مکمل فکر اقبال ۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم

فرخ منظور

لائبریرین
فکر اقبال




ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم




بزم اقبال لاہور
٭
فکر من از جلوہ اش مسحور گشت
خامہ من شاخ نخل طور گشت
اقبال
سخنے چند
’’ فکر اقبال‘‘ کا آٹھواں ایڈیشن حاضر خدمت ہے۔ ساتویں ایڈیشن میں گزشتہ اشاعتوں کی اغلاط وغیرہ درست کرنے کی حتیٰ الامکان کوشش کی گئی۔ یہ کام ڈاکٹر وحید قریشی ک نگرانی میں ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی نے انجام دیا۔ آخر میں حوالے بھی دے دئیے گئے ہے۔ امید ہے یہ اصلاح اس اشاعت کو زیادہ مفید بنائے گی۔
علامہ اقبال کے کلام کی تفہیم میں اس کتاب کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ یہ کتاب نسخ ٹائپ میں چھپتی رہی ہے اس لیے عام طالب علم اس سے پورا فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ ضرورت تھی کہ اس کا غلطیوں سے پاک نستعلیق ایڈیشن شائع کیا جائے۔ سابق سیکرٹری ڈاکٹر وحید قریشی کے ایماء پر ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی صاحب نے تدوین نو کا کام اپنے ہاتھ میں لیا۔
اب اس کتاب کے شروع میں خلیفہ صاحب کا تصحیح شدہ متن ہے، دوسرا حصہ آخر میں سخنے چند کے عنوان سے ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی صاحب نے لکھا ہے۔ خلیفہ صاحب کے حالات و تصانیف کا مفصل تذکرہ بھی ہے، پھر حواشی و تعلیقات کا اضافہ کیا گیا ہے۔ خلیفہ صاحب مرحوم نے کتاب میں بہت سے فارسی اور اردو اشعار کے علاوہ آیات قرآنی کے حوالے بھی دیے تھے لیکن یہ حافظے کی بنیاد پر تھے اس لئے بعض جگہ اشعار میں الفاظ کی تبدیلی کے علاوہ مصرعوں کی ترتیب بھی بدل گئی تھی۔ اسی طرح آیات قرآنی کا کلام پاک سے دوبارہ مقابلہ کر کے متن کی تصحیح کر دی گئی ہے۔ حاشیوں میں بعض اشعار کے اصل مآخذ کی نشاندہی بھی ہے۔ امید ہے پہلے کے مقابلے میں یہ کتاب اب زیادہ سود مند ثابت ہو گی۔
(ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سینہ تھا ترا بام مشرق و مغرب کا خزینہ
دل تھا ترا اسرار و معارف کا دفینہ


ہر شعر ترا بام ترقی کا ہے زینہ
مانند مہ نو تھا فلک سیر سفینہ


اس ساز کے پردے میں تھی عرفان کی آواز
کیا عرش سے ٹکرائی ہے انسان کی آواز


سچ تلخ تھا لیکن اسے شیریں کیا تو نے
تلخابہ غم کو شکر آگیں کیا تو نے


تعلیم خودی دے کے خدا بیں کیا تو نے
کنجشک فرومایہ کو شاہیں کیا تو نے


پر ٹوٹے تھے جن کے انہیں پرواز عطا کی
گونگے تھے جو انساں انہیں آواز عطا کی


دل تیرا مئے عشق سے لبریز تھا ساقی
اور درد کی لذت سے طرب خیز تھا ساقی


قطرۂ تری مے کا شرر انگیز تھا ساقی
ساغر ترا گل بیز و گہر ریز تھا ساقی


تف مے پہ جو سنبھلے ہوئے انساں کو گرا لے
وہ مے تھی ترے خم میں جو گر توں کو سنبھالے


وہ عشق جو انسان کی ہمت کو ابھارے
وہ عشق جو دنیا میں بگڑتے کو سنوارے


جس عشق سے اغیار بھی بن جاتے ہیں پیارے
جس عشق کے اشکوں سے فلک پر بنے تارے


وہ عشق تھا تیرے دل و جاں میں رگ و پے میں
جس طرح نشہ مے میں ہے، اور نغمہ ہے نے میں
٭٭٭
میں (ر)
منزل ہی نہیں جس کی کہیں پر وہ ترا شوق
سیارۂ گردوں کو نہ ہے تحت نہ ہے فوق


آزادی انسان کا ترے دل میں تھا کیا ذوق
زنجیر علائق نہ تو ہم کا کوئی طوق


وہ بحر تفکر کہ نہیں جس کا کنارا
سیلاب نہیں ڈھونڈتا ساحل کا سہارا


حکمت ہمیں دی شعر کی صہبا میں ڈبو کر
حق پیش کیا سوز نہانی میں سمو کر


جس نخل کا دنیا میں گیا پج تو بو کر
اک روز رہے گا وہ فلک بوس ہی ہو کر


رس عشق کا اس نخل کی رگ رگ میں چلے گا
ہر سمت میں وہ پھولے گا پھیلے گا پھلے گا


سمجھایا ہمیں کیا ہے بری چیز غلامی
تھے جس سے زبوں ہو کوئی گمنام کہ نامی


محکوم ہے تو، تو تری فطرت کی ہے خامی
آزادی افکار سے انساں ہے گرامی


آزاد ہی دنیا میں ہے اللہ کا شہکار
ہر بندۂ آزاد ہے تقدیر کا معمار


ہندی تھے غلامی کے نشے میں سبھی مدہوش
تھے سر پہ رکھے فخر سے اغیار کی پاپوش


حیوانوں کا مقصد تھا فقط خواب و خور و نوش
بے عزت و بے غیرت و بے ہمت و بے ہوش


رسوائی میں جو مست تھے ہشیار ہوئے ہیں
صدیوں سے جو سوتے تھے، وہ بیدار ہوئے ہیں
٭٭٭
(س)
ڈھانچا جو غلط تھا تہ و بالا کیا تو نے
دنیا کے اندھیرے میں اجالا کیا تو نے


اس قوم میں کیا کام نرالا کیا تو نے
منہ جھوٹ کا اور مکر کا کالا کیا تو نے


تہذیب و سیاست کے طلسمات کو توڑا
سچائی سے ہر جھوٹی کرامات کو توڑا


اقبال! تو پیغام بر عشق و عمل ہے
انساں کی ترقی کا یہ قانون اٹل ہے


یہ نغمہ جاوید ہے یہ ساز ازل ہے
ہاں زیست کی مشکل کا فقط ایک ہی حل ہے


جاں صرف عمل اور ہو دل عشق سے لبریز
اٹھتا ہے یونہی جادۂ ہستی میں قدم تیز


عاقل تھا مگر عقل کے پیچاک سے آزاد
اور حکمت افرنگ کے فتراک سے آزاد


دنیا میں تھا دنیا کے غم و باک سے آزاد
خاکی تو وہ بے شک تھا مگر خاک سے آزاد


ہے دل کی جگہ دور کہیں ارض و سما سے
ہوتا ہے جہاں بندہ ہم آغوش خدا سے


ہادی ہے وہ انساں کو جو آگے کو بڑھا دے
تاریکی میں انساں کے ہاتھوں میں دیا دے


جو عقل پہ پردے ہیں پڑے ان کو اٹھا دے
صیقل کرے آئینہ دل اس کو جلا دے


ہر قلب کو تقدیر حقیقی نظر آئے
اور آنکھ کو تصویر حقیقی نظر آئے
٭٭٭
(ش)
اقوام ہوں جس بانگ سے بیدار وہ پیغام
انساں ہوں مے عشق سے سرشار وہ پیغام


ہو بار امانت سے گرانبار وہ پیغام
ہر روح، حقیقت سے ہو دو چار وہ پیغام


وہ جوش کہ انسان ابھر جاتے ہیں جسے سے
کھوٹے بھی کھرے بن کے نکھر جاتے ہیں جس سے


کہتے ہیں سخنور کہ تھا شاہ سخن اقبال
ظاہر میں فقط شعر میں تھا اہل فن اقبال


ہے اصل حقیقت یہ کہ تھا بت شکن اقبال
مولا کو وطن کہتا تھا یہ بے وطن اقبال


اس جسم میں تھا روح کی معراج کا طالب
انساں کے لیے دل کے سواراج کا طالب


عارف کی نظر اپنے وطن تک نہیں محدود
کیوں اس کی نظر ہو در و دیوار میں مسدود


گو حب وطن اس میں تھی اک جذبہ محدود
اقبال نے دھرتی کو بنایا نہیں معبود


خاکی جو نہیں کرتا ہے افلاک کی پوجا
کس طرح سے کر سکتا ہے وہ خاک کی پوجا


عارف کی نظر گاہ وہی اس کا وطن ہے
پورب ہے نہ پچھم ہے نہ اتر نہ دکن ہے


ندی کوئی اس میں ہے نہ پربت ہے نہ بن ہے
نہ دیر و حرم کی کوئی تعمیر کہن ہے


نہ شوق کا گرویدہ نہ افرنگ کا عاشق
کس طرح سے ہو وہ چمن و گنگ کا عاشق
٭٭٭
(ص)
کم کوئی ہے اس عمکدۂ دہر میں آیا
جس نے وطن اپنا دل انساں میں بنایا


انسان کی توقیر کا وہ راگ ہے گایا
موسیقی جاں بن کے جو جانوں میں سمایا


یہ راگ ہے وہ، کون و مکان ساز ہے جس کا
روحوں میں نہاں اور عیاں راز ہے جس کا


تھا شیخ سے بیزار برہمن سے بھی بیزار
نہ اس کا پرستار تھا نہ اس کا گرفتار


دولت کا شکار اور نہ سیاست کا گنہگار
افکار سے مستقبل اقوام کا معمار


جن ابلہ فریبوں میں ہے مکتی کا اجارہ
تعلیم سے تیری ہے بہت ان کو خسارہ


ہر شعر سے اٹھتا ہے سدا نعرۂ تکبیر
خوں تیری سیاہی ہے قلم تیری ہے شمشیر


اشعار ترے کاتب تقدیر کی تحریر
آئینہ بکف جس میں ہے اقوام کی تقدیر


مضراب ترے شعر ہیں انسان کا دل ساز
فطرت ترے نغموں پہ رہی گوش بر آواز


یہ شعر ہے، کہتے ہیں جسے جزو نبوت
یہ شعر ہے شاگردی رحمان کی آیات


یہ شعر بدل دیتا ہے انسان کی حالت
اس شعر میں ہے عالم لاہوت کی دولت


یہ شعر حقیقت میں ہے پروردۂ الہام
نعمت ہے بہت خاص مگر فیض بہت عام
٭٭٭
(ض)
جس کا ہو کلام ایسا کلیم اس کو ہیں کہتے
حکمت سے ہو لبریز حکیم اس کو ہیں کہتے


افکار کی جنت ہے، نعیم اس کو ہیں کہتے
اے صاحب دل، طبع سلیم اس کو ہیں کہتے


انسان ہے اللہ کا مشعوق اسی سے
خاکی یہ ہوا اشرف مخلوق اسی سے


اقبال کے ہیں شعر سخنداں کی زباں پر
اقبال کے اقوال ہوئے نقش ہیں جاں پر


اقبال کے ہیں تیر سیاست کی کماں پر
تیغوں کو جلا دیتے ہیں اس سنگ فساں پر


اقبال نے رنگ اپنا ادیبوں پہ چڑھایا
رنگ اپنی خطابت کا خطیبوں پہ چڑھایا


اب دل میں ہے ہر ایک کے پیدا وہی انداز
اب قوم کی آواز بنی ہے تری آواز


الفاظ میں تیرے ہے کوئی سحر کے اعجاز
بجتا ہے ہر اک رنگ کی محفل میں ترا ساز


اشعار ترے پیر و جواں سب کو ہیں ازبر
محفل کی ہیں رونق تو کہیں گرمی منبر


تھے صاحب دل رومی و عطار و سنائی
تھی جن کی خودی آئنہ راز خدائی


لے عالم ارواح کی انساں کو سنائی
کچھ لذت وصل اس میں ہے کچھ درد جدائی


ایسے ہی فقیروں کا ہم آہنگ تھا اقبال
مردان خدا دوست کا ہم رنگ تھا اقبال
٭٭٭
(ط)
انسان کا کیا قحط ہے اس دیر کہن میں
اک مرد حق آتا ہے کئی ایک قرن میں


سمجھائے انہیں کون جویاں مست ہیں دھن میں
دولت جو حقیقی ہے وہ انساں کے ہے من میں


اس دولت سرمد کا شہنشاہ تھا اقبال
فطرت کی گواہی ہے حق آگاہ تھا اقبال


کام ایسا جو کرتا ہے وہ مرتا نہیں ہرگز
ایسے جو جیے موت سے ڈرتا نہیں ہرگز


دنیا سے گیا، دل سے گزرتا نہیں ہرگز
اس صحفے سے یہ نقش اترتا نہیں ہرگز


جب تک کہ دل افروز یہ پیغام ہے باقی
عالم کے جریدے پہ ترا نام ہے باقی
٭٭٭
؎یہ نظم علامہ اقبال کی وفات پر کہی گئی۔ خلیفہ عبدالحکیم
 

فرخ منظور

لائبریرین
تمہید
اقبال شاعر بھی ہے اور مفکر بھی، وہ حکیم بھی ہے اور کلیم بھی، وہ خودی کا پیغامبر بھی ہے اور بے خودی کا رمز شناس بھی، وہ تہذیب و تمدن کا نقاد بھی ہے اور محی الملت والدین بھی، وہ توقیر آدم کا مبلغ بھی ہے اور تحقیر انسان سے درد مند بھی۔ اس کے کلام میں فکر و ذکر ہم آغوش ہیں اور خبر و نظر آئینہ یک دگر۔ ایسے ہمہ گیر دل و دماغ کے مالک اور صاحب عرفان و وجدان کے افکار اور تاثرات کا تجزیہ اور اس پر تنقید کوئی آسان کام نہیں۔ اس نے زیادہ تر شعر ہی کو ذریعہ اظہار بنایا، کیوں کہ فطرت نے اس کو اسی حیثیت سے تلمیذ الرحمان بنایا تھا۔
کسی بڑے شاعر کے کلام میں سے ایک مربوط نظریہ حیات و کائنات کو اخذ کرنا ایک دشوار کام ہے۔ شاعری منطق کی پابند نہیں ہوتی اور شاعر کا کام استدلالی حیثیت سے کسی نظام فلسفہ کو پیش کرنا نہیں ہوتا۔ اقبال نے نثر میں اپنے افکار کو بہت کم پیش کیا ہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا فکر کبھی جذبے سے خالی نہیں ہوتا تھا اور حقیقت میں وہ اسرار حیات کو نثری استدلال میں پیش کرنے کا قائل ہی نہ تھا۔ وہ رازی اور بو علی کا مداح نہ تھا، اس کے پیش نظر ہمیشہ رومی جیسا عارف رہتا تھا، جس کے فکر کا ساز بے سوز نہ تھا۔ اس فرق کو اقبال نے لا تعداد اشعار میں نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ فقط اس قطعے سے بھی یہ فرق و تضاد واضح ہو جاتا ہے:
بو علی اندر غبار ناقہ گم
دست رومی پردۂ محمل گرفت
حق اگر سوزے ندارد حکمت است
شعر می گردد چو سوز از دل گرفت
نثری تنقید و تشریح میں فکر اقبال کو پیش کرنے والا کبھی اس کے ساتھ پورا انصاف نہیں کر سکتا۔ گوئٹے نے کیا خوب کہا ہے کہ زندگی تو ایک ہرا بھرا درخت ہے لیکن اس کے متعلق نظریات برگ خزاں کی طرح زرد ہوتے ہیں۔ مضمون کو خشکی سے بچانے کی ایک ہی ترکیب ہو سکتی ہے کہ ہر موضوع کے متعلق اقبال کے اشعار بکثرت پیش کر دیے جائیں اور نثر کی تشریح اور تنقید کے رشتے میں ان انمول موتیوں کو پرو دیا جائے۔ مالا میں دھاگا موتیوں کے مقابلے میں بے قیمت اور بے حیثیت ہوتا ہے لیکن ایک بڑی خدمت انجام دیتا ہے، دھاگا نہ ہو تو موتی منتشر رہیں گے۔ دشواریوں کے باوجود اقبال کے افکار کو کسی نظم و ربط میں لانا نہایت ضروری معلوم ہوتا ہے تاکہ مجموعی حیثیت سے اس کا نظریہ حیات واضح ہو سکے مگر شعر جیسی وجدانی اور جذباتی چیز منطقی تنقید و تجزیہ کی متحمل نہیں ہو سکتی اور شاعر اس سے بے زار ہو کر انوری کی طرح کہہ اٹھتا ہے کہ ’’شعر مرا بمدرسہ کہ برو‘‘ لیکن سمجھنے اور سمجھانے کا اور کوئی طریقہ بھی نہیں۔
اقبال کے کلام کو محض شاعری کی حیثیت سے بھی دیکھ سکتے اور پرکھ سکتے ہیں، اگرچہ وہ کہہ گئے ہیں کہ خدا اس شخص کو نہ بخشے جس نے مجھے شاعر جانا۔ خود فرماتے تھے کہ اس کا امکان ہے کہ مستقبل میں فن شعر کے نقاد مجھے شاعروں کی فہرست میں سے خارج کر دیں لیکن شاعری، شاعری میں فرق ہے۔ اقبال کی شاعری وہ شاعری ہے جو شاعر کے تلمیذ الرحمان ہونے کا نتیجہ ہوتی ہے اور جسے پیغمبری کا ایک جزو قرار دیا گیا ہے اور جس کی نسبت ایک استاد بلیغ شعر کہہ گیا ہے:
مشو منکر کہ در اشعار ایں قوم
وراے شاعری چیزے دگر ہست
فرماتے تھے کہ میں نے شاعری پر بحیثیت فن توجہ نہیں کی، اس کے لیے خاص محنت اور فرصت درکار ہے۔ جواب شکوہ پر ایک صاحب نے فنی تنقید کی اور زبان و محاورہ کے لحاظ سے اشعار کو قابل اصلاح قرار دیا۔ اس کے جواب میں علامہ نے فرمایا کہ میں نے اپنے مسودے میں اس سے زیادہ اشعار اور الفاظ پر نشان لگا رکھے ہیں جن کے متعلق مجھے خود تسلی نہیں، لیکن تزئین کلام اور اصلاح زبان کے لیے فرصت چاہیے، جو مجھے میسر نہیں۔ تمام ملک میں شاعر غرا مشہور ہو جانے کے بعد بھی وہ بانگ درا کے مجموعے کی طباعت و اشاعت کی تعویق میں ڈالتے رہے کہ اکثر نظموں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود ان کا کلام محض فن کی حیثیت سے بھی ہر قسم کے کمالات کا آئینہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو فطرت نے شاعر بنایا تھا اور بقول غالب۔:
خواہش شعر خود آں بود کہ گردد فن ما
اردو اور فارسی کے تمام اساتذہ میں سے شاید ہی کوئی دوسرا شاعر اس قماش کامل سکے، جس نے بغیر اپنی باطنی نفسی تحریک کے کبھی شعر نہیں کہا۔ اقبال کا تمام کلام آمد کا نتیجہ ہے، آورد کو اس میں کہیں دخل نہیں، اپنے متعلق بالکل بجا فرماتے ہیں کہ مجھے آرائش بیان مینکوششیں کرنے کی ضرورت نہیں:
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی
اقبال کی شاعری میں بغیر کوشش کے سخن نغز کے تمام تقاضے پورے ہو جاتے ہیں۔ انسان کے لیے زبان فطرت بناتی ہے لیکن اس کے بعد صرف و نحو کے قواعد اس میں سے اخذ کر لیے جاتے ہیں جو اس کے اندر مضمر ہوتے ہیں، جس طرح شجر اور شگوفہ و ثمر فطرت کا جذبہ نما و نمود پیدا کرتا ہے، لیکن عالم نباتات آفرینش کے بعد ان قوانین کا سراغ لگاتا ہے جن کی تحقیق کی بدولت برگ درخت سبز معرفت کردگار کا دفتر معلوم ہوتا ہے۔ ایک متشاعر کے کلام میں صنعت مقدم ہوتی ہے اور آفرینش شعر موخر، لیکن تلمیذ الرحمان شاعر کے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ شعر اپنی موزونی اور جمال کے ساتھ بے تکلف طبیعت میں ابھرتا ہے، اس کے بعد نقاد شعر دیکھتا ہے کہ اس میں خود بخود لطیف صنعتیں پیدا ہو گئی ہیں۔ بڑے سے بڑا قادر الکلام شاعر جس کا مجموعہ کلام اقبال کے برابر ہو نہ تو خود اس کا دعویٰ کر سکتا ہے اور نہ کوئی نقاد اس کا مدعی ہو سکتا ہے کہ اس کے کلام میں کہیں کوئی خامی نظر نہیں آتی:
گر سخن اعجاز باشد بے بلند و پست نیست
در ید بیضا ہمد انگشتہا یک دست نیست
غالب بھی اگرچہ فطرت کا بنایا ہوا شاعر تھا لیکن وہ اپنے شعر کو فنی لحاظ سے کامل اور رفتہ و شستہ بنانے کی کوشش کرتا تھا، اس کے باوجود اس کے مختصر مجموعہ اردو میں ناقدوں اور شرح نویسوں نے زبان اور محاورے کی بے شمار خامیوں پر انگشت اعتراض دھری ہے۔ اقبال کے متعلق اتنی بات دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ فن کی طرف سے بے نیاز ہونے کے باوجود اس کے کلام میں قابل قبول اعتراض کی گنجائش کہیں شاذ و نادر ہی ملے گی۔ علامہ اقبال کے احتجاج کے باوجود یہ نا ممکن ہے کہ بحیثیت شاعر ان پر نظر نہ ڈالی جائے لیکن شعر اقبال بحیثیت فن اقبال کے فلسفہ حیات سے ایک الگ اور مستقل موضوع ہے۔
قرآن کریم نے سورۃ شعراء میں شاعر کی حیثیت اور اس کے انداز حیات کا مختصر مگر جامع الفاظ میں تجزیہ کیا ہے۔ اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ نبی کریم ؐ کو مخالفین کبھی مجنوں کہتے تھے اور کبھی شاعر قرار دیتے تھے اور وہ محض اس لیے کہ قرآن میں اچھی شاعری کی تمام خوبیاں موجود ہیں، تشبیہہ و تمثیل و استعارہ، مسجع اور مقفی سورتیں، دل نشیں انداز کلام، سبھی کچھ اس صحیفے میں بدرجہ کمال موجود ہے۔ اسرار حیات سے نا آشنا اور روح کی گہرائیوں سے بے تعلق ظاہر بینوں کو وہ ایک شاعر کا کلام دکھائی دیا، قرآن کو نازل کرنے والے نے اس کی تردید کی کہ ہم نے اس نبی کو شاعری نہیں سکھائی، پھر کہا ’’ آؤ تمہیں بتائیں کہ شاعر علی العلوم کیا ہوتے ہیں اور انبیاء سے ان کو کس طرح ممتاز کر سکتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ محض شاعر اچھا رہنما نہیں بن سکتا۔ اس کا کوئی مخصوص نظریہ حیات اور مقصود زندگی نہیں ہوتا، اس کی کوئی منزل معین نہیں ہوتی جس کی طرف وہ یقین اور استحکام سے گامزن ہو۔ وہ زندگی کی تمام وادیوں میں ہرذہ گردی کرتا ہے اور جس منظر سے جس طرح ہنگامی طور پر متاثر ہوتا ہے اس کو بیان کے سانچے میں ڈھال لیتا ہے۔ اس کے جذبات اور تاثرات کی لہریں کسی آئین کی پابند نہیں ہوتیں، وہ کسی خاص ضابطہ حیات کا مبلغ نہیں ہوتا، اس لیے کہ وہ خود کسی یقین محکم پر زندگی بسر نہیں کرتا، وہ اپنے آپ کو اس کا پابند نہیں سمجھتا کہ اس کے قول اور فعل میں مطابقت ہو۔ حساس طبیعت رکھنے کی وجہ سے اس کے ہاں فقط تاثر اور اظہار تاثر ہے لیکن چونکہ اس کا تاثر ہنگامی ہوتا ہے اس لیے وہ کسی مستقل ارادے اور عمل میں تبدیل نہیں ہوتا، ایسے شخص کو جس کے مزاج میں تلون اور گوناگونی ہے، اگر کوئی رہنما سمجھ لے تو وہ یقینا گمراہ ہے۔‘‘
اس ضمن میں ایک لطیفہ بیان کیا جاتا ہے کہ کسی مسلمان سلطان کے دربار میں شعراء کو دعوت دی گئی کہ وہ ایک روز حاضر ہو کر اپنا کلام سنائیں۔ چوبداروں نے شاعروں کو ان کے گھروں سے جمع کیا اور ایک جلوس کی صورت میں ان کو ہمراہ لے کر قصر شاہی کی طرف چلے۔ بعض آوارگان بازار بھی ان کے پیچھے پیچھے ہو لیے کہ اس طرح قصر شاہی میں داخل ہونے اور دربار میں حاضری کا موقع مل جائے گا۔ ان کا یہ حیلہ کامیاب ہو گیا۔ دربار میں شعراء کی صف کے پیچھے وہ بھی کھڑے ہو گئے۔ بادشاہ نے ان کو بھی شاعر سمجھا۔ جب شعراء اپنا کلام سنا چکے تو اس پچھلی صف والوں کو حکم ہوا تم بھی اپنا کلام سناؤ۔ انہوں نے کہا کہ حضور ہم شاعر نہیں ہیں۔ اس پر بادشاہ کو نہایت غصہ آیا اور پوچھا کہ تم یہاں کس حیثیت سے داخل ہوئے۔ ان میں سے ایک ظریف نے جواب دیا ’’ ہم غادون یعنی گمراہ لوگ ہیں اور از روئے قرآن شاعروں کے پیچھے پیچھے چلے آئے ہیں۔‘‘ اس پر دربار میں خوف قہقہہ لگا بادشاہ کا غصہ فرو ہوا اور ان کو بھی کچھ انعام اکرام مل گیا۔
قرآن حکیم اگر شاعروں کے متعلق فقط اتنا ہی کہہ کر چھوڑ دیتا تو بات ادھوری رہ جاتی لیکن قرآن کی نظم زندگی کے تمام پہلوؤں پر ہوتی ہے، اسی لیے عام شعراء کی سیرت کا یہ نقشہ کھینچنے کے بعد یہ ارشاد ہے کہ اس گروہ میں کچھ مستثنیات بھی ہیں، کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں شاعر کا حساس قلب اور حسن بیان عطا کیا جاتا ہے لیکن وہ ہرزہ گر نہیں ہوتے، وہ صاحب ایمان ہوتے ہیں اور ایک معین نظریہ حیات رکھتے ہیں اور اس ایمان کی بدولت ان سے اعمال صالحہ بھی سرزد ہوتے ہیں جو یقین محکم کا نتیجہ ہوتے ہیں، ان کے اقوال و افعال میں تفاوت نہیں ہوتا، ان کے بیان میں خلوص ہوتا ہے، وہ دروغ بیانی نہیں کرتے، جذبات رذیلہ ان کی طبیعت میں انہیں ابھرتے اور نہ ہی وہ سامعین کی طبیعتوں میں ان کو اکسانا چاہتے ہیں۔قرآن کے بیان کے مطابق ایسے شعراء کی تعداد نہایت قلیل ہو گی کیونکہ اس سورۂ میں ایسوں کو بطور استثناء پیش کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود رسول کریم ؐ اچھے شعر کے قدر دان تھے بشرطیکہ اس سے اچھے افکار پیدا ہوں اور شریفانہ جذبات کی پرورش ہو۔ حضرت عمر فاروقؓ جیسا سراپا عدل و عمل شخص بھی اچھی شاعری کا قدر دان تھا، وہ مسلمانوں کو تاکید کیا کرتے تھے کہ اپنی اولاد کو اچھے اشعار یاد کرایا کرو۔ امراء القیس کے متعلق رسول کریم ؐ کی تنقید کس قدر حکمت آموز ہے، اسے بشعر الشعراء کہنے کے ساتھ ’’ قانہ ھم الی النار‘‘ بھی کہا جس کا مطلب یہ ہے کہ کامل فن ہونے کے باوجود ایک شاعر ایمان اور اعمال صالحہ سے معرا ہو سکتا ہے اور اپنے کمال سے یہ کام لے سکتا ہے کہ جذبات رذیلہ کو ابھار کر لوگوں کو جہنم کی طرف لے جائے۔ شعر کی حیثیت بھی علم کی سی ہے کہ علم ایک زبردست مگر بے طرف قوت ہے: علم کے غلط استعمال سے ایک عالم بہ عمل اپنے آپ کو بھی تباہ کر سکتا ہے اور دوسروں کو بھی، لیکن علم کے صحیح استعمال سے انسانیت عروج حاصل کر سکتی ہے:
علم چون بر تن زنی مارے شود
علم چون بر جان زنی یارے شود
زندگی میں قوت کے ہو اور سرچشمے ہیں ان ک ابھی یہی حال ہے۔ مال کی بھی یہی کیفیت ہے، زندگی بسر کرنے کے لیے مال کی بھی ایسی ہی ضرورت ہے جیسے کشتی چلانے کے لیے پانی لازم ہے: لیکن مال اگر کشتی روح کے اندر جائے تو اس کو ڈبو دے گا:
مال را گر بہر دین باشی ممول
نعم مال صالح گفتا رسولؐ
آب در کشتی ہلاک کشتی است
زیر کشتی بہر کشتی پشتی است
مسلمانوں میں شعراء بے شمار گزرے ہیں لیکن ایسے شعراء کو شاید ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گن سکیں جو اس معیار پر پورے اتر سکیں، جو قرآن نے اچھے شاعر کے لیے قائم کیا ہے۔ زیادہ تر شعراء ایسے ہی ہیں جنہوں نے اپنے کمال کو ہوس پروری اور ہوس انگیزی ہی میں صرف کیا۔ شعرائے ہند اور شعرائے عجم کے تمام تذکرے دیکھ جاؤ، ان میں رومی، سنائی، عطار اور حالی جیسے شاعر خال خال نظر آئیں گے، باقی سب کا وہی حال ہے جو حالی نے مسدس میں لکھا ہے۔ شعر و قصائد کا دفتر زیادہ تر ناپاک ہی ہے۔
اقبال نے شاعری سے جو کام لیا ہے اس کی نظیر مسلمانوں کی شاعری کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ اقبال کے کلام میں جو ثروت افکار ہے وہ عدیم المثال ہے، شاعری کے عام طور پر لطف طبع کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور اس کو اعمال حسنہ میں شمار نہیں کیا جاتا۔ زیادہ تر شاعری ہوتی بھی ایسی ہے لیکن شاعری کی ایک وہ بھی قسم ہے جو گرتوں کو ابھارتی ہے اور خستگان حیات کے دل قوی کرتی ہے۔ انگریزی شاعر ٹینی سن نے بجا فرمایا ہے کہ جس شاعری سے ملت کا دل قوی ہو اور اس کی ہمتیں بلند ہوں اس کو اعلیٰ درجے کے اعمال حسنہ میں شمار کرنا چاہیے۔
اقبال کے افکار و تاثرات کی گوناگونی اور بو قلمونی کی کوئی حد نہیں لیکن جس طرح کائنات کی کثرت میں ایک وحدت مضمر ہے اسی طرح اقبال کے افکار بھی اپنے اندر ایک وحدت نظر رکھتے ہیں۔ اس ثروت افکار کو ضبط میں لانے کا بہتر طریقہ یہ ہو گا کہ اس کو خاص عنوانات کے تحت مرتب کیا جائے۔ بعض مضامین اقبال کے ساتھ مخصوص ہو گئے ہیں، ان میں سے ہر ایک کے لیے الگ الگ باب قائم کرنا پڑے گا، مثلاً عشق کا موضوع اگرچہ حکماء اور صوفیہ کے ہاں بکثرت ملتا ہے لیکن اقبال نے اس میں جو نکات پیدا کیے ہیں وہ کسی اور کے کلام میں نہیں ملتے۔ اسی طرح توقیر نفس اور عرفان نفس کا مضمون اگرچہ قدیم ہے لیکن اقبال نے خودی کا فلسفہ اس زور شور سے پیش کیا ہے اور اتنے پہلوؤں سے اس پر نظر ڈالی ہے کہ وہ اس کا خاص مضمون بن گیا ہے۔ اسلام کے متعلق بھی اس کا جو زاویہ نگاہ ہے وہ صوفی و ملا و حکیم سب سے الگ ہے۔ قومی شاعری کی ابتداء اگرچہ حالی نے کی لیکن اقبال جس طرح قومی مسائل سے دست و گریبان ہوا ہے اس کی مثال بھی کہیں اور نہیں ملتی۔ حدی خوانی حالی نے شروع کی لیکن محمل کو گراں دیکھ کر اقبال نے اس حدی خوانی کو تیز اور وجد آور بنا دیا۔ اقبال شرق و غرب کے بہترین اور بلند ترین افکار کا وارث ہے۔ اقبال نے اس ورثے کو صرف پیش ہی نہیں کیا بلکہ اس میں گراں بہا اور قابل قدر اضافہ بھی کیا ہے، وہ صحیح معنوں میں آزادانہ اور محققانہ نظر رکھتا ہے، وہ اندھا دھند کسی کی تقلید نہیں کرتا، ہر چیز کو اپنی نظر سے دیکھتا ہے اس لیے کلیتاً کسی حکیم یا صوفی یا فقیہہ و مفسر سے ہم آہنگ نہیں ہوتا۔ کسی بڑے مفکر کا قلب مومن اور دماغ کافر معلوم ہوتا ہے تو اس کی داد دیتے ہوئے اس پر بصیرت افروز تنقید بھی کرتا ہے۔ آزادانہ تحقیق و تنقید کے شوق میں کہتا ہے کہ کوئی نبی بھی پرانی لکیروں کا فقیر رہ کر پیغمبر نہ ہو سکتا:
چہ خوش بودے اگر مرد نکوے
ز بند پاستاں آزاد رفتے
اگر تقلید بودے شیوۂ خوب
پیمبر ہم رہ اجداد رفتے
اقبال پر درجنوں کتابیں اور ہزاروں مضامین لکھے گئے ہیں اور بے شمار تقریریں اس پر ہو چکی ہیں لیکن یہ سلسلہ نہ ختم ہوا نہ ہو گا۔ اقبال پر جو کتابیں نہایت عالمانہ، نہایت بلیغ اور نہایت جامع ہیں۔ ڈاکٹر یوسف حسین خان صاحب کی ’’ روح اقبال‘‘ اور مولانا عبدالسلام صاحب ندوی کی کتاب ’’ اقبال کامل‘‘ ان دو کتابوں کو ملا کر پڑھیں تو اقبال کے کلام اور اس کی تعلیم کا کوئی پہلو ایسا دکھائی نہیں دیتا جو محتاج تشریح اور تشنہ تنقید باقی رہ گیا ہو لیکن اقبال کے افکار میں اتنی گہرائی، اتنی پرواز اور اتنی وسعت ہے کہ ان کتابوں کے جامع ہونے کے باوجود مزید تصنیف کے لیے کسی معذرت کی ضرورت نہیں۔ اقبال کا کلام ایک طرح کا مذہبی صحیفہ ہے اور مذہبی صحیفوں کی شرحوں کی طرح ہر لکھنے اور سوچنے والا اپنے انداز نگاہ اور انداز بیاں ہے خاص خاص پہلوؤں کو اجاگر کر سکتا ہے۔ راقم الحروف نے بھی اقبال پر بہت کچھ لکھا ہے لیکن وہ بعض مخصوص مضامین پر مشتمل ہے۔ میں پہلے جو کچھ لکھ چکا ہوں اس کتاب میں اس سے قطع نظر کرنا نا ممکن ہے اس لیے یا تو انہی کہی ہوئی باتوں کو دوسرے انداز میں کہنا پڑے گا یا لازماً کچھ اقتباسات دوران شرح میں درج کرنے ہوں گے۔ اقبال کے افکار کا احاطہ کرنا اور اس کے ہر خیال اور ہر تاثر کے مضمرات کو کماحقہ پیش کرنا کسی ایک مصنف کا کام نہیں اور نہ ہی کوئی ایک تصنیف اس کا حق ادا کر سکتی ہے۔ اقبال مسلمانوں کے مذہبی اور تہذیبی شعور کا ایک جزو لاینفک بن گیا ہے۔ اقبال اگر انا الملت کا نعرہ لگاتا تو بجا ہوتا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملت اسلامیہ کے ساتھ اقبال بھی ابد قرار ہو گیا ہے، اگر اس کے افکار محدود اور ہنگامی ہوتے تو کچھ عرصے کے بعد زمانہ انہیں پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جاتا، لیکن اقبال کے افکار اور اس کے وجدانات میں ایک لامتناہی صفت پائی جاتی ہے۔ جو نہ صرف زمان و مکان بلکہ اس ملت کے حدود سے بھی وسیع تر ہیجس کا عروج و زوال اس کا خاص موضوع فکر اور جس کا درد اس کے دل و جگر کا سرمایہ تھا۔
مختلف ادوار میں اقبال کے فکر میں ارتقاء کے مدارج کا مطالعہ زیادہ مشکلات پیش نہیں نہیں کرتا، بانگ درا میں جس کا پہلا ایڈیشن ۱۹۲۴ء میں شائع ہوا، انہوں نے خود اپنی نظموں کو زمانی لحاظ سے مرتب کیا ہے، بعد میں شائع کردہ مجموعوں کی طباعت کا زمانہ بھی یقینی طورپر معلوم ہے، چنانچہ ابتداء سے انتہا تک اقبال کے فکر کا ارتقاء مطالعہ کرنے والے پر روشن ہو جاتا ہے اور اس زمانی ترتیب کی بدولت اقبال کی شاعری اور کے تفکر کا ارتقاء بھی واضح ہو جاتا ہے۔
٭٭٭
 

فرخ منظور

لائبریرین
پہلا باب
اقبال کی شاعری کے ارتقائی منازل
جس شخص کو ملکہ شاعری ودیعت کیا گیا ہو وہ بچپن ہی میں کچھ نہ کچھ مصرعے موزوں کرنے لگتا ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ پندرہ سولہ برس کی عمر یعنی مدرسے کی تعلیم کے اختتام کے زمانے میں اچھی خاصی نظمیں لکھ سکتا ہے، خود ان کا انداز تقلیدی یا مشقی ہی ہو، لیکن اس زمانے کی ابتدائی شاعرانہ کوششیں نہ اقبال نے محفوظ رکھنے کے قابل سمجھیں اور نہ ان کے قدر دانوں کو اس کے نمونے مل سکے۔ اقبال نے ایف اے کا امتحان مشن کالج سیالکوٹ سے پاس کیا تھا، اس زمانے میں ان کو ایک یگانہ روزگار صاحب بصیرت استاد سے حصول فیضان کا نادر موقع ملا۔ مولانا میر حسن اردو، فارسی اور عربی کے جید عالم تھے اور اسلامیات پر کامل عبور رکھنے کے باوجود خشک ملا نہ تھے، سرسید علیہ الرحمتہ کے مداحوں میں سے تھے، راسخ الاعتقاد ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی وسعت مشرب سے غیر مسلم طلباء بلکہ مشنری پادری اساتذہ بھی متاثر تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں اقبال نے اردو اور فارسی اساتذہ کا کلام کثرت سے مطالعہ کیا اور مولانا میر حسن شعر کا صحیح ذوق پیدا کرنے میں اس نو خیز شاعر کے معاون ہوئے۔ مولانا میر حسن کا تبحر علمی اور ان کے اخلاق کچھ اس انداز کے تھے کہ اقبال آخر عمر تک ان کو علم و اخلاق میں اسوۂ حسنہ اور اپنا محسن گردانتے تھے۔ اس معاملے میں اقبال شروع سے خوش قسمت رہے کہ ان کو اعلیٰ درجے کے استاد تعلیم کی ہر منزل میں میسر آئے۔ ان کی خوش بختی پیدائش ہی سے ان کی ہم عنان تھی۔ ان کے سب سے پہلے اور فطری اساتذہ ان کے والدین تھے۔ راقم الحروف کو ان کے والد ماجد شیخ نور محمد صاحب سے ملنے کا بھی اتفاق ہوا، جس زمانے میں علامہ اقبال انار کلی میں رہتے تھے۔ وہ در حقیقت اسم با مسمیٰ تھے، نور محمدی ان کے چہرے پر متجلی تھا۔ ایک محمدی کیفیت ا ن میں یہ بھی تھی کہ وہ نبی امی کی طرح نوشت و خواند کے معاملے میں امی تھے، وہ خدا رسیدہ صوفی تھے۔ پاکیزہ اسلامی تصوف کا ذوق اقبال کو باپ سے ورثے میں ملا ۔ مولانا روم نے ایک شعر میں بلند مقامات پر پہنچے ہوئے عارفوں کے متعلق بڑے جوش سے کہا ہے کہ وہ شکاری ہوتے ہیں، اپنی جسمانی ہوا و ہوس کو اسیر فتراک کر چکنے کے بعد بھی ان کا ذوق صیادی تسکین نہیں پاتا۔ اس کے بعد وہ ملائکہ پر اپنا جال ڈالتے ہیں، اس کے بعد پیمبرانہ صفات کے حصول کے لیے انبیاء کا شکار کرتے ہیں اور آخر میں جب تک خدا بھی ان کی لپیٹ میں نہیں آ جاتا تب تک ان کی صیادی باقی رہتی ہے:
بزیر کنگرؤ کبریاش مردانند
فرشتہ صید و پیمبر شکار و یزداں گیر
اسی مضمون کو اقبال نے ذرا سے تصرف کے ساتھ اپنے شعر میں دہرایا ہے:۔
در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے
یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ
اب میں یہ عرض کرتا ہوں کہ اقبال کے عارف باپ کے ذکر میں مولانا روم کا یہ شعر کیوں یاد آ گیا۔ پہلی ہی ملقات میں شیخ نور محمد صاحب نے اقبال کی پیدائش کا ایک دلچسپ قصہ مجھ سے بیان کیا، فرمانے لگے کہ اقبال ابھی ماں کے پیٹ میں تھا کہ میں نے ایک عجیب خواب دیکھا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نہایت خوش نما پرندہ سطح زمین سے تھوڑی بلندی پر اڑ رہا ہے اور بہت سے لوگ ہاتھ اٹھا کر اور اچھل کر اس کو پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ کسی کی گرفت میں نہیں آیا۔ میں بھی ان تماشائیوں میں کھڑا تھا اور خواہش مند تھا کہ غیر معمولی جمال کا یہ پرندہ میرے ہی ہاتھ آ جائے وہ پرندہ یک بیک میری آغوش میں آ گرا، میں بہت خوش ہوا اور دوسرے منہ تکتے رہ گئے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مجھے اس خواب کی تعبیر القا ہوئی کہ پرندہ عالم روحانی میں میرا پیدا ہونے والا بچہ ہے جو صاحب اقبال ہو گا۔ اقبال کے حصول کمال اور اس کی شہرت کے بعد مجھے اپنی تعبیر کے درست ہونے کا یقین ہو گیا۔ عالم مثال میں ارواح پرندوں کی طرح متمشل ہوتی ہیں۔ انجیل میں ہے کہ روح القدس فاختہ کی صورت میں زمین پر اترتی ہوئی دکھائی دی۔ شیخ نور محمد کو عالم ارواح میں سے ایک نادر روح بطور شکار ہاتھ آئی۔ عارف رومی نے بجا فرمایا تھا کہ روحانی ترقی کے ایک خاص درجے پر پہنچ کر اسی قسم کے شکار عارفوں کے ہاتھ آتے ہیں۔ علامہ اقبال نے ایک روز مجھ سے فرمایا کہ والد مرحوم کو غیر معمولی روحانی مشاہدات بھی ہوتے تھے۔ فرمایا کہ والدہ مرحومہ کا بیان ہے کہ اندھیری رات تھی، کمرے میں بھی چراغ روشن نہیں تھا، آنکھ کھلی تو دیکھا کہ کمرہ تمام روشن ہے حالانکہ نہ باہر چاندنی تھی اور نہ چراغ تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال کے دماغ کی پرورش تو طویل سلسلہ تعلیم میں ہوتی رہتی لیکن غذائے روح ان کو شروع ہی سے جسمانی رزق کے ساتھ باپ سے ملتی رہی۔ والدہ ماجدہ کی اچھی تربیت کا اندازہ اس مرثیے سے ہو سکتا ہے جس میں بڑھاپے کے قریب پہنچے ہوئے اقبال نے کس سوز و گداز سے ماں کو یاد کیا ہے اور اپنے جوہر کمال کو اس کا مرہون منت قرار دیا ہے۔ اقبال آخر عمر میں فرمایا کرتے تھے کہ میں نے اپنا نظریہ حیات فلسفیانہ جستجو سے حاصل نہیں کیا، زندگی کے متعلق ایک مخصوص زاویہ نگاہ ورثے میں مل گیا تھا، بعد میں میں نے عقل و استدلال کو اسی کے ثبوت میں صرف کیا ہے۔ انسان کے سب سے پہلے اساتذہ اس کے ماں باپ ہی ہوتے ہیں اور ماں سے شعوری اور غیر شعوری طور پر جو کچھ حاصل کیا جاتا ہے اس کے نقوش نہایت گہرے اور ان مٹ ہوتے ہیں۔ والدین کے ساتھ ساتھ ان کو مولانا میر حسن جیسا علمی، ادبی، اخلاقی استاد ملا اس استاد کی سیرت اور بصیرت کے خط و خال بھی اقبال کی فطرت کا جزو بن گئے۔ شعر فہمی اور سخن میں یقینا مولانا میر حسن سے ان کو غیر معمولی فیض حاصل ہوا۔
سیالکوٹ میں ایف اے کے زمانے میں ضرور اقبال نے بہت کچھ مشق سخن کی ہو گی لیکن اس کو محفوظ رکھنے کے لائق نہ سمجھا بی اے کی تعلیم کے لیے وہ لاہور گورنمنٹ کالج میں آ گئے، یہاں کی صحبتوں میں ان کی شاعری کا نخل شگوفہ و ثمر پیدا کرنے لگا۔ ان کی شاعری کا چرچا ہم جماعتوں سے نکل کر خاص احباب کے حلقوں میں ہونے لگا۔ اس زمانے میں لاہور میں مشاعروں کا رواج ہو گیا تھا، حالی اور آزاد نے لاہور کے ہونہار نوجوانوں میں شعر کا چسکا پیدا کر دیا تھا۔ا رشد گورگانی بھی کچھ عرصہ لاہور میں رہے، وہ پر گو اور بدیہہ گو شاعر تھے مگر ان کی زبان ٹکسالی تھ، خود بھی اچھے شعر برجستہ کہتے تھے اور شعر کے اچھے نقاد بھی تھے۔ لاہور کے کشمیریوں نے بھی ایک مجلس مشاعرہ قائم کی تھی جس کے کرتا دھرتا محمد دین فوق تھے جو اخبار کشمیری کے ایڈیٹر اور کشمیر کے متعلق متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔ کالج کی طالب علمی کے زمانے میں اقبال پہلے پہل اسی کشمیری مشاعرے میں نظر آتے ہیں۔ اقبال نے کشمیر کے متعلق یہ رباعی اسی مشاعرے کی ایک مجلس میں پڑھی:
سو تدابیر کی اے قوم یہ ہے اک تدبیر
چشم اغیار میں بڑھتی ہے اسی سے توقیر
در مطلب ہے اخوت کے صدف میں پنہاں
مل کے دنیا میں رہو مثل حروف کشمیر
یہ وہی زمانہ ہے کہ مرزا داغ کے مراسلتی شاگرد تمام ہندوستان میں پھیلے ہوئے تھے اور مرزا داغ نے گھر میں شاعری کا ایک محکمہ کھول رکھا تھا، اصلاح کے لیے غزلیں ڈاک میں پہنچتی تھیں اور اصلاح و تنقید کے بعد واپس کر دی جاتی تھیں۔ اقبال نے داغ کی شاگردی چند ہی روز کی۔ سنا گیا ہے کہ داغ نے ان کو چند غزلوں کی اصلاح کے بعد لکھ بھیجا کہ اب تمہارے کلام کو اصلاح کی ضرورت نہیں۔ داغ کی شاعری کا موضوع تو عشق کی بجائے ہوس ہی تھا، لیکن اردو زبان میں اس سے بہتر استاد ملک میں کوئی نہ تھا، داغ کا یہ دعویٰ ثابت اور مسلم تھا:
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
داغ کی وفات پر اس کے سینکڑوں شاگردوں نے مرثیے لکھے جن کا اب کہیں نام و نشان نہیں، لیکن اقبال نے جو مرثیہ لکھا وہ داغ کے کمالات کی صحیح تصویر ہے اور اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال داغ کے کلام سے کس قدر متاثر تھا۔ اقبال عشق مجازی کا شاعر نہ تھا لیکن محض مشق سخن کے طور پر مصنوعی عاشقی کی کچھ غزلیں اقبال نے کہیں، جنہیں بعد میں انہوں نے خود حرف غلط کی طرح مٹا دیا۔ اس ابتدائی زمانے ہی میں اقبال کو یہ احساس پیدا ہو گیا تھا کہ دلی اور لکھنو کی شاعری کے حدود و قیود سے آزاد ہو کر اپنے مخصوص انداز میں کمال پیدا کرنا چاہیے۔ سب سے پہلے مشاعرے ہی میں اقبال نے جو غزل پڑھی اس کا مقطع یہ تھا:
اقبال لکھنو سے نہ دلی سے ہے غرض
ہم تو اسیر ہیں خم زلف کمال کے
اس ابتدائی زمانے کی یادگار کچھ غزلیں بانگ درا میں موجود ہیں۔ ان غزلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جابجا داغ کی زبان کی مشق کر رہے ہیں، موضوع بھی وہی داغ والے ہیں، کہیں کہیں داغ کے انداز کے شعر نکال لیتے ہیں، زبان کے معاملے میں ایک آدھ جگہ ٹھوکر بھی کھا جاتے ہیں:
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
اہل زبان کے ہاں عار مذکر ہے۔
اس سے آگے تین اشعار ایسے ہیں جو داغ کی غزل میں رکھے جا سکتے ہیں:
تمہارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی


بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا
تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی


تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی
لیکن اس دور عشق و تقلید میں بھی اس اقبال کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں جس کا آفتاب کمال بہت جلد افق سے ابھرنے والا تھا اس دور کی شاعری کو اقبال کی شاعری کی صبح کاذب کہنا چاہیے جس کی روشنی طلوع آفتاب کا پیش خیمہ ہوتی ہے، غزل کے روایتی مضامین میں سر راہ حکمت و فلسفہ کی کرنیں دکھائی دیتی ہیں۔ ایک غزل کے مطلع اور مقطع میں واعظ پر چوٹ کی ہے جو صدیوں سے رند اور صوفی شعراء کا ایک تفریحی مضمون ہے:
عجب واعظ کی دینداری ہے یا رب
عداوت ہے اسے سارے جہاں سے


بڑی باریک ہیں واعظ کی چالیں
لرز جاتا ہے آواز اذاں سے
لیکن اس مختصر سی غزل میں دو حکیمانہ اشعار بھی ہیں۔:
کوئی اب تک نہ یہ سمجھا کہ انساں
کہاں جاتا ہے آتا ہے کہاں سے


وہیں سے رات کو ظلمت ملی ہے
چمک تارے نے پائی ہے جہاں سے
ان چند غزلیات میں بھی جو بانگ درا میں درج ہیں ارتقائے فن کی رفتار خاصی تیز معلوم ہوتی ہے، بعض غزلوں میں فکر کی گہرائی اور فن کی پختگی نمایاں ہے۔ ان میں کچھ عشق مجازی کی آمیزش ہے، کچھ روایتی متصوفانہ مضامین ہیں لیکن ان کے ساتھ ملے جلے حکیمانہ اشعار بھی ہیں۔ انداز بیان میں انوکھا پن ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شاعر روایتی تغزل سے رفتہ رفتہ الگ ہو رہا ہے:
کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیوں کر ہوا
اور اسیر حلقہ دام ہوا کیوں کر ہوا


جاے حیرت ہے برا سارے زمانے کا ہوں میں
مجھ کو یہ خلعت شرافت کا عطا کیوں کر ہوا


کچھ دکھانے دیکھنے کا تھا تقاضا طور پر
کیا خبر ہے تجھ کو اے دل فیصلہ کیوں کر ہوا


ہے طلب بے مدعا ہونے کی بھی اک مدعا
مرغ دل دام تمنا سے رہا کیوں کر ہوا
موسیٰ و طور کے قصے کا مندرجہ بالا شعر دیکھئے اور پھر آخر میں پیغمبر خودی اقبال کا یہ شعر پڑھیے:
کب تلک طور پہ دریوزہ گری مثل کلیم
اپنی ہستی ہے عیاں شعلہ سینائی کر
تو اس کا کچھ اندازہ ہو گا کہ اقبال اپنے ارتقائے فکر میں رفتہ رفتہ کہاں سے کہاں پہنچا ہے:
وہی اقبال جو آخر میں نفس انسانی کی بقاء کا قائل اور شدت سے آرزو مند ہے، تصوف کے روایتی نظریہ فنا کے زیر اثر ابتدائی دور میں یہ کہہ جاتا ہے:
نہیں بیگانگی اچھی رفیق راہ منزل سے
ٹھہر جا اے شرر ہم بھی تو آخر مٹنے والے ہیں
وہی اقبال جو بعد میں یہ تلقین کرنے لگا کہ آفاق اور اس کے مظاہر کو آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہیے کیونکہ خدا کا جلوہ جیسا بطون میں ہے ویسا شہود میں بھی ہے ’’ ھو الظاہر ھو الباطن‘‘ وہ شروع میں یہ کہہ رہا تھا:
ہو وید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی
متصوفین کے فلسفہ فنا کا یہ ایک مسلمہ مضمون تھا کہ نفس کی انفرادیت ایک دھوکا ہے، نمود حق کے بعد یہ فریب ادراک مٹ جاتا ہے اور اس کے بعد پھر وہی ازلی حقیقت ’’ لا موجود الا اللہ‘‘ رہ جاتی ہے۔ غالب کے ہاں یہ متصوفانہ افکار بہت ملتے ہیں۔:
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
اقبال بھی تصوف کے زیر اثر فرماتے ہیں:
میں جبھی تک تھا کہ تیری جلوہ پیرائی نہ تھی
جو نمود حق سے مٹ جاتا ہے وہ باطل ہوں میں
یا ایک دوسری غزل میں کہتے ہیں۔:
میری ہستی ہی تھی خود میری نظر کا پردہ
اٹھ گیا بزم سے میں پردۂ محفل ہو کر
اقبال نے اپنے ترقی یافتہ دور میں اسی فلسفہ فنا کے خلاف زور شور سے جہاد کیا، تاہم ابھی غزلوں میں تحقیق کا شائق اور تقلید سے گریز کرنے والا اقبال بھی دکھائی دیتا ہے:
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے


مانند خامہ تیری زباں پر ہے حرف غیر
یگانہ شے پہ نارش بے جا بھی چھوڑ دے
اسی غزل میں ایک اور شعر بھی تھا جو انتخاب کرتے ہوئے اقبال نے نکال دیا۔:
مینار دل پہ اپنے خدا کا نزول دیکھ
یہ انتظار مہدی و عیسیٰ بھی چھوڑ دے
یہ شعر غالباً اس لیے نکال دیا کہ مہدی و عیسیٰ کے متعلق مسلمانوں کے عام عقائد کو اس سے ٹھیس لگتی تھی، خواہ مخواہ ہدف تکفیر بننے سے فائدہ؟ لیکن آخر تک اقبال کا عقیدہ یہی تھا کہ کسی نجات دہندہ کا انتظار شکست خوردہ قوموں کا عقیدہ ہے؟ ہر مسلمان کی نجات اور ملت اسلامیہ کی نجات و فلاح عرفان نفس اور خودی کے استحکام میں ہے۔
۱۹۰۵ء تک اقبال ایک علی الاطلاق شاعر ہے زندگی اور فطرت کے جس منظر اور جن حوادث سے متاثر ہوتا ہے ان کو اپنے حسن بیان کا جامہ پہنا دیتا ہے، تقلیدی اور روایتی شاعری سے اس نے بہت جلد چھٹکارا حاصل کر لیا، جہاں تک فن کا تعلق ہے اس نے کمال پیدا کر لیا، کہیں داغ سے فیض یاب ہے اور کہیں غالب کے تخیل کا قدر دان:
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
فن کے لحاظ سے اقبال ہر استاد سے کچھ نہ کچھ لیتے گئے، یہاں تک کہ فرماتے تھے کہ میں نے ناسخ سے بھی بہت کچھ سیکھا ہے۔
آزاد، حالی اور شبلی کے ہاں اردو شاعری اگر قدیم ڈگر سے بٹنا شروع ہوئی تو یہ مغربی افکار کا نتیجہ تھا۔ اس کا احساس غالب کو بھی ہو گیا تھا کہ جدید تہذیب اور علوم و فنون ہو انگریزوں کے ساتھ مغرب سے آئے ہیں، ان کی بدولت زندگی کے اقدار اور انسان کا زاویہ نگاہ بدل گیا ہے یا بدل جانا چاہیے۔ چنانچہ سید احمد خاں نے جب ’’ آئین اکبری‘‘ کا تصحیح کردہ ایڈیشن شائع کیا اور غالب کو تقریظ کے لیے بھیجا تو غالب نے اپنے دوست سید احمد کا کچھ لحاظ نہ کیا اور سخت مخالفانہ تنقید اس پر کی جو غالب کے کلیات فارسی میں شامل ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ قابل غور اب صرف نئے آئین و قوانین ہیں، تہذیب و تمدن کی ترقی نے پرانے قاعدوں کو منسوخ کر دیا ہے، اب ان پر دماغ سوزی کرنا محض مردہ پرستی ہے جو سید جیسے مصلحین قوم کے شایان شان نہیں۔ لیکن غالب کی شاعری پر اس جدت پسندی کا کچھ اثر نہ پڑا اس لیے کہ جب اس کو یہ احساس پیدا ہوا، اس وقت وہ اپنی شاعری ختم کر چکا تھا اور وہ اپنے فن کے عمر بھر کے تیار کردہ اور پختہ سانچوں کو توڑ کر نئے سانچے تیار نہ کر سکتا تھا، پیری، ناداری اور بیماری نے اس کی قوتوں کو مضمحل کر دیا تھا ورنہ وہ آخر ایام میں سید احمد خاں اور ان کے رفقا سے کم تجدید کا تمنائی نہ تھا۔
حالی کو فطری اور قومی شاعری کی طرف سید احمد خاں لائے۔ حالی انگریزی داں نہ تھے اور نہ ہی سید احمد خاں انگریزی داں تھے اگرچہ اکبر نے سید صاحب کے متعلق بہت خوب کہا ہے کہ تم انگریزی داں ہو وہ انگریز داں تھا۔ علی گڑھ میں انگریزی تعلیم کا چرچا ہو گیا تھا، مغربی علوم و فنون کا سواد تعلیم میں داخل تھا، انگریز اور انگریزی داں ہندوستانی علی گڑھ میں جمع تھے۔ سید صاحب اور ان کے رفقاء ان سے ہر طرح معلومات حاصل کرتے تھے اور ان کے زیر اثر اپنے افکار میں ثروت پیدا کرتے تھے یا ان کا رخ بدلتے تھے ۔ غدر کے بعد محمد حسین آزاد ہجرت کر کے لاہور آ گئے تھے اور گورنمنٹ کالج میں پروفیسر ہو گئے تھے وہ بھی انگریزی داں نہ تھے، علی گڑھ کی تحریک سے انہوں نے بھی مغربی انداز کی جدید شاعری شروع کر دی اور گل و بلبل کی شاعری کو خیر باد کہا۔ اقبال کی گورنمنٹ کالج کی طالب علمی کے زمانے میں یہ نمونے موجود تھے اور جدید اثرات کام کر رہے تھے۔ سید صاحب ہوں یا حالی یا شبلی یا مولانا نذیر احمد افکار کماحقہ ان کی گرفت سے باہر تھے اور وہ اس کی کمی کو تاسف کے ساتھ محسوس کرتے تھے۔ آزاد نے نیرنگ خیال میں یہ پیش گوئی کی کہ آئندہ بلند درجے کا ادب وہی لوگ پیدا کر سکیں گے جن کے ہاتھوں میں مغرب اور مشرق دونوں کے خزینہ افکار کی کنجیاں ہوں گی۔
یہ سب زبردست عالم او رادیب تھے اور انگریزی دانوں کی اعانت سے بعض اوقات ایسی چیزیں لکھ جاتے تھے جو اب تک مستند شمار ہوتی ہیں چنانچہ مولوی نذیر احمد کا انڈین پینل کوڈ کا ترجمہ تعزیرات ہند جدید قانون میں اصطلاح سازی کا ایک شاہکار ہے، یہ کام کسی خالی انگریزی داں سے سر انجام نہ پا سکتا۔ اسی طرح دہلی کالج کے سلسلے میں مولوی ذکاء اللہ نے درجنوں علوم و فنون جدیدہ کی کتابوں کو اردو زبان میں منتقل کر دیا۔
اپنے غیر معمولی کمال کے باوجود یہ سب بزرگ جس کمی کو محسوس کر رہے تھے وہ کمی اقبال نے پوری کی اقبال جتنی قدرت اردو اور فارسی پر رکھتے تھے اتنی ہی دسترس ان کو انگریزی زبان پر بھی حاصل تھی، مغربی افکار کا تمام سرمایہ اقبال کو براہ راست ہاتھ آیا اور مشرق و مغرب کا قرآن السعد بن اقبال ہی میں ظہور پذیر ہوا، آزاد کی تمنا اقبال میں مجسم ہو گئی۔بطور نمونہ موجود تھی، اعلیٰ جذبات تو درکنار ادنیٰ شہوات کا انداز بھی غیر فطری ہو گیا تھا، زن و اردو زبان مسلمانوں کے دور انحطاط کی پیداوار ہے۔ اردو شاعری کے سامنے جو نمونہ تھا وہ متاخرین کی فارسی شاعری تھی۔ قصیدہ گوئی اور ہوس پرستی کے تغزل دور از کار تخیل اور مضمون آفرینی نے اس کو خلوص اور حقیقت سے کوسوں دور کر دیا تھا اور جذبات عالیہ کا اس میں فقدان تھا، دیرینہ تقلید سے وہ اپنی خامیوں میں پختہ ہو گئی تھی، کوئی داخلی محرکات اصلاح و تجدید کے اس کے اندر سے پیدا نہ ہو سکتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی تہذیب و تمدن اور مغربی سیاسی غلبے نے مشرق کی آنکھیں کھول دیں اور اس کو اپنے احتساب پر مجبور کیا۔
اقبال کے سامنے اردو اور فارسی کی شاعری کے علاوہ انگریزی شاعری کے بہترین نمونے موجود تھے۔ انگریزی شاعری ایک آزاد قوم کی شاعری ہے یہ قوم طرح طرح کے سیاسی انقلابات میں سے گزری اور اس کی تاریخ میں شروع سے آخر تک حریت کی جدوجہد نظر آتی ہے۔ اس میں اچھے اور برے، مطلق العنان اور پابند آئین و دستور ہر طرح کے بادشاہ اور حکمران گزرے ہیں لیکن اس قوم میں کبھی غلامانہ ذہنیت پیدا نہیں ہوئی۔ اگر کوئی بادشاہ دستور شکن اور مستبد معلوم ہوا تو اس کی گردن کاٹ دی گئی۔ کسی نے مذہبی استبداد کی کوشش کی تو اس کے خلاف بھی لوگ جہاد پر آمادہ ہو گئے۔ مسلمانوں کو اسلام نے یہ تعلیم دی تھی کہ حکومت علما و صلحا اور رموز شناس مملکت کے مشورے سے ہونی چاہیے لیکن طلوع اسلام کے چند سال بعد ہی وہ حکمت و حریت کے تمام سبق بھول گئے، اس کا جو نتیجہ ہوا وہ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک المناک پہلو ہے۔
عربوں کی اپنی قوی اور طبعی شاعری میں بہت زیادہ تخیل او رمضمون آفرینی تو نہ تھی لیکن حقیقت اور خلوص تھا۔ عجم اسلام کا سیاسی طور پر تو مطیع و مسخر ہو گیا لیکن شاہ پرستی کی عجمی روایات نے اسلامی خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کر دیا افراد مملکت، مسلم ہوں یا غیر مسلم حریت و مساوات سے بیگانہ ہو گئے۔ اس کا بہت برا اثر شاعری پر پڑا عجم میں پہنچ کر پہلے عربی زبان میں قصیدہ گوئی شروع ہوئی اور اس کے بعد فارسی میں بادشاہوں اور امراء کی جھوٹی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے گئے۔ شاعروں نے جب دیکھا کہ دروغ ہی سے فروغ ہوتا ہے تو دروغ بافی اور مبالغہ آرائی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کی روحانیت اور اخلاقیات شاعری میں سے عنقا ہو گئے، فطری اور سچے جذبات کو خلوص سے بیان کرنے والا کوئی نہ رہا۔ رندی، شراب خواری اور ہوس پرستی شاعری کا موضوع بن گئی، رود کی سے لے کر قاآنی تک اس بد روی میں ترقی ہوتی گئی۔ چند بلند پایہ، صالح الفکر اور صوفی شعراء کو چھوڑ کر باقی سب کا یہ حال ہے ادب کی یہی مسخ شدہ صورت اردو شاعروں کے سامنے مرد کی محبت کی جگہ امرد پرستی نے لے لی۔ اس لغو قسم کی مشق سخن میں زبان میں لطافت اور نکتہ آفرینی نے تو ترقی کی لیکن موضوع سخن زیادہ تر بیہودہ ہی رہا۔
تصوف جس کا حقیقی وظیفہ عرفان نفس سے عرفان الٰہی کی طرف رہنمائی کرنا تھا، وہ بھی غیر اسلامی تخریبی عناصر کی بدولت جادۂ صداقت سے ہٹ گیا۔ کچھ غلامانہ اور عیاشانہ زندگی نے اور کچھ تشکیک آفرین فلسفے نے ایمان و عمل کی بنیادیں متزلزل کر دیں، ہر قسم کے استبداد نے لوگوں میں اختیار کی بجائے جبر کے عقیدے کو استوار کر دیا عوام کو یہ تلقین کی گئی کہ رموز مملکت فقط بادشاہ جانتے ہیں، گدائے گوشہ نشیں کو خواہ مخواہ اعتراض اور احتجاج نہیں کرنا چاہیے، جو کچھ ہوتا ہے وہ خدا کی مرضی سے ہوتا ہے، مومن کا فرض ہے کہ وہ تن بہ تقدیر تسلیم و رضا کا شیوہ اختیار کرے، اگر بادشاہ دن کو رات کہے تو سننے والا اس کی تائید میں یہ اقرار کرے کہ ہاں مجھے تارے نظر آ رہے ہیں۔ زاہد اور زہد اور عاصی کا عصیان، عابد کی عبادت اور فاسق کا فسق سب مشیت الٰہی ہے جس کے آگے دم مارنا مومن کا کام نہیں، زاہد کے زہد سے اور فاجر کے فجور سے عبادت و کائنات کے لامتناہی کارخانے میں کون سا فرق پڑتا ہے:
بیا کہ رونق این کارخانہ کم نشود
ز زہد ہمچو توئی، و ز فشق ہمچو منے


