فکر و فن ( ٹائپنگ جاری۔۔)

عائشہ عزیز

لائبریرین
44

اس کو اخرم کہتے ہیں۔یہ متقارب۔ہزج اور مضارع میں مستعمل ہے۔ بعض عروضی اس کو صدر سے مختص بتاتے ہیں۔ مگر افقش نے اس کو ہر جگہ تحریر کیا ہے اور یہ زحاف موخور اور سالم کے ساتھ بھی آتا ہے۔
ثلمْ (ء) بروزن شرم۔ بمعنی زخنہ کرنا۔ کنارہ توڑنا۔ یہ فعولن میں آتا ہے اور اس کی جہت سے ف گر کر عولن بروزن فعلن بسکون عین حاصل ہوتا ہے۔ اس کو اثلم کہتے ہیں۔ یہ ہزج۔ متقارب اور مضارع میں مستعمل ہے۔
عضْب (ء) بروزن شرم۔ بمعنی بکری کے سینگ کا توڑنا۔ یہ مَفَاعِلَتُن سے مختص ہے۔ اسی وجہ سے میم گر جاتی ہے۔ اور اس کی جگہ مفتعلن ہو جاتا ہے اس کو اعضب کہتے ہیں اور یہ متقارب۔ ہزج۔ اور مضارع میں مستعمل ہے۔
تشعیث (ء) بروزن تردید۔ بمعنی پراگندہ کرنا۔ وتد کے پہلے دو متحرک حرفوں میں سے ایک کو گرا دینا جیسے فاعلاتن سے فالاتن یا فاعاتن بروزن فعولن ہو جائے ۔ اس کو مشعت کہتے ہیں۔ یہ متقارب۔ ہزج۔ مضارع میں مستعمل ہے۔
قطع (ء) بروزن شمس۔ بمعنی کاٹنا۔ عروضی اس کو آخری رکن یعنی عروض و ضرب سے مختص بتاتے ہیں۔ لیکن میں اس سے متفق نہیں۔ اس کی جہت سے وتد مجموع کا ساکن حرف جو رکن کے آخر میں ہو گر جاتا ہے۔ اور ما قبل متحرک حرف ساکن ہو جاتا ہے جیسے متفعلن سے مفعولن۔ فاعلن سے فعلن بسکون عین۔ متفاعلن سے فعلاتن۔ عروضی فاعلاتن میں بھی قطع لاتے ہیں۔ مگر بغیر حذف کئے قطع نہیں آ سکتا۔ اس لیے اس کو مقطوع کہنا خاص صورت میں جائز ہے۔ ورنہ یہ زحاف محذوف مقطوع ہوتا ہے۔ فاعلاتن محذوف ہو کر فاعلن رہا۔ اور فاعلن کا نون گر کر لام ساکن ہوا۔ عروضی اس کی جگہ فعلن بسکون تحریر کرتے ہیں۔ یہ رجز۔ کامل۔ رمل۔ متدارک۔ سریع
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
45

خفیف۔ اور مجتث میں مستعمل ہے۔
حذَدْ (ء) بروزن نظر۔ بمعنی کوتاہی و سبکی۔ دم شتر۔ اس کی جہت سے وتد مجموع گر جاتا ہے۔ جیسے مستفعلن سے فعلن بسکون عین۔ متفاعلن سے فعلن بحرکت عین۔ فاعلن سے فع۔ اس کو احذ کہتے ہیں۔ یہ کامل ۔ رجز۔ اور متدارک میں مستعمل ہے۔
اِذَالہ۔ (ء) بروزن قبالہ۔ بمعنی دامن بڑھانا۔ یہ اذالت سے ہے۔ اس کی جہت سے عروض و ضرب میں ایک حرف کی زیادتی ہوتی ہے اور یہ وتد مجموع میں واقع ہوتا ہے۔ اس کو مذال کہتے ہیں۔ جیسے مستفعلان۔ مستفعلن سے۔ فاعلان۔ فاعلن سے متفاعلان۔۔۔۔۔۔ یہ رجز متدارک۔ کامل۔ سریع۔ منسرح میں مستعمل ہے۔
تَرْفِیل (ء) بروزن تردید۔ بمعنی دامن بڑھانا۔ اس کی جہت سے وتد مجموع کے بعد سبب خفیف بڑھ جاتا ہے۔ جیسے متفاعلن سے متفاعلاتن اور مستفعلن سے مستفعلاتن اردو فارسی میں یہ زحاف مستعمل نہیں۔ اس کو مرفل کہتے ہیں۔
[TODO: Add Chart]
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
46

زحاف وتد مفروق (ء) اس میں زحاف دو طرح پر واقع ہوتے ہیں۔ نقصان حرکت۔ نقصان جزو۔ اور بھی تین زحاف آتے ہیں۔ وقف۔ کسف یا کشف۔ اور صلم۔ یہاں سبب متوسط سے میری مراد ہے۔
وَقْف (ء) بروزن شمس۔ بمعنی ایستادن۔ یہ مفعولات سے مختص ہے۔ اس کی جہت تا متحرک ساکن ہو جاتی ہے۔ مگر عروضی فرق کی وجہ سے مفعولات کی جگہ مفعولان تحریر کرتے ہیں۔ اس کا نام موقوف ہے۔ یہ سریع اور منسرح میں مستعمل ہے۔
کَسْف (ء) بروزن شمس۔ عروضی اس کو کشف بھی کہتے ہیں۔ کسف بمعنی بریدن اور کشف بمعنی برہنہ کرنا۔ یہ بھی مفعولات میں آتا ہے اور اس کی جہت سے ساقط بمعنی برہنہ کرنا۔ یہ بھی مفعولات میں آتا ہے اور اس کی جہت سے تا ساقط ہو جاتی ہے۔ اور مفعولا بروزن فعولن ہو جاتا ہے۔ اس کو مکسوف یا مکشوف کہتے ہیں۔ یہ سریع اور منسرح میں مستعمل ہے۔
صلم (ء) بروزن شمس۔ بمعنی گوش از بن بریدن۔ اس کی جہت سے مفعولات کا وتد گر جاتا ہے اور فعو بروزن فعلن بسکون عین حاصل ہوتا ہے۔ یہ بھی سریع اور منسرح میں مستعمل ہے۔ اس کو عروضی اصلم کہتے ہیں۔
[TODO: Add Chart]
نوٹ :- عروضیوں نے وتد میں حسب ذیل زحاف تحریر کئے ہیں۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
47

اخرم۔ ثلم۔ عضب تشعیث۔ قطع۔ حذذ۔ اذالہ۔ ترفیل۔ وقف۔ کسف یا کشف۔ صلم۔ یہ جملہ زحاف اکیس ہوتے ہیں۔ گیارہ یہ اور دس سبب کے۔
نوٹ۔2 "صاحب معجم" بائیس زحاف تازی کے تحریر کرتا ہے اسکے نزدیک ایک زحاف جدع اور ہے۔ جو دو سبب حفیف کو ساقط کرتا ہے۔ میں اس کو مرکب زحافات کے بیان میں لکھوں گا۔ فارسی میں تیرہ زحاف تحریر کئے ہیں یعنی جملہ پینتیس 35 ہوتے ہیں۔ مرکب زحافات حسب ذیل ہیں۔
ثَرْم (ء) بروزن شرم۔ بمعنی دانت توڑنا۔ فعولن میں واقع ہوتا ہے۔ ثلم اور قبض کا مجموعہ ہے۔ قبض اور ثلم کی جہت سے 'ف' اور 'نون' گر گئے عُول رہا جس کی جگہ عروضی فعل بضم لام تحریر کرتے ہیں۔ بعض عروضی فاع بحرکت عین بھی لکھتے ہیں اس کو اثرم کہتے ہیں۔ یہ متقارب۔ ہزج اور مضارع میں مستعمل ہے۔
بَتْر (ء) بروزن صبر۔ بمعنی کاٹنا۔ یہ دو طرح پر ہے۔ پہلے حذف اور قطع کا مجموعہ ہے اور یہ فعولن میں آتا ہے۔ حذف کی وجہ سے فعو رہا۔ اور قطع کی جہت سے فع حاصل ہوا ۔ دوسرے خرم اور جب کا مجموعہ ہے کہ مفاعیلن سے فاعیلن ہوا۔ اخرم کی وجہ اور جب کی جہت سے عیلن گر کرفَا بروزن فَعْ ہوگیا۔ اس کو ابتر کہتے ہیں۔ یہ متقارب۔ ہزج۔ اور مضارع میں مستعمل ہے۔
شتْر (ء) بروزن قبر۔ بمعنی برگشتگی مژگان خرم اور قبض کا اجتماع ہے مفاعیلن کا فاعلن ہو جاتا ہے۔ اس کو اشتر کہتے ہیں۔ یہ متقارب۔ ہزج اور مضارع میں آتا ہے۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
48

خَرْب (ء) بروزن ضرب۔ بمعنی شگافتہ شدن ہر دو گوش۔ خرم و کف کا مجموعہ ہے۔ مفاعیلن سے مفعول بضم لام ہوتا ہے۔ اس کو اخرب کہتے ہیں یہ بحر ہزج میں مستعمل ہے۔
شَکْل (ء) بروزن عدل۔ بمعنی پاؤں ۔ چارپائی کارسی سے باندھنا۔ خبن اور کف کی وجہ سے فاعلاتن کا فعلاتُ بضم تا ہوتا ہے۔ اس کو مشکول کہتے ہیں۔ یہ رمل خفیف ۔ مجتث میں مستعمل ہے۔
خَبْل (ء) بروزن شکل۔ بمعنی ہاتھ پاؤں کاٹنا۔ خبن اور کف کیوجہ سے مستفعلن کا فعلتن ہوتا ہے۔ اس کو مخبول کہتے ہیں۔ یہ بسیط۔ رجز۔ سریع۔ اور منسرح میں مستعمل ہے۔
عَقْل (ء) بروزن قبل۔ بمعنی اونٹ کے پاؤں میں رسی باندھنا۔ عصب اور قبض کا مجموعہ ہے۔ اور مفاعلتن کا مفاعلن ہو جاتا ہے۔ اس کو مقعول کہتے ہیں۔ بحر وافر میں مستعمل ہے۔
قَطْف (ء) بروزن حرف بمعنی انگور کا خوشہ توڑنا۔ میوہ چننا۔ عصب اور حذف کی جہت سے مفاعلتن کا فعولن ہوگیا۔ اس کو مقطوف کہتے ہیں۔بحر وافر میں مستعمل ہے۔
نقص۔ (ء) بروزن قطف۔ بمعنی کم کرنا۔ کمی۔ عصب اور کف کی جہت سے مفاعلتن کا مفاعیلُ بضم لام ہو جاتا ہے۔ اس کو منقوص کہتے ہیں۔ بحر وافر میں مستعمل ہے۔
قَصَم۔ (ء) بروزن قسم بمعنی دانت توڑنا۔ عصب اور عضب کا مجموعہ ہے مفاعلتن کا فعولن ہو جاتا ہے۔ اس کو اقسم کہتے ہیں۔ بحر وافر میں مستعمل ہے۔
حَجَم (ء) بروزن قَسَم یعنی سوگند مفاعلتن میں عضب اور عقل کے آنے سے فاعلن ہو جاتا ہے اس کو احجم کہتے ہیں۔ یہ بحر وافر میں مستعمل ہے اس کے
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
49

