قائداعظم، کنفیڈریشن اور دیگر امور: ایک حالیہ بحث۔

محسن حجازی

محفلین
میں شدید مصروفیات کے باعث اخبارات بھی نہیں دیکھ پا رہا تاہم ناشتے کی میز پر سرسری دیکھنے سے اندازہ ہوا کہ روزنامہ جنگ کے ادارتی صفحات میں گذشتہ کئی روز سے قائداعظم کے ذاتی کردار، پاکستان اور بھارت کی کنفیڈریشن پر کافی بحث چل رہی ہے جس میں قریب کوئی بارہ تیرہ کالم نویس بیک وقت شریک ہیں۔

ارشاد احمد حقانی نے اپنے دو، تین اور چار جنوری کے کالموں میں قائداعظم کے کردار اورپاک بھارت کنفیڈریشن کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں۔
ڈاکٹر صفدر محمود نے ان اعتراضات کا جواب دیا ہے۔
ہارون رشید بھی بحث میں کود پڑے ہیں۔
خورشید ندیم نے حقانی صاحب کے موقف کی تائید میں لکھا ہے نیز ان پر دشنام طرازی کا الزام ہے۔

مجھے اس بحث کا ادراک تو تھا تاہم روزنامہ ایکپریس میں جنااب عبداللہ طارق سہیل نے بھی اس بحث کی طرف اشارہ کچھ یوں کیا ہے:

1100562272-2.gif


میرا خیال ہے کہ اپنے مضمون اور شرکا کے اعتبار سے یہ ایک نہایت اہم بحث ہے جسے یہاں فورم پر محفوظ کرلینا چاہئے۔
میں وقت ملنے پر مزید روابط شامل کرتا رہوں گا تاہم اردو محفل کے وہ پرانے احباب جو ماضی میں مختلف فکری مباحث میں میرے ساتھ شریک رہے ہیں، ان سے التماس ہے کہ اگر یہ بحث آپ کی نظر سے بھی گزری ہے تو ازراہ کرم یہاں روابط وغیرہ جمع کرتے جائيے۔

والسلام،
محسن حجازی۔
 

محسن حجازی

محفلین
اس ضمن میں ارشاد احمد حقانی کا پہلا مضمون:

برصغیر ہندو مسلم تنازع- کیا کوئی مثبت آپشن موجود ہے؟ از ارشاد احمد حقانی
آج میں ایک اہم اور حساس موضوع پر اظہار خیال کرنے والا ہوں :
سیفما کے سیکرٹری جنرل اور میرے عزیز دوست جناب امتیاز عالم کا عرصے تک معمول رہا ہے کہ جب وہ دفتر آتے تو سب سے پہلے میرے کمرے میں تشریف لاتے اور چائے کی پیالی پر گپ شپ ہوتی۔ وہ مجھے کہتے کہ مجھے دفتر آنے میں سب سے بڑی دلچسپی یہی ہوتی ہے کہ آپ کے ساتھ ایک نشست ہو جاتی ہے۔ سالوں پر پھیلی ہوئی ان نشستوں کے دوران کوئی دس بارہ برس پہلے میں نے ان سے کہا کہ پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات کے حوالے سے میرے ذہن میں ایک تجویز ہے لیکن میں ابھی حالات کو اس قدر سازگار نہیں سمجھتا کہ اس کو لکھ ڈالوں۔ میں نے انہیں اپنی تجویز کے خدوخال بھی بتائے لیکن خوفِ فسادِ خلق سے یہ تجویز اب تک ناگفتنی ہی رہی تھی۔ مگر اب حالات میں کچھ ایسی تبدیلی آئی ہے کہ اس تجویز کو لکھ دینے سے کوئی بڑا طوفان آنے کا اندیشہ نہیں ہے۔
مزید پڑھیے
 

نبیل

تکنیکی معاون
شکریہ محسن، میں بھی یہی چاہ رہا تھا کہ اس بحث سے متعلق تمام روابط یا اس کے متون ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں۔ اگر تم یہ کام کر سکو تو بہت اچھا ہوگا۔
 
شکریہ محسن بھائی! آج کل اخبارات پڑھنا تو دور، دیکھنا تک چھوڑے ہوئے ہیں۔ ابھی آپ کی پوسٹ دیکھ کر یہ کالم تلاش کیے۔

برصغیر کا ہندو مسلم تنازع ۔ کیا کوئی مثبت آپشن موجود ہے؟ ,,,,حرف تمنا …ارشاد احمد حقانی

دوسری قسط۔

اب آیئے اس سے ایک قدم اور آگے بڑھیں ۔ ایک معاصر میں لکھتے ہوئے ایک محترم دوست کہتے ہیں کہ چند ہفتے قبل مارکیٹ میں ایک کتاب آئی ہے جس کا نام ہے ۔
"The Sun Shall Rise"
اور اسے لاہور کے ایک معروف اور قدیم پبلشر نے شائع کیا ہے۔ اس کے مصنف جناب عطا ربانی ہیں جن کا ماضی ان کی حب الوطنی پر دلالت کرتا ہے۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد وہ رائل انڈین ایئرفورس میں شامل ہو گئے۔ پاکستان معرض وجود میں آیا تو انہیں یہ اعزاز نصیب ہوا کہ وہ قائد اعظم کے پہلے ایئرایڈی کانگ مقرر کئے گئے۔ وہ لکھتے ہیں :
 
برصغیر کا ہندو مسلم تنازع ۔ کیا کوئی مثبت آپشن موجود ہے؟ ....حرف تمنا …ارشاد احمد حقانی(آخری قسط)

اب آیئے آگے چلیں۔
28 دسمبر کے کراچی کے ایک انگریزی معاصر میں وہی تبصرہ نگار جن کا میں پہلے حوالہ دے چکا ہوں لکھتے ہیں :
Pakistan owes it to the Muslims of India who staked their own future on its creation not to add to their woes. It may be recalled that Partition became inevitable only when Nehru unilaterally retracted after the Congress and Muslim League had both accepted the Cabinet Mission Plan. Jinnah felt betrayed. For him then there was no going back despite lobying by Lord Mountbatten and Maulana Azad.​
اس کا ترجمہ یہ ہے :
”ہندوستان کے مسلمانوں نے پاکستان کی تخلیق کے لئے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا اس لئے اب ہمیں کوئی ایسی بات نہ کرنی چاہئے جو ان کے دکھوں میں اضافے کا باعث ہو۔ یاد رہنا چاہئے کہ تقسیم ہند اس وقت ناگزیر ہوئی جب نہرو نے کابینہ مشن پلان کو اس وقت مسترد کر دیا جب مسلم لیگ اور کانگرس دونوں اسے تسلیم کر چکی تھیں۔ اس سے قائد اعظم کو احساس ہوا کہ ان کے ساتھ بے وفائی کی گئی ہے۔ اب ان کے لئے اپنے انکار کے فیصلے سے واپس جانا ممکن نہ تھا باوجود اس کے کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور مولانا آزاد نے انہیں آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ کابینہ مشن پلان کا استرداد ختم کر دیں“۔
 
ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کی جانب سے پہلا جواب

اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں,,,,صبح بخیر…ڈاکٹر صفدر محمود

میں خاصی دیر سے قلم پکڑے بیٹھا ہوں اور فیصلہ نہیں کرپاتا کہ اس موضوع کو چھیڑوں یا خاموش رہوں۔ سچی بات یہ ہے کہ اب کسی بحث میں الجھنے کو جی نہیں چاہتا کیونکہ اول تو اسرائیلی فلسطینیوں پر جو مظالم ڈھارہے ہیں ان کی تفصیل پڑھ کر دل پارہ پارہ ہوجاتا ہے ،دوم اس ضمن میں اقوام متحدہ کا رویہ اور مسلم ممالک کی بے بسی خون کے آنسو رلاتی ہے اور سوم ہندوستان کی ہر روز تازہ دھمکیاں اور مجرموں کو ہمارے حوالے کرو کی رٹ اداسی کے بادلوں کو مزید گہرا کردیتی ہے ،اس لئے جی نہیں چاہتا کہ ایک بار پھر پرانے اور گھسے پٹے موضوعات کو لے کر بیٹھ جاؤں لیکن کیا کروں کہ مہربان چین سے بیٹھنے نہیں دیتے۔ آپ نے یقینا یہ شعر سن رکھا ہوگا۔
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنادیتے ہیں​
کوئی لکھاری قائداعظم یا پاکستان کے بارے میں ایسی ویسی بات لکھ دے تو قارئین اور مہربان دوستوں کا اصرار شروع ہوجاتا ہے کہ اس کی وضاحت کرو، اس کا جواب دو۔
 

arifkarim

معطل
شکریہ محسن اور عمار۔ اس بحث کا کوئی تعمیراتی نتیجہ تو نکلنے نہیں والا، سوائے اسکے کہ پاکستان میں جو بچ گیا ہے، وہ بھی چھن جائے!
 

الف نظامی

لائبریرین
میں نے بہت دنیا دیکھ لی۔ اللہ تعالی نے عزت ، دولت ، شہرت بھی بے حساب دی۔ اب میری زندگی کی ایک ہی تمنا ہے کہ مسلمانوں کو باوقار اور سربلند دیکھوں۔ میری خواہش ہے کہ جب مروں تو میرا دل گواہی دے کہ جناح نے اللہ کے دین اسلام نے خیانت اور پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت سے غداری نہیں کی۔ مسلمانوں کی آزادی ، تنظیم ، اتحاد اور مدافعت میں اپنا کردار ٹھیک ٹھیک ادا کیا اور میرا اللہ کہے کہ اے میرے بندے بے شک تو مسلمان پیدا ہوا، بے شک تو مسلمان مرا۔
قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ 30 کا جولائی 1948 لاہور سکاوٹ ریلی سے خطاب
 

محسن حجازی

محفلین
جنگ اور دیگر اشاعتی اداروں کی انٹرنیٹ پر اشاعت کا کوئي اعتبار نہیں اور روابط کی بابت ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ پانچ سال بعد وہی متون انہیں روابط پر میسر ہوں گے بھی یا نہیں سو اس لیے یہیں پر ارشاد احمد حقانی کے مضمون کی تینوں اقساط جمع کر رہا ہوں۔

برصغیر ہندو مسلم تنازعہ۔ کیا کوئي مثبت آپشن موجود ہے؟
ارشاد احمد حقانی
(قسط اول)
مورخہ 2 جنوری 2009 روزنامہ جنگ​

آج میں ایک اہم اور حساس موضوع پر اظہار خیال کرنے والا ہوں :
سیفما کے سیکرٹری جنرل اور میرے عزیز دوست جناب امتیاز عالم کا عرصے تک معمول رہا ہے کہ جب وہ دفتر آتے تو سب سے پہلے میرے کمرے میں تشریف لاتے اور چائے کی پیالی پر گپ شپ ہوتی۔ وہ مجھے کہتے کہ مجھے دفتر آنے میں سب سے بڑی دلچسپی یہی ہوتی ہے کہ آپ کے ساتھ ایک نشست ہو جاتی ہے۔ سالوں پر پھیلی ہوئی ان نشستوں کے دوران کوئی دس بارہ برس پہلے میں نے ان سے کہا کہ پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات کے حوالے سے میرے ذہن میں ایک تجویز ہے لیکن میں ابھی حالات کو اس قدر سازگار نہیں سمجھتا کہ اس کو لکھ ڈالوں۔ میں نے انہیں اپنی تجویز کے خدوخال بھی بتائے لیکن خوفِ فسادِ خلق سے یہ تجویز اب تک ناگفتنی ہی رہی تھی۔ مگر اب حالات میں کچھ ایسی تبدیلی آئی ہے کہ اس تجویز کو لکھ دینے سے کوئی بڑا طوفان آنے کا اندیشہ نہیں ہے۔
یہ 1966ء کی بات ہے 1965ء کی جنگ کے بعد مشرقی پاکستان میں جو بے چینی پیدا ہوئی وہ مجیب الرحمن کے چھ نکات کی صورت میں ڈھل چکی تھی۔ انہی دنوں لاہور میں مغربی پاکستان کے چوٹی کے تقریباً تمام سیاستدانوں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس کا اہتمام حسب معمول نوابزادہ نصر اللہ خان نے کیا تھا۔ اس کانفرنس میں ملک کی تازہ ترین صورت حال پر، مشرقی پاکستان کی بے چینی کے پس منظر میں، تفصیلی غور و خوض کیا گیا۔ شیخ مجیب الرحمن کو بھی اس کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا۔ انہوں نے کانفرنس کے اکابرین کے سامنے اپنا چھ نکاتی کا فارمولا پیش کیا جسے پوری کانفرنس نے اتفاق رائے سے قطعی طور پر مسترد اور ناقابل قبول قرار دیا۔ چوہدری محمد علی سابق وزیراعظم پاکستان اس کانفرنس کے بعد بھی کچھ دیر کے لئے لاہور میں رکے۔ وہ عام طور پر گرمی اور سردی کے حوالے سے معتدل موسم کراچی اور لاہور میں گزارتے تھے۔ یہ دن ان کے لاہور میں ٹھہرنے کے تھے، میں نے ارادہ کیا کہ ان کی زیارت کی جائے، ان دنوں وہ ایک باریش بزرگ بن چکے تھے۔ میرے ساتھ میرے محترم بھائی اور ممتاز صحافی جناب مصطفی صادق بھی چوہدری صاحب سے ملنے گئے۔ راستے میں میں نے مصطفی صادق صاحب کو بتایا کہ آج میرا ارادہ چوہدری صاحب سے ایک تجویز پر گفتگو کرنے کا ہے جس پر تجویز کی نوعیت جان کر مصطفی صادق نے مجھے کہا کہ آپ چوہدری صاحب سے اس موضوع پر بات نہ کریں لیکن میں مشرقی پاکستان کی صورت حال اور پاک ہند تعلقات کی کشیدگی کی وجہ سے اپنی تجویز پر بات کرنے کے لئے بے چین تھا۔ چوہدری صاحب نے اپنی ابتدائی گفتگو میں کہا کہ وہ مشرقی پاکستان کے حالات سے انتہائی پریشان اور متفکر ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ تو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان وجہ نزاع تھا ہی اور اسی کی وجہ سے 1965ء کی جنگ ہوئی تھی۔ میں نے چوہدری صاحب سے کہا کہ اس سیاق و سباق میں کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ ہم ہندوستان سے اپنے تعلقات کو کوئی نئی شکل دینے کی کوشش کریں۔ دوسرے لفظوں میں کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ ہم دونوں ملکوں کے تعلقات کو Reinvent کریں۔ اس کی میں نے ایک عملی شکل بھی تجویز کی جسے سن کر چوہدری صاحب نے فرمایا کہ ایسا کرنے سے پاکستان اپنی موجودہ شکل میں قائم نہیں رہے گا۔ میں نے ان کے احترام کی وجہ سے ان سے مزید بحث نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن تجویز میرے ذہن میں موجود رہی۔ پاکستان میں چونکہ ایک اچھا خاصا حلقہ ہندوستان سے کسی بھی قسم کے ہمہ جہتی اچھے تعلقات رکھنے کا حامی نہیں ہے اس لئے میں نے بھی اس موضوع کو نہ چھیڑنا ہی مناسب سمجھا۔ لیکن اب ادھر کچھ عرصے سے بعض اکابرین قوم اور بعض اہم صحافتی حلقے ہندوستان سے نئے تعلقات کے سوال پر کچھ کچھ غور کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ 24 مارچ 2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے ہندوستان کے ایک مقبول اور بڑی اشاعت رکھنے والے انگریزی ہفت روزے ”انڈیا ٹو ڈے“ کے جلسے میں شرکت کی تھی جو نئی دہلی میں ہوا تھا۔ اس موقع پر شہید محترمہ نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا پاک ہند تعلقات کو نئے سرے سے ”ایجاد“ کیا جا سکتا ہے؟ اس کے لئے انہوں نے Reinvent کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ ان ابتدائی کلمات اور ہندوستانی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے ساتھ اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات اور سارک کے حوالے سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ میں نے راجیو گاندھی کو تجویز پیش کی تھی کہ ہمیں سارک کو ایک ثقافتی تنظیم کے ساتھ ساتھ ایک اقتصادی تنظیم بھی بنانا چاہئے۔ اس کے بعد انہوں نے 1999 ء میں ہونے والی انڈ و پاک پارلیمنٹرین کانفرنس کا حوالہ دیا تھا جس میں انہوں نے شرکت کی تھی اور دونوں ملکوں کے پارلیمانی ممبران کے سامنے یہ بات رکھی تھی کہ پاکستان ہندوستان اور جنوبی ایشیا کے تمام ملکوں کو اپنے اختلافات اور آپس کے قضیوں کو فی الحال ایک طرف رکھتے ہوئے ایک مشترک منڈی قائم کرنی چاہئے تاکہ ہم اپنے خطے سے غربت ، بھوک ، بیروزگاری اور پچھڑے پن کا خاتمہ اپنی نرم سرحدوں کے ذریعے کر سکیں۔
ادھر میاں نواز شریف بھی یہ تجویز دے چکے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ویزہ کی پابندی ختم کر دینی چاہئے۔ چارٹر آف ڈیمو کریسی میں بھی کہا گیا ہے کہ
Peaceful relations with India and Afghanistan will be pursued without prejudice to outsanding disputes.
اس سے دونوں دستخط کنندگان کی ترجیح کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
اس وقت اگرچہ بدقسمتی سے ممبئی کے المیے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کا ایک بہت برا دور چل رہا ہے لیکن پھر بھی غنیمت ہے کہ ان سطور کے تحریر کئے جانے کے وقت کشیدگی میں کمی کے کچھ آثار پیدا ہو رہے ہیں اور امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں دونوں ملکوں کے درمیان جامع مذاکرات کا وہ عمل پھر شروع کیا جا سکے گا جو اس وقت عارضی طور پر رکا ہوا ہے اور آخرکار دونوں ملک محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کے نظریات کے مطابق باہمی تعلقات قائم کر سکیں گے۔ بی بی نے اپنی شہادت سے کئی ماہ پہلے لندن میں کہا تھا کہ وہ جنوبی ایشیا کو ایک Border less خطہ دیکھنا چاہتی ہیں۔ ہندوستانی وزیر اعظم من موہن سنگھ بھی ایک سے زائد بار کہہ چکے ہیں کہ جغرافیائی سرحدوں کی موجودگی کے باوجود ہم عملاً انہیں غیرمتعلق بنا سکتے ہیں۔ یوں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان آج کے مقابلے پر بہت زیادہ کھلے اور قریبی تعلقات قائم کرنے کی خواہش دونوں طرف موجود ہے۔ میں نے جب 1966ء میں چوہدری محمد علی صاحب سے بات کی تھی تو میرے ذہن میں بھی کچھ اسی قسم کے تعلقات کا خاکہ تھا لیکن چوہدری صاحب کی حوصلہ شکنی کی وجہ سے میں نے پھر اس موضوع پر کافی دیر کچھ نہ لکھنے کا فیصلہ کیا لیکن اب مذکورہ کوائف کے پیش نظر میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات میں کوئی نئی طرح ڈالنے کی کوشش کرنا ویسا شجر ممنوعہ نہیں سمجھا جانا چاہئے جیسا کہ بیس تیس سال پہلے تک سمجھا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر کراچی کے انگریزی معاصر کی 21 دسمبر کی اشاعت میں ادارتی صفحے پر شائع ہونے والے ایک مستقل تبصرہ نگار کہتے ہیں :
The passsage of time and a legacy of mistrust and hostility leave no room to think about a loose federation now. But it should still be possible for the governments of India, Pakistan and Bangladesh to form a block or union of the kind that emerged in Europe out of the hostilities of the Second World War. Evolving a common mechanism that diverts their attention and resources form the weapons of war to the poverty of their people could be the first step in that direction.
Pakistan would stand to gain more than the others because as a percentage of national income it spends twice as much on defence than India and also suffers from terrorism much more than India does. In such a collaborative arrangement 470 million Muslims of the subcontinent would count for more than they do at present, spread as they are, almost equally, over three countries.
اس کا ترجمہ یہ ہے :
”وقت گزرنے اور دونوں ملکوں کے درمیان بداعتمادی اور مخالفت اس بات کی گنجائش نہیں چھوڑتے کہ اب دونوں کے درمیان ایک ڈھیلی ڈھالی فیڈریشن کے سوال پر غور کیا جائے لیکن اس کے باوجود پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش کی حکومتوں کے لئے یہ ممکن ہونا چاہئے کہ وہ ایک بلاک یا ایک یونین ان خطوط پر قائم کر لیں جو جنگ عظیم دوئم کی دشمنیوں کے باوجود یورپ میں رونما ہوئی۔ ایسا مشترکہ طریق کار تلاش کرنا جو ان کی توجہ اور وسائل جنگی ہتھیاروں کی بجائے ان کے عوام کی غربت کی طرف مبذول کردے مذکورہ سمت میں ایک پہلا قدم ہو سکتا ہے۔ اس انتظام سے دوسروں کے مقابلے پر پاکستان کو زیادہ فائدہ ہو گا کیونکہ وہ اپنے دفاع پر اپنی قومی آمدنی کا ہندوستان کے مقابلے پر دگنا استعمال کرتا ہے اور ہندوستان سے بھی بڑھ کر دہشت گردی کا شکار بنا ہوا ہے۔ اس طرح کے تعاون پر مبنی انتظام سے برصغیر کے 470 ملین مسلمان زیادہ اہمیت اختیار کر جائیں گے کیونکہ اس وقت وہ تقریباً مساوی تعداد میں تین ملکوں میں بٹے ہوئے ہیں“۔

