فکر و فن ( ٹائپنگ جاری۔۔)

255

وہ مطمئن کہ دولت کونین بخشدی مجھ کو یہ غم کہ بار ہیں قلب و جگر مجھے
یہاں لیکن محذوف ہے یعنی۔ لیکن مجھ کو یہ غم کہ۔۔۔۔۔ مجھے
نوٹ:۔ شرط کے جملہ میں پہلے حرف شرط اور جزا کے جملے میں پہلے حرف جزا آتا ہے۔ جیسے اگر تم آئے تو میں چلوں گا۔ یہاں اگر حرف شرط اور تو حرف جزا ہے۔
(۲)کبھی حرف جزا بھی محذوف ہوجاتا ہے جیسے اگر تم آؤ گے کام ہوجائے گا۔ یعنی تو کام ہوجائے گا۔ ترکیب نحوی۔ بات سنو مگر کہو مت۔ یہاں تم فاعل مقدر ہے۔ بات مفعول۔ سنو فعل۔ چنانچہ فاعل فعل اور مفعول مل کر جملہ فعلیہ یعنی مستدرک منہ ہوا۔ پس مستدرک اور مستدرک منہ مل کر کلمہ استدراکیہ ہوگیا۔

جملہ معلّلہ۔ اس کے پہلے جملہ کو معلول اور دوسرے جملے کو علت کہتے ہیں۔ درمیان میں حرف علت واقع ہوتا ہے۔ عموماً حرف علت۔ کیونکہ۔ اس لئے کہ۔ اس واسطے کہ۔ لہذا اور پس ہوتے ہیں۔ جیسے تم علم سیکھو کیونکہ علم بڑی چیز ہے۔
ترکیب نحوی۔ تم فاعل مقدر۔ علم مفعول۔ سیکھو فعل۔ یہ جملہ فعلیہ یعنی معلول ہوا۔ کیونکہ حرف علت ہے۔ علم مبتدا۔ بڑی صفت۔ چیز موصوف یہ دونوں مل کر خبر ہوئی۔ ہے فعل ناقص۔ چنانچہ مبتدا۔ خبر اور فعل ناقص مل کر جملہ اسمیہ یعنی علت ہوا اور معلول و علت کے لنے سے جملہ معللہ بن گیا۔
نوٹ:۔ کبھی پہلے جملے کے شروع میں لفظ چونکہ بھی آتا ہے۔ جیسے چونکہ تم موجود تھے اس لئے میں چپ رہا۔

[TODO: Add Chart][/quote]

جملہ تابع۔ ان کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ اسمیہ۔ وصفیہ۔ تمیزیہ
 
256

نوٹ:۔ اس جملہ کو جملہ خاص اور اس کے ماتحت کو جملہ تابع کہتے ہیں۔

جملہ اسمیہ۔ اس کو بیانیہ بھی کہتے ہیں اس میں پہلے جملہ کا تتبع ہوتا ہے اور بیان پایا جاتا ہے۔ اس کے پہلے جملہ کو مبین اور دوسرے کو بیان کہتے ہیں۔ اگر مبین میں نصیحت و پند ہے تو اسے مقولہ کہتے ہیں اور اس پند کو قول کہیں گے جیسے ؎
بولا لشکر کا اک سپاہی جاتی ہے ارم کو فوج شاہی
ترکیب نحوی۔ نثر۔ لشکر کا ایک سپاہی بولا (کہ) فوج شاہی ارم کو جاتی ہے۔ لشکر مضاف الیہ کا علامتِ اضافت۔ ایک عدد۔ سپاہی معدود۔ عدد معدود مل کر مضاف ہوا اور مضاف و مضاف الیہ مل کر فاعل ہوگیا۔ بولا فعل۔ فاعل فعل مل کر جملہ فعلیہ اور مبین ہوا کہ حرف بیان۔ فوج مضاف۔ شاہی مضاف الیہ۔ یہ دونوں مل کر فاعل ہوئے۔ ارم مجرور۔ کو حرف جر۔ جار و مجرور سے متعلق فعل ہوا۔ جاتی ہے فعل۔ فعل فاعل اور متعلق فاعل مل کر جملہ فعیہ ہوا اور بیان کے طور پر چنانچہ مبین اور بیان مل کر جملہ بیانیہ ہوا۔

جملہ وصفیہ۔ اس کو جملہ موصولہ بھی کہتے ہیں۔ اور یہ صلہ اور موصول سے بنتا ہے۔
نوٹ:۔ موصول صفت کا کام دیتا ہے جیسے تم نے جو کتاب بھیجی وہ میں نے پڑھی۔
ترکیب نحوی۔ تم نے فاعل۔ جو اسم موصول۔ کتاب مفعول۔ بھیجی فعل۔ یہ سب مل کر موصول ہوا۔ وہ مفعول۔ میں نے فاعل۔ پڑھی فعل۔ یہ سب مل کر صلہ ہوا۔ اور صلہ و موصولہ سے جملہ موصولہ ہوگیا۔

جملہ تمیزیہ۔ وہ جملہ جو وقت۔ جگہ یا تمیز کو بتاتا ہے۔ اس کی کئی قسمیں ہیں۔

تمیز زمانی۔ اس جملے کے شروع میں جو یا جب آئے اور جو اب میں تو اور تب ہو تو جملہ زمانی مقصود ہوگا۔ جیسے جب تم آؤ گے تو میں جاؤں گا۔
 
آخری تدوین:
257

نوٹ:۔ کبھی تمیز زمانی محذوف بھی ہوتی ہے۔ جیسے تم آؤ گے میں جاؤں گا۔

تمیز مکانی۔ اس جملے کے شروع میں جہاں یا جدھر اور جواب میں وہاں اور ادھر ہوتا ہے۔ جیسے جہاں تم ہو وہاں ہم ہیں۔ جدھر وہ آئے تھے ادھر سب تھے وغیرہ۔
نوٹ:۔ کبھی جواب کے اسما محذوف بھی ہوتے ہیں۔ جیسے جہاں چاہو بیٹھو وغیرہ۔

