فکر و فن ( ٹائپنگ جاری۔۔)

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۸۶

فاعلی : وہ ضمیر جو جملہ فعلیہ میں کسی فعل کا فاعل ہو یا جملہ اسمیہ میں مبتدا ہو جیسے وہ آ گیا۔ تو آیا۔

مفعولی : وہ ضمیر جو کسی فعل کا مفعول ہو جیسے اس کو دبا، ان کو ملا وغیرہ۔

اضافی : وہ ضمیر جس کے ساتھ کسی چیز کا تعلق پایا جائے جیسے ان کا گھوڑا۔ میری کتاب وغیرہ ہیں۔

صفتی : وہ ضمیر جو کسی صفت کا موصوف ہو اور جس میں کوئی اسم ظاہر اُس کی تعریف کرے جیسے مجھ ناتواں نے، مجھ ضعیف کو، اس کمبخت کو، وغیرہ۔


نوٹ (1) : ضمیر فاعلی امر کے ساتھ خصوصاً اور ہر فعل کے ساتھ عموماً صفت ہوتا ہے جیسے چلے جاؤ یہاں سے، پرسوں ضرور آؤں گا۔

(2) اہل قواعد ضمیر صفتی کو علیحدہ قسم ضمیر تصور نہیں کرتے۔ ان کا قول ہے کہ صفت کے ساتھ مل کر مفعول ہوئی تو مفعولی ہے۔ مضاف الہ ہے تو اضافی اور فاعل یا مبتدا کی صورت میں فاعلی ہے۔

(3) ضمیر فاعلی وہ کے بعد جب حروف مغیرہ میں سے کوئی حرف آئے تو واحد میں "اس" اور جمع میں "ان" آتا ہے۔ اور "تو" یا "میں" کے بعد "تجھ" یا "مجھ" لکھتے ہیں جیسے اس کو، ان کو، تجھ سے، مجھ تک وغیرہ، مگر نے سے پہلے "یہ" اُس اور وہ، اس اور انھوں سے تبدیل ہو جاتا ہے۔

(4) جب ایک جملہ میں فاعل، مفعول اور ضمیر اضافی ایک ذات پر دلالت کریں تو ضمیر اضافی کو اکثر اپنا، اپنے اور اپنی سے بدل دیتے ہیں۔ بعض وقت متکلم ہمارا کی جگہ بھی اپنا لکھتے ہیں۔ جیسے میرؔ ء

چشم پر آپ نے دیکھا نہ کبھی ساغر مے
آشنا ایسے کنویں سے نہیں تالاب اپنا

(5) اپنا، اپنے، اپنی بھی ضمیر کا کام دیتے ہیں جیسے اپنا کام خود کرتا ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۸۷

(6) حروف مغیرہ میں کوئی حرف مضاف کے بعد آئے تو اپنا کا الف نے سے بدل جاتا ہے جیسے اپنے کام کی خود قدر کرنی چاہیے۔

(7) کبھی اس کی تکرار بھی حسن پیدا کر دیتی ہے جیسے اپنے اپنے گھروں سے باہر مت نکلو۔ اپنی اپنی سمجھ اپنا اپنا خیال۔

(8 ) آپ یا خود کبھی ضمیر اور کبھی اسم ظاہر کی تاکید کے لئے آتے ہیں۔ جیسے وہ آپ آیا۔ زید خود چلا گیا۔

(9) اردو ضمیر کا استعمال جمع اور واحد میں ہونا ہے۔ مگر تذکیر و تانیث میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔

(10) لفظ تو کا استعمال بطور واحد خدا کے لیے آتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ محبت، غصہ، بے تکلفی، بے وقتی کو بھی ظاہر کرتا ے۔ اکثر نظموں میں بڑے بڑے لوگوں کو بھی "تو" سے تخاطب کر لیتے ہیں۔ تم کا استعمال تو، اور آپ کی درمیانی حالت میں کیا جاتا ہے۔ آپ تعظیماً اور طعن کے موقعوں پر ہوتا ہے۔ ہم جمع کا صیغہ ہے لیکن بطور واحد بھی استعمال کر لیتے ہیں۔ جیسے مومنؔ کے شعر میں ہم کا تخاطب مومن سے ہے :

ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنھیں چاہ کے ارماں ہونگے

لیکن مذکورہ بالا صورت میں ہم کے ساتھ فعل جمع ہی میں لایا جائے گا۔

مرجع : (ء) بروزن پردہ، بمعنی جائے رجوع۔ اصطلاحاً، جس چیز کو ضمیر شخصی بناتی ہے، اس کو مرجع کہتے ہیں بالعموم مرجع ضمیر سے پہلے ہونا چاہیے مگر نظم کی پابندیوں سے کبھی ضمیر مرجع سے پہلے آ جاتی ہے۔ اس کو اضمار قبل الذکر بھی کہتے ہیں۔

ضمیر تنکیر : اس ضمیر کو کہتے ہیں جو غیر معین اشخاص یا اشیاء کے لئے آئے۔ یہ صرف دو
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۸۸

ہیں۔ کوئی، کچھ، واضح ہو کہ لفظ کوئی اشخاص کے لئے (یہاں کوئی نہیں آیا) اور کچھ اشیاء کے واسطے (تمہیں کچھ نہیں سوجھتا) استعمال ہوتے ہیں۔ تنکیر کے لغوی معنی ہیں عام کرنا۔ بھیس بدلنا وغیرہ۔

نوٹ : (1) عربی میں "بعض" بھی تنکیر کا کام دیتا ہے۔ اکثر اردو میں بعض حضرات ‘بعضا شخص‘، ‘بعضے لوگ‘، ‘بعضی عورت‘ لکھتے ہیں، بولتے ہیں، مگر یہ سراسر غلط ہے۔ صرف بعض لکھنا اور بولنا چاہیے۔

(2) کہیں یہ دوسرے ضمائر کے ساتھ بھی مستعمل ہے۔ جیسے کوئی اور، جو کوئی، اور کچھ، جو کچھ، سب کچھ، جس کسی، جیسا کچھ، کوئی کیسا، وغیرہ۔

(3) کبھی ضمائر استفہامی سے بھی ضمیر کا کام لیتے ہیں جیسے میں نہیں بتا سکتا کون آیا اور کون گیا۔ بعض وقت کوئی بھی استفہام کا کام دیتا ہے، جیسے :

کاوش غم دور ہو میرے دل ویراں سے کیا
خار جاتے ہیں کوئی صحرا کا دامن چھوڑ کر

[TODO: Add Chart]

صفت ضمیری : یہ وہ صفات ہیں جن میں تھوڑی بہت ضمیر کی خاصیت پائی جاتی ہے۔ یہ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ صفات ذاتی اور صفات مقداری۔

ذاتی : مثلاً ایسا، ویسا، جیسا، کیسا، وغیرہ۔ ان کو کلماتِ تشبیہہ بھی کہتے ہیں۔

مقداری : مثلاً اتنا، اُتنا، جتنا، کتنا، وغیرہ۔ ان کو کلمات استفہام بھی کہتے ہیں۔

نوٹ : (1) حسب ذیل الفاظ بھی صفت ضمیری ہیں۔ ایک، دوسرا، دونوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۸۹

بہت، بعض، غیر، فلاں، سب، ہر، کئے، چند، کل، وغیرہ۔

(2) ایک صفت عددی ہے لیکن جب ضمیر ہو تو اس کے جواب میں کبھی ایک کبھی دوسرا ہوتا ہے۔ جیسے ایک آتا ہے، ایک جاتا ہے۔ یا ایک دوسرے کو خبر نہیں۔

(3) ہر کسی لفظ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ لیکن ہر علماء، ہر شعراء لکھنا غلطی ہے۔ یعنی جمع کے ساتھ نہیں لکھنا چاہیے۔

[TODO: Add Chart]

فعل : (ء) بروزن جیل، بمعنی کام، جنبش، اصطلاحاً جس سے کام کرنا یا ہونا پایا جائے۔ اس کی چار قسمیں ہیں۔ لازم، متعدی، ناقص، معدولہ (۴)

لازم : (ء) بروزن قاتل، بمعنی ضروری۔ یہ وہ فعل ہے جس کا اثر صرف کام کرنے والے یعنی فاعل سے متعلق ہو۔ جیسے زید آ گیا۔ ہم آ گئے وغیرہ۔