بر صغیر کا ہندو مسلم تنازعہ۔ کیا کوئي مثبت آپشن موجود ہے؟
ارشاد احمد حقانی
(دوسری قسط)
مورخہ 3 جنوری 2009 روزنامہ جنگ​

اب آیئے اس سے ایک قدم اور آگے بڑھیں ۔ ایک معاصر میں لکھتے ہوئے ایک محترم دوست کہتے ہیں کہ چند ہفتے قبل مارکیٹ میں ایک کتاب آئی ہے جس کا نام ہے ۔
"The Sun Shall Rise"
اور اسے لاہور کے ایک معروف اور قدیم پبلشر نے شائع کیا ہے۔ اس کے مصنف جناب عطا ربانی ہیں جن کا ماضی ان کی حب الوطنی پر دلالت کرتا ہے۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد وہ رائل انڈین ایئرفورس میں شامل ہو گئے۔ پاکستان معرض وجود میں آیا تو انہیں یہ اعزاز نصیب ہوا کہ وہ قائد اعظم کے پہلے ایئرایڈی کانگ مقرر کئے گئے۔ وہ لکھتے ہیں :
”پاکستان بنتے ہی 15 اگست 1947ء کو ملک کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت میں قائد اعظم نے تین غلطیاں کیں۔ ان کا ایک بیورو کریٹ ملک غلام محمد کو ملک کا پہلا وزیر خزانہ بنانا پہلی ”غلطی “ تھی۔ اس ”غلطی“ نے آنے والے دنوں میں نوزائیدہ مملکت کو بے انتہا اور لاتعداد نقصانات پہنچائے۔ عطا ربانی کا کہنا ہے کہ حضرت قائد اعظم، غلام محمد کی بجائے نوابزادہ لیاقت علی خان کو وزارت عظمیٰ کے ساتھ وزارتِ خزانہ کا اضافی قلمدان بھی سونپ سکتے تھے کہ لیاقت علی خان کی امانت و دیانت اور پاکستان سے کمٹمنٹ اظہر من الشمس تھی۔ مصنف کا کہنا ہے کہ ملک غلام محمد کی بجائے قائد اعظم کسی ایسے سیاستدان کا بھی بطور وزیر خزانہ تقرر کر سکتے تھے جس میں فنانس کے معاملات کو سمجھنے کی اہلیت ہوتی اور جسے سررولینڈز کی نگرانی میں مزید پالش کیا جا سکتا۔ (سر رولینڈز متحدہ ہندوستان میں وائسرائے کونسل کے آخری فنانس ممبر تھے اور قائد اعظم نے پاکستان کے لئے ان کی خدمات عاریتاً لے بھی رکھی تھیں) عطا ربانی کے بقول ملک غلام محمد کو نوزائیدہ پاکستان کا وزیر خزانہ بنایا جانا اس لئے بھی غیرمناسب تھا کہ ایک تو ان کے پاس خزانہ کے معاملات چلانے کا کوئی وسیع تجربہ اور علم نہیں تھا سوائے اس کے کہ انہوں نے جنگ عظیم دوم کے دوران متحدہ ہندوستان کی حکومت میں سپلائی اینڈ پرچیز کے شعبے میں چند سال گزارے تھے اور دوسرا یہ کہ ملک غلام محمد حد سے زیادہ اقتدار کا حریص تھا۔ اپنی اوقات سے بڑھ کر عہدے کا متمنی رہنے والا، نہایت ضدی بیورو کریٹ اور منتقم مزاج بھی۔ اقتدار کے لئے اس کی حرص کا یہ نتیجہ نکلا کہ جلد ہی اس غیرمنتخب شخص نے اقتدار کے ایوانوں میں سازشوں کا جال بچھا دیا اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے اپنا راستہ ہموار کرنے لگا۔ یہ اس کی سازشوں ہی کا نتیجہ تھا کہ تھوڑے عرصے میں قائد اعظم کی رحلت کے بعد گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کی جگہ ملک غلام محمد بیٹھا تھا۔ یہ پاکستان کی بہت بڑی بدقسمتی تھی۔ چونکہ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو سخت ناپسند تھا اس لئے ناپسندیدہ عناصر سے گلوخلاصی کروانے کے لئے غلام محمد نے نہایت جابرانہ ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیئے۔ ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارلیمنٹ میں اس کے خلاف بغاوت کے شعلے بلند ہونے لگے۔ نوزائیدہ پاکستان جسے قدم قدم پر جمہوری فیصلوں اور مشوروں کی ضرورت تھی وہاں ملک غلام محمد کے فیصلوں اور اقدامات کی وجہ سے آمریت کی راہ ہموار ہونے لگی۔ عطا ربانی صاحب کا کہنا ہے کہ غلام محمد نے بلاواسطہ اور بالواسطہ حکومت سازی اور حکومت کے فیصلوں میں بیورو کریسی کو شامل کیا اور آج ہمیں سیاست میں جو آلودگی نظر آ رہی ہے وہ غلام محمد کے فیصلوں کا شاخسانہ ہے۔ غلام محمد ہی کی وجہ سے سول بیورو کریسی کے بعد ملٹری بیورو کریسی نے بھی پر پرزے نکالنا شروع کر دیے جس نے پاکستان کو دولخت بھی کیا اور تین بار ملک فوجی جرنیلوں کے قبضے میں بھی رہا۔
پاکستان آرمی کے پہلے سربراہ کو نافرمانی کی سزا نہ دینا دوسری ”غلطی“ تھی۔ اکتوبر 47ء کے اواخر میں ہمارے قبائلی سری نگر ایئر پورٹ پر قبضہ کرنے کے قریب تھے۔ آس پاس کا علاقہ بھی ان کے زیر قبضہ تھا۔ ایسے میں قائد اعظم نے لیفٹیننٹ جنرل ڈگلس گریسی، جنہیں عارضی طور پر پاکستان آرمی کی کمان دی گئی تھی، کو حکم دیا کہ کشمیری مجاہدین اور قبائلیوں کی اعانت کے لئے ایک بریگیڈ فوج کشمیر بھیجی جائے لیکن گریسی نے قائد کے حکم کی تعمیل کے برعکس فیلڈ مارشل آکین لیک سے رابطہ کیا جو ان دنوں بھارتی فوجوں کے سربراہ تھے اور انہیں قائد اعظم کے فیصلے سے آگاہ کر دیا۔ مصنف کا کہنا ہے کہ وقت اور حالات کا تقاضا تھا کہ قائد اعظم فوری طور پر گریسی کو سزا دیتے ہوئے عہدے سے الگ کر دیتے اور ان کی جگہ پاکستانی فوج کے کسی سینئر افسر کا تقرر عمل میں آتا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سری نگر ایئر پورٹ بھی ہمارے قبائلیوں کی گرفت سے نکل گیا اور کشمیر کی مکمل فتح بھی ادھوری رہ گئی۔ اگر جنرل گریسی کو فوری سزا دے دی جاتی تو نہ بعد میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تین ہلاکت خیز جنگیں ہوتیں اور نہ ہی سیاچن اور کارگل ایسی لڑائیوں کے سانحات رونما ہوتے۔ مصنف عطا ربانی نے دعویٰ کیا ہے کہ نامعلوم وجوہ کی بناء پر نہ صرف جنرل گریسی کو سزا نہ دی جا سکی بلکہ قائد اعظم نے اسے لیفٹیننٹ جنرل سے ترقی دے کر فل جنرل بنا دیا اور پاکستان آرمی کے پہلے باقاعدہ سربراہ ہونے کا اعزاز بھی اسے بخش دیا۔ عطا ربانی کے دعوے کے مطابق، اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینا قائد اعظم کی تیسری ”غلطی“ تھی۔ مصنف کا کہنا ہے کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی اکثریت اردو بولتی تھی لیکن تقسیم ہند نے معاملات بدل دیئے۔ اب مشرقی پاکستان میں 54 فیصد پاکستانی رہتے تھے جو اردو بولنا ،لکھنا اور پڑھنا کم کم جانتے تھے۔ ان کی زبان بنگالی تھی لیکن قائد اعظم نے مارچ 1948ء کو مشرقی پاکستان پہنچ کر اردو کے قومی زبان ہونے کا اعلان کر دیا۔ اگرچہ قائد اعظم نے خلوص نیت سے اور یکجہتی کے لئے یہ اعلان کیا تھا لیکن بنگالی پاکستانیوں نے اس فیصلے کو اپنے کلچر، روایات اور اپنی زبان کے خلاف حملہ سمجھا۔ پھر ہنگامے شروع ہو گئے جس میں تین طلبہ بھی ہلاک ہو گئے۔ مصنف کے مطابق اس فیصلے نے پاکستان کے دونوں بازوؤں کے درمیان حائل 1200 میل کے آبی فاصلوں کو دل کی دوریوں میں بدل دیا۔
بہت سے لوگوں کو جناب عطا ربانی کی رائے سے اختلاف ہو گا لیکن ان کی حب الوطنی پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔ اب ایک اور حوالہ دیکھئے بلکہ ایک Shock کے لئے تیار ہو جایئے۔ 25 دسمبر کے ”ڈان“ میں ”ڈان نیوز“ ٹی وی کی ایک تبصرہ نگار مریم چوہدری لکھتی ہیں: (وہ قائد اعظم پر I remember Jinnah کے عنوان سے ڈان ٹی وی پر اپنے پروگرام کئی بار دکھا چکی ہیں)
JINNAH was a puzzle that has yet to be solved. People can tell you the most outrageous stories about the man and swear on it being honest to God truth. Or they can churn him out to be the man they wanted him to be. So who was Muhammad Ali Jinnah? Was he a statesman that fought for the right of a people who he shared a religion with? Was he a man who married for love and then lost his daughter to a land that was home and then became foreign territory? Was he a civilian with the fire of a freedom fighter or a villain with a vendetta?
میں اس اقتباس کا ترجمہ نہیں دوں گا جو خود اسے سمجھ سکتے ہیں سمجھ لیں اور جو نہیں سمجھ سکتے بہتر ہے کہ وہ نہ ہی سمجھیں۔ مریم چوہدری اپنے انگریزی اخبار کے ایک کالم نویس اردشیر کاؤس جی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں :
Ardeshir Cowasjee, a columnist who met Jinnah, was a slippery one. It was difficult to get him to express his viewpoint on the man that was without a touch of bitterness. Let's just say, whenever the subject of modern-day Pakistan came up, I had to edit a lot of what Mr. Cowasjee had to say since I knew it would not pass censorship.
اس کا ترجمہ بھی نہیں دوں گا۔(جاری ہے)

بر صغیر کا ہندو مسلم تنازعہ۔ کیا کوئي مثبت آپشن موجود ہے؟
ارشاد احمد حقانی
(تیسری قسط)
مورخہ 4 جنوری 2009 روزنامہ جنگ​