تمیزطَورِیّہ۔ وہ جملہ جو طور و طریقہ ظاہر کرے۔ اس کے شروع میں جوں ہی جس کو جو نہیں لکھا نہیں چاہیے یا جیسی آتا ہے اور جواب میں کہ۔ جو۔ ویسے۔ ویسے ہی آتا ہے۔
جیسے جوں ہی میں پہنچا ویسے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
نوٹ:۔ کبھی جوں جوں۔ جیسے جیسے بھی آتا ہے جیسے۔ ء
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
مگر اب فصحا جوں جوں نہیں لکھتے۔

[TODO: Add Chart][/quote]

دیگر اقسام جملہ۔ صفات کے لحاظ سے جملہ کی قسمیں مفصلۂ ذیل ہیں۔
مستانفہ۔ معترضہ۔ دعائیہ۔ قسمیہ۔ ندائیہ۔ منتخبیہ۔ تفسیریہ۔ تشبیہہ۔ تمثیلہ۔ مندوبہ۔ حصریہ۔ وغیرہ۔

مُستَانِفَہ۔ (ء) استیناف کے معنی جدا ہونے کے ہیں۔ چونکہ جملہ مستانفہ پہلے جملہ سے جدا ہوتا ہے اس لئے اس کو مستانفہ کہا گیا۔ اس کو جملہ ابتدائیہ بھی کہتے ہیں۔ یہ ابتدائے کلام میں واقع ہوتا ہے یا جملہ سابقہ سے ربط
 
آخری تدوین:
258

رکھنا ہے۔ مگر لفظاً اس کو تعلق نہ ہو جیسے ؎
پھل کچھ اے نخل وفا تجھ میں نہیں جو لگائے گا تجھے پچھتائے گا
یہاں دوسرا جملہ مستانفہ ہے۔

معترضہ۔ (ء) یہ جملہ درمیان کلام میں واقع ہوتا ہے اور اس کو نکال دینے سے کلام میں کوئی نقص نہیں آتا۔ مثال؎
کہتے ہیں آج ذوق جہاں سے گزر گیا حق مغفرت کرے عجب آزا مرد تھا
یہاں حق مغفرت کرے جملہ معترضہ تھا۔

دُعَائِیّہ۔ اس جملہ میں دعا پائی جاتی ہے جیسے خدا تمھاری عمر میں برکت دے۔

قَسْمِیّہ۔ وہ جملہ جو قسم اور جواب قسم سے مرکب ہو جیسے قسم خدا کی تم بڑے نیک ہو۔
نوٹ:۔ کبھی قسمیہ پورا جملہ بھی ہوتا ہے، مگر جواب قسم کے شروع میں کہ یعنی کہ جوابیہ آتا ہے جیسے اس نے قسم کھائی ہے کہ اب نہیں آؤں گا۔

نِدائیّہ۔ وہ جملہ جو ندا اور جواب ندا سے مرکب ہو جیسے اے خدا میری حالت پر رحم کر۔

مُنْتَخبیّہ۔ وہ جملہ جو کلام سابق سے پیدا ہو جیسے ہر بات کرنے والا انسان ہے اور انسان جاندار ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ ہر بات کرنے والا جاندار ہے۔

تَفْسِیرِیّہ۔ وہ جملہ جس میں دوسرا جملہ پہلے کا بیان ہو جیسے مومن؎
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

تشبیہیہ۔ جس جملہ میں کوئی تشبیہ پائی جائے۔ جیسے وہ کیا ہنسے پھول برسنے لگے۔

تَمْثِیْلیّہ۔ یہ پہلے جملے کی تمثیل ہوتا ہے جیسے؎
دیکھ اللہ ہے چھوٹوں کو بڑائی دیتا آسماں آنکھ کے تل میں ہے دکھائی دیتا

مندوبہ۔ یہ جملہ ندا اور مندوب سے مرکب ہوتا ہے جیسے ؎
ہے ہے مرا پھول لے گیا کون ہے ہے مجھے داغ دے گیا کون
 
آخری تدوین:
259

حَصرِیّہ۔ اس کو تخصیصیہ بھی کہتے ہیں اس سے ھصر یا تخصیص مراد ہوتی ہے جیسے اور تو سب باتیں کہہ دیں یہاں اور کلمہ حصر ہے۔
اک دل باقی رہ گیا ہے یہاں اک کلمہ تخصیص ہے

[TODO: Add Chart][/quote]

اقسام حرف فارسی۔ چونکہ اردو میں فارسی حروف بھی مستعمل ہیں اس لئے ان کا ذکر بھی ضروری ہے اور وہ حسبِ ذیل ہیں۔

ظَرْفِیّت۔ ان کو حروف جر بھی کہتے ہیں اور ان کے بعد جو اسما آتے ہیں وہ مجرور کہلاتے ہیں وہ حروف یہ ہیں۔ در۔ بر۔ از۔ ب۔ با۔ برائے۔ اندر وغیرہ۔
ان کی مثالیں حسب ذیل ہیں۔
جیسے دربابِ عشق۔ برسرمحفل۔ از لکھنؤ۔ بامید خاص۔ بادلِ نخواستہ۔ برائے علاج۔ اندر محفل سخن وغیرہ۔
نوٹ:۔ اردو میں حرف جر بعدکو اور مجرور پہلے آتا ہے جیسے گھر میں دیکھو وغیرہ۔

ندا۔ فارسی میں اے۔ یا۔ ایا حروف ندا ہیں۔

استثنا۔ فارسی میں یہ حروف مستعمل ہیں۔ الا۔ غیراز۔ جز۔ سوائے۔ ماورا۔ ماسوا۔ وغیرہ۔