حافظ بخود نپوشید این خرقہ مے آلود
اے شیخ پاک دامن معذور دار مارا


در کوے نیک نامی مارا گذر ندادند
گر تو نمی پسندی تغیر کن قضا را
زندگی بھی کسی کی سمجھ میں آنے کی چیز نہیں:
اک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کا ہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا
اب جب کچھ سمجھ میں نہیں آ سکتا تو کیا کیا جائے سوائے اس کے کہ گاؤ بجاؤ، پیو پلاؤ اور خوش رہو:
حدیث از مطرب و مے گو و راز دہر کمتر جو
کہ کس نکشود و نکشاید بحکمت ایں معما را
متصوفانہ افکار کے ساتھ ان تمام خیالات کی اس طرح آمیزش ہوئی کہ تمام عقائد اور زوایاے نگاہ دین بن گئے حقیقی فلسفہ، آزادی فکر سے حقیقت کی جستجو کا نام ہے اور یہ جستجو اس اذعان و یقین کے ساتھ کی جاتی ہے کہ خدا نے عقل اس لیے دی ہے کہ مشاہدے اور تفکر سے وجود حقیقی کی ذات اور صفات کو حتیٰ الامکان معلوم کیا جائے اور پھر اس دریافت شدہ حکمت کے مطابق اعمال کو ڈھالا جائے۔ تصوف کا کام اس سے بھی زیادہ عرفان اور تزکیہ قلب تھا لیکن مسلمانوں کی شاعری میں حکمت اور تصوف دونوں نے زیادہ تر تعمیر حیات کی بجائے تخریب ہی کا کام کیا، شاعری، نہایت ادنیٰ سطح پر فن برائے فن رہ گئی یا فن برائے زرانہ وزی و جاہ طلبی۔
یہ جو کچھ کہا گیا ہے فارسی کی تمام شاعری پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا، آخر سعدی و رومی اور سنائی و عطار بھی شاعر ہیں، اعلیٰ درجے کی حکیمانہ باتیں بھی بعض شعراء میں منتشر طور پر ملتی ہیں، لیکن شاعری کے طوفان بے تمیزی میں یہ گوہر کہیں نایاب اور کہیں کمیاب ہیں۔ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اقبال نے عجمی شاعری سے فائدہ نہیں اٹھایا یا ساز عجم کے نغمے اس کے اشعار میں نہیں ہیں لیکن ساز کے ہم رنگ و ہم آہنگ ہونے کے باوجود اقبال کے ہاں نغموں کا موضوع اور تاثر بہت کچھ الگ ہو گیا۔ اقبال نے اردو اور فارسی کی تمام شاعری کے طومار کو سامنے رکھ کر ’’ خذما صفا و دع ما کدر‘‘ سے کام لیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شروع میں اقبال کی شاعری کا رخ مغرب کے اثرات نے بدلا؟ اردو اور فارسی میں مناظر فطرت کی شاعری نہ ہونے کے برابر تھی، فارسی میں گلزار کوہسار کے متعلق جو کچھ ملتا ہے وہ محاکات نہیں بلکہ تخیل ہے، ایران اچھی آب و ہوا اور باغ و بہار کا ملک ہے لیکن انگریزی شاعری کے مقابلے میں اس موضوع پر اس کا سرمایہ شعر عشر عشیر بھی نہیں، وطن اور قوم کی محبت کی شاعری بھی مفقود ہے، اس لیے کہ نہ کسی شاعر میں حب وطن تھی اور نہ جذبہ ملت۔ قدیم عربی شعراء میں قبیلوی عصبیت شدت سے موجود تھی اس لیے وہ جائز یا ناجائز طور پر اپنے قبیلے کے جذبات کو ابھار کر افراد قبیلہ کی ہمت افزائی کر سکتے اور ان کو عمل و ایثار اور جانبازی پر آمادہ کر سکتے تھے۔ یہ جذبہ انگریزی شاعری میں ملتا ہے۔ فارسی شاعری کو گل و بلبل کی شاعری کہا جاتا ہے لیکن ایرانی شعراء نے گل و بلبل کو فقط اپنی جھوٹی عاشقی کے بیان میں تمثیل و استعارہ کے طور پر استعمال کیا۔ پھولوں کی رنگینی اور پرندوں کی خوش نوائی سے جو اثر طبیعت پر ہوتا ہے اس کابیان کہیں ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ انگریزی شاعر حقیقت کو نمایاں کرنے کے لیے تخیل سے کام لیتا ہے، اس کے ہاں تخیل ایک پاور ہوا عنکبوت کا تانا بانا نہیں۔ اقبال کی ۱۹۰۵ء تک کی نظموں میں انگریزی شاعری کا اثر غالب ہے کئی نظمیں انگریزی نظموں کا آزاد اور دلکش ترجمہ ہیں، کئی نظمیں ایسی ہیں جو ترجمہ تو نہیں لیکن انداز تاثر و تفکر اور اسلوب بیان انگریزی ہے۔ ہمالیہ جیسا عظیم الشان سلسلہ کوہسار جس کے جلال و جمال کی مثال کرۂ ارض اور کہیں نہیں ملتی، کیا وجہ ہے کہ اقبال سے پہلے کسی شاعر نے اس سے متاثر ہو کر ایک شعر بھی نہ کہا؟ اسی طرح بادل کے مضمون کو لیجئے، اردو اور فارسی میں کوئی نظم ابر پر بحیثیت ابر نہیں ملتی، البتہ محرک شراب نوشی قرار دے کر بادلوں کے متعلق بہت سے اشعار ملتے ہیں۔:
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
بدلی آتی ہے بدل جاتی ہے نیت میری
کی فرشتوں کی راہ ابر نے بند
جو گنہ کیجئے ثواب ہے آج
مکڑے اور مکھی اور پہاڑ اور گلہری پر اردو اور فارسی روایات کا پابند شاعر، کاہے کو کوئی نظم لکھتا۔
مغربی شاعری کا سب سے اچھا اثر اقبال پر یہ ہوا کہ وہ مصنوعی اور بے حقیقت شاعری سے بچ گیا۔ کوئی اچھا انگریزی شاعر بغیر گہرے ذاتی تاثر کے محض صناعی اور اظہار کمال کے لیے نظم نہیں لکھتا۔ اقبال بھی ایسی فطرت کا شاعر ہے اس نے کئی مرتبہ احباب سے بیان کیا کہ میں دوسروں کے تقاضے سے شعر نہیں کہتا جب تک کوئی زبردست داخلی یا خارجی محرک میری طبیعت میں سے نغمہ یا نالہ پیدا نہ کرے۔ غالب کو بھی فطرت نے شاعر بنایا تھا لیکن وہ بہت کچھ غلط روایات شعری کا شکار ہو گیا، ایک خط میں کہتا ہے کہ شاعری قافیہ پیمائی نہیں بلکہ مضمون آفرینی ہے۔ ایک دوسری جگہ اپنے متعلق کہتا ہے کہ ’’ نگویم اگر نغز نباشد‘‘ لیکن اقبال کے ہاں شاعری نہ قافیہ پیمائی ہے اور نہ مضمون آفرینی اور نہ نغز گوئی ہے۔ اچھا شعر شاعر کی فطرت کے باطنی تقاضے سے پیدا ہوتا ہے، یہ تقاضا خود بخود قافیہ پیمائی بھی کرتا ہے اور مضمون آفرینی بھی اور جو شعر اس آمد سے نکلتا ہے وہ نغز بھی ہوتا ہے۔ مولانا روم اپنے متعلق فرماتے ہیں:
من نہ دانم فاعلات فاعلات
شعر مے گویم بہ از آب حیات
ایسی شاعری وہ شخص کر سکتا ہے جس کے اندر آب حیات کا چشمہ ہو اور جو ادھر ادھر کے نالوں یا پرنالوں سے اپنا تالاب نہ بھرتا ہو۔
۱۹۰۵ء تک کی شاعری کو اقبال اپنی سخن گوئی کا دور اول قرار دیا ہے۔ اس سن کو حد فاضل اس لیے بنایا کہ ۱۹۰۵ء میں اقبال یورپ چلے گئے یورپ مینان کے مطالعے اور مشاہدے اور تفکر نے ان کی طبیعت کا رنگ بہت کچھ بدل گیا فرنگ کی دنیا ایشیا کی دنیا سے بے حد مختلف تھی، اس نئی دنیا نے اقبال کی طبیعت میں نئے تاثرات پیدا کیے جس کا تجزیہ ہم اس کے بعد کریں گے۔ ۱۹۰۵ء میں اقبال کی عمر قریباً تیس سال تھی اس عمر تک کسی ذہین و فطین انسان کے افکار و جذبات کے سانچے میں بہت کچھ بن چکتے ہیں اور اس عمر کے بعد شاذ و نادر ہی کسی شخص میں کوئی بنیادی تبدیلی ہوتی ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ اس عمر تک لگے ہوئے بعض پودے بعد میں مزید نشوونما سے نخل بلند و بالا بن جائیں اور ان میں کثرت سے برگ و بار اور شگوفہ و اثمار نکلیں، یا یہ کہ اس کی عمر تک بعض باتیں طبیعت کی زمین میں ابھی خاک پوش تخم کی طرح موجود ہوں اور آگے چل کر وہ کھلی فضا میں پھلیں اور پھولیں۔ اس سن تک اقبال کا کلام سو سے کچھ زائد صفحات پر بانگ درا میں ملتا ہے، اس میں ہر طرح کی نظمیں ہیں، ان نظموں میں ابھی شاعری جزو پیغمبری نہیں بنی، شاعر جس چیز سے متاثر ہوتا ہے اس پر شعر کہہ دیتا ہے لیکن ان نظموں میں بھی افکار کی وسعت، گہرائی اور تنوع موجود ہے اور وہ افکار اور تاثرات بھی جا بجا موجود ہیں جو آگے چل کر اقبال کا مخصوص پیغام اور اس کی امتیازی خصوصیت بن گئے ان نظموں میں بھی وہ اقبال ملتا ہے جو دل کی بصیرت اور وجدان کو حسی ادراک اور استدلالی عقل پر مرحج سمجھتا ہے۔ جابجا خودی بھی ابھرتی ہوئی نظر آتی ہے، طبیعت میں وہ اضطراب اور تپش بھی موجود ہے جو بڑھتے بڑھتے بعد میں کوہ آتش فشاں بن جائے گی ذوق انقلاب و ارتقاء بھی ناپید نہیں، وطن کی محبت شدت سے موجود ہے لیکن وہ عالم گیر انسانی ہمدردی اور ہمہ گیر اخوت کے راستے میں حارج نہیں، تصوف کے روایتی مضامین کے ساتھ ساتھ اپنا مخصوص حیات پرور عرفان بھی جا بجا جھلکتا ہے، اقبال جو کچھ بعد میں بنا اس کی داغ بیل ان نظموں میں بھی موجود ہے۔
مثال کے طور پر لیجئے۔عقل و دل کا تضاد یا تصادم اور ان کی باہمی موافقت یا مخالفت زندگی کی ادنیٰ سطحوں پر ہر وقت موجود رہتی ہے، ادنیٰ درجے کی ہوس یا اعلیٰ درجے کا عشق، یہ کشمکش کسی نہ کسی صورت میں ضرور پائی جاتی ہے، اس کی ادنیٰ صورت یہ ہے:
دل یہ کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف
عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا
اور اعلیٰ صورت پیکار یہ ہے کہ عقل تشکیک میں گرفتار رہتی ہے اور دل ایمان کا طالب ہوتا ہے، عقل نفع و ضرر اور تنگ و نام کے پیمانوں سے سوچتی اور احتیاط برتنے کی تلقین کرتی ہے اور عشق پروانے کی طرح شمع پر گرتا ہے۔ا گر ہمیشہ عقل ہی کی رہبری تسلیم کریں تو ان میں مہم وری غائب ہو جانے برنارڈ شا نے اپنے مخصوص انداز بیان میں کیا خوب کہا ہے کہ انسانی زندگی میں بڑے بڑے انقلابات اور ترقیاں نامعقولوں کی بدولت ظہور میں آئی ہیں، انہوں نے جو کچھ کہنا یا کرنا چاہا، ہر محتاط عاقل نے انہیں روکنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کسی کی نہ سنی۔ عقل و عشق کا تضاد صوفیہ کا خاص مضمون ہے، مولانا روم کے ہاں سینکڑوں اشعار اس مضمون کے ملتے ہیں کہ:
عقل در شرحش چو خر در گل بخفت
شرح عشق و عاشقی ہم عشق گفت
اقبال نے اپنی پیغمبرانہ شاعری میںآگے چل کر اس کو اس طرح اپنایا اور گرمایا ہے کہ وہ تنوع بیان اور نکتہ آفرینی میں تمام صوفیہ اور عشاق کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ اقبال نے ابتدائی نظموں میں ایک مرتبہ تو ذرا جھجک کر اور کسی قدر احتیاط برت کر کہا ہے کہ۔:
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
لیکن جو سادہ اور سلیس نظم عقل و دل کے عنوان سے لکھی ہے، اس میں عقل و دل کا مکالمہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس سے بہتر چند اشعار میں نہ عقل کی ماہیت کو کوئی پیش کر سکتا ہے اور نہ دل کی مخصوص حیثیت کو بعد میں اقبال نے سینکڑوں اشعار اس مضمون پر لکھے ہیں لیکن وہ سب انہی سادہ اشعار کی شرح ہیں:
عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا
بھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں


ہوں زمین پر، گزر فلک پہ مرا
دیکھ تو کس قدر رسا ہوں میں


کام دنیا میں رہبری ہے مرا
مثل خضر خجستہ پا ہوں میں


ہوں مفسر کتاب ہستی کی
مظہر شان کبریا ہوں میں


بوند اک خون کی ہے تو لیکن
غیرت لعل بے بہا ہوں میں


دل نے سن کر کہا یہ سب سچ ہے
پر مجھے بھی تو دیکھ، کیا ہوں میں


راز ہستی کی تو سمجھتی ہے
اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں


ہے تجھے واسطہ مظاہر سے
اور باطن سے آشنا ہوں میں


علم تجھ سے، تو معرفت مجھ سے
تو خدا جو، خدا نما ہوں میں


علم کی انتہا ہے بے تابی
اس مرض کی مگر دوا ہوں میں
شمع تو محفل صداقت کی
حسن کی بزم کا دیا ہوں میں


تو زمان و مکاں سے رشتہ بپا
طائر سدرہ آشنا ہوں میں


کس بلندی پہ ہے مقام مرا
عرش رب جلیل کا ہوں میں
اقبال نے عقل اور عشق کے موازنے اور معاملے میں اردو اور فارسی میں سینکڑوں بلیغ اشعار کہے ہیں۔ یہ مضمون اس کی طبیعت میں بار بار ہزار رنگ میں ابھرتا ہے اور ہر بار اس میں نیا جوش اور طرز بیان میں جدت ہوتی ہے لیکن اس تمام عرفان وجدان اور تمام فلسفے میں اساسی طور پر کوئی ایک نکتہ نہیں جو اس چھوٹی سی نظم میں موجود نہ ہو، اقبال کی نظموں میں یہ نظم سادہ گوئی کا ایک شاہکار ہے۔ فارسی نظموں میں اقبال نے عقل و خرد کی بہت تذلیل و تحقیر کی ہے اور جیسا کہ ایک نقاد نے کہا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال عقل کے پیچھے لٹھ لیے پھرتا ہے کہ جب بھی موقع ملے ایک ضرب رسید کر دے لیکن اس اردو نظم میں بڑا اعتدال اور نہایت منصفانہ توازن ہے۔ عقل نے اپنی فضیلت اور کار گزاری میں جو کچھ کہا وہ سچ ہے، اس لیے دل نے اس کی تردید نہیں کی، دل نے صرف اس کے حدود و قیود کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اپنی غرض و غایت کے لحاظ سے تو حق بجانب ہے لیکن ہستی حقیقی یا وجود مطلق صرف اتنا ہی نہیں جتنا کہ تجھ کو ادراک ہوتا ہے۔ عقل کی رسائی میں کس کو شک ہے؟ وہ زمین کے جماد و نبات ہی نہیں بلکہ فلکیات کی بھی محاسب ہے، خدا چونکہ عاقل ہے اس لیے عقل کا یہ دعویٰ کہ میں مظہر شان کبریا ہوں بجا اور درست لیکن سمجھنے اور دیکھنے میں فرق ہے، عین الیقین کا درجہ علم الیقین سے بڑھا ہوا ہے، عقل کا کام علم الیقین تک پہنچانا ہے، اس کی رہبری یہاں پہنچ کر ختم ہو جاتی ہے:
عقل گو آستان سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
حکمت، سائنس یا فلسفے کا کام مظاہر فطرت کا مطالعہ ہے تاکہ یہ کثرت، آئین کی وحدت میں پروئی جائے لیکن کنہ وجود تک اس کی رسائی نہیں، عقل کی بینائی مظاہر کی سطح تک خوب کام کرتی ہے۔ لیکن عین وجود میں غوطہ زنی اس کا کام نہیں۔ عقلی ادراک ہمیشہ بالواسطہ ہوتا ہے، استدلال کی کئی کڑیاں ایک نتیجے پر منتج ہوتی ہیں۔ اگر استدلال کے زینے میں سے کوئی ایک پایہ ٹوٹ جائے تو نتیجے تک پہنچنا محال ہو جائے۔ عقل میں شک اور گمان کا شائبہ ہمیشہ باقی رہتا ہے لیکن براہ راست مشاہدے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں رہتی:
راز ہستی کو تو سمجھتی ہے
اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں
عقل و دل کا یہ مکالمہ بو علی سینا اور ابو سعید ابو الخیر کی ملاقات میں بھی ملتا ہے۔ حضرت ابو سعید کے سوانحی حیات میں یہ لکھا ہے کہ حکیم بو علی سینا سے ان کی ملاقات ہوئی اور عالم روحانی کی بابت بو علی نے نہایت عمدہ استدلال سے اس عالم کی کیفیات کا اثبات کیا اور کہا کہ ازروئے حکمت انسان ان نتائج پر پہنچتا ہے۔ حضرت ابو سعید نے سب کچھ سن کر فقط یہ فرمایا کہ ’’ ہر چہ می دانی من می بینم‘‘ جو کچھ تو جانتا ہے میں اس کو چشم دل یا دیدۂ باطن سے دیکھتا ہوں۔ استدلال اور مشاہدے یا دانش و بینش کا فرق ہے۔ حقیقت رسی کے معاملے میں علم کا تذبذب کبھی ختم نہیں ہوتا۔ عقل اپنے نتائج حسی ادراک کے مواد سے اخذ کرتی ہے اور تمام حسی مظاہر زمان و مکان کے سانچوں میں ڈھل کر عقل کے لیے قابل ادراک ہوتے ہیں، اس لیے جو حقیقت نہ زمانی ہے نہ مکانی، وہ عقل کی گرفت سے لازماً باہر رہے گی۔ صوفیہ کشف و وجدان سے اس حقیقت پر پہنچے کہ دل کے مشاہدات اور احوال زمانی او رمکانی نہیں ہوتے اور یورپ کا سب سے بڑا فلسفی کانٹ بڑے طویل اور دقیق استدلال سے اس نتیجے پر پہنچا کہ زمان و مکان کوئی مستقل اور لا محدود حقائق وجود نہیں بلکہ عقل و ادراک کے سانچے میں خدا اور روح کی حقیقت ان سے ماوریٰ ہے عقل کا وظیفہ مطالعہ مظاہر اور علت و معلول کے روابط تلاش کرنا ہے، ہستی کی حقیقت تک اس کی رسائی نا ممکن ہے، عقل بے کار چیز نہیں لیکن جب وہ اپنی حد سے باہر قدم رکھنا چاہتی ہے تو سوخت ہو جاتی ہے:
اگر یک سر موے بر تر پرم
فروغ تجلی بسوز د پرم
اسی دور کی نظموں میں ایک نظم دل کے عنوان سے دل کی ردیف میں لکھی ہے، اس نظم میں بھی خودی اور عشق کے مضامین دلکش انداز میں بیان کیے ہیں، دل کی لامتناہی صلاحیتوں کا ذکر ہے:
قصہ دار و رسن بازی طفلانہ دل
التجاے ارنی سرخی افسانہ دل


یا رب اس ساغر لبریز کی مے کیا ہو گی
جادۂ ملک بقا ہے خط پیمانہ دل


ابر رحمت تھا کہ تھی عشق کی بجلی یا رب
جل گئی مزرع ہستی تو اگا دانہ دل


حسن کا گنج گرانمایہ تجھے مل جاتا
تو نے فرہاد نہ کھودا کبھی ویرانہ دل
مقطع میں کہتے ہیں:
عشق کے دام میں پھنس کر یہ رہا ہوتا ہے
برق گرتی ہے تو یہ نخل ہرا ہوتا ہے
اقبال کی شاعری آخری میں دل کی حقیقت کی شاعری بن گئی اسی دل کی حقیقت شناسی نے عشق کا راگ الاپا، اسی نے خودی کے تحقق اور استحکام کو شد و مد کے ساتھ پیش کیا، اسی دل نے عقل پر تنقید کی، اسی نے مقصود حیات متعین کیا، اسی نے اپنے اندر سے خدا کی طرف جانے کا دروازہ کھولا، اسی نے انسان کی موجودہ بے بسی پر آنسو بہائے، اسی نے انسان کو محدود سے لامحدود ہونے کے طریقے سمجھائے۔ اقبال کے نزدیک دل ہی ہے جو لامتناہی قوتوں کا سر چشمہ اور لا محدود بصیرت کا آئینہ ہے جس نے اس کی حقیقت نہیں پہچانی وہ محض جسم ہے، مادہ ہے، غلام عقل و حواس ہے اور بندۂ حرص و ہوا ہے۔
شیخ عبدالقادر مرحوم نے جو ایک بلند پایہ نقاد سخن اور ادب نواز و ادیب پرور ہونے کے علاوہ علامہ اقبال کے عمر بھر کے مخلص دوست بھی تھے، بانگ درا پہ دیبا چہ لکھا، اس دیباچے کی ابتداء میں وہ غالب اور اقبال کی مماثلت پر رقمطراز ہیں:
’’ کسے خبر تھی کہ غالب مرحوم کے بعد ہندوستان میں پھر کوئی ایسا شخص پیدا ہو گا جو اردو شاعری کے جسم میں ایک نئی روح پھونک دے گا اور جس کی بدولت غالب کا بے نظیر تخیل اور نرالا انداز بیان پھر وجود میں آئیں گے اور ادب اردو کے فروغ کا باعث ہوں گے مگر زبان اردو کی خوش اقبالی دیکھئے کہ اس زمانے میں اقبال سا شاعر اسے نصیب ہوا جس کے کلام کا سکہ ہندوستان بھر کی اردو داں دنیا کے دلوں پر بیٹھا ہے اور جس کی شہرت روم و ایران بلکہ فرنگستان تک پہنچ گئی ہے۔
غالب اور اقبال میں بہت سی باتیں مشترک ہیں اگر میں تناسخ کا قائل ہوتا تو ضرور کہتا کہ مرزا اسد اللہ خاں غالب کو اردو اور فارسی کی شاعری سے جو عشق تھا اس نے ان کی روح کو عدم میں جا کر بھی چین نہ لینے دیا اور مجبور کیا کہ وہ پھر کسی جسد خاکی میں جلوہ افروز ہو کر شاعری کے چمن کی آبیاری کرے اور اس نے پنجاب کے ایک گوشے میں جسے سیالکوٹ کہتے ہیں، دوبارہ جنم لینا اور محمد اقبال نام پایا۔‘‘
ایک مختصر دیباچے میں اس خیال کے ثبوت میں شیخ صاحب دونوں کے کلام کے نمونے پیش نہ کر سکتے تھے جن سے یہ مماثلت واضح ہو جاتی۔ اس کتاب میں بھی زیادہ تفصیلی موازنے اور مقابلے کی گنجائش نہیں لیکن شیخ صاحب کے خیال کی وضاحت کے لیے کچھ نہ کچھ لکھنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اگر کوئی شاعر کسی دوسرے شاعر کا صمیم قلب سے جوش و خروش کے ساتھ مداح ہو تو از روئے نفسیات یہ لازم آتا ہے کہ ماوح اور ممدوح میں کوئی گہری مشابہت ضروری ہے۔ ہر انسان اپنے ممدوح کی غیر شعوری طور پر تقلید بھی کرتا ہے اور انداز نگاہ طرز کلام میں خود بخود کم و بیش مماثلت پیدا ہو جاتی ہے۔ اقبال کے ابتدائی کلام میں مرزا غالب پر ایک مستقل نظم ملتی ہے جس کا پہلا بند ہے:
فکر انسان پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا
ہے پر مرغ تخیل کی رسائی تا کجا


تہا سراپا روح تو، بزم سخن پیکر ترا
زیب محفل بھی رہا، محفل سے پنہاں بھی رہا


دید تیری آنکھ کو اس حسن کی منظور ہے
بن کے سوز زندگی ہر شے میں جو مستور ہے
ایک بند میں غالب کو جرمنی کے یگانہ روزگار مفکر و شاعر گوئٹے کا ہم نوا قرار دیا ہے۔ ایک عرصے بعد پیام مشرق کے تمہیدی اشعار میں خود اپنا اور گوئٹے کا مقابلہ کیا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ میں بھی تمہاری طرح کا مفکر اور صاحب بصیرت و وجدان شاعر ہوں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ:
من دمیدم از زمین مردۂ
میں ایک مردہ قوم میں پیدا ہوا جو فقدان حیات کی وجہ سے میری قدر شناس نہیں اور تو نے ایک زندہ قوم میں جنم لیا۔ اگر غالب اور اقبال دونوں گوئٹے کے مماثل اور اس کے ہم نوا ہیں تو ظاہر ہے کہ یہ دونوں بھی باہم ہم رنگ و ہم آہنگ ہوں گے۔ اقبال کی مماثلت غالب سے کس چیز میں ہے، وہ اسی نظم کے ایک بند سے واضح ہو جاتی ہے:
لطف گویائی میں تیری ہم سری ممکن نہیں
ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں


ہائے! اب کیا ہو گئی ہندوستاں کی سر زمیں
آہ! اے نظارہ آموز نگاہ نکتہ بیں


گیسوے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دلسوزی پروانہ ہے
اچھی شاعری کے لیے خالی پرواز تخیل کافی نہیں، اس کے ساتھ فکر حقیقت رس بھی ہونا چاہیے۔ یہ دونوں چیزیں غالب میں ہم آغوش پائی جاتی ہیں اور نہی دو صفات کی دل کش آمیزش نے اقبال کے کلام میں دل رسی پیدا کی ہے۔ انسانی روح کو گرمانے والی ایک تیسری چیز بھی ہے جس کے لیے کبھی درد دل اور کبھی سوز قلب اور کبھی عشق کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور یہ کیفیت ترقی کر کے جنون کی ہم رنگ ہو جاتی ہے۔ غالب کے ہاں یہ چیز بہت نمایاں نہیں لیکن اس کے جن اشعار میں یہ ملتی ہے وہ فکر و تخیل کے ساتھ مل کر روح انسانی میں کبھی ہیجان و بے تابی اور کبھی سوز و گداز پیدا کرتے ہیں، عشق حقیقی میں سرمست صوفیہ کے ہاں اس کا بہت غلبہ ہوتا ہے۔ مولانا روم کے دیوان موسوم بہ دیوان شمس تبریز مین جو وجد و حال سے لبریز غزلیں ہیں وہ صاحب حال صوفی ہی کے قلب سے نکل سکتی ہیں۔ اس بارے میں غالب کے ہاں جو کمی ہے وہ اقبال کے کلام میں بہت کچھ پوری ہو جاتی ہے اور بہت سی غزلوں اور قطعات مینوہ سنائی و عطار و رومی کی صف میں دوش بدوش کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ جہاں تک عشق مجازی کا تعلق ہے ان صوفیائے کبار نے یا تو اس میں قدم ہی نہیں رکھا یا بقول عارف رومی کردے و گذشتے کے اصول کے مطابق جلد مجاز سے حقیقت کی طرف عبور کر گئے ہیں۔ المجاز قنطرۃ الحقیقتہ غالب کے ہاں آخر تک مجاز و حقیقت کی آمیزش چلی گئی ہے اور جہاں تک عشق حقیقی کا تعلق ہے وہ صوفی نہیں بلکہ متصوف ہے جو بربناے تفکر تصوف کا دلدادہ اور بحیثیت نظریہ حیات وحدت وجود کا قائل ہے۔ اقبال کے شباب میں رندی اور عشق مجازی کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں لیکن اس نے کبھی ہوس محبت کو اپنے نفس پر مسلط نہیں ہونے دیا، خود ہی اپنے متعلق فرماتے ہیں کہ دل بکسے نہ باختہ اقبال نے شروع سے آخر تک عشق کے جوگن گائے ہیں اس کی مثال شاید دنیا کے کسی ادب میں نہ ملے لیکن یہ عشق حیات و کائنات کی ایک اساسی اور نفسیاتی کیفیت ہے، یہ حیات علی الاطلاق کا عشق ہے جو افراد و اشیاء سب پر پھیلا ہوا ہے، لیکن کوئی ایک فرد اس کا مرکز یا مطمح نظر نہیں۔ اس کا عشق فرد سے گزر کر ملت کا عشق بن جاتا ہے، اس کے بعد وہ تمام نوع انسان پر بلا امتیاز مذہب و ملت پھیل جاتا ہے۔ آخر میں تمام حیات و کائنات اس میں غرق ہو جاتی ہے، مجاز سے حقیقت کی طرف ترقی نفوس عالیہ میں اسی اندازکی ہوتی ہے۔ عشق کی اس حالت میں کائنات کی ہر چیز زندہ اور حسن و عشق سے مرتعش معلوم ہوتی ہے، احترام حیات، احترام کائنات بن جاتا ہے۔ میر درد کا یہ شعر اسی لطیف احساس کو بیان کرتا ہے:
آہستہ سے چل میان کوہسار
ہر سنگ دکان شیشہ گر ہے


آتے ہیں مری نظر میں سب خوب
جو عیب ہے پردۂ ہنر ہے
غالب کے ہاں بھی بعض اشعار ملتے ہیں جن میں کائنات کے تمام ذرے نفوس اور عشاق کے قلوب دکھائی دیتے ہیں:
ذرہ ذرہ ساغر میخانہ نیرنگ ہے
دیدۂ مجنوں بہ چشمکہاے لیلیٰ آشنا


از مہر تا بہ ذرہ، دل و دل ھے آئنہ
طوطی کوشش جہت میں مقابل ہے آئنہ


اے تو کہ ہیچ ذرہ را جز بہ رہ تو روئے نیست
در طلبت تواں گرفت بادیہ را بہ رہبری
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ شاعری کے بعض پہلوؤں میں غالب اور اقبال میں مماثلت پائی جاتی ہے، لیکن اقبال کے کلام میں اور بھی بہت کچھ ہے جو غالب میں نہیں مل سکتا اور اگر کہیں ملتا ہے تو وہ تفکر اور تاثر کی ہلکی سی لہر ہوتی ہے جو تلاطم خیز نہیں ہو سکتی، یا تخیل کی پرواز ہوتی ہے جو شاخ سدرہ تک نہیں پہنچتی۔ اقبال داغ کی تقلید سے تو بہت جلد گزر گیا لیکن غالب کا اثر زیادہ دیر پا تھا۔ افسوس ہے کہ اقبال کا وہ کلام جس میں غالب کا انداز تخیل تھا بانگ درا میں شامل نہیں کیا گیا، جس طرح کہ غالب نے وہ اشعار اردو دیوان میں شامل نہیں کیے تھے جن میں بیدل کے پیچ در پیچ تخیلات کی بھول بھلیاں تھیں۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں انہوں نے جو نظمیں پڑھیں ان میں جا بجا غالب کا انداز تخیل اور اسلوب بیان پایا جاتا ہے۔ الفاظ، بندشیں، ترکیبیں، اضافتیں غالب سے بہت کچھ مماثل معلوم ہوتی ہیں:۔
نہیں منت کش تاب شنیدن داستان میری
خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زبان میری
یا نالہ یتیم کا یہ بند جو ۱۸۹۹ء میں انجمن کے جلسے میں پڑھی گئی:
آمد بوے نسیم گلشن رشک رام
ہو نہ مرہون سماعت جس کی آواز قدم
لت رقص شعاع آفتاب صبحدم
یا صداے نغمہ مرغ سحر کا زیر و بم
رنگ کچھ شہر خموشاں میں جما سکتے نہیں
خفتگان کنج مرقد کو جگا سکتے نہیں
حضرت اقبال آخر تک غالب کے مداح رہے اور وہ اس لیے کہ وہ بھی اقبال کی طرح ایک مفکر شاعر تھا، روایتی اور تقلیدی شاعری کے پیچ میں وہ عرفی کی طرح یا فیضی کی طرح بلند حکیمانہ باتیں کہہ جاتا، اقبال جیسے کائناتی عشق کی تڑپ اس میں بھی کہیں کہیں ملتی ہے، اگرچہ وہ آخر تک سفلی اور علوی جذبات کی کشمکش میں مبتلا رہا اور اپنی آرزوؤں میں کوئی ہم آہنگی پیدا نہ کر سکا، اس کی آخر تک یہی کیفیت رہی:
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے


ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے


سراپا رہن عشق و ناگزیر الفت ہستی
عبارت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا
اقبال کے لیے بھی حیات، عشق و شوق و آرزو ہے لیکن وہ بہت جلد اسفل سے اعلیٰ کی طرف صعود کر گیا اور وحدت نظریہ حیات کی آرزوؤں کی کثرت میں بھی وحدت پیدا کر دی۔ اضطراب تمنا کے باوجود اس کو اطمینان حاصل ہو گیا کہ اس قدم جادۂ حقیقت پر ہے۔ غالب کے ہاں بھی آرزو کی نفسیات اور اس کا گہرا فلسفہ جا بجا ملتا ہے۔ ایک شعر جو اس کے منتخب دیوان میں درج نہیں لیکن بھوپال والے نسخے میں موجود ہے، ایسا کہا گیا ہے کہ اقبال بھی اس پر وجد کرنے لگے۔ اقبال نے اپنا یہ خیال کئی اشعار میں بیان کیا ہے کہ عالم آزروئے حیات ہی کی پیداوار اور تمنائے وجود کا مظہر ہے۔ یہ نبات و جماد و نجوم کا جہان کا مخلوقات نہیں او رنہ ہی آخر تک کا کوئی ایک معین عالم ہے۔ خلاق فطرت کے ضمیر میں لامتناہی عالم مضمر ہیں اور انسان کی خودی بھی اسی لامتناہی تمنائے حیات سے بہرہ اندوز ہو کر کئی اور عوالم پیدا کر سکتی اور کئی دیگر عوالم میں قدم رکھ سکتی ہے، جس کا کوئی وہم و گمان انسان کو موجودہ حالت میں نہیں ہو سکتا۔ دیکھیے اسی خیال کو غالب نے کس بلیغ انداز میں پیش کیا ہی۔:
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
غالب کی اسی انداز کیش اعری تھی جس سے اقبال متاثر ہوا، لیکن غالب میں اسی انداز کا جو تفکر و تخیل ہے وہ اقبال میں نہایت درجہ ا رتقا یافتہ صورت میں ملتا ہے۔ پھولوں کے رنگ و بو میں مماثلت ہے لیکن غالب کے ہاں کے گلدستے اقبال کے کلام میں سدا بہار گلزار بن گئے ہیں۔
اقبال کی شاعری میں ابتدائی دور میں جو محرکات و اثرات نظر آتے ہیں وہ گوناگوں ہیں، جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے مغربی انداز فکر نے اچھے نتائج پیدا کیے ہیں، کئی نظمیں انگریزی شعراء کے ترجمے میں لیکن ترجمے ایسے ہیں کہ ترجمے معلوم نہیں ہوتے۔ کسی زبان کی نظم نفسیات میں غوطہ لگا سکے، اس کے خم میں اپنا ساغر ڈبونے اور پھر اس کو اپنے کوثر میں ڈال کر نکالے:
راہے ز کنج دیر بہ مینو کشودہ ام
از خم کشم پیالہ و در کوثر افگنم
انگریزی زبان میں شیلے جیسے شاعر نے بھی گوئٹے کی بعض نظموں کے ترجمے کیے ہیں اور لانگ فیلو کے کلیات میں بھی گوئٹے کے علاوہ دوسری زبانوں کے شعراء کے بعض شاہکاروں کے ترجمے ملتے ہیں، اور یہ سب ترجمے ایسے ہیں جو شاعری میں ایک مستقل حیثیت بھی رکھتے ہیں، ان میں دو اعلیٰ درجے کے شاعروں کی طبیعتوں کے دو ساز ہم آہنگ ہو کر بجتے ہیں جس سے نغمے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ فٹنر جیرالڈ کا عمر خیام کی رباعیوں کا ترجمہ انگریزی شاعری میں ادب عالیہ میں داخل ہو گیا ہے۔ اقبال کے ہاں ترجمے زیادہ نہیں ملتے لیکن جتنے بھی ہیں نہایت روانا اور سلیس ہیں، جہانصرف فکر کے سانچے لیے ہیں ان کو بھی بڑی خوبی سے اپنایا ہے۔ داغ کے مرثیے کا آغاز بعنیہ و یسا ہے جیسا کہ میتھیو آرنلڈ کے ورڈز ورتھ کے مرثیے کا ہے، جہاں وہ دو تین اور تازہ مرحوم شاعروں کی نوحہ گری کے بعد کہتا ہے کہ آج ہم ورڈز ورتھ کی قبر پر کھڑے ہیں۔:
عظمت غالب ہے اک مدت سے پیوند زمیں
مہدی مجروح ہے شہر خموشاں کا مکیں
توڑ ڈالی موت نے غربت میں میناے امیر
چشم محفل میں ہے اب تک کیف صہباے امیر
آج لیکن ہم نوا سارا چمن ماتم میں ہے
شمع روشن بجھ گئی بزم سخن ماتم میں ہے
اسی طرح گرے کی مشہور ایلیجی نظم کا ایک بند ہے جس میں زندگی کی گہما گہمی اور ہنگامہ و شورش کو بیان کر کے کہتا ہے کہ شہر خموشاں کے سونے والوں کو اب کسی قسم کا ہنگامہ خواب سے بیدار نہیں کر سکتا۔ اقبال نے اس کو اس طرح ڈھالا ہے:
شورش بزم طرب کیا عود کی تقریر کیا
درد مندان جہاں کا نالہ شب گیر کیا
خون کو گرمانے والا نعرۂ تکبیر کیا
اب کوئی آواز سوتوں کو جگا سکتی نہیں
سینہ ویراں میں جان رفتہ آ سکتی نہیں
مغربی شاعری کے اثر کے علاوہ بہت کچھ روایتی تصوف اور وحدت وجود بھی موجود ہے۔
شمع کے عنوان سے ایک متصوفانہ اور فلسفیانہ نظم لکھی ہے:
یک بین تری نظر صفت عاشقان راز
میری نگاہ مایہ آشوب امتیاز


کعبے میں، بتکدے میں ہے یکساں تری ضیا
میں امتیاز دیر و حرم میں پھنسا ہوا


ہاں آشناے لب نہ ہو راز کہن کہیں
پھر چھڑ نہ جائے قصہ دار و رسن کہیں
جگنو والی نظم اردو شاعری کا ایک شاہکار ہے، اس کے پہلے بند میں جگنو کے متعلق نادر تشبیہات ملتی ہیں۔ یہ اپنے اندر سے روشنی پیدا کرنے والا چھوٹا سا کرمک شب تاب آخر تک اقبال کے لیے روح انسانی کی نور طلبی اور نور آفرینی کی تمثیل اور علامت بنا رہا۔ فارسی میں بھی جگنو پر اقبال نے بڑے دلکش اشعار لکھے ہیں۔ اردو کی یہی نظم دوسرے بند میں وحدت و کثرت کا مضمون بن گئی ہے اور تیسرے بند میں فطرت کی بو قلمونی میں وحدت وجود نمایاں ہو گئی ہے:
جسن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے
انساں میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے


یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا
واں چاندنی ہے جو کچھ یاں درد کی کسک ہے


انداز گفتگو نے دھوکے دیے ہیں ورنہ
نغمہ ہے بوے بلبل بو پھول کی چہک ہے


کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی
جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے


یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو؟
ہر شے میں جبکہ پنہاں خاموشی ازل ہو
۱۹۰۵ء سے پہلے کا اقبال آٹھ دس برس کے قلیل عرصے میں تمام اردو داں ہندوستان میں مقبول خاص و عام ہو گیا۔ اس سریع السیر شہرت کے کئی اسباب تھے، ایک یہ کہ غالب کے بعد سے اردو زبان نے کوئی مفکر شاعر پیدا نہ کیا تھا جس میں ہوس کی غزل سرائی اور محض قافیہ بندی اور دور از حقیقت مضمون آفرینی اور ادنیٰ درجے کے فن برائے فن سے پوری طرح رو گردانی کر کے ایک شاعر قلب انسانی کی آواز اور فطرت کے دل کی دھڑکن بن گیا ہو اور جس کی طبیعت میں وطن و ملت اور انسانی زندگی کے حقیقی اور ابدی مسائل پر سوز اظہار کے لیے بیتاب ہوں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان کے تعلیم یافتہ طبقے میں بیداری، غلامی سے بیزاری اور آزادی کی طلب انگڑائیاں لینے لگی تھی، یہ طلب انگریزی تعلیم اور مغربی تہذیب سے تصادم کا نتیجہ تھی، نئے تعلیم یافتہ گروہ نے دیکھا کہ انگریزوں نے اور مغرب کی دیگر اقوام نے حب الوطنی اور وطن پرستی کے جذبے سے ترقی کی ہے، کیا وجہ ہے کہ یہ قومیں آزاد ہیں اور ہم غلام ہیں؟ آؤ ہم بھی وہی جذبہ پیدا کریں اور ان کی طرح آزاد اور ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑے ہو جائیں، لیکن اس مسئلے کا حل اتنا آسان نہیں تھا، ہندوستان ایک وسیع ملک بلکہ ایک بر کبیر تھا جس میں مختلف مذاہب رکھنے والے او رمختلف طریق معاشرت پر زندگی بسر کرنے والے ایک دوسرے سے متغائر گروہ اور ملتیں موجود تھیں، انگلستان کی طرح یہاں ایک قوم ایک مذہب اور ایک زبان سے مربوط و منسلک ملت ناپید تھی اور مغرب کے انداز کا وطن کا تصور اور اس کے ساتھ وابستہ جذبہ یہاں تاریخ کے کسی دور میں بھی موجود نہ تھا، مغربی اقوام نے اپنے لیے جو حل تلاش کیا تھا وہ یہاں قابل اطلاق نہ تھا، یہاں صرف ہندو اور مسلمان ہی دو مختلف العقائد اور مختلف المعاشرت گروہ نہ تھے، ہندوؤں میں سینکڑوں مذہبی فرقے موجود تھے اور کوئی عقیدہ بھی ایسا نہ تھا جو ان سب میں مشترک ہو۔ تمام ہندوستان کا بحیثیت وطن کوئی ایک نام بھی نہ تھا، یہاں تک کہ ہندو مذہب کا بھی کوئی نام نہ تھا۔ ہندوستان اور ہندو کے الفاظ باہر سے آنے والے مسلمانوں کے وضع کردہ ہیں، دریائے سندھ کو ہند کہہ کر یہ اصطلاحیں وضع ہوئی تھیں، مسلمانوں میں دینی اور لسانی وحدت بہت زیادہ موجود تھی اور اس لحاظ سے تمام ملک کے مسلمان ایک قوم یا ملت کہلا سکتے تھے لیکن مذہبی تنگ نظری نے یہاں بھی فرقے بنا رکھے تھے جو ملت کے اندر کوئی پائدار وحدت پیدا کرنے میں مانع تھے۔ اس قسم کا انتشار غیر ملکی ملوکیت کو بہت راس آتا ہے، ملوکیت ہمیشہ اقوام کے تفرقے سے فائدہ اٹھا کر غلامی کا جو ان کی گردن پر رکھتی رہی ہے۔ انگریزوں کو اس ملک میں تفرقہ اندازی کی ضرورت نہ تھی کیوں کہ یہاں ہزاروں برس سے انسانی گروہوں کے درمیان ناقابل عبور خلیجیں حائل تھیں، ایسی حالت میں غیر ملکی حکومت اور استحصال کرنے والی ملوکیت سے نجات ہو تو کس طرح ہو۔ آزادی طلب نوجوانوں کی سمجھ میں پہلے یہی بات آئی کہ ہم بھی انگریزوں کی طرح ایک قوم بن جائیں اور تمام ملک کو اپنا وطن قرار دے کر اس کے متعلق جذبہ وطنیت کو ابھاریں، مذہبی اختلافات کو غیر اصلی قرار دیا جائے اور وطن کی عظمت کے گیت گائے جائیں تاکہ غیر ملکی حکومت نے جو احساس کمتری پیدا کر دیا ہے اس کے خلاف ایک زبردست رد عمل ہو، پرانے دیوتاؤں کی پوجا کو باطل قرار دے کر وطن کے بڑے بت کی پوجا کی جائے۔ اسی حال اور اسی جذبے کے ماتحت نوجوان اقبال کا حساس قلب وطن کے ترانے گانے لگا۔ چونکہ ہندو قوم کا وطن اور اس کا مذہب گوناگوئی کے باوجود باہم وابستہ ہیں، اس لیے وطن پرستی کی تحریک ہندوؤں میں مسلمانوں سے قبل پیدا ہوئی، لیکن ہندو قوم کوئی ایسا شاعر پیدا نہ کر سکی جو اس کے اس جذبے کو ابھار سکے اور اس کے قلوب کو گرما سکے۔ ہندو قوم کے پاس وطنیت کا کوئی ترانہ موجود نہیں تھا۔ اقبال نے جب اپنے شاعرانہ کمال کو وطنیت کی خدمت کے لیے وقف کیا تو مسلمانوں کے علاوہ، بلکہ ان سے زیادہ ہندو اس سے متاثر ہوئے:۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ملک کے طول و عرض میں گونجنے لگا، بعض ہندو مدارس میں مدرسہ شروع ہونے سے قبل تمام طالب علم اس کو ایک کورس میں گاتے تھے۔ ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے وقت آزاد ہندوستان کی تاسیس میں نصف شب کے بعد آزادی کی شراب سے سرشار ہندوؤں نے جناگن کس ساتھ ساتھ یہی ترانہ گایا اور یہ بات بھول گئے کہ یہ ترانہ پاکستان کے نظریاتی بانی کا لکھا ہوا ہے۔ گاندھی جی کی راکھ جب گنگا جی میں ڈالی جا رہی تھی تو دیوان چمن لعل اردو میں ریڈیو پر ’’ رواں بیاں‘‘ کر رہے تھے اور یہ شعر نشرکر رہے تھے:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
یہ ایک جملہ معترضہ تھا، یہاں فقط یہ بیان کرنا مقصود تھا کہ ہندوستان میں وطنیت کے جذبے کو جس شاعر نے پہلے گرمایا وہ اقبال باکمال تھے۔ ہندوستان اگر ایک وطن اور ایک قوم بن سکتا تو اقبال کا وطنیت کا کلام اس کے لیے الہامی صحیفہ ہوتا۔ لیکن ملک کے حالات ایسے تھے کہ یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔
یورپ سے واپس ہونے کے بعد اقبال اس نتیجے پر پہنچا کہ ہندوستان ایک مختلف الملل بر اعظم ہے، اس کے مسائل کا حل مغربی انداز کی جمہوریت نہیں بلکہ ایک نظام سیاست ہے جس میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو اپنے اپنے زاویہ نگاہ کے مطابق زندگی بسر کرنے کا موقع حاصل ہو اور ملک کے جس حصے میں جس قوم کی اکثریت ہے اس کو وہاں کامل دینی اور معاشرتی آزادی حاصل ہو۔ کوئی ملت دوسری ملت پر ناجائز غلبہ حاصل نہ کر سکے اور عادلانہ طور پر فیڈریشن کا انتظام ہو سکے۔ پاکستان کا مطالبہ اقبال نے سب سے پہلے اسی انداز میں پیش کیا۔ اس سیاسی ادھیڑ بن سے بہت پہلے ہی اسلام اور مسلمانوں سے متعلق اقبال کے خیالات میں ایک تغیر عظیم واقع ہوا تھا، اقبال نے مغرب میں جغرافیائی، نسلی اور لسانی قومیت کے تاریک پہلو کا بھی بغور مطالعہ کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ مغربی انداز کی نیشنلزم انسانیت کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ان مصنوعی ملتوں کو ایک دوسرے کی جانی دشمن بنا رہی ہے، یہ تنازع للبقا کی بھیانک صورت ہے، علوم و فنون اور جذبہ وطنیت نے ان قوموں میں جو قوتیں پیدا کر دی بینان کا انجام یہی ہو گا کہ کمزور قوموں کو لوٹنے اور مغلوب کرنے میں ان کی سعی مسابقت سب کو ایک عالم گیر جنگ میں جھونک دے۔ جنگ عظیم سے کوئی پچاس سال قبل انگلستان کے ایک دیدہ ور اور عارف ادیب نے پیش گوئی کی تھی کہ اگر انگلستان اسی روش پر گامزن رہا تو کوئی نصف صدی کے عرصے میں اسے جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد میں نے ایک روز علامہ اقبال سے کار لائل کی اس پیش گوئی اور اس کے پورا ہونے کا ذکر کیا تو فرمایا کہ کار لائل بڑی گہری روحانی بصیرت کا شخص تھا، اپنی قوم کی معاشرت اور سیاست کے رخ کو دیکھ کر اس کا یہ پیش گوئی کرنا کوئی تعجب خیز بات نہیں۔
اقبال اس نتیجے پر پہنچے کہ جغرافیائی، نسلی، لسانی معاشیاتی وحدت مصنوعی چیز ہے، اصلی وحدت فکری اور نظریاتی وحدت ہے، اس لحاظ سے تمام دنیا کے مسلمان ایک وحدت ہیں۔ وطن کی محبت ایک فطری اور لازمی چیز ہے، چنانچہ وطنیت کے خلاف جہاد کرنے کے بعد بھی یہ جذبہ ان میں موجود تھا لیکن حب وطن، وطن پرستی سے الگ چیز ہے، اس وطن پرستی سے لوگوں نے وطن کو معبود بنا لیا ہے اور اس جھوٹے معبود کے مذبح پر انسانوں کو بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کا یہ خیال کہ آخری دور میں وطن کی محبت اقبال کے دل سے نکل گئی تھی بالکل باطل ہے۔ ہندوستان اور اس کے رہنے والوں سے اس کا رشتہ قلبی آخر تک نہیں ٹوٹا، اقبال ہندوستان کی زبوں حالی اور غلامی پر آخر تک آنسو بہاتا رہا اور اس ملک کے ساتھ غداری کرنے والوں کا عالم عقبیٰ میں کیا حشر ہوا، اس کا نقشہ اقبال نے جاوید نامہ میں کس قدر بھیانک کھینچا ہے:
’’ ارواح رذیلہ کہ با ملک و ملت غداری کردہ و دوزخ ایشاں را قبول نکردہ‘‘ ان ارواح خبیثہ کو ایسے سیارے میں پھینکا ہے جس کی عقوبت کا یہ حال ہے کہ:
صد ہزار افرشتہ تندر بدست
قہر حق را قاسم از روز الست


درہ پیہم می زند سیارہ را
از مدارش بر کند سیارہ را


منزل ارواح بے یوم النشور
دوزخ از احراق شاں آمد نفور


جعفر از بنگال و صادق از دکن
تنگ آدم تنگ دیں تنگ وطن
اور دیکھئے ہندوستان کی عرفانی عظمت کس قدر اقبال کے دل میں جا گزیں ہے، فرماتے ہیں:
می ندانی خطہ ہندوستان
آں عزیز خاطر صاحبدلاں


خط ہر جلوہ اش گیتی فروز
درمیان خاک و خوں غلطد ہنوز
اقبال کشمیری الاصل تھے، ان کے اجداد کشمیر سے ترک وطن کر کے پنجاب میں سیالکوٹ کے شہر میں آباد ہو گئے تھے لیکن عرصہ دراز گزرنے کے بعد بھی کشمیر سے ان کی والہانہ محبت کبھی کبھی ان سے نہایت جذباتی اشعار نکلواتی تھی۔ وہ ابھی تک اپنے کالبد خاکی کو کشمیر ہی کی گلزار آفریں خاک کا پتلا سمجھتے تھے:
تم کلے ز خیابان جنت کشمیر
دل از حریم حجاز و نوا ز شیراز است
زندگی کے تمام ادوار میں کشمیر اور اہل کشمیر سے اقبال کی محبت، اور ان کی غلامی اور کس مپرسی پر اقبال کی جگر کاہی مسلسل قائم رہی۔ ارمغان حجاز میں ملا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض اقبال کا اپنا بیاض قلب ہے، اس میں کشمیر کے متعلق اقبال کا جذبہ اور اضطراب اس کے فلسفہ حیات کی آمیزش سے نہایت درد و گداز کے ساتھ ظاہر ہوا ہے۔ اگرچہ اقبال جاہلانہ اور متعصبانہ وطن پرستی کے خلاف آواز بلند کرتا ہوا کہتا ہے کہ:
پاک ہے گرد وطن سے سر داماں تیرا
تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعان تیرا
لیکن وہ اپنے قلب کی گہرائیوں میں اپنے آپ کو کشمیر ہی کے کنعان کا گم گشتہ یوسف سمجھتا تھا:
پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب
مرغان سحر تیری فضاؤں میں ہیں بیتاب
اے وادی لولاب
اقبال کو اس جنت میں چشموں اور مرغان سحر کی نواؤں میں بھی تڑپ محسوس ہوتی ہے، لیکن اس خطے کے جلوہ گران منبر و محراب کے قلوب میں اس کو کوئی ہنگامہ نظر نہیں آتا۔ یہاں کے ملا و صوفی کے لیے دین فقط افیون بن کر رہ گیا ہے:
گر صاحب ہنگامہ نہ ہو منبر و محراب
دیں بندۂ مومن کے لیے مومن ہے یا خواب
اے وادی لولاب


ملا کی نظر نور فراست سے ہے خالی
بے سوز ہے میخانہ صوفی کی مے ناب
اے وادی لولاب
اس کے دل میں یہ تمنا شعلہ فگن ہے کہ یہ خطہ کوئی درویش قائد پیدا کرے جو حضرت موسیٰ ؑ کی طرح اس قوم کو غلامی سے نجات دلوائے:
بیدار ہوں دل جس کی فغان سحری سے
اس قوم میں مدت سے وہ درویش ہے نایاب
اے وادی لولاب
دیکھئے اپنے آبائی وطن کی حالت پر وہ کیسی درد ناک اور حسرت انگیز آہیں کھینچتا ہے:
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر


سینہ افلاک سے اٹھتی ہے آہ سوز ناک
مرد حق ہوتا ہے جب مرعوب سلطان و امیر


کہ رہا ہے داستان بیدردی ایام کی
کوہ کے دامن میں وہ غم خانہ دہقان پیر


آہ یہ قوم نجیب و چرب دست و تر دماغ
ہے کہاں روز مکافات اے خداے دیر گیر
ملک خدا اور انسانوں کو مال تجارت سمجھ کر خریدنا بیچنا ایسٹ انڈیا کمپنی کی تاجرانہ ملوکیت میں جائز تھا، چنانچہ کمپنی کو جب روپے کی ضرورت محسوس ہوئی تو ایک کروڑ روپے سے کم میں کشمیر اور اہل کشمیر کو گلاب سنگھ ڈوگرے کے ہاتھ بیچ دیا:
دہقان و کشت و جوے و خیابان فروختند
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
کشمیر پر اقبال کی عاشقانہ غزل کیسی وجد انگیز ہے:
رخت بہ کاشمر کشا کوہ و تل و دمن نگر
سبزہ جہاں جہاں ببیں لالہ چمن چمن نگر


باد بہار موج موج مرغ بہار فوج فوج
صلصل و صار زوج زوج بر سر نارون نگر
ہندوستان کی روحانیت نے جو برگزیدہ انسان پیدا کیے ہیں اقبال نے ان پر نہایت خلوص، فراخ دلی اور وسیع المشربی سے نظمیں لکھی ہیں۔ ہندوستانی بچوں کے قومی گیت مینوہ پہلے ہی شعر کے دو مصرعوں میں چشتی علیہ الرحمتہ اور نانک دونوں کو پیامبران توحید و حق قرار دے کر کہتے ہیں:
چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
بابا گرونانک پر اقبال کی یک مستقل نظم بھی ہے جو اس وقت کہی گئی ہے جب وہ زیادہ تر اسلامی نظمیں لکھ رہے تھے۔ اس نظم کے پہلے شعر میں گوتم بدھ کو بھی پیغمبر قرار دیا ہے:
قوم نے پیغام گوتم کی ذرا پروا نہ کی
قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی
بابا گرونانک کی شان میں کہتے ہیں:
بتکدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا
نور ابراہیم سے آزر کا گھر روشن ہوا


پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے
بانگ درا میں نہایت خلوص کے ساتھ شری رام چندر جی کی توصیف میں کچھ اشعار لکھے ہیں۔ ہندو تو مبالغہ کر کے اس برگزیدہ انسان کو اوتار مانتے ہیں، جیسے حضرت مسیح کو بلند پایہ پیغمبر کی بجائے عیسائیوں نے خداے مجسم سمجھ لیا، لیکن اقبال ان کو ہندوستان کا امام یا پیغمبر تسلیم کرتے ہیں۔ ہندوستان نے مختلف زمانوں میں نہایت عمیق الفکر مفکر اور صاف باطن پیدا کیے ہیں۔ اقبال نہایت فراخدلی اور وسیع المشربی سے اس کا اقرار کرتا ہے۔ اس کا دل نہ ہندوستان سے برداشتہ ہے اور نہ وہ ہندو قوم سے نفرت کرتا یا اس کی تحقیر کرتا ہے۔ بلند پایہ نفوس کا یہ شیوہ نہیں ہے کہ وہ دوسری ملتوں کے مذہبی پیشواؤں کی تذلیل کریں اور اپنی متعصبانہ ملت پرستی میں دوسری ملتوں کے دینی اور تہذیبی کارناموں کی داد نہ دیں:
لبریز ہے شراب حقیقت سے جام ہند
سب فلسفی ہیں خطہ مغرب کے رام ہند


یہ ہندیوں کے فکر فلک رس کا ہے اثر
رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے بام ہند


اس دیس میں ہوئے ہیں ہزاروں ملک سرشت
مشہور جن کے دم سے ہے دنیا میں نام ہند


ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند


اعجاز اس چراغ ہدایت کا ہے یہی
روشن تر از سحر ہے زمانے میں شام ہند


تلوار کا دہنی تھا شجاعت میں فرد تھا
پاکیزگی میں جوش محبت میں فرد تھا
پنجاب کے مشہور ہندو صوفی سوامی رام تیرتھ، اقبال کے ہم عصر اور لاہور کالج میں پروفیسر تھے، انہوں نے تزکیہ قلب سے عالم روحانی میں ایک بلند مقام حاصل کر لیا تھا، پنجاب والے اور تمام اہل ہند ان کی روحانیت سے متاثر ہوئے، وہ اچھے اہل قلم بھی تھے، ان کی وفات دریا میں غرق ہونے سے واقع ہوئی۔ اقبال نے اس اہل دل پر بھی بہت اچھے اشعار کہے جو بانگ درا میں درج ہیں:
ہم بغل دریا سے ہے اے قطرۂ بیتاب تو
پہلے گوہر تھا بنا اب گوہر نایاب تو