متعدی : (ء) بروزن متقاضی۔ بمعنی اپنی حد سے بڑھ جانے والا۔ یہ وہ فعل ہے جس کا اثر فاعل کے علاوہ مفعول تک ہو۔ جیسے زید نے قلم بنایا۔ یہاں بنایا کا فاعل زید ہے مگر اس کا اثر قلم سے متعلق ہے۔

ناقص : (ء) بروزن لازم، بمعنی ادھورا۔ یہ وہ فعل ہے جو کسی پر اپنا اثر تو نہیں ڈالتا۔ مگر اثر کو ثابت کرتا ہے۔ جیسے خالد کمزور ہے۔ یہاں ہے سے خالد کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے۔ یہ فعل کم سے کم دو اسموں کے ساتھ آتے ہیں۔ ایک جزو کو اسم دوسرے کو خبر کہتے ہیں۔ افعال ناقصہ حسب ذیل ہیں۔ ہونا، ہو جانا، معلوم ہونا، نظر آنا، بن جانا، بننا، لگنا، رہنا، پڑھنا، نکلنا، ان میں سے ہونا، ہو جانا، نظر آنا یا دکھائی دینا۔ ہمیشہ فعل ناقص کے طور پر
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۹۰

استعمال ہوتے ہیں۔ باقی افعال کبھی لازم کی صورت میں بھی تبدیل ہوجاتے ہیں۔

مبدولہ : (ء) بروزن مسروقہ۔ اصطلاحاً وہ واؤ جو لکھا تو جائے مگر پڑھنے میں نہ آئے یہ لازم ہے نہ متعدی۔ اس سے کسی کا ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ کرنا ظاہر نہیں ہوتا۔ اور اس کا میلان مجہول کی طرف ہوتا ہے۔ جیسے بکنا، بجنا، بچنا وغیرہ۔

[TODO: Add Chart]

فاعل : (ء) بروزن حاصل۔ بمعنی کام کرنے والا۔ یعنی وہ شخص جو کام کرے جیسے زید نے خوب سبق یاد کیا۔ واضح ہو کہ وہ شے فاعل ہو گی۔ جس پر کام کرنے کا اطلاق ہو۔ جیسے مہرؔ فوقی بدایونی۔ ء

دشت شرما رہا ہے گلشن کو

یہاں دشت فاعل ہے۔

مفعول : (ء) بروزن منقول، بمعنی کام کیا گیا ہوا۔ اصطلاحاً جس پر فاعل کے کام کا اثر ہو۔ جیسے مذکور بالا مثال میں دشت فاعل ہے اور گلشن مفعول ہوا۔

نوٹ :

(1) فعل میں زمانہ بھی پایا جاتا ہے جیسے وہ آیا، وہ آیا ہے، وہ آئے گا۔

(2) فعل میں زمانہ کے ساتھ کام کا ہونا یا کرنا بھی پایا جاتا ہے۔

(3) صبح، شام، رات، دن، کل، پرسوں، اترسوں، میں اگرچہ زمانہ پایا جاتا ہے، مگر یہ فعل نہیں ہیں۔ اسی طرح چلنا، پھرنا میں کام کا ہونا پایا جاتا ہے۔ ان میں زمانہ نہیں ہے اس لئے ان کو مصدر کہیں گے۔

مصدر : (ء) بروزن سرور، بمعنی نکلنے کی جگہ چونکہ ان سے افعال مشتق ہوتے ہیں۔ جیسے چلنا سے چلا، چلے سے چلو وغیرہ۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
231
پر جیسے میں نے سمجھایا مگر وہ نہ مانا۔ میں نے بتایا لیکن وہ نہ سمجھا۔ لیک و لیک و لیکن و لے۔ اب کوئی نہیں لکھتا ہے۔ ان کے یہاں سب تھے البتہ میری کمی تھی۔ میں نے تو کیا بلکہ خود انھوں نے بلایا تھا۔ میں کہنے بھی نہ پایا تھا کہ وہ خود بول اٹھے۔ اگرچہ میں نے ان کو بلایا مگر وہ نہیں آئے۔ گو و آئے مگر بے جی۔ عام طور پر اگرچہ اور گو کے جواب میں لیکن یا مگر ضرور ہوگا ۔ پہ بمعنی لیکن اب متروک ہے جیسے سنو پہ یہ سمجھ کر سنو۔ پر بھی لیکن کے معنی میں اب کوئی نہیں لکھتاہے۔ اگرچہ اور گو کہ جواب میں پھر بھی۔ تو بھی ۔ تب بھی ۔ اور تاہم بھی لکھتے ہیں۔ مگر کبھی کبھی۔ حضرت امیر مینائی کا خیال ہےکہ اگرچہ میں چہ محض تاکیدی ہے اس سے ربط اور وصل مقصود ہوتا ہے۔ گر اور اگرچہ۔ اگر اور اگرچہ ایک ہی چیز ہیں۔
سو بھی۔ اس معنی میں آیا ہے مگر اب کوئی نہیں لکھتا جیسے درد؎
فلک سمجھ تو سہی ہم سے اور گلو گیری
یہ ایک جیب ہے سو تا رتا رکھتے ہیں
اور بھی بعض وقت استدراک کا کام دیتا ہے جیسے محبت بھی کرتے ہیں اور ڈرتے بھی جاتے ہیں۔
تَرَ قِّی (ء) بروزن تسلی۔ بمعنی بلند ہونا۔ اس کو اخراب بھی کہتے ہیں۔ وہ حرف جو ایک بات کو ترقی دے کر ادنیٰ سے اعلیٰ یا اعلیٰ سے ادنیٰ بنا دیں اردو میں یہ صرف ایک لفظ بلکہ ہے ۔ جیسے وہ آدمی نہیں بلکہ شیطان ہے۔ وہ آدمی تو کیا بلکہ فرشتہ ہے۔
اِسْتِثْناَ۔ (ء) بروزن استسقا۔ بمعنی الگ کرنا۔ وہ لفظ جو ایک جزو کو دوسرے جزو سے علیٰحدہ کر دے ایسے لفظ یہ ہیں۔ مگر۔ اِلّا۔ سوا۔ جیسے کل سب تھے۔ مگر ایک تم نہ تھے۔ کل قلیل فتنۃ الا علی۔ (ہر چھوٹے قد کا آدمی شریر ہوتا ہے سوا
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
232

حضرت علی کے) سوائے تمہارے سب موجود تھے۔ فارسی میں جزبجز ہیں۔ لیکن یہ اردو میں بھی مستعمل ہیں۔ علاوہ بھی اسی معنی میں آتا ہے۔ جیسے تمہارے علاوہ سب تھے۔ استثنا کی دو قسمیں ہیں۔ متصل اور منقطع۔
مُتَّصلْ۔ (ء) بروزن مستقل۔ بمعنی ملا ہوا۔ وہ جس میں مستثنیٰ اور مستثنیٰ منہ ایک جنس کے ہوں۔ جیسے میرے سوا کوئی نہیں آیا۔
مُنْقَطعْ۔ (ء ) بروزن منسرخ۔ بمعنی کاٹا ہوا۔ وہ جس میں دونوں ایک جنس کے نہ ہوں جیسے ہاتھیوں کے علاوہ گھوڑے بھی تھے۔
نوٹ۔ سوا اور علاوہ کے محل استعمال میں اکثر پڑھے لکھے حضرات غلطی کر جاتے ہیں۔ واضح ہو کہ سوا نفی کے موقع پر استعمال ہوتا ہے جسے مرے کے سوا کوئی نہیں۔ یہاں میرے علاوہ کوئی نہیں لکھنا غلط ہے۔
شرط (ء) بروزن قرض بمعنی لازم کرنا۔ اس کو شرط و جزا بھی کہتے ہیں۔ جب کسی کام کا ہونا کسی دوسرے کام پر موقوف رکھا جاتا ہے تو جس پر موقوف کا اطلاق ہو اسے شرط کہتے ہیں۔ اور جو کام موقوف رکھا جاتا ہے اس کو جزا کہتے ہیں۔ وہ لفظ یہ ہیں۔ اگر ۔ اگر۔ جو ۔ جب ۔ چونکہ۔ اگرچہ۔ ہر چند۔ گو۔ بسکہ۔ جس ۔ وقت تک۔ ازبسکہ۔ تاوقتیکہ۔ تا۔ تاکہ۔ کیوں نہ نہیں تو۔ وگرنہ۔ باوجودیکہ۔ وغیرہ۔ وگرنہ۔ ازبسکہ اب قریب قریب کوئی نہیں لکھتا۔ تاکہ میں اب کہ کا اضافہ غلط سمجھا جاتاہے۔ جزا کے حروف یہ ہیں۔ تو۔ تب ۔ سو۔ لیکن۔ ولیکن۔ ولے۔ مگر۔ پھر۔ تاہم۔ اس لئے۔ اس واسطے۔ اسی لئےوغیرہ۔
نوٹ ۔ (1) کبھی حرف شرط مذکور نہیں ہوتا جیسے سائل دہلوی؎
بیچنا منظور دل کا ہو تو سائل چاہیے
رہگزر پر دو صدا دل چاہیے دل چاہیے
(2) پہلے تب تو جزا میں لاتے تھے جیسے اگر آپ آئیں گے تب تو میں بھی آؤں گا۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
233