تشبیہہ۔ حسب ذیل حروف مستعمل ہیں۔ چوں۔ مثل۔ مانند۔ ہمچو۔ چو۔ ہمچوں۔ گویا۔ وغیرہ۔

عطف۔ فارسی میں اس کے استعمال کے چار طریقے ہیں۔
(الف)عطف محض۔ جیسے دل و جان میں واؤ۔ پس۔ نیز۔ دیگر وغیرہ۔
(ب)استدراک جیسے لیک۔ لیکن۔ ولاکن۔ اتا وغیرہ۔
(ج)اضراب۔ جیسے بل۔ بلکہ وغیرہ۔
 
آخری تدوین:
260

(د)تردید جیسے خواہ۔ یا وغیرہ۔

زیادت۔ شروع کلمہ میں برفرا۔ فرو۔ وا۔ در اور آخر کلمہ میں ار۔ ان۔ گاہ۔ گان اور ین وغیرہ ڑھادیتے ہیں۔ جیسےشروع میں شد سے واشد یا بہار سے بہاراں۔

رنگ۔ کلمہ کے آخر میں نام۔ دام۔ گون۔ وغیرہ بڑھادیتے ہیں۔ جیسے سیاہ فام۔ نیلگوں ئوغیرہ۔

حفاظت۔ کلمہ کے آخر میں بان۔ دار۔ دان وغیرہ بڑھادیتے ہیں۔ جیسے دربان وغیرہ۔

لیاقت۔ کلمہ کے آخر میں دا رہ۔ دار۔ آنہ۔ گان۔ اور یائے معروف بڑھادیتے ہیں۔ جیسے گوشوارہ یعنی لائق گوش۔ شاہوار(لائق شاہ)شاہانہ (لائق شاہ) شاہگاں اکثر لوگ اس کو جمع تصور کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ جمع کا صیغہ نہیں ہے یہاں گاں حرفِ لیاقت ہے کشتنی یعنی مار ڈالنے کے لائق۔

نسبت۔ فارسی میں حسبِ ذیل کلمات ہیں۔ یائے معروف۔ آنہ۔ زہ۔ ہ۔ ین۔ پتہ۔ او۔ وند۔ ن۔ ک۔ ش۔ اک۔ دن۔ یوں۔ آب وغیرہ مثلاً عربی۔ مستانہ۔ پاکیزہ۔ دستہ۔ نمکین۔ روزینہ۔ آباد۔ خداوند۔ درزن۔ کودک۔ گلشن۔ چالاک۔ گردوں۔ ہمایوں۔ آفتاب وغیرہ۔

شرط۔ حسبِ ذیل حروف ہیں۔ اگر۔ گر۔ ار۔ چو۔ چوں۔ در وغیرہ۔

استفہام۔ یہ حروف ہیں۔ کہ۔ چہ۔ کدام۔ آیا۔ کو۔ کجا۔ چوں۔ چگون۔ چسپاں۔ چرا۔ چند۔ مگر وغیرہ۔

شک و ظن۔ مثل مگر۔ آیا۔ شاید۔ بود۔ بود وغیرہ۔

مدح و ذم۔ یعنی خوش۔ خوشا۔ زہ۔ زہے۔ حبذا۔ مرحبا۔ ۔۔۔ نیک۔ زیبا۔ دل پسند۔ شیریں۔ شاباش۔ وغیرہ۔
 
آخری تدوین:

عائشہ عزیز

لائبریرین
271

زیادہ محظوظ و متاثر ہو مگر وہ علت اس کی نہ ہو جیسے۔
برابری کا تری گل نے جب خیال کیا
صبا نے مار طماچوں منہ اسکا لال کیا
گلاب کا پھول عموماََ سرخ ہوتا ہے جس اصلی وجہ شاعر نے بیان نہیں کی مگر اپنے خیال سے ایک نئی علت پیدا کر دی ۔
نوٹ:- حسن کے معنی اچھے اور تعلیل کے معنی بہانے کے ہیں۔
صَنعتِ مِدح بصورت ذَم۔ اس انداز میں تعریف کی جائے کہ بیک نظر ذم تصور ہو مگر غور و فکر سے مدح کی تاکید ثابت ہو اس کو تاکید المدح بمایشبہ الذم بھی کہتے ہیں۔ جیسے؎
نہین ہے مجھ میں برائی کچھ اور اس کے سوا
کہ میں برا ہوں رقیبوں کی چشمءبیں میں
یہاں سوا کے محل استعمال سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر نے اپنی برائی کی نفی ہے مگر دوسرے مصرعہ میں رقیبوں کے لانے سے عین مدح ثابت ہوتی ہے کہ صرف رقیبوں کی نظر میں برا ہوں اور یہ برائی برائی نہیں کیونکہ دشمن کبھی میری اچھائی کو بھی اچھائی نہیں کہے گا۔
صَنعت ذَم بصورت مَدح۔ یہ مذکورہ بالا صنعت کے برعکس ہے اس کو صنعت تاکید الذم بمایشبہ المدح بھی کہتے ہیں۔ جیسے؎
جیسے کچھ بھی تمہیں نہیں معلوم
کتنے بھولے ہو کسقدر معصوم
صَنْعتِ استتباع۔ (ء) بروزن استعداد۔ بمعنی منھ پیچھے کرنے کی خواہش کرنا۔ یعنی کسی کی مدح اس طرح کی جائے کہ ایک مدح اور ہو جیسے؎
آتش قہر سے ہو جائے جہاں خاک سیاہ
موجزن گر نہ رہے، مہر کا دریا تیرے
یہاں قہر اور مہر دونوں حقیقتیں پائی جاتی ہیں۔
صَنعتِ اِوْئاج۔ (ء) بروزن ارشاد بمعنی بات میں بات نکالنا۔ کلام میں کوئی ایسا ذو معنی لفظ لائیں کہ بیک وقت دو معنی مراد ہوں جیسے؎
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
272