نفی ہستی اک کرشمہ ہے دل آگاہ کا
لا کے دریا میں نہاں موتی ہے الا اللہ کا
٭٭٭
 

فرخ منظور

لائبریرین
دوسرا باب
اقبال کی شاعری کی پہلی منزل
۱۹۰۵ء تک کے کلام پر اعادۂ نظر
یہ کلام کوئی تیس سال کی عمر تک کا کلام ہے۔ اقبال کی شہرت اس سن تک عام ہو گئی تھی، ادیبوں اور شاعروں کو نظر آنے لگا تھا کہ شاعری کے افق پر ایک نیا ستارہ طلوع ہوا ہے جس کے انداز سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آگے چل کر مہتاب و آفتاب بننے والا ہے۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں اقبال نے ایک طویل نظم پڑھی جس کے ہر شعر میں فکر و تخیل کا انوکھا پن تھا۔ مولانا شبلی وہاں موجود تھے، انہوں نے داد دیتے ہوئے فرمایا کہ جب حالی اور آزاد کی کرسیاں خالی ہوں گی تو لوگ اقبال کو ڈھونڈیں گے۔ آزاد نثر میں سحر نگار تھا مگر شاعری میں اس کا مرتبہ بہت بلند بہ تھا، لیکن حالی اپنی شاعری میں صاحب طرز تھے، سہل ممتع میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ ورڈز ورتھ کی طرح سادگی کو موثر بنانا اسی شاعر کا کام ہے جسے فطرت نے خاص جوہر عطا کیا ہو۔ قومی شاعری کی داغ بیل بھی حالی نے ڈالی لیکن مسلمانوں کی حیات ملی میں وہ زمانہ ہی ایسا تھا کہ قومی شاعری زیادہ تر قوم کا ماتم ہی تھی۔ سلطنت مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل چکی تھی، ان کے علوم و فنون میں فرسودگی پیدا ہو گئی تھی، حامیان دین، اسلام کے نادان دوست تھے اور عصر حاضر کے تقاضوں سے غافل تھے، مسلمانوں کے پاس نہ دولت دنیا رہی اور نہ دولت دین اس لیے حالی کی اکثر نظموں میں افسردگی زیادہ پائی جاتی ہے:
سینہ کوبی میں رہے جب تک کہ دم میں دم رہا
ہم رہے اور قوم کے اقبال کا ماتم رہا
علاج کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا اس لیے حالی کہتا ہے کہ بس اب دعا کرنی چاہیے اور سوچتا ہے کہ ہماری دعا سے بھی کیا ہو گا، رسول کریم رحمتہ للعالمین ؐ سے دعا کی درخواست کرنی چاہیے:
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
ہم نیک ہیں یا بد ہیں پر آخر ہیں تمہارے
نسبت بہت اچھی ہے اگر حال برا ہے
حالی اور آزاد کے علاوہ باقی دلی اور لکھنو، آگرہ اور اودھ کے شعراء ابھی تک تغزل میں پرانی لکیریں پیٹ رہے تھے اور چچوڑی ہوئی ہڈیوں کو برابر چوستے جاتے تھے۔ یہ شاعری کیا تھی؟ قافیہ پیمائی کی بیہودہ مشق اور جھوٹا تفاخر:
جناب داغ کے داماد ہیں اور دلی والے ہیں
اقبال نے اس وقت زندہ شاعری شروع کی جتب باقی سب غزل گو یوں ہی جگالی کر رہے تھے یہ شعراء حالی پر بھی معترض تھے کیوں کہ اس کی قوی اور فطری شاعری میں ان کو کوئی چٹخارا نظر نہیں آتا تھا۔ اردو زبان کا اجارہ چند شہروں اور ان شہروں میں بھی چند خاندانوں اور چند محلوں کے پاس تھا۔ حالی کو اس لیے مستند نہیں سمجھتے تھے کہ اس کا وطن پانی پت تھا جہاں کی زبان ٹکسالی نہیں۔ حالی نے جل کر کہا:
حالی کو تو بدنام کیا اس کے وطن نے
پر آپ نے بدنام کیا اپنے وطن کو
جب حالی کے ساتھ یہ سلوک تھا، لاہور یا سیالکوٹ میں پیدا ہونے والا کس شمار و قطار میں تھا لیکن خدا کی قدرت ہے کہ اردو کے تمام شعراء میں سب سے بڑا شاعر وہاں پیدا ہواں جہاں گھر میں پنجابی بولی جاتی ہے۔ ٹکسالی زبان کے مدعیان نے شروع میں اقبال پر بھی زبان و محاورے کے بارے میں نکتہ چینی شروع کی لیکن اقبال بے پروا ہو کر اپنے مخصوص جادۂ فن پر گامزن رہا۔ جو لوگ شعر کی حیثیت سے واقف تھے ان کے دلوں پر اقبال کا سکہ بیٹھا رہا، داغ اور امیر مینائی کا مقابلہ اور موازنہ ابھی جاری تھا اور وہ اپنے فن میں اظہار کمال کر رہے تھے کہ اقبال کا شہرہ تمام ہندوستان میں سنائی دینے لگا جس کی شاعری کا موضوع اس کے انداز تفکر و تخیل اساتذہ متقدمین و متاخرین سے بھی الگ تھا اور معاصرین میں سے بھی کوئی شاعر اس انداز کی نظمیں نہ کہہ سکتا تھا۔ اقبال میں حالی کی حقیقت شناسی اور خلوص، غالب کے تخیل کے ساتھ ہم آغوش ہو گیا، جذبہ وطنیت اور درد ملت کے ساتھ ساتھ گہرے فلسفیانہ مضامین و حکیمانہ افکار اور صوفیانہ وجدانات، اثر انگیز شاعری کا جامہ پہن کر عالم ادب میں جلوہ افروز ہوئے۔ یہ تمام عناصر اور صفات اقبال کے ابتدائی دور کی شاعری میں بھی موجود ہیں، فن کے لحاظ سے شروع ہی سے اس صاحب کمال میں ایک پختگی نظر آتی ہے، مصلحانہ اور مبلغانہ انداز کی جھلک اس دور میں بھی موجود ہے لیکن ابھی مدہم ہے، حسن و عشق پر اعلیٰ درجے کی نظمیں موجود ہیں، ان میں عشق مجازی بھی ہے اور عشق حقیقی بھی لیکن عشق کے متعلق وہ نادر جذبات اور خیالات نہیں جو ارتقاء کی آخری منزل میں بڑے سوز و گداز اور بڑی شان کے ساتھ ظاہر ہوئے۔
خودی کا مضمون جو اقبال کے خاص نظریہ حیات کی پیداوار ہے۔ اس دور کی شاعری میں بہت کم نظر آتا ہے، حب وطن کے بڑے دل نواز اور دل گداز گیت اس میں موجود ہیں چونکہ ابھی تک اصلاح ملت اور تبلیغ کو اقبال نے اپنا وظیفہ حیات قرار نہیں دیا تھا اس لیے اس کے متعلق بھی نظمیں اور اشعار ڈھونڈے سے ہی ملتے ہیں۔ ان نظموں میں زندگی کے ہر پہلو سے متاثر ہونے والا شاعر ملتا ہے، اس کی شاعری کے موضوع ابھی محدود نہیں ہوئے لیکن بہت کم نظمیں ایسی ہیں جو فلسفیانہ افکار سے خالی ہوں۔ اقبال کے کلام میں شاعری اور حکمت شروع ہی سے توام نظر آتی ہیں لیکن کہیں بھی خالی فلسفہ شعریت پر غالب نہیں آیا۔ بعد میں آنے والے اقبال کے تمام عناصر اس دور میں بھی موجود ہیں مگر ان کی تکمیل مزید ارتقاء کی طالب تھی، لیکن اس دور کی شاعری کے کچھ موضوع ایسے ہیں جو بعد میں قریباً غائب ہو گئے ہیں او ران کی کہیں کہیں ہلکی جھلکیاں رہ گئی ہیں جغرافیائی وطنیت کا جذبہ جو پہلے دور میں موجود ہے آگے چل کر ساقط ہو جائے گا، عشق مجازی کی لہریں جو اس میں موجود ہیں وہ یورپ میں کہی ہوئی نظموں میں بھی دکھائی دیں گی، لیکن حکمت و وجدان اور درد ملت کی فراوانی سے بعد میں ناپید ہو جائیں گی، عشق ایک لا محدود جذبہ حیات اور خودی پروردگار بن جائے گا۔ اس دور کی شاعری میں کچھ روایتی تصوف بھی ہے جو بعد میں چل کر اقبال کے اجتہادی تصوف میں بدل جائے گا۔ اسلامیات کا عنصر ابھی نمایاں نہیں، وسیع المشربی کی طرف میلان زیادہ ہے، شاعر ابھی کسی پختہ یقین پر نہیں پہنچا، ابھی راز حیات کو ٹٹولتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ابھی تک یقین و گمان کی آویزش سے نہیں نکلا، زندوں سے جواب نہیں ملتا تو خفتگان خاک سے استفسار کرتا ہے ایک مولوی صاحب نے جو اس کے متعلق اعتراضات کیے ہیں کہ تو صوفی بھی معلوم ہوتا ہے اور رند بھی، مسلمان ہے مگر ہندو کو کافر نہیں سمجھتا۔ کسی قدر شیعہ اور تفضیلی بھی دکھائی دیتا ہے، راگ کو بھی داخل عبادت سمجھتا ہے اور اکثر شعراء کی طرح تجھے حسن فروشوں سے بھی عار نہیں، رات کو محفل رقص و سرود میں شامل ہوتا ہے اور صبح کے وقت خشوع و خضوع سے تلاوت بھی کرتا ہے، مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ اس مجموعہ اضداد کی سیرت ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ اس سب کے جواب میں اقبال نے جو کچھ کہا ہے وہ اس زمانے میں اقبال کی طبیعت کا صحیح نقشہ ہے۔ یہ وہ دور ہے کہ اقبال کے لیے زندگی ایک معما ہے، گہرے خیالات پیدا ہوتے ہیں لیکن حقیقت کی تہ کو نہیں پہنچتے، کنہ حیات کا انکشاف نہیں ہوتا، وہ ابھی اپنے تئیں دانائے راز نہیں سمجھتا اس لیے کسی صداقت کی تبلیغ کا جوش بھی پیدا نہیں ہوتا:۔
میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا
گہرا ہے مرے بحر خیالات کا پانی


مجھ کو بھی تمنا ہے کہ اقبال کو دیکھوں
کی اس کی جدائی میں بہت اشک فشانی


اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے
اس دور میں اقبال کو یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ وہ ایک اعلیٰ درجے کا شاعر ہے اور وہ شاعر ہونے پر فخر کرتا ہے، یہ وہ اقبال نہیں جو آخر میں ان لوگوں کو بد دعائیں دینے لگا جو اس کو فقط شاعر سمجھیں، وہ اپنی قسم کے اچھے شاعر کو قوم کی آنکھ سمجھتا ہے جو بینا بھی ہے اور درد ملت سے اشک ریز بھی:
قوم گویا جسم ہے افراد ہیں اعضاے قوم
منزل صنعت کے رہ پیما ہیں دشت و پاے قوم


محفل نظم حکومت چہرۂ زیبائے قوم
شاعر رنگین نوا ہے دیدۂ بینائے قوم


مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
یورپ کی عمل پیرا زندگی کو دیکھ کر اسے شاعری کی افادیت پر شک پیدا ہو گیا۔ فرنگ کی تہذیب اور تمدنی جدوجہد، علوم و فنون کے فروغ اور سائنس کی تسخیر فطرت میں اسے شاعری کا کوئی مقام دکھائی نہیں دیتا اور اپنے سخن شناس دوست شیخ عبدالقادر سے اس خیال کا اظہار کیا کہ شاعری کو ترک کر دیا جائی۔:
مدیر مخزن سے کوئی اقبال جا کے میرا پیام کہہ دے
ہو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں انہیں مذاق سخن نہیں ہے
لیکن کچھ شیخ صاحب کی ترغیب سے اور کچھ اپنے استاد پروفیسر آرنلڈ کے مشورے سے وہ ترک شعر کے ارادے سے باز آ جاتا ہے اور پھر اس کو احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ فقط شمشیر اور عالم فطرت کی تسخیر ہی سے نہیں بلکہ تقریر اور شعر کی تاثیر سے بھی فتوحات حاصل کی جاتی ہیں، اچھی شاعری سے دلوں کو مسخر کر سکتے اور قوم کے اندھیرے میں اجالا کر سکتے ہیں:
اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر
بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں
شیخ صاحب کو دعوت دیتے ہوئے اقبال نے جو کچھ کہا اور جو ارادہ کیا اس کو پورا کر دکھایا:
اس چمن کو سبق آئین نمو کا دے کر
قطرۂ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں


دیکھ یثرب میں ہوا ناقہ لیلیٰ بے کار
قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں
اقبال نے شاعری کا رخ بدل کر قوم کے لیے بیداری اور خود داری کا سامان پیدا کر دیا۔
٭٭٭
تیسرا باب
۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک
یہ زمانہ اقبال کے قیام فرنگ کا زمانہ ہے۔ یورپ کا سفر مختلف قسم کے انسان مختلف اغراض اور محرکات کی وجہ سے کرتے ہیں، کوئی سیر و تفریح کی خاطر جاتا ہے، کوئی تجارت کی غرض سے، کوئی علوم و فنون کے حصول کے لیے اور کوئی جدید تہذیب و تمدن کا جلوہ دیکھنا چاہتا ہے۔ بقول اکبر الٰہ آبادی:
سدھاریں شیخ کعبے کو ہم انگلستان دیکھیں گے
وہ دیکھیں گے خدا کو ہم خدا کی شان دیکھیں گے
اقبال نے روانگی کے وقت فقط اس مقصد کا اظہار کیا کہ وہ حصول علم کی خاطر ادھر کا رخ کر رہا ہے:
چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے
شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو
وہاں ایک عرصہ رہ کر اور اس شراب کے نشے کا تجربہ کر چکنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اس نشے میں سوز و گداز کی کیفیت نہیں اور وہ غم عشق نہیں جس سے روح اپنی غذا حاصل کرتی ہے:
پیر مغاں! فرنگ کی مے کا نشاط ہے اثر
اس میں وہ کیف غم نہیں مجھ کو تو خانہ ساز دے
اقبال اساسی طور پر ایک مشرقی انسان تھا، وہ مشرقی روحانیت کا دلدادہ تھا، تمام مذہب عالیہ مشرق ہی کے مختلف خطوں میں پیدا ہوئے ہیں، مشرق ہمیشہ سے ادیان کا گہوارہ اور روحانیت کا سرچشمہ رہا ہے، مشرق نے دنیاوی تمدن اور تہذیبیں بھی اعلیٰ درجے کی پیدا کیں، اس نے علوم و فنون بھی پیدا کیے، بڑی بڑی ملکی فتوحات بھی کیں، وسیع سلطنتیں بھی یہاں قائم ہوئیں، پیغمبروں، رشیوں اور سنیوں کے ساتھ چنگیز، ہلاکو اور تیمور جیسے سنگ دل شمشیر زن بھی یہیں پیدا ہوئے۔ لیکن ان تمام جلوؤں اور ہنگاموں کے باوجود مشرق کے بلند ترین نفوس مادیت سے روحانیت کی طرف گریز کرتے رہے، بڑے بڑے کشور کشا بھی روحانی انسانوں کے سامنے سر تسلیم خم کرتے رہے۔ اکبر اعظیم جیسا کشور کشا اور دنیوی سیاست کا مدبر بھی ننگے پاؤں چل کر سلیم چشتی جیسے درویش کے پاس پہنچا کہ اس سے اولاد نرینہ کے لیے دعا کرائے اور جہانگیر جب بموجب عقیدۂ اکبر اس درویش کی دعا سے عالم وجود میں آیا تو اس کا نام بھی اسی درویش کے نام پر رکھا۔ شاہ جہان قیصر و کسریٰ کی شوکت کو مات کرنے کے لیے نو کروڑ روپے کی لاگت سے جواہرات سے مرصع تخت طاؤس بناتا ہے لیکن اس پر جلوس کرنے سے قبل تخت کے سامنے زمین پر سر بہ سجود ہو کر خدا سے کہتا ہے کہ فرعون آبنوس کے تخت پر بیٹھتا تھا اور خدائی کا دعویٰ کرتا تھا، میں اس مرصع تخت پر بیٹھنے سے قبل عجز و بندگی کا اظہار کرتا ہوں۔ شاید کوئی یہ کہے کہ ایسا تخت بنوانا کہاں کی بندگی اور کہاں کی عاجزی ہے؟ لیکن یہاں صرف یہ بات قابل غور ہے کہ ایک مشرقی انسان شوق شکوہ کے رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے قلب کی گہرائیوں میں اس خدا سے بھی رابطہ قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے جس کے سامنے تمام دنیاوی شوکتیں ہیچ ہیں اور جس تک رسائی فقط درویشی ہی کے راستے سے ہو سکتی ہے۔ مشرقی انسان کے لیے شاعری بھی وہی اثر آفرین ہوتی ہے جس میں روحانیت کی چاشنی ہو؟ سنائی اور عطار اور رومی کی گرفت مشرقی انسانوں کے قلوب پر، فردوسی و انوری و خاقانی سے بدرجہا زیادہ ہے۔ اقبال کو یورپ جانے سے قبل بھی انگریزی شاعری کے بہت سے انداز پسند تھے اور اس نے مغربی سانچوں سے بہت کچھ فائدہ بھی اٹھایا لیکن مغربی افکار پر بھی مشرقی روحانیت کا رنگ چڑھتا گیا اور اس طرح شرق و غرب کے امتزاج سے نئے مرکبات پیدا ہوئے لیکن مشرقی عنصر ہمیشہ غالب رہا۔
اقبال کو یورپ میں رہنے، حکمت فرنگ سے گہرا تعلق پیدا کرنے اور اس کی تہذیب و تمدن کا براہ راست مشاہدہ کرنے سے طرح طرح کے فائدے پہنچے۔ اقبال کی نظر آغاز ہی سے محققانہ تھی، اس لیے اس کی زندگی میں مغرب کی کورانہ تقلید کا کوئی شائبہ پیدا نہ ہو سکتا تھا۔ اس نے یورپ کے سطحی جلوؤں کو بھی دیکھا لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اس کے باطن پر بھی گہری نظر ڈالتا گیا، اس نے فرنگ میں علم و ہنر کے کمالات اور انسانی زندگی کی بہبود کے لیے ان کے مفادات کو بھی دیکھا لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اس سے بھی آگاہ ہو گیا کہ اس تعمیر میں ایک خرابی کی صورت بھی مضمر ہے۔ یورپ میں اس نے عقل کی کرشمہ سازیاں بھی دیکھیں لیکن اس کے ساتھ ہی اس کو نظر آیا کہ اس علم و فن کی نظر زیادہ تر تن کی طرف ہے من کی طرف نہیں، دماغ کی تربیت ہوتی ہے مگر دل تشنہ و گرسنہ رہ جاتا ہے:
افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کے مانند
مگر یہ خلد بس جنت نگاہ اورفردوس کوش ہے جس کے گرویدہ ہونے کا عبرت انگیز انجام غالب نے بھی آخر عمر میں ایک قطعے میں یہاں کیا تھا:
اے تازہ وردان بساط ہواے دل
زنہار اگر تمہیں ہوس نا و نوش ہے
اقبال نے دیکھا کہ فرنگ کی زیرکی مادی مفاداندوزی میں اس عشق سے بے گانہ ہو گئی ہے جو انسانی روح کے اندر زندگی کی لامتناہی اقدار کا خلاق اور حقیقی ارتقائے حیات کا ضامن ہے۔ یورپ میں جو اس کو تجلی نظر آئی اس کی مشرقی بصیرت نے اس کے متعلق فتویٰ دیا:
ہنگامہ گرم ہستی ناپائدار کا
چشمک ہے برق کی کہ تبسم شرار کا
سید احمد خاں ہوں یا ان کے شرکاء کار، شبلی وحالی، چراغ علی، نذیر یا مولوی ذکاء اللہ، ان سب کو مغربی تہذیب کا روشن پہلو ہی نظر آیا تھا، وہ اس کی تعریف میں رطب اللسان اور اس کی تجلی سے مرعوب و مغلوب تھے، وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ محسوس کرتے تھے کہ تہذیب و تمدن اور علوم و فنون ہی نہیں بلکہ اخلاق کے معیار بھی مغرب ہی سے حاصل کرنے چاہئیں، ان میں سے ہر شخص اپنی تحریروں میں، نثر یا نظم میں جب شرق و غرب کا موازنہ کرتا ہے تو نہایت درجہ احساس کمتری کے ساتھ مغرب کی برتری کو تسلیم کرتا ہے، دین کے مقابلے میں عیسوی عقائد کو چھوڑ کر باقی ہر چیز میں مغرب کی تقلید کو ترقی کا واحد راستہ سمجھتا ہے۔ اقبال میں یہ مغرب زدگی یورپ جانے سے پہلے بھی نہ تھی لیکن یورپ کے حقائق کے متعلق عین الیقین اور حق الیقین کے پیدا ہونے کے بعد اقبال کی طبیعت میں مغرب کے خلاف ایک زبردست رد عمل پیدا ہوا۔ یورپ کی ترقی زیادہ تر عقلی ترقی تھی اس لیے اس نے اس طبیعات میں گھری ہوئی عقل کے خلاف ہی جہاد شروع کر دیا جو اس کے آخری لمحہ حیات تک پورے جوش و خروش کے ساتھ قائم رہا۔
اقبال نے یورپ میں نظمیں بہت کم کہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ وہاں فلسفہ کی تعلیم و تحقیق اور تصنیف کے لیے مواد جمع کرنے میں منہمک رہا۔ شاعری کے لیے جس قسم کی فرصت اور فراغ قلب کی ضرورت ہے وہ اس کو میسر نہ تھی اور یورپ کی جدوجہد کو دیکھ کر یہ خیال بھی طبیعت میں گردش کرنے لگا:
جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں انہیں مذاق سخن نہیں ہے
لیکن اقبال جیسے فطری شاعر کے لیے بالکل سکون بھی ممکن نہ تھا۔ اس زمانے کی نظموں میں بھی جو تعداد میں بہت کم ہیں ہر رنگ کی شاعری ملتی ہے، حسن اور عشق پر اعلیٰ درجے کی نظمیں موجود ہیں۔ یہ نا ممکن تھا کہ جو ان شاعر فرنگ میں حسن نسوانی سے متاثر نہ ہوا، چنانچہ بعض نظمیں مخصوص محبوبوں کے متعلق ہیں۔ ان نظموں میں ایک لا جواب نظم حسن و عشق کے عنوان سے ہے جس میں حسن و عشق کا فلسفہ نہیں بلکہ کسی ایک حسین کے حسن سے پیدا شدہ تاثر ہے۔ ویسے تو اردو اور فارسی کا تمام تغزل عاشقانہ شاعری میں ہے لیکن اردو اورفارسی کے کسی شاعر کے کلام میں اس قسم کی لطیف عاشقانہ غزل یا نظم نہ ملے گی:
جس طرح ڈوبتی ہے کشتی سیمین قمر
نور خورشید کے طوفان میں ہنگام سحر


جیسے ہو جاتا ہے گم نور کا لے کر آنچل
چاندنی رات میں مہتاب کا ہم رنگ کنول


جلوہ طور میں جیسے ید بیضائے کلیم
موجہ نگہت گلزار میں غنچے کی شمیم
ہے ترے سیل محبت میں یونہی دل میرا
اس نظم میں کل تین بند ہیں اور شروع سے آخر تک تشبیہہ و تمثیل اور تخیل کی معراج ہر بند میں نظر آتی ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ یہ حسینہ کون تھی اور نہ ہی معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ عشق حسینہ کے حسن کی طرح ناپائیدار ہی ہو گا لیکن اس نے اس حساس اور باکمال شاعر کو متاثر کر کے جو اشعار لکھوائے ہیں وہ عشقیہ شاعری میں ہمیشہ لطافت فکر و تاثر اور حسن کلام کا نمونہ پیش کرتے رہیں گے اور اقبال کے متعلق آئندہ نسلوں کو یہ یاد کراتے رہیں گے کہ یہ ’’ دل بکسے نہ باختہ‘‘ کہنے والا شاعر کہیں کہیں عشق مجازی کا بھی شکار ہوا ہے۔ ایک جگہ اقبال نے اپنی نسبت کہا ہے:
کہ درس فلسفہ می داد و عاشقی ور زید
معلوم ہوتا ہے کہ کائناتی عشق کے علاوہ انفرادی عشق کی ورزش بھی کبھی کبھی کی ہے، کسی کی گود میں بلی دیکھ کر جو کچھ کہا ہے وہ بھی اسی راز کا غماز ہے۔ لیکن اقبال کی طبیعت میں ہر جزو اور ہر فرد کے حسن و عشق کے ساتھ ہی حسن کلی اور عشق کلی کا جذبہ بھی ابھرتا ہے اور اس کا فلسفہ بیان کرنے کے بغیر اقبال کے نزدیک بات پوری نہیں ہوتی، بات بلی سے شروع ہوتی ہے:
تجھ کو دزدیدہ نگاہی یہ سکھا دی کس نے
رمز آغاز محبت کی بتا دی کس نے


ہر ادا سے تری پیدا ہے محبت کیسی
نیلی آنکھوں سے ٹپکتی ہے ذکاوت کیسی
لیکن آخری اشعار میں حسن و عشق کا احساس کائنات پر پھیل جاتا ہے:
کیا تجسس ہے تجھے؟ کس کی تمنائی ہے
آہ! کیا تو بھی اسی چیز کی سودائی ہے


خاص انسان سے کچھ حسن کا احساس نہیں
صورت دل ہے یہ ہر چیز کے باطن میں مکیں


شیشہ دہر میں مانند مے ناب ہے عشق
روح خورشید ہے خون رگ مہتاب ہے عشق


دل ہر ذرہ میں پوشیدہ کسک ہے اس کی
نور یہ وہ ہے کہ ہر شے میں جھلک ہے اس کی


کہیں سامان مسرت کہیں ساز غم ہے
کہیں گوہر ہے کہیں اشک کہیں شبنم ہے
کلی کی نظم میں بھی جو خورشید ہے وہ بھی کوئی مہ وش ہی ہے:
مرے خورشید! کبھی تو بھی اٹھا اپنی نقاب
بہر نظارہ تڑپتی ہے نگاہ بیتاب


ترے جلوہ کا نشیمن ہو مرے سینے میں
عکس آباد ہو تیرا مرے آئینے میں


اپنے خورشید کا نظارہ کروں دور سے میں
صفت غنچہ ہم آغوش رہوں نور سے میں
 

فرخ منظور

لائبریرین
اقبال کی عاشقانہ نظموں کے متعلق یہ بات خاص طور پر ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ کسی محبوب پر اگر اس نے کبھی کوئی نظم لکھی ہے تو وہ حقیقی انسان تھا، اقبال کی شاعری کہیں بھی مصنوعی نہیں۔ اردو اور فارسی کے دیوان کے دیوان ایسی غزلوں سے بھرے پڑے ہیں جو کسی مخصوص محبوب کے متعلق نہیں، زیادہ تر معشوق ایک فرضی معشوق ہوتا ہے اور اس فرضی بت کے متعلق تمام تاثرات و تخیلات آورد سے پیدا کیے جاتے ہیں۔ ایسی شاعری شاعری نہیں بلکہ محض صناعی ہوتی ہے، جیسے خمریات میں ایسے لوگوں نے دیوانوں کے دیوان بھر دیے جنہوں نے مے انگور کو کبھی منہ نہیں لگایا لیکن تخیل میں تمام عمر مے خواری میں اور میخانے ہی میں گزار دی۔ ریاض کے خمریات کو دیکھیے کون شخص یہ یقین کر سکتا ہے کہ اس مرد خدا نے کبھی پی ہی نہیں لیکن اس کی زندگی سے واقف لوگ اس کی پارسائی کے شاہد ہیں۔ امیر مینائی کو دیکھئے تہجد گزار، ہر وقت تسبیح بدست، عابد و زاہد ہوس رانی کے کیا کیا نقشے مزے لے لے کر کھینچتا ہے اور کتنی مضمون آفرینی کرتا ہے، ابتدال سے بھی اس کو گریز نہیں، شراب کے بارے میں بھی جھوم جھوم کر نکتے پیدا کرتا ہے:
انگور میں تھی یہ مے پانی کی چار بوندیں
جس دن سے کھچ گئی ہے تلوار ہو گئی ہے
لیکن فرضی معشوق کے مصنوعی عشق آورد اس کے بیان میں آورد کی شاعری سوز و گداز سے معرا ہوتی ہے اور جو بات دل سے نہیں نکلی وہ دلوں میں گھستی بھی نہیں۔ داغ اور امیر مینائی دونوں ہوس پرستی کے تغزل میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے رہے لیکن امیر مینائی زاہد تھا اور داغ کو اس چیز سے حقیقی رابطہ بھی رہا تھا جس کے مختلف پہلوؤں کو بیان کر کے وہ لطف آفرینی کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ امیر مینائی نے داغ کے سامنے ایک روز اقرار کیا کہ ہم نے غزل میں بہت زور مارا لیکن تمہارے تغزل والی بات نہ ہو سکی۔ اس کے جواب میں داغ نے کہا کہ بھائی جورو کے عاشق کی غزل ایسی ہی ہوتی ہے جیسی تمہاری ہے۔
اقبال کی زندگی سے جو لوگ واقف ہیں وہ اس کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ رندی اور شباب کے زمانے میں بھی وہ عاشقی کے معاملے میں ’’ کردے و گذشتے‘‘ ہی تھا اور ’’ دل بکسے نہ باختہ‘‘ میں اس نے اپنی نسبت صحیح بات کہی ہے۔ بقول غالب وہ اس معاملے میں مصری کی مکھی تھا، شہد کی مکھی نہ تھا جس کے پاؤں اس میں دھس جائیں:
من بجا ماندم و رقیب بدر زد
نمہ لبش انگبین و نمہ طبر زد
یورپ میں لکھی ہوئی نظموں میں ایک نظم میں کھول کر اپنے عاشق ہرجائی ہونے کا ذکر کیا ہے اور اس نظم کا عنوان ہی عاشق ہرجائی رکھا ہے:
ہے عجب مجموعہ اضداد اے اقبال تو
رونق ہنگامہ محفل بھی ہے تنہا بھی ہے


حسن نسوانی ہے بجلی تیری فطرت کے لیے
پھر عجب یہ ہے کہ تیرا عشق بے پروا بھی ہے


تیری ہستی کا ہے آئین تفنن پر مدار
تو کبھی ایک آستانے پر جبیں فرسا بھی ہے؟


ہے حسینوں میں وفا نا آشنا تیرا خطاب
اے تلون کیش تو مشہور بھی رسوا بھی ہے


لے کے آیا ہے جہاں میں عادت سیماب تو
تیری بیتابی کے صدقے، ہے عجب بیتاب تو
اس نظم کے دوسرے بند میں اس تلون اور بے وفائی کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہتا ہے کہ میرے سینے میں جو دل ہے وہ ایک تراشا ہوا ہیرا ہے جس کے کئی پہلو ہیں اور ہر پہلو میں نیا رنگ جھلکتا ہے میرے دل میں گیتوں کا ایک محشر ہے، ہر کیفیت میں ایک نئے جلوے کی آرزو ہے میں کسی ایک حسین کے عشق میں کیسے ہمیشہ گرفتار رہ سکتا ہوں، میرا پیمان وفا حسن سے ہے نہ کسی فرد حسین سے میں حسینوں کے نظارے میں حسن کامل کو ڈھونڈتا ہوں:
ہر تقاضا عشق کی فطرت کا ہو جس سے خموش
آہ! وہ کامل تجلی مدعا رکھتا ہوں میں


جستجو کل کی لیے پھرتی ہے اجزاء میں مجھے
حسن بے پایاں ہے درد لا دوا رکھتا ہوں میں


زندگی الفت کی درد انجامیوں سے ہے مری
عشق کو آزاد دستور وفا رکھتا ہوں میں
معشوق کو تمام شعراء بے وفا کہتے ہوئے چلے آئے ہیں لیکن عاشق بے وفا کا مضمون اور وہ بھی عاشق شاعر کی اپنی زبان سے شاید اقبال کے سوا اور کہیں نہ ملے، جو اپنے بے وفائی کو وفا سے کہیں زیادہ قابل قدر چیز سمجھتا ہے۔ اس بے وفائی کو اس نے اعلیٰ درجے کا تصوف اور جزو کل کا فلسفہ بنانے کی ایک دل کش کوشش کی ہے۔ کہتا ہے کہ یہ تو تنگی دل اور افلاس تخیل کی بات ہے کہ کوئی شخص کسی ایک محبوب کا گرویدہ ہو کر اور محبوبوں کی طرف توجہ نہ کرے جو ویسے ہی حسن مطلق کے جزئی مظاہر ہیں:
سچ اگر پوچھے تو افلاس تخیل ہے وفا
دل میں ہر دم اک نیا محشر بپا رکھتا ہوں میں
اگر کائنات میں حسن ایسا ہی محدود اور تنگ جلوہ تھا کہ عاشق کو کسی ایک کے حسن ہی میں گرفتار کر کے محو کر دے تو یہ لا انتہا تخیل مجھے عطا کیا گیا جو خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہمیشہ تگ و دو کرتا رہتا ہے۔ اس تصوف اور اس جواز بے وفائی کو بھلا کون حسین قبول کرے گا، اور اقبال کے سوا کون سا عاشق ہے جس نے اپنے ہرجائی ہونے پر فخر کیا ہو اور اس عیب کو ایسا حسین کر کے پیش کیا ہو۔ ایک شاعر نے معشوق کے ہرجائی پن سے جل کر انتقاماً یہ ارادہ کیا تھا:
تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یتہی طور سہی
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی
لیکن اقبال کے ہاں یہ انتقام نہیں بلکہ صوفی مزاج شاعر کی ایک لازمی صفت بن گئی ہے۔ اقبال نے اپنے آپ ہی کو ہرجائی نہیں بنایا بلکہ شکوے میں خدا کو بھی ہرجائی ہونے کا طعنہ دیا ہے:
کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے
یورپ میں کہی ہوئی نظموں میں قبل سیاحت فرنگ کا اقبال بھی موجود ہے۔ وہی اقبال جس کے کلام میں تصوف اور فلسفہ مجاز اور حقیقت کی آمیزش نے ایک امتیازی خصوصیت پیدا کر دی تھی، اسلام اور ملت اور وطنیت کا جذبہ یورپ میں بھی برقرار رکھتا ہے۔ بعض نظموں میں شاعر بحیثیت شاعر بھی پایا جاتا ہے، لیکن اس کے علاوہ ہلکی سی مبلغانہ جھلک بھی ہے او رپیام رسائی کا جذبہ بھی ابھرتا ہوا نظر آتا ہے، جو اس سے پہلے اقبال کے کلام میں موجود نہ تھا۔ علاوہ متفرق اشعار کے تین نظموں میں پیام کا عنوان بھی ہے ایک پیام طلبہ علی گڑھ کے نام ہے، دوسری نظم پیام عشق اور تیسری کا عنوان فقط پیام ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے اقبال میں یہ احساس ترقی کر رہا ہے کہ اچھی شاعری کو پیغمبری کا جزو ہونا چاہیے اور تلمیذ الرحمان کے پاس انسانوں کے لیے کچھ پیام حیات کا ہونا بھی لازمی ہے۔ پیام کے عنوان والی نظم کا مطلع ہے:
عشق نے کر دیا تجھے ذوق تپش سے آشنا
بزم کو مثل شمع بزم حاصل سوز و ساز دے
دوسرے شعر میں کہتا ہے کہ عشق کی دولت ایک فضل الٰہی ہے جس کے حصول کا مدار محض کوشش پر نہیں ہے، یہ خدا کا کرم ہے اور اس فیض رسائی میں ادیان و ملل کی تفریق حائل نہیں:
شان کرم پہ ہے مدار عشق گرہ کشاے کا
دیر و حرم کی قید کیا جس کو وہ بے نیاز دے
یہ مضمون صوفیہ اور متصوفین شعراء کا ایک مسلمہ اور عام عقیدہ ہے، بقول عارف رومی:
مذہب عشق از ہمہ دین باجداست
عشق والوں کا بیان الفاظ میں خواہ کافرانہ ہی معلوم ہو لیکن اس میں سے بوے دین آتی ہے:
گر بگوید کفر آید بوے دیں
می تراود از شکش بوے یقیں
مرزا غالب کہتے ہیں کہ کافر عشق کو ایک خدا داد دولت ملتی ہے جو محض سعی حاصل نہیں ہو سکتی:
دولت بغلط نہ رسد از سعی پشیمان شو
کافر نتوانی شد ناچار مسلمان شو
ایک اور شاعر کہتا ہے کہ:
پروانہ چراغ حرم و دیر ندارد
وحدت وجود کے عقیدے کی جھلک بھی اس غزل کے ایک شعر میں موجود ہے:
تارے میں وہ قمر میں وہ جلوہ گہ سحر میں وہ
چشم نظارہ میں نہ تو سرمہ امتیاز دے
پھر کہتا ہے کہ تزکیہ نفس اور ترقی روح کے لیے طبیعت میں سوز و گداز کا ہونا لازمی ہے:
صورت شمع نور کی ملتی نہیں قبا اسے
جس کو خدا نہ دہر میں گریہ جان گداز دے
غالب پہلے سے کہہ گیا ہے کہ روح پرور سخن وری کے لیے بھی یہ لازمی شرط ہے:
حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسد
پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی
اقبال کا پیام حقیقت میں آغاز ہی سے عشق کا پیام تھا اس کی شاعری کا بہترین حصہ جو روح میں ارتعاش اور اہتزاز پیدا کرتا ہے وہ آیت عشق ہی کی تفسیر اور اسی خواب کی تعبیر ہے۔ طلبہ علی گڑھ کے نام جو پیام اس کے مطلع میں بھی عشق کی تبلیغ ہے:
اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے
عشق کے درد مند کا طرز کلام اور ہے
دوسرے شعر میں یہ اشارہ ہے کہ تمہارے رہبر، واعظ و مصلح اور ناصح سب غلامی میں مبتلا ہیں اور ان کا نالہ و فریاد زیر دام کی چیخ پکار ہے لیکن مجھے خدا نے دام و قفس سے نجات دی ہے اس لیے میرا نالہ طائر بام ہے۔ آزاد کی فریاد کی لے غلام اور گرفتار کی فریاد و لے سے الگ ہوتی ہے:
طائر زیر دام کے نالے تو سن چکے ہو تم
یہ بھی سنو کہ نالہ طائر بام اور ہے
تیسرے شعر میں اقبال کا خاص فلسفہ حیات ہے جس کی شرح وہ تمام عمر کرتا رہے گا کہ حیات و کائنات میں سکون مجازی و اعتباری ہے اور حرکت ماہیت حیات میں داخل ہے اس لحاظ سے کہسار کی بظاہر سکونی عظمت اور وقار کے مقابلے میں کمزور چیونٹی کی حرکت زندگی کا بہتر مظہر ہے:
آتی تھی کوہ سے صدا راز حیات ہے سکوں
کہتا تھا مور ناتواں لطف خرام اور ہے
چوتھے شعر میں وطنیت کی جگہ ملت اسلامیہ کی مرکزیت اور اس کی عالمی ہیئت نے لے لی ہے:
جذب حرم سے ہے فروغ انجمن حجاز کا
اس کا مقام اور ہے اس کا نظام اور ہے
جب یہ نظم علی گڑھ والوں کو بھیجی گئی تو اس میں ایک اور شعر جس کا مضمون یہ تھا کہ نظام اسلام بے قید مقام ہے یعنی جغرافیائی حدود و قیود کا پابند نہیں معلوم نہیں کہ بانگ درا کی اشاعت کے وقت اقبال نے اس شعر کو کیوں خارج کر دیا تھا، وہ شعر یہ تھا:
جس بزم کی بساط ہو سرحد چیں سے مصر تک
ساقی ہے اس کا اور ہی مے اور جام اور ہے
ہم نے طالب علمی کے زمانے میں جب یہ شعر پڑھا تو اصل خیال سے تو لطف اٹھایا لیکن یہ بات ذرا کھٹکی کہ اسلامی دنیا کے حدود سرحد چین سے مصر تک ہی تو نہیں جاوا سماٹرا سے لے کر مراکش کے ساحل بحری تک اور ایشیا و افریقہ میں شمال سے لے کر جنوب تک اسلامی دنیا پھیلی ہوئی ہے، اقبال نے اس عالم گیر ملت کی حدود کو اتنا محدود کیوں کر دیا ہے۔ خیال ہوا کہ مصرع کی تنگی سے مجبور ہو کر ایسا کرنا پڑا ہے، ممکن ہے کہ خیال بعد میں اقبال کے دل میں بھی پیدا ہوا ہو اس لیے اس نے اس شعر ہی کو نکال دیا۔
آگے دو اشعار میں اپنے مخصوص عقائد کو دہرایا ہے کہ عیش جاوداں تن کا ہو یا من کا ایک قسم کی موت ہے اگر وہ کامل سکون اور اطمینان پیدا کر کے ذوق طلب کو فنا کر دے۔ زندگی ذوق طلب ہے اور سوز اس کا ساز ہے سوز ختم ہوا تو شمع حیات بھی بجھ جائے گی، جام میں اگر گردش نہ بھی ہو تو وہ جام رہتا ہے لیکن نفس انسانی میں اگر طلب اور تگ و دو ختم ہوئی تو آدمی آدمی نہیں رہ سکتا:
موت ہے عیش جاوداں ذوق طلب اگر نہ ہو
گردش آدمی ہے اور گردش جام اور ہے


شمع سحر یہ کہہ گئی، سوز ہے زندگی کا ساز
غمکدہ نمود میں شرط دوام اور ہے
اس پیغام کی شان نزول یہ تھی کہ علی گڑھ کے طلباء نے انگریزی اساتذہ کے خلاف اسٹرائک کر دی تھی۔ اقبال اس سے تو خوش تھا کہ ان میں آزادی، خود داری اور بیداری پیدا ہوئی ہے اور غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کا جذبہ ابھرا ہے، لیکن ملت اسلامیہ کی عام حالت اور علی گڑھ کالج کی حیثیت کچھ ایسی تھی کہ ابھی کچھ عرصے تک سید احمد خان کی مصلحت اندیشی پر چلنا قرین صواب تھا۔ مسلمان غدر کے بعد علم اور دولت و اقتدار سے محروم ہو گئے تھے، ایک طرف ہندو اور دوسری طرف انگریز ان سے بدظن تھے اور ان کے مخالف ان کو نیچا دکھانے پر تلے ہوئے تھے، کسی کامیاب کوشش کے لیے مزید علمی جدوجہد اور مزید تنظیم کی ضرورت تھی اس لیے اقبال نے نوجوانوں کو کچھ عرصے تک خاموش اور محتاط رہنے کا مشورہ دیا۔ اسی لیے مقطع میں کہا کہ:
بادہ ہے نیم رس ابھی، شوق ہے نارسا ابھی
رہنے دو خم کے سر پہ تم خشت کلیسیا ابھی
مرور ایام سے جب یہ بادہ نیم رس نہ رہا اور کچھ انقلاب روزگار سے اور کچھ اقبال کی تلقین اور شعلہ نوائی سے شوق رسا ہو گیا تو اقبال سے زیادہ کسی نے زبان و قلم اور دل و دماغ سے یہ جہاد نہیں کیا کہ اسلام اور ملت اسلامیہ کے خم صہباے کہن کے منہ پر سے خشت کلیسیا کو ہٹا دیا جائے تاکہ وہ کیفیت پیدا ہو سکے جسے آتش نے اس مطلع میں بیان کیا ہے:
یہ نصیحت مری ساقی نہ فراموش کرے
کاسہ سر کو خم بادہ کا سر پوش کرے
یورپ سے فرستادہ پیامات کی تیسری نظم کا عنوان پیام عشق ہے جس میں اقبال کے ہاں عشق کے جو مخصوص معنی ہیں وہ بہت کچھ واضع ہو گئے ہیں، اگرچہ یہ مضمون اس قدر اقبال کا جزو طبیعت اور جوہر دین ہے کہ بعد میں ہزار ہا اشعار کہہ کر بھی وہ مطمئن نہ ہو گا کہ بات پوری طرح کہی گئی ہے:
سن اے طلبگار درد پہلو میں ناز ہوں تو نیاز ہو جا
میں غزنوی سومنات دل کا ہوں تو سراپا ایاز ہو جا
یہاں عشق عاشق سے نیاز طلبی کر رہا ہے، بعد میں یہ نیاز درجہ کمال کو پہنچ کر ناز کا رنگ اختیار گا اور جوش و خروش میں ملائکہ، انبیاء اور خدا تک کا شکار کرنے لگے گا لیکن ابتداء نیاز ہی سے کرنی پڑے گی، مگر یہاں بھی دوسرے ہی شعر میں عشق میں خودی کا پہلو نمایاں ہو گیا ہے:
نہیں ہے وابستہ زیر گردوں کمال شان سکندری سے
تمام ساماں ہیں تیرے سینے میں تو بھی آئینہ ساز ہو جا
عشق خالی ناز یا نیاز سے نہیں بلکہ جدوجہد اور پیکار سے کمال پاتا ہے مسلمانوں نے جو ہلال کو نشان علم بنا لیا تو اس میں غیر شعوری طور پر یہ رمز پائی جاتی ہے کہ زندگی کا مقصد ارتقاء ہے، ہلال اپنی گردش سے روز افزوں ترقی کرتا ہوا بدر کامل بن جاتا ہے، انسان کی تقدیر بھی یہی ہے یا ہونی چاہیے:
غرض ہے پیکار زندگی سے کمال پائے ہلال تیرا
جہاں کا فرض قدیم ہے تو، ادا مشال نماز ہو جا
اکثر مذاہب میں قناعت اور توکل کی بہت تلقین کی گئی ہے، اسی تعلیم پر زیادہ زور دینے اور مبالغہ کرنے سے مذاہب عالیہ میں رہبانیت اور روحانیت کے مرادف بن گئی، مذہبی لوگوں نے تہذیب و تمدن کی طرف سے رخ پھیر لیا، زندگی کی جدوجہد کو ایک لا حاصل مشغلہ قرار دیا اور تقدیر کے غلط معنی لے کر ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ گئے کہ ہو گا وہی جو مقدر ہے، ہماری دوڑ دھوپ اور سعی و طلب سے کیا ہوتا ہے۔ قناعت و توکل کے صحیح معنے نبی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علماً اور عملاً واضح کیے۔ فقر کے ساتھ ساتھ تہذیب و تمدن کی اصلاح میں انتہائی کوشش اسلام کی تعلیم کا طرۂ امتیاز تھا۔ مشرق و مغرب میں ہندومت، بدھ مت اور عیسائیت سب نے ترک آرزو اور ترک دنیا کو مقصود دین بنا لیا، اسلام اسی کے خلاف ایک زبردست احتجاج تھا لیکن خود مسلمان میں غیر اسلامی تعلیمات رفتہ رفتہ سرایت کرتی گئیں اور حیات گریز تصوف میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ:
ترک دنیا، ترک عقبیٰ، ترک مولیٰ، ترک ترک
عشق الٰہی کو ایک ایسی مجرد اور تذیہی چیز بنا دیا کہ تمام اشیا و افراد کی محبت اور زندگی کے تمام اقدار عالیہ کا عشق اس کے منافی اور اس کے خارج ہو گیا۔ جب انسان کسی چیز کو اچھا سمجھے گا تو اس کے حصول کی آرزو پیدا ہو گی۔ کسی مقصد سے محبت نہ ہو گی تو اس کے لیے جدوجہد کون کرے گا۔ اقبال نے یہ ضروری سمجھا کہ مسلمانوں کے عقائد میں سے اس غیر اسلامی رہبانی عنصر کو خارج کیا جائے اور جس تصوف نے یہ تعلیم دی ہے اس کے خلاف علمی اور عملی جہاد کیا جائے اور مسلمانوں کو فقر اور تسلیم و رضا اور تقدیر کے صحیح معنی سمجھائے جائیں:۔
نہ ہو قناعت شعار گلچیں اسی سے قائم ہے شان تیری
وفور گل ہے اگر چمن میں تو اور دامن دراز ہو جا
حقیقی عشق خاروں کی خلوت یا صحرا نوردی کا تقاضا نہیں کرتا، شمع کی طرح سوز و گداز محفل کی خاطر ہونا چاہیے، عشق کے سوز و ساز کو تعمیر ملت میں کام آنا چاہیے:
گئے وہ ایام اب زمانہ نہیں ہے صحرا نوردیوں کا
جہاں میں مانند شمع سوزاں میان محفل گداز ہو جا
روح ملت روح فرد کے مقابلے میں ایک عمیق تر، وسیع تر حقیقت ہے، ملت کے مقابلے میں انفرادی نفس ایک مجازی حقیقت رکھتا ہے:
وجود افراد کا مجازی ہے، ہستی قوم ہے حقیقی
فدا ہو ملت پہ یعنی آتش زن طلسم مجاز ہو جا
آخر میں اسلام کی اصلیت اور مرکزیت کی طرف واپس آنے کی تلقین کرتا ہے، اس کے علاوہ جو بھی مقصود ہے وہ جھوٹا معبود ہے:
یہ ہند کے فرقہ ساز اقبال آزری کر رہے ہیں گویا
بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبار راہ حجاز ہو جا
قیام فرنگ کے دوران ہی میں اقبال کا زاویہ نگاہ وطنیت سے ملت کی طرف پھر گیا، اس کے دو وجوہ تھے۔ ایک تو یہ کہ ملت اسلامیہ کا کوئی ایک وطن نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ جغرافیائی اور نسلی و لسانی وطنیت اور قوم پرستی کے انداز جو اس نے مغرب میں دیکھے تو اس کے تاریک پہلو اس کو نہایت بھیانک نظر آئے۔ تنگ نظر اور خود غرض وطنیت کے خلاف بعد میں اقبال عمر بھر کچھ نہ کچھ کہتا رہا لیکن اس نظریے کا آغاز یورپ ہی میں ہوا۔ نیشنلزم نے نہ صرف اقوام فرنگ کو اتحاد دین کے باوجود ٹکڑے ٹکڑے کر رکھا تھا اور جغرافیائی حدود کے اس پاس اور اس پار کے انسان ایک دوسرے کے خلاف صلح میں بھی آمادہ جنگ رہتے تھے۔ بقول حالی:
صلح ہے اک مہلت سامان جنگ
کرتے ہیں یہ بھرنے کو خالی تفنگ
بلکہ ان اقوام کو فرنگ سے باہر ایشیا اور افریقہ میں کمزور اقوام کا شکاری بنا دیا تھا۔ جن اقوام کے پاس فرنگ کے سے ہلاکت آفرین ہتھیار نہ تھے، ان کی جان و مال و ابرو فاتحین کے لیے مال غنیمت تھے۔ بعد میں اس مال غنیمت کی تقسیم پر ڈاکوؤں میں تصادم ہو گیا اور دو عظیم جنگوں میں مشرق و مغرب میں وہ تباہی اور بربادی ہوئی جس کے مقابلے میں چنگیز اور تیمور کی غارت گری بچوں کا کھیل معلوم ہوتی ہے۔ اقبال کو یہ خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں ملت اسلامیہ فرنگ کی نقالی میں اس قسم کی نیشنلزم کا شکار نہ ہو جائے اسی لیے اقبال نے یہ پکارنا شروع کیا کہ مسلمان کا وطن کہیں نہیں ہے، یا یہ کہ مشرق و مغرب میں تمام روئے زمین مسلمان کا وطن ہے:
ہر ملک ملک ماست کہ ملک خداے ماست


نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا
بنا ہمارے حصار ملت کی اتحاد وطن نہیں ہے
کہاں کا آنا، کہاں کا جانا، فریب ہے امتیاز عقبیٰ
نمود ہر شے میں ہے ہماری کہیں ہمارا وطن نہیں ہے
دوسرے شعر میں اقبال حسب عادت تصوف اور فلسفے میں غوطہ لگا گیا ہے۔ تمام کائنات انسان کا وطن ہے، بلکہ دنیا و عقبیٰ کا امتیاز زمانی و مکانی بھی فریب ادراک ہی ہے۔ یہ جہاں اور وہ جہان یعنی کونین حقیقت میں ایک ہی ہیں۔ مومن کا وطن کوئی ایک مقام نہیں۔ حقیقت کلی یابہ الفاظ دیگر خدا اس کا وطن ہے۔ وہی اس کا مقام ہے اور وہی اس کی منزل، بقول عارف رومی:
منزل ماکبریاست
یورپ ہی میں اقبال میں یہ احساس پیدا ہوا کہ میرے اندر انفرادی اور اجتماعی آرزوؤں کا ایک محشر ہے جو عنقریب ایک رستخیز پیدا کرنے والا ہے۔ لوگ سمجھتے ہوں گے کہ اقبال یورپ میں پہنچ کر خاموش ہو گیا ہے۔ وہ ان کو بتا دینا چاہتا ہے کہ ذرا صبر کرو اور دیکھو کہ یہ طوفان آرزو گفتگو کا کیا ہنگامہ پیدا کرتا ہے:
 

فرخ منظور

لائبریرین
زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا
مری خموشی نہیں ہے گویا مزار ہے حرف آرزو کا
شیخ عبدالقادر کے نام دعوت شعلہ نوائی بھی اسی زمانے کے احساس کی پیداوار ہے کہ سخن گرم سے شعلے پیدا ہو سکتے ہیں اور اس نار سے ظلمت ربا نور ظہور میں آ سکتا ہے۔ اس دور کی نظموں میں وہ مضامین بھی موجود ہیں جو شروع سے اقبال کے کلام کا جزو تھے۔ کائناتی عشق و حسن بھی ہے لیکن مخصوص محبوبوں کی محبت میں بھی اعلیٰ درجے کی نظمیں ہیں جو نہ پہلے دور میں ملتی ہیں اور نہ بعد میں ملیں گی۔ لیکن فلسفے اور تصوف میں ابھی تک اکثر صوفیہ کی طرح اقبال کی طبیعت پر وحدت وجود کا نظریہ طاری ہے۔ اقبال کے استاد فلسفہ میک ٹیگرٹ نے اسرار خودی کے شائع کرنے کے بعد ایک خط میں اس کی طرف ٹھیک اشارہ کیا تھا کہ کیمبرج میں تم ہمہ اوستی تھے اب کچھ اور ہو گئے ہو۔ اس زمانے کی ایک نظم قریباً پوری وحدت و جود پر ہے:
چمک تیری عیاں بجلی میں آتش میں شرارے میں
جھلک تیری ہویدا چاند میں سورج میں تارے میں


بلندی آسمانوں میں زمینوں میں تیری پستی
روانی بحر میں افتادگی تیری کنارے میں
وجودی صوفیہ طریقت اور معرفت میں جو کچھ کہہ جاتے ہیں وہ بظاہر شریعت کے منافی معلوم ہوتا ہے، اس سے اہل ظاہر ان پر بہت کچھ رد و قدح کرتے ہیں۔ اگر عابد و معبود اور شاہد و مشہود کو ایک ہی سمجھا جائے تو امتیاز اور فرق مراتب غائب ہو کر خالق و مخلوق میں کوئی حد فاصل نہیں رہتی اور خیر و شیر کی تمیز کو قائم رکھنا بھی دشوار معلوم ہوتا ہے۔ ہمہ اوست اور ہمہ از اوست دونوں نظریات شریعت کے مخالف معلوم ہوتے ہیں اور کہنے والے کی مصلوب ہونے تک نوبت پہنچتی ہے۔ مرزا غالب شدت کے ساتھ ہمہ اوستی تھے ان کا اردو اور فارسی کا کلام جا بجا اس کا شاہد ہے کہیں استعجاب سے پوچھتے ہیں:
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے


سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
لیکن کہیں یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے لیکن عابد و معبود دراصل ہیں ایک ہی:
دیدہ بیرون و درون از خویشتن پر وانگہی
پردۂ رسم پرستش درمیان انداختہ
خدا نے ظاہر و باطن کے درمیان فریب ادراک سے یوں ہی پرستش کا ایک پردہ حائل کر دیا ہے جو حقیقت میں موجود نہیں۔ اس عقیدے کو بالکل کھلم کھلا بیان کرنے سے فساد کا اندیشہ ہوتا ہے اس لیے صوفیہ نے ان عقائد کو بہت کچھ استعاروں میں چھپانے کی کوشش کی ہے چنانچہ اقبال نے بھی یہی روش اختیار کی ہے:
شریعت کیوں گریباں گیر ہو ذوق تکلم کی
چھپا جاتا ہوں اپنے دل کا مطلب استعارے میں


جو ہے بیدار انساں میں وہ گہری نیند سوتا ہے
شجر میں پھول میں حیواں میں پتھر میں ستارے میں
جگنو پر اقبال کی نظم کے دوسرے بند کا ان اشعار سے مقابلہ کر کے دیکھئے تو معلوم ہو گا کہ اقبال پر یورپ جانے سے قبل بھی وحدت وجود کا نظریہ طاری تھا اور یورپ کے قیام کے دوران میں او رمحرکات اور جذبات پیدا ہونے کے بعد بھی یہ عقیدہ قائم رہا۔
وحدت وجود کے عقیدے میں اور کچھ خلل ہو یا نہ ہو لیکن اتنا ضرور ہے کہ یہ نظر انسانی اختیار کے منافی پڑتا ہے۔ اخلاقیات کی تمام بنیاد یہی ہے کہ انسان ایک صاحب اختیار ہستی ہے خدا نے خیر و شر کو اس پر واضح کر دیا ہے، اب وہ چاہے یہ راستہ اختیار کرے اور چاہے وہ، ادھر جائے گا تو اجر و ثواب حاصل کرے گا اور ادھر جائے گا تو جہنم واصل ہو گا۔ لیکن اگر تمام انسانی اعمال بھی خدا ہی کے اعمال ہیں تو پھر خیر و شر میں کیا تمیز رہتی ہے اور ثواب و عذاب مہمل بن جاتے ہیں، اسی خطرے کی وجہ سے اقبال رفتہ رفتہ اس عقیدہ سے لے گئے۔ ان کا نظریہ خودی در حقیقت اس روایتی وجودی فلسفے کی تردید ہے اقبال نے فلسفہ خودی کے ماتحت انسان کو بھی خالق قرار دیا اور اس خیال کو طرح طرح سے بیان کیا کہ کائنات مادی ذات پر نہیں بلکہ نفوس پر مشتمل ہے جو خودی کے لحاظ سے مختلف مدارج میں ہیں اور کسی نہ کسی حیثیت میں کائنات میں بے شمار خالق موجود ہیں جو مختلف ہونے کے باوجود خالق کی صفت خلق سے بھی متصف ہیں۔ ایک گفتگو میں انہوں نے فرمایا کہ قرآن خدا کو احسن الخالقین کہتا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ کائنات میں اور خالق بھی موجود ہیں۔ حضرت آدم کے قصے کے متعلق بھی ان کی تاویل یہ تھی کہ خدا کے حکم کی خلاف ورزی سے آدم نے اپنی خودی کی بیداری کا ثبوت دیا جو انسانیت کا آغاز ہے یہی افتادگی عروج آدم خاکی کا پیش خیمہ بنی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی اس دور تک خودی اور خدا کا باہمی رابطہ اقبال پر پوری طرح واضح نہیں ہوا، ابھی اس کا تفکر خدا کی وحدت اور نفوس کی کثرت کا تعلق سمجھنے سے قاصر ہے کبھی وحدت وجود میں بہ جاتا ہے اور کبھی عشق اور خودی کی خلاقی کی طرف کھنچا آتا ہے۔
اقبال کی اس دور کی نظموں میں مارچ ۱۹۰۷ء کی لکھی ہوئی نظم کئی حیثیتوں سے قابل غور ہے۔ یہ نظم پیشگوئیوں سے لبریز ہے اس لیے ’’ ہو گا‘‘ کی ردیف استعمال کی ہے۔ پہلے دو اشعار میں کہتا ہے کہ اس سے پہلے ادوار میں زندگی کے بہت سے اسرار سربستہ تھے اب افشاے راز کا زمانہ ہے۔ اس سے قبل اگرکسی کو کچھ معلوم نہ تھا تو وہ کچھ کہنا نہ تھا اس خیال سے کہ:
فاش گر گویم جہاں برہم زنم
اب زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ نیکی ہو یا بدی، حق ہو یا باطل، سب کچھ ببانگ دہل ظاہر ہو گا:
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا


گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہاں مے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہو گا
مطلب یہ ہے کہ آزادی گفتار اور آزادی عمل اس سے پہلے چند افراد اور مخصوص طبقات کو حاصل تھی، اب آنے والے دور میں یہ امتیاز اٹھ جائے گا۔
اس سے قبل خدا کے عاشق بنوں میں مارے مارے پھرتے تھے اب یہ لوگ انسانی جماعتوں میں رہ کر عشق سے کوئی تعمیری کام لیں گے اور عشاق اپنے لیے نئے میدان عمل ڈھونڈیں گے، حیات گریز تصوف ختم ہو جائے گا، اب صوفی جماعتوں کے اندر کام کرتے ہوئے نظر آئیں گے:
کبھی جو آوارۂ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہو گا


خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندۂ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
اس کے بعد دو اشعار ملت اسلامیہ کے متعلق رجائی پیش گوئی ہیں کہ یہ شیر خفتہ جی ہشیار ہو گا اور وہ اسی قوت کا مظاہرہ کرے گا جس نے کسی زمانے میں روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا۔ دو اشعار میں تہذیب مغرب پر تنقید ہے اور اس کی تخریب کے متعلق وہ پیش گوئی ہے جو چند ہی سال بعد پوری ہو گئی: کہتا ہے کہ مغرب کی ملوکیت کی حقیقت یہ ہے کہ وہ تاجرانہ ملوکیت ہے، مغربی اقوام کمزور اقوام کو اس لیے مطبع و مغلوب کرتی ہیں کہ تجارت کے ذریعے سے ان سے ناجائز فائدے اٹھائے جائیں، غلاموں کو خام پیداوار کی افزائش میں لگایا جائے اور پھر اپنی صناعی سے اسے مصنوعات میں بدل کر من مانی قیمت پر پھر انہیں غلاموں کے ہاتھ فروخت کیا جائے، دونوں بڑی جنگیں دراصل تجارت کی منڈیوں پر قبضہ کرنے کی کوششیں تھیں۔ اقبال کہتا ہے کہ ان مغربی اقوام نے خدا کی بستیوں کو خرید و فروخت کی دکانیں سمجھ لیا ہے انسانی ہمدردی اور انسانیت کا وقار ان کے زاویہ نگاہ میں نہیں ہر وقت اسی فکر میں ہیں کہ سستا خریدو اور مہنگا بیچو اور اگر چین ہماری افیون خرید کر مدہوش ہونے پر رضا مند نہ ہو تو اس کے خلاف جنگ کر کے زبردستی اس کے پاس افیون بیچو، پس ماندہ اقوام کے پاس شراب بیچ کر ان کی قوتوں میں اضمحلال پیدا کرو۔ اقبال کہتا ہے کہ اب وہ دور قریب ہے کہ تمہارے یہ ہتھکنڈے کام نہیں آئیں گے، قومیں بیدار ہو کر احتجاج میں اٹھ کھڑی ہوں گی اور تم خود آپس میں لڑ کر ایک دوسرے کو تباہ کرو گے اس لیے کہ تمہاری تہذیب کی بنیاد ہی اس لوٹ کھسوٹ پر ہے مگر اب یہ جاری نہ رہ سکے گی۔ دیکھئے کہ ان دو جنگوں کے بعد کتنی قومیں بیدار اور آزاد ہو گئیں اور انگریزوں کو ہندوستان کا وسیع ملک اس لیے چھوڑنا پڑا کہ اب غاصبانہ تجارت کا موقع نہیں رہا تھا کہ لنکا شائر کے کارخانوں کے مالکوں کے تقاضے سے ہندوستانی صنعت پارچہ بافی پر اتنا ٹیکس لگایا جائے کہ وہ انگریزوں کے مقابلے میں کم قیمت پر مال فروخت نہ کر سکیں۔ ایسی تجارت کے متعلق نطشے نے خوب کہا ہے کہ پہلے زمانے میں بحری ڈاکو تمام سمندروں میں اپنے جہاز لیے پھرتے تھے کہ جہاں بھی موقع ملے دوسروں کے جہازوں کا مال لوٹ لیں زمانہ حال کی وسیع تجارتیں بھی حقیقت میں ڈاکاہی ہیں لیکن اس کی صورت ایسی ہے کہ آسانی سے لوگوں کو اس غارت گری کا پتہ نہیں چلتا:
دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکان نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہو گا


تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
ہو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہو گا
جس زمانے میں اقبال نے یہ نظم لکھی ہے تمام عالم اسلامی، ایشیا کا معتدبہ حصہ اور پورا ہندوستان احساس کمتری میں مبتلا تھا۔ مغرب کے سیاسی علمی اور تہذیبی غلبے نے عام و خاص سب کی طبائع پر جادو کر رکھا تھا جس کا لب لباب اقبال نے ایک مصرعے میں بیان کر دیا ہے کہ ’’سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادو گری‘‘ اس بپنا ٹزم کا نتیجہ یہ تھا کہ تمام زندگی کو مغرب کی عینک سے دیکھا اور پرکھا جاتا تھا، اپنی خوبیاں بھی عیب معلوم ہوتی تھیں اور مغربیوں کے عیوب بھی خوشنما معلوم ہوتے تھے: بقول میر درد
جو عیب ہے پردۂ ہنر میں
مٹھی بھر انگریز تھے جو اس برصغیر پر تھوڑی سی فوج اور شاید ایک ہزار سے کم سول سروس والوں کے بل بوتے پر حکومت کرتے تھے شکاری کو صید افگنی میں کچھ خاص زحمت اٹھانی نہیں پڑتی تھی، صید خود گردن ڈالے، سر تسلیم خم کیے چلے آتے تھے۔ سکھوں کی حکومت کے زمانے میں نشہ اقتدار کے زور میں جب ایک سکھ دوسرے سے سر راہ ملتا تھا تو پوچھتا تھا کہ فوجیں کدھر سے ا رہی ہیں، گویا ہر ایک سکھ فرد اپنے آپ کو ایک لشکر کے برابر سمجھتا تھا سکھوں کے ہاتھ سے حکومت کے نکل جانے کے بعد بھی یہ طرز کلام مدتوں تک باقی رہا۔ انگریزوں کا بھی ہندوستان میں یہ حال تھا، کوئی انگریز یوں کہتا تو نہیں تھا لیکن اپنے آپ کو سمجھتا یوں ہی تھا: مغلوبیت کی ساحری میں ہندوستانی انگریز کو اس سے بھی کہیں زیادہ سمجھتے تھے جتنا کہ وہ تھا یا وہ اپنے آپ کو تصور کرتا تھا۔ یہ ایک نفسیاتی بات ہے کہ بزدلوں کو مخالفوں کی تعداد ہمیشہ اصل سے کہیں زیادہ دکھائی دیتی ہے اور بہادروں کو دشمن اصل سے کم محسوس ہوتے ہیں۔ اس شعر میں اقبال نے ایسی غلامانہ نگاہ کی کیفیت بیان کی ہے:
جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا
یہی رہی کیفیت جو تیری تو پھر کسے اعتبار ہو گا
پہلی جنگ عظیم سے قبل تک برٹش امپریلزم بڑے زوروں پر تھی انگریز صرف ہندوستان ہی کے مطلق العنان حاکم نہیں تھے بلکہ سیاست اور تجارت کے زور پر بالواسطہ یا بلا واسطہ نصف دنیا پر قابض تھے، انگریز کا رعب صرف ایشیا اور افریقہ ہی نہیں بلکہ یورپ کے ممالک پر بھی تھا، ہندوستان کے رئیسوں اور راجوں، نوابوں کی یہ حیثیت تھی کہ وہ اپنی نمائشی حکومتوں کے باوجود انگریزوں کے بے دام غلام تھے۔ جب دیسی حکمرانوں کی یہ حالت تھی تو عام دیسی عہدہ داروں کی ذہنیت کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔ یہاں مجھے حضرت اقبال کا بیان کردہ ایک لطیفہ یاد آ گیا جس سے بہت اچھی طرح سمجھ میں آ سکتا ہے کہ اس زمانے میں ہندوستانی عہدہ داروں اور رئیسوں کی کیا نفسیات تھی۔ لاہور کا ایک قدیم امیر خاندان ہے جنہوں نے فقیر کا لقب اختیار کر رکھا ہے۔ اس خاندان کے ایک فرد فقیر افتخار الدین حکومت میں بڑے عہدوں پر سرفراز تھے اور اقبال کے دوست تھے۔ اس زمانے میں تار کے دو پہیوں والی ایک انگریزی گاڑی کا واج تھا۔ جسے گک کہتے تھے۔ گک کا مالک خواہ رئیس و امیر ہی کیوں نہ ہو، اسے خود چلاتا تھا اور نوکر خاموشی سے عقب میں بیٹھتا تھا۔ اقبال کے پاس بھی برسوں تک گک تھی جسے وہ حسب دستور چلاتے تھے مگر ایک روز فقیر صاحب اقبال کو اپنے ساتھ بٹھائے ہوئے اپنی گک میں انہیں مال روڈ کی سیر کرا رہے تھے، سامنے سے ایک انگریز اپنی گک زور و شور سے چلاتا ہوا آ رہا تھا حالانکہ فقیر صاحب کی سواری بائیں ہاتھ قاعدے سے نصف سڑک پر چل رہی تھی لیکن وہ انگریز سیدھا ان کی طرف بڑھا، حسب قاعدہ اسے بھی بائیں ہاتھ پر گاڑی چلانی چاہیے تھی لیکن غرور میں وہ سیدھا ان کی طرف لپکا کہ دیسی آدمیوں کو اپنی گاڑی سامنے سے ہٹانی چاہیے، ہم انگریز ہیں ادھر ادھر ہونا ہمارے لیے ہتک ہے۔ا گر فقیر افتخار الدین گھبراہٹ میں جلدی سے اور بائیں طرف گک کو نہ ہٹاتے تو ٹکر کا اندیشہ تھا نتیجہ یہ ہوا کہ انگریز کی تک تو سیدھی نکل گئی لیکن فقیر صاحب کی گک کا پہیا پیدل پٹڑی پر چڑھ گیا، خیر بعد میں بہت جلد پھر گک سڑک پر آ گئی۔ اقبال فرماتے تھے کہ میں نے فقیر صاحب سے کہا کہ تم ٹھیک قاعدے سے جا رہے تھے نصف سڑک تمہارا حق تھا، تم نے کیوں گھبرا کر اپنا حق چھوڑ دیا، اگر ٹکر ہوتی تو انگریز کا قصور تھا۔ اس پر فقیر صاحب نے فرمایا کہ بھائی! تمام ملک ان کو دے کر ہم خاموش ہو گئے اور صبر کر لیا، اب کیا اس سے آدھی سڑک پر جھگڑا کرتا۔ اس دو رمیں آزاد کہلانے والے رئیسوں کا یہ حال تھا، یہ شعر اسی ذہنیت کا آئینہ ہے:
کہا جو قمری سے میں لے اک دن یہاں کے آزاد پا بگل
ہیں تو غنچے کہنے لگے ہمارے چمن کا یہ راز دار ہو گا
غدر کے بعد تو مسلمان بہت ہی خوف زدہ اور دبکے ہوئے تھے۔ سرسید علیہ رحمتہ کی فطرت میں حریت کے غیر معمولی جوہر تھے اور اس وقت کی حکومت کے مقابلے میں تعاون کی ضرورت کو محسوس کرنے کے باوجود انہوں نے حق کوشی اور حق گوئی سے دریغ نہیں کیا لیکن حکمرانی کی ساحری کا یہ حال تھا کہ منشی عنایت اللہ صاحب (مشہور مترجم) پسر مولوی ذکاء اللہ صاحب نے جو سید صاحب کے دار العلوم کے ابتدائی طالب علموں میں سے تھے اور سید صاحب ان کی شرافت اور ذکاوت اور ان کے والد سے دوستی کی وجہ سے ان سے بہت محبت کرتے تھے، ایک روز مجھ سے بیان کیا کہ سید صاحب گھوڑا گاڑی پر ہوا خوری کو نکلا کرتے تھے، راستے میں جو گورا سڑک پر پیدل چلتا ہوا نظر آتا، اس کو ضرور سلام کرتے تھے تاکہ وہ انہیں اپنی قوم کا وفادار دوست سمجھے۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ انگریزی سامراج کے زوروں میں کس طرح یہاں کے آزاد بھی پابگل تھے۔ ایسی حالت میں اقبال کے دل میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ آزادی کے لیے جدوجہد کی جائے اور اپنے متعلق یہ اعتماد پیدا ہوا کہ میں اپنے کلام سے قوم کو خود داری کی تعلیم دے کر او راس کی رگ حمیت کو جوش میں لا کر، اسے استبداد کے پنجوں سے رہائی دلا سکتا ہوں:
میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہو گی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہو گا
اس زمانے میں اقبال کو لوگ اچھا شاعر سمجھتے تھے، کوئی اس کو مبلغ یا مصلح یا شان پیغمبری سے بہرہ اندوز تصور نہیں کرتا تھا، لوگوں نے یہ نظم پڑھی اور لطف سخن کی داد دی اور اس مقطع کی نسبت یہی خیال کیا کہ یہ ایک شاعر کی تمنا ہے یا محض تعلی ہے جسے شعر میں جائز سمجھا جاتا ہے عرفی اور غالب میں ا س سے دس گنا زیادہ تعلی موجود ہے لیکن اسے شاعری سمجھ کر اس سے لطف اٹھایا جاتا ہے۔ کسے معلوم تھا کہ یہ نوجوان شاعر جو کچھ کہہ رہا ہے وہ اسے کر کے دکھائے گا اور اس دنیا سے گزرنے سے پہلے اپنی قوم کے لیے ایک آزاد ملت و مملکت کا سامان مہیا کر دے گا۔
یہ اقبال ہی کی قسم کی شاعری ہے جسے جزو پیغمبری کہا گیا ہے۔ اس نظم میں اقبال نے جو پیش گوئیاں کی ہیں ان میں سے کچھ پوری ہو چکی ہیں اور باقی کے متعلق یقین رکھنا چاہیے کہ وہ بھی پوری ہو کر رہیں گی تمام دنیا میں ملت اسلامی کا احیاء شروع ہو گیا ہے، کئی اسلامی ممالک نے مغربی سامراج کا جو اپنی گردن سے اتار پھینکا ہے اور وہ زمانہ دور نہیں جب ملت اسلامیہ ہر جگہ آزاد اور جادہ ترقی پر گامزن ہو گی۔
٭٭٭
 