اب آیئے آگے چلیں۔
28 دسمبر کے کراچی کے ایک انگریزی معاصر میں وہی تبصرہ نگار جن کا میں پہلے حوالہ دے چکا ہوں لکھتے ہیں :
Pakistan owes it to the Muslims of India who staked their own future on its creation not to add to their woes. It may be recalled that Partition became inevitable only when Nehru unilaterally retracted after the Congress and Muslim League had both accepted the Cabinet Mission Plan. Jinnah felt betrayed. For him then there was no going back despite lobying by Lord Mountbatten and Maulana Azad.
اس کا ترجمہ یہ ہے :
”ہندوستان کے مسلمانوں نے پاکستان کی تخلیق کے لئے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا اس لئے اب ہمیں کوئی ایسی بات نہ کرنی چاہئے جو ان کے دکھوں میں اضافے کا باعث ہو۔ یاد رہنا چاہئے کہ تقسیم ہند اس وقت ناگزیر ہوئی جب نہرو نے کابینہ مشن پلان کو اس وقت مسترد کر دیا جب مسلم لیگ اور کانگرس دونوں اسے تسلیم کر چکی تھیں۔ اس سے قائد اعظم کو احساس ہوا کہ ان کے ساتھ بے وفائی کی گئی ہے۔ اب ان کے لئے اپنے انکار کے فیصلے سے واپس جانا ممکن نہ تھا باوجود اس کے کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور مولانا آزاد نے انہیں آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ کابینہ مشن پلان کا استرداد ختم کر دیں“۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ قائد اعظم کابینہ مشن پلان مسترد کرنے کے اپنے فیصلے پر قائم رہے حالانکہ اگر وہ ماؤنٹ بیٹن اور ابو الکلام کا مشورہ مان لیتے تو کابینہ مشن پلان شاید کسی شکل میں برقرار رہتا اور نہرو نے من مانی کرنے کی جو دھمکی دی تھی، ماؤنٹ بیٹن اور مولانا آزاد کو یقین تھا کہ وہ اس میں نرمی پیدا کرا سکیں گے اور کچھ ردوبدل بھی ممکن ہو سکے گا۔ بہرکیف تقدیر کا لکھا پورا ہوا اور ہم 1947ء کے خون کے دریا سے گزر کر پاکستان آ گئے۔ اس ضمن میں بعض لوگوں نے کچھ مزید غلطیوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو شاید خون کی اس ہولی کو روک سکتی تھیں۔ ہندوستان میں جب عبوری کابینہ بنی تو جناب لیاقت علی خاں کے پاس وزارت خزانہ کا قلمدان تھا۔ چوہدری محمد علی ان کے مشیر تھے۔ اس زمانے میں سردار پٹیل نے اپنی وزارت میں ایک چپڑاسی رکھنے کا فیصلہ کیا۔ از روئے ضابطہ اس نئی تقرری کا اجازت نامہ وزارت خزانہ نے دینا تھا۔ جب ان کے پاس درخواست پہنچی تو وزارت خزانہ نے جواب دیا کہ اس نئی پوسٹ کے لئے بجٹ میں کوئی تجویز نہیں ہے اس لئے اس تقرر کی منظوری نہیں دی جا سکتی اور سردار پٹیل بہت کھسیانے اور تلخ ہوئے۔ ان کی بات مان لی جاتی تو بے شک مسلمانوں کے اندر وزارت خزانہ کی واہ واہ نہ ہوتی لیکن عبوری کابینہ خوش اسلوبی سے چلنے کے امکانات اتنے زیادہ تاریک نہ ہوتے۔ اسی طرح جب لیاقت علی خان نے پہلا بجٹ پیش کیا تو اس میں انہوں نے ہندو سرمایہ داروں (مسلمان سرمایہ دار تو بہت کم تھے) پر بھاری ٹیکس لگائے جس سے پھر مسلمانوں میں واہ واہ ہوئی (مجھے آج تک مسلمانوں کے ردعمل کی تفصیل یاد ہے) لیکن ظاہر ہے کہ ان بجٹ تجاویز نے ہندو سرمایہ کاروں (اور با ایں وجہ سیاستدانوں) میں بڑی تلخی پیدا کی اور یہ بھی ان عوامل میں سے ایک عامل بن گیا جس نے عبوری حکومت کے تجربے کو تلخ بنا دیا۔ اگر یہ تلخ تجربہ یا تجربات نہ ہوئے ہوتے تو کانگرسی قیادت کابینہ مشن پلان کی نامنظوری تک شاید نہ جاتی لیکن قدرت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔ آج کی پاک ہند قیادت کو ان واقعات سے سبق سیکھنا چاہئے اور اب بھی کسی قسم کے دوستانہ تعلقات قائم کرنے پر آمادہ ہو جانا چاہئے۔ میں آج بھی جب کابینہ مشن پلان کی ناکامی پر غور کرتا ہوں تو میرا دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔ ممتاز پاکستانی سکالر اور موٴرخ ڈاکٹر عائشہ جلال کی بھی یہی رائے ہے جو اسلام آباد سے لندن کے ایک سفر کے دوران اگست 2002ء میں انہوں نے میرے سامنے ظاہر کی ۔ سیفما نے کئی ماہ پہلے لاہور میں ساؤتھ ایشیائی صحافیوں کی ایک کانفرنس بلائی تھی جس میں تقریر کرتے ہوئے میں نے کہا تھا ”ماضی میں ہم دونوں سے جو بھی غلطیاں ہوئیں اب تاریخ کی قوتیں ہمیں دھکیل رہی ہیں کہ ہم ہوشمندی اور تعاون باہمی کا راستہ اختیار کریں“۔ میرے اس تبصرے پر پاکستان اور ہندوستان کے چوٹی کے صحافیوں نے اطمینان کا اظہار کیا تھا اور جناب ایم جے اکبر نے تو کہا تھا کہ آپ نے بہت دانائی کی باتیں کی ہیں۔ ممبئی کے حالیہ واقعے اور اس کے نتیجے میں ابھرنے والے خدشات کے بعد تو پاک ہند تعاون کی ضرورت مزید واضح ہو گئی ہے۔ کیا دونوں طرف کوئی سننے والا ہے؟
یوں آپ دیکھیں گے کہ میں نے 40سال پہلے 1966ء میں چوہدری محمد علی کے سامنے جو تجویز پیش کی تھی آج کی پاکستانی قیادت اس کی افادیت کو محسوس کر رہی ہے۔ جناب مصطفی صادق دو دفعہ مجھے تصدیق کر چکے ہیں کہ انہیں یہ ملاقات اور گفتگو یاد ہے۔ مجھے کہنا تو نہیں چاہئے لیکن امر واقع یہ ہے کہ جب میں نے یہ تجویز پیش کی تھی تو میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو ابھی سیاست کے میدان میں داخل بھی نہیں ہوئے تھے۔ وہ قریباً 30 سال پہلے سیاست میں آئے تھے۔
تیسرا واقعہ
مخدوم امین فہیم کی صاحبزادی کی آئر لینڈ میں بطور فرسٹ سیکرٹری تقرری تمام ضابطوں کو نظر انداز کر کے کی گئی۔ اس سے پہلے فرح حمید ڈوگر کا کیس سامنے آیا تھا جس پر حکومت ابھی اصلاح احوال کے لئے آمادہ نہیں ہوئی۔ اب ایک تیسرا ایسا ہی واقعہ سامنے آیا ہے۔ وزیر قانون جناب فاروق ایچ نائیک کی صاحبزادی مشعل کو سٹیٹ بنک میں ایک بڑے عہدے پر فائز کر دیا گیا ہے۔ سٹیٹ بنک نے اس تقرر کا جواز ایک طول طویل پریس ریلیز میں بیان کیا ہے جو کسی کو دھوکہ نہیں دے سکتا۔ جس طرح امین فہیم کی بیٹی کو بہت سے اہل اور میرٹ پر منتخب امیدواروں پر برتری دی گئی تھی اسی طرح نائیک صاحب کی صاحبزادی کو بھی بہت سے اہل اور ٹریننگ مکمل کرنے والے امیدواروں پر سبقت دی گئی ہے۔ ٹریننگ لینے والے امیدواروں کو تقرری پر قریباً 25 ہزار روپیہ تنخواہ ملتی ہے لیکن مشعل بیٹی کو آغاز کار ہی میں 50 ہزار روپیہ تنخواہ دی گئی ہے۔ وہ یقینا اہل اور لائق ہو گی لیکن سٹیٹ بنک کی ملازمت میں داخل ہونے کا ایک طریق کار ہے جسے نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ مخدوم صاحب، ڈوگر صاحب اور نائیک صاحب تینوں اس رسول امّی کا کلمہ پڑھنے والے ہیں جنہوں نے ایک بڑے گھر کی عورت کو چوری کرنے پر قطع ید کی سزا دی تھی اور جب طاقتور لوگوں نے اس کی سفارش کی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میری بیٹی فاطمہ  بھی چوری کرتی تو میں اسے بھی یہی سزا دیتا۔ تم سے پہلی امتیں بھی اسی لئے ہلاک ہوئیں کہ وہ کمزوروں کو پکڑتی تھیں اور طاقتوروں کو چھوڑ دیتی تھیں“۔ ہمارے مذکورہ تینوں اکابرین ایک لمحے کے لئے اپنے اپنے گریبان میں جھانک لیں تو ان کے لئے اور ملک کے لئے بھی اچھا ہوگا۔
 

محسن حجازی

محفلین
ڈاکٹر صفدر محمود کا جواب

کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
ڈاکٹر صفدر محمود
(پہلی قسط)
مورخہ 7 جنوری 2009 روزنامہ جنگ​

میں خاصی دیر سے قلم پکڑے بیٹھا ہوں اور فیصلہ نہیں کرپاتا کہ اس موضوع کو چھیڑوں یا خاموش رہوں۔ سچی بات یہ ہے کہ اب کسی بحث میں الجھنے کو جی نہیں چاہتا کیونکہ اول تو اسرائیلی فلسطینیوں پر جو مظالم ڈھارہے ہیں ان کی تفصیل پڑھ کر دل پارہ پارہ ہوجاتا ہے ،دوم اس ضمن میں اقوام متحدہ کا رویہ اور مسلم ممالک کی بے بسی خون کے آنسو رلاتی ہے اور سوم ہندوستان کی ہر روز تازہ دھمکیاں اور مجرموں کو ہمارے حوالے کرو کی رٹ اداسی کے بادلوں کو مزید گہرا کردیتی ہے ،اس لئے جی نہیں چاہتا کہ ایک بار پھر پرانے اور گھسے پٹے موضوعات کو لے کر بیٹھ جاؤں لیکن کیا کروں کہ مہربان چین سے بیٹھنے نہیں دیتے۔ آپ نے یقینا یہ شعر سن رکھا ہوگا۔
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنادیتے ہیں
کوئی لکھاری قائداعظم یا پاکستان کے بارے میں ایسی ویسی بات لکھ دے تو قارئین اور مہربان دوستوں کا اصرار شروع ہوجاتا ہے کہ اس کی وضاحت کرو، اس کا جواب دو۔ گزشتہ دنوں میرے نہایت محترم بزرگ دوست ارشاد حقانی صاحب نے اپنے کالم میں علوی صاحب کی کتاب کے حوالے سے قائد اعظم کی تین غلطیوں کا ذکر کیا تو مجھے فون اور ای میلیں آئیں کہ اس کاجوب دو لیکن میں نے سبھی حضرات کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ لوگوں کو خود فیصلہ کرنے دیں اور خود غورو خوض کے بعد نتائج اخذ کرنے دیں۔ میں اپنے نقطہ نظر کا اظہار کئی بار کرچکا ہوں۔ کچھ اسی طرح کا واقعہ آج بھی ہوا۔ میں نے ابھی اخبارات نہیں پڑھے تھے کہ ایک بزرگ دوست کافون آیا۔ علیک سلیک کے بعد فرمانے لگے کیا تم نے حقانی صاحب کا کالم پڑھ لیا ہے۔ میں نے جواباً عرض کیا کہ ابھی نہیں۔ وہ مشفق بزرگ بولے کہ ذرا ان کا کالم پڑھ لیں اور پھر کہا کہ میں سوچا کرتا تھا کہ وہ صرف قائد اعظم سے ناراض ہیں لیکن آج ان کا کالم پڑھ کر اندازہ ہوا ہے کہ وہ پاکستان سے بھی ناراض ہیں اور پاکستان کے قیام پر بھی خوش نہیں۔ میں نے نہایت ادب سے عرض کیا کہ میں محترم حقانی صاحب کو پاکستان کا قیمتی اثاثہ سمجھتا ہوں اس لئے مجھے آپ کی یہ رائے سن کر دکھ ہوا ہے، کیونکہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو پاکستان کو عظیم نعمت اور قائد اعظم کو گزشتہ صدی کا عظیم ترین سیاسی رہنماسمجھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ میں نے نہ قائد اعظم کو دیکھا، نہ سنا اور نہ ہی قیام پاکستان کے وقت آگ اور خون کے سمندر سے گزرا اس لئے میری عقیدت اور محبت کے چشمے کتابوں کے مطالعے اور ان موضوعات کو خلوص نیت سے سمجھنے کی کوششوں سے پھوٹتے ہیں۔ بہرحال میں برادرم حقانی صاحب کا کالم پڑھ لوں تو بات ہوگی۔ انہوں نے تاکید کی کہ میں اس موضوع پرلکھوں۔ میں نے جواباً عرض کیا کہ کیا آپ مجھے حقانی صاحب سے ”سطحیت“کا خطاب دلوانا چاہتے ہیں؟میرے وہ مشفق بزرگ ہنسے اور یہ کہہ کر فون بند کردیا کہ ذرا حقانی صاحب کے اس فقرے پر غور کرنا تو تمہیں احساس ہوگا کہ وہ قیام پاکستان کے مخالف ہیں۔ پھر انہوں نے یہ فقرہ پڑھ کر مجھے سنایا”اگر یہ تلخ تجربہ یا تجربات نہ ہوئے ہوتے تو کانگریسی قیادت کابینہ مشن پلان کی نامنظوری تک شاید نہ جاتی لیکن قدرت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے…میں آج بھی جب کابینہ مشن پلان کی ناکامی پر غور کرتا ہوں تو میرا دل دکھ سے بھر جاتا ہے“۔ میرے ان بزرگ کا کہنا تھا کہ چونکہ حقانی صاحب کے بقول، پاکستان کابینہ مشن پلان کی ناکامی کے نتیجے کے طور پرمعرض وجود آیا تھاجبکہ حقانی صاحب کا دل کابینہ مشن پلان کی ناکامی پر دکھ سے بھرا ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ متحدہ ہندوستان کے حق میں تھے اور قیام پاکستان پر خوش نہیں ہیں۔
فون بند ہوا تو میں نے اخبارات کا پلندہ اٹھایا اور حقانی صاحب کا کالم حسب معمول پڑھا۔اصل ”حرف تمنا“کی وضاحت تو حقانی صاحب ہی کرسکتے ہیں لیکن مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ محترم حقانی صاحب کے اس کالم سے کم از کم یہی تاثر ابھرتا ہے اور اگر یہ حقیقت ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ،کیونکہ یہ ان کا حق ہے۔ البتہ میں موقع کی مناسبت سے چند مختصر گزارشات کرنے کی اجازت چاہتاہوں ،کیونکہ کالم طوالت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ کچھ عرصہ قبل میں نے حقانی صاحب سے عرض کی تھی کہ آپ اپنے کالم میں تین بار محترمہ عائشہ جلال کی کتاب کو حرف آخر قرار دے چکے ہیں ،کیونکہ وہ آپ کے نقطہ کے قریب ہے اور آپ کے بقول ہندوستانی صحافی گپتا نے بھی آپ سے یہی کہا تھا لیکن اصولی بات یہ ہے کہ تحقیق کے میدان میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا، حرف آخر صرف الہامی کتابیں ہوتی ہیں۔ دوم عائشہ نے یہ ڈاکٹریٹ کا تھیسس ہندو پروفیسر انیل کی سربراہی میں لکھا تھا اور وہ اپنے سپروائزر کی سوچ کے جبر کا شکار تھی ورنہ اسے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول میں دشواریاں پیش آتیں، چنانچہ اسی پس منظر میں آج سے چند برس قبل جب عائشہ کو لمسز (lums)میں بطور مہمان مقرر بلایا گیا تو اسے طلبہ کے سامنے اپنی کتاب سے کچھ صفحات پڑھنے کی دعوت دی گئی۔ عائشہ نے اپنی اسی کتاب”جناح، ہول سپکوس مین“سے ایک آدھ صفحہ پڑھا اور فوراً یہ اعلان کیا کہ اس کتاب کے چھپنے کے بعد اور مزید مطالعے اور غوروخوض کے نتیجے کے طور پر میرے نظریات میں تبدیلی آچکی ہے جبکہ ہم اسے حرف آخرکا درجہ دے رہے تھے۔ حقانی صاحب گپتا اور عائشہ جلال کابینہ مشن پلان کو سودے بازی سمجھتے ہیں ،کیونکہ وہ قائد اعظم کے الفاظ کے پس پردہ محرکات تلاش کرتے ہیں جبکہ میں ایک سادہ لوح قسم کا طالبعلم ہوں اور قائد اعظم کے الفاظ پر مکمل بھروسہ کرتاہوں ۔ (جاری ہے)

ڈاکٹر صاحب کے کالم کی دوسری قسط جنگ کی ویب سائٹ سے کھل کر نہیں دے رہی جیسے ہی دستیاب ہوتی ہے، اسے یہاں جمع کرتا ہوں۔ پانچ منٹ میں ہی ثابت ہو گيا کہ ان اشاعتی اداروں کی ویب سائٹس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر آپ کے پاس مورخہ 8 جنوری 2009 کا جنگ موجود ہو تو براہ کرم اسے یہاں ارسال کر دیجئے۔
 

سعود الحسن

محفلین
محسن میں ان میں سے شروع کے کالمز کو پہلے ہی محفل پر اس ربط پر لے آیا تھا لیکن اس وقت کسی نے زیادہ دلچسپی ظاہر نہ کی پھر بحث بھی پھیلتی گئی تو میں رک گیا ، بحرحال اس موضوع پر تمام کالمز یہاں جمع ہوسکیں تو یقینا مددگار رہیں گے۔
 

طالوت

محفلین
سعود مگر وہاں آپ رک گئے تھے ۔۔ اور ہمیں بھی خبر نہ ہوئی کہ یہ سلسلہ طویل ہو چکا ہے اور دوسرے کئی کالم نویس بھی اس میں کود چکے ہیں ۔۔ تاہم ان تمام سلسلوں کو جمع کر کے ایک کتابچے کی صورت لائبریری میں بھی محفوظ کیا جانا چاہیے ۔۔
وسلام
 