سنی کسی نے نہیں غم کی داستاں میری
وہ کم سخن ہوں کہ گویا نہیں زباں میری
یہاں لفظ گویا کے دو معنی برآمد ہوتے ہیں۔ بولنے والا اور کلمہ تشبیہہ۔
صَنعتِ تَوجِیہہ۔ اس کو متحمل الضدین بھی کہتے ہیں۔ کلام سے مدح اور ذم یعنی دو ایسے مطلب نکلتے ہوں جو ایک دوسرے کی ضد ہوں جیسے۔ ع
ایک قطرہ ہے سمند ترے منہ کے آگے
اس کے دو معنی نکلے۔ (1) تیرے منہ کے سامنے سمندر کی حقیقت ایک قطرہ کے برابر ہے۔ یعنی ترا منہ بہت کشادہ ہے۔
(2) ترے منہ کے سامنے ایک قطرہ سمندر کی حیثیت رکھتا ہے۔ گویا ترا منہ نہایت تنگ ہے۔
صَنعت تَجاہُل عَارِفْ۔ کسی معلوم حقیقت کو اس انداز سے بیان کریں کہ ناواقفیت ظاہر ہو جیسے؎
ہے زلف یا دھواں ہے، یہ شمع جمال کا
اعجاز حسن و ناز سے اونچا نہ ہو سکا
صَنعتِ قول بالموجُبْ۔ کسی کلام کو قائل کی مراد کے خلاف گمان کرنا جیسے میر درد؎
لوگ مرنیکو بھی کہتے ہیں وصال
یہ اگر سچ ہے تو مر جاتے ہیں
وصال موت کو بھی کہتے ہیں۔ اور دوست سے ملاقات کو بھی۔ شاعر نے ملاقات ہی کے معنی میں نظم کیا ہے۔
صَنعتِ تَعَجُّبَ۔ کلام میں حیرت۔ اچنبا اور تعجب ظاہر ہو جیسے علامی فوق سبزواری بدایونی۔
ادعائے بے نیازی اور پھر اس شان سے
طور پر بجلی گری جو غیر جانبدار تھا
صَنعتِ اعتراض۔ اس کو حشو بھی کہتے ہیں۔ یعنی کلام میں ایسا لفظ لائیں کہ اگر اس کو نکال دیا جائے تو بھی معنی نکلتے ہوں۔ اس کی تین قسمیں ہیں۔
ملیح۔ متوسط۔ قبیح
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
273

حشو مَلیح۔ اگر کوئی زائد لفظ زینت کلام کے لیے لایا جائے تو اس کو ملیح کہیں گے۔ جیسے غالب؂
جو عقدہ دشوار کہ کوشش سے نہ وا ہو
تو وا کرے اس عقدہ کو سو بھی باشارت
یہاں "سو بھی باشارت" برائے زینت کلام ہے۔
حَشو مُتَوسِّطْ۔ یہ وہ زائد لفظ ہوتا ہے کہ اس کے رکھنے سے زینت کلام ہو اور نہ خلاف فصاحت کوئی بات پیدا ہو۔ اسی نہ رکھنے میں کوئی امر مانع یا مخل نہ ہو جیسے؎
تو ہے بحر بیکراں میں تشنہ و تفسیدہ لب
اے جہاں جود و ہمت پیاس کو میری بجھا
یہاں لفظ "ہمت" حشو متوسط ہے۔
حَشو قَبیْح۔ اس زائد لفظ کو کہتے ہیں جو مخل فصاحت ہو جیسے؎
روئے آنسو اسقدر ہم ہجر میں
اشک کے طوفاں سے دریا بہہ گیا
مصرعہ اول میں آنسو کا لفظ مخل فصاحت ہے کیونکہ یہاں رونا ہی کافی ہے۔
صنعتِ تَلمِیح۔ کلام میں کسی مشہور واقعہ۔ قصہ۔ آیت۔ حدیث یا مضمون کی جانب اشارہ ہو جیسے؎
سچ ہے پرائی آگ میں پڑتا نہیں کوئی
ہمراہ کوہ طور کے موسیٰ نہ جل گئے
صَنعتِ سَیاقَۃُ الاَعْدَادْ۔ کلام میں عددوں کا ترتیب یا بغیر ترتیب ذکر کرنا جیسے امانت؎
ایک ہفتہ میں بنیں نرگس بیمار آنکھیں
کوئی دو تین دن انسے جو کرے چار آنکھیں
صَنْعتِ تَنسِیْقُ الْصِفَاتْ۔ ایک موصوف کی کئی صفتیں بیان کرنا جیسے؎
اے خالق کل دین بھی ایمان بھی تو ہے
ستار بھی غفار بھی رحمٰن بھی تو ہے
صَنْعَتِ سُوَال و جَوَاب۔ اس کو مراجعہ بھی کہتے ہیں۔ وہ صفت جس میں پہلے سوال اور بعد کو اس کا جواب بھی موجود ہو جیسے؎
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
274

