے ہی مولویوں (علماء)کے خلاف اُبھارا اور مسلمان عوا م کو مولویوں سے اس قدر متنفر کر دیا کہ یہ لو گ انگریزی تعلیم ہی کو زندگی کا معیا ر بنا بیٹھے۔ اور اپنے ہی مولویوں کو جاہل ، تنگ نظر اور نجانے کیا کیا سمجھنے لگ گے ۔ بد بختی ان عوام کی کہ انہوں نے کبھی دینی مدرسے کے کلا س روم میں جاکر دیکھا ہی نہیں تھا کہ وہاں پر امت میں اتحاد کا درس دیا جارہا ہے ۔ وہاں قرآن اور حدیث کو درست انداز میں سمجھنے کے طریقے بتائے جارہے ہیں ۔ آج سڑکو ں پر فلیکس لگے ہوئے نظر آتے ہیں کہ’’ میں خو د قرآن کا ترجمہ کر سکتا ہوں ‘‘ یہ جملہ آپ کا بھی ہو سکتا ہے ۔ آئیے ایک ماہ قرآن کا ترجمہ کرنا سیکھیں ۔ خدا کا خو ف نہیں ان لو گوں میں ! یہ لو گ یہ نہیں دیکھتے کہ ایک عالمِ دین بارہ سال کی ڈگریاں حاصل کر کے بھی تفسیر ابن عباس کو پڑھنا اپنے لیے سعادت سمجھتا ہے ۔ ترجمہ کنز الا یمان کو پڑھنا سعادت سمجھتا ہے ۔ کیوں ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم خو د قرآن کا ترجمہ درست نہیں کر سکتے کیونکہ اللہ عزوجل نے قرآن میں جو فرمایا ہے وہ خو د نبی کریم ﷺ سے بہتر کوئی سمجھا نہیں سکتا اور آپ کے بعد آپ کے صحابہ نے درست انداز میں وضاحت کے ساتھ قرآن سکھایا ۔ پھر درجہ بہ درجہ قرآن کی تعلیمات ہم تک پہنچی ہیں ۔ کام تو خراب ہوا ہی تب تھا جب اس انگریز کے غلام طبقے نے عیسائیوں کے روپے پرا ن کی غلامی اختیار کرنے کے صلہ میں قرآن کے غلط تراجم کیے اور قوم کو عربی زبان کے لفظی معانوں میں اُلجھا کر گمراہ گیا ۔ مشترقین کے لیے تنقید کے راستے ہموار کیے اور عوام نے ان جھوٹے شمس العماء کو مولوی سمجھ کر ان بد معاشوں کو اپنا خیر خواہ سمجھ لیا۔ عوام سے دست بدستاں التجا ہے کہ خدارا! تحقیق کیجیے اور تاریخ سے معلوم کیجئے کہ 1857کے پہلے فورا بعد کے ادوار میں وہ کس قسم کے مولوی تھے جن کو پھانسی پر لٹکایا گیا جن کے علماء کو کالے پانی یعنی سمندری جزیروں کی طرف جلا وطن کر کے قید کر دیا گیا ۔ اور دوسرے جھوٹے اور جعلی مولوی کون تھے جن کو انگریز کافروں نے شمس العماء کے اور ’’ سر ‘‘ کے خطابات سے نوازا اگر تحقیق کی جائے تو واضح ہو جائے گا کہ جو صحیح العقیدہ اور پرانے عقائد کے علماء تھے انہوں نے اپنا ایمان نہ بیچا ۔ وہ دو ٹکڑے روٹی کے لیے زر خر ید مولوی نہ بن سکے ۔ انہوں نے عیسائی متشرق طبقے کی تحقیقات کی طرز پر قرآن کے غلط ترجمے نہ کیے ۔ انہوں نے کفار کو اپنا آقا نہ مانا ۔ تو اُ ن پر ایک ظلم تو یہ ہوا کہ انگریز کے دور حکومت میں کالج کی تعلیم سے بہرہ ور افراد نے انہیں دقیانوسی اور جاہل گردانا اور مزید ستم یہ کہ قیام پاکستان کے بعد جو تاریخ کی کتابیں لکھی گئیں وہ چونکہ جدید تعلیم یا فتہ طبقے کے قلم سے لکھی گئیں اس لیے اُن قابل قدر ہستیوں کو برصغیر پاک و ہند کے مسلمان ہیروز میں شمار نہ کیا گیا ۔ بلکہ اُن لو گوں کو ہیرو قرار دیا گیا جو انگریز کے ہم نوا اور انگریز حکومت کو اپنے سرکا تاج سمجھتے تھے اور قرآن پاک کی وہ آیات پڑھ پڑھ کر لو گوں کو کہتے کہ حکومت وقت کا احترام ہمارا فرض ہے ۔ جن آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حُکام یعنی ( اُولی الا مر ) مسلمان خلفاء اور اُمراء سلطنت کا احترام کرنے کو فرمایا ہے ان آیا ت کا سہارا لے کر عوام الناس کو برٹش ایمپائر کا غلا م بننے کا درس دینے والے لو گ آج ہمارے سکو ل کے سلیبس میں قوم کے ہیرو بتائے جاتے ہیں اور اُس پر فِتن دور میں جن علماء و مشائخ اور مولوی حضرات نے دین کی سر بلندی اور مسلمانوں کی بقا کے لیے جنگ لڑی ان کے نام کسی بھی کھاتے میں درج نہیں کیے گئے ۔ کیونکہ نصاب کو مرتب کرنے والے مصنفین اور قلم کار حضرات کا لج اور یونیورسٹی کی تعلیم سے فیض یا فتہ ہیں اور یہ ادارے چونکہ قیام پاکستان سے پہلے انگریز حکومت کے زیر نگین یا انگریز حکومت کے سر پرستی میں کام کرتے تھے اس لیے انگریز کی پسندیدہ اور ان کے خطابات سے نوازے گئے لو گ ہی ان اداروں کے پر نسپل تھے اور یہی لو گ تعلیم دیتے تھے قیام پاکستان سے پہلے یہی لو گ اپنے قلم کے ذریعے قوم کو انگریز حکومت کے خلاف جہاد سے منع کرتے تھے اور قیام پاکستان کے حامی بھی نہ تھے یہ لو گ کانگریس کی صفوں میں داخل ہو گئے اور نیشنلسٹ تحریکو ں میں مجوزہ پاکستان کے خلاف زہر اگلتے رہے ۔ لیکن خدا کو پاکستان کا قیام منظور تھا اور محمد علی جناح رحمۃاللہ علیہ جیسی زیرک اور دور اندیش شخصیت میں قوم کا قائد بننے کی صلا حیت موجود تھی ۔ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر قومِ مسلم کو ہندو اور انگریز کی غلا می کا درس دینے والی بے شمار باطل تحریکو ں کے خلا ف قائداعظم کی صرف ایک جماعت مسلم لیگ نے محنت اور اخلا ص نیت سے 1946کے الیکشن میں واضح برتری حاصل کرکے مسلمانانِ ہند کو بتادیا تھا کہ مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے اور باقی سب جھوٹے ، مکار اور لو گوں کا دین و ایمان سلب کر نے والے غدار ہیں ۔ پاکستان تو وجو د میںآگیا لیکن تعلیمی اداروں کا نظام انہی لوگوں کے ہاتھوں میں رہا ۔ مشرقی پاکستان میں ہندو اساتذہ کی تقرری کے نیتجے میں ان کے پڑھائے ہوئے نو جوانوں نے 1971میں ملک کا ایک بازو علیحدہ کر کے رکھ دیا ۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پیچھے فکری کام ہند و اساتذہ کا تھا اور ہمارا ایک بڑا حصہ ہندوستان کے زیر نگین ہو گا ۔جبکہ یہاں مغربی پاکستان میں جدید تعلیم یافتہ افراد نے قوم کو ان کے تابناک ماضی سے روشناس نہ کروایا اوران کو دین و ملت کا پا سبان بننے کی تعلیم نہ دی وہ یہ تعلیم دے بھی کیسے سکتے تھے ۔ کیونکہ وہ تو خو د دین کی تعلیمات سے دور تھے ۔
 
Top