فی البدیہہ شاعری (موضوعاتی / غیر موضوعاتی)

متلاشی

محفلین
آج کل ہم اداس رہتے ہیں
اور کچھ آس پاس رہتے ہیں
عمر جنکو تھی ہم نے دے ڈالی
ان کے چرکے ہی پاس رہتےہیں
کچھ تو بتلائیں ہمیں میاں فیصل
آپ کیوں پھر اداس رہتے ہیں؟
اب چھپانے کا فائدہ کیا ہے
جب کہ ہم آس پاس رہتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
آپ کو سر کے گومڑوں کی پڑی
آؤ سینے کے آبلے دیکھو
دل کے پھپھولے جلتے ہیں سگرٹ کی آگ سے
بھیا مغل کا مشورہ ہو گا یہی میاں
ہاں سر کے گومڑوں کا نہیں ہے مگر علاج
الا کہ فارغ البال کریں کھوپڑی میاں
۔۔۔ ثقہ شعرا سے معذرت کے ساتھ، کچھ بے بحر سہی
 
دل کے پھپھولے جلتے ہیں سگرٹ کی آگ سے
بھیا مغل کا مشورہ ہو گا یہی میاں
ہاں سر کے گومڑوں کا نہیں ہے مگر علاج
الا کہ فارغ البال کریں کھوپڑی میاں
۔۔۔ ثقہ شعرا سے معذرت کے ساتھ، کچھ بے بحر سہی


ذرا بھی آپ غضب ناک مت ہوا کیجئے
کہ میں تو آج کل دیوانگی کا راہی ہوں
وہ جو شریک تھے اپنی حیات میں ہردم
انہی کے واسطے فرزانگی کا راہی ہوں
 
عجب یہ موسم اداسیوں کا
میری جبیں پر سوار بیٹھا
نہ کوئی چاہے مجھے یہاں پر
میں اپنی بازی تو ہار بیٹھا
وہ جس کو مرکز کہا تھا میں نے
وہی ہے جو مجھ کو مار بیٹھا
 
یہ جانتا ہوں کہ تم نہیں ہو
حیات من میں شریک میرے
اگر کبھی تم سمجھ سکو تو
سمجھ دکھانا طریق میرے
طویل عرصہ حیات میں سے
تمہیں دیا تھا فریق میرے
رحم دکھانا نہ ہمدرد ہونا
نہیں ہے حاجت رفیق میرے
 
کبھی میں یاد آؤں تو
مجھے تم یاد مت کرنا
میری ہر سخت گوئی کو
میری ہر بے وفائی کو
نگاہوں میں بسا لینا
میری جو اچھی باتیں تھیں
انہیں تم بس بھلا دینا
مجھے ہرگز کسی اچھی کسی اپنائیت والی
تمہاری یاد میں رہنے کا حق ہو
میں نہ چاہوں گا
مگر تم یاد کر مجھ کو
غزالی نم سی آنکھوں سے
زمیں کو دیکھ کر اپنے
حسین و خوبرو پاؤں
کے انگوچھے سے کچھ کھرچو
کبھی ایسا نہ چاہوں گا
اسی خاطر تمہیں کہتا ہوں
مجھے تم ہی بھلا دینا
کبھی میں یاد آؤں تو
مجھے تم یاد مت کرنا

مجھے تم یاد مت کرنا
 

الف عین

لائبریرین
یہ ہم سے گفتگو کب ہے
جو ہم کچھ عرض کر ڈالیں
یہ بس دل کے پھپھولے ہیں
جو فیصل نے یہاں محفل میں پھوڑے ہیں
ذرا آواز دینا تو
وصی شاہ آئیں اور کچھ شعر فرما دیں
کہ ہم تو عشق کے جذبے سے کورے ہیں!!
 
بہت ہی خوبصورت اور
بہت ہی نازک احساسات کی
جذبات کی
یہ ترجمانی ہے
یہی اُن کی کہانی ہے
مگر اِن آرزوؤں کو
اِن احساسات کوسن کر
مجھے ایسا لگا جیسے
یہ میری ہی کہانی ہے
کسی شاعر کے جذبوں اور احساسات کی
کیسی کہانی ہے
کہ ہر قاری کے دِل سے
ایک ہی آواز آتی ہے
یہ میری ہی کہانی ہے
یہ میری ہی کہانی ہے
 
بہت ہی خوبصورت اور
بہت ہی نازک احساسات کی
جذبات کی
یہ ترجمانی ہے
یہی اُن کی کہانی ہے
مگر اِن آرزوؤں کو
اِن احساسات کوسن کر
مجھے ایسا لگا جیسے
یہ میری ہی کہانی ہے
کسی شاعر کے جذبوں اور احساسات کی
کیسی کہانی ہے
کہ ہر قاری کے دِل سے
ایک ہی آواز آتی ہے
یہ میری ہی کہانی ہے
یہ میری ہی کہانی ہے

کہانی تو ہماری ہےذرا ان کی زبانی ہے
کوئی جھگڑا نہیں شاید ہماری بد گمانی ہے
مگر دونوں نرالے ہیں کسی کو بیچ میں رکھ کر
ذرا دب کر ذرا جھک کرکوئی راضی نہیں مانے
کہ دونوں کے اصولوں پرنہیں ممکن گوارا ہو
کسی کو بھی دخل دینا یا ثالث ہی بنا لینا
اکیلی جاں ہمیشہ سے اکیلی تھی اکیلی ہے
اسی رستے پہ شاید آج بھی اٹکن نکیلی ہے
 
اکیلی جاں ہمیشہ سے اکیلی تھی اکیلی ہے
یہ ایسی بات ہے جس کی نفی کرنا نہیں ممکن
کہ شاعر شخص ایسا ہے جو شہرِ ذات کی پہنائیوں میں گم
ہمیشہ سے اکیلا تھا، اکیلا ہے
مگر جب اپنے احساسات کو کاغذ پہ لکھتا ہے
غزل کہتا ہے
اس لمحے
اسی لمحے جو اس کا درد ہے
اس کا نہیں رہتا
زمانے بھر کے ہر قاری کے دِل کا درد بن کر
اِک ایسا نغمہ بن کر جو مغّنی کے لبوں تک آگیا ہے
ہر اِک پتھر کے سینے سے اُبلتا ہے
ہر اِک آتش فشاں سے لاوا بن کر یوں اگلتا ہے
کہ ہم بس چیخ پڑتے ہیں
یہ نغمہ میرا نغمہ ہے
یہ میرا ہی تو نغمہ ہے
 
Top