معنی مرد بے نیزہ۔
عَقْص (ء) بروزن نقص۔ بمعنی ناختن و پیچیدن موکے۔ مفاعلتن میں عضب اور نقص کی وجہ سے مفعول بضم لام کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کو اعفص کہتے ہیں۔ یہ وافر میں مستعمل ہے۔
خَزْل (ء) بروزن عدل۔ بمعنی بریدن مَتَفَاعِلُنْ کا مُفْتَعِلُنْ و اضمار اور طے کیوجہ سے ہوتا ہے۔ اس کو مخزول کہتے ہیں۔ یہ بحر کامل میں مستعمل ہے۔
حَبْ (ء) بروزن کب۔ بمعنی خصی کرنا۔ یہ دو سبب ثقیل کا مجموعہ ہے اس کی جہت سے دونوں سبب مفاعیلن سے گر کر مفا بروزن فعل ہو جاتا ہے۔ اس کو محبوب کہتے ہیں۔ یہ ہزج اور مضارع میں مستعمل ہے۔
ذَلَلْ (ء) بروزن عمل۔ بمعنی ران کا بے گوشت ہونا۔ مفاعیلن میں حذف کی جہت سے مفاعی رہا۔ خرم کی وجہ سے فاعی اور قصر کی جہت سے فاع ہوا۔ اس کو اذل کہتے ہیں۔ یہ ہزج اور مضارع میں مستعمل ہے۔
ہَتْم (ء) بروزن ختم۔ بمعنی دانتوں کا جڑ سے ٹوٹنا۔ یہ حذف اور قصر کا مجموعہ ہے۔ اور مفاعیلن کا فعول بسکون لام ہو جاتا ہے اس کو اہتم کہتے ہیں، یہ بزج اور مضارع میں مستعمل ہے۔
جَدَع (ء) بروزن رسا۔ بمعنی ناک کان اور ہاتھ کا کاٹنا۔ اس کی جہت سے مفعولات کے دونوں سبب گر کر لاتُ بروزن فاع بحرکت عین رہ جاتا ہے اس کو مجدوع کہتے ہیں۔ یہ سریع منسرح میں مستعمل ہے۔
تخْنِیق (ء) بروزن تردید۔ بمعنی گلو باز کردن۔ در حقیقت یہ خرم ہے مگر عرب خرم کو حرف رکن اول میں لاتے ہیں۔ اور پارسی مفاعیلن کی میم گر ا کر ہر رکن میں جائز سمجھتے ہیں۔ اس لیے اس کا نام تخنیق رکھا۔ مفاعیلن
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
50

کی میم گر جاتی ہے۔ فاعیلن بروزن فعولن ہو جاتا ہے۔ اور اس کو مخنق کہتے ہیں۔ یہ ہزج میں مستعمل ہے۔ مضارع اور غریب میں بھی آتا ہے۔
سَاکن (ء) بروزن حاصل۔ بمعنی ٹھہراؤ۔ دراصل یہ کوئی خاص زحاف نہیں۔ تسکین اوسط کرنے کو کہتے ہیں۔ زجاج کا قول ہے جب وتد درمیان میں پڑے جیسے فاعلاتن اور یہ مجنون ہو یعنی فعلاتن۔ پس یہاں تسکین اوسط ہو کر مفعولن ہوا، اس کو مشعث کہتے ہیں جیسا تشعیث کے بیان میں بتایا جا چکا ہے لیکن اگر وتد رکن آخر میں ہو جیسے مستفعلن اور مطوی ہو کر مفتعلن ہو جائے اور بسبب حرکات توالی ثلثہ تسکین اوسط کریں تو مفعولن ہو جائے۔ چنانچہ اس میں ساکن الیعنی ہو نیکو کہ مستفعلن میں واقع ہو، پارسی ساکن تصور کرتے ہیں اور اس کو مسکن کہتے ہیں۔ عروضی جس جگہ تین حرکات توالی ہوتی ہیں تو وہ تسکین اوسط کو روا رکھتے ہیں۔ اوران کے نزدیک محرک اور مسکن ارکان کا خلط جائز ہے اور فِعْلُنْ اور فعلُنْ دونوں ارکان کو ایک بحر میں لاتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں کرتے کہ جہاں شعر میں تین حرکات ہوں اس کو بھی تسکین اوسط کریں جیسے رَمَضَاْن۔ خَفَقَاْن وغیرہ میں ۔ لیکن جہاں اہل علم نے تسکین اوسط جائز رکھا ہے وہاں کوئی امر مانع نہیں۔ جیسے حیواں ۔ حرکت وغیرہ میں۔ اور ار بحر بدل جائے تو بھی تسکین اوسط نہیں کرتے۔ جیسے فَعِلَاتُ فاعلاتن۔ فعِلَاتُ فاعلاتُن میں تسکین اوسط کرنے سے بحر بدل جاتی ہے اور ارکان مفعولُ فاعلان مَفْعُول فاعلاتن ہو جاتے ہیں۔ پہلے وزن میں یہ مصرع آتا ہے:
غم دل جو دے سہارا تو زمیں بھی آسماں ہے
 

ابن رضا

لائبریرین
291

تشبیہ خُلق ۔ مشک ۔ کافور، نسیم سحر۔ بادِبہار،شمیم گل۔عطروغیرہ

تشبیہ قہرو غضب۔ برق۔آتش۔بادسموم۔بادصرصر۔دوذخ۔صور۔قیامت۔ بادِخزاں۔ وغیرہ

نوٹ:۔ اگر حرف تشبیہ مذکور ہوگاتو تشبیہ مرسل ہوگی۔ جیسے گھوڑا مثل برق کے ہے ۔ یہاں مثل حرف تشبیہہ موجود ہے۔ اس کے برعکس اگر حرفِ تشبیہ مذکور نہ ہو تو تشبیہ موکد ہوگی۔ جیسے گھوڑا برق ہے۔ اسی طرح اگر مشبہ بہ وجہ شبہ کی بنا پر معروف ہےتو تشبیہ مقبول ہوگی۔ جیسے گھوڑا تیزی میں برق ہے یہاں تیری وجہ شبہ ہے اس کے خلاف اگر وجہ شبہ غیرمعروف اور ضعیف ہے تو تشبیہ مردود ہوگی جیسے گھوڑا سستی میں برق ہے وغیرہ۔

تقسیم تشبیہ

مرسل موکد مقبول مردود

کِنَایَہ۔ (ع) بمعنی پردہ میں بات کہنا۔ اور اصطلاحاً وہ کلام جس میں ملزوم کے معنی لازم سے لئے جائیں۔ مثلاً پیٹ کا ہلکا کہیں اور مراد ہو اس شخص سےجو راز نہ رکھ سکے۔

مَجَاز۔ (ع) جو حقیقت نہ ہو۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔ مجازمرسل۔اور استعارہ۔

مَجازِ مرسل۔ جب کسی کلام یا لفظ میں مجازی اور حقیقی معنوں کی بناء پر کوئی تشبیہ علاقہ نہ ہو تو اس کو مجاز مرسل کہیں گے۔ جیسے دستِ عطا۔چشمِ کرم۔ یہاں دست اور چشم کےمجازی اور حقیقی معنوں میں کوئی تشبہی تعلق نہیں جو عطا اور کر م سے مشابہت رکھتا ہو۔ لٰہذا س موقع پر عَطا اور کرم۔












292

دست اور چشم کے واسطے علت فاعلی کی حیثیت سے ہیں۔ دیگر مثال۔ چراغ جلتا ہے۔ سڑک چلتی ہے۔ یہاں چراغ س جلنے سے مراد( چراغ کی بتی جلتی ہے) اور سڑک کے چلنے کا مطلب کہ سڑک پر آدمی چلتے ہیں۔ گویا جزوکو کل اور ظرف کو مظروف سمجھنا مجازِ مرسل ہے۔

اِستِعَارہْ ۔ (ع) بروزن استخارہ۔ بمعنی کسی چیز کو رعایتہً مانگنا۔ یہاں مجازی اور حقیقی معنی کے درمیان تشبہی علاقہ ہوتا ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔ استعارہ بالتصریح۔ اور استعارہ بالکنایہ۔

اِستعارہ بالتّفریح۔ واضع ہو کہ مشبہ کو متعارلہ۔ مشبہ بہ کو مستعارمنہ اور وجہ شبہ کو جامع بھی کہتے ہیں۔ استعارہ میں میں مشبہ بعینہٖ مشبہ بہ قرار دیا جات ہے۔ اسی لئے صرف ایک کا ذکر کیا جاتا ہے چنانچہ جب حرف مشبہ بہ کو لاتے ہیں۔ تو وہ استعارہ بالتفریح ہو جاتا ہے جیسے شیر کہیں اور مراد بہادر سے حاتم بولیں اور مراد ہو سخی۔

اِستعاَرَہ بالکنَایَہ۔ لیکن جب مشبہ مذکور اور مشبہ بہ ترک ہو تو استعارہ بالکنایہ ہوگا جیسے ع

دل کے ہر زخم کو مژگاں سے رفوکرتے ہیں

یہاں مژگاں سے مراد سوئی ہے اس لیے یہ استعارہ بالکنا یہ ہوا۔

نوٹ:۔ (۱) واضح ہو کر اگر مشبہ بہ کا ترک کسی قرینے سے سمجھا جائے تو اس قرینہ کو استعارہ تخٔیلیہ کہیں گے۔ جیسے مزکورہ بالا مصرع میں رفو کر استعارہ تخٔیلیہ ہے کیونکہ اسی قرینہ سے مژگان بمعنی سوئی مراد لی گئی ہے۔














293
(۲) استعارہ تخٔیلیہ استعارہ بالکنایہ کی جانب مضاف ہوتا ہے اور اس اضافت کو اضافت استعارہ کہتے ہیں۔ جیسے پائے فکر، یہارں فکر کو شخص سے استعارہ کیا ہے جو مشبہ بہ ترک ہے اور لفظ پا قرینہ ہے۔ جو فکر کی طرف مضاف ہے اور مشبہ مذکور ہے۔




















294

اصطلاحات فن تنقید

تِنقِید ۔ بروزن تردید بمعنی پرکھنا۔ جانچنا۔ اصطلاحاً کلام کی اچھائی برائی بیان کرنے کو کہتے ہیں۔ ناقد کو تنقید کرنے وقت حسبِ ذیل باتوں پر نظر رکھنے کی بہت سخت ضرورت ہے۔

محسنات کلام۔ اغلاط کلام ۔ عیوب کلام

نوٹ:۔ عربی میں باب تفصیل پر تنقید بمعنی نقد غلط ہے مکر اہلِ علم کا تصرف ہے لہٰذا اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔

(۲) محسنات کلام صنائع و بدائع اور علم بیان سے متعلق ہے اس لئے مزید وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں۔

اغلاطِ کلام :۔ اس کی تین قسمیں ہیں۔ لفظی۔معنوی۔ترکیبی۔

لفظی لغت کے خلاف لفظ کو استعمال کرنا۔

اس عشق کی گلی میں رکھنا قدم سنبھل کرنا۔

اس عشق کی گلی میں رکھنا قدم سنبھل کر لاکھوں بگڑ گئے ہیں دولہ نواب ہو کر

نواب لغت کے خلاف استعمال کیا گیا ہے ۔ دراصل یہ لفظ بَہ تشدید واؤ ہے۔

معنوی۔ کسی لفظ کو غلط معنی میں استعمال کرنا جیسے

کیا خبر تھی نعرۂ حق کی سزا یوں پائینگے طور پر منصور سر دینے بلائے جائینگے

یہاں سباق عبار ت سے طور بمعنی دار غلط مستعمل ہے۔









295

ترکیبی۔ الفاط کی ترکیب ازروئے قواعد و اصول غلط ہو جیسے

اس رشک گل کے عشق میں ہوں تشنہ کام شوق پانی پلائیے مجھے آب گلاب کا

یہاں آب گلاب کی ترکیب غلط ہے۔ گلاب میں اضافت مقلوب ہے یعنی آبِ گل۔ اس میں شک نہیں کے عصرِ حاضر میں گلہر پھول کو کہتے ہیں اور گلاب سے مراد مخصوص پھو ل ہے جو معروف ہے مگر یہاں پانی کے ساتھ آب کی ضرورت نہیں۔

تنقید

محسنات کلام اغلاط کلام عیوب کلام

لفظی معنوی ترکیبی

عیوب کلام۔ محققین نے اس کی کئی قسمیں تحریر کی ہیں مثلاً

مُناقَضَہ۔ (ع) بروزن مناظرہ بمعنی جھگڑنا۔ حجت کرنا۔ اصطلاحاً کلام میں معنوی اختلاف ہو جیسے

ان کا گھوڑا ایک دم میں آسمان طے کر گیا کیوں نہ ہو پھر وہ سبک رفتار مثل آفتاب

پہلے مصرعہ میں آسمان کو ایک دم بے کرنا بتایا گیا ہے لیکن گھوڑے کی سُبک رفتاری کی مثال آفتاب سے دی ہے جو سارے دن میں آسمان کی مسافت طے کرتا ہے اس معنی تضاد کی مناقضہ کہتے ہیں۔

تقدیم و تاخیر۔ مصرعہ اوّل کا مضمون مصرع دوم میں اور مصرع دوم کا مضمون مصرع اول میں ہو جیسے