فرخ منظور

لائبریرین
چوتھا باب
۱۹۰۸ء سے۔۔۔
یورپ میں کہی ہوئی اقبال کی نظمیں بہت کم ہیں لیکن انہیں میں سے بعض میں اس کی شاعری کے موضوعات کا رخ بدلتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس تمنا نے اسے بیتاب کرنا شروع کیا ہے کہ اپنی پس ماندہ اور افتادہ ملت کو بیدار اور ہشیار کیا جائے، عظمت دیرینہ اور عروج رفتہ کے نقشے اس کے سامنے رکھے جائیں، موجودہ حالت کی درماندگی اور پستی کو بھی اچھی طرح نمایاں کیا جائے لیکن اس انداز سے نہیں کہ اس میں یاس آفرینی اور ہمت شکنی کی کیفیت پیدا ہو، حالی بہت کچھ قوم کا ماتم کر چکا ہے، اب مزید اشک ریزی اور سینہ زنی سے انفعالی کیفیت کو ترقی دینا نقصان کا باعث ہو گا، مومن کی سیرت کے خط و خال اعلیٰ درجے کی مصوری سے کھینچے جائیں، اسلاف سے اس کے نمونے پیش کئے جائیں، قوم میں خودی اور خود داری کا احساس پیدا کیا جائے، احساس کمتری کو مٹا کر اس میں خودی کے جذبے کو ابھارا جائے، بلبل کو خیر باد کہہ کر شاہین کی سیرت کو اردو اور فارسی شاعری میں پہلی مرتبہ فقر و خود داری، جرأت و ہمت اور بلند پروازی کا نمونہ بنایا جائے قوم کے جمود کو توڑا جائے او راسے یہ تعلیم دی جائے کہ زندگی ذوق ارتقاء ہے، حرکت مسلسل ہے، سوز نیم خام ہے، خوب تر کی تلاش ہے، جذبہ نشوونما ہے قناعت پسندوں اور تقدیر پرستوں کو یہ بتایا جائے کہ سعی پیہم سے جہان نو پیدا کرنا انسان کی تقدیر ہے، عقل اچھی چیز ہے لیکن خالی عقل خنک جرأت اموز او رخلا ق نہیں ہوتی، زیر کی سے زیادہ عشق کی ضرورت ہے، جب تک قوم میں زندگی کے اعلیٰ اقدا رکی تڑپ پیدا نہ ہو گی وہ جمود اور خفتگی میں سے نہیں نکل سکے گی، بقول عارف رومی:
کوشش بے ہودہ بہ از خفتگی
شیخ عبدالقادر کے نام جو پیغام ہے اس میں بھی یہ کہیں نہیں ملتا کہ آؤ اپنی قوم کو جدید علوم و فنون اور عقل فرنگ سے آراستہ کر کے ترقی یافتہ اور مہذب اقوام کی صف میں کھڑے ہو جائیں۔
اقبال اس سے قبل حسن و عشق میں بہت سی نظمیں اور بہت سے اچھے اشعار لکھ چکا تھا لیکن وہ عشق یا مجازی تھا یا متصوفانہ انداز کا عشق جس میں انسانوں کواپنے ماحول سے بیگانہ کرنے کا میلان ہوتا ہے۔ اب اقبال وضاحت کے ساتھ جس عشق کی تلقین شروع کرتا ہے وہ حیات لامتناہی کا عشق ہے، زندگی کے لامتناہی ممکنات کو معرض وجود میں لانے کا جذبہ ہے یہ عشق وہ ہے جو آئینہ بصیرت کو صیقل کرتا ہے، پتھر کو آئینہ اور قطرے کو گوہر بناتا ہے یہ عشق وہ ہے جو خاک سے گل و ثمر پیدا کرتا ہے اور جس سے قطرے میں بحر آشامی کی تشنگی اضطراب آفرین ہوتی ہے۔ دنیا میں اسلام کو اپنی اصل صورت میں پیش کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے والے اس عشق کا تجربہ کر چکے ہیں کہ وہ ظاہر و باطن میں کیسا خلاق اور انقلاب زا ہوتا، عہد حاضر میں وہ نمونے نظر نہیں آتے لیکن مسلمانوں کی تاریخ اور روایات میں تو موجود ہیں، ان کا جلوہ مسلمانوں کو پھر دکھایا جائے:
جلوۂ یوسف گم گشتہ دکھا کر ان کو
تپش آمادہ تر از خون زلیخا کر دیں


اس چمن کو سبق آئین نمو کا دے کر
قطرۂ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں


دیکھ! یثرب میں ہوا ناقہ لیلیٰ بیکار
قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں
اسلام کی کیفیت تو شراب کی سی ہے وہ فرسودہ نہیں ہوا، کہنہ ہونے سے تو اس میں اور تیزی پیدا ہوتی ہے:
بادہ دیرینہ ہو اور گرم ہو ایسا کہ گداز
جگر شیشہ و پیمانہ و مینا کر دیں
اقبال نے یہ فیصلہ کر لیا کہ باقی عمر میں شاعری سے اب یہی احیائے ملت کا کام لیا جائے گا۔ فرماتے تھے کہ میرے والد نے مجھ سے یہ خواہش کی تھی اور مجھے نصیحت کی تھی کہ اپنے کمال کو اسلام کی خدمت میں صرف کرنا۔ حالی کی شاعری کا رخ سرسید نے پھیرا اور اس کے جوہر کو ملت کے لیے وقف کرایا۔ سید علیہ الرحمتہ کی صحبت سے پہلے حالی میں یہ چیز بالکل موجود نہ تھی، روایتی تغزل کے علاوہ اس کے پاس کچھ نہ تھا۔ اقبال میں یہ جذبہ شروع سے موجود تھا لیکن اس میں شدت اور گرمی مغرب میں پیدا ہوئی، اس کی طبیعت میں یہ آفتاب محشر مغرب میں طلوع ہوا:
گرم رکھتا تھا ہمیں سردی مغرب میں جو داغ
چیر کر سینہ اسے وقف تماشا کر دیں


شمع کی طرح جبیں بزم گہ عالم میں
خود جلیں دیدۂ اغیار کو بینا کر دیں


ہر چہ در دل گذرد وقف زباں دارد شمع
موختن نیست خیالے کہ نہاں دارو شمع
اس ذہنی انقلاب سے پہلے کی شاعری میں بھی اقبال کے اندر اسلامی جذبات کا کافی ثبوت ملتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہی یہ دبی ہوئی آگ چادر خاکستر کو برطرف کر کے بھڑکنے لگتی ہے اور رفتہ رفتہ یہ کیفیت ہوتی ہے کہ:
پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے
اور میری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے
واپسی میں اقبال کا جہاز ابھی سمندر میں ہی تھا کہ جزیرۂ سسلی دکھائی دیتا ہے جہاں مسلمانوں نے ایک عرصے تک نہ صرف حکومت کی بلکہ علم و فنون اور تہذیب و تمدن کے ایسے اچھے نمونے پیش کیے جس سے بعد میں تہذیب فرنگ نے اپنے چراغ جلائے۔ وہ عظمت رفتہ اقبال کی چشم تصور کے سامنے آ کر درد انگیز ہو گئی اور شاعر بے اختیار اشک افشاں ہو کر اس کا مرثیہ خواں ہو گیا اس کے تخیل نے تصویر کہن میں رنگ بھر دیے:
رنگ تصویر کہن میں بھر کے دکھلا دے مجھے
قصہ ایام سلف کا کہہ کے تڑپا دے مجھے


میں ترا تحفہ سوے ہندوستان لے جاؤنگا
خود یہاں روتا ہوں اوروں کو وہاں رلواؤنگا
وہ اس ملت کی مرثیہ خوانی اس لیے نہیں کر رہا کہ کسی زمانے میں اس کی عظیم الشان سلطنت تھی جو انقلاب روزگار سے جاتی رہی، وہ اس ملت کے زوال پر اس لیے افسوس کرتا ہے کہ وہ ایک شاندار نصب العین کی حامل تھی:
اک جہان تازہ کا پیغام تھا جن کا ظہور
کھا گئی عصر کہن کو جن کی تیغ ناصبور


مردہ عالم زندہ جن کی شورش قم سے ہوا
آدمی آزاد زنجیر توہم سے ہوا


غلغلوں سے جس کے لذت گیر اب تک گوش ہے
کیا وہ تکبیر اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے
یورپ سے واپسی کے بعد اقبال کی غالباً سب سے پہلی نظم بلاد اسلامیہ ہے، جو مخزن میں چھپی تھی۔ یہ نظم اس انقلاب کا پتہ دیتی ہے کہ اقبال نے اب اس وطنیت کے دائرے سے باہر قدم رکھا ہے جس کے متعلق وہ پہلے جذبات انگیز شاعری کر چکا تھا۔ اب تمام عالم اسلامی اس کا وطن بن گیا ہے، اسی جذبے نے تھوڑی عرصے کے بعد اس سے ترانہ ہندی کی زمین میں ترانہ ملی لکھوایا:
چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا
مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
بلاد اسلامیہ کی نظم اس ترانے کا پیش خیمہ تھی، اس نظم میں تاریخ اسلام کا ایک رومانی تصور ملتا ہے۔ دلی اور بغداد اور قرطبہ اور قسطنطنیہ مسلمانوں کے سیاسی اقتدار اور تہذیب و تمدن کے مراکز تھے۔ مسلمان کہلانے والی اقوام ان اقالیم میں غالب اور حکمران تھیں لیکن ان سلطنتوں کا انداز اور ان کے حکمرانوں کے اسلوب حکمرانی ہر حیثیت سے اسلامی نہ تھے۔ ان میں سے اکثر نے تو محض قیصر و کسریٰ کی جانشینی ہی کی ہے اور اسلامی زندگی کے کوئی اعلیٰ نمونے پیش نہیں کیے۔ بعد میں تو اقبال علی الاعلان یہ کہنے لگے کہ مسلمان حکمرانوں کی ملوکیت ہی نے اسلام کی صورت کو مسخ کیا ہے، لیکن بلاد اسلامیہ والی نظم میں ابھی تاریخ اسلامیہ کا روشن پہلو ہی ان کے سامنے ہے۔ سوا چند مستثنیٰ صورتوں کے ان سلطنتوں کے حکمرانوں کا طریقہ غیر اسلامی تھا لیکن ان تمام نقائص کے باوجود یہ بات تاریخی حیثیت سے غلط نہیں کہ اچھے ادوار میں اور ان مراکز میں جن کا ذکر اس نظم میں ہے، مسلمانوں نے تہذیب و تمدن کے ایسے نمونے پیش کیے جو دیگر اقوام کی معاصرانہ زندگی سے بہت زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ سب جگہ محکوم ملتوں کے ساتھ بے حد رواداری کا سلوک کیا گیا، اگرچہ سیاسی لحاظ سے آخر میں یہی رواداری مسلمانوں کے لیے تباہی کا باعث بنی۔ یہ درست ہے کہ مسلمان اپنے عروج و اقتدار کے زمانے میں ہندوستان اور شرقی اور غربی یورپ کے بہت سے حصے کو جبر سے مسلمان کر سکتے تھے اور اگر ایسا کیا ہوتا تو آج وہاں ایک غیر مسلم بھی نظر نہ آتا، لیکن ایسا جبر مسلمان کیسے کر سکتے تھے؟ اسلام میں اس کی قطعاً اجازت نہ تھی؟ اگر ایسا کیا ہوتا تو ان خطوں کی غیر مسلم ملتیں بعد میں قوت حاصل کر کے مسلمانوں کو تباہ نہ کر سکتیں اور آج وہاں کوئی فرد اسلام اور مسلمانوں کو برا کہنے والا نہ ملتا، مگر یہ حقیقت ہے کہ ایسے جبر سے مسلمانوں کو سیاسی فائدہ تو پہنچتا لیکن اسلام کا دعویٰ حریت ضمیر باطل ہو جاتا۔
بلاد اسلامیہ میں آخری بند مدینہ منورہ پر ہے، جس کے ساتھ مسلمانوں کا قلبی اور روحانی تعلق اس اندا زکا ہے جو کسی اور شہر کے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ یہ خواب گاہ مصطفی ؐ، ملت اسلامیہ کی عظمت کی ولادت گاہ تھی۔ اس کے متعلق اقبال کہتا ہے کہ قومیت اسلام پابند مقام نہیں، لیکن اگر کسی مقام کے ساتھ اس کو وابستگی ہو سکتی ہے تو مدینہ منورہ ہی ہے۔ عالم اسلامی کا نقطہ جاذب اور مرکز یہی مقام ہے، جو اقوام اسلامیہ کا شیرازہ بند ہے:
ہے اگر قومیت اسلام پابند مقام
ہند ہی بنیاد ہے اس کی، نہ فارس ہے، نہ شام
آہ! یثرب دیس ہے مسلم کا تو ماویٰ ہے تو
نقطہ جاذب تاثر کی شعاعوں کا ہے تو
صبح ہے تو اس چمن میں گوہر شبنم بھی ہیں
مسلمانوں کا سب سے زیادہ شاندار اور علوم و فنون کے لحاظ سے قابل فخر تمدن اندلس میں تھا۔ فرنگ نے اس تہذیب و تمدن سے بہت کچھ حاصل کیا اور مغرب کے بعض جدید مورخین نے فراخ دلی سے اس احسان کا اقرار بھی کیا ہے۔ اس لیے قرطبہ کی یاد مسلمانوں کے قلوب میں بہت رنج و الم پیدا کرتی ہے۔ حالی نے بھی مسدس میں قرطبہ ہی کے متعلق حسرت و حرمان سے یہ اشعار لکھے ہیں:
کوئی قرطبہ کے کھنڈر جا کے دیکھے
مساجد کے محراب و در جا کے دیکھے


حجازی امیروں کے گھر جا کے دیکھے
خلافت کو زیر و زبر جا کے دیکھے


جلال ان کا کھنڈروں میں ہے یوں چمکتا
کہ ہو خاک میں جیسے کندن دمکتا
حالی کے بعد قرطبہ کی یاد میں اقبال ایک المناک تاریخی حقیقت کو بیان کرت اہے:
ہے زمین قرطبہ بھی دیدۂ مسلم کا نور
ظلمت مغرب میں جو روشن تھی مثل شمع طور


بجھ کے بزم ملت بیضا پریشاں کر گئی
اور دیا تہذیب حاضر کا فروزاں کر گئی


قبر اس تہذیب کی یہ سر زمین پاک ہے
جس سے تاک گلشن یورپ کی رگ نمناک ہے
یورپ سے واپسی کے کچھ عرصے بعد اقبال حیدر آباد دکن غالباً اکبر حیدری کی دعوت پر گئے اور انہیں کے ہاں مہمان بھی رہے۔ حیدر آباد میں سب سے زیادہ حسرت ناک اور عبرت انگیز مقام گورستان شاہی ہے جہاں قطب شاہیوں کے مقابر کے عظیم الشان گنبد ہیں۔ مسلمان بادشاہوں کے اتنے عظیم و رفیع مقبرے شاید دنیائے اسلام میں کہیں اور یکجا نہیں ملتے، ان کو دیکھ کر دنیازی جاہ و جلال کا انجام اور زندگی کی بے ثباتی طبیعت میں ایک گہرا تاثر پیدا کرتی ہے۔ اقبال نے اس تاثر سے جو نظم لکھی ہے وہ اس کی بہترین نظموں میں سے ہے۔ اس کے پہلے بند میں لطیف تاثر کی ایسی مصوری ملتی ہے جو اقبال جیسے قادر الکلام شاعر ہی کا کمال ہے۔ اس میں خارجی فطرت اور شاعر کا باطنی تاثر ایک دوسرے کا آئینہ بن گئے ہیں، فطرت کی نواے خاموش شاعر کے ساز فطرت سے ہم آہنگ ہو گئی ہے:
آسماں بادل کا پہنے خرقہ دیرینہ ہے
کچھ مکدر سا جبین ماہ کا آئینہ ہے


چاندنی پھیکی ہے اس نظارۂ خاموش میں
صبح صادق سو رہی ہے رات کی آغوش میں


کس قدر اشجار کی حیرت فزا ہے خامشی
بربط قدرت کی اک دھیمی نوا ہے خامشی


باطن ہر ذرہ عالم سراپا درد ہے
اور خاموشی لب ہستی پہ آہ سرد ہے
اس بے مثل نظم میں محض صنعت اور فن کے لحاظ سے بھی اقبال کی شاعری کا کمال جھلکتا ہے، پہلے کئی بند زندگی کی بے ثباتی اور موت کی ہمہ گیری پر مشتمل ہیں۔ اقبال کہتا ہے کہ قانون انقلاب اور آئین فنا سے نہ شاہوں کو گریز حاصل ہے اور نہ گداؤں کو:
موت ہر شاہ و گدا کے خواب کی تعبیر ہے
اس ستم گر کا ستم انصاف کی تصویر ہے
اس تمام مرثیے کی تہ میں دراصل غم ملت ہے جو آخری بندوں میں نمایاں ہونے لگتا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ جس طرح موت کی یورش افراد پر ہے اسی طرح اقوام بھی اس کی دستبرد سے نہیں بچ سکتیں۔ ’’ ولکل امتہ اجل‘‘ :
زندگی اقوام کی بھی ہے یونہی بے اعتبار
رنگ ہاے رفتہ کی تصویر ہے ان کی بہار


اس زیاں خانے میں کوئی ملت گردوں وقار
رہ نہیں سکتی ابد تک بار دوش روزگار


اس قدر قوموں کی بربادی سے ہے خوگر جہاں
دیکھتا بے اعتنائی سے ہے یہ منظر جہاں
اس کے بعد اقبال سوچتا ہے کہ مصر، بابل اور یونان و روما کی طرح عظمت مسلم بھی ایام نے لوٹ لی ہے، عالم گیر آئین فنا سے یہ کیسے بچ سکتے تھے۔ اس نظم کے بیشتر حصے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال زندگی کی بے ثباتی اور موت کی ہمہ گیری سے مغلوب ہو کر ایک انفعالی کیفیت میں ڈوب گیا ہے، لیکن اقبال کی فطرت کا ناقابل شکست تقاضا تو وہ ہے جسے غالب نے اس شعر میں ادا کیا ہے:
ہنگامہ زبونی ہمت ہے انفعال
حاصل نہ کیجئے دیر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو
شروع کے آٹھ نو بندوں میں ایسی حسرت برستی ہے اور ایسی عبرت پیدا ہوتی ہے کہ انسان کا دل زندگی اور اس کے ناپائدار دھوکوں سے سرد ہو جاتا ہے، لیکن یہ کیفیت کبھی اقبال پر طاری بھی ہوتی ہے تو جلد رفع ہو جاتی ہے اور جب تک وہ غم زندگی کو اپنی کیمیائے نظر سے امید اور لطف حیات میں تبدیل نہیں کر لیتا وہ بات کو ختم نہیں کرتا۔ اس کی بعض شاندار نظموں میں آپ یہی دیکھیں گے کہ وہ غم و رنج کی گہرائیوں میں غوطہ لگا کر نہ صرف سطح حیات پر ابھرتا ہے بلکہ اس سے اوپر لامتناہی فضا میں پرواز کرنے لگتا ہے۔ وہ یاس کا مبلغ نہیں، وہ غم کا مصور نہیں، وہ امید کا پیغمبر اور زندگی کا پرستا رہے۔ موت اور فنا کو وہ آنی جانی کیفیتیں سمجھتا ہے۔ چنانچہ اس نظم میں فنا اور موت کی مصوری کر چکنے کے بعد وہ آخر میں زندگی کا نقشہ کھینچتا ہے اور اس نتیجے پر تان توڑتا ہے کہ موت سے بھی ہر جگہ زندگی ابھرتی دکھائی دیتی ہے۔ موت کوئی مستقل چیز نہیں، وہ زندگی ہی کا ایک مظہر اور اس کے ظہور تازہ بتازہ اور نو بنو کا ذریعہ ہے:
زندگی سے یہ پرانا خاکداں معمور ہے
موت میں بھی زندگانی کی تڑپ مستور ہے


پتیاں شاخوں سے گرتی ہیں خزاں میں اس طرح
دست طفل خفتہ سے رنگیں کھلونے جس طرح
اس نظم کا داخلی ارتقاء اقبال کی فطرت اور اس کے نظریہ حیات کا آئینہ دار ہے۔ نظم کا موضوع اور محرک گورستاں ہے جس سے زیادہ غم و اندوہ کا محل اور خوں گشتہ آرزو کا مدفن اور کوئی مقام نہیں ہو سکتا۔ ابتدائی تاثر وہی ہے جو کسی انسان کے بھی حساس دل میں پیدا ہو سکتا ہے، گو ایک لطیف طبع والے شاعر کی طبیعت میں حسرت و عبرت اور انجام حیات روح کی گہرائیوں کو خاص طور پر متاثر کرتے ہیں اس فوری اور ابتدائی تاثر سے شاعر یہ محسوس کرتا ہے کہ:
باطن ہر ذرۂ عالم سراپا درد ہے
اور خاموشی لب ہستی پہ آہ سرد ہے
یہ تاثر اتنا شدید ہے کہ افراد و اقوام تمام کی زندگی کو ایک المیہ بنا دیتا ہے، لیکن کوئی حقیقت شناس شاعر اور مفکر تمام زندگی کو فنا انجام سمجھ کر یاس کو ہمیشہ اپنی روح پر قابض نہیں ہونے دیتا، کیوں کہ زندگی میں جہاں رات آتی ہے وہاں اس کے بعد لازماً سحر بھی نمودار ہوتی ہے، فنا کے ساتھ ساتھ حیات نباتی و حیوانی کی بقا کوشی بھی ہے اور اکثر چیزیں جو بادی النظر میں شر معلوم ہوتی ہیں وہ مزید تجربے سے اعلیٰ درجے کی بھلائیوں کا مصدر و منبع بنتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ زندگی میں سب کچھ ہے، یاس بھی ہے اور امید بھی، رنج بھی ہے اور مسرت بھی، درد بھی ہے اور دوا بھی۔ اب یہ انسانی فطرتوں کا اختلاف ہے کہ بعض طبائع بہار کو دیکھ کر بھی مسرور ہونے کے بجائے یہ خیال اپنے اوپر طاری کر لیتی ہیں کہ یہ بہار چند روزہ ہے اور یہ سب پھول تھوڑے عرصے میں مرجھا جانے والے ہیں۔ خزاں میں نہ خندہ گل ہو گا اور نہ نغمہ بلبل، اس کے برعکس ایک رجائی زاویہ نگاہ ہے جو غالب جیسے مصیبت زدہ شاعر میں غم و اندوہ کے باوجود برقرار رہتا ہے:
نہیں بہار کو فرصت نہ ہو بہار تو ہے
طرات چمن و خوبی ہوا کہیے
فارسی میں بھی غالب کا ایک نہایت حکیمانہ شعر اس کے رجائی نقطہ نظر کو واضح کرتا ہے۔ جہاں زندگی ہے، خواہ وہ نباتی ہو یا حیوانی، وہاں اس کے ساتھ روزگار کے آئین کے مطابق کبھی کبھی جادۂ صحت و توازن سے ہٹ کر مرض کا ظہور بھی ہوتا ہے۔ دنیا میں رنج و درد کے مظاہر کو دیکھ کر بعض لوگ خدائے حکیم و رحیم کی ہستی ہی کے منکر ہو جاتے ہیں۔ غالب کہتا ہے کہ حکیم مطلق کی رحمت کا اس سے اندازہ کرو کہ بیماریوں کے تمام علاج جماد و نبات میں ملتے ہیں او رانہیں کے عناصر سے دوائیں بنتی ہیں، لیکن مخلوقات کی تدریجی تکوین میں جماد و نبات پہلے نمودار ہوئے ہیں اور حیوانات، جو امراض کا شکار ہو سکتے ہیں، بعد میں پیدا ہوئے ہیں۔ رنج و مرض کے وجود سے پہلے فطرت نے علاج کے سامان مہیا کر رکھے تھے:
چارہ در سنگ و گیاہ و رنج با جاندار بود
پیش ازیں کیں در رسد آن را مہیا ساختی
اقبال کا فلسفہ حیات بھی شدت کے ساتھ رجائی ہے۔ وہ دنیا والوں کے لیے امید کا پیغام رساں ہے جیسا کہ ہر اولو العزم نبی بھی ’’ لا تقنطوا من رحمتہ اللہ‘‘ ہی کی بشارت انسانوں تک پہنچانے کے لیے آتا ہے۔ اس نظم میں یاس انگیزی جب ایک خاص حد تک پہنچ جاتی ہے تو اقبال یک بیک چونک اٹھتا ہے کہ ہیں یہ میں نے اپنے اوپر کیا غلط جذبہ طاری کر لیا ہے۔ فنا تو زندگی کی ماہیت نہیں ہو سکتی، قدیم اقوام کے زوال پر نظر ڈالتے ہوئے ملت مسلمہ کی طرف آتا ہے تو یہ شعر لکھنے کے بعد کہ:۔
آہ! مسلم بھی زمانے سے یونہی رخصت ہوا
آسماں سے ابر آزادی اٹھا برسا گیا
یک دم فطر ت کی حیات انگیزی کی طرف مڑ کر دیکھتا ہے تو کہیں فناے محض نظر نہیں آتی، رگ گل میں شبنم کے موتی پروئے ہوئے ہیں، سینہ دریا شعاعوں کا گہوارہ ہے، پرندوں کی رنگیں نوائی پھولوں کی رنگینی کا جواب ہے، ہر جگہ عشق سے حسن اور حسن سے عشق پیدا ہو رہا ہے، موت میں بھی زندگی کی تڑپ محسوس ہو رہی ہے۔ تمام فطرت نشاط آباد دکھائی دیتی ہے، لیکن پھر ہوک سینے میں اٹھتی ہے کہ فطرت کی نشاط انگیزی اس غم کا علاج تو نہیں ہو سکتی جو زوال ملت سے طبیعت کو غم کدہ بنا رہا ہے:
اس نشاط آباد میں گو عیش بے اندازہ ہے
ایک غم یعنی غم ملت ہمیشہ تازہ ہے
دو چار اشعار میں پھر یہ غم نشاط فطرت پر غالب آ جاتا ہے، لیکن آخری مرحلے میں یاس و حسرت امید کو جنم دیتے ہیں:
دہر کو دیتے ہیں موتی دیدۂ گریاں کے ہم
آخری بادل ہیں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہم


ہیں ابھی صدہا گہر اس ابر کی آغوش میں
برق ابھی باقی ہے اس کے سینہ خاموش میں


وادی گل خاک صحرا کو بنا سکتا ہے یہ
خواب سے امید دہقان کو جگا سکتا ہے یہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
اسلامی تاریخ میں فتوحات ملکی کا دور گزر گای ہے، جاہ و جلال والی سلطنتیں شاید دوبارہ قائم نہ ہو سکیں، لیکن زندگی میں جلال کے علاوہ جمال بھی ہے اور ممکن ہے کہ جلال فی نفسہ مقصود نہ ہو بلکہ جمال آفرینی کے لیے محض ایک شرط مقدم ہو، اخلاقی اور روحانی، علمی اور فنی مقاصد کا حصول عظیم سلطنتوں کے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔ سلاطین کا دور دورہ ختم ہو گیا، کیا ضروری ہے کہ اس کے ساتھ باطنی کمالات کا ظہور بھی ختم ہو جائے۔ اسلامی زندگی کے مقاصد لامتناہی ہیں اور چونکہ اسلام ابدی حقائق کی تحقیق کا نام ہے اس لیے یہ دین کبھی فرسودہ نہیں ہو سکتا اور ملت اسلامیہ جو اس کی علم بردار ہے اس کے لیے ماضی کی عظمت رفتہ اور حال کی تباہ حالی کے بعد ایک درخشاں مستقبل بھی ہے، نا امیدی کفر ہے:
ہو چکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور
ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور
اس آخری شعر میں اس خیال کا اظہار ہے کہ قوت، اقتدار اور حکمرانی کی شان و شوکت اور دبدبہ شاید اب واپس نہیں آ سکتا، لیکن بعد میں اسرار خودی کو پیش کرنے والا اقبال پھر جلال کی طرف واپس آئے گا:
لاکھ حکیم سربجیب ایک کلیم سر بکف
اور یہ تلقین شروع کرے گا کہ خالی باطن کی تنویر بھی بغیر شمشیر کوئی اہم نتیجہ پیدا نہیں کر سکتی، مادی قوت اور زبردست خود مختار حکومت کا ہونا بھی لازمی ہے۔ ملوکیت تو واپس نہیں آ سکتی اور نہ ارتقائے حیات اجتماعی میں اس کا دوبارہ آنا مفید ہے، لیکن سیاسی اور معاشی قوت اور علوم و فنون سے پیدا کردہ تسخیر فطرت کا ملکہ روحانیت اور استحکام خودی کے لیے لازمی ہیں۔ نوع انسان کے آئندہ ارتقاء میں جلال و جمال کا ایک دل کش مرکب تیار ہونا چاہیے۔ اسلام اسی نظریہ حیات کو پیش کرنے والا دین تھا، اس لیے اس نظریہ حیات کے مطابق حیات ملی کو ڈھالنا ملت اسلامیہ ہی کا حق اور اسی کا فرض اولین ہے۔
۱۹۰۸ء سے لے کر عالم جاودانی کو سدھارنے تک اقبال کی شاعری میں کم از کم تین چوتھائی حصہ اسلامی اور ملی شاعری کا ہے، اس میں بے شمار فلسفیانہ افکار اور حکیمانہ جواہر ریزے بھی ملتے ہیں لیکن سب کا محور تعلیمات اسلامی اور جذبہ احیائے ملت ہے۔ جو لوگ اقبال کو محض شاعر جانتے تھے اور اس کے سخن کی لطافتوں، نادر ترکیبوں اور دل آویزیوں کے شیدائی تھے ان کو اقبال کی شاعری کا یہ انقلاب ایک رجعت قہقری محسوس ہوا اور بعض نقادوں نے کہنا شروع کیا کہ اقبال پہلے اچھا تھا، حسن و عشق اور مناظر فطرت پر نظمیں لکھتا تھا، صبح و شام کے مناظر کو دل کش انداز میں پیش کرتا تھا اور اگر انسانوں کے متعلق کوئی بات کہتا تھا تو اس کی مخاطب تمام نوع انسان ہوتی تھی، اب وہ محدود و محصور ہو کر فقط مسلمانوں کا شاعر رہ گیا ہے، اب وہ مبلغ ہو گیا ہے، واعظ ہو گیا ہے، اسلام اور مسلمانوں کا پروپیگنڈا کرتا ہے، اس کے غیر مسلم قدر دانوں نے مایوس ہو کر اس سے شکایت کرنی شروع کی کہ اب ہم لوگ آپ کے مخاطب نہیں رہے، وطن پرستوں نے کہا ہم تو اقبال کی پرستش اس لیے کرتے تھے کہ وطن پرست تھا، خاک وطن کا ہر ذرہ اس کو دیوتا دکھائی دیتا تھا، وہ مذاہب کی باہمی پیکار و پرخاش کو مٹانا چاہتا تھا،ا ٓوارہ اذان کو ناقوس میں چھپانے اور تسبیح کے دانوں کو رشتہ زنار میں پرونے کا آرزو مند تھا، لیکن اب وہ اسلام کے سوا کسی دین کو سچا نہیں سمجھتا، اب یہ پروانہ فقط چراغ حرم کا طواف کرتا ہے اورچراغ دیر کو قابل اعتنا نہیں سمجھتا، بھلا مصلحانہ شاعری بھی کوئی شاعری ہوتی ہے؟ فن لطیف کا کام براہ راست وعظ کرنا تو نہیں۔ تبلیغ سے تو فن لطیف آلودہ اور کثیف ہو جاتا ہے۔ مسلمانوں میں بھی فن برائے فن کے دلدادہ کہنے لگے کہ کیا افسوس ہے کہ اقبال جیسے صاحب کمال کو زوال آ گیا ہے۔ ایک مرتبہ لاہور کی ایک نمائش میں جوش ملیح آبادی اور ساغر مجھ سے کہنے لگے کہ بھائی اقبال سے تمہارے دیرینہ تعلقات ہیں اور تم خود ذوق سخن بھی رکھتے ہو، ذرا یہ بتاؤ اقبال اب جو شاعری کرتا ہے یہ کوئی شاعری ہے؟ ذرا اس کو کہو کہ وہ اس روش کو چھوڑ دے اور اپنے کمال کو اس بیہودہ کوشش میں ضائع نہ کرے۔ میں ان کو کیا جواب دیتا، مسکرا کر خاموش ہو گیا، اس بارے میں بحث بالکل بے نتیجہ ہوتی۔ ساغر صاحب فن برائے فن والے شاعر تھے اور اقبال کے نزدیک یہ انحطاط اور بے روحی کی علامت تھی۔ ہوش صاحب کا مضمون خاص رندی اور خمریات تھا جس میں ان کی صناعی اکثر نوجوانوں سے تحسین حاصل کرتی تھی، لوگ انہیں شاعر انقلاب کہنے لگے تھے اس لیے کہ وہ انگریزوں کی حکومت کے علاوہ خدا اور رسول کی حکومت سے بغاوت کا اظہار کرتے تھے اور الحاد کو خوش گوار بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ ایسے لوگوں کے لیے اقبال یا تو ناقابل فہم تھا یا جو کچھ وہ کہتا تھا اس کو سمجھنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ یہ باتیں بے کار ہیں۔ اسلام کسی زمانے میں کچھ کام آیا ہو گا اب:
این دفتر بے معنی غرق مے ناب اولیٰ
ملت اسلامیہ کے احیا کا خواب اب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا:
آن قدح بشکست و آن ساقی نماند
اب یا وطنیت کے راگ گانے چاہئیں یا روسی اشتراکیت کے، جو الحاد کی بنیاد پر ایک نئی عالمگیر برادری پیدا کر رہی ہے، ان کے نزدیک اب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ مذہب غلامانہ اخلاق کی تلقین کرتا ہے اور دیر و حرم میں یہ افیون لوگوں کو اس لیے دی جاتی ہے کہ وہ ہر قسم کے استبداد کو مشیت ایزدی سمجھ کر برضا و رغبت قبول کر لیں۔ مسلمان پہلے استبداد کے افیون خوردہ تھے، اب حضرت اقبال بھی ان کو یہی افیون اپنی شاعری میں گھول کر پیش کر رہے ہیں۔ یہ کہا گیا کہ اقبال مسلمانوں کے خون کو گرما کر ان کو دوسری ملتوں سے برسر پیکار کرنے میں کوشاں ہے۔ ان اعتراضات کا تفصیلی جواب اقبال کی تعلیمات کو پیش کرتے ہوئے دیا جائے گا، یہاں اس وقت فقط یہ بتانا مقصود ہے کہ اقبال نے جب شاعری کا رخ بدلا تو بعض طبائع پر اس کا کیا رد عمل ہوا۔
اسرار خودی کے شائع ہونے کے بعد بعض لوگوں میں ایک دوسری قسم کی مایوسی پیدا ہوئی ان میں کچھ ایسے تھے جو اقبال سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ اپنی ثروت افکار اور پرواز تخیل سے اردو زبان کو سرمایہ افتخار بنائے گا۔ غالب کے متعلق خود اقبال کہہ چکا تھا:
گیسوے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دلسوزی پروانہ ہے
اور اقبال کی قادر الکلامی نے یہ توقع پیدا کر دی تھی کہ اردو شاعری کو اقبال مہی باثروت بنانے کا اب لوگوں کو یہ خدشہ پیدا ہوا کہ اقبال نے شاید اردو کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ اسرار خودی، بانگ درا کے اردو مجموعے سے بہت پہلے شائع ہوئی۔ اشاعت کے لحاظ سے اقبال ابھی پوری طرح اردو دانوں کے سامنے نہیں آیا تھا کہ وہ ایک فارسی شاعر کی حیثیت سے نمودار ہو گیا۔ اسرار خودی کو دیکھ کر ایک دوسری شکایت یہ پیدا ہوئی کہ اس میں زیادہ تر درس فلسفہ ہی ہے۔ وہ اقبال اس میں نہیں ہے جو درس فلسفہ کے ساتھ ساتھ عشق و رزی بھی کرتا تھا:
کہ درس فلسفہ می داد و عاشقی ورزید
اس کتاب میں ما بعد الطبیعیات کو نظم کر دیا ہے، جس میں ماہیت وجود اور زمان و مکان کی ناقبال فہم بحثیں ہیں یا خودی کی تلقین ہے۔ یہ بات بھی کچھ انوکھی معلوم ہوئی کیوں کہ اس سے قبل تمام اردو اور فارسی شاعری میں بے خودی کو سراہا گیا تھا اور بعض متصوفین نے خودی ہی کو سب سے بڑا گناہ کبیرہ قرار دیا تھا۔ صوفیہ کا یہ مقولہ عام ہو گیا تھا کہ (وجودک ذنب) تیرا وجود اور انفرادی ہستی کا احساس ہی سب سے بڑا فریب ہے اور اسی ’’ ہم‘‘ یا’’ میں‘‘ کو فنا کرنا ہی روحانیت کی معراج ہے:
گو لاکھ سبک دست ہوئے بت شکنی میں
ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہے سنگ گراں اور
اور اس سے پہلے روایتی تصوف کے زیر اثر اقبال خود بھی کہہ چکا تھا:
میری ہستی ہی تھی خود میری نظر کا پردہ
اٹھ گیا بزم سے میں پردۂ محفل ہو کر
زیر اثر اقبال خود بھی کہہ چکا تھا:
میری ہستی ہی تھی خود میری نظر کا پردہ
اٹھ گیا بزم سے میں پردۂ محفل ہو کر
غرضیکہ اقبال نے جب اپنی شاعری اور اس کے مضامین کا رخ بدلا تو اس سے دو قسم کے نتائج پیدا ہوئے۔ جن لوگوں میں دینی اور ملی جذبہ تھا وہ تو بہت مسرور ہوئے کہ ایک باکمال شاعر نے محض تفنن طبع کو چھوڑ کراپنی شاعری کو شعور ملی کا ترجمان بنایا ہے، جس نے قوم میں ایک نئی روح پھونکنی شروع کی ہے۔ اقبال نے اب مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات اور ان کی صداقت و عظمت سے آگاہ کر کے ان کے احساس کمتری کو مٹانے اور ان کے احساس خودی کو ابھارنے کی کوشش کی۔ شرق و غرب جہاں جہاں سے حیات آفرینا فکار ملے ان کی پر زور تلقین کی۔ شاعری کو محض چٹخارا سمجھنے والوں کو چھوڑ کر اقبال اب خاص و عام کے لیے ترجمان حقیقت بن گیا۔
مسلمانوں کی شاعری صدیوں کے انحطاط سے ہر قسم کے حقائق سے دور ہو گئی تھی اور غیر شعوری طور پر یہ ایک مسلمہ قائم ہو گیا تھا کہ شاعری کے لیے حقیقت کی ضرورت نہیں، زندگی کی حقیقتیں یا تو پھیکی ہوتی ہیں یا تلخ، شیرینی اور لطف تو حقیقت سے گریز ہی میں پیدا ہوتا ہے۔ قصائد تھے تو سب جھوٹ کا طومار اور عشقیہ شاعری تھی تو فرضی معاملات اور بیان میں دور ازکار صناعی، حالی نے جب سچی شاعری کے لیے حقیقت کو لازمی عنصر قرار دیا اور اسی معیار کے مطابق اپنی شاعری کا رنگ بدلا تو اس کی نئی شاعری قدیم ڈگر پر چلنے والے پیشہ ور شعراء کو بالکل پھیکی معلوم ہوئی، لیکن حالی کو فطرت نے شاعر بنایا تھا اس لیے سادگی اور حقیقت پر استقلال سے قائم رہنے کے بعد اس نے بھی عام و خاص سے اپنا لوہا منوا لیا۔ وہی مسدس جس کو حالی کے معاصر شعراء نے محض اس قابل سمجھا کہ اس پر پھبتیاں کسی جائیں، اسی مسدس سے سید احمد خاں کی روح اس قدر متاثر ہوئی کہ انہوں نے فرمایا کہ اگر آخرت میں خدا نے مجھ سے پوچھا کہ اعمال میں تو کیا چیز اپنی نجات کے لیے لایا ہے تو میں عرض کروں گا کہ میں نے حالی سے مسدس لکھوایا۔ حالی نے اپنی وفات سے قبل ہی تمام جھوٹے شاعروں اور کم نظر نقادوں پر فتح پا لی تھی۔ یہی معاملہ اقبال کے ساتھ بھی پیش آیا، پہلے اس کی اردو شاعری پر مدعیان زباندانی نے اعتراض کرنے شروع کیے اور اس کی شاعری کی جدت اور کمال ان کی نظر سے اوجھل رہا، لیکن کچھ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ اقبال کی آواز چاروں طرف گونجنے لگی اور معترضین کی آواز صدا بہ صحرا ہو گی۔
اس بات پر اچھی طرح غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا اسلام اور فلسفے اور تبلیغ اور وعظ نے اقبال کی شاعری کو نقصان پہنچایا اور کیا یہ صحیح ہے کہ اس نے اپنے شاعرانہ کمال کو اپنے عقائد اور نظریات حیات پر قربان کر دیا؟ ہمارے نزدیک اس کا جواب نفی میں ہے۔ اقبال کو فطرت نے ایسا قادر الکلام باکمال شاعر بنایا تھا کہ وہ موضوع کچھ بھی منتخب کرے اور شعر خواہ آمد سے کہے اور خواہ آورد سے وہ کبھی حسن کلام سے معرا نہیں ہوتا۔ اردو اور شاعری کی عام روایات کو مدنظر رکھ کر عام ادیبوں اور شاعروں اور نقادوں نے یہ فرض کر لیا تھا کہ شاعری کے لیے کچھ مضامین اور موضوع مقرر ہیں اور ان کو ادا کرنے کے لیے خاص اسالیب بیان اور خاص قسم کی زبان بھی لازم ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ شاعری کے لیے نہ کوئی موضوع مقرر اور مفید ہیں اور نہ ہی اسالیب بیان کا احصا ممکن ہے۔ زندگی اور کائنات کی ہر چیز، ہر حادثہ اور ہر واقعہ شعر کا موضوع بن سکتا ہے اور اگر شاعر فطری شاعر ہے اور مبدء فیاض سے جوہر سخنوری اس کو ودیعت ہوا ہے تو وہ جو کچھ بھی کہے گا اس کا انداز دل نشین اور اثر آفرین ہو گا۔ ایک زمانہ تھا کہ غزل کا کوئی مستقل وجود نہ تھا، پھر غزل قصائد کی تشبیب کے طور پر نمودار ہوئی، اس کے بعد غزل فقط اظہار تعشق یا رندی کے مضامین کے لیے مخصوص ہو گئی، عطار اور سنائی، سعدی اور رومی کے ہاں غزل میں تصوف کے مضامین داخل ہو گئے اور تصوف کی راہ سے فلسفہ بھی آ گیا، عشق مجازی کے ساتھ عشق الٰہی کی آمیزش نے غزل کو نقصان پہنچانے کی بجائے اس کو اور موثر اور دلآویز بنا دیا۔ حافظ کی غزلوں میں یہی آمیزش یا یوں کہیے مجاز و حقیقت کا التباس و اشتباہ سحر آفرین ہو گیا ہے، جو چاہے اپنے مذاق کے موافق مجازی معنی قرار دے کر لطف اٹھائے اور جو چاہے صہبا و ساغر و مینا کو روحانیت کے استعارے سمجھ لے:
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
(غالب)
حق را ز دل خالی از اندیشہ طلب کن
از شیشہ بے مے مے بے شیشہ طلب کن
(صائب)
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ شاعری میں تبلیغ نہیں ہونی چاہیے وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ رندی و ہوس کی ستائش بھی تو تبلیغ و ترغیب و تحریص ہی ہے۔ اردو اور فارسی کی تمام شاعری اس سے بھری پڑی ہے۔د راصل شعر میں تبلیغ کے مخالف یہ چاہتے ہیں کہ رندی و ہوس ناکی کی تبلیغ ہو، اس کے برعکس اگر روحانیت اور اخلاق حسنہ کی تبلیغ ہو تو وہ شاعری نہیں رہتی۔
اقبال کی شاعری سے صدیوں پہلے تصوف اور فلسفہ شاعری کا ایک جزو بن چکا تھا۔ کلام اقبال میں صرف یہ جدت اور وسعت ہے کہ جو فلسفہ یا تصوف حکمت پسند اور روحانیت پسند شعراء میں ملتا ہے اس کے بہترین عناصر بھی کلام اقبال میں موجود ہیں، مگر حکمت کی ایسی باتیں اس میں اضافہ ہو گئی ہیں جو متقدمین میں ملتی ہیں نہ متاخرین میں اور نہ اقبال کے معاصرین میں۔ خاقانی اپنے قصائد میں فلکیات اور ریاضی اور دیگر علوم و فنون کی اصطلاحیں داخل کر کے ان سے اپنے غیر حقیقی تخیلات اور افکار کو استوار کرتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی شاعری کو استناد کا درجہ حاصل ہے اور بعد میں آنے والے شاعر، خواہ قا آنی کی طرح اس کے مقابلے میں زبان و بیان پر زیادہ قدرت رکھنے والے ہوں، اس کا لوہا مانتے ہیں:
شاہا بہ قا آنی نگر خاقانی ثانی نگر
لیکن اقبال اگر فلسفہ قدیم کے علاوہ فلسفہ جدید کی بعض اصطلاحیں اور نظریات اپنے کلام میں داخل کرے تو اس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ شاعری کے درجے سے گر گیا ہے۔
اسی طرح یہ اعتراض بھی لغو ہے کہ اقبال نے اپنی شاعری کے بیشتر حصے کو احیاے ملت کے لیے کیوں وقف کر دیا؟ کیا شاعری واقعی اس سے خراب ہو جاتی ہے؟ عربی اور فارسی شاعری کا موازنہ اور مقابلہ کرتے ہوئے مولانا شبلی اور دیگر نقادوں نے اس کو تسلیم کیا ہے کہ عجم کے تخیلات سے متاثر ہونے کے قبل سر زمین عرب کے اندر شاعری حقیقت نگاری تھی اور عرب شاعر اپنے کلام میں دروغ سے فروغ نہیں پیدا کرتا تھا، وہ حقیقت کو سادگی کے ساتھ اس انداز میں پیش کرتا تھا کہ وہ سننے والے کے دل کے اندر اتر جاتی تھی۔ ہر شاعر اپنے شخصی عشق یا ذاتی تاثرات مسرت و الم کے علاوہ اپنے قبیلے کے نفس کا ترجمان ہوتا تھا۔ وہ اپنے قبیلے کے کارناموں کو دہراتا تھا، ہمت و ایثار کی مثالیں اسی قبیلے کے گزرے ہوئے افراد سے لیتا تھا اور دشمنوں کے مقابلے میں اپنے قبیلے والوں کے دل مضبوط کرتا تھا۔ انہیں صفات کی وجہ سے قدیم عربی شاعری اب تک حقیقت شناسوں سے داد حاصل کرتی ہے۔ وہ عربی شاعری قبیلوی عصبیت کی شاعری تھی، اس کے مقابلے میں اس اقبال کی ملت پرستی کی شاعری غیر معمولی وسعت رکھتی ہے جس میں جذبات عالیہ کی فراوانی ہے اور جذبات اسفل کا فقدان ہے۔ اقبال اپنی ملت کے متعلق بہت کچھ وہی انداز اختیار کرتا ہے جو کسی عرب قبیلے کا اعلیٰ درجے کا شاعر اختیار کرتا تھا۔ اقبال بھی اپنی ملت کے اچھے کارناموں کو دہراتا ہے لیکن اس کی نظر میں وسعت اور اس کے قلب میں زیادہ صداقت پیدا ہو گئی ہے جو تنگ نظر عصبیت پر غالب آ گئی ہے۔ وہ صرف قوم کا قصیدہ نہیں پڑھتا بلکہ اس کے عیوب بھی اس طرح بیان کرتا ہے کہ اس قوم کا دشمن بھی اس سے زیادہ تلخ گوئی سے کام نہیں لے سکتا۔ اس کا مقصد اپنی قوم میں بلند نظری اور مقاصد حیات کی بلندی پیدا کرنا ہے جو نہ صرف اس مخصوص ملت بلکہ تمام نوع انسان کے لیے باعث خیر ہو۔
شاعری کے متعلق یہ ایک لغو نظریہ ہے کہ شاعر نہ کسی خاص عقیدۂ زندگی کا مبلغ ہو اور نہ کسی خاص ملت کی وابستگی سے شعر کہے، اور یہ کہ شاعر کو تمام نوع انسان کے لیے ایک بے طرف اور غیر جانبدار انسان ہونا چاہیے۔ ہومر خالص یونانی شاعر ہے، اس کے عقائد، اس کے تاثرات، اس کی صنمیات سب یونانی ہیں، اس کے ہیرو یونانی ہیرو ہیں، لیکن اس کے باوجود کوئی صاحب ذوق آدمی اس کی شاعری کو یہ کہہ کر نہیں ٹھکرا دیتا کہ وہ یونانی ماحول کی پیداوار ہے جو تین چار ہزار برس پہلے ایک مخصوص خطہ زمین میں پایا جاتا تھا۔ اس کے دیوتاؤں کا اب کون قائل ہے اور اسکی اخلاقیات بھی اب ہمارے کس کام کی ہے، لیکن عیسویٰ مغرب کو دیکھئے کہ ہومر کے دیوتاؤں کو باطل سمجھنے کے باوجود اب تک اس کی شاعری کو جزو تعلیم ادب عالیہ بنائے ہوئے ہے اور کلیسا کے بڑے پادری بھی اس کو پڑھتے اور پڑھاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی ملی اور اسلامی شاعری پر ناک بھوں چڑھانے والے اور اسلامیات کی وجہ سے اس کی شاعری کو پست گردانتے والے وہی لوگ ہیں جو دین سے بے بہرہ اور متنفر ہیں اور ملت کے عروج و زوال سے بھی ان کو کوئی واسطہ نہیں، ان کے نزدیک شاعری تفنن طبع کا نام ہے۔ اگر وہ اشتراکی ہیں تو اشتراکیت کی تبلیغ کو تو اچھی شاعری اور اعلیٰ درجے کا فن لطیف سمجھتے ہیں اور اسلام کی شاعری ان کے نزدیک محض ملائی وعظ و تلقین ہے۔ الحاد پر شعر کہو تو لطف اٹھاتے ہیں اور توحید پر اعلیٰ درجے کے اشعار بھی لکھو تو انہیں بے لطف معلوم ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کی طبیعت میں اس کا کوئی اذعان یا رحجان نہیں۔
فنون لطیفہ کی بھی وہی کیفیت ہے جو علم کی ہے، علم فی نفسہ نہ مفید ہے اور نہ مضر، نہ معاون حیات ہے اور نہ مزاحم زندگی۔ علم ایک بے طرف قوت ہے اور علوم کے بے شمار اقسام ہیں۔ اسی طرح شعر ہر قسم کا ہو سکتا ہے، مختلف اشعار ہر قسم کے افکار اور تاثرات کے حاصل ہو سکتے ہیں، شاعری ادنیٰ جذبات کو بھی ابھار سکتی ہے، بعض اشعار میں جذبہ غالب ہوتا ہے اور بعض میں تفکر اگرچہ جذبے کی آمیزش سے بالکل معرا شعر بہت ٹھنڈا اور پھیکا ہوتا ہے، وہ کانوں کے راستے سے دماغ سے تو ٹکراتا ہے لیکن دل کا کوئی تار اس سے مرتعش نہیں ہوتا۔ ایک قسم کی شاعری ہے جو محض مسرت کے لیے کی جاتی ہے، اس کے برعکس ایک دوسری قسم کی شاعری ہے جس کا مقصود اندوہ گینی اور اندوہ افزائی ہے، جیسے لکھنو کی مرثیہ گوئی خالی ہوس پرستی اور رندی نے بھی اردو اور فارسی شاعری کے کثیر حصے کو گھیر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ وہ شاعری بھی ہے جس میں حکمت اور تجربہ حیات کو دلنشیں اور موثر انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ تصوف نے بھی اعلیٰ درجے کی شاعری کو جنم دیا جس میں حکمت بالغہ اور عشق الٰہی کی آمیزش اور تزکیہ نفس کی ترغیب ہے۔ خوشامد کی جھوٹی شاعری نے قصیدوں کا ایک دفتر بے معنی مہیا کر دیا جو اب تک دار العلوموں کے نصاب میں داخل ہے۔ شاعری کے تمام ا قسام آخر ایک ہی جنس کے انواع ہیں۔
بعض نقاد کہتے ہیں کہ فن کو فن ہی کے معیار سے پرکھنا چاہیے۔ علم علمی معیار سے پرکھا جاتا ہے، اخلاق اخلاقیات کی کسوٹی پر جانچا جاتا ہے، دینیات کے لیے دین معیار ہے، اسی طرح فن لطیف کے صرف فن ہی کو معیار ہونا چاہیے۔ فن کی مملکت ایک آ زادمملکت ہے جس کے اپنے آئین ہیں۔ اس مسئلے پر کسی قدر مفصل اظہار خیال اقبال کے نظریات فن کی بحث میں آئے گا، یہاں صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ اقبال کی اسلامی اور ملی شاعری اور اس کی فلسفیانہ شاعری، شاعری کے وسیع حدود سے باہر نہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس قسم کی تلقین و تبلیغ خطیبانہ نثر میں بھی ہو سکتی ہے بلکہ ہونی ہی نثر میں چاہیے، یہ تقاضا لغو اور بے معنی ہے۔ شاعری کا کام بات کو موثر اور دل نشیں بناتا ہے، اگر کوئی شخص خاص عقابر اور خاص نظریات حیات رکھتا ہے اور خدا نے اس کو شاعر بھی بنایا ہے تو وہ کیوں اپنے افکار و تاثرات کو شعر کے سانچے میں نہ ڈھالے، جو نثر کے مقابلے میں زیادہ موثر پیرایہ بیان ہے ۔ میرے نزدیک اقبال نے اسلام اور ملت اسلامیہ کے علاوہ اپنی مخصوص شاعری سے عام نوع انسان کی بے حد خدمت کی ہے، اس کے اشعار بلند افکار اور جذبات عالیہ سے مملو ہیں جو تمام نوع انسان کی بے حد خدمت کی ہے، اس کے اشعار بلند افکار اور جذبات عالیہ سے مملو ہیں جو تمام نوع انسان کی روحانی دعوت دیتے ہیں، اس میں کسی مذہب و ملت کی تخصیص نہیں اور اسلام کی تعبیر میں اس نے جو باتیں کہی ہیں وہ بلا تفریق مذہب و ملت تمام دنیا کے لیے پیغام حیات ہیں چونکہ کہنے والا مسلمان ہے، اس کے مخاطبین براہ راست تو مسلمان ہیں لیکن بالواسطہ اس کا خطاب ہر انسان سے ہے خواہ وہ شرقی ہو یا غربی:
گھر میرا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمرقند
اقبال کی شاعری کا زیادہ حصہ ایسا ہے جس میں فلسفے اور دینیات اور احیائے ملت کے تقاضے نے شعر کو شعریت کے زاویہ نگاہ سے بھی پست نہیں ہونے دیا۔ اگر اقبال ایک غیر معمولی صاحب کمال شاعر نہ ہوتا تو اس کی نظموں میں فلسفہ خشک ہوتا، وعظ بے اثر ہوتا اور تبلیغ بے نتیجہ ہوتی۔ یہ اس کا کمال ہے کہ وہ فلسفیانہ اشعار کہتا ہے تو بات خالی فلسفے کے مقابلے میں زیادہ دل نشیں اور یقینا آفرین بن جاتی ہے۔ ملت کے عروج و زوال اور مرض و علاج کو بھی جب وہا پنی ساحرانہ شاعری کے سانچے میںڈھالتا ہے تو سننے والوں کے دلوں میں ایک زیر و بم پیدا ہوتا ہے۔
اقبال اعلیٰ درجے کا شاعر ہونے کے علاوہ مفکر اور مصلح بھی ہے، بعض نظمیں وہ محض بحیثیت شاعر لکھتا ہے، بعض نظموں میں حکیمانہ افکار شعر کے پیرائے میں ڈھل گئے ہیں اور بعض نظموں میں جذبہ اصلاح غالب ہے اس لیے اس کے تمام کلام کو محض شاعری کے نقطہ نظر سے نہیں جانچ سکتے اگرچہ محض فن کی حیثیت سے بھی اس کی اکثر مبلغانہ اور حکیمانہ نظمیں ایک خاص پائے سے نیچے نہیں گرنے پاتیں۔
٭٭٭
 

فرخ منظور

لائبریرین
پانچواں باب
اسلام۔۔۔۔ اقبال کی نظر میں
زہد و رندی کی نظم میں اقبال کے متعلق ایک مولوی صاحب نے اس خیال کا اظہار کیا تھا:
اس شخص کی ہم پر تو حقیقت نہیں کھلتی
ہو گا یہ کسی اور ہی اسلام کا بانی
مولوی صاحب کو خدشہ اس سے پیدا ہوا کہ اقبال اپنے مذہبی عقائد کو جس انداز میں بیان کرتا تھا وہ عام راسخ العقیدہ ملاؤں اور فقیہوں کے انداز سے الگ تھا اس انداز کا نرالا پن اقبال کے اندر آخر تک قائم رہا، اس انوکھے پن کی وجہ سے وہ شروع ہی میں کہہ رہا تھا:
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں
اقبال کے دینی عقائد کو چند صفحات میں بیان کرنا دشوار ہے لیکن یہ کوشش لازمی ہے۔
اقبال موحد ہے اور توحید میں کسی قسم کے اشتراک کو گوارا نہیں کرتا۔ مسلمانوں میں بعد میں وحدت وجود اور وحدت شہود کی بحثیں چھڑ گئیں، اقبال کے نزدیک یہ بحثیں دینی بحثیں نہیں بلکہ فلسفیانہ مسائل و مباحث ہیں، اسلام میں توحید کے مقابلے میں فقط شرک ہے، وحدت و کثرت کی بحث اسلامی بحث نہیں اور نہ ہی اشاعرہ اور معتزلہ کے یہ کلامی مباحث اصل اسلام سے کچھ تعلق رکھتے ہیں کہ وحدت ذات کے اندر کثرت صفات الٰہیہ عین ذات ہیں یا غیر ذات۔
اس کے نزدیک خدا ایک نفس کلی یا ایک ’’ انا‘‘ ہے انائے کامل و مطلق فقط خدا ہے، اس کی عینی اور اساسی صفت خلاقی ہے ’’ کل یوم ھو فی شان‘‘ کے معنی اقبال کے نزدیک یہی ہیں کہ اس کی خلاقی مسلسل اور لامتناہی ہے، ’’ کن فیکون‘‘ کی صدا ہر لمحے میں آ رہی ہے۔
انگریزی لیکچروں میں اس نے اس عقیدے کا اظہار کیا ہے کہ خدا اپنی ماہیت میں چونکہ ایک نفس ہے اس لیے وہ نفوس ہی کو خلق کرتا ہے؟ تمام کائنات نفوس ہی پر مشتمل ہے جو قوت و شعور کے لحاظ سے ارتقاء کے مختلف مدارج میں ہیں۔ یہ عقیدہ پہلے مسلمان حکماء و صوفیہ میں بھی ملتا ہے، یہ عقدہ عارف رومی کے اساسی عقائد میں سے ہے چنانچہ مثنوی کے آغاز ہی میں یہ خیال ملتا ہے کہ کائنات ارواح کا ایک نیستان ہے ہر روح خدا ہی میں سے الگ ہوئی ہے اور ا سکے اندر بے تابی اور فریاد کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے اصل کی طرف عود کرنا چاہتی ہے، ’’ کل شی یرجع الی اصلہ‘‘
ہر کسی کو دور ماند از اصل خویش
باز جوید روزگار وصل خویش
اسی وجہ سے تمام موجودات میں ایک جذبہ ا رتقاء پایا جاتا ہے۔
’’ انا‘‘ کی سب سے زیادہ ارتقاء یافتہ صورت انسان میں ملتی ہے لیکن چونکہ خدا تک واپسی کا راستہ لامتناہی ہے اس لیے اناے انسانی کے ممکنات ارتقاء بھی لا محدود ہیں۔
انائے انسانی مخلوق ہے لیکن اس میں ابد قرار ہونے کی صلاحیت موجود ہے۔ اقبال نے عرفان نفس کا نام خودی رکھا ہے جو اس کی اپنی وضع کردہ اصطلاح ہے؟ خودی کا لفظ اقبال سے پہلے انانیت کے معنوں میں نہیں بلکہ انانیت کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا، اور یہ معنی مستحسن نہیں بلکہ مذموم تھے۔
جذبہ تخلیق و ارتقاء کا نام عشق ہے سعی تخلیق و ارتقاء حرکت کے بغیر ناممکن ہے اس لیے زندگی سراپا حرکت و انقلاب ہے۔
مقصود حیات اور غایت دین انسان کی خودی کو بیدار کرنا اور اس کے جذبہ عشق میں اضافہ کرنا ہے، دنیا ہو یا آخرت، یہ عالم ہو یا وہ عالم، ہر جگہ، ہر حالت اور ہر مقام پر جذبہ عشق اور شوق ارتقاء کا پایا جانا لازمی ہے۔
اسلام اسی لیے ایک دین کامل ہے کہ اس کی تعلیم میں انسان پر زندگی کی ماہیت کو واضح کر دیا گیا ہے اور اس کو تکمیل خودی کے سیدھے راستے بتا دیے گئے ہیں، ان طریقوں کا عرفان جدوجہد ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ قلزم حیات کے کنارے پر بیٹھ کر جو حکمت حقیقت تک پہنچنا چاہتی ہے، اس کو کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی اس لیے کہ زندگی حرکت ہے اور سکون سے سمجھ میں نہیں آ سکتی، فقط جدوجہد کرنے والوں کو خدا حقیقت حیات سے آشنا کرتا ہے الذین جاھد افینا لنھد پنھم سبلنا
ساحل افتادہ گفت گرچہ بسے زیستم
ہیچ نہ معلوم شد آہ کہ من کیستم