میر ا لیڈر ۔میرا وطن
ڈاکٹر صفدر محمود
دوسری قسط
14 جنوری 2009​


میں اس اصول کا قائل ہوں کہ جب ایک اصولی بحث علمی سطح سے گر کر ذاتی سطح پر آجائے تو اسے سمیٹ دینا ہی بہتر ہوتا ہے۔ میں اگرچہ ایک گناہگار اور کمزور انسان ہوں لیکن اس ضمن میں حضرت علیکا وہ فیصلہ میرے لئے مشعل راہ ہے جو اس واقعے سے جنم لیتا ہے کہ جب حضرت علی اپنے دشمن کو گرا کرسینے پر بیٹھ گئے تو اس نے حضرت علی کے منہ مبارک پر تھوک دیا اور پھر حضرت علی پیچھے ہٹ گئے، لیکن میں قائد اعظم اور کابینہ مشن پلان کے حوالے سے بحث کو سمیٹتے ہوئے فقط یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے اپنے بزرگ دوست ارشاد حقانی صاحب کا ادب ملحوظ خاطر ہے ۔ میں نظریاتی اختلاف کے باوجود ان کی عزت کرتا ہوں اوراسی طرح میں ڈاکٹر عائشہ جلال کا بھی احترام کرتا ہوں اور ان کو اعلیٰ درجے کی سکالر اور مصنف سمجھتا ہوں لیکن اس ساری کہانی میں جو اصل نقطہ تھا وہ یہ کہ میں محترم حقانی صاحب کی مانند نہ ہی ڈاکٹر عائشہ کی کتاب کو حرف آخر سمجھتا ہوں ، نہ ہی بے شمار لکھاریوں کی مانند ان کے نقطہ نظر سے متفق ہوں۔ حقانی صاحب بار بار کہتے ہیں کہ قائد اعظم کابینہ مشن پلان قبول کرکے پاکستان سے دستبردار ہوگئے تھے جبکہ قائد اعظم نے مسلم لیگ کونسل اورور کنگ کمیٹی کے سینکڑوں اراکین جو سارے ہندوستان کے سرکردہ مسلمان لیڈروں پرمشتمل تھیں کے سامنے تقریر کرتے ہوئے بار بار کہا تھا کہ ہماری حتمی اور آخری منزل پاکستان کا حصول ہے اور مجھے کابینہ مشن پلان میں پاکستان کے بیج نظر آرہے ہیں،چنانچہ جب مسلم لیگ کی کونسل اور ورکنگ کمیٹی نے اس پلان کو منظور کرتے ہوئے قرارداد پاس کی تو اس میں بھی کہا کہ کابینہ مشن پلان پاکستان کے حصول کا ذریعہ ہے اور ہم بہرحال پاکستان لے کر ہی دم لیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا قائد اعظم اور ان کے سینکڑوں ساتھی جھوٹ بول رہے تھے؟کیا وہ کوتاہ نظر تھے اور کیا ان کے ان الفاظ میں پاکستان سے دستبرداری ڈھونڈھنے والے ان سے زیادہ بصیرت اور ویژن رکھتے ہیں؟دراصل یہ کانگریسی پراپیگنڈہ تھا ورنہ ہندوستان کے مسلمان قائد اعظم کی دیانت، سچائی اور حق گوئی پر اندھا یقین رکھتے تھے جس کا ثبوت 1945-46ء کے انتخابات تھے جس میں مسلم لیگ نے پاکستان کے نعرے پر بہت بڑی اکثریت جیتی تھی۔ میں خلوص نیت سے سمجھتا ہوں کہ ان انتخابات کے بعد پاکستان کی منزل سے دستبرداری ممکن نہیں رہی تھی کیونکہ مسلمانان ہند نے اپنا فیصلہ سنادیا تھا۔
کل کراچی سے مولانا ظفر احمد انصاری مرحوم کے ایک قریبی ساتھی کا فون آیا۔ مولانا ظفر احمد انصاری قائد اعظمکے رفقاء میں سے تھے اور جون1946ء کے اس اجلاس میں موجود تھے جس نے کابینہ مشن پلان کو قبول کیا۔ ان صاحب نے اس بات کی تصدیق کی کہ مولانا انصاری مرحوم ڈاکٹر عائشہ کی کتاب پڑھ کر بہت رنجیدہ خاطر تھے، کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس پلان کو حصول پاکستان کی جانب ایک اہم قدم کے طور پر قبول کیا تھا اور ہم کسی صورت بھی مطالبہ پاکستان سے دستبردار نہیں ہوئے تھے۔ میں نے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ تحقیق کی دنیا میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا ، نت نئے کاغذات اور دستاویزات کھلتی رہتی ہیں اور اسی طرح نتائج اور توضیحات بھی بدلتی رہتی ہیں۔ باسٹھ برس گزرنے کے بعد قیام پاکستان پر ناراضگی کا اظہار کرنا اور بہانے بہانے قائد اعظم کی کردار کشی کرکے نوجوانوں کو پاکستان کی بنیاد سے بدظن کرنا محب وطن حضرات کا شیوہ نہیں۔ اس حوالے سے مجھے چند ماہ قبل شائع ہونے والی ایک کتاب پڑھ کر خوشی ہوئی۔ کتاب کا نام ہےThe Charismatic leader -Jinnahاور اس کتاب کے مصنف قائد اعظم یونیورسٹی کے سابق ہیڈ آف دی ہسٹری ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر سکندر حیات نے حوالوں اور تحقیق سے عائشہ کے نقطہ نظر کی نفی کی ہے اور تاریخی ریکارڈ کو درست کیا ہے۔ ڈاکٹر سکندر حوالوں سے ثابت کرتے ہیں کہ ڈاکٹر عائشہ کا کابینہ مشن پلان کے ضمن میں نقطہ نظر درست نہیں۔ بہت سے دلائل اور حوالوں کے بعد ڈاکٹر سکندر یہ کہتے ہیں کہJinnah was convinced that the foundation and basis of Pakistan are there in the scheme.یہ بات بھی یاد رکھیئے کہ اگر کانگریس کو کابینہ مشن پلان سے پاکستان کے قیام کی بو نہ آتی تو نہرو کبھی بھی اسے مستردنہ کرتا۔ نہرو نے اس پلان کومسترد کرتے ہوئے گروپنگ کے خطرے کا اظہار کیا تھا جو ٹرانسفر آف پاور جلد آٹھ ،صفحہ نمبر26پر واضح طور پر موجود ہے اور اسی خطرے سے یہ امکان جنم لیتا تھا کہ پاکستان پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے بغیر معرض وجود میں آجائے گا۔ اسی لئے اس نے پلان کومسترد کیا تھا۔
دراصل یہ موضوع طویل بحث کا متقاضی ہے اور تاریخ کا حصہ بن چکا ہے ،جبکہ قارئین اس کی باریکیوں میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس لئے میں نے نہایت اختصار سے اپنا نقطہ نظر واضح کردیا ہے، جن قارئین کو اس موضوع میں دلچسپی ہے وہ خود مطالعے کی بنیاد پر نتائج اخذ کرسکتے ہیں۔ کابینہ پلان کے ساتھ ساتھ بہت سے دوستوں نے عطا ربانی کی کتاب کے حوالے سے قائد اعظم کی تین غلطیوں پر تبصرہ کرنے پر اصرار کیا ہے۔ عطار بانی صاحب ہمارے محترم رضا ربانی کے والد گرامی ہیں اور قائد اعظم کے اے ڈی سی رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قائد اعظم نے غلام محمد کو وزیر خزانہ مقرر کرکے ،مشرقی پاکستان میں اردو کو قومی زبان قرار دے کر اور جنرل گریسی کو برطرف نہ کرکے غلطیاں کیں۔ قائد اعظم بہرحال سیاستدان تھے ان کے فیصلوں پر تنقید کی جاسکتی ہے لیکن قائد اعظم کا خلوص نیت شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ آج یہ اندازہ کرنا محال ہے کہ پاکستان کن حالات میں قائم ہوا۔ خزانہ خالی، ذرائع آمدنی محدود، ہندوستان کا پاکستان کے حصے کے اثاثے دینے سے انکار، کشمیر کی جنگ وغیرہ۔ ان جان گسل حالات سے نکلنے کے لئے ایک ماہر مالیات کی ضرورت تھی۔ربانی صاحب کا غلام محمد کی مالی صلاحیتوں پر تبصرہ بے بنیاد ہے، کیونکہ غلام محمدحیدر آباد کے مشیر مالیات رہے تھے اور قائد اعظم نے ان کو ایک ماہر مالیات کی حیثیت سے وزیر خزانہ لگایا تھا اور غلام محمد نے اگلے ہی برسوں میں فالتو بجٹ پیش کرکے دنیا کو حیران کردیا۔قائد اعظم اور لیاقت علی کے دور میں انہیں پر پرزے نکالنے کا موقع نہ ملا، کیونکہ انہوں بیوروکریسی کے منہ زور گھوڑے کی طنابیں کس کر رکھی ہوئی تھیں۔ لیاقت علی خان نے ان کو نکالنے کا ارادہ کرلیا تھا لیکن وہ خود شہید ہوگئے جس کے بعد غلام محمد نے اپنے کارنامے دکھائے ،جو نہایت قابل مذمت ہیں۔ اس لئے اس میں قائد اعظم کا کیا قصور؟پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم نے اردو کو قومی زبان قرار دیا تھا ،کیونکہ یہ واحد زبان تھی جو پورے ملک میں سمجھی اور بولی جاتی تھی لیکن انہوں نے اپنی تقریرمیں واضح کیا تھا کہ مشرقی پاکستان کے لئے بنگالی ہی صوبائی زبان ہوگی۔ اسی بنیاد پر محمد علی بوگرہ کے بنائے گئے دستور میں بنگالی اور اردو کو قومی زبانیں قرار دیا گیا اور پھر اس اصول کو1956ء کے آئین کا حصہ بنا کر نزاع کی وجہ رفع کردی گئی۔ قائد اعظم کا یہ اعلان خلوص نیت پر مبنی تھا اور حالات کا تقاضا تھا۔ جنرل گریسی کو ڈسمس نہ کرنے کا فیصلہ بھی زمینی حقائق کا حصہ تھا جس پر شجاع نواز نے اپنی تازہ کتاب”کراس سوارڈز“میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ جنرل گریسی کو نکالنے کا مطلب پاکستانی فوج کو فوری طور پرسارے انگریز فوجی افسروں سے محروم کرکے ایک ایسا فوری خلاء پیدا کرنا تھا جو تباہ کن ثابت ہوتا اور آج لوگ اسے قائد اعظم کی فاش غلطی قرار دے رہے ہوتے۔ دراصل2009ء میں 1947ء کی مجبوریوں ، حقیقتوں اور مسائل کو سمجھنا مشکل کا م ہے اور اسی لئے دنیا بھر کے مورخ قیام پاکستان اور بقائے پاکستان کومعجزے سے کم نہیں سمجھتے اور اس معجزے کے لئے قائداعظم کی قیادت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اے کاش!ربانی صاحب نے 1947ء کی مشکلات کا ادراک حاصل کرنے کے لئے چودھری محمد علی کی کتاب ”ظہور پاکستان“ پڑھ لی ہوتی تو شاید ان کی ہوائی سوچ میں پختگی آگئی ہوتی۔ یہاں ہوائی سے مراد ایئر فورس ہے ،کیونکہ ربانی صاحب کا تعلق ایئر فورس سے تھا۔ یہ حضرات کیاجانیں کہ قائد اعظم اور پاکستان آغاز میں کس تلاطم کے ظالم تھپیڑوں میں ڈبکیاں کھارہے تھے اور کس سنگلاخ وادی سے گزررہے تھے۔
اگر چہ میں نے اپنی طرف سے بحث سمیٹ دی لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ میں قائد اعظم کی کردارکشی کرنے والوں اور قیام پاکستان کے بارے میں شکوک و شہبات پیدا کرنے والوں کا جواب نہیں دوں گا، اگر یہ جرم ہے تومیں اس جرم کی سزا بھگتنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہوں ،کیونکہ قائد اعظم میرا لیڈر اور پاکستان میرا ملک ہے۔
 