مگر اب کوئی نہیں لکھتا۔
(3) تب کے علاوہ اور کل حروف جزا اس وقت حذف ہو جاتے ہیں جب جزا مقدم ہو جیسے میں بھی آؤں گا اگر آپ آئیں گے۔
(4) تابمعنی جب تک صرف نظم میں مستعمل ہے مگر بعض اساتذہ اس کو متروک سمجھتے ہیں۔
عِلَّتْ (ء) بروزن عفت۔ بمعنی غائت۔ سبب۔ وہ حروف جو کسی بات کا سبب ظاہر کریں۔ یہ ہیں کہ بمعنی کیوں۔ کیونکہ۔ اس لئے۔ اس واسطےکہ۔ تاکہ۔ لہٰذا۔ تا۔ سو۔ یہ حروف جن پر داخل ہوتے ہیں ان کو معلول کہتے ہیں۔ جیسے چلو کہ اب تو چلنا ہی ہے۔ میں نہیں آؤں گا کیونکہ آج کام بہت ہے۔ وغیرہ۔
بَیانیَہ۔ (ء) بروزن علانیہ۔ بمعنی بیان سے منسوب۔ وہ حروف جو دو جملوں کے ملانے کے لئے آتے ہیں جیسے میں جانتا ہوں کہ وہ بہت بڑا بے ایمان ہے۔
نوٹ۔ (1) یہ حرف بالعموم کسی مقولے کے بعد آتا ہے یا مقصد۔ ارادہ۔ امید۔ خواہش۔ رحجان۔ حکم۔ نصیحت۔ مشورہ۔ ڈر۔ اجازت۔ کوشش اور ضرورت فرض کے اظہار کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
(2) کبھی ضمیر موصولہ کے بعد بھی آتا ہے۔ جیسے جو بات کہ تم نے کہی تھی بہتر تھی۔
(3) شمول و شرکت کے حرف۔ بھی ۔ نیز۔ علاوہ۔ سوا۔ وغیرہ ہیں۔ جیسے یہ بھی ہوا وہ بھی ہوا۔ نیز یہ بات زیر غور ہے۔ وغیرہ۔
(4) وہ دو لفظ جو محاورے میں ملا کر بولے جاتے ہیں۔ ان کے درمیان حروف عطف نہیں لاتے جیسے کھیل کود۔ رات دن۔ دوست دشمن وغیرہ۔
(5) اردو میں جب اور دو جملوں کے درمیان آئے اور ان کے افعال سے دو کاموں کا ایک ساتھ ہونا ظاہر ہوتا ہو تو ماضی کا استعمال مستقبل کے معنوں
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
234

میں ہوتا ہے جیسے میں پہونچا اور وہ نکلا۔ کبھی دھمکی یا الزام کے معنی میں آتا ہے جیسے تمہارا دامن اور میرا ہاتھ ہوگا۔
تَخْصِیْص (ء) بروزن تردید۔ بمعنی خصوصیت۔ یہ حروف جب کسی اسم یا فعل کے ساتھ آتے ہیں تو ایک خصوصیت پیدا کر دیتے ہیں۔ اردو میں یہ حروف تخصیص مستعمل ہیں۔ ایک۔ بس۔ پس۔ بھر۔ بھی۔ تنہا۔ صرف۔ فقط۔ محض۔ خالی۔ نرا۔ ہی۔ ہر۔ تو وغیرہ جیسے ایک میری وجہ سے یہ جھگڑا ہے۔ بس جناب رہنے دیجئے۔ بس ایک آپکا دم غنیمت ہے۔ دم بھر کی مہلت نہیں۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ تنہا میری ذات تھی۔ صرف دو چار لوگ تھے۔ فقط آپ کی یاد تھی۔ یہ محض ان کا خیال ہے۔ خالی باتیں بنانا کس کام کی۔ تم نرے بے وقوف ہو۔ دل ہی دل میں کڑھتے رہے دل تو پہلے ہی بیقرار تھا وغیرہ۔
نوٹ:- (1) بھر اکثر اسم کے شروع میں آتا ہے اور مقدار وغیرہ کو بتاتا ہے۔ اور بعض اوقات آخر میں بھی آتا ہے جیسے گھونٹ بھر۔ چلو بھر۔ لیکن بھر نیند سویا۔ بھر نظر دیکھابھی مستعمل ہے۔
(2) تو۔ کبھی فعل کی تاکید کرتا ہے۔ جیسے سنو تو۔ کبھی مقصد کی تکمیل کرتا ہے۔ ۔ جیسے یہ کہہ کر وہ تو چلدئیے کبھی خاص قسم کا زور ظاہر کرتا ہے ۔ جیسے دیکھوں تو کون کون آتا ہے۔۔۔۔۔۔ اکثر اس صورت میں "سہی" کے ساتھ آتا ہے۔جیسے دیکھوں تو سہی کون کون آتا ہے۔ کبھی ہی کے ساتھ بھی آتا ہے جیسے تم ہی تو تھے۔ اور یہ استعمال اس وقت ہوتا ہے جب کسی امر کی نسبت آخری چارہ کار بتانا مقصود ہوتا ہے۔ جیسے موت اس کا علاج ہو تو ہو۔
(3) ہی۔ جب اسماء ضمائر وغیرہ سے ملکر آئے تو جملہ میں مفعولی۔ اضافی۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
235

انتقالی علامتیں ہی کے بعد آئیں گی۔ جیسے مجھی سے ہمیں کو۔ اسی کا اور فاعلی دونوں طرح جیسے ہمیں نے۔ میں نے بھی وغیرہ آتی ہیں۔
(4) ہی فاعل اور اس کی علامت مفعول اور اس کی علامت ۔ جار اور مجرور کے درمیان آتا ہے۔ جیسے دل ہی نے ساتھ نہ دیا۔ جگر ہی کو برباد کر دیا۔ گھر ہی سے چلدئیے وغیرہ۔ لیکن جب میں ضمیر فاعل واقع ہو تو ہی کو کبھی کبھی علامت فاعل کے بعد بھی لاتے ہیں جیسے میں نے ہی توڑ دیا۔
(5) اِس۔ اُس ۔ تجھ۔ مجھ۔ ہم۔ کے ساتھ ہ کو حذف کر دیتے ہیں ہیں جیسے اِسی ۔ اُسی ۔ مجھی۔ وغیرہ ہم کو ہمیں بنا لیتے ہیں لیکن اکثر جگہ ہم ہی بھی لکھتے ہیں جیسے؎
پیشہ میں عیب نہیں رکھئے نہ فرہاد کو نام
ہم ہی آشفتہ سروں میں وہ جواں مرد بھی تھا
(6) یہ اور وہ کے ساتھ کبھی تو یہی ۔ وہی لکھتے ہیں اور کبھی یہ ہی اور وہ ہی بھی لکھتے ہیں مگر فصاحت ہ مخذوف کیساتھ ہے۔
(7) آپ کے ساتھ پہلے ہ حذف کر کے آپی لکھتے تھے۔ مگر اب آپی کوئی نہیں لکھتا۔
خِجَائیَہّ۔ (ء) بروزن ندائیہ۔ بمعنی یکایک۔ ناگاہ۔ وہ الفاظ جو جوش یا جذبے میں یکایک زبان سے نکل جائیں۔ جیسے اوہو۔ ہائے۔ ہیں ہیں۔
نِدَا۔ (ء) بروزن ملا۔ بمعنی آواز۔ پکارنا۔ وہ حروف جو پکارنے کے لئے بولے جائیں جیسے اے۔ ارے۔ او۔ ابے۔ اجی۔ یا وغیرہ۔
نوٹ:- اے تخاطب کے لئے آتا ہے۔ اے خدا۔ اے دوست۔ ایدل وغیرہ۔ ارے بے تکلف دوستوں اور کم رتبہ لوگوں کے لئے بولا جاتا ہے جیسے ارے بیوقوف۔ ارے بھائی۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
236