میں نے کہا کہ بزم ناز غیر سے چاہے تہی
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ "یوں"
صنعت حسن الطلب۔ کسی شے کا اچھے انداز میں طلب کرنا جیسے؎
آپ کا بندہ اور پھرے ننگا
آپ کا نوکر اور کھائے ادھار
صنعت تَلمِیح ذو السانین۔ یہ وہ صنعت ہے کہ شعر میں ایک مصرعہ ایک زبان میں اور دوسرا مصرعہ دوسری زبان میں ہو جیسے؎
چو شمع سوزاں چو ذرہ حیراں زمہر آں مہ بگشتم آخر
نہ نیند نینا نہ انگ چیناں نہ آپ آویں نہ سمجھیں بتیاں
صنعت ترجمہ اللفظ۔ کلام میں ایسا لفظ لایا جائے جس کے معنی بھی موجود ہوں جیسے؎
جھکا بلبل نے گل کی شاخ ڈالی
بجا ہے باغباں کو گوشمالی
یہاں شاخ اور ڈالی ایک دوسرے کا ترجمہ ہیں۔
صنعت اِدعا۔ یہ وہ صنعت ہوتی ہے جس میں شاعر کسی امر ممکن و خلاف قیاس کا دعویٰ کرے اور سامع کو وہ دعویٰ صحیح معلوم ہو جیسے؎
ایک دن وہ لے کے کچھ لوگوں کو ساتھ
قبریں یہ کہہ کہہ کے دکھلاتے رہے
اس میں دارا اور اس میں کوہ کن
عاشقان ناز تھے جاتے رہے
بعدہ پھر آ کے میری قبر پر
دیر تک افسوس فرماتے رہے
پوچھا لوگوں نے یہ کسکا ہے مزار
بے وجہ کیوں آپ غم کھاتے رہے
رو کے بولے اک سخی کا ہے مزار
جان دیدی لاکھ سمجھاتے رہے
صنعتِ اشتقاق۔ ایک مادہ یا ایک مصدر کے چند الفاظ مصرع یا شعر میں واقع ہوں جیسے؎
تا صاف کرے منہ نہ مئے صاف سے صوفی
کچھ سود و صفا علم تصوف نہیں کرتا۔
 

ابن رضا

لائبریرین
558

رکھنا ہے۔ مگر لفظاً اس کو تعلق نہ ہو جیسے ؎
پھل کچھ اے نخل وفا تجھ میں نہیں جو لگائے گا تجھے پچھتائے گا
یہاں دوسرا جملہ مستانفہ ہے۔

معترضہ۔ (ء) یہ جملہ درمیان کلام میں واقع ہوتا ہے اور اس کو نکال دینے سے کلام میں کوئی نقص نہیں آتا۔ مثال؎
کہتے ہیں آج ذوق جہاں سے گزر گیا حق مغفرت کرے عجب آزا مرد تھا
یہاں حق مغفرت کرے جملہ معترضہ تھا۔

دُعَائِیّہ۔ اس جملہ میں دعا پائی جاتی ہے جیسے خدا تمھاری عمر میں برکت دے۔

قَسْمِیّہ۔ وہ جملہ جو قسم اور جواب قسم سے مرکب ہو جیسے قسم خدا کی تم بڑے نیک ہو۔
نوٹ:۔ کبھی قسمیہ پورا جملہ بھی ہوتا ہے، مگر جواب قسم کے شروع میں کہ یعنی کہ جوابیہ آتا ہے جیسے اس نے قسم کھائی ہے کہ اب نہیں آؤں گا۔

نِدائیّہ۔ وہ جملہ جو ندا اور جواب ندا سے مرکب ہو جیسے اے خدا میری حالت پر رحم کر۔

مُنْتَخبیّہ۔ وہ جملہ جو کلام سابق سے پیدا ہو جیسے ہر بات کرنے والا انسان ہے اور انسان جاندار ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ ہر بات کرنے والا جاندار ہے۔

تَفْسِیرِیّہ۔ وہ جملہ جس میں دوسرا جملہ پہلے کا بیان ہو جیسے مومن؎
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

تشبیہیہ۔ جس جملہ میں کوئی تشبیہ پائی جائے۔ جیسے وہ کیا ہنسے پھول برسنے لگے۔

تَمْثِیْلیّہ۔ یہ پہلے جملے کی تمثیل ہوتا ہے جیسے؎
دیکھ اللہ ہے چھوٹوں کو بڑائی دیتا آسماں آنکھ کے تل میں ہے دکھائی دیتا

مندوبہ۔ یہ جملہ ندا اور مندوب سے مرکب ہوتا ہے جیسے ؎
ہے ہے مرا پھول لے گیا کون ہے ہے مجھے داغ دے گیا کون
اسامہ بھائی صفحات نمبر غلط لکھ دئیے ہیں آپ نے پانچ سو تک تو نوبت ہی نہیں آتی اس کتاب میں
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
275

[TODO: Add Chart]

نوٹ:- کل معنوی صنعتیں اڑتیس ہوتی ہیں۔ اور بارہ مزید اقسام ہوئیں۔اس طرح سب مل کے پچاس ہوئیں جو کم و بیش اردو میں مستعمل ہیں۔
صَنعتِ تَجنِیْس۔ کلام میں وہ دو لفظ جو تلفظ میں مشابہ ہوں مگر معنی دونوں کے مختلف ہوں جیسے؎
ہے لاکھ لاکھ شکر خدائے جلیل کا
جس نے در سخن سے بھرا منہ جلیل کا
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
276