موجے ز خود رفتہ تیز خرامید و گفت
ہستم اگر می روم گرنہ روم نیستم
تمام احکام شریعت کا مقصو دیہی ہے کہ انسان اپنے نفس کو پاکیزہ اور قوی بنائے جو طریق عمل اس کی وسعت اور قوت میں خارج ہوتے ہیں ان سے اجتناب کی تلقین کرے۔
اسلام پیش کرنے والے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خودی تمام انبیاء اور انسانوں کے مقابلے میں زیادہ بیدار اور استوار تھی، اسی لیے ان کی زندگی نوع انسان کے لیے اسوۂ حسنہ بن گئی۔ اسلام ایک خالص ترین پیغام حیات ہے، نہ نبی کی ترقی کی کوئی انتہا ہے اور نہ عام انسانوں کی ترقی کی کوئی آخری حد ارتقاء جاری ہے اور جاری رہے گا، لیکن نبوت کا مقصد حقیقت حیات کو واضح کر دینے کے بعد پورا ہو گیا، اکملت لکم دینکم کے یہی معنی ہیں۔ اگر قرآن نے واضح طور پر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبیین نہ بھی کہا ہوتا تو بھی وضاحت مقصود دین کے بعد کسی اور نبی کا آنا تحصیل حاصل ہوتا، اقبال بڑی شدت کے ساتھ ختم نبوت کے قائل تھے۔ ایک مغربی مفکر نے اقبال کے عقائد پر یہ اعتراض کیا ہے کہ ارتقائے لامتناہی کا قائل ختم نبوت کا کس طرح قائل ہو سکتا ہے؟ جب زندگی ابد الآباد تک نئے اقدار نئے انداز حیات پیدا کر سکتی ہے تو کسی ایک شخص کی تعلیم یا زندگی خاتم کیسے ہو سکتی ہے؟ دراصل یہ تناقض ایک ظاہری تناقض ہے، اقبال کے ہاں اس کا جواب یہ ہے کہ زندگی کے لامتناہی ارتقاء اور اس کے لا محدود ممکنات کو واضح کر دینا ہی نبوت کا منتہیٰ تھا۔ یہ کام وپرا ہو گیا تو نبوت بھی لازما ختم ہو گئی خود نبی کے انسان کامل ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اس کی اپنی ذات کے لیے کوئی بلند تر درجہ ارتقاء باقی نہیں رہا۔ ارتقاء کی آخری منزل تو خدا ہے مگر کوئی شخص لامتناہی ارتقاء سے بھی خدا نہیں بن سکتا نہ عمل کی کوئی انتہا ہے اور نہ علم کی اسی لیے نبی مسلسل استغفار بھی کرتا ہے اور ’’ رب زدنی علما‘‘ کی دعا بھی مانگتا ہے۔ عرفان کی بھی کوئی انتہا نہیں اس لیے مدارج میں بھی ’’ ماء فناک حق معرفتک‘‘ کہتا ہے۔
اسلام کا مقصد زندگی کو کسی ایک صورت میں جامد کرنا نہ تھا بلکہ اسے لامتناہی انقلاب و ارتقاء کا راستہ بتانا تھا۔ نبوت کا ایک انداز ختم ہو گیا لیکن ارتقائے حیات ختم نہیں ہوا۔ اسلام کے دین کامل ہونے کے یہ معنی نہیں کہ اس نے انسانی زندگی کی کوئی آخری صورت معین کر دی بلکہ اس کا کمال یہ ہے کہ اس نے یہ تلقین کی کہ کوئی صورت قابل پرستش نہیں:
’’ صورت نہ پرستم من‘‘
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں


تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں


اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں


ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
اقبال قرآن کریم کو دین کی ایک مکمل کتاب سمجھتا ہے، اکثر مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ فقط قرآن اسلام کے لیے کافی نہیں اور حدیث کے بغیر قرآن کی تکمیل نہیں ہوتی۔ اقبال کا عقیدہ یہ ہے کہ صحیح اور مستند احادیث مقاصد قرآن اور مقاصد اسلام کو واضح کرتی ہیں اور خاص حالات پر اسلامی عقائد کا اطلاق ہیں، لیکن جہاں تک اصول اور اساس اسلام کا تعلق ہے، قرآن سے باہر جانے کی ضرورت نہیں، احادیث کی صداقت و صحت کا معیار بھی قرآن ہی ہے:
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن
قرآن بھی ماہیت حیات اور نفس انسانی کی طرح اپنے اندر لامتناہی زندگی رکھتا ہے انسانی زندگی کے مزید ارتقاء میں کوئی دور ایسا نہیں آ سکتا جس میں قرآنی حقائق کا نیا انکشاف ترقی حیات میں انسان کی رہبری نہ کر سکے۔ زندگی نو بہ نو صورتیں پیدا ہوتی جائیں گی لیکن قرآن کے اساسی حقائق کبھی دفتر پارینہ نہ بنیں گے۔
اقبال کے ہاں عذاب و ثواب اور جنت و دوزخ کا تصور بھی عام عقائد سے بہت کھ الگ ہو گیا ہے، وہ جنت کو مومن کا مقصود نہیں سمجھتا اور نہ ہی اسے ابدی عشرت کا مقام خیال کرتا ہے۔ اس کے نزدیک جنت یا دوزخ مقامی نہیں بلکہ نفسی ہیں:
جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
حور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزر
اقبال کا عقیدہ یہ ہے کہ جہاں حرکت و ارتقاء اور مسلسل خلاقی نہیں وہاں زندگی کا فقدان ہے، جنت اگر جز اے اعمال حسنہ ہو تو وہ اس کیفیت نفس کا نام ہونا چاہیے جہاں عرفان خودی، استحکام خودی اور عشق خلاق ترقی یافتہ صورتوں میں پایا جائے، دوزخ خودی کے سوخت ہو جانے کا نام ہے اس لیے نار دوزخ کی ماہیت کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں واضح کیا ہے کہ وہ ایک آگ ہے جس کے شعلے کسی خارجی ایندھن سے نہیں بلکہ قلب انسانی میں سے بلند ہوتے ہیں۔
’’ تطلع علی ت الافندۃ‘‘
بقاے روح کی نسبت علامہ اقبال کا خیال تھا یہ بقا غیر مشروط نہیں، جسمانی موت کے بعد روح کا باقی رہنا یا نہ رہنا یاس کا کسی ایک مخصوص حالت میں رہنا انسان کی خودی پر موقوف ہے۔ اگر کسی شخص نے صحیح علم و عمل سے اپنی خودی کو استوار نہیں کیا تو اس کا امکان ہے کہ وہ فنا ہو جائے اور اگر اچھی زندگی سے اس نے اپنی روح کو قوی بنا لیا ہے تو وہ باقی رہے گی۔ کچھ اسی قسم کے خیال کی طرف مثنوی مولانا روم میں بھی ایک اشارہ ملتا ہے وہاں بحث یہ ہے کہ ’’ کل شیی ھالک الا وجہہ‘‘ اور کل من علیہا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام اگر درست ہے تو انسانوں کے انفرادی نفوس کا باقی رہنا کس طرح ممکن ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب عارف رومی یہ دیتے ہیں۔ ’’ کل شی ھالک‘‘ کے بعد ’’ الا وجہہ‘‘ موجود ہے لہٰذا انسان کی بقا اسی حالت میں ممکن ہو سکتی ہے کہ وہ وجہ الٰہی یعنی صفات ذات الٰہی میں داخل ہو کر اپنی زندگی کو قائم رکھے صحیح زندگی بسر کرنا وجہ الٰہی میں داخل ہو کر زندہ رہنا ہے، خواہ وہ اس عالم میں ہو یا کسی اور عالم میں۔ خدا سے باہر رہ کر کوئی زندگی نہیں ہو سکتی اور خدا کے اندر رہ کر زندگی ہی زندگی ہے۔ روح انسانی بقائے ذات الٰہی سے بہرہ اندوز ہو سکتی ہے لیکن یہ عشق الٰہی ہی کی بدولت ہو سکتا ہے۔ اقبال بھی کہتا ہے کہ عشق سے انسان اپنی روح کو قوی اور پائدار کرتا ہے اگر اس نے ایسا نہ کیا تو وہ فنا ہو جائے گا:
بمیری گر بہ تن جانے نداری
وگر جانے بہ تن داری نہ میری
اسی عقیدے کے مطابق مرض الموت کے آخری ایام میں فرمایا کرتے تھے کہ میں معالجے سے جسمانی صحت کی درستی میں اس لیے کوشاں ہوں کہ مجھے خدشہ ہے کہ جسمانی اضمحلال اور اختلال میری خودی کو کمزو رنہ کر دے اور اس جسم کو چھوڑتے ہوئے میرا ’’ انا‘‘ ضعیف نہ ہو۔ میں دوسرے عالم میں ایک قوی ’’ انا‘‘ کے ساتھ داخل ہونا چاہتا ہوں۔ یہ بھی فرماتے تھے کہ اس عالم اور دوسرے عالم کے درمیان ایک برزخ ہے لیکن اس برزخ کی وسعت بھی مختلف انسانوں کے لیے مختلف ہوتی ہے شہداء کے لیے کوئی برزخ نہیں وہ براہ راست ایک برتر عالم میں داخل ہو جاتے ہیں۔
جنت کی طرح دوزخ کو بھی اقبال ایک نفسی کیفیت سمجھتا ہے، دوزخ کی آگ نفس ہی کی آگ ہے، اس عقیدے کے بیان میں یہ اشعار ملتے ہیں۔
دور جنت سے آنکھ نے دیکھا
ایک تاریک خانہ، سرو و خموش


طالع قیس و گیسوے لیلیٰ
اس کی تاریکیوں سے دوش بدوش


خنک ایسا کہ جس سے شرما کر
کرۂ زمہریر ہو روپوش


میں نے پوچھی جو کیفیت اس کی
حیرت انگیز تھا جواب سروش


یہ مقام خنک جہنم ہے
نار سے نور سے تہی آغوش


شعلے ہوتے ہیں مستعار اس کے
جن سے لرزاں ہیں مرد عبرت کوش


اہل دنیا یہاں جو آتے ہیں
اپنے انکار ساتھ لاتے ہیں
اقبال کے نزدیک اسلام کی تعلیم کا ایک اہم حصہ قرآن کریم کے بیان کردہ قصہ آدم میں ملتا ہے۔ اسلام سے قبل ہبوط آدم کی داستان عیسائیوں میں اس انداز سے بیان کی جاتی تھی کہ آدم و حوا جنت میں رہتے تھے، حوا کو شیطان نے بہکایا کہ شجر ممنوعہ کا پھل کھاؤ تو تمہیں خلود حاصل ہو جائے گا۔ حواس کے جھانسے میں آ گئی اور ا سنے آدم کو بھی خدا کی عدول حکمی پر راضی کر لیا،ا س کا نتیجہ یہ ہوا کہ آدم و حوا گناہ سے ملوث ہو گئے، جنت سے اس عالما رضی میں سزا بھگتنے کے لیے بھیج دیے گئے یہ گناہ ایسا عظیم اور ناقابل عفو تھا کہ تب سے اولاد آدم و حوا میں وراثتاً منتقل ہوتا رہتا ہے۔ کوئی بچہ معصوم پیدا نہیں ہوتا، اس کی روح پیدائش ہی سے آبائی گناہ سے داغ دار ہوتی ہے، عورتوں کی بچہ جننے کی مصیبت اسی گناہ کا نتیجہ ہے اور عورتوں کو یہ سزا اسی لیے ملتی ہے کہ آدم کو حوا ہی نے اس گناہ کے ارتکاب پر راضی کیا تھا۔ یہ گناہ ایسا شدید تھا کہ اعمال حسنہ سے بھی اس سے چھٹکارا حاصل نہ ہو سکتا تھا؟آخر خدا کے اکلوتے یسوع مسیح نے اپنے آپ ک وبھینٹ بنا کر بطور کفارۂ پیش کیا۔ حضرت مسیح ناکردہ گناہ مصلوب ہوئے تاکہ ان کو ماننے والے دوزخ سے نجات پا سکیں مگر جو شخص کفارہ مسیح کو نہ مانے اس کی نجات اس قربانی کے بعد بھی ممکن نہیں۔ قرآن نے قصہ آدم کو بالکل دوسرے رنگ میں بیان کیا ہے، خلاف ورزی کی کوئی تصریح نہیں، صرف اشارہ کر کے آگے گزر گیا ہے، کیونکہ خلاف ورزی کا داغ فوراً ہی اقبال گناہ سے دھل گیا۔ یہاں یہ تعلیم دینا مقصود تھا کہ گناہ کوئی ہمیشہ کے لیے انسان کو چمٹ جانے والی چیز نہیں، حسنات سے سینات کا اثر زائل ہو جات اہے اور زندگی کا رخ صحیح طرف پھیرنے یعنی توبہ کے بعد عروج کی راہیں کھل جاتی ہیں۔ چنانچہ آدم کو عفو و در گزر کے بعد اس عالم ارضی میں خدا کا نائب مقرر کیا گیا عیسائیت کا زوال آدم کا قصہ قرآن میں عروج و کمال آدم کی داستان بن گیا ۔ قرآن کا آدم ایک نصب العینی انسان ہے اور اس کی سیرت انسانیت کی نظر گاہ اور اس کی معراج ہے۔ انسان کی زندگی کا مقصود نیابت الٰہی میں عناصر و ارکان پر حکمرانی یعنی تسخیر فطرت ہے جس کا ذکر قرآن نے وضاحت سے کیا ہے؟ جس طرح فطرت خدا کے ہاں مسخر ہے اسی طرح انسان کی جدوجہد سے بھی اس کو مسخر ہونا چاہیے۔ آدم عشق الٰہی کی بدولت نائب ہوا اور ملائکہ سے زیادہ علم حاصل کرنے سے اس کو ان پر فضیلت حاصل ہوئی؟ ابلیس نے تکبر اور ادنیٰ قسم کی زیرکی سے کام لیا اس لیے وہ مردود و مقہور ہو گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ تکبیر اور محدود عقل پر ناز شیوۂ ابلیسی ہے جو انسان کو قعر مذلت میں گرا سکتا ہے۔ اقبال کی تعلیم میں وقار آدم اور عروج آدم کا نظریہ ایک مرکزی عقیدہ ہے۔ اقبال نے اس عقیدے پر افکار و تاثرات کی ایک عظیم الشان عمارت کھڑی کی ہے اور انسانی زندگی کے ممکنات اور تسخیر حیات کو اسلامی تعلیم کی اساس قرار دیا ہے۔ اسلام نے انسان کے اندر اعتماد نفس پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ اپنے تئیں نائب الٰہی سمجھ کر فطرت پر حکمرانی کرے اور فطرت کے عناصر اور اس کی قوتوں سے مرعوب ہونے کی بجائے ان کو بلا استثنا قابل تسخیر سمجھے اس قوت تسخیر میں اضافہ اقبال کے ہاں استحکام خودی کی تلقین بن گیا ہے؟ اسلام میں توحید کا عقیدہ اور وقار انسانی ایک دوسرے سے وابستہ ہیں، نہ کوئی فطرت کی قوت انسان کی معبود ہو سکتی ہے اور نہ کوئی ایک انسان دوسرے انسانوں کا معبود بن سکتا ہے۔ انسان کے اوپر خدا کے سوا کچھ نہیں، ’’ لا غالب الا اللہ۔‘‘
حدیث نبوی کے متعلق علامہ اقبال کے زاویہ نگاہ کی طرف اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے۔ احادیث کے بارے میں افراط اور تفریط نے مسلمانوں کے دو گروہ بنا دیے ہیں، ان دونوں گروہوں کے عقائد میں اعتدال مفقود ہے ایک گروہ علی الاعلان اس کا مدعی ہے کہ حدیث قرآن کا ایک لازمی تکملہ ہے تمام اسلامی کو محض قرآن میں سے اخذ نہیں کر سکتے، اس گروہ میں سے بعض افراد نے یہاں تک غلو کیا ہے کہ بعض احادیث کو نصوص قرآنی کا ناسخ بتاتے ہیں؟ اس لحاظ سے حدیث قرآں کے مقابلے میں زیادہ مستند ہو جاتی ہے۔ ایک دوسرا گروہ، جو مقابلتاً قلیل ہے اپنے آپ کو اہل قرآن کہتا ہے اور احادیث کے تمام مجموعے کو نہ صرف نا قابل اعتبار سمجھتا ہے بلکہ مخرب اسلام قرار دیتا ہے علامہ اقبال اس بارے میں نہایت معقول رائے رکھتے تھے، ان کے نزدیک اساسی اور ابدی اسلام قرآن میں موجود ہے اور قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ اس میں تمام باتوں کی تبیین اور تفصیل ہے، ان کے نزدیک بالکل برحق ہے؟ اس سے زندگی کی جزئی تفصیلات مراد نہیں ہو سکتیں اس لیے کہ زندگی کی تفصیلات اس کے تغیرات اور تنوع کی وجہ سے لامتناہی اور نا قابل احصا ہیں قرآن کریم جن تفصیلات پر حاوی اور اپنی تعلیمات کے لحاظ سے جامع اور مانع ہے وہ زندگی کے ان بنیادوں اصولوں کی تفصیلات ہیں جو قوانین فطرت کی طرح ناقابل تغیر اور اٹل ہیں۔ قرآن کریم نے خود وضاحت سے اپنے آپ کو قوانین فطرت اور قوانین حیات انسانی کا آئینہ بنایا ہے اور دین قیم اسی دین کو بتایا ہے جس کے متعلق ’’ لا تبدیل للحلق اللہ‘‘ اور’’ لن تجد لسنتہ اللہ تبدیلا‘‘ کہ سکیں۔ علامہ اقبال قرآن کریم کے بارے میں کسی تنسیخ اور تغیر کے قائل نہ تھے لیکن احادیث اور فقہ کے بارے میں از روے تحقیق اپنے آپ کو آزاد سمجھتے تھے، بہت سی حدیثیں جن کو لوگوں نے مسلم اور مستند سمجھ لیا ہے وہ ان کے نزدیک موضوع اور بے بنیاد تھیں اور بعض دیگر احادیث جن کا استناد ضعیف شمار ہوتا ہے وہ انہیں بصیرت نبوی کا اعلیٰ نمونہ تصور کرتے تھے اور اپنے کلام میں جا بجا ان سے استفادہ کرتے تھے۔ بہت سے مسلمان صوفیہ اور حکما کا بھی اس سے قبل یہی رویہ رہا ہے، مثنوی مولانا روم میں بعض اعلیٰ درجے کے اشعار انہی احادیث کی شرح میں ہیں جو محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں۔ یہی حال امام غزالی علیہ الرحمتہ جیسے بالغ نظر عالم اور حکیم صوفی کا ہے۔ احیاء العلوم اور کیمیاے سعادت پر اکثر محدثین نے یہی اعتراض کیا ہے کہ امام صاحب نے ان کتابوں میں ضعیف حدیثیں بھر دی ہیں۔ معاملات کے متعلق علامہ اقبال جن احادیث کو استناد کے لحاظ سے صحیح بھی خیال کرتے تھے ان کی نسبت بھی ان کی رائے یہ تھی کہ ان کا اطلاق مخصوص حالات پر ہوتا ہے، وہ فقہ اسلامی کے بعض عناصر کو تمام نوع انسانی کے لیے قابل عمل خیال کرتے تھے لیکن بعض فروغ میں وہ اجتہاد کے قائل تھے اور ان کی یہ رائے تھی کہ اجتہاد کا دروازہ بند کر دینے اور اجتہاد کی صلاحیت کے ناپید ہو جانے کی وجہ سے ملت اسلامیہ کو زوال آیا ہے۔
ملت اسلامیہ میں حامیان دین کے دو گروہ عرصہ دراز سے چلے آ تے ہیں ایک کو ملا اور دوسرے کو صوفی کہتے ہیں ملا کا گروہ وہی ہے جسے شیخ کا لقب دے کر شعراء اور متصوفین نے بہت کچھ برا بھل اکہا ہے۔ اقبال ان دونوں طبقوں سے بیزار تھے، انہیں تخریب اسلام کا ذمہ دار قرار دیتے تھے۔ ملا پر یہ طعن تشنیع وہ اطراف سے شروع ہوئی، ایک تو اہل دل اور اہل باطن کی طرف سے جنہوں نے دیکھا کہ فقہا اور علم برداران دین کا ایک بڑا حصہ ایسے افراد پر مشتمل ہے جن کی زندگی میں دین کے کچھ ظواہر تو ملتے ہیں لیکن کہیں بھی ظاہر کی تہ میں تزکیہ اور بصیرت قلب نظر نہیں آتی یہی طبقہ فروعات کے متعلق ایک دوسرے سے بر سر پیکار اور دست و گریبان رہتا ہے، چھوٹے چھوٹے اختلافات پر ایک نیا فرقہ بن جاتا ہے جو اس فرقے سے باہر خدا کے نیک بندوں کی تکفیر کو باعث نجات سمجھتا ہے، ایسے اخلاق والے لوگ بھلا عامتہ الناس کی کیا اصلاح کریں گے؟ او خویشتن گم است گرا رہبری کند ان لوگوں کے پاس دین کا چھلکا ہوتا ہے جو ان کی خوراک بن جاتا ہے لیکن اس چھلکے کے اندر کے گودے سے ان کا کام و دہن آشنا نہیں ہوتا:
جنگ ہفتاد و دو ملت ہمہ را عذر بنہ
چوں نہ دیدند حقیقت رہ افسانہ زدند
(حافظ)
ہفتاد و دو طریق حسد کے عدو سے ہیں
اپنا ہے یہ طریق کہ باہر حسد سے ہیں
(ذوق)
حقیقت شناس اہل دل کے علاوہ ایک دوسرا گروہ بھی موقع دیکھ کر اور صوفیہ کے کلام سے شہ پا کر علمائے ظاہر کے خلاف پھبتیاں کسنے لگا، یہ رندوں کا گروہ تھا جو دین کے ظاہر اور باطن دونوں سے بری ہونا چاہتا تھا اس گروہ نے سلایا شنج کو ہدف ظرافت بنا لیا۔ ان کے علاوہ مسلمانوں میں ایک قلیل تعداد حکماء کی تھی جو ملا سے اس لیے بیزار تھے کہ وہ شعائر اسلام احکام شریعت اور عقائد دینیہ کی حکمت سے نا آشنا ہے اور اسی لیے اس کے اقوال و اعمال تمام تر تقلیدی ہوتے ہیں، حیات و کائنات کے کچھ حقائق کا انکشاف عقل سے ہوتا ہے اور کچھ اسرار حیات ایسے ہیں جو عشق کی بدولت منکشف ہوتے ہیں ملا نے حکمت کو بھی دین سے خارج کر دیا اور محبت خدا و خلق سے بھی بیگانہ رہا۔
تصوف کے سلسلے مسلمانوں میں ظاہر پرستوں کے رد عمل کے طور پر شروع ہوئے تاکہ لوگوں کو ظاہر سے باطن کی طرف متوجہ کیا جائے اور دین کو مرد مومن کے لیے ایک ذاتی تجربہ حیات بنایا جائے تاکہ لوگ محض مقلدانہ طور پر دین کی حقیقت کو تسلیم نہ کریں لیکن جس طرح فقہ میں جمود اور تقلید نے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کو جامد اور بے روح بنا دیا تھا، اسی طرح تصوف میں غیر اسلامی عناصر نے دخل پا کر اسلامی زاویہ نگاہ کو خراب کیا اور رفتہ رفتہ تصوف جو تحقیق سے شروع ہوا تھا، خود ایک دوسری قسم کی تقلید بن گیا اور تصوف کے سلسلے بھی جامد ہو گئے دونوں طبقوں نے دین کو دنیاوی منافع اور مفاد حاصل کرنے کے لیے دام تنزویر بنا لیا۔
ملا کہلانے والا طبقہ تو در حقیقت قابل رحم ہے؟ ایک طرف حکومت یا دولت والوں کی طرف سے اس کی کوئی سرپرستی نہیں اور دوسری طرف بے چارے ملا کی تعلیم نہایت محدود ہوتی ہے، مفلسی اور کم علمی کی وجہ سے وہ سوسائٹی میں بے حیثیت ہو گیا ہے، اس سے مسجد کی صفائی اور مردہ شوئی کا کام لیا جاتا ہے، حقوق و فرائض کے متعلق اس کا علم بہت خام ہوتا ہے، کئی اسباب اس کی ذہنی اور اخلاقی پستی کے ذمہ دار ہیں، فیضی اس کے متعلق کہتا ہے:
مشاجرات فرائض کہ کس نخوانا دش
زمن مجوے کہ ایں علم مردہ شویان است
اچھی معیشت اور اچھے گھرانوں کے لوگ اپنے بیٹوں کو ملا بنانا نہیں چاہتے اس لیے کہ ملا کے لیے نہ عزت کی روزی ہے اور نہ سوسائٹی میں وقار؟ یہ لوگ زیادہ تر ایسے ہی طبقوں سے آتے ہیں جن میں تعلیم و تربیت نہیں اور خود داری پیداکرنے والی دنیاوی وجاہت نہیں؟ پھر یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے اور کہ ان بے چاروں سے لوگ بلند خیالی اور بلند حوصلگی کی توقع رکھتے ہیں اور جب وہ توقع پوری نہیں ہوتی تو ان کو متہم کر کے ان پر فقرے کسنے لگتے ہیں۔ جب تک حکومت اور ملت علوم دینیہ میں زندگی وقف کرنے والوں کے لیے باوقار روزگار اور اجتماعی وقار کا بندوبست نہ کرے تب تک ان کی حالت ایسی ہی ناگفتہ بہ رہے گی۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
کچھ ہوشیار ملا ایسے بھی ہیں جنہوں نے د نیا طلبی کے لیے سیاسی لیڈری شروع کر دی ہے، اس طریقے سے روزگار کا بھی اچھا بندوبست ہو جاتا ہے اور سوسائٹی میں بھی چرچا ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے یہ افراد سیاست میں دخل انداز ہوتے ہیں ویسے ویسے رہا سہا دین بھی ان کے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے؟ کسی صحت مندانہ سیاست کی ان سے توقع نہیں ہو سکتی کیونکہ جتنے یہ دین سے بے بہرہ ہوتے ہیں اس سے زیادہ معاشرتی اور سیاسی مسائل سے نا آشنا ہوتے ہیں صدیوں پہلے ابن خلدون نے ان کے متعلق فتویٰ دیا تھا کہ (العلماء ابعد الناس عن السیاستہ) موجودہ دنیا میں سیاست ایک بڑی پیچدار چیز بن گئی ہے۔ معاشیات کے پیچ در پیچ مسائل اس کے ساتھ الجھے ہوئے ہیں، اسلامی بنا پرسیاست اور معیشت میں قابل عمل مشورہ دینے کے لیے علوم جدیدہ اور حالات حاضرہ سے گہری واقفیت درکار ہے جو اس گروہ میں نہیں پائی جاتی، ملت اسلامیہ کی خرابی یہ ہے کہ اہل سیاست دین سے بیگانہ ہیں اور مدعیان دین سیاست کی ابجد سے واقف نہیں۔
ملا کے علاوہ ہمارے ہاں کے صوفی ہیں جنہیں لوگ پیر کہتے ہیں۔ پیری کا سلسلہ اکثر کسی اہل دل سے شروع ہوتا ہے جو تزکیہ باطن اور بصیرت روحانی کی بدولت مرجع خلائق بن جاتا ہے؟ ایسے شخص میں شق الٰہی، اصلاح ذات اور فلاح خلق کے سوا اور کوئی جذبہ یا محرک نہیں ہوتا، وہ انبیاء کی طرح لوگوں سے کسی اجرت کا طالب نہیں ہوتا، اس مرد خدا کے گزر جانے کے بعد اس کی اولاد اس کی جانشین ہو جاتی ہے اور سجادہ نشینی ایک قسم کی جاگیرداری بن جاتی ہے، عقیدت مند نقدی اور نذرانے بھی پیش کرتے ہیں، جو رفتہ رفتہ ایک مستقل ٹیکس کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ زمینوں کے عطیے سے اوقاف قائم ہو جاتے ہیں، پھر کسی طرح سے یہ اوقاف پیروں کی ذاتی ملکیت بن جاتے ہیں، یہاں تک کہ سجادہ نشین صاحب جاگیر ہو جاتا ہے اور سرمایہ داروں کی سی زندگی بسر کرنے لگتا ہے، جہالت کی وجہ سے معتقدین کے اعتقاد میں کچھ خلل نہیں آتا، رفتہ رفتہ ہر شخص (الا باستثناے مردے چند) جس کو پیری ورثے میں ملی ہے اس کو زمینداری اور امیری بھی ورثے میں مل جاتی ہے، حکومت کی طرف سے بڑے بڑے خطابات حاصل ہوتے ہیں پھر کونسلوں میں داخل ہو کر پیری کے بعد وزیری کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔
اقبال کے دل میں یہ تڑپ تھی کہ مسلمانوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے ایک طبقہ پیدا ہو لیکن اس اہم فریضے کے لیے اہل دل اور اہل علم ہونے کی ضرورت ہے اور زبردست جذبہ ایثار اس کے لیے لازم ہے۔ جب وہ دیکھتا تھا کہ عوام کو دین کی خبر نہیں (اگرچہ اس بے خبری کے باوجود ان کے اخلاق خواص سے کچھ بہتر ہی ہوتے ہیں) اور حامیان شرع متین ملا اور صوفی کا یہ حال ہے تو بعض اوقات مایوسی میں یہ پکار اٹھتا تھا کہ اے خدا اس ملت کو دنیا سے اٹھا لے اور حسب وعدہ کوئی اور ملت اسلام کی خدمت کے لیے پیدا کر:
کہ ایں ملت جہان را بار دوش است
اقبال نے ملا کی نسبت عام شاعروں کی طرح فقط لطیفہ بازی نہیں کی، اس نے جو کچھ کہا ہے وہ بربناے بصیرت اور بربناے تجربہ کیا ہے، اس کا انداز ظریفانہ نہیں بلکہ اس کی تہ میں درد و رنج ہے، اکثر اشعار میں ملا پر جو اعتراض کیا ہے اس کی وجہ بھی بتائی ہے۔
ملا میں رواداری نہیں ہوتی:
کوئی یہ پوچھے کہ واعظ کا کیا بگڑتا ہے
جو بے عمل پہ بھی رحمت وہ بے نیاز کرے
ملا کے خدا کا تصور بھی ادنیٰ تشبیہی اور مکانی تصور ہے:
بٹھا کے عرش پہ رکھا ہے تو نے اے واعظ
خدا وہ کیا ہے جو بندوں سے احتراز کرے
بھلا نبھے گی تری ہم سے کیوں کر اے واعظ
کہ ہم تو رسم محبت کو عام کرتے ہیں
اسلام کا خدا رب العالمین اور اس کا نبی رحمتہ للعالمینؐ ہے، تنگ نظری نے خدا کو صرف رب المسلمین اور نبی کو صرف رحمتہ للمسلمین بنا دیا اور یہ رحمت بھی تمام مسلموں کے لیے نہیں بلکہ اپنے فرقے کے چند افراد کے لیے ہے بشرطیکہ وہ تمام فروع میں آپ کے ہم خیال اور ہم نوا ہوں۔ اسلام کا تقاضا یہ تھا کہ رسم محبت کو عام کیا جائے اور عدل و رحم کو صرف اپنے گروہ تک محدود نہ رکھا جائے، تنگ نظر علما نے محبت کو عام کرنے کی بجائے نفرت کو عالمگیر بنا دیا اس لیے کہ خلق خدا کی کثیر تعداد تو کسی ایک ملت اور ایک فرقے سے خارج ہی ہوتی ہے، نفرت اور تکفیر کا بازار گرم ہو گیا، جو تم سے پوری طرح متفق نہیں اس کے ساتھ مل کر نماز بھی نہ پڑھو، جو فلاں امام کے پیچھے نماز پڑھے گا اس کی بیوی پر طلاق عائد ہو جائے گی، مسجدوں میں اس مضمون کے بورڈ لگنے شروع ہو گئے کہ مسلمانوں کے فلاں فلاں فرقوں کے افراد کے لیے اس مسجد میں نماز پڑھنا ممنوع ہے (ایک بڑی مسجد میں اس قسم کا بورڈ راقم الحروف نے طالب علمی کے زمانے میں دیکھا ہے) بلند آواز سے آمین کہنے پر لوگ مسجدوں میں ہی پٹ گئے اور اس کے بعد مسجد کو غسل دیا گیا کہ بلندی آمین کی ناپاکی رفع ہو جائے؟ مسلمان غیر مسلموں سے تو کسی قدر رواداری برتنے بھی لگے لیکن اپنی ملت کے اندر تشدد میں اضافہ کرتے گئے، نئے متنبی اور مجدد ایسے نکلے کہ ملت کے اندر اتحاد کو ترقی دینے کی بجائے افتراق کی آگ کو ہوا دینے لگے، جو ان کے دعوؤں کو نہ مانے وہ خداو رسول ؐ کو ماننے کے باوجود کافر یا کم از کم یہ کہ اس سے معاشرتی تعلقات منقطع کر لیے جائیں، رشتہ ناطہ بند، نماز میں شرکت ممنوع اور یہ سب کوشش احیائے ملت اور تجدید دین کے نام پر اگر اسلام دیگر مذہب کے مقابلے میں رسم محبت کو عام کرنے کا نام نہیں ہے تو پھر اس میں اور کونسی فضیلت باقی رہ جاتی ہے۔
ایک شعر میں اقبال نے کہا ہے کہ محبت کی فراوانی اور جہانگیری ہی کا نام اسلام ہے، اسلام نے تو عملاً رواداری کو ترقی دینے کے لیے یہاں تک اجازت دے دی تھی کہ ایک اہل کتاب عورت تمہاری اولاد کی ماں ہو سکتی ہے اور اس کی خدمت مسلمان اولاد کے لیے ویسی ہی فرض ہے جیسی کہ اس ماں کے مسلمان ہونے کی حالت میں ہوتی، لیکن ملائی اسلام نے اس دین کو اتنا تنگ کر دیا کہ فقہی اور فروعی اختلافات کی بناء پر ایک دوسرے کے ہاں کھانا پینا، خدا کی عبادت کرنا اور بیاہ شادی ممنوع و مقطوع ہو گئی۔ جن مکتبوں میں ایسی تعلیم دی جاتی ہے ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ ایسی تنگ نظری میں رعنائی افکار کہاں سے آئے گی؟ عجیب بات یہ ہے کہ یہ رواداری خانقاہوں سے بھی مفقود ہو گئی ہے حالانکہ یہی خانقاہیں اچھے زمانوں میں کبر و نصاریٰ اور یہود و ہنود کے لیے بھی کشش کا باعث تھیں، کثرت سے غیر مسلم صوفیہ کی رواداری اور حسن سلوک ہی کی وجہ سے اسلام میں داخل ہوئے:
مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے؟
خانقاہوں میں کہیں لذت اسرار بھی ہے؟
پیروں کے ہاں اب قوالی تو ہوتی ہے لیکن وہاں خود انگیختہ وجد و حالی کی تہ میں کہیں پائدار روحانی عشق کا جذبہ نہیں ابھرتا جو قلب کو گرما دے اور روح کو تڑپا دے خانقاہوں میں اب کرامات کا بیان بیچا جاتا ہے اور یہ کرامات جن کا حقیقی روحانیت سے کوئی واسطہ نہیں روحانیت کا معیار بن گئی ہیں ملا بیچارہ ظاہر پرستی سے بے عرفان اور محروم عشق رہ گیا اور صوفی کی باطنیت فقط ہو حق اور کرامات کا افسانہ بن گئی:
رہا نہ حلقہ صوفی میں سوز مشتاقی
فسانہ باے کرامات رہ گئے باقی
کرے گی داور محشر کو شرمسار اک روز
کتاب صوفی و ملا کی سادہ اوراقی
اقبال صرف صوفی اور ملا ہی سے بیزار نہیں وہ ان فلسفہ سے بھی کچھ توقع نہیں رکھتا جو فقط عقل جزوی اور استدلال کی بناء پر حقیقت رس ہونے کے مدعی ہیں۔ ایسے فلسفے سے دماغ کی ورزش تو ہو جاتی ہے لیکن دل محبت اور بصیرت سے بیگانہ ہو کر مردہ ہو جاتا ہے:
نہ فلسفی سے نہ ملا سے ہے غرض مجھ کو
یہ دل کی موت وہ اندیشہ و نظر کا فساد
اقبال کے نزدیک اسلام سراپا حرکت ہے اور ہمہ سمتی جدوجہد کا نام ہے۔ حفاظت دین اور حمایت حق میں تلوار اٹھانا اس جہاد کا فقط ایک ہنگامی پہلو ہے۔ ہمارے فقہا اور حامیان دین کے لیے کوئی اچھا میدان عمل باقی نہ رہا، نہایت دور از کار باتوں پر معرکہ آرائی شروع کر دی اور مختلف گروہوں کو آپس میں لڑانا ان کے لیے جہاد کا بدل بن گیا:
میں جانتا ہو انجام اس کا
جس معرکے میں ملا ہوں غازی
دین کے مدعی ایسے ہی لغو معرکوں میں حریفوں کو شکست دے کر غازی بن بیٹھے۔
تصوف کی بابت اقبال نے اپنے انگریزی خطبات میں بھی یہ بات کہی ہے کہ روحانی وجدان حاصل کرنے کے لیے صوفیوں کے قدیم سلسلے کار آمد نہیں رہے:۔
تیری طبیعت ہے اور، تیرا زمانہ ہے اور
میرے موافق نہیں خانقہی سلسلہ
دور حاضر کے انسانوں کی نفسیات میں بہت کچھ تبدیلی واقع ہوئی ہے اب روحانی ترقی کے حصول کے لیے پرانے طریقوں کے افکار اور صوفیانہ مشقیں کار آمد نہیں رہیں:
تھا جہاں مدرسہ شیری و شہنشاہی
آج ان خانقہوں میں ہے فقط روباہی
اقبال کو یقین تھا کہ اس شمشیر برہنہ تنقید کی وجہ سے تمام فقہا ان کے مخالف ہو جائیں گے لیکن یہ صورت حال پیدا نہ ہوئی، اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ کہا وہ شعر میں کہا اور مسلمانوں کی ذہنی روایات میں عرصہ دراز سے یہ بات داخل ہو گئی ہے کہ شعر میں جو کچھ کہا جائے وہ معارف ہے۔ رندی و ہوس ناکی ہو یا کفر، یاعناں گسیخنہ آزاد خیالی اور بے راہ روی، اگر اس کا بیان شعر میں ہو تو مسلمان اسے شیر مادر کی طرح پی جاتا ہے لیکن وہی بات اگر نثر میں کہی جائے تو پھر جان و آبرو کی خیریت نہیں، خوش قسمتی سے اقبال کی یہ توقع کہ:
یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے
کہ یک زباں ہیں فقیہان شہر میرے خلاف
پوری نہ ہوئی۔ ہاں اگر فقہ و تفسیر و حدیث پر نثر میں کچھ لکھتے تو سید احمد خاں سے کہیں زیادہ ہدف ملامت بنتدے نثر میں لکھنے کے ارادے ہی کرتے رہے لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا، ملت اسلامی کی تشکیل نو کے متعلق خطبات انگریزی میں لکھے اور وہ بھی ایسے فلسفے کی زبان میں جو ملا تو درکنار اعلیٰ انگریزی داں طبقے کے لیے بھی آسانی سے قابل فہم نہیں۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی ان کو اردو زبان میں منتقل کرے کیوں کہ ان کو خطرہ تھا کہ بغیر تشریح و توضیح ان سے شدید غلط فہمی پیدا ہو گی:
میں جانتا ہوں جماعت کا محشر کیا ہو گا
مسائل نظری میں الجھ گیا ہے خطیب
اس میں شعر میں یہ شکایت ہے کہ زندگی کے حقیقی مسائل عملی ہوتے ہیں اور خیر و شر کا معیار بھی عمل ہی سے قائم ہوتا ہے لیکن جب کسی قوم کی قوت عمل میں ضعف آ جاتا ہے تو فقہا، خطیب او رحکما نظری بحثوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔
ملا میں لفظی اور فروعی بحث و تکرار کا شوق اس قدر غالب ہے کہ اگر وہ یہی سیرت لے کر جنت میں بھی داخل ہوا تو اس کو اس دار السلام میں بھی کچھ لطف نہ آئے گا، وہاں صلح و سکون کی فضا میں بحث و تکرار کی گنجائش نہیں اور مذاق فتنہ کے لیے تسکین کا سامان نہیں:
ملا اور بہشت
میں بھی حاضر تھا وہاں ضبط سخن کر نہ سکا
حق سے جب حضرت ملا کو ملا حکم بہشت


عرض کی میں نے الٰہی مری تقصیر معاف
خوش نہ آئیں گے اسے حور و شراب و لب کشت


نہیں فردوس مقام جدل و قال و اقول
بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت


ہے بد آموزی اقوام و ملل کام اس کا
اور جنت میں نہ مسجد نہ کلیسا نہ کنشت
اقبال کو اس کا افسوس ہے کہ متصوفین نے تصوف کو خراب کیا، شریعت کے حامیوں نے اس کی وسعت، اس کی حکمت اور اس کے جمال کو مسخ کیا اور متکلمین کے علم کلام مے اسلام کو عجمی اور یونانی افکار کا گورکھ دھندا بنا دیا اب یہ حال ہے کہ ہر ایک سنہ کے لیے پرانی لکیریں ڈھونڈتا ہے:
’’خیال زلف بتاں میں نصیر پیٹا کر
گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر‘‘
علم و عشق دونوں غائب ہیں اور ملت میں فقط روایت پرستی رہ گئی ہے:
تمدن تصوف شریعت کلام
بتان عجم کے پجاری تمام


حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی


لبھاتا ہے دل کو کلام خطیب
مگر لذت شوق سے بے نصیب


بیاں اس کا منطق سے سلجھا ہوا
لغت کے بکھیڑوں میں الجھا ہوا


وہ صوفی کہ تھا خدمت حق میں مرد
محبت میں یکتا حمیت میں فرد


عجم کے خیالات میں کھو گیا
یہ سالک مقامات میں کھو گیا


بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
اب تسبیح و مناجات میں بھی روح باقی نہیں رہی، تسبیح کی دانہ شماری ایک میکانکی فعل بن گیا؟ ایران، عربی ممالک اور ترکی میں یہ رواج عام ہے کہ ہر کس و ناکس کے ہاتھ میں تسبیح ہوتی ہے، دنیا داری کی لغو باتیں ہو رہی ہیں لیکن ہاتھ میں سبحہ گردانی جا ری ہے۔ میں نے ان ممالک میں کئی مرتبہ لوگوں سے پوچھا کہ تم اس تسبیح میں کیا ذکر یا ورد کر رہے ہو؟ ہمیشہ جواب یہی ملا کہ یوں ہی عادت ہو گئی ہے، ہم پڑھتے کچھ نہیں، معلوم ہوا کہ جمادات و نباتات کی طرح ایک غیر شعوری حرکت ہے:
یا وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل
یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات


وہ مذہب مردان خود آگاہ و خدا مست
یہ مذہب ملا و جمادات و نباتات
جن طرہ باز، خطاب یافتہ، جاگیر دار پیروں کا اوپر ذکر ہو چکا ہے، وہ پنجاب میں کافی تعداد میں ملتے ہیں۔ اگرچہ ان کا جو زور شور سندھ میں ہے وہ شاید کہیں اور نہیں۔ بنگال میں بھی پیروں کا کافی دور دورہ ہے لیکن غالباً وہاں ان کو زیادہ امیری اور جاگیرداری میسر نہیں آئی۔ اقبال کو پنجاب کا تجربہ تھا اس لیے یہاں کی پیری کے متعلق ایک مستقل نظم لکھ دی ہے:
پنجاب کے پیرزادوں سے
حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار


اس خاک کے ذروں سے ہیں شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحب اسرار


گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفس گرم میں ہے گرمی احرار


وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہبان
اللہ نے بر وقت کیا جس کو خبردار


کی عرض یہ میں نے کہ عطا فقر ہو مجھ کو
آنکھیں میری بینا ہیں و لیکن نہیں بیدار


آئی یہ صدا سلسلہ فقر ہوا بند
ہیں اہل نظر کشور پنجاب سے بیزار


عارف کا ٹھکانا نہیں وہ خطہ کہ جس میں
پیدا کلہ فقر سے ہو طرۂ دستار


باقی کلہ فقر سے تھا ولولہ حق
طروں نے چڑھایا نشہ خدمت سرکار
 

فرخ منظور

لائبریرین
اسلام کی نسبت علامہ اقبال کے افکار حکیمانہ ہیں۔ انگریزی خطبات میں بھی اور اشعار میں بھی جا بجا یہ زاویہ نگاہ ملتا ہے کہ اسلام ماہیت حیات و کائنات کے عرفان اور اس کے مطابق زندگی کے رحجان اور میلان کا نام ہے۔ جس طرح طبیعیات کے قوانین بلا امتیاز مذہب و ملت سب پر مساوی عمل کرتے ہیں، اسی طرح اخلاقیات اور روحانیات کے آئین بھی عالم گیر ہیں۔ اسلام کسی ایک قبیلے کسی ایک قوم یا کسی ایک ملک کا مذہب نہیں۔ ریاضیات کی طرح اس کی صداقتیں بھی کائنات کے ہر شعبے پر حاوی ہیں۔ قرآن کریم نے اسلام کے عالمگیر ہونے کو جا بجا بیان کیا ہے۔ جب وہ ’’ فطرت اللہ التی فطر الناس علیہا‘‘ کہہ کر اس کو دین قیم قرار دیتا ہے تو وہ انسانوں کے کسی مخصوص گروہ کا ذکر نہیں کرتا۔ وہ اسے تمام نوع انسان کا دین قرار دیتا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر اسلام کائنات بھر کا دین ہے۔ ’’ یسبح للہ ما فی السموات وما فی الارض‘‘ کائنات میں ہر شے کی تسبیح خوانی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان سے باہر لامتناہی کائنات کا بھی ایک دین اور یہ دین بھی مشیت و آئین الٰہی کی پابندی ہے۔ از روئے قرآن اطاعت طوعاً بھی ہوتی ہے اور کرھاً بھی۔ عبادت اختیار سے بھی ہو سکتی ہے اور جبر سے بھی۔ اسلام سے قبل مختلف ادیان نے جنت اور نجات کو اپنے لیے مخصوص کر لیا تھا اور ہر گروہ میں یہ عقیدہ راسخ ہو گیا تھا کہ وہ گروہ اپنے مخصوص عقائد کی وجہ سے خدا کی مخصوص اور منتخب قوم ہے اور دنیا و آخرت کی بھلائیوں کی وہی اجارہ داری ہے۔ ادیان کی تاریخ میں سب سے پہلے قرآن کریم نے اس اجادہ داری کو توڑا اور واضح الفاظ میں اس خیال باطل کا قلع قمع کیا کہ اجر و نجات کسی ایک ملت کا اجارہ ہیں خواہ اس کے اعمال کچھ ہی ہوں۔
قالت الیھود لیست النصاریٰ علی شیی وقالت النصاریٰ لیست الیھود علی شیی وھم یتلون الکتاب کذالک قال الذین لا یعلمون مثل قولھم (۲:۱۱۳)
’’ یہودی کہتے ہیں کہ نصاری کی کوئی مذہبی بنیاد نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہود کی کوئی مذہبی بنیاد نہیں حالانکہ یہ دونوں ہی فریق کتاب الٰہی پڑھتے ہیں۔‘‘
ان الذین امنو والذین ھادوا والصابئون والنصاریٰ من آمن باللہ والیوم الاخر و عمل صالحاً فلا خوف علیھم ولاھم یحزنون (۵:۶۹)
جو مسلمان ہیں او رجو یہودی ہیں اور صابی اور نصاریٰ ان میں سے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائیں اور نیک عمل کریں تو ان پر نہ کوئی خوف ہے نہ یہ غمگیں ہوں گے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال اگر اسلام کو اسی طرح کا ایک عالم گیر دین قرار دیتا ہے جو قانون فطرت کی طرح تمام انسانوں کی زندگی پر حاوی ہے تو ملت اسلامیہ میں کیا خصوصیت اور امتیازی شان ہے کہ وہی ہمیشہ تمام نوع انسان پر فائق رہے؟ اس کا جواب قرآن کریم سے بھی مل سکتا ہے اور اقبال کے کلام میں بھی کئی مواقع پر اس کا حل موجود ہے۔ قرآن کریم میں صاف طور پر تنبیہہ موجود ہے کہ اے ملت مومنین! تمہاری فوقیت اور تمہارا شہدا علی الناس ہونا اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ تم آئین الٰہی کی پابندی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو لائحہ عمل بناؤ۔ جب تم میں یہ بات نہیں رہے گی تو اسلام کسی اور ملت کے حوالے کر دیا جائے گا جس کے عقائد و اعمال خدا کی کسوٹی پر کھرے ثابت ہوں۔
ملت اسلامیہ کی جو موجودہ حالت ہے وہ اقبال کی نظر سے اوجھل نہیں۔ اس کے اندر مرور ایام سے جو عیوب پیدا ہو گئے ہیں، اس کے عقائد میں اب جو فساد ہے، اس کے اعمال میں اب جو اختلال و انتشار ہے اس کا درد ناک احساس اقبال کے اشعار میں جا بجا ملتا ہے۔ پہلے شکوہ اور جواب شکوہ پر نظر ڈالیے۔ شکوہ اسی ذہنیت کا آئینہ د ار ہے جو عیسائیوں اور یہودیوں اور دوسری امتوں میں پائی جاتی تھی کہ ہم خدا کی منتخب قوم ہیں۔ ہم ہی خدا کے بیٹے ہیں لہٰذا دوسروں کے مقابلے میں ہمیں کسی حالت میں ذلیل اور بے بس نہیں ہونا چاہیے اعمال کا کوئی سوال نہیں ہمارے عقائد تو برقرار ہیں۔ ہم بھی اپنے خدا کو مانتے ہیں۔ اپنے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو برحق سمجھتے ہیں اور اس کی نازل کردہ کتاب کو سراپا صداقت یقین کرتے ہیں۔ خدا کو یہ تو نہیں چاہیے تھا کہ اپنوں کو ذلیل کر دے اور تمام نوازشوں کی بارش اغیار ہی پر کرے۔ اقبال کا شکوہ اس کے اپنے قلب کی گہرائیوں میں سے نکلتی ہوئی آواز نہیں ہے۔ اس شکایت میں اس نے فقط عامتہ المسلمین کی غیر شعوری کیفیت کو بیان کیا ہے کہ مسلمان یوں محسوس کرتے، یوں کہتے اور سمجھتے ہیں۔ اس شکوے میں مسلمانوں نے اپنے اعمال کی کوتاہی کو نظر انداز کیا ہے یا اسے بہت مدھم انداز میں بیان کیا ہے۔ زیادہ تر شکایت کا انداز یہی ہے:
’’ہم نیک ہیں یا بد ہیں پر آخر ہیں تمہارے‘‘
اپنوں کے ساتھ تو ایسی بدسلوکی نہیں ہونی چاہیی۔:
’’با بندۂ خود ایں ہمہ سخنی نمی رسد‘‘
اس میں جن کارناموں کو زور شور سے بیان کر کے اپنا حق جتایا ہے وہ سب اسلاف کے کارنامے ہیں۔ تلک امتہ قد خلت اپنی موجودہ زندگی میں سے ایک خوبی کا بھی نشان نہیں دیا۔ برائیوں سے انکار تو نہیں کر سکتے تھے لیکن اپنا بچاؤ وہاں یہ پیدا کیا ہے کہ اگر یہ سب تذلیل گنہگاری کی پاداش ہے تو عصیاں کار صرف ہم ہی نہیں:
امتیں اور بھی ہیں ان میں گنہگار بھی ہیں
عجز والے بھی ہیں مست مے پندار بھی ہیں


ان میں کاہل بھی ہیں غافل بھی ہیں ہشیار بھی ہیں
سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں


رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
شکوہ میں اخلاق و ایثار و جہاد فی سبیل اللہ کے جتنے دعوے ہیں وہ اسلاف کے متعلق تو درست ہیں لیکن اخلاف کے متعلق سر بسر بے بنیاد ہیں۔ ایسے دعوے اقبال کی طرف سے تو پیش نہیں ہو سکتے تھے۔ یہ سب کوتاہ اندیش اور خود شناسی سے محروم مسلمانوں کے بے بنیاد دعوے ہیں۔ یہ کس قدر سفید جھوٹ ہے کہ سلمان، اویس قرنی اور بلال حبشی ہم ہی ہیں اور توحید کے امین ہم ہی چلے آ رہے ہیں، محض اس لیے کہ منہ سے لا الٰہ الااللہ کہتے ہیں:
تجھ کو چھوڑا کہ رسولؐ عربی کو چھوڑا؟
بت گری پیشہ کیا بت شکنی کو چھوڑا؟


عشق کو عشق کی آشفتہ تری کو چھوڑا؟
رسم سلمان و اویس قرنی کو چھوڑا؟


آگ تکبیر کے سینوں میں دبی رکھتے ہیں
زندگی مثل بلال حبشی رکھتے ہیں
مسلمانوں میں ایک جاہل اور ملائی طبقہ ایسا ہے جو یہ کہہ کر طبیعت کو خوش کر لیتا ہے کہ دنیا چند روزہ ہے۔ فرنگیوں اور کافروں کا یہ جاہ و جلال اور ان کی مساعی کی یہ خلد آفرینی اور مسلمانوں کے مصائب سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ ’’ الدنیا سجن المومنین و جنت الکافر‘‘ دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے۔ دوسری قوموں کا یہ عیش و اقتدار کیا ہے:
ہنگامہ گرم ہستی نا پائدار کا
چشمک ہے برق کی کہ تبسم شرار کا
اس کے بعد ابد الا باد تک قائم رہنے والی جنات النعیم اس کا حصہ ہیں۔جو لا الٰہ الا اللہ کہتا ہوا اس دنیا سے عبور کر گیا ہے، لیکن اقبال کے ہاں دین کا یہ تصور نہیں اور وہ اس ابلہ فریبی کے عقیدے کی لپیٹ میں نہیں آتا۔ اقبال کا عقیدہ ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں کی نعمتیں مومن کا حق ہیں۔ جو سچے مومن تھے ان کو دنیا میں غلبہ بھی حاصل ہوا اور دنیا کی تمام جائز اور حلال نعمتیں بھی ان کو حاصل ہوئیں، وہ وارث ارض بھی بنے۔ دنیا کی دیگر اقوام جب جھونپڑوں میں رہتی تھیں تو یہ صاف ستھرے مکانوں میں رہتے تھے۔ دوسری قومیں چیتھڑے لٹکائے پھرتی تھیں یا ننگی تھیں تو مسلمان خوش پوش تھے اور اعلیٰ سے اعلیٰ پارچہ بافی کی صنعت کے موجد تھے۔ اسلام رہبانیت کا دین نہیں وہ بے نوائی اور بے سر و سامانی کو روحانیت کا لازمہ قرار نہیں دیتا۔ اسی لیے اقبال کو بجا طور پر اس کا رنج ہے اور وہ زندگی سے لطف اٹھانے والی قوموں پر رشک کرتا ہے:
بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لب جو بیٹھے
سنتے ہیں جام بکف نغمہ کو کو بیٹھے


دور ہنگامہ گلزار سے یک سو بیٹھے
تیرے دیوانے بھی ہیں منتظر ہو بیٹھے


اپنے ویرانوں کو بھی ذوق خود افروزی دے
برق دیرینہ کو فرمان جگر سوزی دے
ایک اور شعر میں بھی اقبال مغرب کی متمدن اور مہذب زندگی پر رشک کرتے ہوئے خدا سے کہتا ہے:
فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا
افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند
مسلمانوں کے اعمال اور ان کی سیرت کا صحیح نقشہ وہی ہے جو جواب شکوہ میں خدا کی زبان سے بیان ہوا ہے۔ خدا نے مسلمانوں کے ایک ایک دعویٰ باطل کو توڑا ہے اور شکایت بے جا کا جواب دیا ہے۔ تم کہتے ہو کہ خدا اغیار پہ کرم کرتا ہے اور ہم پر نہیں کرتا۔ حصول کرم کے لیے کچھ لازمی شرائط ہیں۔ کوئی رستہ چلنے والا ہو تو اس کی منزل کی طرف رہنمائی بھی کی جائے۔ کوئی جوہر قابل ہو تو اس کی تربیت کا سامان بھی خدا کی طرف سے مہیا ہو جائے۔ جن میں قابلیت ہوتی ہے ان کو عظیم الشان سلطنتیں دی جاتی ہیں اور جویندی یابندہ کے اصول عالمگیر کے مطابق ڈھونڈنے والے نئی دنیا بھی تلاش کر لیتے ہیں، جیسے کہ کولمبس نے کیا:
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
تم اس کے مدعی ہو کہ توحید کی امانت کے تم امین ہو اور تکبیر کی آگ تمہارے سینے میں دبی ہوئی ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ مجھے عملاً توحید نہیں بلکہ الحاد ہی نظر آتا ہے۔ منہ پر لا الٰہ الا اللہ اور دل میں صنم خانہ حرص و ہوا:
ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں


بت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا براہیم پدر اور پسر آذر ہیں
تم کو شکایت ہے کہ اغیار اچھے مکانوں میں رہتے ہیں۔ اچھے گھر تو علم و فن اور ہمت سے بنتے ہیں۔ تم علم و فنون سے بے بہرہ ہو گئے ہو اس لیے تمہارے پاس اچھے گھر بھی نہیں:
جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہو
عقائد و اعمال کا مجموعی نام اسلام ہے۔ مسلمانوں کو جو تعلیم دی گئی تھی وہ فطرت کی تعلیم تھی۔ یہ تعلیم وحی سے بھی حاصل ہوتی ہے اور از روئے قرآن مشاہدہ فطرت اور تحقیقی تفکر سے بھی۔ اگر وہ وسیع آزاد اور پاکیزہ ہو تو معرفت کا ذریعہ ہے۔ جس کی فطرت سلیم ہو اس میں سے اخلاق حسنہ خود بخود ابھرتے ہیں۔ علم و فنون سے زندگی میں بے شمار بھلائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ یہ خوبیاں انہیں میں پائی جائیں جو محض حادثہ ولادت سے مسلمان کہلانے والے لوگوں کے گھروں میں پیدا ہوئے ہیں۔ اخلاقی خوبیاں اسلام کی تلقین سے پہلے تمام اقوام کے اچھے افراد میں موجود تھیں۔ چنانچہ رسول کریم ؐ نے فرمایا:
’’ اے گروہ مومنین تم میں اسلام لانے کے بعد بھی وہی لوگ اچھے ہیں جو از روے فطرت اس دین میں داخل ہونے سے قبل بھی اچھے تھے‘‘ خیار کم فی الجاھلیتہ خیار کم فی الاسلام
حضرت عمر فاروقؓ میں اگر عدل کا جوہر پہلے سے موجود نہ ہوتا تو اسلام میں داخل ہونے کے بعد یک بیک کہاں سے پیدا ہو جاتا؟ اسلام نے اس کو قوی اور منور کر دیا۔ اسی طرح اور صحابہ کرام کی سیرتیں ہیں۔ ان میں سے کوئی ایسا نہیں جو پہلے دروغ گو ہو اور پھر راست گفتاری کا شیوہ بعد از قبول اسلام اختیار کیا ہو۔ اسلام نے لوگوں کی فطری صلاحیتوں کو اچھے اور وسیع اغراض و مقاصد میں لگا دیا۔ اسلام کامل تو کسی مرد کامل ہی میں ہو سکتا ہے لیکن اس کے بہت سے اجزاء میں سے وہ انسان بھی بہرہ اندوز ہو سکتے ہیں جو پیدائشی مسلمان نہیں ہیں، لیکن فطرت اور تجربہ حیات نے ان کو صحیح راستوں کی طرف راہنمائی کر دی ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ پیدائشی مسلمانوں میں اسلام کا ایک چوتھائی حصہ پایا جائے جو زیادہ تر اقرار باللسان پر مشتمل یا بعض شعائر اسلام کی ظاہری پابندی میں محصور ہو اور تین چوتھائی حصہ کسی ایسے شخص کے اقوال و اعمال میں نمایاں ہو جو اتفاق سے اس امت میں پیدا نہیں ہوا جو اسلام کا نام لیوا ہے۔ صحیح بخاری میں دو تین احادیث ہیں جن میں رسول کریم ؐ نے فرمایا ہے کہ اعمال صالحہ ایمان کا قریباً تین چوتھائی حصہ ہیں۔ اسی اصول کے مطابق جواب شکوہ میں شاکی مسلمانوں کو خدا نے ڈانٹ کر کہا ہے کہ تو کہتا ہے کہ غیر مسلمان کو اسی دنیا میں حور و قصور ملتے ہیں اور مسلمان کو فقط آخرت کے وعدوں پر ٹرخایا جاتا ہے۔ تیرا یہ خیال باطل ہے۔ خالی مسلمان کہلانے سے کیا ہوتا ہے۔ خدا کے قوانین حیات عادلانہ قوانین ہیں اور عدل اس کا نام ہے کہ یار و اغیار سب پر اس کا مساوی اطلاق ہو۔ جس کو تو کافر سمجھتا ہے وہ عملاً تجھ سے بہتر مسلمان ہے۔ اس لیے کہ تیرے مقابلے میں اس نے اسلام کا بیشتر حصہ اپنا لیا ہے۔ اس کے اجر میں اس کو یہیں حور و قصور مل گئے ہیں۔ خدا کے ہاں اعمال کا ذرہ ذرہ تلتا ہے۔ اب میزان عمل میں تیری خوبیوں کا پلڑا ہلکا ہو گیا ہے اور جسے تو کافر کہتا ہے اس کا پلڑا بھاری ہو گیا ہے۔ خدا کے ہاں رعایت کا دخل نہیں۔ خدا یہ نہیں کر سکتا کہ محض تمہارے دعوؤں اور زبانی اقراروں کی وجہ سے تم کو نوازتا جائے اور جو منہ سے تو نہیں کہتے لیکن اچھے عمل کرتے ہیں ان کو نظر انداز کر دے:
کیا کہا بہر مسلماں ہے فقط وعدۂ حور
شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور


عدل ہے فاطر ہستی کا ازل سے دستور
مسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حور و قصور


تم میں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں
جلوۂ طور تو موجود ہے موسیٰ ہی نہیں
یہ جو شور مچا ہوا ہے کہ آزاد و مہذب قوم کی حیثیت سے مسلمان نابود ہو گئے ہیں، اس لیے کہ مقتدر اور علم و فنون سے بہرہ ور اقوام میں ان کا شمار نہیں تو اس کا سیدھا جواب حضرت اقبال خدا کی زبان سے یہ دیتے ہیں کہ مسلمان ہوتے ہوئے کوئی ملت کیسے نابود ہو سکتی ہے؟ اسلام تو ہمیشہ باقی رہنے والی چیز ہے اور جو ملت اس پر عامل ہو اس کی بقا کا بھی خدا اور اس کی فطرت ضامن و کفیل ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ مسلمان موجود ہی نہ تھے جو نابود ہو جاتے۔ جو نابود ہوئے ہیں ان میں نام کے سوا اسلام کی کوئی بات نہ تھی۔ عقائد میں، معاشرت میں، تہذیب و تمدن میں وہ دوسری اقوام کے بیہودہ نقال اور مقلد تھے۔عیسائی تو کئی انقلابات کے بعد زندگی کا تجربہ حاصل کر کے اپنی فکر کو آزادانہ تحقیق میں لگا کر، رہبانیت سے ہٹ کے زندگی میں ہمہ سمتی جدوجہد کو اپنا شعار بنا کر، مسلم آئین ہو گئے اور تم رجعت قہقری سے اسلام کو چھوڑ کر انہیں پرانے باطل عقائد پر آ گئے۔ نصاریٰ کی ظاہری وضع کی نقل کی اور تمدن میں ہندوؤں کے ذات پات کے امتیاز کو اختیار کر لیا اور دوسری طرف یہودیوں کی طرح اپنے آپ کو ابناء اللہ اور خدا کی منتخب قوم سمجھ کر نجات کے اجارہ دار بن گئے۔ خود یہودیوں نے اب یہ خیال بہت کچھ ترک کر دیا ہے، لیکن تم جنہیں جو اس ادعا سے منع کیا گیا تھا اس عقیدے پر اڑ گئے ہو۔ اب تو یہودی بھی تم سے زیادہ حکمت پسند ہو گئے ہیں۔ اپنی جدوجہد، حکمت عملی اور ایثار سے وہ تمہیں دھکیل کر فلسطین میں داخل ہو گئے ہیں:
شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود


وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود


یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟
مسلمان اور فرنگی نصاریٰ کا مقابلہ کرتے ہوئے مفتی محمد عبدہ مفکر و مصلح مصر نے کیا درست بات کہی ہے جو علامہ اقبال ہی کے خیال کے مطابق ہے کہ ’’ اعمالہم کد یننا، واعمالنا کدینھم‘‘ مغربیوں کے اعمال ہمارے دین کے بہت کچھ مطابق ہو گئے ہیں او رہمارے اعمال غلط روی میں بہت کچھ ان کے پورے دینی عقائد کے مماثل ہیں۔
ہاں تو سوال یہ تھا کہ ملت اسلامیہ کی موجودہ حالت کی نسبت اگر اقبال کے خیالات یہ ہیں کہ دین، ایمان اور عمل سے محروم ہو گئی ہے اور دوسری قومیں اسلام کے زیادہ حصے پر عامل ہو کر دنیا میں معزز اور قوی ہو گئی ہیں، اس کے باوجود اس گری ہوئی حالت میں بھی ملت اسلامیہ سے اسے اس قدر وابستگی کیوں ہے؟ اب وہ کیوں ان قوموں سے رشتہ نہیں جوڑ لیتا جنہیں وہ زیادہ مطابق اسلام پاتا ہے؟ علاوہ ازیں ملت اسلامیہ کے بارے میں اس زبوں حالی کے باوجود اس پر مایوسی کیوں طاری نہیں ہوتی؟ وہ کیوں مستقبل میں اس سے یہ توقع رکھتا ہے کہ دوبارہ اس کا احیاء ہو گا اور پھر نوع انسان کی قیادت اس کے ہاتھ آ جائے گی؟ اس کا جواب دو تین پہلوؤں سے دیا جا سکتا ہے۔ پہلے تو سیدھی اور فطری بات یہ ہے کہ انسان جس ملت میں پیدا ہوا ہے اس کی نالائقی اور بے راہ روی کے باوجود نہ وہ اس سے اپنا رشتہ منقطع کرنا چاہتا ہے اور نہ کر سکتا ہے۔ بلند پایہ نفوس اپنی قوم کی حالت زبوں سے پریشان اور بے زار ہو کر اس کی طرف سے منہ نہیں موڑ لیتے۔ قوم کی حالت جس قدر گری ہوئی ہو اسی قدر ایک حولہ مند اور بلند ہمت مفکر اور مصلح یہ اپنا فرض محسوس کرتا ہے کہ گریز کی بجائے ستیز پر کمر ہمت باندھے۔ مساعد حالات میں تو ہر کہ و مہ عزت و آبرو کی زندگی بسر کر سکتا ہے۔ انسان کا امتحان نامساعد حالات میں ہوتا ہے۔ مساعد حالات میں رہبری کوئی دشوار کام نہیں، لیکن ایسے حالات میں جب کہ قوم نہ صرف تباہ حال ہو بلکہ اس کے دل میں سے احساس زیاں بھی جاتا رہا ہو، صحیح فکر و عمل کی تلقین ایک مجاہدانہ فطرت اورپیمبرانہ سیرت کا تقاضا کرتی ہے:
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
مسلمانوں کی حالت اقبال کے زمانے میں ایسی ہی تھی۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے زوال اور انحطاط کی انتہا ۱۸۵۷ء میں ہوئی جب کہ ایک طرف فرنگی فاتحین اور دوسری طرف برادران وطن نے مسلمانوں کو چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پیس ڈالنے کی کوشش کی۔ مولانا حالی نے ’’حیات جاوید‘‘ میں لکھا ہے کہ اس زبوں حالی اور یاس انگیز کیفیت میں جب حالت یہ تھی کہ:
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
سید احمد خاں جیسے مرد عاقل و مجاہد کے دل میں بھی یہ خیال گزرا کہ اس وطن سے ہجرت کر کے کسی اسلامی ملک میں چلے جائیں جہاں مسلمانوں کا کچھ اقتدار و وقار موجود ہو اور عزت و آبرو سے زندگی کے باقی ایام گزر جائیں۔ کچھ عرصے تک یہ خیال دل میں گردش کرتا رہا لیکن پھر ساداتی غیرت نے جوش مارا کہ ملت کو خراب حالت میں چھوڑ کر ذاتی آسائش اور عزت کے لیے ترک وطن کرنا ایک نہایت مذموم قسم کی ہجرت ہو گی۔ حمیت کا تقاضا یہی ہے کہ انہیں حالات میں پستی اور جہالت پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور جہاں تک ہو سکے اس قوم کو ذلت کے گڑھے میں سے نکالا جائے۔ اس کے لیے غیر معمولی علمی اور عملی کوشش اور غیر معمولی جان نثاری کی ضرورت تھی۔ ان حالات میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہوتی ہے کہ جس قوم کو آپ ابھارنا چاہتے ہیں وہی آپ کو اپنا دشمن سمجھتی ہے۔ جہالت اور غلامی میں خیر و شر کے معیار الٹ جاتے ہیں۔ بھلائی برائی معلوم ہوتی ہے اور برائی بھلائی۔ چنانچہ سید صاحب کی مخالفت نہ انگریزوں نے کی اور نہ ملک کی غیر مسلم ملتوں نے۔ زیادہ مخالفت علماء جامد کی طرف سے ہوئی جنہیں نہ زوال ملت کے اسباب سمجھ میں آتے تھے اور نہ ان کا کوئی صحیح علاج سوجھ سکتا تھا۔ وہ قدامت کو دین اور جدت کو بدعت سمجھتے تھے۔ وہ یہ نہ جان سکتے تھے کہ جو قوم غالب آ گئی ہے اس کے غلبے کے اسباب کیا ہیں۔ یہ بات ان کے وہم میں بھی نہ آ سکتی تھی کہ ان کے عقائد و اعمال اور ان کے نظریہ حیات میں کچھ خلل ہے۔ سید کی کوششوں سے اقبال کے زمانے تک کچھ نہ کچھ بیداری قوم میں پیدا ہو چکی تھی، لیکن ابھی امراض بہت کچھ باقی تھے۔ منزل کی طرف چند قدم اٹھتے تھے، لیکن ابھی منزل بہت دور تھی اور منزل مقصود کا کوئی معین تصور بھی نہ تھا۔ جو کوئی رہبری کا دم بھرتا تھا مسلمانوں کا ایک گروہ اس کے پیچھے ہو لیتا تھا۔ کثرت سے لوگ بے بصیرت اور بے عمل پیرو ں کے پیرو تھے کہ وہ ان کی دنیا اور آخرت کے ضامن ہو جائیں گے۔ بعض پیروں سے بڑھ کر امام حاضر الوقت اور مہدی و مسیح بن گئے تھے۔ بعضوں نے حصول اقتدار کی خاطر لیڈری شروع کر دی تھی۔ بعض حکمرانوں کے بے دام غلام تھے اور حکمران کے ذریعے سے عوام کو اپنے قبضے میں رکھنا چاہتے تھے۔ ہر قسم کے جھوٹے رہبر کو پیر و مل جاتے تھے اور مسلمانوں کی کیفیت یہ تھی:
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
قوم کو ابھارنے کے لیے مختلف علاج تجویز ہوتے تھے۔ کوئی کہتا تھا کہ مغربی تعلیم حاصل کرو تو دین کے ساتھ دنیا بھی درست ہو جائے گی۔ کوئی روایتی دینی تعلیم کو جدید علوم و فنون کی تعلیم پر مرحج سمجھتا تھا اور اس کے نزدیک یہی راہ نجات تھی۔ اقبال اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ سب علاج غلط ہیں۔ ملت کا اصل مرض نفسی مرض ہے۔ وہ فقط قرآن کی بتائی ہوئی اس حکمت بالغہ کا قائل تھا کہ خدا کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی نفسی حالت میں انقلاب پیدا نہ کرے۔ مغرب کے جید عالم نفسیات ولیم جیمز نے لکھا ہے کہ ’’ جدید نفسیات کا سب سے بڑا انکشاف یہ ہے کہ زندگی کے متعلق زاویہ نگاہ بدلنے سے تمام زندگی بدل جاتی ہے۔‘‘ دیکھئے علم نفسیات کی ترقی نے انسان کو وہی راز بتایا جو ازروئے وحی مسلمانوں اور تمام انسانوں پر چودہ سو سال پیشتر منکشف کیا گیا تھا۔ اقبال نے جب یہ تہیہ کر لیا کہ اس قوم میں انقلاب پیدا کیا جائے تو نہ وہ سیاست کی طرف مائل ہوا اور نہ مسلمانوں کو نیا علم معیشت سکھانے لگا کہ اقتصادی حالت درست کرو اور اس کے لیے ہر طرح سے دولت کماؤ اور بچاؤ اور نہ اس نے سائنس یا فلسفے یا جدید علوم و فنون کو اس مرض کے لیے اکسیر سمجھا۔ اس نے دیکھا کہ قوم کی نفسیات میں شدید خرابی ہے، اسلامی زندگی کا صحیح تصور اس کے ذہن سے نکل چکا ہے اور اس کی جگہ غلط تصورات نے لے لی ہے ’’ جائے خالی را دیوی گیرد‘‘
کوتاہ اندیش لوگ اقبال کو بھی ایک شاعر اور فلسفی سمجھتے ہیں اور اس پر بے عمل ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ ان لوگوں کے نزدیک یا دن کے ظواہر کی پابندی عمل کہلاتی ہے یا سیاسی اور معاشی جدوجہد۔ مولویوں کو اقبال اپنے مقابلے میں نماز کا کم پابند نظر آیا اور نہ اس میں سیاسی لیڈروں کی ہیجان آفرینی دکھائی دی۔ ایسے لوگوں کے سامنے اس نے اپنے آپ کو بے عمل کہنا شروع کر دیا:
اقبال بڑا اپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا


مسجد تو بنا لی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
دل اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
کہیں کتا ہے:
میں نے اقبال سے ازراہ نصیحت یہ کہا
عامل روزہ ہے تو او رنہ پابند نماز
اور کبھی اپنا کارنامہ یہ بیان کرتا ہے:
دیا اقبال نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا
یہ اک مرد تن آساں تھا تن آسانوں کے کام آیا
لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ کسر نفسی ہے اور اقبال یہ سب کچھ اپنے متعلق کوتاہ اندیشوں کی مخاصمانہ تنقید کے مدنظر استہزاء سے بیان کر رہا ہے ورنہ اس کو یقین کامل اور قوی اعتماد ہے کہ خدا نے نفوس ملت میں انقلاب آفرینی کا کام اس کے سپرد کیا ہے جس میں پیغمبری کا شائبہ پایا جاتا ہے۔ جس روز سے اس کو یہ احساس پیدا ہوا اس سے لے کر یوم وفات تک وہ اٹھتے، بیٹھتے، سوتے جاگتے اسی کام میں منہمک رہا۔ خدا نے اس کو ایسا باکمال شاعر بنایا تھا کہ خالی شاعری سے بھی وہ دنیا بھر کے شعرائے عظام کی صف اول میں کھڑا ہو سکتا تھا لیکن اس نے اس کمال کو محض پیام رسائی اور انقلاب نفوس ملت کے لیے وقف کر دیا۔ محض تفنن طبع کی شاعری کرنے والوں نے کہا کہ اب وہ شاعر نہیں رہا، واعظ اور مبلغ اور پیغمبری کا دعویدار ہو گیا ہے۔ آخر میں اس نے بھی ان کی تائید شروع کر دی کہ ہاں میں شاعر نہیں ہوں۔ اسی طرح جیسے صوفیائے کرام نے ظاہر پرستوں کے خلاف کہنا اور عمل کرنا شروع کیا اور یہ تلقین کی کہ دین فقط عشق الٰہی اور محبت خلق خدا کا نام ہے، محض حصول ثواب آخرت کی خاطر شریعت کی پابندی دین نہیں ہے تو ارباب ظاہر نے ان کو کافر قرار دیا۔ جب تکفیر کے فتوے سنتے سنتے تنگ آ گئے تو انہوں نے خود اپنے لیے کفر کی اصطلاح اختیار کر لی اور علی الاعلان کہنے لگے کہ بھائی اگر تم مسلمان ہو تو پھر ہم مسلمان نہیں ہم کافر ہیں۔ تمہیں تمہارا اسلام مبارک اور ہمیں ہمارا کفر مبارک:
کافر عشقم مسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگ من تار گشتہ حاجت زنار نیست
(خسرو)
مذہب عشق از ہمہ دیں با جداست
سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
مذہب عشق اختیار کیا
 

فرخ منظور

لائبریرین
اقبال نے دیکھا کہ دین اور دنیا دونوں کے متعلق مسلمانوں کا زاویہ نگاہ غلط ہو گیا ہے اور اسی لیے وہ خسران دنیا و آخرت میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ حکمت کو سوز عشق سے گرما کر اور شعر کی اثر آفرینی سے کام لے کر ان کے نفوس میں انقلاب پیدا کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کی آرزوئیں غلط ہو گئی ہیں ان کی آرزوؤں کو بدلنا چاہیے۔ اس قوم کا حقیقت میں کوئی نصب العین نہیں رہا، اسی لیے اس کی کوششیں بے نتیجہ ہوتی ہیں، اس کی خواہشیں پست ہو گئی ہیں۔ ایک روز علامہ نے میرے سامنے شمع و شاعر کے اس شعر کی شرح فرمائی:
قیس پیدا ہوں تری محفل میں یہ ممکن نہیں
تنگ ہے صحرا ترا محمل ہے بے لیلا تیرا
فرمانے لگے کہ ہماری قوم کے دیندار ہوں یا دنیا دار، ان کا میدان عمل نہایت تنگ ہوتا ہے اور محمل بے لیلیٰ وہ دل ہے جس میں مقصود زندگی اور غایت حیات کا کوئی ایسا تصور نہ ہو جو اپنی کشش سے انسان سے مجنونانہ جدوجہد کرا سکے۔ بڑے بڑے کام عشق یا جنون ہی سے ہوتے ہیں۔ جہاں میدان عمل تنگ ہے اور محمل میں لیلیٰ ہی نہیں وہاں قیس جیسے مجنوں کہاں پیدا ہوں گے؟ افسوس ہے کہ اس قوم کا کوئی نصب العین نہیں، ہر فرد اپنے ادنیٰ مفاد عاجلہ میں لگا ہوا ہے اور اپنی ذات سے باہر اس کے لیے کچھ نہیں۔ اس میں کوئی زندہ تمنا نہیں جو قلب کو گرما دے اور روح کو تڑپا دے، لیکن قوم کی ایسی حالت کے باوجود بھی اقبال مایوس نہیں تھا۔ مایوسی اس کے نزدیک کفر کے مرادف تھی۔ وہ اسی امید میں اپنے آنسوؤں سے اس مٹی کو تر کرتا رہا کہ
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
اسلام اقبال کے نزدیک زندگی کے اساسی رحجانات کا حامل اور انسانی زندگی کے ارتقاء لا متناہی کا لائحہ عمل ہے، اس لیے یہ دین کبھی فرسودہ نہیں ہو سکتا۔ مرور ایام اس میں کہنگی پیدا نہیں کر سکتا۔ جس حد تک جس زمانے میں کوئی ملت اس پر کاربند ہو گی، اس حد تک وہ قوت اور بصیرت سے بہرہ اندوز ہو گی۔ ملت اسلامیہ صدیوں کے انحطاط سے جادۂ اسلام سے ہٹ گئی ہے لیکن اس اصول کے مطابق کہ ہر چیز اپنی اصلیت کی طرف عود کرتی ہے (کل شیی یرجع الیٰ اصلہ) یہ ملت دوبارہ اسلام کی طرف لوٹے گی۔ ایک صاحب نے دوران گفتگو میں ان سے سوال کیا کہ کیا یہ تاریخی حقیقت نہیں ہے کہ ہر قوم کے عروج کا ایک دور ہوتا ہے، ایک نقطہ کمال تک پہنچ چکنے کے بعد اس کا زوال شروع ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ قوم نابود ہو جاتی ہے۔ یونان و مصر و روما اور دیگر عظیم الشان قومیں جنہوں نے بڑی بڑی تہذیبیں او ربلند پایہ تمدن پیدا کیے، ان میں سے پھر کس کا اعادہ ہوا کہ ہم ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کی امید رکھیں؟ علامہ نے فرمایا کہ یہ نظر بالکل غلط ہے اور مغرب کی غالب اقوام نے مغلوب اقوام کو مایوس کرنے کے لیے یہ خیال باطل ان کے ذہنوں میں ڈال دیا ہے ۔ ایک ملت کا احیاء خدا کے لیے کیا دشوار ہے۔ اسلامی عقیدہ ہے کہ تمام دنیا مر کر پھر زندہ ہو گی۔ اقبال کا خیال کس قدر درست نکلا، ہمارے دیکھتے دیکھتے اقوام کس کس طرح زندہ ہوئی ہیں۔ ایک چین ہی کی مثال لے لیجئے۔ چین کا تمدن اور اس کی تہذیب بڑے عروج پر پہنچ کر ایک ہزار سال سے زائد عرصے سے ساکن و جامد تھے اور مغرب والے کہہ رہے تھے کہ یہ افیون خوردہ قوم اب ہمیشہ اسی طرح اونگھتی رہے گی گذشتہ تیس سال کی جدوجہد نے اس کی ایسی کایا پلٹ دی ہے کہ مغربی اقوام اس سے لرزہ بر اندام ہیں۔ اس میں زندگی کی ایسی لہر دوڑ گئی ہے کہ اس کے فکر و عمل کا ہر شعبہ دگرگوں ہو گیا ہے۔ یونان و روما کی تہذیب و تمدن اور زوال کے بعد طلوع عیسویئت سے لے کر از منہ متوسط کی انتہا تک تمام فرنگ کی یہ حالت تھی کہ فرنگ ہی کے مورخ اس دور کو از منہ مظلمہ یا تاریکی کے زمانے کہتے ہیں۔ گبن جیسے مورخ کا نظریہ ہے کہ اس زوال کی ذمہ دار عیسائیت تھی جس نے لوگوں کا نظریہ حیات بگاڑ دیا۔ ٹائن بی اور بعض دوسرے مقتدر مورخ اس سے متفق نہیں ہیں لیکن یہ واقعہ ہے کہ نشاۃ ثانیہ سے قبل کا قریباً ہزار سال فرنگ ارتقائے حیات سے محروم، جامد اور ہر قسم کے دینی، ذہنی اور سیاسی استبداد کا شکار تھا۔ اس دور میں مسلمان تہذیب و تمدن اور علوم و فنون میں موجد و خلاق تھے اور وہ فرنگ کو اسی زاویہ نگاہ سے دیکھتے تھے جس سے فرنگ نے سترہویں اور اٹھارویں صدی میں ایشیا کو دیکھنا شروع کیا۔ ابن خلدون جیسا حکیمانہ نظر رکھنے والا مورخ بھی اس زمانے کے فرنگ کے متعلق یہ سوچنے لگتا ہے کہ یہ قومیں اس قدر غبی کیوں ہیں۔ جس طرح بعض علمائے فرنگ ایشیا اور افریقہ کی پس ماندگی کو گرم آب و ہوا پر محمول کرتے تھے جو ذہنوں میں جودت اور جدت اور بدن میں قوت اور ہمت پیدا نہیں ہونے دیتی، اسی طرح مغرب کے علوم و فنون سے بے بہرہ ہونے کو مسلمان فرنگ کی آب و ہوا پر محمول کرتے تھے کہ ان ملکوں میں سردی ایسی شدید ہوتی ہے کہ دماغ میں افکار بھی منجمد ہو جاتے ہیں۔ یہی فرنگ جس نے ایشیا والوں کو یہ سبق پڑھانا شروع کیا کہ قوموں کا احیاء نہیں ہوتا، اس سے یہ پوچھنا چاہیے کہ خود تمہارا احیاء کیوں کر ہوا؟ اور اپنے احیاء کو وہ خود نشاۃ ثانیہ کہتے ہیں یعنی جمود اور موت کے بعد زندگی کااز سر نو ابھرنا۔ تمہاری نشاۃ ثانیہ ہو سکتی ہے تو دوسروں کی کیوں نہیں ہو سکتی؟ تم نے اس نشاۃ ثانیہ کے بعد وہ زور باندھا کہ دنیا پر چھا گئے۔ علوم و فنون اور وسعت مملکت میں ملل ماضیہ میں سے کوئی بھی اہل فرنگ کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ قرآن کریم میں اصحاب کہف کا قصہ غالباً اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسانوں کے بعض گروہ صدیوں کی مرگ نما نیند کے بعد دوبارہ زندگی پا سکتے ہیں۔ فرنگ کا عروج اس کی پہلی تہذیبوں اور تمدنوں کے مقابلے میں بہت عظیم تھا اگر اقبال ملت اسلامیہ کے متعلق اس قسم کی امید رکھتا ہے تو اسے محض ایک سہانا خواب سمجھنا ہو کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ اقبال کی بعض شاندار نظمیں یاس و حرماں کے تاثر سے شروع ہوتی ہیں لیکن ہمیشہ امید پر ختم ہوتی ہیں۔ شمع و شاعر کے شروع کے اشعار پڑھیے:
قیس پیدا ہوں تری محفل میں یہ ممکن نہیں
تنگ ہے صحرا ترا محمل ہے بے لیلا ترا


اے در تابندہ اے پروردہ آغوش موج
لذت طوفاں سے ہے نا آشنا دریا ترا


اب نوا پیرا ہے کیا؟ گلشن ہوا برہم ترا
بے محل تیرا ترنم نغمہ بے موسم ترا
٭٭٭
آہ جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہو چکی
پھول کو باد بہاری کا پیام آیا تو کیا


بجھ گیا وہ شعلہ جو مقصود ہر پروانہ تھا
اب کوئی سودائی سوز تمام آیا تو کیا
٭٭٭
پھول بے پروا ہیں، تو گرم نوا ہو یا نہ ہو
کارواں بے حس ہے آواز درا ہو یا نہ ہو
٭٭٭
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
ایسے کئی اشعار کہہ کر یہ امید کا پیامبر یک بیک چونکتا ہے تو ظلمت شب کے بعد اس کو کچھ روشنی د کھائی دینے لگتی ہے:
شام غم لیکن خبر دیتی ہے صبح عید کی
ظلمت شب میں نظر آئی کرن امید کی


مژدہ اے پیمانہ بردار خمستان حجاز
بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے ہوش
اب زمانہ قریب آ گیا ہے کہ یہ ملت اپنی خود داری کے عوض بادۂ اغیار نہ خریدے گی، اب ملت کو اپنی خودی اور اپنے مقام کا احساس ہونے والا ہے۔ اقبال اس احساس کو تیز کرنا چاہتا ہے اور مقصود تک پہنچنے کے لیے جو کچھ ضروری ہے اس کی تلقین کرتا ہے۔ اب تن آسانی کو چھوڑو کیوں کہ ذوق تن آسانی ہمت کا رہزن ہے، جوئے گلشن ہونے کی بجائے قلزم متلاطم بن جاؤ، اپنی اصلیت پر قائم ہو جاؤ، قطرے سے اسرار حیات سیکھو کہ وہ شبنم اور آنسو ہونے کے علاوہ گوہر بھی بن سکتا ہے۔ افراد میں قوت تنہا روی سے نہیں بلکہ ربط ملت سے پیدا ہوتی ہے، افراد دریائے ملت کی موجیں ہیں، دریا کے باہر موج کا کوئی مستقل وجود نہیں ہو سکتا، دریا کی حقیقت کے مقابلے میں افراد کا وجود مجازی ہے شرق و غرب ہو یا جدید و قدیم، ان میں سے کسی کی تقلید نہ کرو، حیات تحقیق اور جدت کوشی کا نام ہے:
خیمہ زن ہو وادی سینا میں مانند کلیم
شعلہ تحقیق کو غارت گر کاشانہ کر
زندگی اپنے انداز بدلتی رہتی ہے، صوفیہ کہتے ہیں کہ تجلی میں تکرار نہیں، زندگی جو مظہر ذات و صفات الٰہیہ ہے وہ بھی ’’ کل یوم ھو فی شان‘‘ ہے، اب اس نشاۃ ثانیہ میں جو قریب آ رہی ہے تم اپنی قدیم تہذیب و تمدن کے ڈھانچوں کو واپس نہ لا سکو گے۔ ہر نئی زندگی نئے قالب کی متقاضی ہوتی ہے:
کیفیت باقی پرانے کوہ و صحرا میں نہی
ہے جنوں تیرا نیا پیدا نیا ویرانہ کر
یہ مضمون کسی قدر دوسرے انداز میں اس شعر میں بھی ملتا ہے جو پہلے درج ہو چکا ہے:
کبھی جو آوارۂ جنوں تجھے وہ بستیوں میں پھر آبسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہو گا
مسلمانوں کی تقدیر آخر کار وہی ہے جو اسلام کی تقدیر ہے، اگر اسلام کا چراغ حوادث کی پھونکوں سے بجھایا نہیں جا سکتا تو اسلام پر عمل کرنے والی امت کیوں آنی اور فانی ہو:
بے خبر تو جوہر آئینہ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
مسلمان کا مستقبل اقبال کو نہایت درخشندہ نظر آتا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اقبال کے نزدیک اسلام نوع انسان کی تقدیر اور اس کے ارتقاء کا جادہ ہے اور منزل بھی۔
شمع و شاعر کے آخری بند میں پیش گوئیاں ہیں، ظالموں کا ظلم ختم ہو کر اس کے نتائج خود اس کی طرف پلٹنے والے ہیں۔ اب پرندے خوشی سے چہچہائیں گے اور صیاد نالہ و زاری کجریں گے، خون گلچیں سے کلی رنگیں قبا ہونے والی ہے، قوت کے نشے میں سرمست قومیں آپس میں ٹکرا کر پاش پاش ہو جائیں گی، دنیا کا پہلا نظام تہ و بالا ہونے والا ہے اور اس کی جگہ جو نیا عالم ظہور میں آنے والا ہے وہ چشم بصیرت کو نظر آ رہا ہے لیکن وہ اس قدر حیرت انگیز ہو گا کہ اس کے بیان کے لیے الفاظ نہیں مل سکتے۔ یہ انقلاب عالمگیر ہو گا، صرف ملت اسلامیہ ہی اس سے دگرگوں نہ ہو گی بلکہ تمام نوع انسان کا رنگ بدل جائے گا او ریہ انقلاب انسانوں کو اسی مقصود کی طرف لے جائے گا جو اسلام کا منشا تھا۔ لہٰذا سب سے زیادہ مسلمانوں کے لیے باعث مسرت ہو گا، تمام جھوٹے معبودوں کی پرستش ختم ہو جائے گی، لا الٰہ کے بعد الا اللہ کا دور آئے گا:
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی


شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے
اقبال کے ہاں اسلام اور مسلم اور آدم کے نصب العینی تصورات ملتے ہیں۔ اس کے نزدیک اسلام حیات و کائنات کی ازلی و ابدی صداقتوں کا نام ہے، جہاں تک موجودہ اسلام دور حاضر کے مسلم اور موجودہ انسان کا تعلق ہے یہ سب نصب العین سے بہت دور ہیں، اس وقت اسلام کو پیش کرنے والوں کے جو نظریات یا اعمال ہیں ان سے وہ بے حد بیزار ہے۔ اسلام اور مسلم دونوں کی صورتیں مسخ ہو چکی ہیں، اقبال کا آدم کا تصور قرآنی تصور ہے جس میں انسان کامل نائب الٰہی اور مسخر کائنات ہے۔ موجودہ انسانوں میں یہ صفات کہاں، وہ انسان کی احسن تقویم کا قائل ہے اور پھر یہ بھی بخوبی جانتا ہے کہ اس وقت تک وہ اسفل السافلین کی ذات سے نہیں نکل سکا۔ از روئے قرآں اکثر انسانوں کی یہ حالت ہے کہ وہ نہ صرف جانوروں کی طرح ہیں بلکہ درجہ حیات میں اسن سے بھی گرے ہوئے ہیں ’’ کالانعام بل ہم اضل‘‘ خدا سے پوچھتا ہے کہ کیا یہی آدم ہے جو سامنے نظر آتا ہے، خلیفتہ اللہ فی الارض ہے، جسے نہ اپنی سمجھ ہے، نہ خدا کی، نہ کائنات کی؟
یہی آدم ہے سلطاں بحر و بر کا؟
کہوں کیا ماجرا اس بے بصر کا


نہ خود بیں نے خدا بیں نے جہاں بیں
یہی شہکار ہے تیرے ہنر کا؟
پھر ایک اور جگہ اس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسانوں کو نصب العینی آدم بننے کے لیے ابھی بے شمار مراحل طے کرنے پڑیں گے۔جادۂ ارتقاء پر سفر کرتے ہوئے ابھی اس کو بہت لمبی مسافت طے کرنی ہے:
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے، اب مرا انتظار کر
مسلم، مومن یا آدم کے متعلق اقبال جو کچھ کہتا ہے اس میں وہ در حقیقت انسان اکمل کے خط و خالکو معین کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کا عقیدہ ہے کہ اسلام ایسے انسان پیدا کر چکا ہے اور آئندہ بھی پیدا کرے گا، اگر ایسے لوگ اس وقت اور ملتوں میں پائے جاتے ہیں تو ان کو بھی مسلم ہی کہنا چاہیے اور مسلمان جو اس فکر و عمل سے عاری ہیں وہ اسلام سے خارج ہیں، محض اسلامی نام رکھنے سے کوئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا:
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
اسی زمین میں غالب کا بھی مطلع ہے، جس میں نصب العینی انسان بننے کی دشواری کو بیان کیا ہے:
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
اقبال کے نزدیک کسی قوم کا ملی شعور اس کی تاریخ سے صورت پذیر ہوتا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ میں مردان خدا کی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ معرفت کوش مسلمان ان نمونوں سے کسب فیض کر کے اپنے آپ کو بلند کر سکتا ہے۔ توحید کو جس خالص طریقے سے اسلام نے پیش کیا ہے اس کی مثال دوسرے ادیان میں نہیں ملتی۔ ملت اسلامیہ اپنی کوتاہیوں کے باوجود ایک روحانی و عرفانی بصیرت کی وارث ہے، یہ بصیرت توحید کو سمجھنے پر مشتمل ہے، اس صداقت پر عمل کرنا سب سے زیادہ مسلمان کا حق اور اس کا فرض ہے۔ جن مسلمانوں نے اس حق کو پہچانا اور اس صداقت کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالا وہ اسی ملت کے افراد تھے جس ملت کے افراد اس وقت خود فراموشی اور خدا فراموشی سے گہری ظلمتوں میں گھر گئے ہیں، لیکن ہر شب کی آخر سحر ہوتی ہے اور ملتوں کی زندگی میں بھی جزر و مد ہوتا ہے، حالی نے مسدس کے شعر میں ایک بڑی یاس انگیز رباعی لکھی ہے:
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے


مانے نہ کوئی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے
اقبال کی طبیعت میں بھی کبھی کبھی یاس کی ایک ہلکی سی لہر پیدا ہوتی ہے لیکن بہت جلد امید اس پر غالب آ جاتی ہے۔ اقبال ملت کے انحطاط سے خوب واقف ہے لیکن اس کا مرثیہ گو نہیں، جب کسی لمحہ یاس میں کوئی دوسرا اس سے کہتا ہے یا اس کے اندر سے مسرت و اندوہ کی اس قسم کی صدا نکلتی ہے:
ہر نفس اقبال تیرا آہ میں مستور ہے
سینہ سوزاں ترا فریاد سے معمور ہے


زندہ پھر وہ محفل دیرینہ ہو سکتی نہیں
شمع سے روشن شب دو شینہ ہو سکتی نہیں
تو فوراً اسلام او رمسلمان کا ابدی نصب العین اس کے جواب میں گویا ہو جاتا ہے کہ آخر کار کیا یہ صداقت نہیں کہ توحید ہی حقیقت حیات و کائنات ہے اور خدا نے مجھے اس کا شاہد بنایا ہے۔ اگر یہ تصور مٹ گیا تو نوع انسان رسوا ہو جائے گی، میری حالت عارضی طور پر خراب ہو گئی ہے لیکن تقدیر عالم و آدم کی تقدیر ہے، میں ماضی کی داستانیں جھوٹے تفاخر کی بناء پر نہیں دہراتا بلکہ اس کے آئینے میں اپنے مستقبل کی تصویر دیکھتا ہوں۔ جس زمانے میں اقبال نے اس مضمون کی نظمیں لکھی ہیں اس دور میں مسلمانوں پر حد درجے کی مایوسی طاری تھی۔ سیاسی بے بسی، افلاس ، علوم و فنون میں پس ماندگی، غالب اقوام کے مقابلے میں بے چارگی غرضیکہ ہر طر ف ہمت شکنی کا سامان تھا، لوگ نہ صرف اپنے آپ سے بلکہ اسلام سے بھی مایود ہو رہے تھے کہ یہ دین بھی شاید اپنا کام ختم کر کے اب دفتر پارینہ ہو گیا ہے۔ اچھے اچھے ادیبوں، شاعروں اور مصلحین کی تحریروں اور تقریروں میں یہی فرومایگی نظر آتی تھی کہ سب اچھائیاں اور قوموں میں آئیں اور ہم کچھ نہیں۔ اس قسم کے احساس کمتری کی شدت سے قومیں فنا ہو جاتی ہیں۔ ہر ملت کی بقا اس کے اس شعور کی رہین منت ہوتی ہے کہ دنیا میں ہم کچھ مخصوص صفات عالیہ کی حامل ہیں، اگر یہ بات جاتی رہے تو قومیں یا فنا ہو جاتی ہیں یا دیگر اقوام میں ضم ہو کر گم ہو جاتی ہیں۔ اقبال نے مسلمانوں کے متعلق یہ شدید خطرہ محسوس کیا، اسی لیے اس کے احساس خودی کو ابھارنا اپنی شاعری کا وظیفہ بنا لیا اور مسلمانوں سے پکار پکار کر کہا کہ آؤ میرے ہم نوا ہو کر اس دعوے کا اعلان کرو:
ہم نشیں! مسلم ہوں میں توحید کا حامل ہوں میں
اس صداقت پر ازل سے شاہد عادل ہوں میں
اور جس صداقت کو مجھے دنیا میں پھیلانا ہے وہ شخصی یا ملی چیز نہیں، وہ کسی قوم یا نسل کا تعصب نہیں، یہ صداقت وہ ہے جس کی بدولت کائنات کا وجود قائم ہے اور جو مقصود تکوین عالم ہے:
نبض موجودات میں پیدا حرارت اس سے ہے
اور مسلم کے تخیل میں جسارت اس سے ہے


حق نے عالم اس صداقت کے لیے پیدا کیا
اور مجھے اس کی حفاظت کے لیے پیدا کیا


دہر میں غارت گر باطل پرستی میں ہوا
حق تو یہ ہے حافظ ناموس ہستی میں ہوا


میری ہستی پیرہن عریانی عالم کی ہے
میرے مٹ جانے سے رسوائی بنی آدم کی ہے


قسمت عالم کا مسلم کوکب تابندہ ہے
جس کی تابانی سے افسون سحر شرمندہ ہے


آشکارا ہیں مری آںکھوں پر اسرار حیات
کہہ نہیں سکتے مجھے نو مید پیکار حیات


کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے
ہے بھروسا اپنی ملت کے مقدر پر مجھے


یاس کے عنصر سے ہے آزاد میرا روزگار
فتح کامل کی خبر دیتا ہے ہوش کار زار
٭٭٭
ہاں یہ سچ ہے چشم بر عہد کہن رکھتا ہوں میں
اہل محفل سے پرائی داستاں کہتا ہوں میں


یاد عہد رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے
میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے


سامنے رکھتا ہوں اس دور نشاط افزا کو میں
دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں
٭٭٭
 

فرخ منظور

لائبریرین
چھٹا باب
شاعر انقلاب
اقبال ایک انقلابی شاعر ہے۔ ملت اسلامیہ نے اقبال کے لیے کئی القاب و خطابات تجویز کیے، کوئی انہیں حکیم ملت کہتا ہے اور کوئی ترجمان حقیقت، کوئی انہیں شاعر اسلام کہتا ہے۔ یہ تمام القاب بجا اور درست ہیں، لیکن اس کے علاوہ بھی صفات کے اور بہت سے پیرہن ہیں جو اس کے قامت پر راست آتے ہیں۔ وہ پیام بر خودی بھی ہے اور مبلغ ارتقاء بھی اور رمز شناس عشق بھی، لیکن اقبال کی تمام شاعری اور اس کے افکار اور جذبات پر جو چیز طاری معلوم ہوتی ہے وہ تمنائے انقلاب ہے۔ موجودہ دنیا کی کوئی حیثیت، کوئی شوکت، کوئی حکمت اور کوئی مذہب اس کو اطمینان بخشتا دکھائی نہیں دیتا، وہ مشرق و مغرب دونوں سے بے زار ہے، دونوں طرف زاویہ نگاہ اور نظریہ حیات اس کو غلط معلوم ہوتا ہے، تمام موجودہ زندگی پر اس کی تنقید مخالفانہ ہے، وہ صرف ملت اسلامیہ ہی میں نہیں بلکہ تمام دنیا میں اور اس کے ہر شعبے میں انقلاب کا آرزو مند ہے۔ عصر حاضر میں یا گذشتہ تین چار صدیوں میں جہاں جہاں انقلابی تحریکیں ہوئیں وہ پسندیدگی سے ان کا ذکر کرتا ہے۔ لوتھر کی اصلاح کلیسیا کی تحریک جس نے مغرب کے دینی تفکر کو بہت کچھ آزاد کر دیا اور حکمت و علم کی ترقی کے لیے راہیں کشادہ کر دیں، انقلاب فرانس جس میں حریت و مساوات و اخوت کا نعرہ بلند ہوا اور مغرب کی تمام زندگی تہ و بالا ہو گئی، مسولینی کی احیائے اطالیہ کی انقلابی کوشش، ان سب کا ذکر کرنے کے بعد وہ کہتا ہے کہ انقلابات نفوس میں ہیجان ہو اضطراب سے پیدا ہوتے ہیں۔ ملت اسلامیہ کچھ صدیوں سے ساکن و جامد تھی لیکن اب اس کے اندر ایک بیتابی نمایاں ہے، ضرور ہے کہ اس میں بھی انقلاب پیدا ہو۔ انقلابات جس جذبے سے پیدا ہوتے ہیں، اقبال اس جذبے کو عشق کہتا ہے۔ ٹھنڈی حکمت اور مفاد کوشی کبھی نظم حیات میں کوئی بنیادی تغیر پیدا نہیں کر سکتی۔ اقبال پوچھتا ہے کہ یہ کایا پلٹ کرنے والا جذبہ اب کس وادی اور منزل میں ہے؟ آخر ہماری طرف بھی متوجہ ہو گا:
کون سی وادی میں ہے کون سی منزل میں ہے
عشق بلا خیز کا قافلہ سخت جاں


دیکھ چکا المنی شورش اصلاح دین
جس نے نہ چھوڑے کہیں نقش کہن کے نشاں


حرف غلط بن گئی عصمت پیر کنشت
اور ہوئی فکر کی کشتی نازک رواں


چشم فرانسیس بھی دیکھ چکی انقلاب
جس سے دگرگوں ہوا مغربیوں کا جہاں


ملت رومی نژاد کہنہ پرستی سے پیر
لذت تجدید سے وہ بھی ہوئی پھر جواں


روح مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب
راز خدائی ہے یہ، کہہ نہیں سکتی زباں


دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
اقبال کی زندگی ہی میں کئی اقوام میں انقلاب آیا اور بعض انقلابات اس کی وفات کے دس پندرہ سال کے اندر ہی واقع ہوئے۔ وائرلو میں نپولین کو شکست فاش ۱۸۱۵ء میں ہوئی۔ اس کے قریبا ً ایک صدی بعد ۱۹۱۴ء میں پہلی جنگ عظیم واقع ہوئی۔ اس صدی میں چھوٹی بڑی جنگیں تو دنیا میں ہوتی رہی ہیں لیکن بحیثیت مجموعی دنیا کا ہر خطہ ایک خاص نظام کے اندر بغیر کسی بڑے ہیجان کے زندگی بسر کرتا رہا۔ ۱۹۱۴ء کی جنگ سے لے کر آج تک دنیا میں جو تلاطم بپا ہوا ہے اس کی مثال تاریخ کے کسی اور دور میں نہیں مل سکتی۔ دنیا کے تمام مغلوب گروہ انسانیت کے بنیادی حقوق طلب کرنے کے لیے آمادہ پیکار ہو گئے، ہر جگہ ملوکیت کے قصر میں زلزلہ آیا اور اس کے در و دیوار پیوند زمین ہو گئے، کاشتکار خون چوسنے والے زمینداروں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے جہاد کرنے لگے، مزدوروں نے سرمایہ داروں سے اپنے حقوق چھینے۔ سیاست اور معاشرت ہی میں نہیں بلکہ علوم و فنون میں بھی انقلاب آیا، طبعی سائنس نے ذروں کا جگر چیر کر اس کے اندر پنہاں قیامت کو آشکار کیا۔ انیسویں صدی میں اہل فرنگ فقط اپنے آپ کو زندہ اور متحرک اور ترقی پذیر سمجھتے تھے، تمام ایشیا ان کے نزدیک جمود و سکون کا مجسمہ تھا، ترکی کو مغربی سیاستدان مرد بیمار کہتے تھے، جو چراغ سحری تھا اور اس کی وسیع سلطنت کے حصے بخرے کرنے کے لیے کرگسوں کی طرح اس کے گرد منڈلاتے تھے، چین کو زبردستی افیون کا عادی بنانے کے لیے اس کے خلاف جنگ کر دی۔ ہندوستان کے متعلق انگریزوں کا خیال تھا کہ چند مغربی تعلیم یافتہ غیر مطمئن لوگ سرکاری عہدوں اور اقتدار میں کچھ حصہ لینے کے لیے ہنگامہ بپا کرتے ہیں، باقی رعایا مطمئن اور برکات حکومت برطانیہ کے راگ گاتی ہے، ایران کو روسیوں اور انگریزوں نے اپنی خفیہ سیاست کی بساط پر تقسیم کر رکھا تھا، فرانسیسی سمجھتے تھے کہ ہند چینی میں ہمیشہ ان کا اقتدار قائم رہے گا۔ انڈونیشیا میں ولندیزی تین سو سال سے تمام ملک کی دولت کو سمیٹ کر اطمینان سے لطف اٹھاتے تھے کہ ان اقوام میں اندرونی ہیجان اور حقوق کا احساس بیدار ہونے میں صدیاں گزر جائیں گی۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے یہ ہوا کہ صدیوں کی خفتہ قومیں بیدار اور ہشیار ہو گئیں اور آزادی کی جنگ میں ہر قسم کے ہتھیار استعمال کرنے لگیں۔ اقبال کے لیے ہر وہ تحریک خوش آئند تھی جو زندگی کے جمود کو توڑے، لیکن اس کی طبیعت ایسے ہمہ گیر انقلاب کی آرزو مند تھی جو صرف سیاست اور معاشرت ہی میں نہیں بلکہ انسان کی فطرت میں بھی کوئی نمایاں تبدیلی کرے۔ عالم اسلامی میں اقبال کے سامنے ایران اور ترکی میں انقلابی صورت پیدا ہوئی، وہ اس سے خوش تھے کہ ترکوں نے جہاد اور ایثار سے اپنے آپ کو مستحکم کر لیا۔ ایران کے انتشار میں رضا شاہ کی آمریت نے جو جمعیت پیدا کی وہ بھی اصلاح و ترقی کی طرف ایکج اہم قدم تھا، لیکن علامہ اقبال اسلامی ممالک میں ایسا انقلاب چاہتے تھے تو ملت کو نہ صرف مغربی سیاست کے پنجہ آہنی سے چھڑانے بلکہ مغربی مادیت، وطنیت اور الحاد سے بھی نجات دلوائے۔ مصطفی کمال اور رضا شاہ نے استحکام وطن کے لیے بہت کچھ کیا، لیکن مغرب سے سیاسی چھٹکارا حاصل کر کے تہذیب و تمدن میں فرنگ کی کورانہ نقالی اور تقلید شروع کر دی، اس بات کی تلقین شعوری یا غیر شعوری طور پر ان کے تمام کارناموں میں نظر آنے لگی کہ قوت و نجات اسی میں ہے کہ ہم بھی ہر حیثیت سے مغربی اقوام کے مشابہ و مماثل ہو جائیں۔ اسلامی زندگی کے مخصوص اقدار ان کی نظر سے اوجھل رہے، مشرق کے شعور میں ہمیشہ روحانی زندگی کو فوقیت حاصل رہی ہے، ہزاروں سال سے مشرق تمام ادیان عالیہ کا مولد اور گہوارہ رہا ہے، اسی لیے اقبال بعض اوقات روح اسلامی کی بجائے روح شرق کی اصطلاح بھی استعمال کرتا ہے۔ جب مصطفی کمال اور رضا شاہ اس کو زیادہ تر مغرب زدگی، نسلی قومیت کی پرستش اور وطنیت ہی نظر آئی تو وہ یہ پکار اٹھا:
نہ مصطفیٰ نہ رجا شاہ میں نمود اس کی
کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی
پیام مشرق کی ایک نظم میں مصطفی کمال پاشا کو خطاب کیا ہے اور ’’ زایدہ اللہ‘‘ کہہ کر اس کے لیے دعائے ہدایت کی ہے۔ علامہ اقبال کو اس کا افسوس تھا کہ اس مرد غازی نے اپنی قوم کو فرنگ کے پنجے سے تو چھڑایا اور اس میں ملی استحکام پیدا کیا مگر وہ اپنی اصلاحات میں روبہ فرنگ ہو کر اسلامی جذبات اور اسلامی نظریات سے غافل ہو گیا۔ دہلی کے لال قلعہ میں دیوان خاص کی دیواروں پر جو اشعار ثبت ہیں ان میں سے ایک شعر یہاں حسب حال معلوم ہوتا ہے جو غالباً فیضی کا ہے:
عزم سفر مشرق و رو در مغرب
اے راہرو پشت بہ منزل ہشدار
مصطفی کمال کو اس نظم میں اقبال یہ بھولی ہوئی حقیقت یاد دلا رہا ہے کہ مسلمان اقوام ایک امی کی حکمت و بصیرت سے رموز تقدیر سے آشنا ہوئیں اور اسی کی بدولت ان کو دنیا میں تفوق حاصل ہوا۔ وہ اس بارے میں مصطفی کمال سے اتفاق کرتا ہے کہ اسلام کو فقہائے تنگ نظر نے جامد بنا دیا اور اس میں سے وہ عشق ناپید ہو گیا جو افراد و اقوام کی زندگی کا سرچشمہ ہے، لیکن پیر حرم سے بیزار ہو کر اسلام ہی کی طرف سے منہ موڑ لینا ملت اسلامیہ کے لیے حقیقی فلاح کا باعث نہیں ہو سکتا۔ جس نبی ؐ کی بدولت ہمارے ذرے خورشید جہاں تاب بن گئے اس سے براہ راست کسب فیض دین و دنیا میں حقیقی کامیابی کا باعث ہو سکتا ہے۔ نقل فرنگ کی تدبیر اور کورانہ تقلید سے ملت کو حقیقی فروغ حاصل نہیں ہو سکتا، تقلید میں آخر مات ہی ما ت ہے:
امیے بود کہ ما از اثر حکمت او
واقف از سر نہاں خانہ تقدیر شدیم


اصل مایک شرر باختہ رنگ بودست
نظرے کرد کہ خورشید جہاں گیر شدیم


نکتہ عشق فروشست ز دل پیر حرم
در جہاں خوار باندازۂ تقصیر شدیم


’’ہر کجا راہ وہد اسپ برآں ناز کہ ما
بارہا مات دریں عرصہ بتدیر شدریم‘‘
(نظیری)
ایک اور شعر میں افسوس کیا ہے کہ ’’ ستارے جن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب‘‘ ان ترکوں نے اپنے تئیں فرنگ کا ہمسایہ سمجھ رکھا ہے اور اس وہم باطل میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ ہمارا شمار بھی اقوام فرنگ میں ہو۔
مصر اور ہندوستان کے مسلم راہنما بھی قوم کو جو سبق پڑھا رہے تھیا س میں اقبال کو ملت اسلامیہ کے لیے حقیقی ترقی کی شاہراہیں نظر نہ آتی تھیں، تہذیبی نقطہ نظر سے یہ بھی مغلوب الغرب ہی تھے۔ بانگ درا کی نظموں میں ایک قطعے میں یہ اشعار ملتے ہیں:
کلی ایک شوریدہ خواب گاہ نبیؐ پہ رو رو کے کہ رہا تھا
کہ مصر و ہندوستان کے ملسم بناے ملت مٹا رہے ہیں


یہ زائران حریم مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے
ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا ہو جو تجھ سے نا آشنا رہے ہیں
ملتوں کے اندر اضطراب و تب و تاب، کشاکش، تراش خراش، شکست و فشار کے بغیر انقلاب پیدا نہیں ہو سکتا۔ سکونی حالت اور سکونی تصورات حالات میں کوئی تغیر پیدا نہیں کر سکتے۔ تعمیر کہن کی شکست و ریخت سے گھبرانا نہیں چاہیے، بقول عارف رومی:
ہر بناے کہنہ کا باداں کنند
اول آں تعمیر را ویراں کنند
نظام کہن کو برقرار رکھنے کے آرزو مند وہی لوگ ہیں جن میں حرارت حیات باقی نہیں ہوتی۔ اقبال انقلاب چاہتا ہے اور ارتقائی انقلاب جو محض تغیر حال نہ ہو بلکہ زندگی کے لیے نئی وسعتیں اور جدید قوتیں پیدا کرے۔ مسلمان عصر حاضر کے تزلزل سے پریشان دکھائی دیتے ہیں اور اس وہم باطل کا شکار ہو رہے ہیں کہ اس تخریب میں کوئی تعمیری صورت دکھائی نہیں دیتی لیکن رموز حیات سے آشنا اقبال ان کو سر ارتقاء سے واقف کرتا اور تسلی دیتا ہے کہ رسوم کہن کے انہدام سے زندگی فنا نہیں ہوتی بلکہ جادہ ارتقاء پر گامزن ہوتی ہے۔ بانگ درا مینایک لاجواب نظم ہے جس کا عنوان ارتقاء ہے۔ یہ ایک مشہور فارسی شعر کی تضمین ہے:
’’مغان کہ دانہ انگور آب می سازند
ستارہ می شکند آفتاب می سازند‘‘


ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفویٰؐ سے شرار بو لہبی


حیات شعلہ مزاج و غیور و شور انگیز
سرشت اس کی ہے مشکل کشی، جفا طلبی


سکوت شام سے تا نغمہ سحر گاہی
ہزار مرحلہ ہاے فغان نیم شبی


کشا کش زم و گرما تپ و تراش و خراش
زخاک تیرہ دروں تا بہ شیشہ حلبی


مقام بست و شکست و فشار و سوز و کشید
میان قطرۂ نیسان و آتش عنبی


اسی کشاکش پیہم سے زندہ ہیں اقوام
یہی ہے راز تب و تاب ملت عربی


مغان کہ دانہ انگور آب می سازند
ستارہ می شکنند آفتاب می سازند
 

فرخ منظور

لائبریرین
تہذیب حاضر کے پرستار نوجوان تقلید فرنگ میں اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں کہ ہم میں نئی روشنی اور علم و فن کی تنویر پیدا ہو گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام نمائشی چہل پہل حیات مستعار ہے، ملت کے اپنے نفوس میں سے کچھ نہیں ابھرا، ایسے غلامانہ ذہنیت والے لوگوں کی بیداری بیداری نہیں او ران کی آزادی غلامی کی پردہ دار ہے۔ یہ تازہ پرواز طیور کی دل کشی مے مسحور ہو کر اپنے آشیانے سے اتنا دور اڑ گئے ہیں کہ بھٹک جانے کی وجہ سے پھر اس پر واپس نہ آ سکیں گے۔ مادی خواہشات کی ہوس اس تہذیب کے مدعی طبقے میں تیز ہو گئی ہے، ایثار کی جگہ خود فروشی اور صبر و استقلال کی جگہ ناشکیبائی کا ظہور ہے۔ یہ اس دھوکے میں ہیں کہ ان کی زندگیوں میں ایک خوش آئند انقلاب پیدا ہو گیا ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ قلب و نظر میں کوئی حیات آفریں تبدیلی نہیں ہوئی۔ ملت کے اندر سے کسی خلائی جذبے نے کام نہیں کیا۔ اس فروغ مستعار سے ذرے اس فریب میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ ان میں جگنو کی سی فروزی ہے۔ تہذیب حاضر کے عنوان سے اقبال نے فیضی کے اس شعر کو تضمین کی ہے:
تو اے پروانہ ایں گری ز شمع محفلے داری
چو من در آتش خود سوز اگر سوز دلے داری
حافظ کا یہ شعر بھی اس مضمون کے قریب ہے:
آتش آن نیست کہ ہر شعلہ او خندو شمع
آتش آنست کہ اندر دل پروانہ زدند


حرارت ہے بلا کی بادۂ تہذیب حاضر میں
بھڑک اٹھا بھبوکا بن کے مسلم کا تن خاکی


کیا ذرے کو جگنو، دے کے تاب مستعمار اس نے
کوئی دیکھے تو شوخی آفتاب جلوہ فرما کی


نئے انداز پائے نوجوانوں کی طبیعت نے
یہ رعنائی، یہ بیداری، یہ آزادی، یہ بیباکی


تغیر آ گیا ایسا تدبر میں تخیل میں
ہنسی سمجھی گئی گلشن میں غنچوں کی جگر چاکی


کیا گم تازہ پروازوں نے اپنا آشیاں لیکن
مناظر دلکشا دکھلا گئی ساحر کی چالاکی


حیات تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا
رقابت، خود فروشی، ناشکیبائی، ہوسناکی


فروغ شمع نو سے بزم مسلم جگمگا اٹھی
مگر کہتی ہے پروانوں سے میری کہنہ ادراکی


’’تو اے پرواز این گرمی ز شمع محفلے داری
چو من در آتش خود سوز اگر سوز دلے داری‘‘
اقبال کو نہ مشرق کی کہنہ خیالی اور فرسودگی پسند ہے اور نہ فرنگ کی جدت طرازی۔ نہ مروجہ اسلام پسند ہے اور نہ سائنس کی پیدا کردہ تہذیب حاضر، نہ مغربی جمہوریت پسند ہے اور نہ روسی اشتراکیت۔ مغرب پر اقبال کی مخاصمانہ تنقید سے اقبال کا کلام لبریز ہے لیکن موجودہ مشرق کے لیے بھی اس کے ہاں کوئی مدح و ستائش نہیں:
بگذر از خاور و افسونی افرنگ مشو
کہ نیرزد بجوے ایں ہمہ دیرینہ و نو
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ چاہتا کیا ہے؟ اس کا یہ جواب کافی ہو گا کہ وہ اصلی اسلام اور اس کے پیدا شدہ علم و فن اور سیاست و معاشرت کا آرزو مند ہے۔ یہ بیان بہت مہمل ہے اور جب تک کسی قدر تفصیل سے اس زندگی کے خدو خال کا خاکہ سامنے نہ آئے تب تک ذہن کو تشفی نہیں ہوتی۔
اقبال کے کلام میں سلبی تنقید بہت غالب معلوم ہوتی ہے لیکن ایجابی پہلو بھی غائب نہیں ہے۔ جس انقلاب کا نقشہ اس کے تخیل میں ہے اس کے تجزیے سے مفصلہ ذیل عناصر حاصل ہوتے ہیں:
۱۔ وہ حیات انسانی کی کسی ایک طرفہ ترقی کو مفید نہیں سمجھتا۔ زندگی نفس اور بدن دونوں پر مشتمل ہے اور حقیقت حیات و کائنات میں انفس بھی ہیں اور آفاق بھی۔ ماحول سے منقطع روحانیت، جسے رہبانیت کہتے ہیں، ایک حیات کش طریق حیات ہے جس میں زندگی کا مادی اور جسمانی پہلو فنا ہو جاتا ہے۔ بغیر اس کے کہ روح کو تقویت یا بصیرت حاصل ہو۔ اسلام کے نظریہ حیات میں ہمہ گیری ہے اور وہ ظاہر و باطن کو ایک ہی حقیقت کے دوپہلو قرار دے کر ان کو الگ الگ نہیں کرتا۔
۲۔ انسانی زندگی میں دو بڑی قوتیں کار فرما ہیں، ایک عقل ہے اور دوسری کا نام عشق ہے۔ا یک کا تعلق دماغ سے ہے اور دوسری کا دل سے، مگر دل اس مضغہ گوشت کا نام نہیں جو سینے میں بائیں طرف دھڑکتا ہے۔ عقل بے عشق حقیقت رس نہیں ہو سکتی۔ خالی زیرکی سے نہ اقدار حیات کی آفرینش ہوتی ہے اور نہ زندگی کو حقیقی عروج حاصل ہوتا ہے بقول عارف رومی:
مں شناسد ہر کہ از سر محرم است
زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است
ہر ایسی تعلیم ناقص ہے جو فقط مادی زندگی کے اغراض کے لیے مظاہر حیات کی پیمائش کرتی رہے اور حقیقت کے پہلو اس کے پیمانوں میں نہ آ سکیں، ان سے انکار کا شیوہ اختیار کر لے۔
۳۔ انسان کے اندر خدا نے لامتناہی قوتیں مضمر رکھی ہیں۔ ممکنات حیات کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔ حیات کا مقصود ان ممکنات کو مسلسل وجود میں لاتے رہنا ہے۔ حیات خود اپنا مقصود ہے اس کا کسی ایک صورت پر قائم ہو جانا اس کی نفی کا باعث ہوتا ہے۔ دین اور حکمت اور ہر قسم کی تعلیم و تربیت کا مقصود یہی ہونا چاہیے کہ انسان اپنی لا محدود خودی کو پہچان کر زندگی میں مسلسل ارتقاء پیدا کرتا رہے۔ خیر و شر کا معیار بھی یہیں سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ بات غلط ہے کہ لذت فی نفسہ غیر ہے اور رنج و الم شر ہے۔ زندگی کو مسرت و کلفت کے پیمانوں سے نہیں ناپنا چاہیے۔ ہر وہ فکر یا عمل جو نفس انسانی یا خودی کو استوار کرے، خیر ہے اور ہر وہ فکر یا عمل جو اس میں انتشار یا ضعف پیدا کرے شر ہے۔ انسان کو خدا نے بالقویٰ مسخر کائنات بنایا ہے اس لیے عجز نہیں بلکہ قو ت کے حصول کی طرف قدم اٹھنے چاہئیں۔
۴۔ چونکہ خدائے خلاق واحد ہے، اس لیے حیات و کائنات میں بھی کثرت و تنوع کے ساتھ ساتھ ایک وحدت پائی جاتی ہے۔ نوع انسان جو خدا کا مظہر عظیم ہے، وہ بھی ایک وحدت ہے۔ از روئے قرآن ایک نقش واحدہ تمام نوع انسان کا ماخذ ہے۔ اس لیے ہر وہ نظریہ حیات فساد انگیز ہے جو نوع انسان کو نسل یا رنگ یا زبان یا جغرافیائی حدود کی بنا پر ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔ مغرب کی وطن پرستی اور قوم پرستی بت پرستی کے اقسام ہیں۔ وطن اور قوم، دیوتا اور معبود بن گئے ہیں۔ توحید الٰہی اور توحید انسانی کا عقیدہ اور اس پر عمل ہی اس بیماری کا علاج کر سکتا ہے۔
۵۔ وحدت انسانی کو قائم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ تمام انسانوں کے بنیادی حقوق مساوی ہوں۔ دولت، انسانیت کے وقار کا معیار نہ ہو۔ نوع انسان کی پیدا کردہ دولت اور قوت میں سے سب انسانوں کو حصہ ملنا چاہیے۔
۶۔ اسی وجہ سے اقبال اشتراکیت کے اس پہلو کو پسند کرتا ہے کہ اس نے ملکیت زمین اور سرمایہ داری کا خاتمہ کر دیا، لیکن وہ اس سے بیزار بھی ہے کہ اس نے خواہ مخواہ مادیت اور الحاد کو اپنے نظریہ حیات اور طریق زندگی کا جزو لاینفک بنایا اور مساوات انسانی زیادہ تر مساوات شکم میں محدود ہو گئی۔ مادیت انسان کی لامتناہی روحانی قوتوں کی منکر ہے اور اس کا نقطہ نظر وہی ابلیس کا زاویہ نگاہ ہے، جو آدم کی لا محدود عرفانی قوتوں کے ممکنات کو نہ دیکھ سکا اور یہ کہنے لگا کہ مجھے تو یہ محض مٹی کا پتلا نظر آتا ہے۔
۷۔ مغربی تہذیب و تمدن کے کار ہائے نمایاں کا اقبال منکر نہیں، لیکن وہ اس ترقی کو یک طرفہ ترقی سمجھتا ہے۔ گزشتہ تین سو سال میں مغرب نے مسلسل مادیت کے نقطہ نظر کو استوار کیا ہے۔ طبعی سائنس کا تعلق ایک جزوی حقیقت سے ہے۔ لیکن رفتہ رفتہ مغرب کے دل و دماغ پر یہ غلط خیال مسلط ہو گیا کہ زندگی محض مادیت اور محسوسات کا نام ہے۔ وہ اس راز سے بیگانہ ہوگیا کہ حاضر کے مقابلے میں غیب لامتناہی ہے اور جسم و مادہ حیات لامتناہی کے عارضی اور ادنیٰ پہلو ہیں۔ اسی وجہ سے مغرب کی حکمت و حکمت نہ رہی جسے قرآن خضیر کثیر کہتا ہے۔
۸۔ صحیح تعلیم اور حیات بخش تہذیب وہ ہو گی، جس میں مادیت یا عقلیت روحانیت کے زیر نگیں ہو جسے اقبال عشق کہتا ہے۔ یہ تعلیم یا تہذیب اس دور میں نہ مشرق میں پائی جاتی ہے اور نہ مغرب میں۔ انسانیت کا مستقبل یہی ہے کہ خارجی فطرت کی تسخیر باطنی قوت اور بصیرت کے دوش بدوش کرتی کرے۔ملت اسلامیہ کی بقا اس لیے ضروری ہے کہ فقط یہی ملت ہے جس کو از روے وحی تعلیم دی گئی تھی اور اسی کی بدولت اس کو آناً فاناً حیرت انگیز عروج حاصل ہوا تھا۔ا سی ملت کے ضمیر میں یہ موجود ہے کہ رنگ اور نسل وغیرہ کے لحاظ سے انسانوں کی تقسیم نہ کی جائے۔ قومیت اور وطنیت کے خلاف اسی نے آواز بلند کی اور اس پر عمل کر کے دکھایا۔ عربوں کے قوت و اقتدار حاصل کرنے اور ہر طرح غلبہ پانے پر نبی عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عرب ہونے پر فخر نہیں کیا بلکہ اعلان کیا کہ کسی عرب کو محض قوم و نسل کی بناء پر کسی عجمی پر فضیلت حاصل نہیں اور نہ عربی کو عجمی پر کوئی تفوق ہے۔ یہ سبق بعد میں مسلمان بہت کچھ بھول گئے لیکن اب بھی دوسری قوموں کے مقابلے میں ان میں یہ شعور بہت کچھ باقی ہے۔ نوع انسان کو وحدت کا عملی سبق دینے کے لیے یہ لازم ہے کہ یہ ملت مساوات انسانی کا اصلی اسلامی نقشہ پھر بطور نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرے۔ مظہور انگریز مورخ نائن بی نے اس کا اقرار کیا ہے کہ میرے نزدیک ابھی اسلام کا وظیفہ حیات باقی ہے اور مستقبل میں بھی نوع انسان اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہے اور وہ اس لیے کہ نسل اور رنگ اور قومیت کے تعصبات پر جس طرح اسلام اور اسلامی معاشرت غالب آئی ہے اس طرح کوئی اور تہذیب غالب نہیں آ سکی۔ مغرب کو اسی مرض نے فنا کیا ہے جو اس کی سیاست اور تمدن میں لا علاج سا معلوم ہوتا ہے۔ جب تک اس مرض کی خاطر خواہ علاج نہ ہو، نوح انسان کی بقا ہی ممکن نہیں ہوتی۔ا سرار خودی کے انگریز مترجم پروفیسر نکلسن نے علامہ اقبال کو ایک خط میں لکھا کہ تمہارے مخاطب فقط مسلمان معلوم ہوتے ہیں اور فقط انہیں کی اصلاح و بقا تمہارے مد نظر ہے، تمہارا خطاب نوع انسان سے معلوم نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں علامہ مرحوم نے اس کو لکھا کہ نوع انسان میں خاص نظر اور طریق زندگی پیدا کرنے کے لیے یہ لازمی ہے کہ پہلے ایک ملت اس کا نمونہ پیش کرے اور میں سمجھتا ہوں کہ اپنے عقائد، اپنی تاریخ اور اپنی معاشرت کے مضمرات کی بناء پر اس ملت میں یہ صلاحیت ہے اور مزید پیدا ہو سکتی ہے کہ وہ ایک عالم گیر اخوت اور مساوات کی مثال پیش کر سکے، یہاں تک کہ اخوت اسلامی اخوت انسانی بن جائے۔
جب اقبال ملت اسلامیہ کا ذکر بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ کرتا ہے تو اس کے سامنے اس ملت کا دور حاضر کا نقشہ نہیں بلکہ اس کی نظر اس اسلام اور اسلامی زندگی پر پڑتی ہے۔ جو رسول اکرم ؐ اور صحابہ کرام کی بصیرت اور ہمت سے ظہور میں آئی۔ جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا یہ صورت مسخ ہوتی چلی گئی۔ اسلام خاص بندگان میں رہ گیا اور جماعت کی زندگی اس سے بہت کچھ ہٹ گئی ہے۔ لیکن اسلام ایک ایسی ہمہ گیر انقلابی اور اسلامی چیز تھی کہ اس کی مدھم صورتوں نے بھی بحیثیت مجموعی صدیوں تک ملت اسلامیہ کو دیگر معاصرانہ ملتوں کے مقابلے میں پیش پیش ہی رکھا یا پھر اقبال کی نظر اس مستقبل پر ہے جس میں اسلام کے حقائق، جو زندگی کے ابدی حقائق ہیں، ارتقائے حیات سے تمام دنیا پر آشکار ہو جائیں گے۔ اقبال کسی خاص قوم یا ملت کا عاشق نہیں، وہ اسلام کا عاشق ہے خواہ وہ کہیں پایا جائے۔ اس وقت اس کو اسلام نہ مشرق میں نظر آتا ہے اور نہ مغرب میں اور مسلمان کہلانے والی ملت تو اس سے خاص طور پر محروم دکھائی دیتی ہے۔ ایک عام قاعدہ ہے کہ اپنی ملتوں کے پرستار ان کی نسبت بڑے کبر و ناز سے بات کرتے ہیں۔ ان کے عیوب کی پردہ پوشی کرتے اور ان کی اصلی یا موہوم خوبیوں کو وہ چند کر کے دکھاتے ہیں۔ اقبال کی یہ روش نہیں۔ اس کو تو ایک نصب العین اور زندگی میں اس کو متحقق کرنے والے افراد یا اقوام سے واسطہ ہے۔ دیکھئے اپنی ملت کی موجودہ حالت کے متعلق کس قدر افسوس اور قلب مجروح کے ساتھ کہتا ہے:
شوق بے پروا گیا فکر فلک پیما گیا
تیری محفل میں نہ دیوانے نہ فرزانے رہے


وہ جگر سوزی نہیں وہ شعلہ آشامی نہیں
فائدہ پھر کیا جو گرد شمع پروانے رہے


رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مینا اسے
کل تک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے


آج ہیں خاموش وہ دشت جنون پرور جہاں
رقص میں لیلا رہی لیلا کے دیوانے رہے


وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
نگاہیں نا امید نور ایمن، اور بجلیاں آسودہ دامان خرمن ہو گئی ہیں، ملتوں کی آبرو اور ان کا اقتدار ان کی جمعیت کی بدولت ہوتا ہے جس میں کوئی فرد اپنے تئیں محض ایک فرد نہیں بلکہ عضویہ نظام جماعت کا ایک عضو سمجھتا ہے۔ یہ بات مسلمانوں میں سے غائب ہو گئی ہے اور اسی وجہ سے وہ رسوائے دہر ہیں:
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
کبھی ہجوم یاس میں کہہ اٹھتا ہے:
زندہ پھر وہ محفل دیرینہ ہو سکتی نہیں
شمع سے روشن شب روشینہ ہو سکتی نہیں
جواب شکوہ میں خدا کی زبان سے اس ملت مرحومہ کے متعلق کیا کچھ نہیں کہا۔ خدا ایک نصب العینی آدم کی تعمیر کرنا چاہتا ہے لیکن اسے ملت کی مٹی اس قابل نہیں معلوم ہوتی:
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں
اس ملت کے ہاتھوں میں زور نہیں۔ دل الحاد سے خوگر ہیں۔ نمازوں اور روزوں کی کچھ باطنی یا ظاہری صورت کچھ غریبوں میں نظر آتی ہے۔ دولت و اقتدار والوں کے ہاں یہ شعائر غائب ہیں۔ نئی تعلیم و تہذیب کے دلدادہ مذہب سے روگرداں ہیں۔ علم و فن کی یہ حالت ہے کہ
جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو
جیسے کفر کے متعلق کہا گیا ہے کہ ’’ الکفر ملتہ واحدۃ‘‘ اسی طرح اسلام اور ملت اسلامیہ کے متعلق یہ بات صحیح ہونی چاہیے تھی کہ ’’ الاسلام ملتہ واحدۃ‘‘ لیکن موجودہ حقیقت یہ نہیں ہے۔ ذات پات اور قبائل و اقوام کی غیر اسلامی تقسیم و تفریق میں مسلمان مسلمان کا بھائی نہیں رہا۔ شعائر اغیار بھی وہی آنکھوں میں سمائے ہیں جن کے اختیار کرنے میں کوئی نفع نہیں بلکہ صریح گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔ نئی پود کی نگاہ طرز سلف سے بیزار اور ان کے انداز حیات کو فرسودہ سمجھتی ہے۔ کسی کے قالب میں سوز اور روح میں احساس نظر نہیں آتا۔ زبان سے کلمہ تو پڑھتے ہیں لیکن پیغام محمد ؐ کا کسی کو پاس نہیں۔واعظ قوم جاہل اور خام خیال ہے، اس کے وعظ میں نہ حکمت کا ساز ہے اور نہ محبت کا سوز۔ موذن کی اذان میں روح ہلالی نہیں، استدلالی بھول بھلیوں والے فلسفے نظر آتے ہیں، لیکن کوئی غزالی اب ملت میں سے نہیں ابھرتا۔ نہ حیدری فقر ہے اور نہ دولت عثمانی۔ جسے دیکھو وہ ذوق تن آسانی میں مست ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس ملت نے خود کشی پر کمر باندھ رکھی ہے۔ غیور و خود دار مسلمان نظر نہیں آتے۔ ذرا ذرا سے اختلاف پر شیشہ اخوت پاش پاش ہو جاتا ہے، قوموں کی توقعات اپنے نوجوانوں کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں لیکن اس ملت کے نوجوانوں کا یہ حال ہے:
شوق پرواز میں مہجور نشیمن بھی ہوئے
بے عمل تھے ہی جواں دین سے بدظن بھی ہوئے


ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا
لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا
عہد نو کی بجلی تمام اقوام کہن پر گری ہے۔ تمام قدیم انداز و افکار حیات ایندھن کی طرح جل رہے ہیں۔ ملت اسلامیہ کے پیراہن میں بھی شعلے بھڑک اٹھے ہیں۔ اس آتش نمرود کو ابراہیمی ایمان ہی گلشن بنا سکتا ہے، لیکن اس ملت میں تو وہ ایمان نظر نہیں آتا۔ اصلاح کے آرزو مند کہتے تھے کہ قوم جاہل ہے، جب اس میں تعلیم عام ہو جائے گی تو اس کی حالت درست ہو جائے گی، لیکن تعلیم نے بھی مرض میں اضافہ ہی کیا ہے:
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ


گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما
لے کے آئی ہے مگر تیشہ فرہاد بھی ساتھ
ملت اسلامیہ میں اسلامیہ میں اقبال کو نام کے مسلمانوں اور درحقیقت غیر مسلموں کا ایک بے مقصود ہجوم نظر آتا ہے:
خوب ہے تجھ کو شعار صاحبؐ یثرب کا پاس
کہہ رہی ہے زندگی تیری کہ تو مسلم نہیں


جس سے تیرے حلقہ خاتم میں گردوں تھا اسیر
اے سلیماں! تیری غفلت نے گنوایا وہ نگیں


وہ نشان سجدہ جو روشن تھا کوکب کی طرح
ہو گئی ہے اس سے اب نا آشنا تیری جبیں


دیکھ تو اپنا عمل، تجھ کو نظر آتی ہے کیا
وہ صداقت جس کی بے باکی تھی حیرت آفریں


تیرے آبا کی نگہ بجلی تھی جس کے واسطے
ہے وہی باطل ترے کاشانہ دل میں مکیں
صائب کا ایک شعر ہے:
ہماں بہتر کہ لیلیٰ در بیابان جلوہ گر باشد
ندارد تنگ ناے دہر تاب حسن صحرائی
بانگ درا میں اس پر تضمین کرتے ہوئے اقبال نے اپنی ملت کے متعلق مایوسانہا شعار کہے ہیں جن کا مضمون یہ ہے کہ تو ایسی ملت کو بیدار کرنے کے لیے کیا نوا گری کر رہا ہے جس میں کوئی احساس ہی باقی نہیں۔ اس کے جوان ہمت خواہ ہیں اور نہ اس کے پیر بیدار دل۔ اس محفل میں کوئی نشوونما کا تقاضا نہیں:
کہاں اقبال تو نے آ بنایاں آشیاں اپنا
نوا اس باغ میں بلبل کو ہے سامان رسوائی


شرارے وادی ایمن کے تو بوتا تو ہے لیکن
نہیں ممکن کہ پھوٹے اس زمین سے تخم سینائی


کلی زور نفس سے بھی وہاں گل ہو نہیں سکتی
جہاں ہر شے ہو محروم تقاضائے خود افزائی


قیامت ہے کہ فطرت سو گئی اہل گلستان کی
نہ ہے بیدار دل پیری نہ ہمت خواہ برنائی


دل آگاہ جب خوابیدہ ہو جاتے ہیں سینوں میں
نواگر کے لیے زہراب ہوتی ہے شکر خائی


نہیں ضبط نوا ممکن تو اڑ جا اس گلستان سے
کہ اس محفل سے خوشتر ہے کسی صحرا کی تنہائی
اقبال نے اپنا تمام کمال اور تمام جذبہ اپنی قوم کو بیدار کرنے میں صرف کیا۔ کبھی اس کو کامیابی کا گماں ہوتا تھا کہ قوم میں کچھ جنبش پیدا ہوئی ہے اور میری بانگ درا سے یہ کاروان خفتہ پھر جادہ پیمائی کے لیے تیار ہوا ہے۔ پھر کسی وقت چاروں طرف نظر دوڑاتا تھا تو عملی تبدیلی کے آثار کہیں نہ دکھائی دیتے تھے۔ ڈاکٹر تاثیر مرحوم اور ان کے کچھ احباب علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تقاضا کیا کہ آج آپ سے کچھ تازہ اشعار رسالہ ’’ کارواں‘‘ کے لیے لے کر ٹلیں گے۔ حسن اتفاق سے اس تقاضے کے دوران میں طبیعت میں کچھ تحریک پیدا ہوئی اور فی البدیہہ چند لمحات کے وقفوں میں پانچ سات اشعار کی وہ غزل ہو گئی جس کی ردیف اور قافیہ ہے سمجھتا تھا جب مقطع میں یہ شعر نکلا:
تھی کسی درماندہ رہرو کی صدائے درد ناک
جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں
تو اقبال پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ زار و قطار رونے لگے۔
جاوید نامہ کے آخر میں جاوید اور نژاد نو کو خطاب کرتے ہوئے بہت دل افروز نصیحتیں کی ہیں اور بتایا ہے کہ زندگی کس قسم کے ذوق و شوق کا نام ہے، لیکن ساتھ ہی کہا کہ اس زندگی کو اگر مسلمانوں میں تلاش کرو گے تو نہیں ملے گی۔ یہ زندگی قرآن میں سے مل سکتی ہے، مگر قرآن پڑھانے والے روح قرآن سے بے نیاز ہیں۔ نور باطن اور تزکیہ نفس کے لیے اگر صوفیوں کی طرف رجوع کرو گے تو یہ لمبے بالوں والے پیر تجربے سے بھیڑیے ہی ثابت ہوں گے:
در مسلماناں مجو آن ذوق و شوق
آن یقیں آں رنگ و بو آں ذوق و شوق


عالماں از علم قرآں بے نیاز
صوفیاں وزندہ گرگ و مو دراز


گرچہ اندر خانقاباں ہاے و ہوست
کو جواں مردے کہ صۃبا در کدوست
ملا اور صوفی سے نا امید ہو کر اگر مغرب زدہ فرنگی مآب لیڈروں اور نوجوانوں کو دیکھو گے تو ان کو بھی دھوکوں میں مبتلا پاؤ گے۔ یہ موج سراب کو چشمہ کوثر سمجھ کر بے تابانہ اس کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ اس سراب سے ان کے دل کی پیاس نہیں بجھ سکتی اور نہ ملت کا چمن سیراب ہو سکتا ہے۔ یہ طبقہ دین سے مطلق بیگانہ ہے، اسی بیگانگی کی وجہ سے ان میں محبت اور ایثار کا فقدان ہے۔ ان کے سینوں میں کینہ ہے عشق نہیں:
ہم مسلمانان افرنگی مآب
چشمہ کوثر بجویند از سراب


بے خبر از سر دین اند ایں ہمہ
اہل کین اند اہل کین اند ایں ہمہ
صوفی، ملا، جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کا طبقہ، بے درد زمینداروں کا طبقہ، جھوٹی جمہوریت میں ابھرنے والے لیڈروں کا گروہ، اگر تمام ملت انہی ’’ ظلوماً جہولا‘‘ پر مشتمل ہے تو احیاء نشاۃ ثانیہ اور بیداری کی توقع کس عنصر سے ہو سکتی ہے۔ میں نے ایک مرتبہ براہ راست علامہ سے عرض کیا کہ یہ ملت اگر ایسی ہی مردہ ہے تو آپ خواہ مخواہ اس کو انجکشن دے کر زندہ کرنے کی سعی لا حاصل کیوں فرما رہے ہیں۔ اس کے جواب میں علامہ نے فرمایا کہ تمام ملت ایسی نہیں ہے۔ اس ملت میں دین و دنیا کی رہبری کے مدعی تو سب ایسے ہی ہیں جیسا کہ میں نے ان کا نقشہ کھینچا ہے، لیکن اس کے عوام میں بہت اچھی صلاحیتیں مضمر ہیں۔ اگر اس کو کوئی صحیح قسم کے درویش منش، صاحبان بصیرت و ہمت راہبر توفیق الٰہی سے مل گئے تو حیات ملی میں بڑ اانقلاب پیدا ہو جائے گا۔ اسی عقیدے کو انہوں نے کئی جگہ اردو اور فارسی کلام میں پیش کیا ہے۔ خطاب بہ جاوید ہی میں فرماتے ہیں:
خیر و خوبی بر خواص آمد حرام
دیدہ ام صدق و صفا را ور عوام
اردو میں بھی فرماتے ہیں:
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
اقبال نے اپنی ملت کی حالت زبوں کا ایسا بھیانک نقشہ کھینچا ہے اور اس کی موجودہ حالت کو دیکھ کر اس کے دل میں ایسی بے زاری پیدا ہوئی ہے کہ اس ملت کے احیاء کی بجائے کبھی کہہ اٹھتا ہے کہ اے خدا اب تو اس کا صفایاہی کر دے تو اچھا ہے:
کہ ایں ملت جہاں را بار دوش است
اس کی تعمیر کا اب ملبہ بن چکا ہے۔ یہ انسانیت کے راستے سے ہٹ ہی جائے تو اچھا ہے، لیکن اس قسم کی بد دعا اس کے دل سے نہیں نکلتی۔ یہ بد دعا ایسی ہی ہے جیسے غصے میں اپنے پیارے بچے کے لیے اس کی شرارتوں اور بد عنوانیوں سے تنگ آ کر ماں کی زبان سے کبھی کبھی نکلتی ہے کہ جا تیری ٹانگ ٹوٹے یا جا تجھے موت آئے، لیکن بچے کو اگر کانٹا بھی چبھ جائے تو وہ بے چین ہو جاتی ہے۔ اقبال کا دل اسلام اور مسلمانوں سے کبھی پوری طرح مایوس نہیں ہوتا۔ اس کا وظیفہ حیات ان یاس انگیز حالات کے باوجود قوم کے دل میں خود اعتمادی اور امید پیدا کرنا ہے۔ وہ یقین کامل رکھتا ہے کہ ملت اسلامیہ کا ایک درخشاں مستقبل ہے کیوں کہ اسلام ایک ابدی حقیقت ہے اور ہزار ٹھوکریں کھا کر بھی آخر اسی کو اسلام کا حامل اور علم بردار بننا ہے، وہ اس پیغام کو بار بار مختلف اشعار میں دہراتا ہے کہ
بے خبر تو جوہر آئینہ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
’’جہاں کا فرض قدیم ہے تو ادا مثال نماز ہو جا‘‘
٭٭٭
 

فرخ منظور

لائبریرین
ساتواں باب
مغربی تہذیب و تمدن پر علامہ اقبال کی تنقید
علامہ اقبال کے تبلیغی کلام میں دو چیزیں پہلو بہ پہلو ملتی ہیں، ایک تہذیب جدید پر مخالفانہ تنقید اور اس کے مقابلے میں اسلامی نظریہ حیات کی تعلیم۔
کم و بیش تین سو سال سے ایشیا مسلسل زوال پذیر رہا اور فرنگ میں فکر و عمل کی جدوجہد ترقی کرتی گئی، اسلامی دنیا میں تاتاری غارت گری کے بعد علوم و فنون نے ترقی کا کوئی قدم نہ اٹھایا، تصوف اور صوفیانہ یا متصوفانہ شاعری میں صاحبان کمال پیدا ہوتے رہے لیکن علمی ترقی بالکل رک گئی۔ مسلمانوں میں آخری بڑا مفکر ابن خلدون ہے جس کا زمانہ چودہویں صدی عیسویں ہے۔ سیاست میں تو خلافت راشدہ کے بعد ہی ملوکیت اور مطلق العنانی شروع ہو گئی تھی، لیکن فقہ چودہویں صدی تک آزادانہ تفکر سے حالات کے تغیرات کے ساتھ ایک معتدل توافق پیدا کرتی رہی، اس کے بعد سے ائمہ مجتہدین بھی ناپیدا ہو گئے، تحقیق ختم ہو گئی اور تقلید کا دور دورہ شروع ہوا۔ اس وقت سے لے کر آج تک راسخ العقیدہ مسلمان اسی یقین پر قائم ہیں کہ تفقہ فی الدین میں اجتہاد کا دروازہ بند ہو گیا ہے۔ اسلامی فقہ میں چونکہ دین اور دنیاوی معاملات میں کوئی حد فاصل نہیں ہے اور زندگی ہر شعبہ بالواسطہ یا بلا واسطہ اسلامی عقائد کے زیر نگیں ہے اس لیے تحقیق و اجتہاد کا دروازہ بند ہونے کے یہی معنی تھے کہ اصول اور فروع دونوں میں اب کسی کو نئے سرے سے سوچنے کی ضرورت نہیں۔ اسلاف کی کہی ہوئی باتوں کی فقط توضیح و تشریح اور حاشیہ نویسی علماء دین کا وظیفہ حیات بن گیا۔ حکومتوں میں استبداد اور مطلق العنان سلطانی کی وجہ سے سیاسی زندگی کی اصلاح کے لیے نہ افکار پیدا ہو سکتے تھے اور نہ کوئی انقلاب ممکن تھا، اس لیے مسلمانوں نے یہی شیوہ اختیار کر لیا کہ :
رموز مملکت خویش خسرواں دانند
گداے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش
سیاسی غلامی کا اثر انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو پر پڑتا ہے، سیاسی استبداد کے ساتھ ساتھ دینی استبداد کا پیدا ہونا لازمی تھا، مطلق العنان حکومتوں کو اسی میں اپنا استحکام نظر آتا ہے کہ عوام و خواص جامد اور مقلد رہیں اور تقلید و اطاعت کو اپنا شیوہ بنا لیں۔ ارباب سیاست ہر جگہ اور ہمیشہ اس میں کوشاں رہے بینکہ دین کو اپنے استبداد کا آلہ کار بنائیں۔ اس لیے دور استبداد میں علماء سو کی کثرت نظر آتی ہے جو حکمرانوں کی ہم زبانی کی بدولت فتویٰ فروشی سے اقتدار میں حصہ دار بن جاتے ہیں صرف یہی نہیں ہوتاکہ:
ہر کہ شمشیر زند سکہ بنامش خوانند
بلکہ ہر کامیاب تیغ زن کا خطبہ بھی مساجد کے ممبروں پر پڑھنا لازم ہو جاتا ہے، ہر فاتح خواہ وہ فاسق و فاجر ہی ہو ظل اللہ بن جاتا ہے اور اگر اکبر کی طرح اپنے مجتہد اعظم ہونے کا فتویٰ طلب کرے تو سب علماء اس مضر پر دستخط کر دیتے ہیں۔ الا ماشاء اللہ پھر کم ہی کوئی خدا کا آزاد بندہ ایسا دکھائی دیتا ہے جو سلطان جابر کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرأت کر سکے۔
مسلمانوں کے سلطانی ادوار میں ملت اسلامیہ کی جب یہ حالت تھی اس زمانے میں مغرب کی عیسوی دنیا کا حال اس سے بدتر تھا۔ اسلام اس قدر انقلاب آفریں اور فلاح کوش تحریک تھی کہ کوئی چھ صدیوں تک مسلمان اسلام سے بہت کچھ گریز کرنے کے باوجود اقوام عالم میں پیش پیش رہے۔ اسلامی زاویہ نگاہ کا جو قلیل حصہ بھی حیات اجتماعی میں باقی رہا گیا، اتنا حصہ بھی ملت اسلامیہ کو اپنی تمام کوتاہیوں کے باوجود معاصرانہ زندگی میں دوسروں سے کچھ قدم آگے ہی رکھتا تھا۔ اسلام کی پہلی چھد صدیاں علوم و فنون اور تہذیب و تمدن میں تاریخ انسانی کا ایک روشن باب ہیں، یہ زمانہ فرنگ میں مغربی تہذیب و تمدن کے جمود و زوال کا زمانہ ہے اور اس دور کو خود اہل فرنگ ’’ازمنہ مظلمہ‘‘ یعنی تاریکی کا دور کہتے ہیں۔ یونانی تہذیب و تمدن طلوع عیسائیت سے قبل ہی زوال پذیر تھا لیکن عیسائیت کے غلبے کے بعد اس کی تمام شان و شوکت و نحوست و ادبار میں بدل گئی، کلیسا کے استبداد نے تحقیق اور آزادی فکر کا خاتمہ کر دیا علوم و فنون کا چرچا ختم ہو گیا اور مسلمانوں کے مقابلے میں یورپ کی سیاسی قوت بھی اس قدر ضعیف پذیر ہوئی کہ یورپ کے تمام ملوک اپنے عساکر جمع کر کے بھی فلسطین میں ایک مسلمان مجاہد سلطان کے مقابلے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ مغربی فرنگ میں اندلس پر مسلمان قابض ہو گئے جہاں انہوں نے ایک عظیم الشان تہذیب و تمدن پیدا کیا، جو تمام فرنگ کے لیے قابل رشک تھا اور علوم و فنون کے فرنگی شائق یہیں سے کسب فیض کرتے تھے۔ اندلس میں عربوں کے زوال پر فرنگ خوشیاں منا رہا تھا کہ عثمانی ترک یورپ کے مشرق میں داخل ہو گئے اور قسطنطنیہ کی فتح سے مشرقی روما کی باز نطینی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ سولھویں بلکہ سترھویں صدی تک یورپ مسلمانوں کے مقابلے میں اپنے آپ کو بے بس پاتا تھا، ترکوں کہ جہانگیری اور جہاں داری سیاسی حیثیت سے شان دار تھی، لیکن ان کے دور عروج میں مسلمانوں نے علوم و فنون میں ترقی کا کوئی قدم نہ اٹھایا۔ مذہب میں جمود اور استبداد بدستور قائم رہا اور فقہ میں اجتہاد کا دروازہ بند رہا۔ تو ترکوں کی عسکری قوت کو ابھی زوال نہ آیا تھا کہ مغرب میں بیداری شروع ہوئی ۔ مغرب کی اس بیداری کی ابتداء کو نشاۃ ثانیہ کہتے ہیں کیونکہ مردہ یورپ میں نئی زندگی کے آثار پیدا ہوئے، ان کی طویل شب تاریک کے بعد افق پر روشنی کی کرنیں دکھائی دینے لگیں۔ مغرب کے مورخ اس کا سبب زیادہ تر یہ بتاتے ہیں کہ مشرقی یورپ پر ترکوں کے قابض ہو جانے کی وجہ سے یونانی اور رومانی علوم و فنون کے ماہرین ہجرت کر کے اطالیہ اور مغربی فرنگ میں پھیل گئے، یونانی علوم کے ساتھ یونانی آزاد خیالی اور حکیمانہ تفکر بھی ساتھ آیا اور فنون لطیفہ کے اچھے نمونے بھی فن کاروں کے لیے سرمایہ حیات بنے۔ یونانی اور روحانی تہذیب، عیسوی رہبانی تہذیب کے مقابلے میں اس دنیا اور اس کی نعمتوں سے نفور نہ تھی،د نیاوی زندگی میں جمال پسندی اور عظمت پسندی اس کا شیوہ تھا اور مذہبی عقائد کے معاملے میں ہر گروہ کو کامل آزادی تھی۔ نشاۃ ثانیہ میں زندگی کے متعلق یہ تمام زاویہ نگاہ عود کر آیا۔ کلیسا کا اثر و رسوخ ابھی بہت کچھ باقی تھا لیکن فرنگ میں ذوق حیات کی ایک لہر دوڑنے لگی، زمانہ حال میں مغرب کے بعض مورخین نے فراخدلی سے اور آزادانہ تحقیق سے اس کا اقرار کیا ہے کہ فرنگ کی نشاۃ ثانیہ میں اسلامی علوم و فنون اور تہذیب و تمدن کا ایک موثر حصہ ہے۔ یورپ نے اس بیداری کے آغاز میں پہلے یہ کیا کہ علوم و فنون میں عربی کتابوں کے ترجمے لاطینی زبان میں کیے اور ایک عرصے تک یہی ترجمے مغرب کا علمی سرمایہ تھے۔ یونانی علوم کو بہت کچھ مسلمانوں نے محفوظ کیا تھا اور جا بجا اپنے اجتہاد سے ان میں اضافہ کیا تھا۔ یونانیوں کی بہت سی اصلی کتابیں جو اب ناپید ہیں فقط عربی حکماء کی تصانیف میں ان کا کھوج ملتا ہے۔ فقط یونانیوں کی کتابیں یا ان کے عربی ترجمے ہی اس نشاۃ ثانیہ میں نئی زندگی کے محرک نہیں ہوئے بلکہ مسلمانوں سے مغرب نے اس چیز کو بھی حاصل کیا جسے طبعی اور تجربی علم یا سائنس کہتے ہیں۔
مسلمانوں نے علوم و فنون کا مدار مشاہدے اور تجربے پر رکھا تھا او ریہ بات یونانیوں کے ہاں الشاذ کالمعدوم تھی۔ یونانیوں کا عقیدہ تھا کہ حقائق عالم محسوسات سے حاصل نہیں ہوتے، ان کا مستقل وجودہ عالم عقلی میں ہے اس لیے خالی تعقل کی ترقی اور منطقی وجود استدلال سے انسان حقیقت رس ہو سکتا ہے۔ ریاضیات جو طبیعیات کی اساس ہے، یونانیوں میں بہت ترقی یافتہ نہ تھی، مسلمان ریاضیات کے بعض اہم شعبوں کے موجد ہیں۔ الجبرا (جبر و مقابلہ) مسلمانوں کی ایجاد ہے۔ یونانیوں اور مغربیوں کے ہاں ارتھمیٹک ابتدائی صورتوں سے آگے نہ بڑھ سکتی تھی، صفر کا علم نہ تھا جس کی بدولت اکائی، دہائی، سینکڑہ ہزار سے لے کر لامتناہی تک رقم لکھ سکتے ہیں۔ اس ایجاد کا سہرا اصل میں ہندوؤں کے سر ہے، مسلمانوں نے اس کو ہندوؤں سے حاصل کر کے مغرب کو سکھایا۔ جس کی بدولت ہر قسم کی جمع تفریق اور تقسیم آسان ہو گئی۔ اہل مغرب اس کو عربی رقم کہتے ہیں لیکن ہندسہ دراصل ہندسے آیا ہے۔ سارٹون نے جو سائنس کی مبسوط تاریخ لکھی ہے اس میں ریاضیات اور تجربی سائنس میں مسلمانوں کے کارناموں کی اچھی طرح داد دی ہے۔ مغرب کو عصر حاضر میں جو عروج اور قوت حاصل ہوئی وہ زیادہ تر تجربی سائنس کی رہین منت ہے جس کی ابتداء مسلمانوں نے کی، لیکن ابتدائی منازل طے کرنے کے بعد مسلمانوں کی ترقی رک گئی اور علوم کی مشعل فرنگ کے ہاتھ میں آ گئی۔ اس کے متعلق اقبال نے کہا ہے:
بجھ کے بزم ملت بیضا پریشاں کر گئی
اور دیا تہذیب حاضر کا فروزاں کر گئی
اب اگر کوئی یہ پوچھے کہ مسلمانوں کے ہاں تمام عالم اسلامی میں کیوں چراغ بجھ گئے اور بجھے بھی ایسے کہ بقول میر:
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
تہذیبوں کی پیدائش اور ان کے عروج و زوال کے اسباب کا مسئلہ اس قدر پیچیدہ ہے کہ زمانہ حال میں فلسفہ تاریخ کے بڑے بڑے اکابر مفکر اسپنگلر، ٹائن بی وغیرہ منقاد نظریات پیش کرتے ہیں۔ کوئی نظریہ اس کا تسلی بخش جواب نہیں دیتا کہ بعض ادوار میں یک بیک کسی قوم میں ایک غیر معمولی زندگی پیدا ہو جاتی ہے، ہر شعبے میں غیر معمولی عبقری ابھرتے آتے ہیں، جمال اور عظمت و قوت میں روز افزوں اضافہ ہوتا ہے لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ان پر پہلے خفتگی طاری ہوتی ہے اور پھر موت۔ ایک تہذیب ابھی مرنے نہیں پاتی کہ کسی جگہ غیر متوقع طور پر نئی زندگی پیدا ہوتی ہے اور ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ اسپنگلر کی عالمانہ کتاب زوال مغرب میں یہی نظریہ متا ہے کہ ملتیں بھی نباتی یا حیوانی وجود کی طرح پیدا ہوتی ہیں اور طفولیت و شباب و شیب کے ادوار سے گزرتی ہیں اور آخر میں مر جاتی ہیں۔ ان کی پیدائش میں جو ایک خاص قسم کی زندگی ان کے اندر سے ابھرتی ہے، اس کے اسباب و علل عقل کی گرفت سے باہر ہیں۔ یہ ایک سر حیات اور لاینحل عقیدہ ہے لیکن جن ادوار سے وہ گزرتی ہیں ان کی کیفیات مخصوص قوانین کے ماتحت ظہور میں آتی ہیں۔ اسپنگلر تاریخ میں ایک خاص قسم کے جبر کا قائل ہے۔ ہر دور میں علوم و فنون کا ایک خاص انداز ہوتا ہے، معاشرت میں جو تغیرات ہوتے ہیں وہ بھی لگے بندھے قوانین کے ماتحت ہوتے ہیں۔ بے انتہا تبحر علمی سے اس نے تمام بڑی بڑی گذشتہ تہذیبوں کا جائزہ لیا ہے اور آخر میں یہ نتیجہ نکالا ہے کہ مغربی تہذیب نشوونما کے تمام منازل طے کر کے اب زوال پذیر ہے اور عنقریب یہ بھی اسی طرح مٹ جائے گی جس طرح یونان و روما اور مصر و باطل کی تہذیبیں سپرد فنا ہوئیں۔ اسپنگلر کو پڑھ کر بعض اوقات یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ وہی بات نہیں جو قرآن حکیم نے بھی کہی کہ امتوں کے لیے بھی اسی طرح اجل ہے جس طرح افراد کے لیے ہے اور جب اجل کا وقت آن پہنچتا ہے تو پھر اس میں تعجیل و تاخیر نہیں ہو سکتی:
ولکل امتہ اجل۔ فاذا جاء اجلہم لا یستاخرون ساعتہ ولا یستقدمون
لیکن جب علامہ اقبال کے سامنے یہ خیال پیش کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ درست ہے کہ امتوں کے لیے اجل تو ہے لیکن اہل مغرب نے جو یہ خیال پھیلا دیا ہے کہ کوئی امت دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتی یہ غلط ہے۔ وہ فرماتے تھے کہ یہ خیال زوال یافتہ مشرقی اقوام کو مایوس کرنے کے لیے ان کے ذہنوں میں ڈالا گیا ہے۔ اسلام تو ساری دنیا کے مر کر دوبارہ زندہ ہونے کا قائل ہے، وہ امتوں کی حیات ثانی کا کیسے منکر ہو سکتا ہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ خزاں میں درختوں پر موت طاری ہو گئی ہے لیکن بہار میں وہ پھر نئے برگ و بار پیدا کرتے ہیں۔ مٹی زرخیز ہونے کے باوجود نمی کی کمی سے مردہ دکھائی دیتی ہے، لیکن آبیاری کے بعد اس میں سے زندگی ابھر آتی ہے۔ اسی خیال کے ماتحت وہ ملت اسلامیہ کے متعلق فرما گئے ہیں:
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
اقبال کے ہاں مغربی تہذیب کے متعلق زیادہ تر مخالفانہ تنقید ہی ملتی ہے اور یہ مخالفت اس کی رگ و پے میں اس قدر رچی ہوئی ہے کہ اپنی اکثر نظموں میں جا و بے جا ضرور اس پر ایک ضرب رسید کر دیتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ اثر ہوتا ہے کہ اقبال کو مغربی تہذیب میں خوبی کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا، اس کے اندر اور باہر فساد ہی فساد دکھائی دیتا ہے، گویا یہ تمام کارخانہ ابلیس کی تجلی ہے۔ بعض نظمیں تو خالص اسی مضمون کی ہیں۔ اپنی غزلوں میں بھی حکمت و عرفان، تصوف اور ذوق و شوق کے اشعار کہتے کہتے یوں ہی ایک آدھ ضرب مغرب کو رسید کر دیتے ہیں۔ بال جبریل کی اکثر غزلیں بہت ولولہ انگیز ہیں، اکثر اشعار میں حکمت اور عشق کی دلکش آمیزش ہے لیکن اچھے اشعار کہتے کہتے ایک شعر میں فرنگ کے متعلق غصے اور بے زاری کا اظہار کر دیتے ہیں اور پڑھنے والے صاحب ذوق انسان کو دھکا سا لگتا ہے کہ فرنگ عیوب سے لبریز سہی لیکن یہاں اس کا ذکر نہ ہی کیا جاتا تو اچھا ہوتا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مصفا آب رواں کا لب جو بیٹھے لطف اٹھا رہے تھے کہ اس میں یک بیک ایک مردہ جانور کی لاش بھی تیرتی ہوئی سامنے آ گئی۔ اگر کہیں ملا کو برا کہتا ہے جو تہذیب فرنگ کی طرح اقبال کے طعن و طنز کے تیروں کا ایک مستقل ہدف ہے تو اس کے ساتھ ہی فرنگ کو بھی لپیٹ لیتا ہے حالانکہ غزل کے باقی اشعار نہایت حکیمانہ اور عارفانہ ہوتے ہیں۔ مثلاً غزل کا مطلع ہے:
اک دانش نورانی اک دانش برہانی
ہے دانش برہانی حیرت کی فراوانی
باقی اشعار بھی اسی طرح کے بلند پایہ ہیں لیکن چلتے چلتے ایک یہ شعر بھی فرما دیا جس میں خواہ مخواہ اپنے آپ کو بھی متہم کیا ہے:
مجھ کو تو سکھا دی ہے افرنگ نے زندیقی
اس دور کے ملا ہیں کیوں ننگ مسلمانی
مگر فرنگ میں جو ظاہری پاکیزگی اور حسن و جمال ہے اقبال اس کا منکر نہیں۔ تمدن فرنگ کے اس پہلو کو جو اس کو ایشیا کی گندگی سے ممتاز کرتا ہے، اقبال بھی قابل رشک سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ مشرق میں بھی جنت ارضی کے نمونے نظر آئیں:
فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا
افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند
اسی غزل کے ایک شعر میں پھر تہذیب جدید ارو ملائے پر بیک وقت ایک تازیانہ رسید کیا ہے:
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
افغانستان کے سفر میں حکیم سنائی غزنوی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مقدس کی زیارت نصیب ہوئی اور اس عارف و حکیم کے پر تو فیض سے بہت اچھے اشعار اقبال کی زبان سے نکلے ہیں۔ مشرق کی جھوٹی روحانیت سے بیزاری ظاہر کی ہے لیکن فرنگ کو یہاں بھی نہیں بھولے:
یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیم بوذر و دلق اویس و چادر زہرا؟


بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے
یہاں ساقی نہیں پیدا وہاں بے ذوق ہے صہبا
پھر ایک شعر میں تہذیب حاضر کے متعلق وہ بات کہتے ہیں جسے انہوں نے اور جگہوں پر بھی دہرایا ہے کہ تہذیب حاضر نے بہت سے جھوٹے معبودوں کا خاتمہ کیا ہے۔ نفی کا یہ پہلو ضروری تھا لیکن اس کے بعد اثبات حقیقت کی طرف اس کا قدم نہیں اٹھ سکا اس لیے اس کی فطرت میں ایک واویلا پیدا ہو رہا ہے:
لبالب شیشہ تہذیب حاضر ہے مئے لا سے
مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہ الا


دبا رکھا ہے اس کو زخمہ ور کی تیز دستی نے
بہت نیچے سروں میں ہے ابھی یورپ کا واویلا
اور کئی غزلوں میں بھی یہی کیفیت ہے کہ بات کچھ بھی ہو رہی ہو لیکن ضرب لگانے کے لیے فرنگ کا ذکر کرنا لازمی ہے:
علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں
یہ غزل کس قدر عرفانی اور لا مکانی ہے جس کے شروع کے دو اشعار یہ ہیں:
تو ابھی رہگزر میں ہے قید مقام سے گزر
مصر و حجاز سے گزر پارس و شام سے گزر


جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
حور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزار
ایسی اونچی باتیں کہتے ہوئے پھر یک بیک فرنگ کی طرف پلٹتے ہیں:
گرچہ ہے دلکشا بہت حسن فرنگ کی بہار
طائرک بلند بال دانہ و دام سے گزر
بال جبریل میں ساتویں غزل ایسی ہے جس سے روح وجد کرنے لگتی ہے، نصف غزل میں بڑے موثر انداز میں اپنے من میں غوطہ لگانے کی تلقین کی ہے جو تمام اسرار الٰہیہ کا خزینہ ہے۔ من اور تن کے مقابلے کے یہ اشعار اقبال کے شاہکاروں میں سے ہیں:
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن، اپنا تو بن


من کی دنیا؟ من کی دنیا سوز و مستی جذب و شوق
تن کی دنیا؟ تن کی دنیا سود و سودا مکر و فن


من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤ ہے، آتا ہے دھن جاتا ہے دھن
مقطع میں خود داری کی ایسی تلقین ہے جو دل میں گھر کر جاتی ہے:
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن
لیکن ایسی عرفانی غزل میں بھی مقطع سے پہلے فرنگ پر ایک ٹھوکر مارنا لازمی سمجھتے ہیں، خواہ اس شکریے کے ساتھ ہی سہی کہ خدا کا شکر ہے کہ کم از کم من کی دنیا میں تو افرنگی کا راج نہیں:
من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج
من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن
افرنگی کا راج کچھ ختم ہو گیا اور باقی جاں بلب ہے، آئندہ نسلوں کے لیے افرنگی کا راج تاریخ کا ایک قصہ پارینہ بن جائے گا۔ اس زمانے میں اس شعر سے کون لطف اٹھائے گا؟ پچاس یا سوس سال کے بعد غالباً اس وجد آور غزل کو گانے والے اس شعر کو ساقط کر دیں گے لیکن غلبہ افرنگ نے بے چارے اقبال کو اس قدر بے زار کر رکھا ہے کہ وہ ایسی غزل میں بھی اس کے ذکر سے باز نہیں آ سکتا۔
بال جبریل کی اور غزلوں میں سے اس مضمون کے بعض اور اشعار یہاں یکجا درج کیے جاتے ہیں۔ مختلف اشعار سے اس کا کسی قدر اندازہ ہو سکتا ہے کہ اقبال تہذیب فرنگی کے کس کس پہلو کو قابل اعتراض سمجھتا ہے:
وہ آنکھ کہ ہے سرمہ افرنگ سے روشن
پرکار و سخن ساز ہے مناک نہیں ہے


یہ حوریان فرنگی دل و نظر کا حجاب
بہشت مغربیاں جلوہ ہاے پا برکاب


دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر لے جا
مہ و ستارہ بیں بحر وجود میں گرداب


تو اے مولاے یثرب آپ میری چارہ سازی کر
مری فطرت ہے افرنگی مرا ایماں ہے زناری


سوال مے نہ کروں ساقی فرنگ سے میں
کہ یہ طریقہ رندان پاک باز نہیں


خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف


برا نہ مان ذرا آزما کے دیکھ اسے
فرنگ دل کی خرابی خرد کی معموری


جسے کساد سمجھتے ہیں تاجران فرنگ
وہ شے متاع ہنر کے سوا کچھ اور نہیں


مے خانہ یورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرور اول دیتے ہیں شراب آخر


اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ
ٹوٹا ہے ایشیا میں سحر فرنگیانہ
حکیم نطشہ کے متعلق:
اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں
تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبریا کیا ہے


نہ کر افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے
کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی براقی


تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم
گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوب کلیم


ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام
واے تمناے خام! وائے تمناے خام


عذاب دانش حاضر سے با خبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل


مجھے وہ درس فرنگ آج یاد آتے ہیں
کہاں حضور کی لذت کہاں حجاب دلیل


پیر میخانہ یہ کہتا ہے کہ ایوان فرنگ
سست بنیاد بھی ہے آئینہ دیوار بھی ہے


ہوا نہ زور سے اس کے کوئی گریباں چاک
اگرچہ مغربیوں کا جنوں بھی تھا چالاک


یا عقل کی روباہی یا عشق ید اللھی
یا حیلہ افرنگی یا حملہ ترکانہ


خبر ملی ہے خدایان بحر و بر سے مجھے
فرنگ رہگزر سیل بے پناہ میں ہے


یہ مدرسہ، یہ جواں، یہ سرور و رعنائی
انہیں کے دم سے ہے میخانہ فرنگ آباد


نئی تہذیب تکلف کے سوا کچھ بھی نہیں
چہرہ روشن ہو تو کیا حاجت گلگونہ فروش


سرور و سوز میں ناپائدار ہے درد
مئے فرنگ کا تہ جرعہ بھی نہیں نا صاف


سمجھ رہے ہیں وہ یورپ کو ہم جوار اپنا
ستارے بن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب


رہ و رسم حرم نا محرمانہ
کلیسا کی ادا سوداگرانہ


یقیں مثل خلیل آتش نشینی
یقیں اللہ مستی خود گزینی


سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار
غلامی سے بتر ہے بے یقینی


کوئی دیکھے تو میری نے نوازی
نفس ہندی مقام نغمہ تازی


نگہ آلودۂ انداز افرنگ
طبیعت غزنوی قسمت ایازی
٭٭٭
 

فرخ منظور

لائبریرین
اشتراکیت نے مغربی تہذیب و تمدن کے خلاف جو بغاوت کی اس کے وجودہ زیادہ تر وہی ہیں جن سے اقبال بھی متفق ہے۔ لینن نے خدا کے حضور میں اس تہذیب کا جو خاکہ کھینچا ہے اس میں اقبال لینن سے ہم نوا ہے:
مشرق کے خداوند سفیدان فرنگی
مغرب کے خداوند درخشندہ فلزات


یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات


رعنائی تعمیر میں، رونق میں صفا میں
گرہوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات


ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات


یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات


بیکاری و عریانی و میخواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات؟


وہ قوم کہ فیاض سماوی سے ہو محروم
حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات


ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات


آثار تو کچھ کچھ نظر آتے ہیں کہ آخر
تدبیر کو تقدیر کے شاطر نے کیا مات


میخانے کی بنیاد میں آیا ہے تزلزل
بیٹھے ہیں اسی فکر میں پیران خرابات


چہروں پہ جو سرخی نظر آتی ہے سر شام
یا غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات


تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزور کے اوقات


کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات
٭٭٭
است نے مذہب سے پیچھا چھڑایا
چلی کچھ نہ پیر کلیسا کی پیری


ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی
ہوس کی امیری ہوس کی وزیری


ہوئی ملک و دیں کے لیے نامرادی
ہوئی چشم تہذیب کی نا بصیری


ترے صوفے افرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی


نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں
کہ پایا میں نے استغنا میں معراج مسلمانی
٭٭٭
ہوا اس طرح فاش راز فرنگ
کہ حیرت میں ہے شیشہ باز فرنگ


پرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے


گیا دور سرمایہ داری گیا
تماشا دکھا کر مداری گیا
٭٭٭
وہ فکر گستاخ جس نے عریاں کیا ہے فطرت کی طاقتوں کو
اسی کی بیتاب بجلیوں سے خطر میں ہے اس کا آشیانہ


جہان نو ہو رہا ہے پیدا وہ عالم پیر مر رہا ہے
جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا ہے قمار خانہ
٭٭٭
زہر اب ہے اس قوم کے حق میں مئے افرنگ
جس قوم کے بچے نہیں خود دار و ہنر مند
٭٭٭
اٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احساں
سفال ہند سے مینا و جام پیدا کر
٭٭٭
جاں لاغر و تن فربہ و ملبوس بدن زیب
دل نزع کی حالت میں خرد پختہ و چالاک


ناپاک جسے کہتی تھی مشرق کی شریعت
مغرب کے فقیہوں کا یہ فتویٰ ہے کہ ہے پاک
٭٭٭
تاک میں بیٹھے ہیں مدت سے یہودی سود خوار
جن کی روباہی کے آگے ہیچ ہے زور پلنگ


خود بخود گرنے کو ہے پکے ہوئے پھل کی طرح
دیکھئے پڑتا ہے آخر کس کی جھولی میں فرنگ
(ماخوذ از نطشہ)
یہ اشعار فقط بال جبریل کی غزلوں اور نظموں میں سے چنے گئے ہیں۔ اقبال کے کلام کے اور مجموعوں میں بھی مغرب کی تہذیب اور نظریہ حیات پر مخالفانہ مگر حکیمانہ تنقید ملتی ہے۔ یہ مضمون اقبال کے محوری افکار میں سے ہے۔ اگر تمام اعتراضات کا استقراء کیا جائے تو مفصلہ ذیل نکات حاصل ہوتے ہیں:
مغربی تہذیب جس سے مرا زیادہ تر وہ تہذیب و تمدن ہے جو گزشتہ تین سو سال میں پیدا ہوا، زیادہ تر عقلیت، مادیت یا نیچریت کی پیداوار ہے۔ لیکن عقلیت جو اپنے کمال اور کلیت میں بھی پوری طرح حقیقت رس نہیں ہو سکتی اسے مغرب نے اور زیادہ محدود و محصور کر دیا۔ اس نے فقط مادی فطرت کے مظاہر کا مشاہدہ اور مطالعہ کیا اور اس کے قوانین کا ادراک کرنے کے بعد اس کو زیادہ تر مادی اور جسمانی اغراض کے لیے مسخر کیا۔ اس تسخیر نے مغرب کو مادی حیثیت سے غیر معمولی طاقت بخشی۔ اس اقتدار اور تسخیر سے سرشار ہو کر ا س نے علمی اور عملی طور پر نظریہ حیات قائم کر لیا کہ عالم مادی یا عالم محسوسات ہی حیثیت کلی ہے، حاضر کے باہر غائب کوئی چیز نہیں، یہاں تک کہ انسان اپنی روح ہی کے وجود سے منکر ہو گیا۔ اس کا نتیجہ وہی ہوا جو عارف رومی کے ارشادات میں ملتا ہے۔ علم ایک بے طرف قوت ہے۔ وہ حکمت روحانی اور عشق الٰہی کے ساتھ یار جان ہو سکتا ہے لیکن خالی علم و ہنر سے وہ زیر کی پیدا ہوتی ہے جو ابلیس کی صفت ہے:
می شناسد ہر کہ از سر محرم است
زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است


علم را برتن زنی مارے شود
علم را یرجاں زنی یارے شود
عشق سے معرا ہو کر تسخیر فطرت ایک قسم کی جادوگری ہے۔ جادو گر بھی غیر معمولی مادی اور نفسی قوتوں پر قابوپا کر ان کو فساد و تخریب میں استعمال کرتا ہے۔ مغرب میں طبعی سائنس نے جو قوتیں پیدا کیں انہوں نے ظاہری قوت اور شان و شوکت تو بہت پیدا کر دی لیکن انسانیت کے اصلی جوہر کو نقصان پہنچایا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان قوتوں کی مالک اقوام نے ایک طرف ان اقوام کو مغلوب کر لیا جو ان رموز تسخیر سے آشنا نہ تھیں اور دوسری طرف یہ جنات اپنی قوت کے بل بوتے پر آپس میں اس طرح ٹکرائے کہ تمام عالم انسانی میں زلرلہ آ گیا اور خود اس سائنس کا پیدا کردہ تمدن پاش پاش ہو گیا۔ اس طبعی سائنس کی ترقی نے ایسا سامان پیدا کیا کہ ہر ذرے میں جو محشر پنہاں تھا وہ نمودار ہو گیا۔ مغرب کا انسان وہی کچھ بن گیا جس کے متعلق مرزا غالب فرما گئے کہ:
قیامت می دمد از پردۂ خاکے کہ انساں شد
اس عالم گیر علم کے ساتھ عالم گیر محبت پیدا نہ ہوئی، یہ علم رفتہ رفتہ عشق اور روحانیت سے ایسا بیگانہ ہوا کہ نہ صرف نوع انسان بلکہ تمام کرۂ ارض جماد و نبات و حیوانات سمیت معرض خطر میں پڑ گیا۔
انہیں آثار کو دیکھ کر اقبال نے قیام فرنگ کے دوران ہی میں یہ پیش گوئی کی تھی:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
ہو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہو گا
جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا اور فرنگ روحانیت کی طرف لوٹتا نظر نہ آیا تو اقبال تیس برس تک اس پیش گوئی کو دہراتا چلا گیا کہ مجھے فرنگ رہگزر سیل بے پناہ کی زد میں آتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس کا تمدن سست بنیاد ہے اور اس کی دیواریں شیشے کی ہیں جو ایک دھماکے سے چکنا چور ہو جائیں گی۔ عقل بے عشق کی معموری دل کی خرابی میں اضافہ کرتی گئی، غیب کی منکر دانش حاضر انسان کے لیے عذاب بن گئی، محسوسات کے ادراک کے لیے آنکھیں روشن ہوتی گئیں لیکن درد انسان سے نمناک نہ ہوئیں اس تہذیب کی تجلی نے آنکھوں کو خیرہ اور دل کو اندھا کر دیا، بجلی کے چراغوں کی روشنی کو نور حیات سمجھ لیا گیا غیب اور مرئی عالم کا منکر ہونے کی وجہ سے فرنگ اس کوشش میں پڑ گیا کہ اسی دنیا کو جنت بنایا جائے اور اس چند روزہ زندگی میں اسی میں عیش کیا جائے۔ وہ اس سے غافل رہا کہ اس فردوس کی تعمیر میں خرابی کی مضمر صورتیں بھی اپنا پنہاں مگر موثر عمل کر رہی ہیں۔ جس فکر گستاخ نے فطرت کی طاقتوں کو عریاں کیا وہ اس سے بے خبر رہا کہ اس سے پیدا کردہ بجلیاں خود اس گلشن اور آشیانے کو راکھ کا ڈھیر بنا دیں گی اور دنیا جہنم کے کنارے تک پہنچ جائے گی۔
طبعی سائنس کی ترقی اور صنعت میں اس کے اطلاق نے مصنوعات کے عظیم الشان کارخانے بنائے جو بے درد سرمایہ اندوزوں کے ہاتھ میں آگئے، کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور ایک دوسری قسم کی غلامی میں آزادی اور خود داری سے محروم ہو گئے۔ صناعوں کی انفرادی جدت اور صناعی ختم ہو گئی۔ کارخانے کا ہر مزدور ایک بے پناہ مشین کا پرزہ بن گیا، اس کی انسانی انفرادیت رفتہ رفتہ سوخت ہوتی گئی۔ پہلے زمانے میں ممالک حکومت کرنے کے لیے فتح کیے جاتے تھے، اب کمزور اقوام پر ہر قسم کی یورش تجارت سے نفع اندوزی کی خاطر ہونے لگی کہ کمزور اقوام کو خام پیداوار کی غلامانہ مشقت میں لگایا جائے اور پھر مصنوعات کو انہیں کے ہاتھوں گراں قیمت میں فروخت کیا جائے۔ خود سرمایہ داروں میں گلا کاٹ مقابلہ اور مسابقت شروع ہو گئی جس کی وجہ سے ایسی دو عظیم جنگیں ہوئیں جن کے سامنے چنگیز، ہلاکو، تیمور اور نپولین کی ترکتاز بازیچہ اطفال معلوم ہوتی ہے۔ یہ جنگیں اس ظالمانہ سرمایہ داری کی پیداوار تھیں جس کو طبعی سائنس سے فروغ حاصل ہوا تھا۔ انسان کی ا پنی تسخیر فطرت کا ساتھ نہ دے سکی۔ الف لیلہٰ کی کہانی کا لوٹے میں مقید دیوآزاد ہو کر فضا میں پھیل گیا اور اسے دوبارہ لوٹے میں بند کرنے کا سحر ہاتھ نہ آیا۔
مغرب کے دین سے بیگانہ ہونے کے دو بڑے اسباب تھے، ایک سبب تو کلیسا کا استبداد تھا، جس نے ہزار سال سے زائد عرصے تک انسانوں کا دینی اور دنیاوی نظریہ حیات غلط کر دیا تھا۔ یہ استبداد کسی قدر یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے دور میں ٹوٹا لیکن اس پر ایک کاری ضرب لوتھر کی پروٹسٹنٹزم (احتجاج) نے لگائی۔ اس کے بعد اسی اصلاح کے اندر سے ایک نئی آفت پیدا ہوئی اور نئے فرقے کچھ قدیم کلیسا کے خلاف اور کچھ آپس میں ایسے متعصبانہ انداز میں دست و گریبان ہوئے کہ طویل مذہبی جنگوں نے تمام یورپ کو تباہ کر ڈالا۔ یہ تباہی اتنی شدید تھی کہ اس کے خلاف زور شور کا رد عمل ہوا اور امن کی یہی صورت نظر آئی کہ دین کو سیاست سے الگ کر دیا جائے کیوں کہ سب سے زیادہ دینی عقائد کا اختلاف ہی عقل و صلح کا دشمن ہے۔ یورپ دین کے متعلق اسی نتیجے پر پہنچا جسے حالی نے اس شعر میں بیان کیا ہے:
فساد مذہب نے ہیں جو ڈالے نہیں وہ تا حشر مٹنے والے
یہ جنگ وہ ہے کہ صلح میں بھی یونہی ٹھنی کی ٹھنی رہے گی
دین سے اس بیزاری کے ساتھ ساتھ طبعی سائنس ترقی کرتی گئی، یہ ترقی نا ممکن تھی جب تک کہ بر خود غلط حامیان دین سے چھٹکارا حاصل نہ ہو جو تمام طبیعیات اور فلکیات کو بائبل کی کسوٹی پر پرکھتے تھے اور جن کا عقیدہ یہ تھا کہ انسان کو فقط روحانیت، الٰہیات اور اخلاقیات ہی از روئے وحی حاصل نہیں ہوئے بلکہ تمام طبعی علوم کے متعلق بھی وہی باتیں قابل یقین ہیں جو صحیفہ آسمانی میںد رج ہیں۔ سائنس کا ہر انکشاف قدم قدم پر اس جامد دین سے ٹکراتا تھا، جب اس قسم کے مذہب کو سائنس سے ٹکرایاگیا تو کلیسا کا جبر اوراس کی تلوار بھی مفکرین کا رخ حقائق کی طرف سے نہ پھیر سکیں ۔ سرگزشت آدم میں اقبال کہتا ہے :
ڈرا سکیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں
سکھایا مسئلہ گردش زمیں میں نے
دین کی ایک تخریبی اور جامد صورت کو مغرب نے عین دین سمجھ لیا ہے علم کی روشنی میں جب وہ عقائد باطل ثابت ہوئے تو سائنس کی پیدا کردہ تہذیب نے دین ہی سے منہ پھیر لیا‘ حکومتیں غیر دینی اور سیکولر ہو گئیں مغرب اگر بودے دین کو چھوڑ کر دین کی حقیقت کی طرف آ جاتا تو خارجی فطرت کی تسخیر اور علوم و فنون میں اس کی غیر معمولی ترقی انسانیت کے غیر معمولی ارتقا کا باعث ہوتی لیکن مذہب کے بودا ہونے کی وجہ سے مغرب ظاہر کی روشنی کے باوجود باطن کو منور نہ کر سکا۔ سیاست نے دین سے معرا ہو کر ماکیاویلی کا ابلیسانہ مذہب اختیار کر لیا:
آن فلارنساوی باطل پرست
سرمہ او دیدہ مردم شکست
مغرب کے خلاف اقبال نے اس قدر تکرار کے ساتھ لکھا ہے کہ پڑھنے والا اس مغالطے میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اقبال بڑا مشرق پرست ہے۔ جامد ملا اور رجعت پسند ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال نہ مشرق پرست ہے اور نہ مغرب پرست اور نہ وہ عقل کا ایسا مخالف ہے کہ اسے دین و دنیا کے لیے بے کار سمجھے۔ وہ اہل مشرق کے جمود ان کی پستی اور دین نما بے دینی سے کچھ کم بیزار نہیں۔ اقبال اسے سے بخوبی واقف ہے کہ گزشتہ تین صدیوں میں جن کے متعلق وہ کہتاہے کہ:
تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند
جب مشرق اور جامد اور غافل اور خفتہ رہا مغرب میں طرح طرح کی حرکت پیدا ہوئی اور ا س کی ہر حرکت میں کچھ نہ کچھ برکت بھی تھی۔ نشاۃ ثانیہ سے لے کر آج تک یورپ میں طرح طرح کی ہلچل ہوئی اور رنگا رنگ کے انقلابات ظہور میں آئے۔ ہر انقلاب زندگی کے جمود اور استبداد کو بتدریج توڑتا گیا۔ دیکھیے اقبال جب اپنی ملت کے لیے انقلاب زندگی کے جمود اور استبداد کو بتدریج توڑتا گیا۔ دیکھیے اقبال جب اپنی ملت کے لیے انقلاب کا آرزو مند ہوتا ہے تو پہلے یورپ کے انقلابات پر نظر ڈالتا ہے۔ جن کی بدولت مغرب زندگی کے اسلوب بدلتا گیا اور فکر و عمل کی آزادی کی طرف قدم بڑھاتا گیا۔ لوتھر کی تحریک سے لے کر جس نے کلیسا پر ضرب لگائی انقلاب فرانس سے گزرتا ہوا مسولینی تک کی حرکت کا ذکر کرتا ہے اسی سلسلے میں روس کے زلزلے کا ذکر بھی ہو سکتاتھا لیکن وہ یہاں چھوٹ گیا ہے۔ اور جگہ کا کافی جائزہ لیا ہے اور اس کی داد دی ہے کہ اس اشتراکی اتحادی نے بھی بڑے بڑے بت توڑے ہیں۔ ہر قسم کا انقلاب اسی جذبے اور اسی قوت کی بدولت ہوتا ہے جسے اقبال عشق کہتا ہے۔ اس کے نزدیک یورپ کی یہ تمام تحریکیں بھی عشق ہی کی بلا خیزی کا نتیجہ تھیںَ جن کی وجہ سے فکر انسان اور روح انسان استبداد کے طوق و زنجیر توڑتی چلی گئی۔
اقبال کا نظریہ حیات ارتقائی ہے اور یہ ارتقا انسان کو مسلسل زنجیر فطرت سے حاصل ہوتا ہے اس کے نزدیک زندگی مسلسل جدوجہد اور تخلیق کا نام ہے۔ فطرت کے جبر پر قابو پا کر خودی کی استواری اس کی تلقین کا اہم جزو ہے کائنات انفس و آفاق پر مشتمل ہے۔ اور اقبال اس کو غلط اندیشی اور غلط روی قرار نہیں دے سکتا۔ اس کو صرف یہ شکایت ہے کہ اس یک طرفہ تسخیر نے اسنان کی روحانی زندگی کا توازن بگاڑ دیا ہے۔
حقیقت ازروئے قرآن بھی ظاہر ہے اور باطن بھی ظاہر و باطن ایک حقیقت کے دو پہلو ہیں اقبال نے یہ فلسفہ قرآن سے اخذ کیا ہے جو اس کائنات کو باطل نہیں سمجھتا اور حقیقت مطلقہ کی بابت ھو الظاہر و ھو الباطن کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن مظاہر فطرت کے سللس مطالعے اور اس کی کثرت کو ایک وحدت کی طرف راجع کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اپنے انگریزی خطبات اور اس کی کثرت کو اس نے وضاحت سے لکھا ہے کہ طبیعی اور تجربی سائنس مسلمانوں کی پیداوار ہے۔ جسے یورپ نے اولاً مسلمانوں سے حاصل کیا ہے اور اس کے بعد مسلمانوں کی خفتگی کی صدیوں میں اس کو بے انتہا ترقی دی۔ پہلے ہی خطبے میں کہا ہے کہ زمانہ حال میں مسلمانوں کے تفکر کا رخ مغرب کی طرف ہے اور میرے نزدیک یہ میلان خوش آئند ہے۔ کیوں کہ یہ انداز فکر یورپ نے خود مسلمانوں سے حاصل کیا ہے ۔ اقبال مغرب سے یہ نہیں چاہتا کہ وہ علم و ہنر میں اپنی تمام ترقیوں کو ؤحرف غلط کی طرح مٹا کر کسی قدیم روش پر آ جائے۔ جب کہ انسان مظاہر فطرت اور اس کی قوتوں کے مقابلے میں اپنے آ پ کو بے بس پاتا تھا۔ یورپ کے علم و ہنر نے ظاہری ززندگی میں صفائی پیدا کی ہے اور مشرق بدستور گندا ہے۔ اس نے بے شمار امراض کا علاج ڈھونڈا ہے مگر مشرق کی ارواح کی طرح اس کے ابدان میں بھی ضعیف اور طرح طرح کے امراض کے شکار ہیں۔ فرنگ کے ہر قریے کو فردوس کی مانند دیکھ کر اس کا جی یہ چاہتا ہے کہ ہماری بستیاں بھی جنت کا نمونہ بن جائیں۔۔ یورپ کے کافروں کو وہ اپنے مسلمانوں سے زیادہ عملاً اسلام کا پابند سمجھتا ہے۔ اور یورپ کو اس زندگی کو جو نعمتیں حاصل ہوئی ہیں ان کو وہ اس اسلام کا اجراء شمار کرتا ہے جو ان کی زندگیوں کے بعض پہلوئوں میں پایا جاتا ہے:
مسلم آئیں ہوا کافرتو ملے حور و قصور
فارسی میںایک جگہ وضاحت سے کہتا ہے ک فرنگ رقص دختراں کا نام نہیں اس کی طاقت کا سرچشمہ اس کے علوم و فنون ہیں۔ مشرقی انسان عام طور پر جب جدید تہذیب کا گرویدہ ہوتا ہے تو مغرب کے ظواہر کی نقالی کرتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ:
چلا جب چال کوا ہنس کی اس کا چلن بگڑا
یورپ نے پہلے علم و ہنر سے فراواں سامان حیات پیدا کیا اور پھر وہ فراوانی اس کی رہائش اور خورد و نوش میں جلوہ افروز ہوئی۔ مشرق کا مفلس بغیر کچھ کیے دولت مند قوتوں کی نقالی کر کے اپنے تئیں اس کا مثیل سمجھنے لگتا ہے۔
مشرق صدیوںسے سیاسی استبداد میں آسودہ رسوائی رہا ہے لیکن مغرب میں انسانی حقوق اور مساوات کی جدوجہد نے جمہوریت کے تجربے کرنے شروع کیے۔ ابتدا میں ان جمہوریتوں میں بھی انسان کو مساوات حاصل نہ ہوئی۔ جس کی وہ توقع کرتا تھا اور بقول اقبال دیو استبداد ہی جمہوری قبا میںرقصاں رہا لیکن بقول عارف رومی:
کوشش بے ہودہ بہ از خفتگی
یہ نیم کامیاب کوششیں انگلستان میں اس انداز کی سوشلزم تک پہنچ گئیں جو اقبال کے نظریہ حیات کے مطابق اسام سے بہت قریب ہیں۔ اقبال کو مغرب کی تمام کوششوں میں کچھ نہ کچھ خلل نظر آتا ہے۔ خود مغرب کے مفکریں اور مصلحیں بھی ان خرابیوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اقبال نے جو تنقید مغرب پر کی ہے اس سے کہیں زیادہ مغربی مفکرین نے اپنے عیوب گنوائے اور ان کے علاج تجویز کیے ہیں۔
اقبال اس کا آرزو مند ہے کہ مغرب نے گزشتہ تین سو سال می سائنس اور علم و ہنر کی جو ترقی ک ہے مسلمان بھی اس سے بہرہ انداز ہوں لیکن دنیا کو سنوارنے میں وہ اپنی خودی اور اپنے خداسے غافل نہ ہو جائیں:
ست دنیا از خدا غافل شدن
نے قماش و نقرہ و فرزند و زن
مغربی مادیت اور حاضر پرستی کی معراج روسی اشتراکیت میں نظر آتی ہے۔ لیکن ابال اس کا بھی مداح ہے کہ اس نے سلبی کام بہت اچھا کیا ہے ۔ اور اس نے کلیسا اور سرمایہ داری اور امتیاز رنگ و نسل اور تفوق طبقات کے بہت سے جھوٹے معبودوں کا قلع قمع کر دیا ہے۔ توحید کے کلمے میں لا الہ جز و ثانی الا اللہ سے پہلے اورمقدم ہے۔ مغرب نے عام طور پر اور روسی اشتراکیت نے خاص طور پر لا الہ کا کام بخوبی انجام دیا ہے۔ لیکن مغرب اس لا الہ کے دریا میں سے ابھی تک الا اللہ کے موتی نہیںنکال سکا۔ اس کے مقابلے میں مشرق کو ابھی بہت کچھبت شکنی کرنی ہے۔ مغرب نے اپنے دینی جمود کو بہت کچھ رفع کر لیا اوربقول اقبال وہاں فکر کی کشتی نازک رواں ہو گئی لیکن لوتھر کی طرح کوئی تحریک ابھی مسلمانوںمیںپیدا نہیں ہوئی جو ان کو جامد ملائیت اجتہاد دشمن تفقہ اور ٹیکس وصول کرنے والے پیروں سے نجات دلوا سکے۔ ترکوں نے ملائیتت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہا تو تحقیقی کی بجائے مغرب کی اندھی تقلید کو اپنا شعار بنا لیا ۔ ترکوں کے بعض لیڈر اس کے مدعی ہیں کہ ہم اسلام کے پروٹسٹنٹ ہیں لیکن ان کا یہ ادعا غلط ہے ۔ لوھتر نے کلیسا کے خلاف بغاوت اس بنا پر کی کہ عیسائیوں نے مسیح اور اس کی انجیل پر ایمانداری اور آزادی سے غور کرنے کی بجائے ارباب کلیسا کے پاس اپنا ذہن اور اپنا ضمیر بیچ رکھا ہے۔ لیکن توکوں نے جو ش تقلید فرنگ میں فقہ کے معاملے میں قراان ہی کو بالائے طاق رکھ دیا۔ رضا شاہ نے مجتہدین ایران سے چھٹکارا حاصل کر کے ایرانیوں کو ایک ترقی پسند اور مہذب ملت بنانا چاہا تو وہ بھی مصطفی کمال کی طرح مغرب کے ظواہر کی تقلید میںپڑ گیا۔ اور یہ کوشش نہیں کہ اسلای اساس پر ایک تہذیب تعمیر کرے۔ جو شرق وغرب کی موجودہ تہذیبوں پر فائق ہو:
نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں ںمود اس کی
کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی
اقبال مغرب کے عیوب کے ساتھ ساتھ اس کی خوبیوں سے بھی بخوبی واقف اوراان کا مداح تھا‘ وہ چاہتا تھا کہ مسلمان وہ خوبیاں اپنے اندر پیدا کر لیں علم مومن کا گم شدہ مال ہے علم جہاںسے بھی ملے فرنگ میں ہو یا چین میں مسلمان کو اسی طرف لپکنا چاہیے جس طرح انسان بازیافتہ گم شدہ مال کی طرف لپکتا ہے ۔ اقبال نے محڈود عقلیت اور مادیت کے خلاف بہت کچھ لکھاہے۔ کیوں کہ انسان اس کے اندر محصور ہو کر رہ جائے تو اس کا اصلی جوہر گم ہو جاتا ہے۔ لیکن اقبال اس سے بھی آگاہ ہے کہ عقل اور مادی زندگی سے روگردانی کر کے خالی روحانیت میں کوشش کرنا بھی لاحاصل ہے۔ خدا نے جس حکتم کو خیر کثیر کہا ہے اس میں ظاہر اور باطن دونوں کا عرفان شامل ہے۔ اقبال کو شکایت ہے کہ مغر ب مادی ترقی میں بے طرح الجھ گیا ہے اور عقل طبیعی پر اتنا بھروسہ کرنے لگا کہ روح انسانی کے غیر متناہی امکانات اس کی نظر سے اوجھل ہو گئے۔ عقل طبیعی نے عقل ایمانی کی طرف رہبری نہ کی۔
مغر ب اور مشرق کی تہذیبوں اور ان کے انداز حیات کا موازنہ اور مقابلہ کرنے کے لیے یہ بات ضروری معلوم ہو جاتی ہے کہ اقبال کے کلام پر نظر ڈال کر دیکھا جائے تو عام طور پر مستشرق سے متعلق اور مشرق میں خاص طور پر ملت اسلامیہ کی موجودہ صورت حالت کے متعلق اس مبصر کی کیا رائے ہیے۔ اس سے پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اقبال نہ مشرق کا مداح ۃے اورنہ مغرب کا ستائش کرنے والا محقق اور مبلغ ہے ۔ جو انسانی زندگی مین توازن پیدا کر سکتا ہے۔ اس لیے وہ جانبداری سے کام نہیں لے سکتا۔ ہر طرفدار آدمی جادہ صداقت سے ہٹ جاتاہے۔ اسلام اور ملت اسلامیہ کے عشق کے باوجود بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اسی عشق کی وجہ سے وہ کسی عیب کو صواب نہیںسمجھ سکتا۔ مرض کی حقیقت سے آنکھیں بند کر نے والا مریض یا طبیب نہ صحیح تشخیص کر سکتا ہے اورنہ موثر علاج تجویز کر سکتا ہے۔ چونکہ زندہ اسلام کی ایک معین تصویر اس کی چشم باطن کے سامنے ہے وہ حیات المسلمین کے ہر پہلو کو بغور سے دیکھ کر اس تصویر سے مقابلہ کر کے دیکھتا ہے کہ کہاں کہاں وہ صورت دگرگوں ہو گئی ہے۔ جس طرح توحیدی مذاہب میں بھی رفتہ رفتہ خدا کا تصور کیا سے کیا ہو جااتاہے۔ اسی طرح تعلیمات اور شعائر کی بھی نہ صرف صورت بدل جاتی ہے بلکہ صورت کے ساتھ ساتھ ہی معنی بھی متغیر ہو جاتے ہیں۔ عرفی نے اس بارے میں حکیمانہ رباعی کہی ہے:
حرم جویاں درے را می پرستند
فقیہاں دفترے را می پرستند
برافگن پردہ تا معلوم گردو
کہ یاراں دیگرے را می پرستند
اسی مضمون سے ملتا جلتا ایک اور دوسرا شعر ہے:
آنانکہ حسن روے تو تفسیر می کنند
خواب ندیدہ را ہمہ تعبیر می کنند
اقبال محی املت بھی ہے اور محٰ الدین بھی۔ اسے اپنی ملت کی حالت ہر جگہ اور ہر پہلو میں ناگفتہ بہ معلوم ہوتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ شرق و غرب دونوں میں دین مسخ ہو گیا ہے۔ وہ ایک صحیح نظریہ حیات پر اپنی ملت کا بھی احیا کرتا ہے اور تمام نوع انسان کا ارتقاء بھی ؤجو اس کے عقیدے کا ایک اساسی عنصر ہے۔ اسی صورت میں ممکن ہے کہ قدامت پرستی اور تقلید کی راہوں سے ہٹ کر انسان تحقیق اور حریت سے اپنی خودی استوار کرے۔ ملت اسلامیہ کے ماضی خصوصاً آغاز اسلام کا نقشہ اس کی روح میں اہتراز پیدا کرتا ہے۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ روح اسلام نئے نئے قالب اختیار کرے اور زندگی کی تخلیقی اور جدت آفرین قوتوں سے نئے مظاہر اور نئے عوالم ظہور میں آئیں۔ وہ فردا کو دوش کے آئینے میں دیکھتا ہے۔ لیکن حیات انفرادی یا حیات اجتماعی کی صورتوں میں اعادے اور تکرار کا قائل ہے۔ کل یوم ہو فی شان کی قرآنی تعلیم کے مطابق صوفیہ کا عقیدہ او رتجربہ ہے کہ تجلی میں تکرار نہیں۔ حیات ازلی کے لامتناہی مضمرات ہمیشہ امکان سے وجود میں آتے رہتے ہیں۔ اقبال میں مددانہ انداز ہے اور وہ زندگی کے ہر پہلو میں تجدید کا آرزو مند ہے۔ لیکن اصلی تجدید وہ ہے جس میں روح خود ارتقاء کے لیے مناسب قالب اختیار کرے محض جدت آفرینی زندگی کا ثبوت نہیں بقو ل عارف رومی:
قالب از ما ہست شد نے ما ازو
بادہ از مامست شد نے ما ازو
اقبال نے مغرب میں حقیقت حیات سے جو بیگانگی دیکھی وہی محرومی اس کو مشرق میں بھی اور ملت اسلامیہ میں بھی نظر آئی ہے۔ جہاں قیس اس کے لیے پیدا نہیں ہو رہے کہ صحرا میں وسعت نہیں اور محمل لیلیٰ نہیں یعنی دل اور دماغ کے سامنے کو ئی مقصود اور نصب العین نہیں جو قلب کو گرما سکے اور روح کو تڑپا سکے۔ ظاہری خول اور چھلکے نظر آتے ہیں جن کے اندر مغز نابود ہے تیر ترکش کے اندر نہیں یا ہیں تو نیم کش ہیں کیوں کہ صیاد کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ کس ہدف کی طرف ان کو چلایا جائے۔ دینی زندگی کے کچھ ظواہر ہیں جو بے گوہر صدف ہیں۔ منہ سے توحید کا کلمہ پڑھنے والے طرح طرح کی بت گری اور بت پرستی میں مبتلا ہیں۔ دیر کے نقش و نگار میں کھؤوئے ہوئے خدا اور خودی سے غافل ہو گئے ہیں۔ جب ملت اسلامیہ کی اپنی یہ حالت ہے تو یہ ملت مغربیوں کی بے دینی پر کس منہ سے معترض ہو سکتی ہے۔ ملا اور صوفی اور سیاسی رہنما اور دولت میں مست افراد سب کا یہی حال ہے۔ مغربیوںنے کم از کم وہ کچھ تو کر دکھایا ہے جو خرد کے بس کی چیز تھی۔ مشرق میں تو روحانیت کے ساتھ عقلیت کا بھی فقدان ہے۔ مغرب کو تو اپن اصلاح کے لیے فقط اپنی عقلیت اور مادیت کی ترقی یافتہ صورتوں کو روحانیت کے زیر نگین لانا ہے لیکن مشرق کو اپنے باطن کے ساتھ ظاہر کرنے کی درستی کا کام بھی کرنا ہے۔ زندگی کی دوڑ میں مشرق مغرب سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ مغرب کو جتنی اصلاح کی ضرورت ہے اس سے درجہا زیادہ مشرق اورم لت اسلامیہ اس کی محتاج ہے جس کے عوام و خواص کا یہ حال ہے:
میر سپاہ نا سزا لشکریاں شکستہ صف
آہ! وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف
تیرے محیط میں کہیں گوہر زندگی نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج دیکھ چکا صدف صدف
عشق بتاں سے ہاتھ اٹھا اپنی خودی میں ڈوب جا
نقش و نگار دیر میں خون جگر نہ کر تلف
مشرق و مغرب دونوںمیں سے کسی کی صفت قابل ترجیح دکھائی نہیں دیتی توکہہ اٹھتاہے کہ ان دونوں تہذیبوں کی قیمت دو جو کے برابر بھی نہیں:
بگذر از خاور و افسونی افرنگ مشو
کہ نیرزد بجوے ایں ہمہ دیرینہ و نو
بہت دیکھے ہین میں نے مشرق و مغرب کے میخانے
یہاں ساقی نہیں ہے وہاں بے ذوق ہے صہبا
مغرب نے غیب کی طرف سے آنکھیں بند کر کے عالم حاضر میں تو کچھ عیش و تنعم پیدا کر لیا ہے اس کی کوتاہی یہ ہے کہ ربنا اتنا فی الدنیا حسنتہ وفی الاخرۃ حسنتہ میں پہلے جزو کی تکمیل میں دوسرے حصے سے غافل ہو گیا ہوں۔ لیکن نصف کام تو اس نے مشرق سے بہت بہتر کر ڈالا ہے۔ گو اس کے عرفان حقیقت میں یہ خامی باقی ہے کہ وہ اسی عالم کے عیش کو اپنے لیے اور آئندہ نسلوں کے لے عیش تمام سمجھ کر اس کے دوام کے لیے کوشاں ہے:
ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام
وائے تمنائے خام وائے تمنائے خام!
مشرق مدت سے فرنگ کے سیل بے پناہ میں بہہ رہا ہے۔ اب اقبال کی پیش گوئی ہے:
خبر ملی ہے خدایان بحر و بر سے مجھے
فرنگ رہگزر سیل بے پناہ میں ہے
چلو قصہ تمام ہوا۔ ہم تو ڈوبے صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ اقبال چاہتا ہے کہ یہ دونوں ڈوب کر پھر ایک تازہ اندا ز حیات میں ابھریں جس میں زندگی کے تمام طاہری اور باطنی قوتیں نشوونما پا سکیں۔
اس موضوع پرایک بات قابل توضیح باقی ہے کہ اقبال کے دل میںفرنگ کے خلاف ایسا شدید جذبہ کیوں ہے جو سینکڑوں غزلوں نظموں قطعوں اور رباعیوں میں بار بار ابھرتا ہے۔ اس کا سمجھنا کچھ زیادہ دشوار نہیں۔ اس مخالفانہ جذبے کی ایک وجہ سیاسی ہے۔ غلبہ فرنگ نے ایشیا اور افریقہ کی تمام اقوام کہن کو جو کسی زمانے میں مذاہب اور تہذیب و تمد ن کا گہوارہ تھیں مغلوب کر لیا ہے ان اقوام میں پہلے سے انحطاط موجود ھتا جس کی ذمہ دار مغربی اقوام نہ تھیں۔ علوم و فنون مردہ ہو چکے تھے۔ اور مطلق العنان حکومتوں کی وجہ سے رعایا میں اپنے حقوق و فرائض کا کوئی احساس نہتھا۔ نہ دینی جذبہ ایسا قوی تھا کہ جو ملتوں کو متحد کر کے آمادہ ایثا ر کر سکے۔ اورنہ وہ قوم پرستی اور ملت پرستی تھی جس نے مغرب میں دین کی جگہ لے کر مغربی اقوام میں اتحاد اور قوت پیدا کر دی تھی۔ ہر جگہ جمود اور استبداد کا دور دورہ تھا۔ جب تک مغرب کی یورش ان اقوام پر نہیںہوئی تب تک حیات اجتماعی کے پرانے ڈھانچے قائم تھے۔ اگرچہ ان میں ایسی استواری نہ تھی کہ منظم اور قوی اقوام کا مقابلہ کر سکیں۔ علم و ہنر نے جو نئی قوتیں پیداکی تھیں ان کا یہاں فقدان تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مشرق کی ایسی اقوام مٹھی بھر فرنگیوں کی حکمت اور قوت سے مفتوح و مغلوب ہو گئیں۔ ہندوستان کے تیس کروڑ انسانوں نے ایک لاکھ سے کم انگریزوں کی غلامی قبول کر لی ۔ انگریوں کی اجتماعی معاشی اور علمی زندگی ان تمام اقوام پر فائق تھی۔ اچھے دل و دماغ کے افراد ان اقوام میں بھی خال خال موجود تھے۔ لیکن اجتماعی زندگی بحیثیت مجموعی نہایت ضعیف اور غیر منظم تھی۔ اس تفاوت کی وجہ سے ہندوستان میں انگریزوں کی فوقیت کا سکہ دلوں پر بیٹھ گیا۔ ملک میں جو مصلحین پیدا ہوئے وہ بھی انگریزوں کی سیاسی قوت سے زیادہ ان کی تہذیب اور علوم و فنون سے مغلوب بلکہ مرعوب تھے۔ مسلمانوں میں احیائے ملت اور اصلاح قوم کا خیال سب سے پہلے سر سید احمد خان کے دل میں پیدا ہو ا تھا۔
وہ ملت کا دلدادہ اور اسلام کا شیدائی تھا۔ لیکن ان حالات میں مسلمانوں کے احیا کی صورت اس کی سمجھ میں بھی آئی کہ انگریزوں سے علم و فنون حاصل کیے جائیں اور ان کی تہذیب میں سے ان عناصڑ کو اپنایا جائے جو اسلام کے منافی نہیںہیں بلکہ حقیقت میں اسلامی زندگی کا تقاضا ہیں۔ سرسید وار اس کے رفقا محسن الملک‘ چراغ علی‘ حالی‘ شبلی ‘ نذیر احمد‘ مولوی ذکاء اللہ وغیرہ سرسید سے اس معاملے میں متفق تھے۔ وہ اپنی تحریروں میںجا بجا اپنی تہذیب کی پرستی اور فرماویگی اور مغربی تہذیب کے جمال و کمال کا بے دریغ اقرار کرتے ہیں۔ ان کی نیتیں نیک تھیں وہ ملت کے حقیقی خیر خواہ تھے اور بہت حد تک ان کایہ خیا ل درست تھا کہ مشرق کو جمود اور پستی سے نکالنے کے لیے مغربی افکار اورطریقوں کی ضرورت ہے۔ وہ ان چیروں کو اسلام کے منافی نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ یہ عقیدہ رکھتے تھ کہ ملت اسلامیہ جب زندہ اور ترقی پذیر تھی تو اس میں یہی صفات پائے جاتے تھے۔ ان میں سے بعض برکات حکومت انگلشیہ کے راگ گاتے تھے۔ اور بعض ایسے تھے کہ جو شعوری اور غیر شعوری طور پر مغربی انداز تفکر سے علم و ادب میں نئی روح پھونکنا چاہتے تھے یہ لوگ اسلامی تعلیمات اسلامی علم و ادب اور اسلامی تاریخ کے عالم اور ادیب تھے اور غلامانہ ذہنیت کے مالک نہ تھے لیکن ایک ترقی یافتہ تہذیب و تمدن کی خوبیوں کے منکر نہ ہو سکتے تھ۔ یہ زمانہ مسلمانوں کی ملی خودی کو زور شور سے پیش کرنے کا عہد نہ تھا۔ چنانچہ اقبالنے بھی اسی دور میں علی گڑھ میں کالج کے طلبا کو جو پیغام بھیجا تھا اس میں آخر میں یہ نصیحت تھی:
بادہ ہے نیم رس ابھی شوق ہے نارسا ابھی
رہنے دو خم کے سر پرتم خشت کلیسیا ابھی
 