ڈاکٹر صفدر محمود کے جواب میں.....حرف تمنا …ارشاد احمد حقانی جنوری ۱۵
ڈاکٹر صفدر محمود ایک ممتاز مورخ اور اسکالر ہیں اور میرے دل میں ان کا بڑا احترام ہے۔ اصل میں ہمارا رشتہ احترام باہمی کا ہے ان دنوں ہمارے درمیان ایک علمی بحث چل رہی ہے۔ ان کے بقول میں کہتا ہوں کہ قائداعظم  کابینہ مشن پلان قبول کرکے پاکستان کے مطالبے سے دستبردار ہوگئے تھے۔ میرا موقف یہ ہے کہ قائداعظم اور اقبال اس سے بھی بہت پہلے مطالبہ پاکستان سے دستبردار ہوچکے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ نہرو نے کابینہ مشن پلان کو مسترد کرتے ہوئے گروپنگ کے خطرے کا اظہار کیا تھا کیونکہ اس خطرے سے یہ امکان جنم لیتا تھا کہ پاکستان پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے بغیر معرض وجود میں آجائے گا اسی لئے اس نے پلان کو مستردکر دیا تھا۔ میں کہتا ہوں کہ قائداعظم نے بھی کابینہ مشن پلان اسی لئے منظور کیا تھا کہ اس سے متحدہ پنجاب اور بنگال پاکستان میں آجاتا تھا۔ ڈاکٹرصاحب کہتے ہیں کہ قائداعظم نے اردو کو پاکستان بنتے ہی ملک کی قومی زبان قرار دیا تھا کیونکہ یہ واحد زبان تھی جو پورے ملک میں سمجھی اور بولی جاتی تھی لیکن انہوں نے اپنی تقریر میں واضح کیا تھا کہ مشرقی پاکستان کیلئے بنگالی ہی صوبائی زبان ہوگی۔ اسی پرتو اعتراض تھا کہ بنگالی صرف صوبائی زبان کیوں ہوگی اسے مرکز کی زبان کیوں نہیں بنایا جاتا۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں ”اسی بنیاد پر محمد علی بوگرہ کے بنائے گئے دستور میں بنگالی اوراردو کو قومی زبانیں قرار دیا گیا“۔ اعتراض تو یہی ہے کہ قائداعظم نے کیوں بنگالی اور اردو کو قومی زبانیں قرار نہ دیا۔ اصل میں یہ بنگالیوں کااحتجاج تھا جس نے بوگرا کو بنگالی اور اردو کو قومی زبانیں بنانے پر مجبور کیا۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ حقانی صاحب کہتے ہیں کہ قائداعظم کابینہ مشن پلان قبول کرکے پاکستان سے دستبردار ہوگئے تھے میں پوچھتا ہوں اگر ایسا ہے تو قائداعظم کانگریس کے منحرف ہونے پر اس قدر ناراض کیوں ہوئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب اپنا آج کا کالم اس عزم پر ختم کرتے ہیں کہ میں قائداعظم کی کردار کشی کرنے والوں اور قیام پاکستان کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والوں کو جواب لازماً دوں گا اور اگر یہ جرم ہے تو میں اس جرم کی سزا بھگتنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہوں کہ قائداعظم میرے لیڈر ہیں اور پاکستان میرا ملک ہے۔ قائداعظم تو میرے بھی لیڈر ہیں اور پاکستان میرا بھی ملک ہے لیکن میں ڈاکٹرصاحب سے کہوں گا کہ وہ اس بحث کو مزید طول دینے کی بجائے Let us agree to disagreeکے اصول پر عمل کرنا پسند کریں تو بہتر ہوگا۔
جس طرح ڈاکٹر صاحب کو ان کے بہت سے دوستوں نے زیر بحث موضوع پر اپنی رائے لکھ کر بھیجی ہے مجھے بھی میرے ایک محترم دوست اور سکالر جناب خورشید احمد ندیم نے اپنی رائے لکھ کربھیجی ہے وہ لکھتے ہیں:
مکرم و محترم جناب ارشاد احمد صاحب حقانی
السلام علیکم و رحمتہ اللہ!
امید ہے آپ بخیر ہوں گے۔ آپ کے کالموں کا طالب علمانہ مطالعہ مدت سے میرے معمولات کا حصہ ہے تاہم جب آپ کسی علمی یار تاریخی قضیے کو زیر بحث لاتے ہیں تو ان کالموں میں میری دلچسپی شاید اپنی افتادِ طبع کے سبب بڑھ جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں قائداعظم کے فکری ارتقا، کیبنٹ مشن اور تحریک پاکستان کے تناظر میں آپ نے جس رائے کا اظہار کیا اور پھر بعض دیگر اہل قلم نے بھی اس موضوع پر جو کچھ لکھا میں نے بہت توجہ سے پڑھا۔ ہم اکثر لکھتے رہتے ہیں کہ قائداعظم اوراقبال پیغمبر نہیں تھے، ان پر بھی تنقید ہوسکتی ہے۔ عملاً تنقید توایک طرف، کوئی ان بزرگوں کی کسی رائے کی مستعمل مفہوم سے ہٹ کر تعبیر نو کرنے کی جسارت کر ڈالے تو لوگ ثقاہت کو بلائے طاق رکھتے اور دشنام پر اتر آتے ہیں۔ آپ کے موقف کے جواب میں جنگ میں چھپنے والی بعض تحریریں اسی رویئے کی نمائندہ ہیں۔ رہی بات اصابت رائے کی تو ہم میں سے کون ہے جسے پیغمبری کا دعویٰ ہے؟
موضوع زیر بحث کے پس منظر میں مجھے دو باتیں عرض کرنی ہیں۔
-1جب ہم تحریک پاکستان کے دنوں میں پیش آنیوالے واقعات کی تنقیح کرتے ہیں توا کثر یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ اس معاملے میں ایک فریق وہ مسلمان بھی ہیں جو تعداد میں ہم سے کچھ کم ہیں اور جنہوں نے تقسیم کے بعد بھارت میں رہنا پسند کیا یا انہیں طوعاً و کرہاً ایسا کرنا پڑا۔ ان مسلمانوں کو ساٹھ سال سے اپنے غیر مسلم بالخصوص ہندو ہم وطنوں کے اس الزام کا سامنا ہے کہ وہ یعنی مسلمان اور ان کے بزرگ تقسیم ہند کے ذمہ دار ہیں۔ ان میں سے بعض نے جب تاریخ کے اس عمل کوسمجھنا چاہا تو اس انکشاف نے انہیں حیرت میں ڈال دیا کہ یہ قائداعظم یا مسلمان نہیں تھے جو تقسیم کے ذمہ دار تھے بلکہ یہ کانگریس اور ہندو قیادت کی ہٹ دھرمی اور ناانصافی تھی کہ وہ سفیر اتحاد سے علیحدگی پسند بنے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب بہت سے ہندواور غیر مسلم مورخین، جنہوں نے ان واقعات پراز سر نو غور کیا ہے، وہ بھی اسی نتیجے تک پہنچے ہیں۔ اس کے بعد ان کے دل میں قائداعظم کیلئے احترام کے جذبات میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ اس حوالے سے میں یہاں تین آرا کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔
ہندوستان کے مسلمانوں کی ایک نمائندہ آواز جناب منصور احمد کی ہے۔ ان کا تعلق انڈین فارسٹ سروس سے تھا۔ وہ تقسیم پاکستان کے عینی شاہد ہیں۔ انہیں جب اس سوال کا سامنا ہوا توانہوں نے اس پر غور کیا اور میسر لٹریچر کا مطالعہ کیا۔ ان کے نتائج تحقیق دہلی کے انگریزی ہفت روزے Radianceمیں شائع ہوتے رہے۔ اردو میں یہ 2003ء میں کتابی صورت میں سامنے آئے۔ اس کتاب میں انہوں نے اس موقف کے حق میں بہت سی واقعات شہادتیں پیش کی ہیں کہ قائداعظم دیانتداری کے ساتھ مسلمانوں کے مسائل کا حل چاہتے تھے، تقسیم فی نفسہ ان کا مقصد نہیں تھی۔ انہوں نے اپنی کتاب میں دوغیر مسلم مورخین کا ذکر کیا ہے جو غور و فکر کے بعد اس نتیجے تک پہنچے کہ قائداعظم تقسیم کے ذمہ دار نہیں۔ ان میں سے ایک ایس کے ہندو پادھیائے ہیں۔پادھیائے ایک کٹر کانگریسی ہیں اور 2003ء میں وہ گاندھی نیشنل میموریل فنڈ دہلی کے سیکرٹری تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ 1950ء کی دہائی میں انہوں نے ایک بار پھر قائد کی 11اگست کی تقریر پڑھی تواس نے انہیں مجبور کیا کہ وہ قائداعظم کی زندگی کا مطالعہ کریں۔ ان کی صاف ستھری زندگی نے انہیں اتنا متاثرکیا کہ انہوں نے اپنی کتاب کا نام Qaede Azam Muhammad Ali Jinnah and the Creation of Pakistanرکھا۔ یہ عنوان ہی غیرمعمولی ہے دوسرے صاحب ایک پارسی قانون دان ایش ایم سیروائی ہیں۔ ان کی کتاب ہے Partition of India Legend and Reality۔ ان کا مقدمہ یہ ہے کہ یہ کانگریس تھی جو بٹوارا چاہتی تھی۔ قائداعظم نے مجبوراً تقسیم کو دوسری ترجیح (Second best)کے طور پر قبول کیا۔
سچ یہ ہے کہ قائداعظم کی طرف سے کیبنٹ مشن کی قبولیت ایک ایسا واقعہ نہیں ہے کہ ہم اسے سرسری نظر سے دیکھیں۔ اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا کہ وہ طویل عرصہ تک ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار ر ہے۔ چوہدری رحمت علی کی طرف سے پاکستان کا مجوزہ نقشہ سامنے آیا تواس کو مسترد کرنے والوں میں اقبال اورقائد دونوں شامل تھے۔ میرے نزدیک 29جولائی 1946ء کو مسلم لیگ کے جس اجلاس میں کیبنٹ مشن کی تجاویز کو مسترد کیا گیا اس میں قائداعظم کی تقریر بہت معنی خیز ہے۔ ورکنگ کمیٹی کی طرف سے قرارداد کی منظوری کے بعد انہوں نے اپنی تقریر میں کہا ”آج ہم نے ایک تاریخ ساز قدم اٹھایا ہے اس سے قبل مسلم لیگ کی پوری زندگی میں ہم آئینی طریقوں کے ساتھ شریک رہے۔
ہم نے پاکستان کی مکمل خود مختار ریاست کو کانگریس پر قربان کر دیا تاکہ پورے ہندوستان کی آزادی کو محفوظ بنایا جاسکے۔ ”قائد کے اصل الفاظ یہ ہیں:
"The League, throughout the negotiations, was moved by a sense of fair play and sacrificed the full sovereign state of Pakistan at the alter of the Congress for securing the independence of whole of India"
اس اجلاس میں جو قرارداد منظورر کی گئی اس میں یہ بات کہی گئی کہ ”چونکہ ہندوستان کے مسئلے کے پرامن حل کے لئے مفاہمت اور آئینی طریقے ناکام ہو چکے “۔ قرارداد اورقائد کی تقریر کے الفاظ یہ بتا رہے ہیں کہ اس مرحلے پر مسلم لیگ کی حکمت عملی میں ایک غیر معمولی تبدیل آئی ہے جو کانگریس وغیرہ کے رویئے کے باعث مجبوراً اختیار کی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس سے پہلے کی حکمت عملی کیا تھی؟ قائداعظم نے خود واضح کر دیا ہے کہ یہ آئینی جدوجہد کا راستہ تھا۔ تقسیم کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ اس وقت تک کسی طرح بھی اسے ایک آئینی راستہ نہیں قرار دیا جا سکتا تھا۔ اسی طرح قرارداد پاکستان میں نئی ریاست کے جغرافیے کے بارے میں جو ابہام رکھا گیا بعض لوگوں کے نزدیک وہ بھی دانستہ تھا۔ تاریخ پاکستان کے معروف مورخ خالد بن سعید نے اپنی کتاب "Pakistan the Formative Phase"میں لکھا:
"It may be suggested that the vagueness of the Lahore Resolution was deliberately designed. Some writers have argued that this gave room to League leaders for bargaining and manoeuvering." (page124)
خالد بن سعید کی یہ کتاب پہلی بار 1960ء میں شائع ہوئی تھی۔ یہی بات آج ڈاکٹر عائشہ جلال بھی کہہ رہی ہیں۔ بطور جملہ معترضہ یہ بھی عرض ہے کہ محترمہ گزشتہ مارچ میں میرے جیو کے پروگرام الف میں شریک ہوئیں اور انہوں نے اس موضوع پر اسی رائے کا اظہار کیا جو انہوں نے اپنی کتاب "The Sole Spokesman"میں بیان کی ہے۔
-2خطبہ الہٰ آباد کے بارے میں اہل علم میں یہ اختلاف موجود ہے کہ کیا اس میں فی الواقعہ کسی آزاد مسلم ریاست کا تصور دیا گیا ہے ۔ پروفیسر شریف المجاہد برسوں اس رائے کے نقیب رہے ہیں لیکن آج تحقیق مزید کے بعد ان کی رائے تبدیل ہوگئی ہے۔ خود حضرت اقبال نے مارچ 1934ء میں آکسفورڈ کے ڈاکٹرتھامسن کو جو خط لکھا، اس میں ان کے الفاظ ہیں: ”آپ کی ایک غلطی کی میں بعجلت نشاندہی کررہا ہوں۔ آپ مجھے پاکستان نام کی اسکیم کا علمبردار کہتے ہیں۔ واضح ہوکہ پاکستان میری اسکیم نہیں ہے۔ میں نے اپنے خطبے میں جس اسکیم کی تجویز رکھی ہے وہ ہے ایک مسلم صوبے کی تخلیق کی۔ ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک ایسا صوبہ جس میں مسلمان غالب اکثریت میں ہوں گے۔ یہ نیا منصوبہ میری اسکیم کے مطابق ایک حصہ ہوگا مجوزہ ہندوستانی وفاق کا۔ ”اقبال نے جس پاکستانی اسکیم کا ذکر کیا ہے، یہ چوہدری رحمت علی کی اسکیم ہے طوالت کے خوف سے میں نے انگریزی کے اصل الفاظ نقل نہیں کئے گویا اقبال کاپاکستان انڈین فیڈریشن کا ایک حصہ تھا۔ کیا کیبنٹ مشن میں اس سے ملتے جلتے پاکستان کی تجویز نہیں پیش کی گئی؟
تاریخی واقعات میں ایک سے زیادہ تعبیروں کی گنجائش ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے ان مباحث کو اسی حوالے سے دیکھنا چاہئے۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ اس سے قائد کے مقام و مرتبے میں کسی طرح کوئی کمی ہوتی ہے۔ اس باب میں ضرورت سے زیادہ حساسیت بالعموم آزادی فکر کو متاثر کرتی اورقوموں میں آبا پرستی کی نفسیات پیدا کرتی ہے۔ قائداعظم اور علامہ اقبال جیسی شخصیات کی عظمت پر وقت نے اپنی مہر ثبت کر دی ہے تاہم ان کے خیال زیر بحث رہیں گے، ان کے کارناموں کا ذکر ہوگا اور اس کے ساتھ ان کی فروگزاشتوں پر بھی بات ہوگی۔ اسلاف کے ساتھ زندہ تعلق اسی طرح قائم رہنا چاہئے۔ میں ایک طالب علم کی حیثیت سے آپ کو داد دیتاہوں کہ آپ نے علمی جرأت کا مظاہرہ کیا ہے۔ جولوگ شائستگی کے ساتھ آپ سے اختلاف کریں گے وہ بھی ہمارے سر آنکھوں پر۔ رہی بات دشنام کی تو مجھے امید ہے کہ آپ اس سے بدمزہ نہیں ہوں گے۔
والسلام …خیر ا ندیش…خورشید ندیم،راولپنڈی
 
میرا اور محترم حقانی صاحب کا موقف قارئین کی عدالت میں,,,,صبح بخیر…ڈاکٹر صفدر محمود۔۔۔جنوری 18

میرے بزرگ اور فاضل دوست جناب حقانی صاحب نے اپنے جمعرات کے حرف تمنا میں بعض ایسے سوال اٹھا دیئے ہیں جن کی وضاحت ضروری ہے ورنہ میں نے تو بحث سمیٹ دی تھی کیونکہ اول تو فلسطین میں بہتے ہوئے مسلمانوں کے خون اور دوم ہندوستانی رویئے نے مجھ پر اداسی طاری کرر کھی ہے۔ ان کے جمعرات والے دو حصوں پرمشتمل کالم کے بعض فقرے پڑھ کر مجھے احساس ہونے لگاہے کہ اب یہ بحث ایک اندھی گلی میں داخل ہوگئی ہے اس لئے اسے آگے بڑھانا لاحاصل ہے۔ برادر بزرگ حقانی صاحب فرماتے ہیں ”میرا موقف یہ ہے کہ قائداعظم اور اقبال اس سے بہت پہلے مطالبہ پاکستان سے دستبردار ہوچکے تھے“۔ یہاں ذکر ہو رہا تھا 1946ء کے کابینہ مشن پلان کا اس لئے حقانی صاحب کا موقف یہ ہے کہ یہ دونوں حضرات کابینہ پلان سے بہت پہلے مطالبہ ٴ پاکستان سے دستبردار ہوچکے تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ میں ان کا یہ فقرہ پڑھ کر چکرا گیا کیونکہ علامہ اقبال 1938ء میں وفات پا گئے تھے اور اس سے قبل انہوں نے قائداعظم کے نام خطوط میں نہ صرف مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کے جواز اور مطالبے پر زور دیا تھا بلکہ اس مطالبے کے لئے لاہوراور مارچ کا ماہ بھی تجویز کر دیا تھا جہاں ان کے انتقال کے بعد مارچ1940ء میں قرارداد پاس کی گئی۔ اس دور میں پاکستان سے مراد وہ پاکستان تھا جس کا تصور چودھری رحمت علی نے پیش کیا تھا اور علامہ اقبال بوجوہ اس سے مطمئن نہیں تھے۔ اس کی تفصیل ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب ”زندہ رود“ میں موجود ہے۔ البتہ جب کیمبرج کے طلبہ نے علامہ اقبال کی توجہ لفظ پاکستان کی جانب مبذول کروائی تو انہوں نے ان سے کہا کہ وہ اسے لکھ کر ان کے کمرے میں چھوڑ جائیں، وہ اس پر غور کریں گے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب علامہ گول میز کانفرنس کے لئے لندن میں موجود تھے۔ علامہ اقبال کے خطوط بنام جناح گواہ ہیں کہ علامہ اقبال مسلمانوں کے لئے آزاد وطن کے داعی تھے او رانہوں نے قائداعظم پر اس مطالبے کے لئے دلائل اور منطق کے ذریعے زور دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ بات خطبہ الٰہ آباد کے کئی برس بعد کی ہے۔ اس ضمن میں میرے پاس خاصا مواد ہے لیکن کالم کی تفصیل میں جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ مختصر یہ کہ علامہ اقبال موت تک مسلمانوں کے لئے علیحدہ اور آزاد وطن کے حق میں تھے اور وہ کبھی اس مطالبے سے دستبردار نہیں ہوئے۔
اب رہا معاملہ قائداعظم کا۔ میرے مہربان دوست حقانی صاحب کی تحقیق ہے کہ قائداعظم کابینہ مشن پلان سے بہت پہلے مطالبہ ٴ پاکستان سے دستبردار ہوگئے تھے۔ اس کا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ قائداعظم نے کبھی مطالبہ پاکستان کیا ہی نہیں؟ کیونکہ مسلم لیگ نے سرکاری طور پر علیحدہ وطن کا مطالبہ قرار داد لاہور کے ذریعے مارچ 1940ء میں کیا۔ 1940ء سے لے کر قیام پاکستان تک قائداعظم اور مسلم لیگ بار بار کہتے رہے کہ پاکستان کا حصول ہماری حتمی منزل ہے۔ کابینہ مشن پلان کی آمد سے قبل 1945-46ء میں انتخابات ہوئے۔ یہ انتخابات پاکستان کے نام پر اور نعرے پر لڑے گئے اور مسلم لیگ نے مرکزی اسمبلی میں تمام مسلمان نشستیں جیت کر ثابت کر دیا کہ مسلمانانِ ہند پاکستان چاہتے ہیں اور مسلم لیگ ان کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔ کابینہ مشن مارچ1946ء میں ہندوستان آیا۔ اس کے بعد اپریل 1946ء میں اسمبلیوں کے لئے منتخب ہونے والے مسلم لیگی اراکین کا کنونشن دہلی میں ہوا جس میں اراکین اسمبلی نے حصول پاکستان کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کا حلف اٹھایا۔ اگر قائداعظم کابینہ مشن سے پہلے پاکستان کے مطالبے سے دستبردار ہوچکے تھے تو کیا 1945-46ء کے پاکستان کے منشورپر انتخابات اور مسلم لیگی اراکین اسمبلیوں کا حلف سب ڈرامہ تھا؟ کیا قائداعظم  قوم کو دھوکہ دے رہے تھے کہ وہ خود تواس مطالبے سے دستبردار ہوچکے تھے لیکن قوم کو اس جنگ میں جھونک رہے تھے؟ یہ وہ الزام ہے جو قائداعظم کے بدترین دشمن بھی ان پر نہیں لگاتے۔ گزشتہ ساٹھ برسوں میں ہندو اسکالرز اور کانگریسی ذہن کے مورخ یہ ضرور پراپیگنڈہ کرتے رہے ہیں کہ دراصل پاکستان کانگریسیی ہٹ دھرمی سے بنا یا انگریزوں کی دین تھا اور اس پراپیگنڈے کا مقصد نہ صرف پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو کمزور کرنا ہے بلکہ مسلمانوں کی قربانیوں اور قائداعظم کے قائدانہ کردار کی نفی کرنا بھی ہے۔یہ ایک عجیب منطق بلکہ متضاد دلیل ہے کہ قائداعظم تقسیم ہند اور پاکستان کے حق میں نہیں تھے اور پاکستان کانگریس نے بنایا لیکن اس سے قائد  کی عظمت کردار کو گرہن نہیں لگتا ہے۔ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ پاکستان مسلمانان ہند کی قربانیوں کا صلہ تھا اور قائداعظم پاکستان کے بانی ہیں اور یہی ان کی عظیم قیادت کو خراج تحسین ہے۔ قائداعظم سے بانی ٴ پاکستان ہونے کا اعزاز چھین کر یہ اصرار کیا جائے کہ اس سے ان کی کردار کشی نہیں ہوتی تو پھرا ور کردار کشی کیا ہوتی ہے؟
برادر بزرگ حقانی صاحب کے کالم میں سیروائی اور خالد بن سعید کی کتابوں کے حوالے دیئے گئے ہیں۔ سیروائی کی کتاب کا اردوترجمہ میں نے اٹھارہ برس قبل کیا تھا جسے جنگ پبلشرز نے چھاپا۔ خالد بن سعید کی کتاب تقریباً نصف صدی پہلے شائع ہوئی تھی اور میں اسے کئی بار دیکھ چکا ہوں۔ اس کے بعد اس موضوع پر خاصی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ خالد بن سعید کا تھیسس یا نچوڑ یہی ہے کہ قائداعظم کبھی بھی مطالبہ پاکستان سے دستبردار نہیں ہوئے اور انہوں نے کابینہ مشن پلان بھی اسی لئے قبول کیا کہ اس کے ذریعے انہیں پاکستان مل رہا تھا۔ کتاب کے آخری حصے میں نتائج اخذ کرتے ہوئے خالد بن سعید نے قائداعظم کے سیاسی کردار کی تعریف کرتے ہوئے کانگریسی پراپیگنڈہ کا جواب ان الفاظ میں دیا ہے۔ ”جو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ہندوؤں کے رویئے کے سبب معرض وجود میں آیا وہ مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہیں۔ ہندو مسلمانوں کے خلاف (Hostile)تھے تومسلمان ہندوؤں کے خلاف تھے۔ دوئم یہ کہ یہ حضرات مطالبہ پاکستان کو اپنے تاریخی تناظر میں نہیں دیکھتے۔ مسلمانوں نے ہندوستان پر طویل عرصہ حکومت کی تھی اور انہیں ایسا جمہوری نظام قبول نہیں تھا جوانہیں اقتدار سے محروم کر دے۔ پاکستان کے مطالبے سے بہت قبل جناح نے انہی خطوط پر سوچنا شروع کر دیا تھا۔ اختصار کا دامن پکڑتے ہوئے ایک ابہام کا ازالہ ضروری ہے۔ “
یہ کہا گیا ہے کہ اس جدوجہد میں ہندوستان کے مسلمان بھی ایک پارٹی تھے۔ بلاشبہ انہوں نے حصول پاکستان کے لئے تاریخی قربانیاں دیں۔ براہ کرم یہ بات ذہن میں ر کھیں کہ 1945-46ء میں مسلم لیگ کی کونسل 475اراکین پر مشتمل تھی جس میں ہندوستان کے تمام صوبوں کے منتخب اراکین شامل تھے۔ اس کونسل اور ورکنگ کمیٹی نے جب جون 1946ء میں کابینہ مشن پلان قبول کرنے کی قرارداد پاس کی تو واضح طور پر یہ کہا کہ ہم اسے پاکستان کے حصول کی جانب اہم قدم کے طور پر قبول کر رہے ہیں۔ اس سے قبل 5,6 جون کو قائداعظم نے اسی کونسل کے سامنے یہ کہا کہ مجھے کابینہ مشن پلان میں پاکستان نظر آرہا ہے۔ میں قرارداد اور قائداعظم کی تقریر کے فقرے گزشتہ کالموں میں کوٹ کر چکا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ کونسل کے اراکین جو ہندوستان کے مسلمانوں کے بہترین نمائندے تھے اور جن میں منتخب اراکین اسمبلیاں بھی شامل تھے قوم کودھوکہ دے رہے تھے اور قائداعظم یہ کہہ کر کہ مجھے کابینہ مشن پلان میں پاکستان کی بنیادیں نظر آتی ہیں، مسلمانوں سے جھوٹ بول رہے تھے کیونکہ اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ قائداعظم مطالبہ پاکستان سے دستبردار ہو چکے تھے تواس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قوم سے ڈرامہ کررہے تھے؟ خدانخواستہ…!!
تاریخی پس منظر کے مطابق کابینہ مشن پلان کے ضمن میں مسلم لیگ کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے قائداعظم نے 22مئی 1946ء کو کہا ”بنگال، آسام، پنجاب، سرحد، سندھ، بلوچستان، پاکستان زونز ہیں اور ان پر مشتمل ایک آزاد (Sovereign)ریاست بنائی جائے اورپاکستان کے قیام کی ضمانت دی جائے۔ ایک آزاد خودمختار ملک پاکستان کا قیام ہی ہندوستان کے آئینی مسئلے کا حل ہے“۔پانچ جون کو مسلم لیگ کونسل کے سامنے تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا کہ ”مسلمان پاکستان حاصل کئے بغیر چین نہیں لیں گے۔ دراصل پاکستان کی بنیاد کابینہ پلان میں موجود ہے“ (تالیاں) مزید کہا ”دنیا کی کوئی طاقت ہمیں پاکستان سے محروم نہیں کر سکتی“۔ حرف تمنا میں قائداعظم کے 29جولائی کے بیان کو معنی خیز قرار دیا گیا جس میں قائداعظم نے کہاکہ ہم نے پاکستان کی مکمل خود مختار ریاست کو ہندوستان کی جلد آزادی پر قربان کر دیا۔ اس ابہام کو رفع کرنے کے لئے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ مسلم لیگ نے کابینہ مشن پلان کے تحت مرکزی حکومت کو دفاع، خارجہ اور مواصلات دے کر گروپنگ کے اصول کو قبول کر لیا تھا کیونکہ ان گروپس میں مسلمان اکثریتی صوبے شامل تھے جن کی اپنی دستور ساز اسمبلی ہونی تھی اور جو دستور سازی کے بعد گروپ سے باہر نکلنے کا اختیار رکھتے تھے۔ قائداعظم کی حکمت عملی یہ تھی جس کی وضاحت ان کی تقاریر میں بار بار ملتی ہے کہ ایسا مرکز جس کے پاس ٹیکس لگانے، فنانس اور آمدنی کے اختیارات نہ ہوں وہ بے بس ہوتا ہے۔ انہیں یقین تھا کہ یہ پلان ناقابل عمل ہے اور انہوں نے اس پلان کو اس لئے قبول کرلیا تھا کہ اس طرح وہ اپنے مقصد میں آئینی اورپرامن انداز میں کامیاب ہوجائیں گے۔وہ کس طرح کامیاب ہوں گے اس کی وضاحت کرتے ہوئے قائداعظم  نے کہا تھا کہ پہلے قدم کے طورپر گروپس معرض وجود میں آئیں گے اور دوسرے مرحلے میں ان گروپوں سے مسلم اکثریتی صوبے باہر نکل کر (optout) پاکستان حاصل کریں گے۔اس میں کچھ وقت ضرور لگے گا لیکن پاکستان بنگال او ر پنجاب کی تقسیم سے بچ جائے گا۔ ابہام یہ ہے کہ ہمارے محترم دانشور صرف پہلے مرحلے تک محدودرہتے ہیں اور اسی حوالے سے قائد کی تقریر کے چند فقرے کوٹ کرتے ہیں اوریہ بھول جاتے ہیں کہ قائد کے مطابق دوسرا مرحلہ مسلمان اکثریتی صوبوں کا اس اسکیم سے باہر نکل کر پاکستان قائم کرنا بھی تھا جن پر قائداعظم نے روشنی ڈالی تو مسلم لیگ کونسل کے 475مسلمان زعماء نے اس کی تائید کی اور جب نہرو کو احساس ہوا کہ وہ گروپنگ اسکیم کے تحت پاکستان کو پورا بنگال اور پنجاب دے رہا ہے تواس نے کابینہ مشن پلان کو مسترد کردیا۔
موضوع تفصیلی بحث کا متقاضی ہے لیکن میں نے نہایت مختصر انداز میں وضاحت کر دی ہے۔ کئی باتوں کا جواب نہیں دے سکا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑ دینا چاہئے کہ وہ کس نقطہ نظر کو قبول کرتے ہیں۔
 