اگر اور زندہ رہتے یہی انتظار ہوتا یہ نہ تھی ہماری قسمت جو وصالِ یار ہوتا






296

غالب ؔ کا مشہور مطلع ہے مصرعوں کی تقدیم و تاخیر سے معنوی ربط ختم سا ہو جاتا ہے۔

نوٹ:۔ چنانچہ کلام میں مضمون سے پہلے حتی الا مکان ضمیر لانے کی کوشش کی جائے۔

تعقید۔ (ع) بروزن تعمیر ۔ بمعنی گرہ شدن۔ اصطلاحاً کلام میں لفظاً و معنیً سقم پیدا ہو ، اس کی دو قسمیں ہیں ۔ لفظی و معنوی۔

لفظی۔ کلام میں فاعل سے پہلے فعل یا معفول واقع ہو جیسے

مارا مجھ کو بے خطا اس شوخ نے اپنے خنجر سے سر بزم عدو

یہاں یوں ہونا چاہیے تھا کہ اس شوخ نے اپنے خنجر سے مجھ کو مارا

نوٹ:۔ یہ تعقید قریب قریب ہر شاعر کے یہاں پائی جاتی ہے۔مگر وہ تعقید بہت معیوب تصور کی جاتی ہے جس میں مبتدا مصرع اول میں ہو اور خبر مصرع ثانی میں۔

معنوی۔ وہ کلام جس میں مضمون و معنی کا اختلاف ہو جیسے

گرمٔی نار جہنم کیا ڈرائے گی ہمیں سو چکے ہیں آفتاب حشر کے دامن میں ہم

قبل از حشر آفتاب حشر کا وجود کوئی معنی نہیں رکھتا ’’اس لئے سو چکے ہیں‘‘ قطعی بیکار ہے۔

تضمین۔ (ع) بروزن تفسیر۔ بمعنی ضامن کرنا۔ اصطلاحاً پہلے شعر کے مضمون کو دوسرے شعر کے مضمون سے دست و گریبان کرنا۔ قدماء اس چیز کو معیوب تصور کرتے تھے۔ اس لئے تضمین کو عیوب کلام میں داخل کیا گیا ہے۔ متاخرین اور فصحائے حال بھی اس کو صنعت تصور نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک کسی دوسرے شعر کو اپنا لینا آسان بات







297


نہیں۔ تضمین اور خمسہ میں اتنا فرق ہے کہ خمسہ میں پانچ مصرے ہوتے ہیں ۔ تین اپنے اور دو وہ جن پر تضمین کی گئی ہے۔ لیکن تضمین کے لئے تین مصرعوں کی قید نہیں ہے۔

تخلیع۔ (ع) بروزن تفریح ۔ بمعنی منسوب بہ خلع۔ ثقیل ارکان اور غیر مروج اوزان میں اشعار لکھنا جیسے

ضبط گریہ سے چشم تر ہو نہ جائے غم کا شیرازہ منتشر ہو نہ جائے

یہ وزن اردومیں مروج نہیں ہے۔

تَحالُف۔ (ع) بروزن تواضع۔ بمعنی باہم مخالف ہونا۔ قاعدے اور محاورے کے خلاف کلام یا کوئی حرف بے قاعدہ تقظیع سے گرانا جیسے۔

جس طرح ٹوٹا کٹورہ قدح پیمانہ گلاس

یہاں قدح بروزن شام غلط ہے ۔ لغت میں نظر کے وزن پر ہے یا اسقاطِْ عین جیسے۔ یاد آتا ہے جب عالم تری رعنائی کا

بہار عجم نے عین کے اسقاط کو جائز رکھا ہے۔ مگر یہ صاحب بہار عجم کی غلطی سے عین کا اسقاط معیوب تصور کیا جاتا ہے۔

تَنافُر۔ (ع) بروزن تخالُف۔ بمعنی نفرت کرنا۔ کلام میں الفاظ ثقیل استعمال کرنا۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔ لفظی و معنوی

لفظی۔ شعر میں ایسے الفاظ نظم کرنا کہ سننے والو ں کو بیک وقت غلط ادراک ہو جیسے

بے پردہ مجھے یا ر ب جو رو نظرآجائے

یہاں جؔو اور رؔو مل کر ایک ثقیل لفظ بن جاتے ہیں یعنی جؔورو۔ اس کو تنافر لفظی کہتے ہیں۔

معنوی۔ ان لفظوں سے شعر یا مصرعہ ترتیب دیا جائے جو معنوی لحاظ سے خلاف تہذیب ہو۔ ’’ ڈر کے مارے رقیب موت رہا ‘‘








298

غُرابَت ۔ (ء) بروزن مُسبّع۔ بمعنی عجیب پن۔ کلام میں غیر مانوس الفاظ نظم کرنا جیسے حمد ِ خدا۔ میں کریم کی جگہ سخی لکھنا۔ یا وہ الفاظ استعمال کرنا جو بغیر لغت کی مدد کے سمجھ میں نہ آئیں۔

ضُعفِ تالیف۔ اہل زبان اور روز مرہ کے خلاف کوئی نیا لفظ استعمال کرنا۔ مثلاً پکار کے وزن پر اٹھانے سے اُٹھاریا جگانے سے جگار۔ اسی طرح لبالب کی جگہ ملب اور مسکر کی جگہ منشی استعمال کرنا۔

عُدول (ء) بروزن حصول۔ بمعنی راہ سے پھر جانا۔ بحر میں لانے کی وجہ سے متحرک حرف کو ساکن کرنا اور ساکن کو متحرک بنا لینا۔ جیسے فؔانی بدایونی

طور تو ہے رب ارنی کہنے والا جاہیے لن ترانی ہے مگر ناآشنائے گوش ہے

درحقیقت لفظ ارنی بحرکت دوم ہے مگر یہاں بسکون دوم استعمال کیا ہے۔ واضح وہ کہ اس کے غلط ہونے میں کوئی شک نہیں مگر یہ امر مسلمہ ہے کہ جس لفظ یا ترکیب پر اہل علم کا تصرف ہوتا ہے اس کے استعمال میں کو ئی حرج واقع نہیں ہوتا۔ چنانچہ شعرائے عرب وعجم اس قسم کے تصرف کو جائز سمجھتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود میرے نزدیک غلطی اپنی جگہ غلطی ہے۔غالبؔ مکگ کے ساتھ صاحب کا قافیہ نظم کر گئے ہیں۔ ذوقؔ کم سے موسم کا قافیہ باندھ گئے ہیں۔ اب اس کے معنی یہ بھی نہیں کہ اس قسم کی بھول چوک قابلِ سند یا لائقِ اتباع سمجھی جائے۔

وَصل۔ (۱) لفظ میں کسی حرف کو بڑھا دیں اور لفظ کے معنی میں کوئی فرق نہ آئے۔ وہ حرف حسب ذیل ہیں۔ الف۔ ب۔ ت۔ شین۔ میم۔ واؤ۔ اور ی وغیرہ دیکھو تشریح الحروف۔

قَطع۔ (۲) لفظ میں کسی حرف کو کم کر دیں جیسے ابراہیم سے براہیم۔











299

ٹخفیف۔(۳) یعنی مشدد حرف کو بغیر تشدید کے پڑھنا جیسے تنّور کو تنور یا نوّاب کو نواب پڑھیں۔

تشدید۔(۴) یعنی مخفف کو تشدید کے ساتھ پڑھنا۔ جیسے خدا کو خدّا پڑہیں۔

ممدودہ۔ (۵) کسی مقصورہ حروف پر مَد لگا دینا جیسے استر سے آستر۔

مقصورہ۔(۶) کسی حرف کے مد کو دور کر دیا جائے جیسے آخیشج سے خیشج۔

اسکان۔(۷) کسی متحرک حرف کو ساکن کر لیں جیسے حَرَکت کی ر کو ساکن کے ساتھ حرْکت پڑھیں۔

تحریک۔ (۸) کسی ساکن حرف کو متحرک کر لیں جیسے رفو کی ف کو جو ساکن ہے مضموم پڑھیں۔

نوٹ:۔ مذکورہ بالا باتیں علم ہجا میں مفصل تحریر کر دی گئی ہیں۔ اب تصرفات معنوی اور تصرفات لفظی و معنوی کا باب شروع کیا جاتا ہے۔

تصرفات معنوی۔ لفظ کو لغت کے خلاف اہل علم نے دوسرے معنی میں استعمال کیا ہو ۔ جیسے نَم کے معنی تَری کے ہیں مگر ہم ۔ چشم ِ نم ۔ یعنی تر آنکھ بولتے ہیں یا تردّد ۔ کے معنی ہیں آمدو رفت کے اور ہم فکر کے محل پر استعمال کرتے ہیں۔

تصرفات لفظی و معنوی۔ یعنی لفظ کے حلیہ اور معنی دونوں میں اہل زبان کا تصرف ہو جیسے شمشیر ۔ بروزن دلگیر بمعنی سیف۔ تیغ ۔ تلوار۔ لغوی حثیت سے یہ لفظ مرکب ہے شم بمعنی ناخن اور شیر مشہور دردند ہ کو کہتے ہیں۔ اس لئے اس کا وزن دلیر کےمرادت ہوتا ہے ۔ معنی لکھ دئیے گئے ہیں۔

تَوارد۔ (ء) بروزن تواضع ۔ بمعنی ایک جگہ اترنا۔ بغیر علم ایک شاعر کا مصرعہ یا بیت کسی دوسرے شاعر کے مصرعہ یا شعر سے لفظاً یا معنیً ملتا جلتا ہو جیسے احسنؔ؎ مارہروی کا شعر ہے

ہلال و آسماں ہیں جامہ ٔ وحشت کے دو ٹکڑے کوئی خاکہ ہے دامن کا کوئی ٹکڑا گریباں کا








300


اور نو حؔ فرما تے ہیں

ہلال و بدر کو اہلِ جنوں کیا غور سے دیکھیں جو یہ ٹکڑا ہے دامن کا تو وہ دھجی گریباں کی

سرقہ (ء) بروزن چرخہ۔ بمعنی چوری۔ اصطلاحاً کسی شاعر کے شعر یا کلام کو اپنے نام سے پڑھنا ۔یا قصداً ایک دو لفظ گھٹا بڑھا کر کسی دوسرے کے اشعار اپنے کہہ کر سنانا۔

نوٹ:۔ واضح ہو کہ توارد میں کوئی عیب نہیں مگر سرقہ بہت معیوب بات ہے۔

کسی شاعر کے کلام کو بغیر ردو بدل کے پڑھنے کو انتحال کہتے ہیں اور گھٹا بڑھا کر پڑھنے کو اغارہ کہتے ہیں۔ یہ دونوں سرقہ کی قسمیں ہیں۔

تکرارِ بے جا۔ کسی لفظ کا بے ضرورت باربار استعمال کرنا۔ اس کو تکرار بے جا یا تکرار قبیح بھی کہتے ہیں ۔ جیسے

اے موت نہ آاے موت نہ آ جینا ہے ابھی کچھ دن مجھ کو

یعنی کہ بھروسا ہے مجھ کو اس شوخ کے وعدوں کا اب تک

لیکن جب تکرار میں حسن اور لطافت پائی جائے تو اس کو تکرار ملیح کہتے ہیں۔ اور ایسی تکرار بہتر ہے جیسے۔ جگرؔ

اے محتسب نہ پھینک مرے محتسب نہ پھینک ظالم شراب ہے ارے ظالم شراب ہے

اِہمال ۔ (ء) بروزن اقرار بمعنی بے معنی چھوڑنا شعر میں ایسے الفاظ ہوں کہ مطلب سمجھ میں نہ آسکے جیسے۔

دعویٰ کروں گا حشر میں موسیٰ پہ قتل کا کیوں اس نے باڑہ دی مرے قاتل کی تیغ کو

اِخلال۔(ء) بروزن اہمال ۔ بمعنی محتاج کرنا۔ شعر میں کسی ایسے لفظ کا نظم ہونے سے رہ جانا جس کے نہ ہونے سے مطلب اچھی طرح ادا نہ ہو سکے جیسے

ذرا اے باغبان ہشیار ہو جا جلا ڈالے گی شاخ آشیاں تک







301

تتابُع۔ (ء) بروزن تواضع بمعنی پے در پے ہونا۔ بہت سی اضافتوں کا جمع کرنا جیسے

شمعِ بزمِ عیشِ جانِ آرزع

تقابل ردیفین۔ شعر کے مصرعہ اول میں بالکل آخر آخر حرف ردیف کا ہونا جیسے

مریضِ محبت مرا جارہا ہے مسیحاکو لیکن خبر تک نہیں ہے

تنزل۔ (ء) بروزن تنافر۔ بمعنی درجہ سے کم ہونا۔ اساتذہ اس کو بھی مناقفہ تصور کرتے ہیں لیکن یہ وہ شعری عیب ہوتا ہے جس میں کسی چیز کی تعریف کر کے تذلیل کی جائے ۔ جیسے