اُو۔ اکثر تحقیر کے موقع پر بولا جاتا ہے جیسے او ظالم۔ او نالائق وغیرہ۔
اَبے۔ ذلیل اور حقیر لوگوں کے لئے جیسے ابے الّو۔ سن بے وغیرہ۔
اَجی۔ بے تکلفی کے لئے جیسے اجی حضرت اجی قبلہ وغیرہ۔
(2) فارسی کا الف ندا بھی اسم کے آخر میں لاتے ہیں جیسے زاہدا۔ دلاوغیرہ مگر اب اس ترکیب کو کوئی نہیں استعمال کرتا۔ لیکن مسیحا کااستعمال فصیح ہے۔
(3) کبھی حرف ندا محذوف ہو جاتا ہے جیسے؎
کہیو صبا سلام ہمارا بہار سے
ہم تو چمن کو چھوڑ کر سوئے قفس چلے
(4) جس کو حرف ندا سے پکارتے ہیں اس کو منادی کہتے ہیں۔
(5) ندائی حالت میں خواہ حروف ندا مذکور ہوں یا محذوف، جمع کا نون گر جاتا ہے جیسے صاحبو۔ لوگو لڑکو وغیرہ۔
جَوَاب۔ (ء) بروزن ثواب۔ بمعنی مقابل۔ وہ حروف جو کسی سوال یا کسی بات کے اقرار کے لئے بولے جائیں۔ ان کا ایجاب بھی کہتے ہیں اور وہ یہ ہیں۔ ہاں۔ جی ۔ بھلا۔ اچھا۔ ٹھیک۔ واقعی۔ درست۔ بجا۔ کیوں نہیں۔
نوٹ۔ ہاں ۔ جی ۔ جی ہاں۔ جواب میں بولے جاتے ہیں۔
ٹھیک۔ بجا۔ درست۔ بیشک۔ واقعی۔ متکلم کی تصدیق کے لئے آتے ہیں۔
اچھا۔ بہت اچھا۔ خوب۔ امر یا نہی کے قبول میں آتے ہیں۔
نُدبَہ۔ (ء) بروزن دُگدا۔ بمعنی نوحہ۔ وہ حروف جو تکلیف ۔ گھبراہٹ یا افسوس کے موقع پر بولے جائیں۔ جیسے ہائے۔ ہائے ہائے۔ ہائے رے۔ اے وائے۔ آہ۔ اف۔ افسوس۔ وائے۔ ہیہات۔ ہے ہے۔ ہائے رے۔ دریغ۔ واحسرتا۔ وامصیبتا وغیرہ۔
کلمات تعجب۔ جو کسی عجیب چیز کو دیکھ کر خوشی کی حالت میں زبان سے نکلیں یا تعجب
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
237

کے موقع پر بولے جائیں۔ جیسے اللہ۔ اللہ ۔ا للہ ارے۔ اللہ اکبر۔ تعالیٰ اللہ۔ سبحان اللہ۔ صلی علیٰ۔ لا حول ولاقوۃ۔ اُوہو۔ آہا۔ بل بے۔ اُف رےوغیرہ۔
حروف نفرت و نفریں۔ و حروف جو نفرت اور لعنت کے موقع پر بولے جائیں جیسے لعنت ۔ لعنت خدا کی۔ خدا کی مار۔ تف۔ ہشت۔ استغفراللہ۔ معاذ اللہ وغیرہ
کلمات تحسیں۔ وہ حروف جو تعریف کے موقع پر بولے جائیں جیسے آفریں۔ شاباش۔ بہت خوب۔ واہ وا۔ سبحان اللہ۔ جزاک اللہ۔ ماشاء اللہ۔ صلی علیٰ۔ چشم بدور۔ حبذا۔ نام خدا۔ زہے بخت وغیرہ۔
کلمات توبہ۔ وہ حروف جو پناہ اور توبہ کے موقع پر استعمال کئے جائیں جیسے الامان۔ الحفیظ۔ توبہ توبہ۔ الہٰی توبہ۔ معاذ اللہ۔ عیاذ اللہ۔ حاشاء کلا وغیرہ۔
حروف تنبیہہ۔ وہ حروف جو تنبیہہ اور خبردار کرنے کے موقع پر بولے جاتے ہیں جیسے ہیں۔ ہیں ہیں ۔ ہوں ۔ہوں ہوں۔ خبردار۔ ہوشیار۔ دیکھو۔ سنو وغیرہ۔
حروف تاکید۔ وہ حروف جن سے کلام میں زور آتا ہے جیسے ضرور۔ بیشک۔ یقیناَ۔ مقرر۔ ہرگز۔ کبھی۔ زنہار۔ مطلق۔ مطلقاَ۔ اصلاَ۔ بھول کر۔ سب ۔ سب کے سب۔ تمام۔ کل ۔ سرار۔ سراپا۔سربسر۔ سرتاپا۔ ہو بہو۔ بعینہٖ۔ آپ۔ خود وغیرہ۔
نوٹ:- زنہار نفی اور اثبات کی تاکید کرتا ہے جیسے زنہار اگر تمہیں ہوس نائے و نوش ہے۔ ہو بہو۔ بعینہٖ۔ یجنسہٖ۔تشبیہہ کی تاکید کرتے ہیں جیسے صورت بعینہٖ وہی تھی۔ آپ اور خود۔ ضمائر کی تاکیدکے لئے آتے ہیں جیسے وہ خود نہیں آئے۔
(2) کبھی الفاظ یا جملے کی تکرار بھی تاکید کا کام دیتی ہے جیسے فانی؎
دل کا اجڑنا سہل سہی بسنا سہل نہیں ظالم
بستی بسنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
238

(3) اردو میں تکرار لفظی خاص چیز ہے اور علاوہ حرف ربط و علت کے تمام اجزائے کلام یعنی اسم۔ صفت۔ ضمیر۔ فعل۔ تمیز مکرر استعمال ہوتے ہیں۔ اس تکرار سے ہر۔ ہر ایک اختلاف۔ کل ۔ کثرت۔ قلت۔ تعجب۔ زور۔ تاکید۔ مبالغے۔ کام کا جاری رہنا اور شمول کے معنی پائے جاتے ہیں۔ اسم کی تکرار جیسے آب آب ۔ در در۔ گھر گھر۔ باری باری۔ بات کی بات وغیرہ۔ صفت کی تکرار جیسے اچھے اچھے لوگ۔ اونچے نیچے مکان۔ وغیرہ۔ اعداد کی تکرار جیسے آٹھ آٹھ آنسو۔ دو دو دن وغیرہ۔ ضمائر کی تکرار جیسے اپنا اپنا خیال۔ جو جو وہاں موجود تھے۔ وغیرہ۔ فعل کی تکرار جیسے جاتے جاتے ۔ آتے آت۔ مل مل کے وغیرہ۔ تمیز فعل کی تکرار جیسے رفتہ رفتہ۔ کہاں کہاں۔ کہیں کہیں وغیرہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
239