کابینہ مشن پلان کی بحث۔ آخری معروضات؟ ...حرف تمنا …ارشاد احمد حقانی۔جنوری 24

کابینہ مشن پلان پر میری اور محترم ڈاکٹر صفدرمحمود کی بحث جب کسی انجام کو نہیں پہنچ رہی تھی تو چند ہفتے پہلے میں نے ان سے عرض کی کہ Let us agree to disagree لیکن انہوں نہ صرف خود مجھ سے اتفاق نہ کیا بلکہ ”کفر اور اسلام“ کی اس جنگ میں بعض دوستوں کو بھی قلمی شرکت کی ترغیب دی۔ ڈاکٹر صاحب اپنی ترجیحات بہتر جانتے ہیں لیکن میرا ارادہ ہے کہ اس جواب کا اختتام بھی Let us agree to disagreeکی درخواست پر کروں کیونکہ مجھے اخباری کالموں کے ذریعے یہ بحث کسی متفق علیہ انجام تک پہنچتی دکھائی نہیں دیتی۔ ڈاکٹر صاحب سے میری درخواست ہے کہ میرا مشورہ قبول کرلیں لیکن اگر ان کا جذبہ جہاد انہیں اب بھی اس کی اجازت نہ دے تو وہ جب تک چاہیں اس کار خیر کو جاری رکھیں۔
بحث توکافی پھیل گئی ہے لیکن میں ایک واقعہ لکھتا ہوں جو اس معاملے میں حرف آخر بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ جناب کلدیپ نیئر ایک مشہور زمانہ صحافی ہیں اور باقاعدہ کالم لکھ رہے ہیں۔ تقسیم کے وقت وہ لاء کالج کے طالب علم تھے وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ قائداعظم سے ملے اور ان سے پوچھا ”قائداعظم (کلدیپ نیئر آج بھی قائداعظم ہی لکھتے ہیں) آپ نے ملک کیوں تقسیم کرایا؟ قائداعظم نے جواب دیا:
Young man! dont blame me for the partition; it is Nehru who is responsible for this.
یعنی ”میں توملک کو اکٹھا رکھنا چاہتا تھا لیکن نہرو نے میری یہ کوشش ناکام بنا دی“۔
کلدیپ نیئر زندہ ہیں ہوش و حواس میں ہیں ان سے باآسانی اس گفتگوکی تصدیق کی جا سکتی ہے یہ گفتگو درست ہے (اور میں نے خود ان کی زبان سے سنی ہے) تو قائداعظم کی ترجیح کسی ابہام کے بغیر صورت حال واضح کر دیتی ہے۔ میں نہ مانوں کا تو کوئی جواب نہیں ہوتا اور اب تواس بحث میں بڑ ی بڑی توپیں شامل ہو چکی ہیں جو میں نہ مانوں کی گردان کرنے کی عادی ہیں لیکن اگر کوئی سمجھنا چاہے تو بات بالکل واضح ہے۔
اگر در خانہ کس است
یک حرف بس است
ڈاکٹر صاحب نے اپنے جواب میں میرے کالم اور خورشید ندیم صاحب کے مراسلے (مورخہ 15جنوری) کی حسب ذیل باتوں کا مطلقاًکوئی جواب نہیں دیا حالانکہ یہ جواب 18جنوری کو شائع ہوا:
(1)۔ قومی زبان کی بحث(2)سیروائی کے ترجمے کا ذکر کیا اس کا ایک فقرہ کوٹ نہیں کیا (3)انڈین فارسٹ سروس کے جناب منصور احمد کا کوئی جواب نہیں دیا(4)انہوں نے 29جولائی 1946کی قائداعظم کی تقریر کے اس اقتباس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جو اصل انگریزی میں نقل کیا گیا تھا۔ (5)خالد بن سعید کے انگریزی اقتباس کا کوئی نوٹس نہیں لیا(6)آکسفورڈ کے پروفیسر تھامسن کے نام اقبال کے مارچ1934کے اہم خط پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ جب اتنے اہم موضوعات کو چُھوا تک نہیں گیا تو جواب کا حق کس طرح ادا ہو سکتا ہے حالانکہ ڈاکٹر صاحب کے پاس ان کے اپنے بقول کتابوں اور حوالوں کا کرہ گراں موجود ہے چونکہ ڈاکٹر صاحب نے ندیم صاحب کے اٹھائے ہوئے کئی نکات پر اپنا ردعمل پوری طرح نہیں دیا اس لئے خورشید ندیم صاحب نے اپنا موقف ایک اور مراسلے میں واضح کیا ہے۔ ملاحظہ فرمایئے: (جو حضرات اس بحث میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ میرے اوپر دیئے گئے چھ نکات کا پھر مطالعہ کریں)
محترم ارشاد احمد صاحب حقانی۔ السلام علیکم ورحمہ اللہ
محترم ڈاکٹر صفدر محمود صاحب نے اپنے مقدمے کے حق میں مزید دلائل فراہم کرتے ہوئے ان نکات پر بھی اظہار خیال کیا ہے جو میں نے آپ کے نام اپنے مکتوب میں اٹھائے تھے۔ اس لئے یہ غیر مناسب نہیں ہوگا اگر میں چند مزید گزارشات آپ اور آپ کے قارئین کی خدمت میں پیش کروں۔
اس اختلاف رائے میں خلط مبحث اور افراط و تفریط سے بچا جا سکتا ہے اگر چند امور پیش نظر رہیں۔
-1سیاست امکانات کی تلاش کا نام ہے جب ایک صاحب بصیرت کسی مقصد کے ساتھ میدان سیاست میں قدم رکھتا ہے تو اس کے پیش نظر کئی متبادل (options)ہوتے ہیں۔ یہ بصیرت کے خلاف ہوگا اگر کوئی تمام متبادل راستوں کو تج کر محض ایک ہی راستے پر چلتا رہے۔ جو لوگ ایسا کرتے اور حکمت عملی کو ایک منصوص معاملہ سمجھتے ہیں ان کا انجام علامہ مشرقی کی طرح ہوتا ہے۔ قائداعظم ایک صاحب بصیرت راہنما تھے۔ ان کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کو درپیش مسائل سے نجات دلانا تھا۔ ان مسائل میں ان کے مادی مفادات کا تحفظ اور ان کے تہذیبی وجود کی بقا سرفہرست تھے اس مقصدکے لئے ان کے سامنے کئی متبادل رہے ہیں، جن میں سے ایک تقسیم ہند بھی تھا۔ اگر یہ قائداعظم کی کردارکشی شمار نہ ہو تو میں یہ عرض کروں کہ قائد کی اپنی شہادت کے مطابق 22مارچ 1940ء تک وہ اور مسلم لیگ تقسیم کے کسی متعین فارمولے پر یکسو نہیں تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس وقت اس حوالے سے کئی تجاویز پیش کی جا رہی تھیں۔ علامہ اقبال اور چوہدری رحمت علی کئی سال پہلے اپنی تجاویز دے چکے تھے اور کئی دوسرے مفکر انہیں تجاویز دے چکے تھے۔
مسلم لیگ خود تقسیم کے معاملے میں ایک سے زیادہ تجاویز پر غور کر رہی تھی۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ اسی طرح قائداعظمنے اگر کیبنٹ مشن کی تجاویز کو قبول کر لیا تھا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تقسیم کے علاوہ انہوں نے دوسرے متبادل راستے بند نہیں کئے تھے۔ (میرا خیال ہے کہ آپکے جس جملے کو پڑھ کر ڈاکٹر صاحب چکرا گئے ہیں، اس کو اگر آپ کے پورے موقف کوسامنے رکھتے ہوئے سمجھا جائے تواس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے)۔ اس کی ایک وجہ تھی۔ قائد یہ جانتے تھے کہ برطانوی حکومت ان کے ساتھ نہیں ہے اور کانگرس اس پر پورا زور صرف کر دے گی کہ پاکستان نہ بننے پائے۔ ایسی صورت میں یہ بصیرت کا تقاضا تھا کہ وہ اپنے لئے متبادل راستہ کھلا رکھتے۔ ہماری تعبیر کے مطابق کیبنٹ مشن کی تجاویز کو مان کر انہوں نے یہی کیا۔ پاکستان بننے کے بعد قائداعظم جب آخری دفعہ ہندوستان سے رخصت ہو کر کراچی ایئرپورٹ پہنچے تو انہوں نے اپنے سیکرٹری (اے ڈی سی) احسان علی سے کہا ”جانتے ہو میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں پاکستان کو اپنی زندگی میں دیکھ سکوں گا“۔ ڈاکٹر صفدر محمود اور ان کے ہم خیال اس کی یہ تعبیر کرتے ہیں کہ قائداعظم نے کیبنٹ مشن کو اس لئے قبول کیا کہ ان کے نزدیک اس سے قیام پاکستان کی منزل مزید قریب ہو جاتی تھی۔ یہ ایک تاریخی واقعے کی ایک تعبیر ہے اور وہ یہ حق رکھتے ہیں کہ اسے پیش کریں تاہم یہ ایک تعبیر ہی ہے کوئی مسلمہ نہیں۔ میں اس امکان کو بھی رد نہیں کرتا کہ آنے والے دنوں میں ان واقعات کی کوئی نئی تعبیر سامنے آجائے۔ ایک تیسری تعبیر بہرحال موجود ہے جو جناب ولی خان نے ”حقائق حقائق ہیں“ میں پیش کی ہے اور جسے ڈاکٹر صفدر محمود اور ہم سب درست نہیں سمجھتے۔
-2اگر یہ معاملہ یہیں تک رہتا تو اس میں کوئی حرج نہیں تھا کہ علمی مباحث میں ایک سے زیادہ تعبیروں کی گنجائش ہوتی ہے۔ بحث اس وقت علمی دائرے سے نکل جاتی ہے جب کوئی فریق مختلف تعبیر کو قائداعظم کی کردار کشی پر محمول کرتا ہے۔ جو لوگ اپنی افتاد طبع کے باعث سنجیدہ علمی مباحث کے متحمل نہیں ہوسکتے یا جنہیں اہل علم کی مجالس میں بیٹھنے کا زیادہ موقع نہیں ملا اور جو اس شہرت پہ نازاں ہیں کہ پگڑی اچھالنا ان کا کمال فن ہے، وہ اگر دشنام او ردلیل میں امتیاز سے قاصر ہوں تو انہیں معزور سمجھا جا سکتا ہے لیکن ڈاکٹر صفدر محمود جیسے صاحب علم اگر تعبیر کے اختلاف اور کردار کشی میں فرق نہ کریں تو یہ قابل فہم نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جذباتی استحصال ایک آزمودہ اور تیر بہدف نسخہ ہے جو مذہبی اورقومی مباحث میں بے دریغ اور کامیابی کے ساتھ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ انہوں نے اس مباحثے کو قائد کے حامی اور مخالفین کا معرکہ بنانے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر صاحب بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ جس معاشرے میں اختلاف رائے کو اس زاویے سے دیکھا جائے وہاں فکری ارتقا کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں۔ ہم جیسے طالب علم ڈاکٹر صاحب جیسے اہل علم سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ایسے معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں گے جہاں کوئی آزادی رائے کا حق استعمال کرتے ہوئے اس خوف میں مبتلا نہ ہو کہ اس کا استقبال کسی فتوے سے کیا جائے گا۔ جہاں تک مسئلہ زیر بحث کا تعلق ہے، اس حوالے سے جو تعبیر بھی اختیار کی جائے، کوئی چاہے تواس سے قائد کی کردار کشی برآمد کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر یہ مان لیا جائے کہ قائد ابتدا ہی سے قیام پاکستان کے لئے یکسوتھے اور ان کے پیش نظر واحد راستہ تقسیم ہند تھا تو اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ حکومت برطانیہ اور کانگرس کے ساتھ کن آئینی راستوں کے لئے مذاکرات کرتے رہے؟ پھر قائداعظم کے ان الفاظ کا کیا مفہوم ہے جو انہوں نے 29جولائی 1946ء کو ادا کئے کہ ”مسلم لیگ نے ساری زندگی آئینی طریقوں اور آئینی مذاکرات کے سوا کوئی راستہ اختیار نہیں کیا۔ آج کانگرس اوربرطانیہ نے ہمیں مجبور کیا ہے کہ ہم یہ راستہ اختیار کریں“۔ اگر کوئی بدگمان اس سے یہ نتیجہ نکالنا چاہے کہ قائداعظم کے دل میں کچھ اور تھا اور زبان پر کچھ اور تو ہم اس کی زبان کیسے روک سکتے ہیں۔ اس طرح کے غیر علمی رویوں سے بچنے کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ ان مباحث کو اپنی بات کہنے اور دوسرے کے دلائل کے علمی رو تک محدود رکھا جائے۔ اس سے جہاں باہمی احترام کی فضا برقرار رہتی ہے وہاں فکری ارتقا کا سفر بھی جاری رہتا ہے۔ میں نے اپنے جلیل القدر آئمہ اور اسلاف کی سیرت کا جس حد تک مطالعہ کیا ہے، اس سے بھی یہی اخذ کر سکا ہوں۔ والسلام…خورشید ندیم
 