یہاں جلیل ہر دو جگہ مختلف معنی میں مستعمل ہے۔ پہلا اسم صفت دوسری جگہ تخلص۔ اس کی کئی قسمیں ہیں۔
تَجنِیْس تَام۔ مذکورہ بالا توجیہہ دیکھو۔ واضح ہو کہ ہر دو لفظ ایک نوع یعنی اسم یا دونوں فعل ہوں یا حرف ہوں تو تجنیس تام مماثل ہوگی جیسے؎
آہنگ نہ تھا یہانتک آنیکا ولے
سنکر آہنگ ساز محفل آئے
لیکن جب دونوں لفظ مختلف ہوں یعنی ایک اسم دوسرا فعل تو اس کو تجنیس مستوفی کہتے ہیں۔
آبداری سے جو محلو نظر آیا وہ گلا
رشک کی برف سے کیا جسم صراحی سے گلا
یہاں پہلے مصرعہ میں گلا اسم ہے دوسرے مصرعہ میں فعل۔
نوٹ۔ لغت میں تجنیس یکساں کرنا۔ تام کے معنی پورا۔ کامل۔ مماثل کے معنی مشابہ ہونے والا، اور مستوفی کے معنی سب کو پکڑنے والا ہیں۔
صنعت تجنیس مرکب۔ یہ وہ صنعت ہے کہ ہر دو الفاظ متجانس میں سے ایک مفرد ہو دوسرا مرکب۔ اس کی بھی دو قسمیں ہیں۔ اگر ہر دو لفظ کتابت میں مختلف ہوں تو اس کو مفروق کہیں گے۔ اور اگر موافق ہوں گے تو مرکب متشابہ کہیں گے۔ ہر دو مثالیں اس رباعی سے ظاہر ہوتی ہیں؎
تجھ کو نہ کبھی دیکھ مجھے ترس آیا
بھر عمر نظارے کے لیے ترسایا
تقصیر سوائے عشق کیا مجھ سے ہوئی
ڈر کچھ تو خدا سے کافرا ترسایا
پہلے اور دوسرے مصرعوں میں ترس آیا اور ترسایا کتابت میں مختلف ہیں۔ اس لیے مرکب مفروق تجنیس ہوئی۔ اس کے خلاف دوسرے اور چوتھے مصرعہ میں ترسایا سے تجنیس مرکب متشابہ بنے گی۔ دوسرے مصرعہ میں ترسایا مفرد ہے۔ چوتھے مصرعہ میں مرکب یعنی ترسا میں بصورت ندا الف زائد
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
277

کرنے سے پہلے ی کا اضافہ کر لیا جاتا ہے۔ ترسا بمعنی عیسائی۔ نصاری قوم کا عابد۔
تجنیس مَرفُو۔ اگر ایک لفظ کسی دوسرے لفظ کے جزو سے مل کر کسی اور حرف کا ہم جنس ہو جائے تو اس کو مرفو کہتے ہیں۔ مرفو مشتق ہے رفا یا رفو سے۔ جس کے معنی کپڑے کی پھٹن کو درست کرنے کے ہیں؎
سینہ وہ سینہ کہ دیکھے تو تڑپ جائے بشر
ایسے سینے نہیں دیکھے ہیں کسی نے سن بھر
دوسرے مصرعے میں کسی اور نے سے مل کر سینے کی آواز نکلتی ہے۔
تجنیس مُحّرِف۔ دو لفظ نوع۔ تعداد۔ ترتیب حروف میں تو یکساں ہوں۔ مگر دونوں کی حرکات مختلف ہوں۔ جیسے؎
ہوتی ہے جمع زر سے پریشانی آخرش
درہم کی شکل صورت درہم سے کم نہیں
تجنیس ناقص و زائد۔ اگر دونوں لفظوں کی تعداد حروف میں اختلاف ہو تو اس کو تجینس ناقص و زائد کہتےہیں۔ زائد حروف تین صورتوں میں واقع ہوتے ہیں۔ شروع میں جیسے شکوہ و کوہ درمیان میں جیسے قیامت و قامت۔ آخر میں جیسے بادہ اور باد۔ آئین و آئینہ وغیرہ۔
تجنیس مُطَرَّفْ۔ اگر آخر میں ایک حرف زائد ہو جیسے باد و بادہ ۔
تجنیس مذیل۔ آخر میں دو حرف زائد ہوں۔ جیسے غم و غمیس۔
نوٹ:- مذیل تجنیس، مطرف کی ایک قسم ہے۔ مطرف کےمعنی وہ گھوڑا جس کا سرا در دم دیگر اعضا کے مخالف ہو۔ مذیل کے معنی لانبے دامن کی چادر کے ہیں۔
تجنیس مُضَارِع۔ دونوں حروف کے الفاظ میں اختلاف ہو لیکن اگر وہ حروف مختلف قریب المخارج
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
278

ہیں تو انکو تجنیس مضارع کہیں گے۔ یہ بھی تین طریقوں پرہوتی ہے۔ شروع میں اقارب و عقارب۔ وسط میں بحر و بہر۔ آخر میں شارع و شارح وغیرہ۔
نوٹ:- مضارع بمعنی شریک۔ شبیہ۔ ہم مثل ہونے والا۔
تَجنیس جَنَاس لَا حَق۔ یہ مضارع کی ایک قسم ہے لیکن یہاں حروف مختلف بعد المخارج ہونے ہیں۔ اس کی بھی تین صورتیں ہیں۔ شروع میں جیسے تنگ و جنگ وسط میں جیسے دست و دشت۔ آخر میں دام و داد وغیرہ۔
تجنیس قَلَب۔ ہر دو الفاظ کی ترتیب حروف مختلف ہو۔ جیسے رفیق و فریق۔ کان و ناک وغیرہ۔ اس کی تین قسمیں ہیں۔ مقلوب۔ قلب کل۔ قلب مستوفی۔
تجنیس مقلوب۔ حروف کی ترتیب مختلف ہوتی ہے جیسے فریق و رفیق میں۔
تجنیس قلب کل۔ حروف کی ترتیب آخر سے شروع ہوتی ہے جیسے کان و ناک۔
تجنیس قلب مستوفی۔ حروف کی ترتیب بدلنے پر بھی وہی لفظ باقی رہے جیسے درد۔ قلق وغیرہ۔
تجنیس خطی۔ وہ لفظ جو کتابت میں ہمشکل ہوں مگر تلفظ میں مختلف ہوں جیسے شک و سگ۔ کمان۔ گمان وغیرہ۔
تجنیس مجنح۔ اگر'تجنیس قلب کل'کے الفاظ میں سے ایک لفظ مصرعہ یا بیت کے شروع میں واقع ہو اور دوسرا آخر میں تو اس کو مجنح مشتق ہے جناح سے جس کے معنی بازو کے ہیں۔ اور مجنح کے معنی بازو رکھنے والے کے آتے ہیں۔ مثال؎
رام ہوتا نہیں فسوں سے بھی
ہے وہ کافر تمہاری زلف کا مار
یہاں رام اور مار میں صنعت واقع ہوتی ہے۔
مجنس مزدَوج۔ مزدوج کے معنی ہم قریں اور دوست کے ہیں۔ اس کو مجنس مکرر
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
279