سور ج کی طرح ان کا چہرا نظر آتا ہے مہتاب کی کرنوں کا سہرا نظر آتا ہے

سورج کہہ کر مہتاب کر مہتاب کہنا تنزل کی قسم ہے۔

شُتر گُربہ۔ اس کے لغوی معنی اونٹ اور بلی کے ہیں۔ شعر میں آپ کے ساتھ تو یا تم کا استعمال کرنا جیسے تم فرماؤ وغیرہ۔

شکست ناروا۔ عروض کے لحاظ سے مصرعہ کا حشو میں پورے ارکان پر نہ آنا جیسے

کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبینِ نیاز میں

یہاں مصرعہ ثانی میں رہے ہیں فعل کے دو حصے ہو جاتے ہیں یعنی کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ۔ متفاعلن متفاعلن۔ ہیں مری جبینِ نیاز میں ۔ متفاعلن متفاعلن۔

عیوب

مناقضہ تقدیم و تاخیر تعقید تضمین تخلیع تحالف تنافر غرابت ضعف تالیف

لفظی معنوی لفظی معنوی




302

عدول توارد سرقہ تکرار اہمال اخلال تتابع تقابلرددیفین تنزل شترگربہ شکست ناروا

انتحال، اغارہ ملیح، قبیح


تصرفات

وصل قطع تخفیف تشدید ممدودہ مقصورہ اسکان تحریک تصرفات معنوی تصرفات لفظی و معنوی



303
اصطلاحات نظم و نثر

نظم۔ (ء) بروزن ہضم، بمعنی موتی پرونا۔ اصطلاحاً وہ کلام جس میں موزونیت (موسیقی) پائی جائے اورج جو با لقصد کہا جائے اس کی دس قسمیں ہیں۔

فرد۔رباعی۔قطعہ۔غزل۔قصیدہ۔مثنوی ترجیع بند ترکیب بند مستزاد۔مسمط (۱۰)


فرد (ء) بروزن گرد ۔ بمعنی یکتا۔ تنہا۔ طاق۔ مگر شاعرانہ اصطلاح میں شعر کو کہتے ہیں ۔ شعردو مصرعوں کا ہوتا ہے مصرعہ کو اڑکو کہتے ہیں

مثال فرد

عیش کا عالم کیا کہیے جیسے کوئی نیند میں ہو

رباعی (ء) بروزن دُلائی۔ بمعنی منسوب بہ ربع۔ فارسی میں اس کو ترانہ کہتے ہیں۔ اسکا موجد رودکی ہے۔ عربی میں ربع کے معنی چوتھائی کے ہیں۔لیکن ربائی چار مصرعون کی ہوتی ہے اس لئےاس کو اس نام سے موسو م کیا گیا یہ عروضی لحاظ سے چوبیس اوزان میں کہی جاتی ہے۔ ساتذہ ماستیق ان چوبیس لفظوں کے خلط کو جائز قرار دیتے ہیں۔ یہ وزن بحرہزج مثمن سالم سے نکالا گیا ہے مثال علامی فوق سزواری مرحوم

اظہارشہود کی ضرورت کیا تھی اس نام و نمود کی ضرورت کیا تھی

جب مر کے عدم کو پھر بسانا ہوگا دنیا کے وجود کی ضرورت کیا تھی










304

واضح ہو کہ رباعی کا مفہوم چوتھے مصرع پر منحصر ہوتا ہے اس لیے چوتھا مصرعہ نہایت چست اور بامعنی ہونا چاہیے۔ ایسا کہ پہلے والے تین مصرعوں سے بلحاظ مفہوم مربوط بھی ہو۔

قِطعہ۔ (ء) بروزن حصّہ۔ بمعنی ٹکڑا۔ یہ وہ نظم ہوتی ہے جو کم سے کم دو شعروں سے ترتیب دی گئی ہو۔ پہلے قطعہ میں مطلع نہیں ہوتا تھا۔ مگر ذوقؔ نے مطلع کو بھی قطع میں لکھا ہے۔ ہر وہ غزل قطعہ ہے جس میں مطلع نہ ہو۔ مگر واضح ہو کہ قطعہ کا موضوع غزل سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ غزل کا ہر شعر علیٰحدہ ہوتا ہے اور قطعہ کے اشعار میں بلحاظ مضمون تسلس ہونا چاہیے مثال۔

کیا وہ دنیا جس میں ہو کوشش نہ دیں کے واسطے واسطے واں کے بھی کچھ یاسب یہیں کے واسطے

ذوقؔ عاصی ہے تو اس کا خاتمہ کیجو بخیر یاالہٰی اپنے ختم المرسلیں کے واسطے

غزل اور قصیدے میں اکثر قطعہ بند اشعار ہوتے ہیں۔

غزل۔(ء) بروزن اثر۔ بمعنی حسن و محبت کی باتیں کرنا۔ چنانچہ غزل میں تغزل کا ہونا شرط اول ہے مگر فی زمانہ غزل میں فلسفہ ۔ منطق۔ سائنس۔ ہیئت۔ بہاروخزاں۔ مناظر قدرت اور فطری جذبات جیسی باتوں کا ذکر بھی شامل ہے۔ غزل کے پہلے شعر کو مطلع کہتے ہیں طلوع بمعنی نکلنا گویا مطلع سے غزل شروع ہوتی ہے۔ مطلع میں دونوں مصرعے ردیف اور قافیہ رکھتے ہیں ۔ غزل داغؔ مشہور ہے جس کا مطلع یہ ہے

شرکت غم بھی نہیں چاہتی غیرت میری غیر کی ہو کے رہے یا شب فرقت میری

غزل کا آخری شعر مقطع ہوتا ہے ۔ مقطع میں اپنا تخلص نظم کرتا ہے ۔ جس کی وجہ سے سامعین یہ معلوم کر لیتے ہیں کہ یہ غزل فلاں شاعر کی ہے۔

جیسے غالبؔ کا مقطع

غالبؔ بُرا نہ مان جو واعظ بُرا کہے ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے
 
261

تعجّب۔ سبحان اللہ۔ تعالی اللہ۔ ماشاءاللہ۔ بنام ایزد۔ نامِ خدا۔ عجب۔ چہ۔ چہا۔ شگفت وغیرہ۔

تَعْلیل۔ کہ۔ چہ۔ زیراکہ۔ چراکہ۔ بسبب۔ اینکہ۔ ازیں۔ بنابراں۔ ازیں۔ سبب وغیرہ۔

نفریں۔ تف۔ نفریں۔ لعنت۔ لغو وغیہ۔

تحقیق۔ مانا۔ برآئینہ۔ البتہ وغیرہ۔

تمنا۔ کاش۔ مگر۔ کاشکے وغیرہ۔

نفی۔ نہ۔ نے۔ م۔ ماشا۔ خیر۔ بے۔ تا۔ الف وغیرہ۔

ایجاب۔ ارے۔ بلے۔ لبیک وغیرہ۔

تنبیہ۔ ہشیار۔ ہاں وغیرہ۔

ندبہ۔حیف۔ وائے۔ اے وائے۔ آہ۔ افسوس۔ دریغ۔ دریغا۔ وادریغا وغیرہ۔

حروفِ ابدال۔ فارسی میں کچھ حرف ایسے ہیں جو ایک دوسرے سے بدل جاتے ہیں۔ چونکہ وہ اردو میں مستعمل ہیں اس لئے ان کا ذکر بھی ضروری ہے۔ خاص خاص بیان درج ئے جاتے ہیں۔
(۱)الف مقصورہ۔ یہ دال سے بدل جاتا ہے۔ جیسے بایں سبب کی جگہ بدیں سبب کبھی لفظ کے آخر میں یہ ۃ سے بدل جاتا ہے جیسے نارا سے نارہ یا آشکارا سے آشکارہ۔ اکثر کلمہ کے درمیان حذف بھی ہوجاتا ہے ماہ سے مہ کبھی شروع میں بھی حذف ہوجاتا ہے جیسے ابراہیم سے براہیم۔ کبھی امالہ کے ساتھ یائے مجہول سے بدل جاتا ہے جیسے حساب سے حسیب۔ کتاب سے کتیب وغیرہ۔
(۲)ب۔ کبھی پ سے بدل جاتی ہے۔ جیسے بادشاہ سے پادشاہ۔ کبھی واؤ سے بدل لیتے ہیں۔ جیسے سلیب سے سیلو۔ کبھی ف سے جیسے زبان زفان۔ کبھی نون اور بے سے میم کی آواز نکلتی ہے جیسے جنب سے جُم۔
 
262

(۳)پ۔ کبھی بدل جاتی ہے جیسے تپ سے تب مگر تب بمعنی بخار۔
اردو میں مستعمل نہیں اس کو جب کے بالمقابل لکھتے ہیں۔ عربی میں ف سے جیسے پیل سے فیل۔ فارسی میں بھی ف سے بدل لیتے ہیں جیسے سفید سے سپید کبھی واؤ سے جیسے پام سے وام بمعنی رنگ۔
(۴)ت۔ کبھی ث سے بدل جاتی ہے جیسے کیومرت سے کیومرث نام بادشاہ ایران، ج سے جیسے تاوات سے تاراج۔ دال سے جیسے زرتش سے زردشت کبھی ط سے جیسے توتیا سے طوطیا۔ کبھی فارسی میں ت زائد بھی آتی ہے۔ جیسے پاداش سے پاداشت بمعنی بدلہ۔
(۵)ج۔ کبھی ت سے جیسے تاراج سے تارات۔ چ سے جردہ سے چردہ بمعنی رنگ سیاہ۔ ز سے جیسے چوجہ سے چوزہ۔ ژ سے جیسے کج سے کژ۔ ش سے جیسے کاج سے کاش۔ گ سے جیسے نارنج سے ارنگ۔
(۶)چ۔ کبھی عربی میں ص سے بدل جاتی ہے جیسے چین سے صین نام ملک کا۔ چ سے جیسے غنچہ سے غنجہ۔ ک سے جیسے زاچ زاک بمعنی پھٹکری۔
(۷)خ۔ کبھی ش سے جیسے افراختن سے افرشتن بمعنی بلند کرنا۔ ق سے جیسے چقماخ سے چقماق۔ ک سے جیسے خمان سے کمان۔
(۸)د۔ الف سے جیسے بدیں سے بایں۔ ت سے جیسے دراج سے تراج بمعنی تیز۔ یاخدا سے کتخدا کبھی عربی میں ذ سے جیسے نبید سے نبیذ ایک قسم کی شراب یا استاد سے استاذ۔ ن سے جیسے نمودہ سے نمونہ۔
(۹)ر۔ ش سے جیسے انگاردن سے انگاشتن بمعنی جاننا۔ ل سے جیسے سونار سے سونال۔ کبھی زائد کی صورت میں بھی آتی ہے جیسے شناء سے شنار تیرنا کے معنی میں۔
(۱۰)ز۔ ج سے جیسے ارزمند سے ارجمند۔ چ سے جیسے پزشک سے پچشک
 
263

بمعنی حکیم۔ غ سے جیسے گریز سے گریغ۔ ی سے اواز سے اوائے۔ س سے جیسے ایاز سے ایاس۔ نام محمود کے غلام کے۔
(۱۱)ژ۔ ج سے جیسے کژ سے کج۔ ز سے جیسے مژد سے مزد بمعنی مزدوری۔
(۱۲)س۔ ص سے جیسے سپاہان سے صفاہان نام ایران کے شہر کا یا سر سے صد بمعنی حائل۔ ش سے جیسے فرستہ سے فرشتہ۔
(۱۳)ش۔ ت سے جیسے بخش سے بخت بمعنی حصہ و نصیبہ ۔ ر سے جیسے انگاشتن سے انگاردن۔ خ سے جیسے اخراشتن سے افراختن۔ ل سے جیسے اسپگوش سے اسپگول۔ جس کو اسپغول کہتے ہیں۔
(۱۴)غ۔ گ سے جیسے غلولہ سے گلولہ۔
(۱۵)ن۔ چند حروف سے پہلے نون غنہ کی آواز دیتا ہے۔ ب سے پہلے بجائے نون غنہ کے میم کی آواز دیتا ہے جیسے لنبا۔ لمبا۔ ج سے پہلے جیسے رنج۔ د سے پہلے جیسے بند۔ گ سے پہلے رنگ۔ حروف مد کے بعد بھی نون غنہ آتا ہے۔ جیسے جاں۔ خوں۔ کیں۔ مگر اردو میں بغیر عطف و اضافت کے اعلان نون فصیح ہے۔ اگر آخر کلمہ میں نب ہوتا ہے تو میم ہی لکھتے ہیں۔ جیسے خنب سے خم۔ سنیب سے سم وغیرہ۔
 