اصلاحَات علمِ نحو

نَحوْ۔ (ء) بروزن سہو۔ بمعنی قصد۔ طریقہ ۔ وہ علم جس سے ایک کلمہ کا دوسرےکلمہ سے تعلق معلوم ہو۔ اس کی وجہ سے کلام میں معنوی غلطی واقع نہیں ہوتی اس علم کا موضوع کلام ہے۔
کَلاَم (ء) بروزن سلام بمعنی بات چیت۔ جب دو یا دو سے زائد کلمات ترتیب دئیے جائیں اور ان میں صرفی تعلق بھی ہو تو اس کو کلام کہتے ہیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں ناقص اور تام
نَاقِص۔ (ء) بروزن حافظ۔ بمعنی ادھورا۔ نامکمل۔ وہ کلام جس سے پورا مطلب سمجھ میں نہ آئے۔ اس کو مرکب ناقص یا مرکب غیر مفید کہتے ہیں جیسے۔ع
شیشہ کی طرح ہمارے دل نے
واضح ہو کہ یہ مصرع پورے معنی نہیں دیتا۔ کہ شیشہ کی طرح ہمارے دل نے کیا کیا۔ اس لئے یہ کلام ہمیشہ جملے کا جزو ہوتا ہے۔
تَام۔ (ء) بروزن نام۔ بمعنی مکمل۔ پورا۔ یہ وہ مرکب ہے جس کے ذریعہ سننے والے کو پورا مطلب حاصل ہو جائےاس کو مرکب تام۔ مرکب مفید اور جملہ بھی کہتے ہیں جیسے؎
شیشہ کی طرح ہمارے دل نے
اس شوخ کے حسن کو سنوارا
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
240

[TODO: Add Chart]
مرکب ناقص کا بَیان۔ اوپر لکھا جا چکا ہے کہ یہ مرکب ہمیشہ جملہ کا جزو ہوتا ہے اور اس کی کئی قسمیں ہیں۔ اضافی ۔ توصیفی۔ عددی۔ عطفی۔ ظرفی۔ امتزاجی۔ اشاری۔ تمیزی۔ بدل مبدل منہ۔ عطف بیان۔ تابع مہمل۔ تاکید موکد۔ اسم فاعل ترکیبی۔ اسم مفعول ترکیبی۔ وغیرہ۔
ترکیب لفظی۔ بعض وہ مرکبات جو دو مختلف لفظوں سے مل کر بنتے ہیں مگر ان کے پورے اجزا کا الگ الگ پتہ نہیں چلتا۔ جیسے انعاروں ۔ انٹ شنٹ۔ گڑبڑ وغیرہ ۔ بعض مرکبات ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے ہر جزو کا پتہ معلوم ہو جاتا ہے۔ بھلے مانس۔ کارخانہ۔ باگ ڈوروغیرہ لیکن جن کے پورے پورے اجزا قائم نہیں رہتے ان کی حسب ذیل صورتیں ہیں۔
(1) شروع سے الف ممدودہ الف گر جاتا ہے۔ اور آخر سے الف یا ی گر جاتی ہے، جیسے ادھ کچرا۔ امرس۔ کپڑ گند وغیرہ۔
(2) بیچ کا حرف علت گر جاتا ہے جیسے پت جھڑ۔ پن چکی۔ ہت کڑی وغیرہ۔
(3) درمیانی اور آخری دونوں حروف علت گر جاتے ہیں۔ جیسے گھڑ دوڑ۔ گھڑ چڑھا۔ لیکن گھڑ چڑھا اب کوئی نہیں بولتا۔
(4) دونوں لفظوں سے حروف علت گرا دیتے ہیں۔ جیسے بگ ٹٹ۔ بھلمنسائی۔ وغیرہ
(5) جب لفظ کا پہلا اور آخری حروف ایک ہو تو ایک گرا دیا جاتا ہے جیسے ناک کٹا کو نکٹا کہتے ہیں۔ یا کچاآلو کو کچالو وغیرہ۔
(6) اسم فاعل جب اسم صفت سے بناتے ہیں تو آخر میں الف یا ی بڑھا دیتے ہیں۔
 

ابن رضا

لائبریرین
281

آنکھ سفید اور دوسری سیاہ ہو۔ معنوی طور پر اسے طاقی بھی کہتے ہیں۔

صنعت مقفع۔ کتابت میں تمام حروف علیٰحدہ علیٰحدہ لکھے جاتے ہیں

ارے وے وہ دوائے دردِ دوام دوڑ دوڑ آئے رات دن آرام

صنعت موصل۔ لکھنے میں تمام حروف ملے ہوئے ہوں جیسے

کبھی کہی نہ سنی تم نے حیف جی کی خبر بنے گی کیسی ستم کیش بے کہے ہم پر

صنعت وامع الشفیتن۔ وہ الفاط جن کے پڑھنے میں لب نہ ملیں جیسے

اقرار کر گیا تھا کہ آؤں گا رات کو کیا ہوگیا نہ آیا ہنوز انتظار ہے

صنعت واصل الشفیتن۔جس میں ہر لفظ کے ادا کرنے پر لب ملیں جیسے

محمد ﷺ ملےاب محمد ﷺ ملے

صنعت تحت النقاط۔ کلام میں جملہ حروف کے نقطہ نیچے ہوں جیسے

صدمے صدہا ہی سہےصد مرحبا اے دل دلگیر میرے واسطے

صنعت فوق النقاط۔اس میں نقطے اوپر ہوتے ہیں جیسے

اس قدر کم ہمت او دل تو نہ تھا عشق آفت زا کا گر کرتا گلہ

صنعت سجع۔ سجع نثر میں ایسا ہے جیسا قافیہ نظم میں۔ لیکن سجع نظم میں بھی واقع ہوتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں۔ مطرف ۔ متوازی۔ موازنہ

سجع مطرف۔ مختصر تعریف یہ کہ شعر کے آخر کلمات وزن میں مختلف ہوں مگر حرفِ روی یکساں ہون جیسے

زہے نشاط اگر کیجئے سے تحریر عیاں ہو خامہ سے تحریر نغمہ جائے صریر

سجع متوازی ۔ کلمات اور حرف روی دونوں متفق ہوں جیسے

کرون پہلے تو حید یزداں رقم جھکا جس کے سجدہ کو پہلے قلم

نوٹ:۔ اگر جمیع الفاظ نثر یا نظم میں مقابل متحدالوزن والقوافی ہوں



282

تو اس کو صنعت ترصبیح کہتے ہیں

تیری دانش مری اصلاح مفاسد کی دہین تیری بخشش میری اصلاح مقاصد کی کفیل

سج موازنہ۔ نثر یا نظم میں سب لفظ متحد الوزن اور مختلف الوری بمقابل ہوں جیسے

اے شہنشاہ فلک منظروبے مثل و نظیر اے جہاں دار کرم شیوہ بے شبہ و عدیل

صنعت دوالقافتین۔ وہ نظم جس میں دو یا دو سے زیادہ قافیے ہوں

آجلد کہ اب عاشق بے جاں میں نہیں تاب اور نام کو باقی نہیں مژگاں میں کہیں آب

یہاں تین قافیے ہیں بے جاں و مژگاں۔ نہیں اور کہیں۔ تاب اور آب

صنعتِ ذوالقافتین مع الحاجب۔ اس میں قافیوں کے درمیان ردیف بھی ہوتی ہے

کہیں آنکھوں سے خون ہو کے بہا کہیں دل میں جنوں ہو کے رہا

صنعت متلون۔ اس کو ذوالبحرین بھی کہتے ہیں۔ مصرعہ یا شعر دویا دو سے زیادہ بحروں میں پڑھا جائے۔ متلون لون سے مشتق ہے جس کے معنی رنگ کے ہیں

تجھ سے اب میں کیا کہوں اے بے وفا گزری جو کچھ گزری جو تھا ہو چکا

یہ وزن بحر سریع کے ارکان مفتعلن مفتعلن فاعلن میں بھی آتا ہے اور بحر رمل مسدس کے ارکان فاعلاتن فاعلاتن فاعلن میں بھی واقع ہوتا ہے۔

صنعت توشیح ۔ کسی مسلسل نظم کے ہر مصرع کے شروع حرف کو جمع کیا جائے تو کوئی نام یا عبارت حاصل ہو جیسے

دیکھ او ظالم مجھے ہر دم نہ چھیڑ لے ترے قدموں پہ سر رکھتا ہوں میں

یہاں پہلے مصرع میں دیکھ کی دال اور دوسرے مصرعہ میں لے کا لام جمع کیا تو دل برآمد ہوتا ہے۔

نوٹ :۔ توشیح کے معنی سنوارنے اور آراستہ کرنے کے ہیں۔

صنعت مبادلۃ الراسین۔ دو لفظ جن کے جزو اول کے حروف مختلف ہوں جیسے



283

حمد بے حد اس خدائے پاک کو نور ایماں جس نے بخشا خاک کو

نوٹ:۔ مبادلۃ الراسین کے معنی سروں کو بدلنا ۔ یہاں پاک اور خاک میں صنعت ہے۔

صنعت براعات استہلال۔ قصیدے یا مثنوی میں ایسے انداز سے شعر لانا جس سے آئندہ کا مطلب معلوم ہو جائے جیسے گلزار نسیم میں یہ شعراول