حاضر جناب!,,,,صبح بخیر…ڈاکٹر صفدر محمود جنوری 26

پاکستان کو معرض وجود میںآ ئے چھ دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزر چکا اور انشاء اللہ پاکستان قیامت تک قائم رہے گا۔ باسٹھ برس کے بعد کابینہ مشن پلان کے گڑے مردوں کو اکھاڑنا اور قیام پاکستان کے بارے میں شکوک و شہبات پیدا کرناغیر مناسب لگتا ہے۔ یوں بھی اس موضوع پر اخباری کالموں کے ذریعے نتیجہ خیز بحث نہیں ہوسکتی کیونکہ مختصر کالم اس مسئلے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ اس لئے میں نے گزشتہ کالم میں اپنا نقطہ نظر دے کر بحث سمیٹ دی تھی اور برادرم حقانی صاحب کے مشورے پر عمل کرتے ہوئےLet us agree to disagreeکے فارمولے پر عمل کردیا تھا جس کا مختصر سا مفہوم یہ ہے کہ آپ کو اپنا نقطہ نظر مبارک اور مجھے اپنا نقطہ نظر مبارک۔اسی لئے میں نے لکھا تھا کہ اب قارئین خود فیصلہ کرلیں۔اس کے بعد میں نے اپنے کالموں کا موضوع بھی بدل دیا تھا لیکن محترم حقانی صاحب نے ایک بار پھر عزیزم خورشید ندیم کا خط موصول ہونے کے بعد اپنے کالم میں اعتراضات اٹھا دئیے ہیں، حالانکہ میں اپنے کالم میں اکثر اعتراضات کا جواب دے چکا ہوں، البتہ حقانی صاحب نے میری بہت سی معروضات کا جواب نہیں دیا۔ مثلاً محترم حقانی صاحب کے اس فرمان کے جواب میں کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم کابینہ مشن سے بہت پہلے پاکستان کے مطالبے سے دستبردار ہوچکے تھے۔ میں نے عرض کی کہ مسلم لیگ نے 1945-46ء کے انتخابات پاکستان کے ایشو پر لڑے اورقائد اعظم نے اپنی تمام تقریروں میں کہا کہ یہ انتخابات”پاکستان“کا فیصلہ کریں گے، چنانچہ مسلم لیگ نے تقریباً 77%فیصد ووٹ حاصل کرکے یہ ثابت کردیا کہ مسلمان پاکستان چاہتے ہیں ۔ اس کے بعد اپریل1946ء میں مسلم لیگ کے تمام منتخب اراکین اسمبلی کاکنونشن دہلی میں ہوا جس میں انہوں حصول پاکستان کے حلف نامے پر دستخط کئے۔ میرا سادہ سا سوال یہ تھا کہ کیا یہ سب ڈرامہ تھا اور کیا قائد اعظم قوم کو دھوکہ دے رہے تھے؟ دوئم یہ کہ جب مسلم لیگ نے جون1946ء میں کابینہ مشن پلان اس واضح اعلان کے ساتھ قبول کیاکہ اس میں ہمیں پاکستان مل رہا ہے اور قائد اعظم نے کہا کہ اس پلان میں پاکستان کی بنیادیںFoundationموجود ہیں تو کیا وہ قوم سے جھوٹ بول رہے تھے؟کیونکہ آپ کے موٴقف کے مطابق تو وہ بہت پہلے مطالبہ پاکستان سے دستبردار ہوچکے تھے۔ اسی ضمن میں میں نے یہ سوال بھی پوچھا تھا کہ اس وقت مسلم لیگ کی کونسل اور ورکنگ کمیٹی کے اراکین کی تعداد پانچ سوزیادہ تھی جس میں سارے ہندوستان کے تمام اضلاع کے منتخب نمائندے شامل تھے اور یہ کونسل مسلمانوں کے سرکردہ رہنماؤں اور زعماء پر مشتمل تھی جس نے یہ اعلان کیا کہ ہمیں کابینہ مشن پلان کے ذریعے پاکستان مل رہا ہے۔ کیا آپ ان کی بصیرت پر شبہ کرتے ہیں یا نیت پر ،کیونکہ آپ کا موٴقف یہ ہے کہ مسلم لیگ اس پلان کو قبول کرکے مطالبہ پاکستان سے تائب ہوگئی تھی۔ آپ نے ان سوالات کا جواب نہیں دیا لیکن آپ سمجھتے ہیں جیسا کہ آپ کے ہفتہ والے کالم سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی کئی تعبیریں ہوسکتی ہیں، تو میں موٴدبانہ عرض کروں گا کہ اس کی تعبیریں صرف اقوال قائد اعظم اور مسلم لیگ کے اعلان کردہ فیصلوں کی روشنی اور حدود میں رہ کر ہوسکتی ہیں جس مسئلے پر قائد اعظم کا فیصلہ اور بیان موجود ہو اس سے متضاد کسی بھی دوسرے راوی کا بیان ہیچ ہے اور محض توضیحات اور اندازوں کے زمرے میں آتا ہے، کیونکہ تاریخ نے ثابت کردیا ہے کہ قائد اعظم بصیرت اورکردار کے حوالے سے گزشتہ صدی کے سب سے بڑے لیڈر تھے، وہ حالات پر غور وفکر کے بعد سوچ کر فیصلے کرتے تھے اور ان کی امانت و دیانت شک و شبہ سے بالاتر تھی، اگر قائد اعظم نے یہ کہا کہ ہم کابینہ مشن کو حصول پاکستان کی جانب پہلے قدم کے طور پر قبول کررہے ہیں ،تو ہمیں باسٹھ برس بعد ان کے خلوص نیت پر شبہ نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی اس پاکستان کے قیام سے مایوسی کا اظہار کرنا چاہئے جس کے حق میں مسلمانوں کی بہت بڑی ا کثریت نے فیصلہ دیا تھا اور تاریخی قربانیاں دے کر حاصل کیا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسین احمد مدنی اور عطاء اللہ شاہ بخاری جیسے مسلمان رہنماؤں نے بھی اس فیصلے کو قبول کرکے بڑے پن کا مظاہرہ کیا تھا اور ان کے نظریاتی پیروکاروں کو بھی اسی خوشدلی کے ساتھ اسے قبول کرنا چاہئے۔
میں اس بحث کو لا حاصل سمجھتے ہوئے اس میں کبھی نہ الجھتا اگر محترم حقانی صاحب اپنے3 جنوری والے کالم میں بلا جواز مریم اور کاؤس جی کے زہریلے اقتباسات دے کر قائد اعظم پر رکیک حملے نہ کرتے اور کابینہ مشن پلان کی آڑ میں ہندوستان سے ڈھیلی ڈھالی فیڈریشن یا کنفیڈریشن کی تجویز نہ دیتے۔ مریم اور کاؤس جی کے قائد اعظم کے بارے میں الفاظ اتنے قابل اعتراض تھے کہ خود حقانی صاحب ان کا ترجمہ نہ کرسکے۔ رہی کنفیڈریشن کی بات تو اسے مسلمانان ہند پہلے ہی مسترد کرکے قیام پاکستان کے حق میں ووٹ دے چکے تھے۔ میری قارئین سے گزارش ہے کہ وہ براہ کرم جنگ کی ویب سائٹ پر جاکر محترم حقانی صاحب کے تین ، چار اورپانچ جنوری کے کالم بغور پڑھیں تو ان کو اندازہ ہوگا کہ میں نے کیوں ان کا جواب دینا ضروری سمجھا۔ اس دوران وہ اپنے کالم کے مطابق اپنی تجاویز کی سند ہمارے آرمی چیف جنرل کیانی سے بھی لے آئے ، کیونکہ ان کے بقول جنرل صاحب کو ان کی تجاویز پراعتراض نہیں تھا۔ کیا جنرل صاحب کو ہندوستان سے کنفیڈریشن یا ڈھیلی ڈھالی فیڈریشن پراعتراض نہیں؟میں یہ پڑھ کر مخمصے میں پڑگیا، کیونکہ مجھے اس کا یقین نہیں؟ اب اسے حقانی صاحب جہاد کہہ کر طنز کررہے ہیں تو مجھے یہ اعزاز قبول ہے۔”محبت“ کی اسی رو میں بہہ کر وہ مجھے کالم نگاروں کو ترغیب دینے کا الزام لگاگئے ہیں، جبکہ لطف کی بات یہ ہے کہ میں ان کالم نگاروں کی بڑی تعداد کو ذاتی طور پرجانتا ہی نہیں۔ جناب حقانی صاحب کے موٴقف کومیرے مطالعے کے مطابق ایک درجن سے زیادہ کالم نگاروں نے رد کیا ہے، جبکہ عزیزی خورشید ندیم نے ان کے کچھ کچھ نقطہ نظر کی حمایت کی ہے۔ میرے دل میں عزیزی کے لئے نرم گوشہ ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ وہ حقانی صاحب کی ترغیب پر لکھ رہا ہے۔ وہ اپنے نقطہ نظر کا اظہار کررہا ہے جس سے مجھے اختلاف ہے۔ میں نے عزیزم کا نام لکھے بغیر گزشتہ کالم میں اس کے اٹھائے گئے سوالات کاجواب دے دیا تھا، اگرچہ حقانی صاحب کو اصرار ہے کہ جواب نہیں دیا، تاہم ان کی تسلی اور خوشنودی کے لئے دوبارہ جواب مجھ پر واجب ہوگیا ہے۔ میرے محترم حقانی صاحب کو سوچنا چاہئے تھا کہ آخر پاکستان کے درجن سے زیادہ معروف کالم نگار کیوں ان کے نقطہ نظر کو رد کررہے ہیں؟اس کی بجائے انہوں نے محترم سفیر صدیقی، سعید صدیقی، ہارون الرشید، حامد میر، عبدالقادر حسن، فضل حسین اعوان، ڈاکٹر سرفراز مرزا، رانا عبدالباقی، ڈاکٹر ظہور اعوان جیسے معروف کالم نگاروں پر میری ترغیب کا الزام لگا کر اس کی دیانت اور خلوص پر سنگ باری کردی جبکہ میں ان میں سے دوحضرات کے علاوہ کسی اور کو جانتا تک بھی نہیں ،ویسے قومی موضوعات پر اظہار کی ترغیب دینا کوئی جرم بھی نہیں لیکن یہ ذہن میں رہے کہ لکھاری اپنی رائے کا اظہار اپنے مطالعے اور ضمیر کے مطابق کرتا ہے۔ آج سرور عظیم صاحب نے بھی کنفیڈریشن کی تجویز پر لکھا ہے۔ امید ہے محترم حقانی صاحب اسے میرے کھاتے میں نہیں ڈالیں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران اس موضوع پر بہت سے کالم لکھے گئے ہیں جنہوں نے حقانی صاحب کے موٴقف سے اختلاف کیا ہے لیکن میں نے فقط سنا ہے ، مجھے ان میں سے بیشتر کا علم نہیں۔ اسی طرح مجھے ان حضرات سے بھی اختلاف ہے جو حقانی صاحب کے موٴقف کے پس پردہ محرکات ڈھونڈھتے ہیں ، کیونکہ مجھے برادر بزرگ کے خلوص نیت پر شبہ نہیں، صرف ان کے نقطہ نظر سے اختلاف ہے۔
اس سے قبل کہ میں اپنے موٴقف کی حمایت میں مزید دستاویزی شواہد کاذکر کروں ، محترم حقانی صاحب کے اعتراضات کا جواب نقطہ وار حاضر خدمت ہے۔(1)قومی زبان کے حوالے سے میں نے وضاحت گزشتہ کالموں میں کردی تھی۔(2)سیروائی کافقرہ میں نے اس لئے کوٹ نہیں کیا کیونکہ مجھے اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔(3 )منصور احمد کا جواب میں نے آپ کے پسندیدہ مورخ خالد بن سعید کے الفاظ میں دے دیا تھا، البتہ میں نے اس میں خورشید ندیم کانام نہیں لیا تھا۔ خالد بن سعید اپنی کتاب کے صفحہ نمبر179پر اپنے تھیسس کے نچوڑ کے طور پر لکھتا ہے کہ ”جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ہندؤں نے بنایا وہ مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہیں۔ جناح پاکستان کا مطالبہ کرنے سے بہت پہلے پاکستان کی طرف مائل ہوچکا تھا۔(4)میں نے قائداعظم کی 29جولائی 1946ء کی تقریر کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ انہوں نے ہندوستانی فیڈریشن کے اندر پاکستان پہلے قدم کے طور پر قبول کیا تھا جبکہ دوسرا قدم کابینہ مشن پلان کے مطابق اس منصوبے سے باہر نکل کر(Opt out)آزاد و خود مختار پاکستان کا حصول تھا۔ قائد اعظم اورمسلم لیگ نے فیصلہ کررکھا تھا کہ وہ لولی لنگڑی مرکزی حکومت جس کے پاس صرف خارجہ، مواصلات اور دفاع ہیں اور جومالیات کے لئے صوبوں کی مرہون منت ہے اسے چلنے نہیں دیں گے اور اس طرح پنجاب، بنگال کو تقسیم کئے بغیر آئینی طریقے سے یعنی کابینہ مشن پلان کی اپنی شقوں کے مطابق آزاد وخود مختار پاکستان حاصل کرلیں گے لیکن کانگریس نے پورے پنجاب ،بنگال کو جاتے ہوئے دیکھ کر منصوبے کو مسترد کردیا۔ عزیزم نے قائد اعظم کی 29جولائی کی تقریر کے الفاظ خالد بن سعید کی کتاب سے لئے تھے۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر 147پر مصنف لکھتا ہے کہ کانگریس کابینہ پلان کی گروپنگ سکیم سے خوفزدہ تھی، کیونکہ انہیں علم تھا کہ جناح صرف اس مقام پر نہیں رکے گا ،کیونکہ قائد اعظم اور مسلم لیگ چھ جون1946ء کو قرارداد کے ذریعے حصول پاکستان کے فیصلے کااعلان کرچکے تھے ۔ اگلے صفحے پرمصنف لکھتا ہے کہ کانگریس کا خوف بلا جواز نہیں تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ آپ پہلے کا قدم کاذکر کرکے خاموش ہوجاتے ہیں جبکہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ قائد اعظم کی حکمت عملی دو حصوں پر مشتمل تھی۔(5)تھامسن کے حوالے سے میں نے عزیزم خورشید کا نام لئے بغیر یہ مشورہ دیا تھا کہ براہ کرم اقبال کے خطوط بنام جناح پڑھیں اور 1930-31ء سے ذرا چھ سات سال آگے بڑھیں۔ مجھے لگتا ہے کہ خورشید نے یہ خطوط اور قائد اعظم کا لکھا ہوا تعارف نہیں پڑھا۔ وہ پڑھ لیں تو شاید اپنی رائے پر نظر ثانی کرلیں۔ وقت ملے تو زحمت فرما کر ٹرانسفر آف پاور کے ریکارڈ میں جھانک لیں۔ نہ جانے کیوں مجھے حسن ظن ہے کہ عزیزم خورشید حقانی صاحب کی ہندوستان سے کنفیڈریشن کی تجویز کی حمایت نہیں کریں گے یہاں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ میں ہندوستان سے برابری کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات کا حامی ہوں اور یہی خواہش قائد اعظم کی بھی تھی۔
میں نے مختصر ترین الفاظ میں جواب دے دیا ہے۔ خورشید ندیم کا خط دشنام طرازی کے سوا کچھ نہیں۔ اس کا کیاجواب دوں؟ویسے اس کے گزشتہ خط کا جواب ہارون الرشید نے اسی لب و لہجے میں دے دیاتھا جس کی قارئین نے بے پناہ داد دی۔
 