264

اصطلاحات علم بدیع
بدیع۔(ء) بروزن شجیع۔ بمعنی انوکھا۔ نادر وغیرہ۔ اصطلاحا وہ علم جس سے کلام کا حسن اور خوبی ظاہر ہو۔ ان کو صنائع و بدائع بھی کہتے ہیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔ معنوی و لفظی۔

معنوی۔ اس کی وجہ سے کلام کی لفظی خوبیاں ظاہر ہوتی ہیں۔
نوٹ:۔ سب سے پہلے ہم صنائع معنوی کا تذکرہ کریں گے۔ اس کی حسبِ ذیل اقسام ہیں۔

صنعتِ تضاد۔ اس کو تطبیق ۔ طباق اور تکاخو بھی کہتے ہیں۔ یہ وہ صنعت ہوتی ہے کہ کلام میں دو ایسے کلمے لائے جائیں جو معنو طور پر ایک دوسرے کی ضد ہوں مثلاً ؎
شبنم و گل میں فرق اتنا ہے ایک ہنستا ہے ایک روتا ہے
یہاں ہنسنا اور رونا تضاد ظاہر کرتا ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔ تضاد ایجابی و تضاد سلبی۔

تضادِ ایجابی۔ وہ صنعت جن میں تضاد تو ہو مگر حرف نفی کے ساتھ۔ جیسے اوپر کی مثال میں ہے۔

تضادِ سلبی۔ جب دو فعل ایک مصدر سے مشسق ہوں اور ان میں ایک مثبت اور دوسرا منفی ہو۔ یا ایک امر دوسرا نہی ہو۔ جیسے ذوقؔ؎
ستم کو ہم کرم سمجھے جفا کو ہم وفا سمجھے جو اس پر بھی نہ وہ سمجھے تو اس بت سے خدا سمجھے
نوٹ:۔ سلب کے معنی لے بھاگنا اور نیت کرنا۔ تکاخو کے معنی ایک دوسرے
 
آخری تدوین:
265

کے برابر ہونا۔ ایجاب کے معنی لازم کرنا اور فرض کرنا ہیں۔

صنعتِ مقابِلہ۔ دو یا دو سے زیادہ کلمات لاکر ان کی ضد بیان کی جائے جیسے سوداؔ؎
یارو مہتاب و گل و شمع بہم چاروں ایک میں کتاں بلبل و پروانہ یہ ہم چاروں ایک
یہاں یار کی مناسبت سے میں۔ مہتاب کی وجہ سے کتاں۔ گل کی نسبت سے بلبل اور سمع کے سبب سے پروانہ لایا گیا ہے۔ جو بالترتیب ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ بعض حضرات اس کو صنعتِ تضاد تصور کرتے ہیں۔

صنعتِ مراعاۃ النظیر۔ تناسب کے معنی میں مستعمل ہے چنانچہ کئی چیزیں متناسب لانے کو کہتے ہیں۔ جیسے؎
خط بڑھا زلفیں بڑھیں کاکل بڑھے گیسو بڑھے حسن کی سرکار میں جتنے بڑھے ہندو بڑھے
واضح ہو کہ خط۔ زلفیں۔ کاکل اور گیسو میں بہت قریبی مناسبت ہے۔ اسی طرح اگر آسمان۔ چاند۔ تارے کا ذکر ہو یا گلشن پھول کلی کانٹے کا بیان ہو تو مراعاۃ النظیر صنعت ہوگی۔
نوٹ:۔ مذکورہ بالا صنعت کو تناسب۔ ایتلاف ا تلفیق بھی کہتے ہیں۔ ایتلاف کے معنی موافقت کرنا۔ تلفیق کے معنی اکھٹا کرنا اور ترتیب دینے کے ہیں۔ اسی صنعت میں تشابہ الاطراف بھی داخل ہے یعنی کلام کا اختتام ابتدا کے متناسب ہو۔ جیسے؎
کچھ سفید اور سیاہ کی نہ خبر جہوتی تھی شام ہوتی تھی کدھر صبح کدھر ہوتی تھی

صنعتِ مشاکِلہ۔ ایک چیز کو دوسری چیز کے مناسب الفاظ سے بسبب قرب دونوں کے ذکر کریں۔

صنعتِ مزاوِجہ۔ شرط و جزا میں ایسے دو معنی لائیں کہ جو امر ایک معنی پر مرتب ہو وہی امر دوسرے معنی پر بھی مرتب ہو۔ جیسے۔ ؎
 
266

ہم جو چپ بیٹھیں تو کہلائیں سڑی تم جو چپ بیٹھو توکل ٹھہرے
نوٹ:۔ مزاوجہ دو چیزوں کے ملانے کو کہتے ہیں۔

صنعتِ ارصاد۔ ارصاد کے معنی نگہبان بٹھانے کے ہیں۔ چونکہ یہ لفظ آئندہ قافیہ کا نگہبان ہے اس لئے اس صنعت کا نام ارصاد رکھا گیا ہے۔ اصطلاحاً کسی شعر میں ختم کلام سے پہلے ایسا لفظ لائیں جس سے مصرعہ ثانی کے اخیر لفظ (قافیہ) کا حال معلوم ہوجائے۔ جیسے ذوقؔ؎
کیا قہر ہے آنے میں میں ابھی وقفہ ہے ان کے اور جانے میں دم میرا توقف نہیں کرتا
یہاں وقفہ کی وجہ سے توقف جو قافیہ ہے فورا معلوم ہوجاتا ہے۔

صنعت عکس تبدیل۔ دو جز کا ذکر کریں بعد ازاں اول جزو کو آخر۔ اور آخر کو اول کریں۔ جیسے؎
ہم اور غیر دونوں یک جا بہم نہ ہونگے ہم ہوں گے وہ نہ ہونگے۔ وہ ہونگے ہم نہ ہونگے

صنعتِ رجوع۔
پہلے کسی بات کا ذکر کریں پھر اس کو رد کردیں۔ جیسے ناسخؔ؎
ماہِ نو ہے مچل ابرو لیکن اس کے رو نہیں
ماہ کامل صورت رو ہے مگر ابرو نہیں

صنعتِ ایہام۔ اس کو تودیہ بھی کہتے ہیں۔ کلام ایسا لفظ لایا جائے جو ذو معنی ہو اور ایک معنی قریب دوسرے معنی بعید ہوں۔ مگر معنی بعید مراد ہوں۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔ (۱)معنی قریب کے مناسبات مذکور نہ ہون میر دردؔ؎
بستے ہیں تیرے سائے میں سب شیخ و برہمن
آباد تجھ ہی سے تو ہے گھر دیر و حرم کا
یہاں سایہ کے معنی دھوپ کی ضد کے ہیں اور معنی بعید حمایت کے ہیں۔
اور یہی معنی مراد ہیں۔

(۲)معنی قریب کے مناسبات بھی مذکور ہیں جرأتؔ؎
 
267

ہوا میں بھی داخل کشتگاں تو عبث کو ہوتا ہے سر گراں
کہ مرے گلے کی طرف تری آب تیغ کا ڈھال ہے
یہاں ڈھال کے معنی سپر مراد نہیں، بلکہ بہاؤ سے مطلب ہے۔
نوٹ:۔ اول صورت ایہام مجرد اور دوسری صورت کو ایہام مرشح کہتے ہیں۔ مرشح کے معنی آراستہ کے ہیں۔ ایہام بمعنی وہم میں ڈالنا۔

صنعتِ استخدام۔ ایک لفظ کلام میں جو دو معنی رکھتا ہو۔ ایک معنی تو اس لفظ سے مراد لیں اور دوسرے معنی اس لفظ کی طرف اجع ضمیر سے۔ جیسے ؎
سایہ فگن ہو میں نے کہا ہم پہ اوپری
بولا کہ اس کے سایہ سے پرہی چاہیے
یہاں پری کے دو منی ہیں۔ معشوق اور بھوت۔ لفظا معشوق سے مراد ہے اور ضمیر بھوت کی جانب ہے۔ کیونکہ بھوت کے سایہ سے پرہیز ہوتا ہے۔

صنعتِ لف و نشر۔ لف کے معنی لپیٹا اور نشر کے معنی پراگندہ کے ہیں۔ کلام میں پہلے چندچیزوں کا ذکر کیا جائے پھر ان کے مناسبات و متعلقات کا تذکرہ ہو۔ چنانچہ پہلے کو لف اور دوسرے کو نشر کہتے ہیں۔ اگر نشر کی ترتیب لف کے مطابق ہو تو اس کو لف و نشر مرتب کہتے ہیں۔ ورنہ لف و نشر غیر مرتب کہیں گے۔ پہلی مثال؎
ترے رخسارو قد و چشم کے ہیں عاشق زار گل جدا سرو جدا نرگسِ بیمار جدا
دوسری مثال؎
یاد میں اس طرہ در خار کے ہاتھ سر پر مارتا ہوں صبح و شام
نوٹ:۔ بہترین لف و نشر مرتب وہ ہے جو مناسبات ایک لف کے لئے نشر ہوں۔ وہی دوسرے نشر کے واسطے لف ہوں؎
سرد و گل شوق میں ترے قد و عارض کے سدا نالے کرتے ہیں بہم قمری و بلبل کی طرح
 
268

یہاں سرود گل کے لئے قد و عارض نشر ہے مگر قمری و بلبل کے لئے لف ہوجاتے ہیں۔
(۱)کبھی نشر کی ترتیب باقی نہیں رہتی۔ ظفرؔ؎
ترے دندان و لب نے کردیا بے قدر عالم میں
گہر کو لعل کو یاقوت کو ہیرے کو مرجاں کو

صنعتِ جمع۔ دو یا دو سے زیادہ چیزوں کو ایک حکم کے ماتحت جمع کریں۔ ذوقؔ؎
خط بڑھ زلفیں بڑھیں کاکل بڑھے گیسو بڑھے
حسن کی سرکار میں جتنے بڑھے ہندو بڑھے

صنتِ تفریق۔ ایک ہی طرح کی دو چیزوں میں فرق ظاہر کیا جائے۔ نامیؔ؎
ایک یوسف واں گرا تھا یا گرے دلہائے خلق
چاہ کنعاں اور ہے چاہِ زنخداں اور ہے
یہاں چاہِ کنعاں اور چاہ زنخداں میں فرق بیان کیا ہے۔

صنعتِ تقسیم۔ پہلے چند چیزوں کو بیان کریں پھر ان کی منسوبہ چیزوں کا علی التعین ذکر کریں جیسے؎
تیرا ہنسا میرے رونے کے برابر ہوگیا
اس نے مارا خلق کو اس نے ڈبویا اک جہاں
یہاں خلق کے مارنے کو ہنسی کی طرف اور اک جہاں کے ڈبونے کو رونے کی طرف منسوب کیا ہے۔

صنعتِ جمع مع تفریق۔ دو چیزوں کو ایک معنی میں جمع کریں پھر اسبابِ مشترکہ میں تقسیم کردیں۔ جیسے؎
دونوں بہتر ہیں مگر تعظیم ہے ان کی ضرور
سنگ اسود شیخ کو اور ترا سنگ ر مجھے
تعظیم میں جمع ہے مگر وجہ اشتراک میں تفریق ہے کہ اسود شیخ کو اور تیرا سنگ در مجھے

صنعتِ جمع مع تقسیم۔ پہلے چند چیزوں کو ایک حکم میں جمع کریں پھر ان کو تقسیم کردیں جیسے؎
 
269

تجھے اور تیرے دشمن کو سدا ہے اوج عالم میں
تجھے تخت خلافت پر اسے دارِ سیاست پر
پہلے مصرعہ میں تجھے اور تیرے دشمن دونوں کو اوج میں جمع کیا اور دوسرے مصرعہ میں ان کی تقسیم کردی گئی