بھی کہتے ہیں ۔ قلب کل کے الفاظ ایک دوسرے کے پاس پاس واقع ہوتے ہیں۔ جیسے؎
بات کی تاب کوئی لا نہ سکا
حال میرا کوئی سنا نہ سکا
یہاں بات اور تاب میں صنعت موجود ہے۔
صنعت رو الْعَجز علی الصَدر۔ جو لفظ عجز یعنی ضرب میں واقع ہو وہی لفظ صدر۔ ابتدا۔ عروض یا حشو میں واقع ہو۔ مذکورہ بالا ہر اک قسم چار چار قسم پر ہے کیونکہ لفظ کا واقع ہونا چار حالتوں سے خالی نہیں۔
(1) یا تو وہی عجز یعنی ضرب کا لفظ ہوگا جیسے؎
آدمی کا مارنا اچھا نہیں
مظہر ذات خدا ہے آدمی
(2) یا اس کے ساتھ جنسیت کا علاقہ رکھتا ہو جیسے؎
مانگ اپنی سنوارتا ہے آج
جس نے کل دل لیا تھا ہم سے مانگ
یہاں مانگ عجز ہے لیکن صدر میں مانگ اس کا مجنس ہے۔
(3) یا اشتقاق کا تعلق رکھتا ہو جیسے؎
قرین صدق ہے ملنا تمہارا غیروں سے
رقیب رکھتے ہیں گھر سے تمہارے گھر مقرون
(4) یا شبہ اشتقاق ہو۔ شبہ اشتقاق اس کو کہتے ہیں کہ بظاہر دونوں لفظوں کے مادہ ایک معلوم ہوں مگر وہ مختلف مادوں سے مشتق ہوں جیسے؎
چشمک سے نہ بھائیوں کو بھائی
یہاں بھائیوں اور بھائی میں شبہ اشتقاق ہے بہر حال مثال نمبر 4 حسب ذیل ہے؎
دیار و ملک سے ہم کو کسی کے ہے کیا کام
ہم اور تیری گلی ۔ سر ہے اور تری دیوار
نوٹ:- اسی طرح ابتدا۔ عروض اور حشو کی بھی چار چار صورتیں ہوتی ہیں۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
280

صنعت مَعَاد۔ پہلے مصرعہ کا آخری لفظ دوسرے مصرعہ کے شروع میں ہو۔ جیسے؎
فرہاد کو شیریں جو بہت آتی یاد
یاد اس کی میں اپنے دل کو رکھتا وہ شاد
نوٹ:- معاد کے معنی جائے غور یا بازگشت کے آتے ہیں۔
صَنعتِ لُزُوم مَالَایَلْزَم۔ قافیہ میں قبل روی کسی دیگر حرف کی تکرار شاعر اپنے اوپرواجب کرے جیسے؎
اب کے یہ سردی پڑی ہر ایک تا راجم گیا
کاسہ چرخ بریں سارے کا سارا جم گیا
واضح ہو کہ یہاں الف حرف روی ہے مگر رائے مہملہ حروف قافیہ میں کوئی حرف نہیں۔ شاعر نے راء مہملہ کے التزام کو ضروری کر لیا ہے۔
نوٹ:- لزوم مالا یلزم کا لفظی ترجمہ ہے لازم کر لینا اس بات کو جو لازم نہیں ہے۔
صَنعت مَنْقُوطہ۔ وہ نثر یا مصرعہ جس کے سب لفظ نقط دار ہوں جیسے ۔ ع
بخشش فیض جشن تخت نشین
صنعت غیر منقوطہ۔ اس میں کوئی لفظ نقطہ کا نہیں ہوتا جیسے؎
اور کس کا آسرا ہو سر گروہ اس راہ کا
آسرا اللہ اور آل رسول اللہ کا
صنعت رِقْطا۔ کلام میں ترتیب کے ساتھ ایک حرف نقط کا ایک حرف بے نقط کا واقع ہو جیسے ع
شہ بلند نسب اب مجھے بھی دیوے
نوٹ:- رقطا کے لغوی معنی رنگ برنگ کی مرغی اور سیاہ و سفیدبکری کے ہیں۔
صَنعتِ خَیفَا۔ کلام میں ایک لفظ نقطہ دار اور دوسرا بغیر نقطہ کا ترتیب کے ساتھ ہو۔ ع
جبین لا مع زینت حصول جشن مرام
نوٹ:- آخیف کا مونث خیفا ہے۔ اس کے معنی وہ گھوڑا جس کی ایک
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
41