پایا جو سفید چشم صفحا یوں میل قلم نے سرمہ کھینچا

صنعت تصمین المزدوج۔ شعر میں دو لفظ ایسے واقع ہوں جو مسبع ہوں

وال پھانس چبھی ہے اس کے غم کی یان سانس نہیں ہے ہر ایک دم کی

یہاں سانس اور پھانس میں صنعت ہے۔

صنعت معما۔وہ کلام جس میں حسبِ اصول و قواعد عام معما کسی کا نام نکلتا ہو جیسے

بنے کیونکر کہ ہے سب کار الٹا ہم الٹے بات الٹی یار الٹا

ہم کو الٹاتو مہ ہوا بات سے تاب اور یار سے رائے ۔ گویا مہتاب رائے نام برآمد ہوا۔

صنعت لفز۔ کلام میں بعض علامات و قرائن سے کوئی چیز معلوم ہو ۔ اس کو فارسی میں چیستان کہتے ہیں اور ہندی میں پہیلی کہتے ہیں ۔جیسے پانی کی پہیلی

پانی ماء پانی باپ اس کا اشارہ بوجھیں آپ

عربی میں ماء اور فارسی مین آب پانی کو کہتے ہیں باپ کو عربی میں اب کہتے ہیں

صنعت محذوف۔ اگر بیت کے لفظ اول کو علیٰحدہ کردیں تو بحر دوسری ہو جائے جیسے

مجھ کو رسوا نہ کر اے آفت جال بہر خدا بندہ تیرا ہوں میں کہ رحم عیاں بہر خدا

موجودہ صورت میں اسی کا وزن فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن ہے


284

پہلے مصرعہ کا اول لفظ مجھ کو اور دوسرے کا پہلا لفظ بندہ ۔ علیٰحدہ کر دیجئے تو بحر دوسری ہو جائے گی۔

صنعت منقوص۔ یہ محذوف کے برعکس ہے یعنی یہاں مصرعہ کے آخر سے لفظ دور کر دیں تو بھی وزن دوسرا قائم ہو جائے۔ اور معنی میں کوئی فرق نہ آئے ۔ جیسے

بے رحم جلا نہ جی کہ میرے چپ رہ معلوم ہیں مجھ کو مکر تیرے چپ رہ

موجودہ بحر مفعول مفاعلن فعولن فعلن ہے لیکن چپ رہ دور کرنے سے اس کا وزن بھی مفعول مفاعلن فعولن ہوتا ہے۔

صنعت ترافق۔ اس توافق بھی کہتے ہیں۔ چار مصرعے اس انداز کے کہے جائیں کہ جس کو چاہیں مصرع اول قرار دیں ۔ اسی طرح دوم ، سوم اور چہارم جیسے

مفتوں میں اس شرم و حیا کا دل سے عاشق ہوں میں اس نازہ ادا کا دل سے

شیدا ہوں میں اس زلف دوتا کا دل سے کشتہ ہون میں اس طرزو جفا کا دل سے

صنعت نظم النتر۔ ی صنعت امیر خسرو نے ایجاد کی ہے یعنی اگر اشعار کو ایک ساتھ پڑھا جائے تو اچھی نثر ہو۔

اجی صاحب سنو تو تم نے کل کیا کہا تھا اور آج کس لئے ٹل

گئے اپنے کلام سے صاحب ایسی الفت بھی کچھ نہیں واجب

صنعت معرب۔ اگر کلام میں فتحہ کا ا لتزام کیا جائے تو کسرہ اور ضم ہ نہ آئے اسی طرح کرہ کا التزام ہو تو فتحہ اور ضمہ نہ آئے علٰی ہذاالقیاس جیسے

کل کا وعدہ کر گیا ہے کل صنم گر نہ آیا آج تو بس ہے غضب

جامع الحروف ۔ وہ کلام جس میں سب حروف تہجی موجود ہوں جیسے

اس جفاہا الغیاث اے کاف ترسا لقب لذت صد خظ مریض عشق بردار خطب

صنعت مدور۔ شعر یا مصرع کو دائرہ میں لکھیں اور جہاں سے چاہیں شروع کریں لیکن معنی



285

اور وزن اپنی جگہ قائم رہے۔

اجی کیا سنوں میں نصیحت کسی کی

صنعت مربع۔ وہ صنعت کہ اشعار طول و عرض میں یکساں پڑھے جائیں جیسے۔

کروں کیا

خفا ہے

الہی

وہ دلبر

خفا ہے

وہ مجھ سے

عبث کیوں

سخن

الہیٰ

عبث کیوں

خفا ہے

غضب ہے

وہ دلبر

سخن بر

غضب ہے

ستم گر


صنعت مثلث۔ وہ ہے کہ رباعی کے تین مصرعہ کہے جائیں اور چوتھاانھیں تین مصروں کے الفاظ سے مرتب ہو جیسے۔

تجھ سا نہیں پیارا کوئی اے رشک قمر محبوب نہ ہوگا کوئی تجھ سے بہتر

اے دلبر نازنیں تجھے کہتے ہیں سب تجھ سا نہیں محبوب کوئی اے دلبر

مشجر۔ یہ وہ صنعت ہے جس میں کلام بصورت شجر لکھتے ہیں

صنعت تاریخ۔ کلام میں بحساب جمل سنہ برآمد ہو جیسے

ہاتف نے کہا لکھ اس کی تاریخ کیا خوب بنا م مکان رضوان

۶۰ء ۱۸


286

صنعت لفظی

تجنیس دوالعجزعلیٰ لصٔد معاد لزوم ملا یلزم منقوط غیر منقوط فقطا خیفا مقطع

نام نام مماثل نام مستوفی مرکب مفرد مرکب مفروق مرفو حرف ناقص زائد

مطرف وامع الشفتین واصل الشفتین فوق النقاط تحت النقاط سجع مطرف سجع متازی سجع موازنہ ذوالقافتین

متلون توشح مبادلۃالراسین براعت استہلال تضمین الزواج معما لغز محذوف منقوص

ترافق نظمانثر معرف جامع الحروف مدرو مربع مثلث مشجر تاریخ

نوٹ:۔ اردو میں لفظی صنعتیں کم و بیش پچپن ۵۵ مستعمل ہیں۔


287

اصطلاحات علم بیان

بیان۔ (ء) بروزن پیام بمعنی بات کو واضح کرنا، یہ وہ علم ہے جس کے ذریعہ لفظ کے حقیقی و غیر حقیقی معنی معلوم ہوتے ہیں ۔ مثلاًشیر ایک درندہ کا نام ہے جو بہت زیادہ طاقت ور اور بہادر ہوتا ہے۔ یہ معنی حقیقی ہوئے لیکن بہادری کی بنا پر کسی آدمی کو شیر کہیں تو یہ معنی مجازی ہوئے پس مجازی معنی مین لفظ کا استعمال کرنا علم بیان سے متعلق ہوتا ہے ۔ درحقیقت علم بیان کا دارومدار تشبیہ۔ استعارہ مجاز مرسل اور کنایہ پر منحصر ہے۔

معنی

حقیقی مجازی

تشبیہ کنایہ مجاز

مجاز مرسم مجاز استعارہ

تشبیہ۔ (ء) بروزن تسبیح ۔ بمعنی ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ مشابہ کرنا۔ واضح ہو کہ جس کی مشابہت دی جائے اسے مشبہ اور جس کے ساتھ مشابہت دیں اسے مشبہ بہ اور جو تشبیہ پیدا کرے اسے حرف تشبیہ اور جس وصف کی وجہ سے


288

تشبیہ دی جائے اس کو وجہ شبہ کہتے ہیں

نوٹ:۔ تشبیہ کے لیے مشبہ اور مشہ بہ ایک جنس کے نہ ہوں

تشبہ ادنیٰ کی اعلیٰ اور اعلیٰ کی ادنیٰ سے دینا چاہیے

اس چیز سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ کلام میں لطافت اور خوبی آجاتی ہے