صنعتِ جمع و تفریق و تقسیم۔ پہلے کئی باتوں کو ایک جگہ جمع کری پھر تفریق اور اس کے بعد تقسیم کردیں جیسے۔
سب سخی ہیں ابر و دریا اور وہ وہ عالیجناب
پائیں فیض ان سے نباتات اور غواص و گدا
پھر کرے ہے نالہ دریا۔ ابر روئے وقت فیض
بالب خنداں وہ بخشے لعل و گوہر دائما
پہلے مصرعہ میں جمع ہے دوسرے میں تفریق اور تیسرے چوتھے مصرعوں میں تقسیم موجود ہے۔

صنعتِ مُبالَغَہ۔ مبالغہ دو قسم کا ہوتا ہے مبالغہ فی الاصل اور مبالغہ فی الزوائد۔
مُبالغہ فی الاصل۔ کسی حقیقت کو استعارہ میں بیان کرنا مثلاً ؎
مرے خورشید کا سایہ ہے اس پر
مہ کامل کی یہ صورت کہاں تھی
یہاں شاعر نے اپنے محبوب کو خورشید سے استعارہ کیا ہے۔
مبالغہ فی الزوائد۔ کسی وصف کو شدت یا صفت کی حد تک پہنچا دینا۔ اس کی تین قسمیں ہیں۔ تبلیغ۔ اغراق۔ غلو۔

تبلیغ۔ (ء) بر وزن تردید۔ بمعنی پہونچانا۔ کہہدینا۔ جو بات از روئے عقل و عادت ممکن ہو تو اس کو تبلیغ کہتے ہیں۔ جیسے انشاؔء؎
دل کے نالوں سے جگر دکھنے لگا
یاں تلک روائے کہ سر دکھنے لگا
بظاہر دونوں باتیں از روئے عقل و عادت ممکن معلوم ہوتی ہیں۔

اغراق۔ (ء) بروزن الحاد۔ بمعنی غرق کرنا۔ وہ بات جو از روئے عقل تو ممکن ہو مگر عادت کے خلاف ہو جیسے سحرؔلکھنوی۔
 
آخری تدوین:
270

صبح کو ہو کوئی انگریز اگر اس پہ سوار
حاضری کھائے سپاٹومیں تو لندن میں ٹپن
سحرلکھنوی کا یہ شعر گھوڑے کی تعریف کے سلسلے میں ہے جو از روئے عقل تو ممکن معلوم ہوتا ہے مگر گھوڑے کی عادت سے بعید ہے کہ وہ اس قدر جلد اتنی مسافت طے کرسکے۔

غلو۔ (ء)بروزن غلو۔ بمعنی ہاتھ بلند کرنا۔ وہ بات جو عقل و عادت دونوں کے خلاف ہو جیسے؎
گردنی اوڑھ کے سو جائے اگر کوئی یئس
رات بھر خواب میں ٹاپا کرے اتر دکھن
نوٹ۔ اگر مذکورہ بالا محاورہ میں کوئی لفظ ایسا ہو جو اس کو قرین صحت کردے تو اس وقت غلو نہایت مقبول مبالغہ ہوجاتا ہے جیسے سودا کے اس شعر میں ہے ؎
کیا عجب لوگ ہتھیلی پہ جمالیں سرسوں
کیا عجب ہاتھ کے تل سے کوئی نکلے کونپل

تجرید۔ (ء) بروزن تفریق بمعنی تنہائی۔ اصطلاحاً بیک وقت صفت و موصوف کا ذکر ہو اور اس طرح کہ صاحبِ صفت کے ساتھ اسی قسم کی اور شے بھی پائی جائے جیسے؎
چہرۂ انور سے تیرے ماہ کامل آشکار
اور گیسوئے معنبر سے شب یلدا عیاں
یہاں چہرۂ انور کو ماہ کامل تصور کیا ہے۔ اور گیسو کو شب یلدا بہ سبب سیاہی مانا ہے۔
نوٹ:۔ بسا اوقات اسی صنعت کے ماتحت شاعر اپنے تخلص سے مخاطب ہوتا ہے جیسے؎
کعبہ کس منھ سے جاؤ گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی

صنعتِ حُسنِ تعلیل۔ کسی امر کی علت اس خوبی کے ساتھ بیان کرنا کہ سامع بہت
 

قیصرانی

لائبریرین
71 سے 74 کے اختتام تک کا لنک
74 کے اختتام سے 80
متقارب۔ یہ بحر بھی اردو میں عام ہے اور حسب ذیل اوزان مروج ہیں۔
1۔ متقارب مثمن سالم۔ فعولن فعولن فعولن فعولن
2۔ ایضاۢ ایضاۢ مبلغ۔ ایضاۢ ایضاۢ ایضاۢ فعولان
یہ دونوں وزن ایک بیت میں آ سکتے ہیں
3۔ ایضاۢ ایضاۢ مقصور۔ فعولن فعولن فعولن فعول
4۔ ایضاۢ ایضاۢ محذوف۔ ایضاۢ ایضاۢ ایضاۢ فعل
5۔ ایضاۢ ایضاۢ ابتر۔ ایضاۢ ایضاۢ ایضاۢ فع
بعض عروضی ان سب اوزان کے خلط کو جائز تصور کرتے ہیں
6۔ ایضاۢ ایضاۢ اتلم۔ فعلن فعولن فعلن فعولن
7۔ ایضاۢ ایضاۢ مسبغ۔ ایضاۢ ایضاۢ ایضاۢ فعولان
یہ وزن بھی ایک شمار ہوں گے
8۔ متقارب مثمن مقبوض اثلم۔ فعول فعلن فعول فعلن
9۔ ایضاۢ ایضاۢ اثرم۔ فاع فعولن فاع فعولن
10۔ ایضاۢ ایضاۢ اثرم اثلم۔ فاع فعولن فعلن فعلن
11۔ ایضاۢ ایضاۢ اثلم اثرم۔ فعلن فاع فعلون فعلن
12۔ ایضاۢ ایضاۢ اثلم۔ فعلن فعلن فعلن فعلن
13۔ ایضاۢ ایضاۢ اثلم اثرم ابتر۔ فعلن فاع فعولن فع
14۔ ایضاۢ ایضاۢ اثلم اثرم محذوف۔ فعلن فعلن فاع فعل
15۔ ایضاۢ ایضاۢ ایضاۢ مقصور۔ فاع فعلون فاع فعول
یہ جملہ اوزان ایک شمار ہوتے ہیں اور ان زحافات کا تقدم و تاخر عروضیوں نے جائز رکھا ہے۔ عروض فعولن فعولن فعلن فعلون بھی ان اوزان میں لائے ہیں۔
تعداد۔ یہ کل پندرہ وزن ہوئے اردو میں مسدس کے ارکان مستعمل نہیں ہیں۔
نوٹ 1۔ عروضی اس کے دوگنے اور چوگنے اوزان پر بھی غزلیں لکھتے ہیں۔
ایضاۢ 2۔ زحاف قبض کا استعمال فارسی میں روا نہیں یعنی وزن سالم میں اور وزن محذوف و مقصور میں جیسے صدرو ابتداء میں رکن اثلم یعنی فعلن کبھی آ گیا ہے اس جگہ مقبوض یعنی فعول کو نہ لانا چاہئے۔
ایضاۢ 3۔ عروضی مقبوض کو اس صورت میں لاتے ہیں جب پہلا رکن مقبوض اور دوسرا اثلم بالترتیب ہو۔
ایضاۢ 4۔ اس بحر میں حسب ذیل زحافات واقع ہوتے ہیں۔
تسیغ۔ قصر۔ حذف۔ بتر۔ ثلم۔ قبض۔ ثرم (7)
متدارک۔ محقق لکھتا ہے کہ یہ بحر مستعمل نہیں ہے اور شعر اس میں بہت کم پائے جاتے ہیں لہذا اس کو غریب بھی کہتے ہیں یہ بحر ابوالحسن اخفش نے وضع کی ہے۔
1۔ متدارک مثمن سالم۔ فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
2۔ ایضاۢ ایضاۢ ندال۔ ایضاۢ ایضاۢ ایضاۢ فاعلان
3۔ ایضاۢ ایضاۢ مجنون۔ فعلن فعلن فعلن فعلن
4۔ ایضاۢ ایضاۢ مسکن۔ فعلن فعلن فعلن فعلن
عربی میں ان کا خلط جائز ہے پارسی والے پہلے دو کا وزن ایک شمار کرتے ہیں اور تیسرے چوتھے وزن کے خلط کو روا رکھتے ہیں۔
تعداد: یہ کل چار وزن ہوتے ہیں۔
نوٹ 1۔ عروضی مجنون اور ساکن کے خلط کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔ اور ان کے نزدیک مصرعہ میں ایک رکن مجنون ہو اور باقی مسکن یا دو مجنون اور دو مسکن واقع ہوں۔ تو بحر میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔
ایضاۢ 2۔ موجودہ اوزان میں صرف تین زحاف آتے ہیں۔
اذالہ۔ خبن۔ ساکن (3)
ایضاۢ 3۔ میں تیسرے وزن کو مقطوع ہی تصور کرتا ہوں۔ کیونکہ قطع کی جہت سے فعلن بسکون عین حاصل ہوتا ہے۔ محقق کے نزدیک قطع عروض و ضرب میں آتا ہے۔ اور میں اس کو پابند نہیں کرتا۔ وہ اس کو مجنون مسکن تحریر کرتا ہے۔ میرے نزدیک خبن بھی مسکن نہیں ہو سکتا۔ اور جب خبن مسکن ہو سکتا ہے تو قطع بھی بعض حالات میں عروض و ضرب کے علاوہ آسکتا ہے۔ جو لوگ مقطوع اور مجنون مسکن دونوں کے قائل نہیں۔ ان کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ایک زحاف ساکن بھی ہے جیسا بتایا گیا ہے۔ لہذا وہ حضرات اس وزن کو متدارک مثمن خیال فرمائیں۔
سریع۔ یہ بحر مسدس مستعمل ہے۔ اردو میں سالم ارکان پر شعر نہیں کہتے ہیں۔
1۔ سریع مسدس مطوی موقوف۔ مفتعلن مفتعلن فاعلان
2۔ ایضاۢ ایضاۢ ایضاۢ مکسوف۔ ایضاۢ ایضاۢ فاعلن
یہ دونوں وزن آپس میں ایک ہیں اور ان کا خلط جائز ہے۔
تعداد: صرف دو وزن اردو میں آتے ہیں۔
نوٹ 1۔ فارسی اور اردو میں سب ارکان مطوی استعمال ہوتے ہیں اور سالم و مجنون میں شعر نہیں آتا ہے۔ عروضیوں کے نزدیک تین عروض یعنی مطوی موقوف فاعلان۔ مطوعی مکسوف فاعلن اور مطوی مجنون مکسوف فعلن بتحریک عین آتے ہیں لیکن آخر الذکر کے متعلق محقق کا قول ہے کہ یہ وزن نسرد یعنی سزاوار نہیں ہے۔
نوٹ 2۔ اس میں صرف تین زحاف آتے ہیں۔
طے۔ وقف۔ کسف (3)
خفیف۔ اردو میں یہ بحر مزاحف مستعمل ہے اور یہ مسدس ارکان پر مشتمل ہے۔
1۔ بحر خفیف مجنون مقصور۔ فاعلاتن مفاعلن فعلات
2۔ ایضاۢ ایضاۢ ایضاۢ مخذوف۔ ایضاۢ ایضاۢ فعلن
3۔ ایضاۢ ایضاۢ ایضاۢ مقطوع۔ ایضاۢ ایضاۢ فعلن
4۔ ایضاۢ ایضاۢ ایضاۢ ایضاۢ مسبغ۔ ایضاۢ ایضاۢ فعلان
یہ چار وزن ایک شمار ہوتے ہیں۔
تعداد: اردو میں کل چار وزن مستعمل ہیں۔
نوٹ 1۔ ضد و ابتداء میں فاعلاتن اور فعلاتن مجنون کا خلط جائز ہے۔
ایضاۢ 2۔ اس میں پانچ زحاف ہوتے ہیں۔
خبن۔ قصر۔ محذوف۔ قطع۔ تسیغ (5)
مضارع۔ اردو میں یہ بحر مسدس نہیں آتی۔ عام طور پر مثمن مزاحف مستعمل ہے۔ حسب ذیل اوزان مروج ہیں۔
1۔ مضارع مثمن اخرب۔ مفعول فاع لاتن مفعول فاع لاتن
2۔ ایضاۢ ایضاۢ ایضاۢ مسبغ۔ ایضاۢ ایضاۢ ایضاۢ فاعلییان
یہ دونوں اوزان ایک شمار ہوتے ہیں۔
3۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف مقصور۔ مفعول فاع لات مفاعیل فاع لات
4۔ ایضاۢ ایضاۢ ایضاۢ ایضاۢ محذوف۔ ایضاۢ ایضاۢ ایضاۢ فاع لن
یہ دونوں وزن ملتے جلتے ہیں۔
تعداد: یہ کل چار وزن ہوتے ہیں۔
نوٹ 1۔ اردو میں صرف مذکورہ بالا چار بحریں مروج ہیں مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ ان بحور کے علاوہ دوسری بحروں میں شعر کہنا غلطی ہے۔
ایضاۢ 2۔ اس میں پانچ زحاف مستعمل ہیں۔
خرب۔ تسیغ۔ کف۔ قصر۔ حذف (5)
نکات: 1۔ اردو میں اس وقت صرف بارہ بحریں مروج ہیں۔ جن کی تفصیل یہ ہے۔
وافر۔ اس کے عربی وزن تو بہت ہیں مگر اردو میں صرف ایک وزن مروج ہے۔
کامل۔ اس کا بھی ایک وزن مستعمل ہے۔
ہزج۔ اس کے اٹھارہ وزن استعمال میں ہیں اور یہ وزن بہت عام ہیں۔
رجز۔ اس کی چھ قسمیں ہیں۔
رمل۔ یہ وزن بھی عام ہے اور اس کے تیرہ اوزن آتے ہیں۔
متقارب۔ یہ وزن بھی بہت مستعمل ہے اس کے پندرہ اوزان آتے ہیں۔
متدارک۔ یہ چار طرح پر مستعمل ہے۔
سریع۔ اس کے دو وزن مروج ہیں۔
خفیف۔ اس کے چار وزن ہیں۔
منسرج۔ اس کے چار وزن آتے ہیں۔
مجتث۔ یہ چار طرح پر مستعمل ہے۔
مضارع۔ یہ بھی چار وزن رکھتی ہے۔ اس حساب سے اردو میں کل تعداد بحور چھہتر 76 ہوتی ہے اور چوبیس رباع کے اوزان مروج ہیں۔
2۔ کل تعداد زحاف جو اردو میں مستعمل ہے حسب ذیل ہیں۔
اضمار۔ تسبیغ۔ قبض۔ شتر۔ خرب۔ کف۔ قصر۔ حذف۔ خرم۔ ہتم۔ جب۔ زلل۔ بتر۔ خبن۔ طے۔ اذالہ۔ شکل۔ قطع۔ ثلم۔ ثرم۔ ساکن۔ وقف۔ کسف۔ جدع۔ نحر (25)
اگر مبتدی حضرات صرف ان پچیس زحافات کو ذہن نشین کر لیں تو بہت سی عروضی مشکلات دور ہو جاتی ہیں۔
3۔ ذو بحرین اس وزن کو کہتے ہیں جو بہ اختلاف زحافات دو بحروں میں آئے۔ جیسے
عاقل از عیش تلخ عازم گردد
باشد ایمن ہر انکہ غافل گردد
پہلا مصرعہ تین بحروں میں آتا ہے۔
1۔ ہزج مثمن اخرم اشتر ابتر۔ مفعولن فاعلن مفاعیلن فع۔ یہ وزن رباع کا ہے اور اس کی صورت یہ ہے کہ عاقل کے لام کو متحرک نہ کیا جائے اور الف کا اظہار کریں۔
2۔ سریع مثمن مطوی مسکن منحور۔ مفتعلن فاعلات مفعولن فع۔ میں نے مفعولات کو فرع میں فع کو اثلم مجذوف تحریر کیا ہے۔ جیسا کہ محقق نے لکھا ہے مگر تشریح زحاف میں مصر پر روشنی ڈالی جا چکی ہے۔ مفعولن درحقیقت قطع کی جہت سے حاصل ہوا ہے مگر طوسی نے اس کو مجنون مسکن لکھا ہے۔ میں مقطوع لکھتا ہوں۔ چونکہ ساکن زحاف وضع کر لیا گیا ہے اس لئے مسکن تحریر کیا گیا ہے اس کی تقطیع یوں ہوگی۔ کہ عاقل کے ق کو متحرک اور لام کو متحرک شمار کریں گے کہ مابعد اس کے ہمزہ وصل ہے۔ ہمزہ عربی میں الف متحرک کو کہتے ہیں۔
3۔ خفیف مجنون مشعت۔ فاعلاتن مفاعلن مفعولن۔ اور اس کی صورت یہ ہے کہ ہمزہ یعنی الف کو تلفظ میں نہ لائیں۔ لیکن دوسرا مصرع اسی وزن میں آتا ہے۔ اسی طرح یہ شعر بھی ہے۔
ہست کلید در گنج کلیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
پہلا مصرعہ تو بحر سریع مطوی موقوف میں واقع ہوتا ہے جس کا وزن مفتعلن مفتعلن فاعلات ہے۔ لیکن دوسرا مجموعہ بہ اختلافات زحافات تین بحروں میں آ سکتا ہے۔
1۔ بحر سریع مسکن موقوف۔ مفعولن مفعولن فاعلات۔ مفتعلن قطع کی جہت سے مفعلون ہوا اس لئے مسکن لکھا گیا کہ قطع بقول طوسی عروض و ضرب میں آتا ہے۔
بسم اللہ۔ مفعولن۔ ہ الرحم۔ فعولن۔ ن الرحیم۔ فاعلات
 