کوہسار,,,,ناتمام…ہارون الرشید۔۔۔جنوری 12

مارچ کے آخر میں قرارداد پاکستان کی منظوری پر 69سال پورے ہو جائیں گے۔ پون صدی سے، پاکستان کے معمار محمد علی جناح کی کردار کشی جاری ہے۔ چیونٹیاں پہاڑ سے سر ٹکرا رہی ہیں، ٹکراتی رہیں گی۔
محمد علی سچے اور کھرے تھے۔ 1946ء میں تین چوتھائی ووٹروں نے مسلم لیگ اور پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالا۔ پورے عصر نے محمد علی جناح کے موقف پر گواہی دی۔ انگریزی حکومت اور کانگرس کو پاکستان تسلیم کرنا پڑا۔ تاریخ کے عظیم ترین کارناموں میں سے ایک کارنامہ انہوں نے انجام دیا۔ ایک قوم کی تشکیل، اس کیلئے آزادی کا حصول اور ایک نئے وطن کا قیام ۔ سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود گاہے ان پر اعتراضات کی بوچھاڑکیوں ہوتی ہے۔ شادی ہوگئی، بچے پیدا ہوئے اور ان کی بھی بچے۔ مدتوں بعد یہ سوال کیوں اٹھے کہ یہ شادی ہونا چاہئے تھی کہ نہیں۔ مسجد بن چکی۔ مدتوں سے نمازیں پڑھی جاتی ہیں۔ اب اس بحث سے کیا مقصدکہ یہ مسجد بننا چاہئے تھی یا نہیں۔
بہت دن ہوتے ہیں طالبعلم ایک سوال کے ساتھ استاد کی خدمت میں حاضر ہوا ”صوم وصلوة کے باوجود، یقین کیوں جنم نہیں لیتا“ ۔ قرآن کریم کہتا ہے، ان کے پاس جاؤ جو علم میں راسخ ہوں۔ اہل ذکرسے رجوع کرو۔ اللہ کے آخری رسول کا فرمان یہ ہے ”تم پر لازم ہے کہ ابرار کے ساتھ اٹھا بیٹھا کرو“ …”ابرار “ اہل علم ہیں۔ حیات اورکائنات کی تخلیق پر جنہوں نے غور کیا ہو اور اپنے زمانے کے حقائق سے آشنا ہوں۔
استاد نے حیرت سے طالبعلم کو دیکھا اور یہ کہا ”نماز روزے کا یقین سے کیا تعلق“ پھر اضافہ کیا ”یقین نفی ذات سے پیدا ہوتا ہے، مسلسل اپنی تربیت اور تہذیب نفس سے“ بہت دن پہلے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا ”شیطان ایک کاشتکار ہے جو نفس کی زمین میں کاشت کرتا ہے “ اگر آدمی ادنیٰ خواہشات کا اسیر ہے، کذب اور غیبت اس کا شعار ہے ، بری محفلوں میں مبتلا تو اس کی مٹی جھاڑ جھنکار کے سوا کچھ پیدا نہ کرے گی۔ اگر اس کا شیوہ صبر ہے ، حمیت ، دیانت ، رزق حلال، ایثار ، اور خیر خواہی تو ایمان اور خیر کی فصلیں پھلے پھولیں گی۔
انسانی جبلتوں کے تعامل (inter Action) کو سمجھنا ذرا مشکل ہے ۔ مطالعہ ، مشاہدہ، غور و فکر، اہل علم کی صحبت ۔ ایک ایک زینہ ہی آدمی اوپر چڑھ سکتا ہے۔ تعصبات سے رہائی بتدریج ہی ممکن ہے۔ زعم سے رہائی آسان نہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب اپنے علم پہ ناز ہو اورمقبولیت کی تمنا تڑپاتی رہے۔ پھر آدمی اورصداقت کے درمیان حجاب حائل ہو جاتا ہے اور ٹلتا نہیں۔ اہل علم کہتے ہیں کہ انکسار مطلوب ہے، اپنی غلطیوں پر غور و غوص اور دعا ۔ یہ دعا ہے جو فتنوں کو ٹالتی ہے اور رکاوٹیں دور کر دیتی ہے۔ ”اللہ کے علم میں سے انسان کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے مگر جو وہ چاہے“ ۔
اب ایک سوال ہے ، مختلف مگر موضوع سے اس کا تعلق ہے ۔ آئے دن مغرب میں اللہ کے آخری رسول کے خلاف کوئی گھٹیا سی بات سننے میں کیوں آتی ہے ۔ مذہبی اعتقاد سے قطع نظر یہ مسلمہ ہے کہ ان کی ذات نجابت کا نمونہ تھی اور یہ کہ انسانوں کا دل نہ دکھانا چاہئے ۔ پھر صدیوں سے یہ کاوش کیوں ہوتی آئی ہے کہ کسی طرح اس اجلی ذات کو متنازع اور مشکوک بنا دیا جائے ۔ اس لئے کہ اسلامی تہذیب کی عمارت اسی پر استوار ہے۔ کتاب انہی پر اتری تھی اورکتاب پر یقین سے پہلے نبوت کو ماننا ہوتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے کئی امتیوں کے ساتھ یہی ہوتی آئی ہے ۔ حق کا دفاع کرنے کیلئے جب کوئی میدان میں اترا ہے تو امانت و دیانت میں مسلمہ ہونے کے باوجود ، اس پر اعتراض تراشے اور پھیلائے گئے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کسی خلا سے اتر کر نہ آئے تھے ۔ ان کا بچپن ، جوانی اور بڑھاپا، ان گنت دیکھنے والی آنکھوں کے درمیان گزرا۔ تنہا نہیں وہ ہجوم کے اندر جئے۔ جب بھی گواہی دینے کا وقت آیا تو خلق خدا نے ہمیشہ ان کے کردار اور بصیرت پر گواہی دی۔ بمبئی میں ہر بار وہ الیکشن جیتے اور آخری بار وہ اس طرح کہ ہزاروں میل دور لنڈی کوتل کے نواح میں تھے۔ ان کی سب بڑی حلیف آل انڈیال کانگرس نے اسی شہر میں ان کے نام پر ایک ہال تعمیر کیا تھا ، جب وہ ایک جوان آدمی تھے، ان کی خدمات اور خلوص کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ۔ بدترین مخالف بھی مانتے تھے کہ کسی قیمت پر ان کو خریدا نہیں جاسکتا ۔ لارڈ ویول نے ان سے یہ کہا کہ اگر ایک ہندوستانی لیفٹیننٹ گورنر ہوسکتا ہے تو دوسرا کیوں نہیں ۔ اس پر وہ اٹھے اور ناراض کمرے سے باہر نکل گئے۔ تعاقب کرنے والے حیرت زدہ وائسرائے نے ان سے سوال کیا،
"what Happened Mr Jinah"
دمکتی ہوئی کھری آواز کا جواب یہ تھا ''i Am Not Here To Sell My Nation ''
(میں یہاں اپنی قوم کو بیچنے نہیں آیا) ہمیشہ وہ روشنی کے سامنے جئے ، معاملات کو صاف شفاف رکھا ، ہر چیز ریکارڈ پر ۔ سیاست مقبولیت کے بل کی جاتی ہے مگر صداقت اور ضمیر کی آواز اس قدر عزیز تھی کہ نامقبولیت گوارا کر لیتے ، مثلاً تحریک خلافت کی تائید سے انکار کر دیا حالانکہ سارا ہندوستان اس میں بہہ گیا تھا ۔ رفقاء حریفوں اور حلیفوں کے سامنے اپنی بات ہمیشہ دلیل کے ساتھ پیش کرتے۔ سبھی جانتے تھے کہ فیصلہ بہت غور و خوص کے بعد کرتے ہیں اور جب کر لیں تو بدلتے نہیں تھے ۔ مالی معاملات میں ان کی دیانت ضرب المثل تھی ۔ مناصب کی رتی برابر پرواہ نہ کرتے ۔ قیام پاکستان کو ٹالنے کے لئے گاندھی نے انہیں وزارت عظمیٰ کی پیش کش کی جو ٹھکرا دی گئی۔ امریکی اخبار نویس نے اس پر حیرت کا اظہار کیا اوران سے پوچھا کہ ہندوستان کی وزارت عظمیٰ سے بڑھ کر وہ کیا چاہتے ہیں۔ ان کا جواب یہ تھا ”میں یہ چاہتا ہوں ، قیامت کے دن اللہ مجھ سے یہ کہے، محمد علی تم کھرے نکلے “ (well Done Mohammad Ali )
سازش ، فریب کاری ، جوڑ توڑ اورسرمائے سے نہیں، دلیل اور عوامی تائید سے اپنی فتوحات انہوں نے کھلے میدانوں میں حاصل کیں۔ جیسا کہ اس کالم میں کئی بار عرض کیا، 1946ء کے الیکشن میں 76.5فیصد ووٹروں نے ان کی حمایت کی ۔ اس کے باوجود کہ مولانا ابوالکلام آزاد ، مولانا حسین احمد مدنی، عبدالغفار خان اور اپنے عہد کے سب بڑے خطیب عطاء اللہ شاہ بخاری سمیت بہت سے مقبول مسلمان لیڈر ان کے مخالف تھے۔ کانگرنس دولت مند تھی اوراس نے اپنا روپیہ احرار کو دیا ۔ شورس کاشمیری اس کے گواہ ہیں۔ سرخ پوشوں کو دیا اور ابوالکلام تحریری طور پر تصدیق کرتے ہیں ۔ محمد علی جناح چار آنے کی رسید پر بھی اپنے ہاتھ سے دستخط کرتے۔ ایسے امانت دار ، ایسے شفاف ۔ حیرت ہے ، اس کے باوجود ان کی شخصیت کو معمہ کہا جائے ۔ معمہ نہیں وہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے۔ ان کی ذات میں وہ یقین کارفرما تھا وہ فقط خلوص اور ایثار سے جنم لیتا ہے ۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے کہا تھا ” بیسویں صدی سب سے بڑے مسلمان“ ۔ مولانا عثمانی دیوبند سے آئے تھے جہاں اہل تقویٰ کو انہوں نے خوب دیکھا تھا ۔ سید ابوالامودودی نے ان کی تائید کی اور ان پر تنقید بھی لیکن پھر یہ لکھا کہ ان کی دیانت پر کوئی شبہ نہ کرسکتا تھا۔ محمد علی جوہر اس حال میں دنیا سے اٹھے کہ انہوں نے مسلم برصغیر کو جناح کے گرد جمع ہونے کا مشورہ دیا اور مسلم برصغیر کے نبض شناس علامہ اقبال ان کی پشت پر کھڑے رہے۔ اس کے باوجود کہ آخری برسوں میں پنجاب مسلم لیگ کے بارے میں ان کی بعض سفارشات کو قائد اعظم نے تسلیم نہ کیا تھا ۔ پنڈت نہرو نے جب اقبال سے یہ کہا کہ وہ مسلمانوں کے غیر متنازع لیڈر ہیں تو ان کا جواب یہ تھا ”میں تو جناح کا ایک سپاہی ہوں “۔
جدید سیاسی تاریخ کے عظیم ترین کارناموں میں سے ایک کارنامہ قائد اعظم نے انجام دیا اورمہلت پوری ہونے پر، سرخرو ، اپنے اللہ کے حضور چلے گئے۔ ہر دوسری قوم کی طرح جو اپنی تاریخ کے ابتدائی عشروں میں ، غیر معمولی مشکلات سے گزرتی ہے ، اب یہ ان کی قوم پر ہے کہ وہ کس طرح بحرانوں کا سامنا کرتی اور فروغ پاتی ہے ۔ یہ قابل فہم ہے کہ ہر وہ شخص جو پاکستان میں یقین نہیں رکھتا، وہ محمد علی جناح کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کی کوشش کرے گا، انہیں منہدم کرنے کی۔ قرارداد پاکستان کی منظور ی کو مارچ میں 69برس ہوجائیں گے ۔ پون صدی سے چیونٹیاں پہاڑ سے سر ٹکرا رہی ہیں، ٹکراتی رہیں گی۔
 
قائداعظم کی ذات سے متعلق چند وضاحتیں...سعید صدیقی۔۔جنوری 20

یہ حقیقت ہے کہ قائداعظم نے کیبنٹ مشن پلان کو منظور کر کے مطالبہ پاکستان سے وقتی طور پر دست برداری کی تھی۔ قائداعظم کے اس اقدام پر مسلم لیگی حلقوں میں چہ میگوئیاں بھی ہوئی تھیں۔ مولانا حسرت موہانی ان میں پیش پیش تھے، لیکن جلد ہی غلط فہمی دور ہو گئی۔ کیبنٹ مشن کے سکریٹری Wood Rowweyt نے جب قائداعظم سے انٹرویو لیتے ہوئے کہا Mr. Jinnah is it not a stepforward for a greater Pakistan.
تو قائداعظم نے برجستہ فرمایا Exactly you have taken the point.
قائداعظم کے غیر متوقع طور پر کیبنٹ مشن پلان کو منظور کرنے سے کانگریس کے حلقوں میں کھلبلی مچ گئی۔ پورا بنگال مع آسام اور پنجاب جاتا دکھائی دیا۔ سندھ، بلوچستان اور صوبہ سرحد ایک ناقابل تسخیر اسلامی بلاک نے بے چین کردیا۔ پنڈت جواہر لال نہرو صدر کانگریس نے جب کیبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کر دیا تو قائداعظم نے وائسرائے لارڈ ویول کو لکھا کہ کانگریس اپنے معاہدے سے منحرف ہوگئی ہے، وہ مسلم لیگ کو حکومت بنانے کی دعوت دے۔ ویول نے برخلاف اس کے کانگریس کو حکومت تشکیل دینے کی اجازت دے دی۔ جواہر لال نہرو نے یہ موقف بھی اختیار کیا کہ صوبوں کو یونین سے علیحدہ ہونے کا جب چاہے اختیار ہے۔ اس پر قائداعظم کا فرمان تھا۔ مشن کے پلان میں 10 سال کی شرط رکھی گئی ہے۔ برٹش پرائم منسٹرکلیمنٹ اٹیلی نے قائداعظم اور پنڈت جواہر لال نہرو کو متنازع مسئلہ پر وضاحت پیش کرنے کی غرض سے لندن آنے کی دعوت دی۔ چنانچہ قائداعظم، لیاقت علی خاں دسمبر 1946ء کراچی ایئر پورٹ سے پرواز کے ذریعہ لندن گئے۔ پریس کے نمائندے کے طور پر جناب زیڈ اے سلیری قائداعظم کے ہمراہ لندن گئے۔ کیبنٹ نے فیصلہ کیا کہ مسٹر جناح کا Interprectation صحیح ہے۔ زیڈ اے سلیری کا قائداعظم کے شیدائیوں میں شمار ہوتا ہے۔ صحافت کے میدان میں زیڈ اے سلیری ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ زیڈ اے سلیری نے قائداعظم کے کسی اقدام کو غلطی کہنا تو درکنار ہمیشہ ان کی شان کے تہنیت الفاظ سے یاد کیا۔ یہ کہنا کہ قائداعظم متحدہ ہندوستان کے حق میں ہندو مسلم یونٹی کے سفیر کہلاتے تھے۔ ممبئی میں جناح ہال تعمیر کرایا گیا۔ سروجنی نائڈو نے اسی عنوان سے کتاب تحریر کی تھی۔ یہ سب صحیح ہے، لیکن جب قائداعظم نے کانگریس کے عزائم ہندوستان میں رام راج قائم کرنے کے اطوار دیکھے تو ناگپور سیشن میں انہوں نے کانگریس سے استعفیٰ دے دیا۔ تحریک پاکستان کے دوران جب ایک صحافی کے استفسار پر کہ آپ کانگریس میں بھی تو تھے، آپ نے فرمایا میں پرائمری کلاس میں بھی پڑھا ہوں۔ جہاں تک اقلیت کے صوبوں کا مسئلہ ہے، اقلیت کے صوبوں کے لوگ تحریک پاکستان کے ہر اول دستے میں شامل تھے۔ وہ جانتے تھے پاکستان ان کے علاقوں میں نہیں بنے گا اور سب سے زیادہ مصائب کا انہیں سامنا کرنا ہو گا لیکن وہ خوش تھے کہ ایک اسلامی مملکت تشکیل پا رہی ہے۔ 23 مارچ کے پاکستان ریزولوشن کی منظوری کے بعد تائید میں پہلی تقریر چوہدی خلیق الزماں کی ہوئی تھی۔ قائداعظم نے بارہا فرمایا اقلیت کے صوبوں کے لوگوں کو نہ بھولئے۔ 27 اکتوبر 47ء کو رپورٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا۔ اقلیت کے صوبوں میں رہنے والوں نے پاکستان بنانے کی تحریک میں زبردست کردار ادا کیا، انہیں جن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا اس سے بخوبی واقف تھے۔ لیکن اپنے وقار اور عزت نفس کی قیمت پر نہیں۔ ہم ہمیشہ ان کی تکلیف میں ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کریں گے۔ اصل حقیقت ایسی ہے کہ بعض اوقات زندگی بچانے کے لئے کسی ایک عضو کی سرجری ناگزیر ہو جاتی ہے، جہاں تک بعض لوگ ہندوستان کے ساتھ کسی عنوان سے کانفرٹیویشن کی بات کرتے ہیں۔ قائداعظم کے یہ الفاظ بالکل اس خیال کی نفی کرتے ہیں۔
I want to make it quite clear that Pakistan will never surrender and never agree to any shape or form of any constitutional union between the two sovereign states with one common centre.
جہاں تک اردو کو پاکستان کی قومی زبان کے اعلان کا تعلق ہے۔ اردو نے پاکستان بنانے میں بڑا زبردست کردار ادا کیا ہے۔ اردو ہندی تنازع سرسید احمد خاں کے زمانے سے چلا آ رہا تھا۔ مہاتما گاندھی کا دعویٰ تھا کہ اردو قرآن کے رسم الخط میں لکھی جاتی ہے، لہٰذا ہندوستان میں ہندی رائج ہونا چاہئے۔ 1936ء میں جب کانگریس کی حکومت 5 صوبوں میں بن گئی۔ اردو کو مٹانے کی سازشیں زور پکڑ گئیں، اردو کی جگہ ودیا مندر اسکیم، واردھا اسکیم آف ایجوکیشن نافذ کی گئی۔ علاوہ ازیں اردو پورے ایشیا میں بولی جاتی، سمجھی جاتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ بنگالی کو اگر قومی زبان قرار دیا جاتا تو، سندھی نے کیا قصور کیا ہے، یا پنجابی کیوں نہیں قومی زبان ہو سکتی۔ لہٰذا اردو ہی پاکستان کی قومی زبان ہونا چاہئے تھی، قائداعظم کا فیصلہ صحیح تھا۔ بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ جس قائد کے لئے علامہ اقبال نے اپنی باقی زندگی جناح کو دینے کی دعا کی، مولانا محمد علی جوہر نے جس کی رہنمائی اور قیادت کی دعا کی۔ آج چند سادہ لوح لوگ مورخوں کی کتابوں کا حوالہ دے کر قائداعظم کی غلطیاں گنا رہے ہیں۔ شیخ سعدی نے فرمایا
چار پائے برو کتابے چند نہ محقق بود نہ دانشمند
 
Top