رہ گیا۔ اس کو قبوض کہتے ہیں۔ یہ ہزج۔ متقارب اور مضارع میں مستعمل ہے۔
کفْ (ء) بروزن سب۔ بمعنی باز رکھنا۔ باز رہنا۔ اس کی جہت سے سبب خفیف کا ساتواں ساکن حرف گر جاتا ہے۔ جیسے مفاعیلن سے مفاعیل فاعلاتُن سے فاعلاتُ اور فاع لاتن سے فاع لاتُ ہوا۔ یہ ہزج۔ رمل۔ خفیف۔ مجتث اور مضارع میں مستعمل ہے اس کو مکفوف کہتے ہیں۔
حذْف (ء) بروزن شمس۔ بمعنی دور کرنا۔ ا س کی جہت سے رکن کا سبب خفیف گر جاتا ہے جیسے فَعُوْلُنْ سے فَعَلْ۔ مفاعیلن ے فعولن۔ اور فاعلاتن سے فاعلن۔ عروضی اس کو محذوف کہتے ہیں۔ یہ ہمیشہ عروض و ضرب میں واقع ہوتا ہے۔ اور خفیف۔ ہزج۔ رمل۔ مضارع۔ مجتث اور متقارب میں مستعمل ہے۔
قصَرْ (ء) بروزن شمس۔ بمعنی کوتاہ کرنا۔ یہ نقصان حرف اور نقصان حرکت کا مجموعہ ہوتا ہے۔ چونکہ اس کا اثر سبب خفیف کے ہر دو حرف پر پڑتا ہے اس لیے اس کو نقصان جزو میں شامل کرتے ہیں۔ اس کی جہت سے سبب خفیف کا آخری حرف ساکن گر جاتا ہے۔ اور متحرک حرف ساکن شمار ہوتا ہے اس کو مقصور کہتے ہیں۔ یہ بھی عروض و ضرب سے مختص ہے۔ مفاعیلن سے مفاعیل بسکون لام۔ فاعلاتن سے فاعلات بسکون تا۔ فعولن سے فعول بسکون لام۔ مس تفع لن سے مفعولن ہوا۔ یہ مزج۔ رمل۔ متقارب۔ مضارع۔ خفیف۔ مجتث میں مستعمل ہے۔
تسْیَغ (ء) بروزن تردید۔ اسباغ۔ بمعنی تمام کرنا۔ اس کی جہت سے عروض و ضرب کے آخر میں ایک حرف زیادہ کرنے کو کہتے ہیں ۔ یہ بھی سبب خفیف میں آتا ہے۔ جیسے مفاعیلن سے مفاعیلان۔ فعولن سے مفعولان اور
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
42

فاعلاتن سے فاعلیان ہوا۔ یہ ہزج۔ رمل۔ مضارع۔ متقارب۔ مجتث میں مستعمل ہے۔
[TODO: Add Chart]
زحاف سبب (ء) یہ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ اضمار اور عصب لیکن بعض حالات میں تسکین
ثقیل۔ اوسط بھی لاتے ہیں اور یہ ہر رکن میں نہیں آتے۔ اضمار سے مضمر اور عصب سے معصور ہوتا ہے۔
اِضْمَاْر۔ (ء) بروزن ارشاد۔ بمعنی لاغر کرنا۔ یہ تغیر سبب ثقیل میں اس طرح واقع ہوتا ہے کہ حرف دوم متحرک کو ساکن کر لیتے ہیں۔ یہ عام نہیں ہے یعنی ہر رکن میں واقع نہیں ہوتا صرف متفاعلن میں آتا ہے۔ اس کی جہت سے تاساکن ہو کر مُسْتَفْعِلُن ہو جاتا ہے اسکو مضمر کہتے ہیں۔ یہ بحر کامل میں مستعمل ہے۔
عَصْب۔ (ء) بروزن شمس۔ بمعنی خوب لپیٹنا۔ داغ کرنا اور مضبوط باندھنا۔ یہ صرف مَفَاعِلَتُنْ ہو جاتا ہے۔ یہ وافر میں مستعمل ہے۔
تَسْکِیْنِ اَوْسَطْ (ء) بعض حالات میں عروضی سبب ثقیل کے دوسرے متحرک حرف کو ساکن کر لیتے ہیں جیسے فَعْلُنْ کا فَعْلُن بسکون عین۔ یا فعلاتن کا مفعولن جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
43

وقَصْ (ء) بروزن شمس۔ بمعنی گردن توڑنا۔ اس کی جہت سے متفاعلن کی تاگر جاتی ہے اور مفاعلن ہو جات ہے۔ اس کو موقوص کہتے ہیں۔ یہ کامل میں مستعمل ہے
[TODO: Add Chart]
نوٹ:- تسکین اوسط کوئی زحاف نہیں۔ اس لیے شجرہ میں ظاہر نہیں کیا ہے۔عروضی اس چیز سے استفادہ کرتے ہیں۔ موجودہ صورت میں حسب ذیل زحافات سبب میں واقع ہوتے ہیں۔ حبن۔ طے۔ قبض۔ کف۔ حذف۔ قصر۔ تسیغ۔ اضمار۔ عصب۔ وقص۔
زِحافِ وتد (ء) یہ تغیر اس سہ حرفی لفظ میں واقع ہوتا ہے جس کے دو شروع کے مجموع حرف متحرک ہوتے ہیں۔ اور یہ نقصان حرف۔ نقصان جزو۔ تصرف بزیادت اور زیادت جزو سے متعلق ہے۔ نقصان حرف دو قسم کا ہوتا ہے۔ پہلا اسقاط حرف اول۔ اور دوسرا اسقاط حرف اوسط۔ اسقاط حرف اول کو حرم۔ ثلم اور عصب کہتے ہیں۔ اسقاط حرف اوسط کو تشعیث کہتے ہیں۔اور نقصان جزو کو حذذ اور قطع کہتے ہیں۔ محقق نے قطع کو اسقاط حرف آخر میں لکھا ہے۔ مگر میرے نزدیک قطع کی جہت میں ثلث جز پر اثر پڑتا ہے اس لیے میں نے اس کو نقصان جزو میں شمار کیا ہے۔
خرْم (ء) بروزشرم ۔ بمعنی ناک کا پردہ پھاڑنا۔ یہ زحاف صرف مفاعیلن میں آتا ہے۔ اور اس کی وجہ سے مفاعیلن کی میم گر کر فعولن ہو جاتاہے۔
 
Top