آخری تدوین:

حاتم راجپوت

لائبریرین
صفحہ نمبر 121 تا 130
اصطلاحاتِ عِلمِ معانی


مُذَکَّرْ۔(ء) بروزن مُغَنِیّ۔ بمعنی نر۔ مادہ کی ضد اس کو تذکیر بھی کہتے ہیں۔ اصطلاحا وہ لفظ جو نر ہوں۔ جیسے کُتا ، گدھا ، بخار ، جاڑہ وغیرہ۔

مُوَنَّثْ۔(ء) بروزن معلقّ۔ بمعنی مادہ۔ وہ الفاظ جو مذکر کی ضد ہوں۔ اس کو تانیث بھی کہتے ہیں۔ جیسے کتیا ، گدھی ، گرمی ، خاک وغیرہ۔

وَاْحِدْ۔ (ء) بروزن زاہد۔ بمعنی ایک۔ وہ لفظ جس کی تعداد ایک ہو۔ جیسے اونٹ مر گیا۔ یہاں اونٹ بطور واحد مستعمل ہے۔

جَمَعْ۔(ء) بروزن شام۔ بمعنی بہت ۔وہ لفظ جو ایک لفظ سے زیادہ تعداد ظاہر کرے۔ جیسے بہت سے گھوڑے موجود تھے۔ یہاں گھوڑے جمع کا صیغہ ہے۔

تَثْنِیَہ۔ (ء) بروزن پرنیہ۔ بمعنی دو۔ عربی وہ لفظ جو صرف دو کی تعداد ظاہر کرتے ہیں اور عموما یائے مجہول اور نون کے اضافہ سے اس کو بناتے ہیں جیسے قمر سے قمرین ۔ واضح ہو کہ یہ نون ہمیشہ اعلان کے ساتھ بولا جائے گا اور اس کے ماقبل حرکت مفتوخہ ہو گی۔

مُخْتَلِفْ فِیہْ۔ (ء) وہ الفاظ جو تذکیر و تانیث میں دونوں طرح سے مستعمل ہیں ۔ جیسے نقاب اُلٹی اور نقاب اُلٹا دونوں طرح سے لکھتے ہیں۔

مُتَکَلِّمْ۔ (ء) بر وزن متقاضی۔ بمعنی کلام کرنے والا۔ اردو میں صرف دو لفظ ہیں، میں اور ہم۔



صفحہ نمبر 122

مُخَاْطِبْ۔ (ء) بروزن مداری۔ بمعنی جس سے تخاطب کیا جائے۔ اس کو حاضر بھی کہتے ہیں۔ اردو میں تو اور تم دو لفظ ہیں لیکن آپ ، جناب ، سرکار ، حضور جیسے لفظ بھی اسی ضِمن میں شامل ہیں۔

غَاْئِبْ۔ (ء) بروزن نائب۔ بمعنی چھپا ہوا۔ اصطلاحا وہ لفظ جس سے غیر حاضر کی جانب اشارہ ہو اور وہ لفظ اردو میں دو ہیں۔جیسے یہ ، وہ ۔ لیکن یہ بعض حالات میں اسمِ اشارہ ہو کر قربت ظاہر کرتا ہے جیسے۔ آپ سے معلوم کیجئے۔یہ تو وہاں خود موجود تھے۔

اِشْتِقَاْق۔ (ء) بروزن اتفاق۔ بمعنی نکالنا۔ پیدا کرنا۔ ایک چیز کا دوسری چیز سے۔ اصطلاحا ایک کلمہ سے دوسرا کلمہ نکالنا۔ جیسے ملنا سے ملاپ۔ کھانسنا سے کھنکار- اس کو مشتق منہہ اور جو کلمہ نکالا جائے اسے مشتق کہتے ہیں یعنی ملنا مشتق منہہ اور ملاپ مشتق ہے۔

وَزْن۔ (ء) بروزن شرم- بمعنی ناپ تول - اصطلاحا ایک لفظ کی حرکات و سکنات دوسرے لفظ کے برابر ہوں ۔ جیسے دل کا وزن سر۔ کتے کا وزن بلی۔ پاس کا وزن پیار وغیرہ۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔ صرفی و عروضی۔

صَرْفِیْ۔ (ء) بروزن برفی۔ بمعنی وہ لفظ جس میں جس میں ایک لفظ کی حرکات و سکنات دوسرے لفظ کے حرکات و سکنات کے برابر ہوں اور یکساں ہوں۔ جیسے دل۔مل۔ نظر۔ اثر وغیرہ

عَرُوْضِیْ۔ (ء) بروزن ضروری- بمعنی وہ وزن جس کی حرکات و سکنات تو یکساں ہوں مگر ان کا برابر ہونا لازمی نہیں۔ جیسے کتا بلی اور نظر۔ قوی کا وزن ایک شمار ہو گا۔

شکل صفحہ نمبر 122


صفحہ نمبر 123

تَعْرِیفْ۔ (ء) بروزن تاریخ۔ بمعنی خوبی بیان کرنا۔ اصطلاحا کسی چیز کی ذاتی صفات اس طرح بیان کرنا کہ سننے والا اس بیان سے بالکل اسی شے کو تصور کرے۔ جیسے آم بہت میٹھا ہے۔ یہا لفظ میٹھا آم کی صفت کو ظاہر کرتا ہے۔

سَمَاْعِیْ۔ (ء) بروزن کمائی۔ بمعنی سنی ہوئی۔ اصطلاحا وہ کلمہ جو اصول قواعد کے خلاف ہو۔ جیسے جانا مصدر سے گیا۔ ماضی مطلق بنا لیا ہے۔ یا بھونک سے بھونکا اسم فاعل سماعی بنا لیں۔

قِیَاْسِیْ۔ (ء) بروزن سیاسی۔ بمعنی منسوب بہ قیاس۔ اصطلاحا وہ کلمہ جو اصول قواعد کے موافق ہو جیسے دئکھنا مصدر سے دیکھا ماضی مطلق بنا لیا ہے۔

مَاْقَبلْ۔ (ء) جو کچھ پہلے موجود ہو خواہ وہ لفظ ہو یا کوئی حرف۔ جیسے آج کل میں کل ماقبل کا واقع ہوتا ہے یا دل میں دٓ ماقبل لٓ ہے۔

مَاْبَعْد۔ (ء) جو کچھ بعد میں ہو خواہ وہ کوئی لفظ ہو یا کوئی حرف جیسے آج کل میں کل مابعد آج ہے یا سر میں میں را ما بعد س ہے۔

مَعْنِیْ۔ (ء) بروزن فانی۔ بمعنی مفہوم ۔مطلب۔ اصطلاحا کسی کلمہ سے جو بات سمجھی جائے وہی اس کے معنی مراد ہوتے ہیں۔ اگر کسی کلمہ کے بغیر کوئی مطلب سمجھ میں آ جائے تو اس لفظ کے معنی مستقل ہو گے ورنہ غیر مستقل۔ اس کی دو صورتیں ہیں لغوی یا اصطلاحی۔

لُغْوِیْ۔ (ء) بروزن کرسی ۔بمعنی لغت سے متعلق۔ اصطلاحا لفظ کے اصل معنی جیسے قلب بمعنی دل۔