گھوڑا برق ہے یا مثل برق کے ۔ یہاں گھوڑا مشبہ ہے ، برق مشبہ بہ۔ مثل حرف تشبیہ۔ تیزی ٔ رفتار جودونوں میں پائی جاتی ہے وہ وجہ شبہ ہے۔

تشبیہ دو طرح کی ہوتی ہے مفصلل ۔ مجمل

تشبیہ مفصل۔ جس میں تشبیہ کے جملہ ارکان موجود ہوں ۔ جیسے گھوڑا تیزی میں مثل برق کے ہے۔

تشبیہ مجمل ۔ جس میں مشبہ بہ کے سوا اور ارکان مذکور نہ ہوں جیسے

کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے

نوٹ :۔ کبھی مشبہ بہ اور مشبہ دونون مذکور ہوتے ہیں اور کبھی صرف ایک مثلاً

ہوئی خال سیہ سے مشک بیزی دل کے ذخموں پر

نمک کیسا الہیٰ دانہ فلفل میں رکھا ہے

اس شعر میں خال سیہ ۔ مشک اور دانہ فلفل آپس میں مشبہ اور مشبہ بہ ہیں۔ زخم اور نمک کے ساتھ صرف قرینے سے مشبہ میں مناسبت پیدا ہو گئی ہے محْققین اس کو تشبیہ اوسط کہتے ہیں

تشبیہ

مفصل مجمل


289

حروف تشبیہ۔ اردو میں حسب ذیل ہیں ۔ سا۔ کاسا۔ ایسا۔ ویسا۔ جیسا۔ مانند۔ مثل۔ طرح۔ گویا۔ یوں۔ بعینہٖ ہو بہو وغیرہ

نوٹ:۔ اردو شعراء نے فارسی تشبیہ کثرت سے استعمال کی ہیں۔ اس لیے ان کا ذکر ضروری ہے۔

تشبیہ قامت۔ مھبوب کے جسم ناز ک کو سرو۔ صنوبر۔ شمشاد۔ سورواں۔ سرد آزاد۔ سرو خراماں۔ سروناز۔ سروسبی۔ بوبیٰ۔ شاخ گل ۔ قیامت ۔ ٹخل۔ نہال۔ تیر۔ الف وغیرہ کہتے ہیں۔

تشبیہ خرام۔ بہار۔ برق۔ نسیم سھر۔ بادصبا۔ شمیم گل۔ نرمی رفتار۔ آب وغیرہ۔

تشبیہ موئے سر۔ شب۔ نیم شب۔ شب۔ دیجور۔ شب یلدا۔ ظلمات۔ مشک ۔ عنبر دام، وام مشکیں۔ شام۔ ابر سیاہ۔ وغیرہ۔

تشبیہ فرق۔ راہ ظلمات۔ خط استوہ۔ خط کہکشاں۔ برق درخشاں و غیرہ۔

تشبیہ زلف۔ سبنل ۔ دستہ سبنل۔ ریحان۔ کند۔ زنجیر۔ طناب۔ مشک ۔ شام۔ حبیش۔ تازیانہ۔ مار۔ عقرب۔ عنبر سارا۔ جرارہ۔ رشتہ۔ رسن ۔ لام ۔ میم۔ چوگال۔ چلپا۔ ابر سیاہ۔ قلاب۔ دام ۔ ہندہ۔ ہند ۔ خطا ۔ فتن۔ تاتار۔ چین۔ کافر وغیرہ۔

تشبیہ خال۔ ہندو۔ مشک دانہ ۔ سپند۔ نقطۂ سویدا۔ مردمک ۔ حجرالاسوزیخم سبب۔ حبشی زاد۔ زنگی بچہ۔ دانہ بارود وغیرہ۔

تشبیہ جبیں۔ آئینہ۔ لوح۔ لوح کمیں۔ لوح محفوظ۔ ماہ۔ ہلال۔ بدر۔ خورشید۔ زہرہ۔ مشتری۔ سہیل وغیرہ۔

تشبیہ چین پیشانی۔ تیغ۔ رگ گل ۔ موج۔ خنجر وغیرہ۔



290

تشبیہ ابرو۔ محراب۔ ہلال ۔ کمان۔ قوس۔ قوس قزاح۔ ذوالفقار۔ شمشیر۔ خنجر۔ حلقہ کمند۔ طاق۔ کلید۔نون وغیرہ۔

تشبیہ چشم۔ بادام۔ نرگس۔ ترک۔ ہندہ۔ زہرہ۔ سامری۔ ساحر۔ جادہ۔ فسوں ساز۔ جام ۔ساغر۔ پیمانہ۔ آہو۔ غزال۔ صاد۔ عین وغیرہ۔

تشبیہ مژگاں۔ خنجر۔ تیغ۔ سنان۔ تیر۔ نیزہ۔ مار۔ سوزن۔ چنگال۔ خدنگ۔ پیکاں۔ نیش۔ نشتر وغیرہ۔

تشبیہ گردن۔ صراحی۔ دستہ عاج۔ بیاض صبح۔ گردن آہو وغیرہ۔

تشبیہ لب۔ غنچہ۔ رگ گل۔ پستہ۔ آب حیات۔ موج کوثر۔ موج نسیم۔ موج۔ شراب۔ آتش خاموش۔ رشتہ جاں۔ مسیحا۔ شہد۔ شکر۔ جات۔ قند۔ لعل۔ یاقوت۔ عقیق۔ مرجاں۔ ہلال وغیرہ۔

تشبیہ خط۔ بنفشہ۔ ہندہ۔ ریحاں۔ زمرد، خط ریحاں۔ خط غبار، خضر۔سبزہ۔ مورچہ۔ ہالہ۔ رنگ۔ حبش۔ عنبر۔ مشک۔ جدول مشکیں۔ جدول زنگاری وغیرہ۔

تشبیہ دہن۔ غنچہ۔ پستہ۔ انگشری۔ جوہر خرد۔ نقطہ موہوم۔ صفر۔ عدم۔ صدف۔ قطرہ۔ ننگ شکر۔ حقہ مروارید۔ حقہ مرجان۔ حقہ یاقوت بیم۔ کوزہ۔ نبات وغیرہ۔

تشبیہ دندان۔ گوہر۔ در۔ ژالہ۔ الماس۔ا نجم۔ دانہ انار۔ عقد گوہر۔ سلک ور وغیرہ۔

تشبیہ خندہ تبسم برق۔ عصہ برق۔ غنچہ تیم شکفتہ وغیرہ۔

تشبیہ سرانگشت حنائی ۔ غنچہ ۔ گل ۔ خندق۔ عناب۔ گل اورنگ۔ اسروع وغیرہ۔

تشبیہ پنچہ حنائی۔ آفتاب۔ سحر۔ پنجہ مرجاں ۔ پنجہ گل وغیرہ۔

تشبیہ لطف و سخٰا۔ ابرو ۔ دریا ۔ کوثر۔ چشمہ بہشت۔ آب حیات ۔ باران رحمت وغیرہ۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
241

جیسے چو بغلایا چوبغلے۔ ست لڑایا یا لڑے وغیرہ۔
(7) کبھی دو لفظوں کے درمیان الف بڑھا دیتے ہیں جیسے دھڑا دھڑ وغیرہ۔
(8 ) آندھ ہندی میں بو کو بولتے ہیں۔ اس کو بڑھا کر لفظ بناتے ہیں۔ جیسے چراند۔ بساند۔ سڑاند وغیرہ۔
ہندی الفاظ کی تراکیب۔ ان کے بنانے کی پانچ صورتیں ہیں۔ مرکبات تابع۔ مرکبات ربطی۔ مرکبات توصیفی۔ مرکبات اعدادی۔ مرکبات تمیزی۔
مرکبات تابع۔ اس کی حسب ذیل اقسام ہیں۔
(1) تابع مفعول۔ وہ مرکب لفظ جس کا پہلا جز اسم فاعل اور دوسرا مفعولی صورت میں پہلے کا تابع ہوتا ہے۔ جیسے چڑی مار۔ بھڑ بھونجا وغیرہ۔
(2) تابع انتقالی۔ اس کا پہلا جز دوسرے جز سے انتقالی تعلق رکھتا ہے جیسے۔ دوغلا۔ پچمیل وغیرہ۔
(3) تابع اضافی۔ اس کا پہلا جز دوسرے جز سے اضافی تعلق رکھتا ہے جیسے پن گھٹ۔راج پوت وغیرہ۔
(4) تابع ظرفی۔ اس کے پہلے جز کا تعلق دوسرے سے ظرفی ہوتا ہے۔ جیسے سرگ باسی۔ بن مانس وغیرہ۔
مرکبات ربطی۔ اس کے پہلے اور دوسرے لفظ کے درمیان حرفِ ربط ہوتا ہے جیسے مٹیا برج۔ دھڑا دھڑ۔ بھاگا بھاگ۔ آب و ہوا۔ شور و شر وغیرہ۔ بعض مرکبات میں حرف ربط مخذوف ہوتا ہے اور اردو میں یہ مرکبات کثرت سے مستعمل ہیں۔ جیسے راتدن۔ بول چال۔ توڑ جوڑ۔ برا بھلا۔ بھول چوک۔دیکھ بھال۔ چال چلن۔ چھان بین۔ دم دلاسا۔ ہار جیت۔ دم خم وغیرہ۔
مرکبات توصیفی۔ وہ مرکب لفظ جس سے توصیف ظاہر ہو جیسے کن کٹا۔ مہاراج۔ کلجگ وغیرہ
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
242