اِصْطِلاَحِیْ۔ (ء) بروزن تلملائی۔ بمعنی مجازی۔ یعنی لفظ کے وہ معنی جو تعریف کے ساتھ مستعمل ہوں جیسے آفتاب بمعنی شراب۔


صفحہ نمبر 124

شکل صفحہ نمبر 124
خواص الحروف۔ اساتذہ نے اس باب میں بہت مدلل اور بہت مفصل کتابیں تحریر کی ہیں۔ مگر میں یہاں صرف ان باتوں کا ذکر کروں گا جو اردو میں مستعمل ہیں۔ محققین علم معانی نے ہر ایک حرف کے متعلق اس کے خواص بیان کئے ہیں۔

اَلِفْ۔ (ء) بروزن قوی- بمعنی مرد مجرد۔ کنایتہ ذات احدیت۔ قامت دلبر۔ سروبسی۔ اس کے علاوہ حسب ذیل صورتوں میں بھی آتا ہے۔

١۔ اشباع کی صورت میں جیسے دامن سے داماں۔پیرہن سے پیراہن کا الف۔
٢۔ الف فاعلی- جیسے گویا۔ جویا۔ دانا اور بینا کا الف۔
٣۔اتصال کی صورت میں۔ جیسے رنگا رنگ اور شباشب کا الف۔
٤۔ عطف کی جگہ۔ جیسے شب و روز سے شبا روز۔ جامی ؎
ہمہ دور شیا روزی گرفتہ بمقصد راہ فیروزی گرفتہ

٥۔ تانیث کے لئے ۔ جیسے عقبیٰ کا الف۔
٦۔ جمع کے واسطے۔ جیسے تصویر سے تصاویر۔ ولی سے اولیا کا الف
٧۔ تنوین کی صورت میں۔ جیسے احتیاط سے احتیاطا۔
٨۔ ربط اور قسم کے لئے۔ جیسے لقا کا الف۔
٩۔ کثرت کے واسطے۔ جیسے خوشا کا الف۔
١٠۔ ندا کی صورت میں۔ جیسے ساقیا۔ لا کا الف لیکن اساتذہ اس الف کا ترک بہتر خیال کرتے ہیں۔
١١۔ ندبہ کی صورت میں ۔ جیسے حرتا کا الف۔


صفحہ نمبر 125

١٢۔ بدل کی صورت میں۔ جیسے موسیٰ و عیسیٰ بجائے یا کہیں بجائے واؤ بھی مستعمل ہے جیسے مصطفو اور مرتضو سے مصطفیٰ اور مرتضیٰ۔
١٣۔ اعضاء کے واسطے- جیسے سراپا میں بعد رائے مہملہ۔
١٤۔ وصل کی صورت میں- یہ الف ساقط ہو کر بھی لفظ اپنے حقیقی معنی دیتا ہے۔ جیسے ابراہیم سے براہیم یا اسماعیل سے سماعیل۔ اس الف کو زائد کہنا غلطی ہے۔ یہ الف جزو الف ہوتا ہے۔ ابراہیم عبرانی لفظ ہے جس کو ابراہام سے معرب کیا گیا ہے۔ اسماعیل عربی لفظ ہے۔ اس کو یشمع ایل سے معرب کیا گیا ہے۔
١٥۔ زائد کی صورت میں جیسے فارسی میں بے کی جگہ ابے۔ سعدی ؎
بدو گفتابد را بے کام تو پنویم بحویم بحر نام تو ٗ
یا بر کی جگہ ابر استعمال کریں جیسے فردوسی ؎ نے لکھا ہے۔
ابر بارہ جنگ جوئے سوار بروں آمد از قلعہ دیو سار

نوٹ۔ متذکرہ بالا تازی اور پارسی سے متعلق ہیں۔ اردو میں الف کا استعمال حسب ذیل طریقوں پر کیا جاتا ہے۔

١۔ وسط فعل میں آکر لازم کو متعدی بناتا ہے جیسے ملنا۔ چلنا اور اُٹھنا سے ملانا۔ چلانا اور اُٹھانا کا درمیانی الف۔
٢۔ امر کے بعد ماضی مطلق کی صورت میں جیسے دیکھ۔ بیٹھ سے دیکھنا اور بیٹھنا۔
٣۔ نفی کی صورت میں۔ جیسے اچھوتا کے شروع میں یعنی جو چھونے سے محفوظ ہے-
٤۔ صفت مشبہ مذکر کی صورت میں۔ جیسے کالا گورا کا الف۔
٥۔ تعین مراتب کے لئے- جیسے پہلا ۔ دوسرا۔ تیسرا۔ چوتھا اور چھٹا کا الف۔
٦۔ بزرگی اور بڑا پن ظاہر کرنے کے لئے۔ جیسے ٹوکری سے ٹوکرا کا الف۔
٧۔ تصغیر کے لئے- جیسے کلو سے کلوا کا الف۔


صفحہ نمبر 126

٨۔ نسبت کے لئے ۔جیسے مونگیا- دودھیا کا الف۔ کبھی دو کلموں کے درمیان بھی نسبت کے لئے آتا ہے جیسے بھیڑیا دہسان میں۔

الف تازی اور پارسی شکل صفحہ نمبر 126

الف اردو شکل صفحہ نمبر 126
ب۔ ١۔ فارسی میں ربط کلام کے لئے اور بمعنی "کو" سعدی ؎
بدو و گفت سالار بیت الحرام کہ اے حامل وحی برتر خرام
یہاں بدو بمعنی اور مستعمل ہے۔
٢۔ علّت کی صورت میں اور سبب کے معنی میں۔ سعدی ؎
بہ نطق آدمی بہترست از عذاب دواب از توبہ گرنگوئی مواب
یہاں بہ بمعنی بسبب نطق مراد ہے۔
٣۔ قربت کی صورت میں۔ جیسے بدرخت گل رسیدم یعنی اے نزد درخت گل۔
٤۔ صحبت کی صورت میں۔ جیسے باہوش و خرد۔ یعنی ہوش و خرد کے ساتھ۔
٥۔ ظرف کی صورت میں۔ جیسے خسرو ؎


صفحہ نمبر 127

٦۔ قسم کے واسطے۔ جیسے بہ یزداں۔ بمعنی قسم ہے یزداں کی۔
٧۔ زیادت کی صورت میں اور ماضی مضارع۔ امر کے ساتھ لیکن معنی نہیں دیتی جیسے بگفت۔ بجائے گفت۔
٨۔ استعانت کے لئے- جیسے نظامی ؎ کے یہاں۔
بہ لشکر تواں کرد ایں کار زار بہ تنہا چہ بر خیز دازیک سرمار
٩۔عوض کی صورت میں نظامی۔
چود و یا خرد گوہر از کان تنگ دہد کشتیء دربہ یکپارہ سنگ
دوسرے مصرع میں بہ بمعنی عوض مراد ہیں۔
١٠۔ ۔۔۔۔ اور برکت کی صورت میں۔ جامی ؎
خداوندا بہ پیران جواں بخت بود تا آسماں چترو زمیں تخت
١١۔ توسط کے لئے ۔ نظامی ؎
نہر پر کجا یافت قدرے تمام بدولت ذرائے بر آورد نام
١٢۔ ابتداء کے لئے- سعدی ؎
بنامِ جہاندار جاں آفریں کلیمے سُخن بر زباں آفریں
١٣۔ تا کے معنی میں جیسے۔ء
زمشرق بہ مغرب کشیدہ ظناب
١٤۔ مطابق کے معنی میں جیسے ۔ بہ فرمان قاضی۔ یعنی فرمان قاضی کے مطابق۔
١٥۔ طرف و جانب کے معنی میں۔ نظامی ؎
ہمہ پُشت بر مہر و ماہ آورند بہ دین حقیقی پناہ آورند
بہ دین حقیقی سے مراد ہے سوئے ملت ابراہیم۔
١٦۔ تعدیہ کی صورت میں۔ یعنی علامت مفعول "کو" کے معنی میں نظامی کا شعر ؎


صفحہ نمبر 128

بخوا ہندگان بخشم از مال و گنج کہ از باز دادن نیابم بہ رنج
نوٹ۔ فارسی میں ب کا استعمال کئی طرح سے ہے۔ یہاں صرف ان باتوں کا ذکر کر دیا گیا ہے جو بہت عام ہیں ۔۔۔ اردو میں فارسی کا تتبع کیا گیا ہے۔ فصحاء اردو میں اس کے استعمال کو زیادہ پسند نہیں کرتے تاہم حسب ذیل صورتوں میں مستعمل ہے۔
١۔ ''سے '' کے معنی میں جیسے بسرو چشم۔
٢۔ مقابل کے معنی میں جیسے روبقیلہ۔ روبرو۔
٣۔ اتصال کے واسطے جیسے روز بروز۔ ماہ بماہ۔ رنگ برنگ۔
٤۔ قَسْمِیَہ۔ جیسے بخدا۔
٥۔مطابقت کے لئے جیسے ء
آئینہ بروئے دوست آیا​
٦۔ توسل کے لئے۔ جیسے حزیں کا شعر ؎
یا رب بہ نشید سینہ ریشاں یا رب بہ نیاز مہر کیشاں

شکل صفحہ نمبر 128


صفحہ نمبر 129

پ۔ یہ فارسی اور اردو میں مشترک ہے۔ اس کے استعمال کی صورتیں حسب ذیل ہیں۔

١۔ بدل کی صورت میں۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔
١۔ ف سے تبدیل ہو جاتی ہے جیسے پیل و فیل۔ سپید و سفید۔
٢۔ بائے موحدہ سے جیسے اسپ کی جگہ اسب۔

٢۔ لفظ کے آخر میں مصدری معنی دیتی ہے ۔ جیسے ملاپ میں۔ یہ استعمال اردو میں ہوتا ہے۔

شکل صفحہ نمبر 129
نوٹ۔ بائے موحدہ بھی بدل کی صورت میں آتی ہے۔ اور اس کی بھی دو صورتیں ہیں۔
١۔ میم سے بدل جاتی ہے جیسے غشرب سے غشرم بمعنی دانہ انگور۔
٢۔واؤ سے بدلتی ہے جیسے سیب سے سیو۔ نہیب سے نہیو۔
٣۔ ف سے تبدیل ہوتی ہے جیسے تب و تف۔ شب و شف۔ چونکہ یہ بہت پرانی تقلید ہے۔ اور متاخرین اس کو ترک کر چکے ہیں اس لئے شجرہ میں ظاہر نہیں کی گئی۔

ت۔ اس کے لغوی معنی ضمیر کے آتے ہیں۔ اس کا استعمال حسب ذیل صورتوں میں ہوتا ہے۔


صفحہ نمبر 130

1۔ ضمیر حاضر ملحق۔ جیسے کویت کی ت۔ یہ فاعلی۔ مفعولی اور اضافی حالت میں آتی ہے۔
2۔ ضمیر حاضر مفعولی۔ یہ علامت مفعول سے پیشتر آتی ہے۔ اور مذکورہ بالا کلمہ فاعلی کے آخر میں آتی ہے جیسے تُرا میں ت ہے۔
3۔ زائد۔ بعض الفاظ میں اساتذہ نے اس کو آخر میں زیادہ کر دیا ہے جیسے فرامش فرامشت یا بالش سے بالشت۔
4۔ بدل کے لئے۔ اس کی چار صورتیں ہیں۔
(١) بصورت جیم۔ جیسے تارات سے تاراج۔
(٢) بصورت دال مہملہ جیسے توت سے تود۔زرتشت زادشت و گنبد سے گنبت و دیدید (فعل جمع حاضر) سے دیدیت لیکن یہ صورت شازونادر مستعمل ہے۔
(٣) بصورت طا مہملہ۔ جیسے بستر سے سطر۔
(٤) بصورت کاف جیسے چاشت سے چاشک وغیرہ۔
(٥) تا کے معنی میں جیسے تا قیام یعنی قیام تک۔
(٦) شرط کے لئے اور اس کی صورت بھی نا ہوتی ہے۔ نظامی ؎
تا نفگسندند مزست از امید تا نشکتند نشد رو سپید
(٧) ابتدا کی صورت میں جیسے نا با خیال۔
(٨) انتہا کی صورت میں جیسے تا سدرہ۔
(٩) علّت کی صورت میں جیسے تا ہمدم۔
(١٠) کاف بیانیہ کے معانی میں۔ نظامی ؎
صُبح بدال می دہدت طشت زر تا توز خود دست بشوئی مگر
 
Top