نوٹ:- بعض ہندی الفاظ پر ذم کے لئے ک اور مدح کے لئے س بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے کپوت۔ سپوت۔ یا کڈہب۔ سڈول وغیرہ۔
مرکبات عددی۔ جن سے شمار اعداد کا مفہوم ظاہر ہو جیسے دورنگا۔ دوپٹہ۔ تراہا۔ چوبغلا۔ ہشت پہل۔ دوتارا۔ پچ لڑی وغیرہ۔
مرکبات تمیزی۔ ابہام دور کرنے والے کلمات جو عدد نہیں ہوتے تمیز کہلاتے ہیں اور جو ابہام دور کرتے ہیں ان کو ممیز کہتے ہیں۔ جیسے تمام دن ۔ سب لوگ وغیرہ۔
[TODO: Add Chart]
مرکب اضافی۔ وہ الفاظ جن کے اجزاء اضافت کی وجہ سے مرکب ہوں جیسے آپکا خادم یا فارسی میں خادم آنجناب میم مکسور کے ساتھ۔
اِضافت (ء) بروزن لیاقت۔ بمعنی لگاؤ۔ نسبت۔ علاقہ۔ لیکن قواعد نحو میں ایک اسم کی دوسرے اسم سے نسبت کرنے کو کہتے ہیں۔ واضح ہو کہ جس اسم کی نسبت کرتے ہیں اسے مضاف اور دوسرے اسم کو مضاف اللہ کہتے ہیں۔اردو میں اضافت کی نو9 علامتیں ہیں۔ کا۔ کی ۔ کے۔ را۔ ری۔ رے۔ نا۔ نی۔ نے۔ جیسے اس کا گھر۔ دل کی بات۔ سوئی کے ٹکڑے۔ میرا گھوڑا۔ تیری ٹوپی۔تمہارے اونٹ۔ اپنا دیس۔ اپنی چیز۔ اپنے لوگ وغیرہ۔ اس کی نو قسمیں ہیں۔ تملیکی ۔ تحقیقی۔ توضیحی۔ بیانی۔ تشبیہی۔ مجازی۔ ظرفی۔ تعلقی۔ اور توصیفی۔
نوٹ:- کا۔ کی۔ کے۔ اسم مظہر اور اسم مضمر دونوں کے لیے آتے ہیں۔ جیسے زید کا لڑکا۔ اس کے لڑکی۔
(2) را۔ ری۔ رے، ضمیر مخاطب اور متکلم سے مخصوص ہیں جیسے میرا قلم۔ تمہاری پنسل۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(3) نا۔ نی۔ نے، یہ علامتیں آپ (بمعنی خود) سے متعلق ہوتی ہیں جیسے اپنا دل۔ اپنی مرضی وغیرہ۔
(4) اگر مضاف اللہ معرفہ ہے تو اضافت کی وجہ سے مضاف بھی معرفہ ہو جاتا ہے، جیسے زید کا لڑکا۔ یہاں زید معرفہ ہے اور لڑکا نکرہ۔ مگر اضافت کی وجہ سے یہ بھی معرفہ ہوگیا۔
(5) اگر معرفہ کی جگہ نکرہ ہوتو ایک خصوصیت پیدا ہو جاتی ہے۔ جیسے غم کا طوفان۔ یہاں غم نے طوفان کی خصوصیت نمایاں کر دی۔
اضافت تملیکی۔ وہ اضافت جس سے ملکیت ظاہر ہو جیسے میر کا کلام یا کلام میر۔
اضافت تحقیقی۔ وہ اضافت جس سے خصوصیت ظاہر ہو جیسے میرا یار یا یار مومن۔
اضافت توضیحی۔ وہ اضافت جس سے مضاف کی توضیح ہو جیسے سردی کا موسم یا موسم سرما۔
اضافت بیانی۔ مضاف اللہ کی حقیقت مضاف سے ظاہر ہو جیسے سونے کا پانی یا آب زر۔
اضافت تشبیہی۔ مشبہ کی اضافت مشبہ کی جانب جیسے رحمت کا منہہ۔ یا باران رحمت۔
اضافت مجازی۔ فرضی اضافت جیسے رحمت کا منہہ یا باران رحمت کہ دراصل رحمت کا منہہ نہیں ہوتا۔ بالعموم ایسی اضافت استعارہ ہو جاتی ہے۔
اضافت ظرفی۔وہ اضافت جس سے مظروف مضاف ہو جیسے دریا کا پانی۔ یا آب دریا۔
اضافت تعلقی۔ یہ اضافت تعلق ظاہر کرتی ہے جیسے میراگھر یا خانہ من۔
اضافت توصیفی۔ جو صفت اور موصوت سے بنے۔ جیسے نمک کا پانی یا آب نمک۔
[TODO: Add Chart]
مرکَب توصیفی۔ وہ مرکب جس سے اسم کی اچھائی برائی ظاہر ہو جیسے وہ بڑا بہادر لڑکا۔ ہے۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
244

یہاں لڑکا اسم ہے اور بہادر صفت چنانچہ لڑکا موصوف ہوا۔واضح ہو کہ اردو میں صفت زیادہ تر موصوف سے پہلے آتی ہے مگر فارسی میں موصوف کو پہلے لاتے ہیں۔ اردو میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں۔ جیسے ذوق کا یہ مصرعہ۔
روح مجسم ۔ عقل مکرم۔ نفس مقدس۔ جسم مطہر
نوٹ:- (1) بعض وقت صفت مرکب بھی آتی ہے۔ جیسے شیردل انسان۔ بدمزاج شوہر وغیرہ۔
(2) صفت اور موصوف کی پہچان یہ ہے کہ جس اسم کے ساتھ سوال میں کیسا۔ کیسی کیسے لگ سکے و ہ موصوف ہے اور جوان کے جواب میں آئے وہ صفت ہے۔ جیسے برا لڑکا۔ یعنی کیسا لڑکاجواب میں برا۔ چنانچہ برا صفت لڑکا موصوف ہوا۔
(3) صفت کی تذکیر و ثانیت اور وحدت و جمیعت موصوف کے مطابق ہوتی ہے۔ جیسے بڑا ٹائر۔ چھوٹے کٹورے۔ وغیرہ۔ مگر جب موصوف جمع مونث ہو تو صفت واحد مونث ہوتی ہے۔ جیسے اونچی دیواریں۔
(4) جب موصوف جمع کو حذف کرکے حرف صفت استعمال کرتے ہیں تو صفت جمع لاتے ہیں۔ جیسے نیکوں کی صحبت اختیار کرو۔ یعنی نیک آدمیوں کی صحبت اختیا ر کرو۔
(5) اگر موصوف کے آخر میں الف یا واؤ ہوتا ہے تو بصورت اضافت سے زیادہ کر دیتے ہیں۔ جیسے روئے زیبا۔ ضیائے ماہ۔ لیکن آخر میں ہ ہو تو اس پر ہمزہ بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے جلوۂ دوست۔
اضافت مقلوبی۔ فارسی میں موصوف پہلے اور صفت بعد کو مستعمل ہے جیسا بتایا جا چکا ہے۔ یعنی آب گل۔ لیکن مقلوب ہونے پرفک اضافت کے ساتھ گلاب کہتے ہیں
 
Top