فرخ منظور

لائبریرین
سید احمد خان اسی دور میںراہی ملک بقا ہوئے لیکن ان کے رفقا جو بعد میں تادیر زندہ رہے ان میں غلبہ فرنگ کے خلاف احتجاج شروع ہو گیا۔ حالی اور شبلی آخر ایام میںانگریزوں کی حکومت سے بے زار ہونے لگے اس کے کئی وجو ہ تھے۔ ایک وجہ یہ ھتی کہ انگریزی تعلیم نے جدید تعلیم یافتہ طبقے میں وطنیت اورآزادی کے جذبے کی تربیت کی اور میکالے کی وہ پیش گوئی پوری ہونے لگی کہ انگریزی تعلیم کی بدولت ہندوستان میں ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ نئے تعلیم یافتہ لوگوں کے رنگ تو کالے اور سانولے ہوں گے لیکن وہ اپنی ذہنیت میں انگریز ہوں گے۔ اور اپنے ملک کی سیاست اور معاشرت میں ویسے ہی آزاد اداروں کا تقاضا کریں گے جو انگلستان نے اپنے ارتقا میں پیدا کیے ہیںَ سید احمد خان کا مقصد علی الاعلان ایسے ہی مسلمان پیدا کرنا تھا جو ذہنیت میں انگریز ہوں مگر پکے مسلمان بھی ہوں۔ ایک پوچھنے والے نے سید صااحب سے یہ دریافت کیاکہ آپ طلبا کی تعلیم و تربیت کس انداز کی چاہتے ہیں تو انہوںنے جواب دیا کہ میں اس کالج میں سے انگریز مسلمان پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ مسلمانوں کی ترقی صدیوں سے رکی ہوئی تھی۔ چودھویں صدی کے بعد سے مسلمانوں نے علوم و فنون میں کوئی اضافہ نہ کیا تھا دینی علوم بھی جامد اور فرسودہ ہو گئے تھے اور ان میں نئے حالات سے توافق کی صلاحیت مفقود تھی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ فقط مغربیوں کے ہاں مل سکتی تھی۔ تعلیم کے شائع جو کچھ تعلیم ہندوستان میں مل سکتی تھی اسے ناکافی سمجھ کر براہ راست علم کی پیاس بجھانے کے لیے یور چلے جاتے تھے۔ سید احمد خان خود اپنے دونوں بیٹوں کو اپنے ہمراہ انگلستان لے گئے جن میں سے ایک کی زندگی نے وفا نہ کی اور دوسرا سید محمود ایک یگانہ روز گار بن گیا۔ جو بڑے بڑے فرنگی علما کاہم پلہ تھا۔ خو دعلامہ اقبال فلسفے کی اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان گئے اور جاتے ہوئے کہتے گئے کہ:
چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے
شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو
اقبال کے ز مانے میں بھی یورپ سے دو قسم کے ہندوستانی واپس لوٹتے تھے۔ ایک وہ جو پہلے سے مغلوب الغرب تھے۔ اور وہاں پہنچ کر اور زیادہ مرعوب ہو جاتے تھے نشست و برخاست‘ رہن زہن‘ طرز تفکر بلکہ بول چال میں بھی انگریزوں کی نقالی کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے تھے۔ لیکن کچھ نوجوان ایسے بھی تھے جو مغرب میں پہنچ کر مغربیت کے خلاف بغاوت کا جذبہ لے کر واپس آتے تھے۔ اس بغاوب کا سبب زیادہ تر اپنے ملک کی سیاسی غلامی تھی۔ دیکھتے تھے کہ مغرب کی ہر چھویت بڑی قوم آزاد ہے۔ اگرچہ مغبیوں میںکوئی ایسی خاص باتی نہیں تھی جو ہم میں نہیں یا جو ہم پیدا نہیں کرسکتے۔ بشرطیکہ ہم کو بھی آزادی کے مواقع حاصل ہوں۔ اس کے علاوہ مغرب کو بہت قریب سے دیکھنے کی وجہ سے وہاں کی تہذیب کے تاریک پہلو بھی ان پر واضح ہو جاتے تھے۔ وہ محسوس کرتے تھے کہ عیوب ہم میں بھی ہیں لیکن یہ کہاں کے بے عیب ہیں کچھ باتیں ایسی ہیں جن میں ٰہ لوگ خاص تاریخی اسباب کی وجہ سے ہم سے آگے نکل گئے ہیں مگر بعض صفات ایسے ہیں جن میں ہم ان سے ہٹیے نہیں بلکہ وہ ہم سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں۔
مغرب کے خلاف بغاوت کے جتنے محرکات و عوامل ہو سکتے تھے۔ وہ اقبال کی طبیعت میں یک وقت جمع ہو گئے۔ انہوںنے مغرب کی تہذیب اور اس کے فکر و عمل کا پورا جائزہ لیا اور انہیں مغرب ی تعمیر میں جو خرابی کی صورتیں مضمر تھیں نظر آنے لگیں اور وہین سے انہوں نے پکارنا شروع کر دیا:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خو د کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے کا ناپائدار ہو گا
انہوںنے دیکھا کہ کمزور اقوام کو غلام بنانا اور لوٹنا اس تہذیب کا شیوہ ہے۔ اور ان اقوام کی بہت سی دولت اسی لوٹ کھسوٹ سے حاصل ہوئی ہے۔ ان کے تمام فلسفے پر عبور حاصل کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ سب مادی یا استدلالی عقل کا گورکھ دھندا ہے اور اس میں اس جوہر کا فقدان ہے جس کے لیے اقبا ل نے عشق کی اصطلاح اختیار کی:
رہ عقل جز پیچ در پیچ نیست
بر عاشقاں جز خدا ہیچ نیست
مغر ب نے اپنی تمام عقل عالم محسوسات پر تصرف حاصل کرکے صرف کی ہے لیکن دماغ کی ترقی کے ساتھ ساتھ دل بے نور ہوتا گیا ہے۔ یہ حسی تہذیب عالم روحانی کی منکر اور الحاد کی طرف مائل ہے۔ اس کی ظاہری ترقی آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے۔ لیکن اس میں حقیقت انسانیت کا جو ہر ماند پڑ گیا ہے۔ جس عقلیت نے مغرب کے فکر و عمل میں یہ انداز پیدا کیا اقبال مغرب ہی میں اس کا دشمن ہو گیا اور دل میں یہ ٹھان لی کہ ملت اسلامیہ کا احیاء مغرب کی اندھا دھند تقلید سے نہیں ہو سکتا۔ ملت میں اسلامی جذبے کو ابھارنا لازمی ہے تاکہ اپنے مخصوص جوہر کو ترقی دے سکے۔ مغرب کی تہذیب اور اس کا تمدن زوال آمادہ نظر آتا ہے۔ اور خود مغرب کے اہل نظر کو اس کا احساس پیدا ہو رہا ہے۔ اس قسم کی تہذیب کی نقالی سے مشرق کو کیا فائدہ پہنچے گا جو ظاہر پرست ہے اور جس کے اندر باطن کی پرورش نہیں ہوتی ۔
اقبا ل کی طبیعت میں مغرب کے خلاف غصے اور احتجاج کا دوسرا بڑا سبب نہ صرف اپنے ملک و ملت کی غلامی تھی جو مغرب کے غلبے سے طبائع پر ظاہر ہو گئی تھی بلکہ تمام عالم اسلامی غلبہ فرنگ کی زد میں آ گیا تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز تک ترکوں کی حکومت تین براعظموں تک پھیلی ہوئی تھی۔ ترکی کی معاشی سیاسی اور عسکری زندگی بے سکت ہو چکی تھی۔ لیکن آزادی و مملکت کا خارجی ڈھانچا بہت کچھ قائم تھا۔ انیسویں صدی میں دول یورپ نے قوت حاصل کرنے کے بعد سب سے زیادہ چھاپہ اسلامی ممالک پر مارا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومتوں کو انگریزوں نے ملیا میٹ کر دیا اور جن ریاستوں کو باقی رکھا ان کو بھی کوئی حقیقی اقتدار حاصل نہ تھا۔ بقول مرزا غالب انگریزوں نے دیسی سیاستوں کو ویساہی اختیار دے رکھا ہے جیسا خدا نے بندوں کو دیا ہے صورت میں اختیار ہے اور حقیقت میں جبر۔ ایران کو روسیوں نے انگریزوں نے خفیہ معاہدوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔
ساز عشرت کی صدا مغرب کے ایوانوں میں سن
اور ایراں میں ذرا ماتم کی تیاری بھی دیکھ
ایسی حالت میں شکستہ خاطر مسلمانوں کو اقبال تاریخی حوالے سے تسلی دیتا ہے کہ ایران مٹ جائے تو مٹ جائے لیکن اسلام تو نہیں مٹ سکتا۔ اسلام کو مٹانے والے تاتاریوں نے بہت جلد اسلام ہی کی حلقہ بگوشی اختیار کر لی تھی تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرا سکتی ہے:
تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشہ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
لیکن ان تسلیوں کے باوجود اقبال کا دل غلبہ افرنگ سے مجروح تھا۔ وہ اس کی تہذیب کی کیا داد دیتا جس کی بدولت مسلمانوں کی رہی سہی آزادی اور ملت کی خودداری غارت ہو رہی تھی۔
اقبال دیکھتا تھا کہ اسلامی ملتوں کی مغلوبی اور بے بسی کے باوجود جس کا ذمہ دار فرنگ تھا جدید تعلیم یافتہ طبقے کو فرنگ کی تہذیب سے کوئی منافرت نہیں اگر ان کو فرنگ کی طرف سے سیاسی آزادی بھی حاصل ہو جائے تو بھی ان کے قلوب فرنگ سے مغلوب ہی رہیں گے۔ اقبال اس ذہنی غلامی کو سیاسی غلامی سے بھی زیادہ خطرناک اور مضر سمجھتا تھا۔ اس کے دل میں یقین پیدا ہو چکا ھتا کہ اگر مسلمان ذہنی طور پر آزاد ہو جائیں اور اپنے دلوں میں روح اسلام کی پرورش کریں تو وہ سیاسی اور معاشرتی غلامی سے بھی آزاد ہو جائیں گے ایک قسم کی قلید وہ تھی کہ جس نے دین داروں کو جامد کر کے مذہب کو بے معنی اور استخوان بے مغز بنا دیا تھا۔ دوسری طرف جدید تہذیب کے متوالوں کی تقلید شعاری تھی جو ایک بند سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش میں ایک دوسری قسم کی قید و بند میں گرفتار ہو رہے تھے۔ ایسے لوگوں کو شکار کرنے کے لیے مغرب کو کوئی زیادہ کوشش درکار نہ تھی۔ ان میں خود نخچیر بننے کا ذوق موجود تھا:
خود اٹھا لاتے ہیں جو تیر خطا ہوتا ہے
٭٭٭
ہمہ آہوان صحرا سر خود نہادہ برکف
بخیال ایں کہ روزے بشکار خواہی آمد
مغربی تہذیب مخصوص خوبیوں سے معرانہ تھی۔ اس نے بہت کچھ پیدا کیا تھا۔ جس کی ضڑورت ملت اسلامیہ کو بھی تھی۔ لیکن مسلمانوںک جو کیفیت تھی اس کو مدنظر رکھتے ہوئے مغرب کی خوبیوں اور اس کے کمالات کا راگ اپنا ان کی ذہنی معاشی اور تہذٰبی زندگی کے لیے مفید نہ ہو سکتاتھا۔ علم و فن میں یورپ کے کمالات اقبال کی نظر سے اوجھل نہ تھے اور کبھی کبھی ان کی زبان سے اس کی بے اختیار داد بھی نکل جاتی تھی۔ لیکن قدر شناسی کا یہ پہلو اس کے کلام اور پیام ہی میں دبا رہا ۔ مغرب کے حاصل کردہ کمالات کچھ اسی نظریہ حیات کی بدولت تھے جسے اقبال اسلامی سمجھتا تھا لیکن دین بے تعلق ہونے کی بنا پر مغرب ان قوتو ں کا صحیح استعمال نہیں کر رہا تھا۔ اقبال چاہتا تھا کہ مغرب انسانیت کی تکمی میں روحانیت کے عنصر کو بھی ترقی دے اور مسلمان مغرب کی کوارنہ تقلید کی صورت میں صروت پرست ہو کر روح حیات سے بیگانہ نہ ہو جائیں۔ بعض ناقدوں کا خیال ہے کہ مغرب کی تنقیص میں اقبال کی کیفیت کچھ جنونی سی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ دیوانہ بکار خویش ہشیار۔ اس کا جنون بے مقصد نہ تھا۔ وہ اپنی قوم کو ایک قسم کی تقلید سے نکل کر دوسری قسم کی حیات کش تقلید میں مبتلا ہوتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اور ملی خودی کو استوار کرنے کے لیے یہ لازم تھا کہ ملت کو اپنے مخصوص زاویہ نگاہ کی طرف راغب کیا جائے تاکہ اغیار کی ستایش گری ان کو اندھے مقلد نہ بنا دے۔
اقبال کی خواہش یہ تھی کہ علم و فن یورپ سے حاصل کرو لیکن روحانیت اور اخلاقیات کا جو سرمایہ تم کو اسلام نے عطا کیا ہے اس بیش بہا وراثت کی قدر کرو تاکہ تم شر ق و غرب دونوں سے افضل اور مکمل تہزیب و تمدن پیدا کر سکو۔ مشرق و مغرب کے متعلق اپنے نظریات کو اپنے کلام میں منتشر کرنے کے علاوہ اقبال نے جاوید نامہ میں اس بارے میں اپنے مخصوص افکار کو ان ا شعار میں جمع کر دیا ہے جو سعید حلیم پاشا نے مفکر و مصلح ترکی کے خیالا ت کی ترجمانی کرتے ہوئے کہے ہیںَ سعید حلیم پاشا نے ترکوں کو جمود سے کلا کر شاہراہ ترکی پر گامزن کرانے کی کوشش کی مگر سلطانی استبداد اورملائی جمود نے ا س کی کوششوں کو بارور نہ ہونے دیا۔ ترک مشرقی یورپ کے ایک حصے پر عرصے سے حکمرانی کرتے تھے دول یورپ نے قوت پکڑنے کے ساتھ ہی ان کے سیاسی اقتدار کو ختم کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ ایک ایک کر کے مشرقی یورپ کی اقوام کو ترکوں کے خلاف ابھارا اور اپنی امدا د سے ان کو آزاد کرایا۔ ترکوں کے صاحب بصیرت افراد عرصے سے یہ دیکھ رہے تھے کہ ترک رو زبروز کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کی کمزوری اور مملکت کے اختلا ل کے اور بھی بہت سے اسباب تھے لیکن ایک بڑا سبب یہ تھا کہ اس دو رمیں علم و حکمت اور صنعت کے بغیر کسی قوم میں محض ذاتی اور عسکری شجاعت کی بنا پر قوت پیدا نہ ہو کستی ھتی۔ سعید حلیم پاشا نے اس مرض کی صحیح تشخیص کی اور مجرب علاج تجویز کیا۔ مگر ترکوں کی سلطانی سیاست بصیرت سے بالکل محروم تھی۔ اور ملائیت میں اسلام کی کوئی زندہ صورت نہ تھی۔ مستبد سلطانی اور جامد فقہ نے مل کر سلطنت پر ایسی ضرب کاری لگائی کہ وہ اس سے جانبر نہ ہو سکی۔ سعید حلیم پاشا کی تلقین یہ تھی کہ اسلام کی روحانیت اور اخلاقیات میں کوئی خلل نہیں اور نہ ہی اس کے نظری معیشت و معاشرت میں کوئی خامی اور کوتاہی ہے۔ ترکوں کے زوال کا اصلی سبب یہ ہے کہ جب مغرب جدید علوم و فنون پیدا کر رہا تھا تو ترک یورپ کا ہمسایہ ہونے کے باوجود ا س جدید دور کی اہمیت اور قوت آفرینی سے غافل رہے۔ مسلمانوں کو یورپ کے علوم و فنون حاصل کرنے کی ضرورت ہے جن کے ساتھ مل کر اسلام کی شرعیت ایک صحت مندانہ معاشرت اور سیاست پیدا کر سکتی ہے۔ حقیقی ترقی کی تعمیر اسلام کی بنیادوں پر ہی ہو سکتی ہے مگر اسلام اور اس کی شریعت میں کوئی جامد شے نہیں تغیر حالات کے ساتھ وہ عروج کی نئی راہیں سمجھ اسکتی ہے۔ قرآن کی تعلیم میں کئی کئی تہذیبوں اور تمدنوں کی تعمیر کے اساسی عناصر مل سکتے ہیں۔ اسلام ازمنہ ماضیہ کی کسی صورت کے ہو بہو احیاء کا تقاضانہیں کرتا بلکہ ہر دور میں ایک نیا عالم پیدا کر سکتا ہے۔ روح اسلامی کی کسی ایک قالب کے ساتھ دوامی وابستگی نہیں رہتی۔ ترک اپنی اسلامی اور قومی خصوصیات کو قائم رکھتے ہوئے جدید علوم و فنون کی بدولت اعلیٰ درجے کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پیدا کر سکتے ہیں۔ اقبال اس بات پر متاسف ہے کہ ترک سعید حلیم پاشا کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلے اور محض نقل فرنگ پر قانع ہو گئے۔ اس نظم میں اقبال نے زیرکی اور عشق کی جو اصطلاحیں استعمال ک ہیں وہ عارف رومی کے اس شعر سے اخذ کردہ ہیں:
می شناسد ہر کہ از سر محرم است
زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است
وہ روحانیت جو زندگی میں تخلیقی اور انقلابی قوتیں پیدا کرتی ہے اقبال اسے عشق کہتا ہے اور وہ عقلیت جو عشق سے معرا ہواسے محض زیرکی قرار دیتا ہے۔ عقل زندگی کا ایک بیش بہا جوہر ہے لیکن زندگی کے بلند نصب العینوں سے بیگانہ ہو کر ہو بے قیمت رہ جاتاہے۔ بلکہ مفید ہونے کی بجائے مضر ہو جاتاہے۔ تمام ادیان عالیہ مشرق ہی میں پیدا ہوئے اس لیے اقبال مسلمانوں کے ساتھ ساتھ تمام اہل مشرق کو روحانیت کا وارث گردانتا ہے اور کہیں کہیں روح اسلام کی بجائے روح شرق کی اصطلاح بھی استعمال کرتا ہے۔ صرف عقل ہی عشق سے بے تعلق ہو کر بے کار نہیں ہو جاتی بلکہ عشق کی بھی یہ حالت ہے کہ اگر وہ عقل کو اپنا معاون اور شریک کار نہ بنائے تو وہ کوئی بھی اچھا نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا۔ خالی عشق میں مست صوفی اور راہب انسانی زندگی کو آگے بڑھانے میں خا ص کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ مشرق نے عشق الٰہی میںغوطے لگائے اور مغرب نے ساری کائنات کے رموز کا انکشاف کیا۔ انسانیت کی تکمیل تبھی ہو سکتی ہے جب عشق و زیرکی کی آمیزش سے اکسیر حیات حاصل ہو:
سعید حلیم پاشا
شرق و غرب
غربیاں را زیرکی ساز حیات
شرقیاں را عشق راز کائنات
زیرکی از عشق گردد حق شناس
کار عشق از زیرکی محکم اساس
عشق چوں با زیرکی ہم بر شود
نقشبند عالم دیگر شود
خیز و نقش عالم دیگر بنہ
عشق را با زیرکی آمیز دہ
شعلہ افرنگیاں نم خوردہ ایست
چشم شاں صاحب نظر دل مردہ ایست
زخمہا خوردند از شمشیر خویش
بسمل افتادند چوں نخچیر خویش
سوز ومستی را مجو از تاک شاں
عصر دیگر نیست در افلاک شاں
زندگی را سوز و ساز از نار تست
عالم نو آفرین کار تست
اس کے بعدافسوس کیا ہے کہ مصطفی کمال جو تجدید کا آرزو مند تھا اور رسوم و قیود کہن سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تھا ا سنے حقیقی تجدید کی بجائے تقلید فرنگ کو اپنا شیوہ بنا لیا اور وہ باتیں بھی اختیار کرنے لگا جن سے خود فرنگ تلخ تجربوں کے بعد بیزار ہو چکاہے۔ کعبے میں گھسے ہوئے پرانے مشرقی بتوں کو نکال کر مغرب سے آوردہ لات و منات کو اس میں متمکن کرنا کوئی تجدید نہیں محض تبدیلی اصنام سے اتاترک عشق اسلامی کے ساتھ اگر فرنگ عقل کی آمیزش کرتا ہے تو ایک جہان نو پیدا کر سکتا تھا:
مصطفی کو از تجدد می سرود
گفت نقش کہنہ را باید زدود
نو نگردود کعبہ را رخت حیات
گر ز افرنگ آیدش لات و منات
ترک را آہنگ نو در چنگ نیست
تازہ اش جز کہنہ افرنگ نیست
سینہ اور را مے دیگر نبود
در ضمیرش عالمے دیگر نبود
لا جرم با عالم موجود ساخت
مثل موم از سوز ایں عالم گداخت
طرفگی ہا در نہاد کائنات
نیست از تقلید تقویم حیات
زندہ دل خلاق اعصار و دہور
جانش از تقلید گردد بے حضور
چون مسلمانان اگر داری جگر
در ضمیر خویش و در قرآں نگر
صد جہان تازہ در آیات اوست
عصر با پیچیدہ در آنات اوست
یک جہانش عصر حاضر را بس است
گیر اگر در سینہ دل معنی رس است
بندہ مومن ز آیات خداست
ہر جہاں بر او چوں قباست
چوں کہن گردد جہانے در برش
می دہد قرآں جہانے دیگرش
اس کے بعد ’’زندہ رود‘‘ پوچھتا ہے کہ وہ جہان دیگر جو قرآن پیدا کر سکتا ہے اس کا نمونہ تو مجھے کہیں مشرق و مغرب میں نظر نہیں آتا۔ اس کا جواب جمال الدین افغانی دیتے ہیں کہ وہ عالم ابھی سینہ مومن میں گم ہے۔ اس عالم میں نوع انسان کے خون و رنگ اور وطنیت کی تفریق فساد انگیز نہ ہو گی۔ ایک عالم گیر اخوت تمام عالم کی شیرازہ بند ہو گی۔ اس میں اس طرف سلاطین اور امرا اور دوسری طرف غلام نظر نہ آئیں گے۔ یہ عالم اسی اندز کا ہو گا جس کا تخم نبی صلعم کی نظر کیمیا اثر نے عمر فاروقؓ جیسے انقلاب آفریں انسان کی جان میں بو دیا تھا۔ یہی تخم اب کسی اور کی جان میں پڑ جائے تو وہ انقلاب سے ایک اور عالم پیدا کر دے۔ قرآن کے پیش نظر جو آدم ہے وہ کسی خاص نسل کاانسان نہیں ہے۔ نور الٰہی کی طرح وہ لاشرقیہ و لا غربیہ ہے۔ یہ وہ آدم ہے جس کے اندر کونین سما جاتے ہیں لیکن وہ کسی عالم کے اندر نہین سما سکتا۔ اس کی رسائی وہاں تک ہے جہاں جبریل بھی بار نہ پا سکے۔ اسی آدم کی آفرینش اور اسی آدم کااحترام مقصود حیات ہے۔ اصل حکمت اور اچھی تعلیم و تہذیب وہی ہے جو اس قسم کے انسان کی آفرینش میں معاون ہو جب اس قسم کی آدمیت ظہور میں آئے گی تو ا س میں مردو زن دونوں کا وقار قائم ہو گا۔ اس عالم میں کوئی شخص عورت کو حقیر اور ادنیٰ نہ سمجھے گا عورت اس معاشرے میں آتش زندگی کی نگہبان اور اسرار حیات کی محافظ ہو گی۔ عورت کی قدسیت یہ ہے کہ وہ نقش بند حیات ہے۔ عشق و حکمت کی آمیزش سے انسان اور زیادہ خلاق ہو جائے گا۔ اس کا علم لذت تحقیق ہے اور اس کا عشق لذت تخلیق سے بہرہ اندوز ہو گا۔ انسان کائنات میں نیابت الٰہی کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ جب تک انسان میں صفات و اخلاق الہیہ پیدا نہ ہوں تب تک وہ کائنات میں حاکم نہیں بلکہ محکوم رہے گا۔ نصب العینی تہذیب میں وہ جھوٹی مساوات نہیں ہو گی جو مغربی جمہوریت نے پیدا ک ہے۔ نصب العینی تہذیب میں عورتیں مائیں بننے سے گریز نہ کریں گی۔ جو صوت ہ تہذیب فرنگ میں پیدا ہو گئی ہے۔ یہ کیفیت سرمایہ داری اور ذاتی ملکیت کا اثر مسموم ہے۔ نصب العینی انسان زمین کی ملکیت کے لیے ایک دوسرے کی گردنیں نہیں کاٹیں گ۔ تمام ارض ملک خدا ہو گی۔ اگر کوئی پوچھے کہ ایسی تہذیب کا کہیں وجود بھی ہے یا اس کا کچھ امکان بھی ہے تو اس کا جواب عارف رومی کی زبان میں یہ ہو سکتا ہے:
گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما
گفت آں کہ یافت مے نشود آنم آرزوست
نصب العین کاکام زندگی کی سمت اور ارتقاء کے رخت کو معین کرنا ہے۔ کسی ایک صورت مین اس کا تمام کمال تحقیق لازمی نہیں۔ جس طرح اقبال ایک نصب العینی تہذیب کا نقشہ کھینچتا ہے اسی طرح کوئی اڑھائی ہزار سال قبل سقراط نے جمہوریہ افلاطون میں بڑی بحث و تمحیص کے بعد مملکت اور ملت کا ایک نصبا العینی خاکا پیش کیاتھا۔ آخر میں ایک مخاطب نے سوا ل کی اہے کہ ایسی مملکت کہاں سے ہے یا کیسے معرض وجود میں آ سکتی ہے سقراط نے اس کا جواب یہ دیا کہ خدا کے ہاں عادلانہ مملکت کا یہی خاکا ہے جو لوح محفوظ پر ثبت ہے۔ انسانی مملکتیں اسے سامنے رکھ کر عدل کی کوشش کریں۔ اقبال نے جو مرد مومن کے صفات جا بجا بیان کیے ہیں وہ بھی یکجا تو کسی ایک انسان میں نظر نہیں آتے ۔ وہ بھی ایک نصب العینی نقشہ اور معیار کمال ہے مومن بننے کی کوشش میں ان میں جتنے صفات کو کوئی اپنا سکے اپنا لے۔ نصب العینی تہذیب کے متلعق جمال الدین افغانی کی زبان سے جاوید نامہ میں اقبال نے جو کچھ کہا ہے اس میں سے چند اشعار درج ذیل ہیں:
عالمے در سینہ ما گم ہنوز
عالمے در انتظار قم ہنوز
عالمے بے امتیاز خون و رنگ
شام اور روشن تر از صبح فرنگ
عالمے پاک از سلاطین و عبید
چوں دل مومن کرانش ناپدید
عالمے رعنا کہ فیض یک نظر
تخم او فگند در جان عمرؓ
لا یزال و وارداتش نو بنو
برگ و بار محکماتش نو بنو
باطن او از تغیر بے غمے
ظاہر او انقلاب ہر دمے
اندرون تست آں عالم نگر
می دہم از ممکنات او خبر
درد دو عالم ہر کچا آثار عشق
ابن آدم سرے از اسرار عشق
سر عشقاز عالم ارحام نیست
او ز سام و حام و روم و شام نیست
کوکب بے شرق و غرب و بے غروب
در مدارش نے شمال و نے جنوب
آنچہ در آدم بگجند عالم است
آنچہ در عالم نگنجد آدم است
٭٭٭
زندگی اے زندہ دل دانی کہ چیست؟
عشق یک بین در تماشائے دوئی است
مرد و زن وابستہ یک دیگراند
کائنات شوق را صورت گر اند
زن نگہ دارندہ نار حیات
فطرت او لوح اسرار حیات
آتش مارا بجان خود زند
جوہر او خاک را آدم کند
ارج ما از ارجمندی ہائے او
ما ہمہ از نقش بندیہائے او
ذوق تخلیق آتشے اندر بدن
از فروغ او فروغ انجمن
٭٭٭
عل و ہم شوق از مقامات حیات
ہر دومی گیرد نصیب از واردات
علم از تحقیق لذت می برد
عشق از تخلیق لذت می برد
٭٭٭
بندہ حق بے نیاز از ہر مقام
نے غلام و رانہ او کس را غلام
بندہ حق مرد آزاد است و بس
ملک و آئینش خدا داد ست و بس
٭٭٭
عقل خود بیں غافل از بہبود غیر
سود خود بیند نہ بیند سو غیر
وحی حق بینندہ سود ہمہ
در نگاہش سود و بہبود ہمہ
٭٭٭
وائے بر دستور جمہور فرنگ
مردہ تر شد مردہ از صور فرنگ
حقہ بازاں چو سپہر گرد گرد
از امم بر تختہ خود چیدہ نرد
شاطراں ایں گنج ور آں رنج بر
ہر زماں اندر کمین یک دگر
فاش باید گفت سر دلبراں
ما متاع و ایں ہمہ سوداگراں
گرچہ دارد شیوہ ہائے رنگ رنگ
من بجز عبرت نہ گیرم از فرنگ
سر گزشت آدم اندر شرق وغرب
بہر خاکے فتنہ ہاے حرب و ضرب
حق زمین راجز متاع ما نگفت
ایں متاع بے بہا مفت است مفت
وہ خدایا! نکتہ ازمن پذیر
رزو و گور ازوے بگیر اورامگیر
گفت حکمت را خدا خیر کثیر
ہر کجا ایں خیر رابینی بگیر
علم و حرف و صوت راشہپر دہد
پاکی گوہر بہ ناگوہر دہد
نسخہ او نسخہ تفسیر کل
بستہ تدبیر او تقدیر کل
دل اگر بندد بہ حق پیغمبری است
ور زحق بیگانہ گردد کافری است
علم را بے سوز دل خوانی شر است
نور او تاریکی بحر و بر است
٭٭٭
سینہ افرنگ را نارے ازوست
لذب شب خون و یلغارے اوست
سیر واژونے دہد ایام را
می برد سرمایہ اقوام را
قوتش ابلیس را یارے شود
نور نار از صحبت نارے شود
کشتن ابلیس کارے مشکل است
زانکہ او گم اندر اعماق دل است
خوشتر آں باشد مسلمانش کنی
کشتہ شمشیر قرآنش کنی
٭٭٭٭٭٭٭
 

فرخ منظور

لائبریرین
آٹھواں باب
اشتراکیت
جسے جدید مغربی تہذیب و تمدن کہتے ہیں اس کا ارتقاء ازمنہ متوسط کے اختتام پر نشاۃ جدید سے ہوا اس کے بعد سے رفتہ رفتہ مختلف اقسام کے استبداد سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد جاری رہی معاشی زندگی میں تاجروں نے جاگیرداری کی قوت کو توڑا اور پروٹسٹٹنزم نے مذہبی فکر میں آزادی کو ترقی دی۔ اٹھارویں صدی میں جسے انلائٹن منٹ یا دور تنویر کہتے ہیں مذہب فلسفہ سیاست اور معیشت کے اہم مسائل آزادانہ طورپر حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ گروٹیس والٹیر‘ روسو‘ ہیوم‘ اور کانٹ کی ان کوششوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ انسان کے بنیادی حقوق کسی قدر وضاحٹ سے معین ہو گئے۔ پہلے امریکہ میں اور اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد انقلاب فرانس میں عوام نے جابر حکومتوں بے رحم سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے خلاف دستور حکومت اور عدالت کے بارے میں بہت کچھ مساوات حاصل کر لی۔ اسی زمانے میں طبیعی علوم نے غیر معمولی ترقی کی اور صنعت پر ان کے اطلاق نے وسیع کارخانہ داری کو جنم دیا۔ اقوام مغربی میں خاص و عام کے دلوں میںیہ قوی امید پیدا ہو گئی کہ اب شاہی مطلق العنانی نہ رہے گی ہر جگہ دستوری حکومت ہو گی۔ تجارت اور صنعت پر سے رکاوٹیں ہٹ جائیں گی۔ مملکت کو کلیسا سے بے تعلق کرنے کی وجہ سے مذہبی استبداد ختم ہو جائے گا۔ اس ترقی کے دستور کچھ عرصے تک جار ی رہنے کی بدولت امن قائم ہو جائے گا اور زندگی کی نعمتیں وافر اور عام ہو کر غریبوں کے کلبہ احزاان کو بھی جنت ارضی میں بدل دیں گی۔ لیکن یہ سہانا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا۔ جاگیرداروں کے بعد تاجروں کا دور دورہ آیا اور تاجروں کے بعد قومی دولت کارخانہ داروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں مرتکز ہونے لگی۔ وہ کاشتکار جنہوںنے جاگیرداروں اور بڑے بڑے زمینداروں کے پنجہ آہنیں سے نجات پائی تھی وہ زمینوں کو چھوڑ کر کارخانوں میں مزدور بن کر روز افزوں تعداد میں بھرتی ہوتے گئے۔ ایک قسم کی غلامی کے مقابلے میں بد تر اور انسانیت کش ثابت ہوئی۔ صنعتی انقلاب کی ابتدا انگلستان میں ہوئی۔ کارخانہ داروں کی بے دردی اور ظالمانہ زر اندوزی نے مزدوروں کے ساتھ جو برتائو کیا اس کو پڑھ کر بدن پر رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ عورتوں اور بچوں سے سوا سولہ گھنٹے تک مسلسل کام لیا جاتا تھا۔ ان کی رہائش کا کوئی انتظام نہ تھا۔ دھڑا دھڑ بیمار ہوتے اور بے تلاج مرتے تھے۔ کارخانہ داروں کو اس کی کچھ پروا نہ تھی۔ بیماروں کو مالکان کارخانہ برخاست کر دیتے تھے۔ اور مرنے والوں کی جگہ لینے والے اور ہزاروں مل جاتے تھے انگلستان کے بعد فرانس اور جرمنی یورپ کے دیگر ممالک میں بھی جدید صنعتوں کی کارخانہ داری آتی گئی اور وہاں بھی وہی صورت حال پیدا ہوئی جو انگلستان میں خلق خدا کے لیے تباہی کا باعث ہوئی تھی۔ انسان دوست مصلحین نے اس کے خلاف شور سے احتجاج بلند کیا لیکن نقار خانوں میں طوطی کی آواز کسی نے نہ سنی جابجا سوشلزم اور کہیں کمیونزم کی تحریکیں شروع ہوئیں۔ لیکن تمام ممالک کی حکومتیں ان میں حصہ لینے والوں کو مسفد اور باغی قرار دے کر ان کی سرکوبی میں کوشاں رہیں۔ پیرس میں اشتراکیوں نے اپنی حکومت قائم کر لی اور لیکن بہت جلد سے فنا کر دیا گیا۔ ایک المانوی یہودی کارل مارکس نے انگلستان میں سکونت اختیار کر کے کارخانہ داری زمینداری اور سرمایہ داری کے خلاف ایک مبسوط تحقیقی تصنیف مرتب کی جس کا نام ہی ڈاس کاپیٹل یعنی سرمایہ ہے۔ اس کتاب کو اشتراکیت کا صحیفہ گردانا جاتاہے۔ اس کتاب کے مضمون کا لب لبا بیہ ہے کہ کارخانہ داری زمینداری اور سرمایہ داری چوری اور ڈاکے کی قسمیں ہیں۔ ان کامدار مزدوروں اور کسانوں کا خون چوسنے پر ہے۔ جدید صنعتی سرمایہ داری میں رفتہ رفتہ یہ ہو گا کہ سرمایہ چند ہاتھوں میں مرتکزہو جائے گا اور باقی تمام خلق خدا پر پرولیتار یہ بن جائے گی جو مطلقاً بے گھر اور بے زر ہو گی۔ مزدوروں کا گروہ ان کا محتاج اور بے بس ہو گا۔ جو غلامی اور جاگیرداری کے زمانے میں بھی نہ تھا۔ کارخانوں میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں ہزاروں لاکھوں مزدوروں کا اجتماع ہو گا جو محتاجی اور بے بسی کے اسفل السافلین میں پہنچ کر متحد ہو کر آمادہ بغاوت ہوں گے۔ شروع میں حکومتیں جو سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہوں گی ان کی سرکوبی کریں گی لیکن یہ سیلات آخر کناروں کو توڑ ڈالے گا۔
مغرب میں حکما اور مصلحین کی کوششوں سے جو جمہوری حکومتیں قائم ہوئیں ان پر بھی عوام کو دھوکا دے کر سرمایہ دار قابض ہو گئے پہلی حکومتوں میں اقتدار سلاطین اور جاگیر داروں کے ہاتھ میں تھا اب سرمایہ دار حکومتوں میں امیر وزیر و مشیر ہو گئے اور کوئی قانون ایسا وضع نہ ہو سکتا تھا جس سے ان کی نفع اندوزی پر زد پڑتی ہے۔ ایسی حالت میں یہ آواز بلند ہوئی کہ کوئی انقلاب تشدد کے بغیر پیدا نہ ہو سکے گا۔ تمام محنت کشوں کو متحد ہو کر بغاوت کرنی چاہیے تاکہ وہ تمام جانداروں اور کارخانوں پر قابض ہو جائیں۔
اشتراکیت آغاز میں ایک اقتصادی یا معاشری نظریے اور حصول حقوق کے لیے ایک لائحہ عمل تھا لیکن کارل مارکس اس کے رفیق کار انکل ارو بعض دیگر اہل فکر نے اس کی تعمیر مضبوط کرنے کے لیے حیات و کائنات کی ایک ہمہ گیر نظریاتی اساس قائم کر دی جس نے اشتراکیوں کے نزدیک پہلے تمام ادیان اور ان کے فلسفوں کو منسوخ کر کے ان کی جگہ لی اس نظریہ حیات نے دین اور اخلاق کے متعلق یہ عقیدہ پیش کیا کہ تمام پہلی تہذیبوں اور تمدنوں کا قیام طبقاتی نفوق کا رہین منت تھا اور اپنی تعلیم کا زیادہ تر مصڑف یہ تھا کہ استحصال بالجبر پر الٰہیاتی مہر لگا کر محتاجوں کو اس پر راضی کر ے کہ وہ خوشی سے اس کو قبو ل کر لیں منعمون سے کچھ رشک و حد نہ برتیں کیوں کہ یہ دنیا نچد روز اور اس کی نعمتیں ناپائدار ہیں۔ آخر ت میں ابدی جنت ااور ا س کی مسرتیں سب ان محتاجوں کے لیے وقف ہیں جنہیں ہم اس دنیائے دوں میں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اخلاق میں صبر و قناعت‘ توکل اور تسلیم و رضا کو اعلیٰ اخلاقی اور روحانی اقدار قرار دے کر سلاطین اور امرا کے لیے حفاظت کا سامان پیدا کر دیا ہے۔ اشتراکیت نے تاریخ عالم پر نظر ڈال کر اس کا ثبوت پیش کیا کہ مذہبی پیشوا ئوں نے معاشی لوٹ کھسوٹ کے خلاف کبھی آواز بلند نہیں کی بعض قدیم اور جدید مذاہب فلسفہ بھی عوام کو انسانی اور مساواتی حقوق عطار کرنے کے خلاف تھے۔ جمہوریہ افلاطون میں عوام کو امو ر سلطنت میں حصہ لینے کی اجازت نہیںمشرق میں بھی حکمت عملی کا یہی تقاضا بن گیا ھتا کہ رموز مملکت خویش خسروان دانند مگر یہ رموز غریب کشی کے سوا کچھ نہ تھے۔
اشتراکیت کے سر اٹھانے سے قبل ہی مغرب کے سائنسدانوں اور اہل فکر کے نزدیک مذہبی عقائد کے بہت کچھ دفتر پارینہ بن چکے تھے۔ اور عملاً بھی زندگی پر مادیت طاری ہو رہی تھی۔ اشتراکیت انہی میلانات کی پیداوار ہے۔ اشتراکیت نے الحاد واو رمادیت کو یکجا کر دیا اورعوام کی حقوق طلبی میں اور شدت پیدا کر دی۔ اشتراکیت نے پہلی روحانیت قدیم اخلاقیت قدیم معاشرت قدیم سیاست‘ قدیم معاشیات سب کے خلاف بیک وقت بغاوت کا علم بلندکیا۔ اس نے کہا کہ تدریجی اصلاحات کی تلقین بھی سرمایہ داروں کی ایک چال ہے۔ ایک ہمہ گیر انقلاب کے سوا چارہ نہیں جو حیات اجتماعی کے تمام قدیم ڈھانچوں کا قلع قمع کر دے۔
علامہ اقبال جب تک یورپ میں تھے سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کے گروہ جابجا مصرو ف کار تھے لیکن ان کو کہیں اقتدا رحاصل نہ تھا۔ اشتراکیوں کو پہلی زبردست کامیابی روس میں ہوئی۔ پہلی جنگ عظیم میں روس کا اندرونی معاشی اور سیاسی شیرازہ بکھر گیا تو کمیونسٹوں کے ایک گروہ نے لینن کی قیادت میں حکومت پر قبضہ کر کے اپنے پروگرام پر عمل درآمد شروع کیا۔ یورپ کی سرمایہ دارانہ حکومتوں نے ان کو کچلنے کی بہت کوشش کی لیکن ان کوکامیابی نہ ہوئی۔ روس کا علاقہ کرہ ارض کا پانچواں حصہ ہے۔ اس وسیع خطے میں جہاں نہ انسانوں کی تعداد قلیل ہے اورنہ فطرت کے مادی ذرائع کی کمی ہے زندگی کے تمام شعبوں میں نئے تجربے ہونے لگے۔ کوئی ادارہ اپنی پہلی حالت پر قائم نہ رہا۔ دنیا کے ہر سیاستدان اور ہر مفکر کو اس نئے تجربے کا جائزہ لینا پڑا اور تمام دنیا میں ہر سوچنے والا اس پر مجبور ہوگیا کہ وہ اس انقلابی نظریہ حیات اور انداز معیشت کے متعلق موافق یا مخالف خیالات کا اظہار کرے۔ شخصی ملکیت کے طرفداروں اور مذہب کے حامیوں نے اس کو خطرہ عظیم سمجھا کیوں کہ اس کی کامیابی سے ان کا صفایا ہوتا ہوا نظر آتا تھا۔
اقبال نے مذہب و تہذیب کے تمام مسائل کو اپنا موضوع سخن بنایا تو یہ لازم تھا کہ اشتراکیت کے فطری اور عملی پہلوئوں پر غور کر کے اپنے نتائج فکری سے ملت کوآگاہ کرے۔ سب سے پہلے پیام مشرق میں اس نے رائے زنی شروع کی۔ ہم اس سے پہلے للکھ چکے ہیں کہ اقبال طبعاً انقلاب پسند تھا اس لیے یہ ضروری تھا کہ اس انقلاب عظیم کو اچھی طرح پرکھنے اور اس کے تعمیری اور تخریبی پہلواور اس کے ایجابی و سلبی حیثیتوں کا موازنہ اور مقابلہ کرے۔
پیام مشرق میں اس موضوع کی تین نظمیں ہیں۔ پہلی نظم کا عنوان ہے ’’محاورہ بین حکیم فرانسی آگسٹس کومٹ و مرد مزدور‘‘ (فرانسیسی زبان میں اس فلسفی کا تلفظ کونت ہے۔ اقبال نے انگریزی تلفظ کے مطابق اس کو کومٹ لکھا ہے )۔
کونت ‘ جون اسٹیورٹ ‘ ہربرٹ سپنسر اور ڈارون وغیرہ کا معاصر ہے۔ اس کے فلسفے کو پورزیٹوزم یا ایجایبت کہتے ہیں۔ اس کے فلسفے کا لب لباب یہ ہے کہ انسانی تفکرمذہب اور مابعد الطبیعیات سے گزر کر محسوس کی طرف آ گیا ہے اوری اس کی ترقی کی آخری منزل ہے۔ انسان کو مذہب کی ضرورت ہے اس لیے ان دیوتائوں اور ایک خدا اور آخرت کو چھوڑ کر انسانیت کو دین بنا دینا چاہیے۔ دنیا میں جو عظیم الشان انسان گزرے ہیں ان کی پرستش کے دن مقرر کر لینے چاہیئں۔ چنانچہ اس نے ایک کیلنڈر(جنتری) بھی بنایا تھا جس میں سال کا ہر دن کسی بڑے انسان کی یاد کا دن تھا۔ تمام نوع انسان کو ایک نفس واحد اور مختلف اعضا کا ایک جسم تصور کرنا چاہیے۔ جس طرح جسم انسانی میں ہر عضو کا ایک مخصوص وظیفہ ہے۔ اسی طرح معیشت کے کاروبار میں بھی فطری تقسیم کا ر ہے۔ بعض لو گ کارندے ہیں اور بعض کارفرما کوئی دماغ سے کام لیتا ہے اور کوئی ہاتھ پائوں ہلا کر محنت مزدوری کرتا ہے۔ یہ تعلیم تہذیب و تمدن کے معاصرانہ ڈھانچے کو درست قرار دیتی ہے لیکن اقبال کے نزدیک یہ محنت کشوں کو دھوکا دینے والی بات ہے۔ کونت فلسفی سعدی کا ہم زباں ہوکر کہتا ہے:
بنی آدم اعضائے یک دیگر اند
ہماں نخل را شاخ و برگ و براند
مگر کونت کے نزدیک یہ نوع انسان کسی غیر مرئی خدا کی آفرینش نہیں ہے۔ بلکہ اپنی فطرت کی پیداوار ہے جوہمارے گرد و پیش موجود ہے۔ فطرت نے تقسیم کار میں دماغ کو سوچنے کے لیے اور پائوں کو چلنے کے لیے بنایا ہے۔ انسانوں میں جو تفاوت ہے وہ بھی فطری ہے۔ یہ تفاوت حسد اور کش مکش کا باعث نہیں ہونا چاہیے!
دماغ ار خرد زاست از فطرت است
اگر پا زمیں ساست از فطرت استر
یکے کار فرما یکے کار ساز
نیاید ز محمود کار ایاز
نہ بینی کہ از قسمت کار زیست
سراپا چمن می شود خار زیست
اس کے جواب میں مزدور کہتا ہے کہ حضرت کیوں حکمت کے پردے میں ہمیں دھوکا دے رہے ہو کہ یہ تفاوت فطری ہے اس لیے اس کو برقرار رہنا چاہیے۔ یہ ہمارے کارفرنا ارو سرمایہ اندوز انسانیت کا کوئی صحت مند عضو نہیں یہ تو چور ہیں۔ آپ کی عق پر افسوس ہے کہ آپ نے چوروں کی حمایت کو حکمت کا لباس پہنایا ہے۔ (یہ خیال اقبال کو فرانس کے مشہور سوشلسٹ پرودھون نے سمجھایا جس کا مقولہ مشہور ہے کہ شخصی ملکیت چوری ہے)۔
فریبی بحکمت مرا اے حکیم
کہ نتواں شکست ایں طلسم قدیم
مس خام را از زر اندودہ
مرا خوے تسلیم فرمودہ
کوہ کن کو یہ تلقین کرنا کہ پہاڑ کاٹ کر پرویز اور اس کی محبوبہ کے لیے جوئے شیر لائو اور اسے اپنا طری وظیفہ حیات سمجھو یہ کہاں کی حکمت اور عدالت ہے ؟ مزدور حکیم کونت سے شاکی ہے کہ:
کند بحر را آبنایم اسیر
زخارا برد تیشہ ام جوئے شیر
حق کوہ کن دادی اے نکتہ سنج
بہ پرویز پرکار و نابردہ رنج
یہ سرمایہ دار جنہیں مفت خوری اور خواب خوش کے سوا کوئی کام نہیں یہ تو زمین کا بوجھ ہیں اور چور ہیں:
بدوش زمیں بار سرمایہ دار
ندارد گزشت از خور و خواب کار
جہاں راست بہروزی از دست مزد
ندانی کہ ایں ہیچ کار است دزد
مرد حکیم ہونے کے باوجود تم نے ایسا دھوکا کھایا ہے کہ ایسے مجرموں کے لیے عذر تراش رہے ہو:
پے جرم او پوزش آوردہ
بایں عقل و دانش فسوں خوردہ
پیام مشرق میں ہی کونت اور مزدور کے مکالمے کے چند صفحات بع دموسس اشتراکیت روسیہ موسیو لینن اور المانوی ملوکیت کے آخری نمائندے قیصر ولیم نے سیاست و معیشت کے اس انقلاب کے بارے میں اپنا اپنا زاویہ نگاہ پیش کیا ہے لینن کہتا ہے کہ عرصہ دراز سے انسان بھاری چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہا ہے۔ ایک طرف انسانیت کا خون چوسنے والی اور اس کو غلام بنانے والی ملوکیت ہے اوردوسری طرف کلیسا اور حامیان دین کا استبداد۔ خواجہ کی قبا محنت کشوں کے خون میں رنگی ہوئی ہے۔ بھوکے غلاموںنے آخر تنگ آمد بجنگ آمد پر عمل کر کے اس قبال کو چاک کرکے سرمایہ داروں کو ننگا کر دیا ہے۔ عوام و جمہور کی بھڑکائی ہوئی آگ نے ردائے پیر کلیسا اورقبائے سلطانی کو جلا کر راکھ کر دیا ہے۔ قیصر ولیم اس کے جواب میں کہتا ہے کہ غلامی تو سلطانی اور سرمایہ داری کی پیداوار نہیں یہ تو ایک نفسی چیز ہے عوام میں اکثر کی فطرت ہی غلامانہ ہوتی ہے جو مالکوں اور معبودوں کی تلاش میں رہتی ہے۔ جس طرح بعض ظالم اقتدار پسند لوگ غلاموں کی جستجو میں ہوتے ہیں اسی طرح بعض بندگی کیش فطری غلام انسانوں میں یا دیوتائوں میں معبودوں کو ڈھونڈتے ہیں۔ ایسے دوں فطرت لوگ پرانے دیوتائوں سے بے نیاز ہوتے ہیں تو نئے دیوتا تراش لیتے ہیں۔ تم کہتے ہو کہ اب اقتدار اور سلطانی جمہور کے قبضے میں آ گئی ہے۔ دیکھنا یہی لوگ ایک جدید انداز کا ظلم و استبداد پیدا کریں گے۔ اور انسانیت پھر سوخت ہو جائے گی۔ جب تک بعض انسانوں کے سینوںمیں ہوس اور جذبہ اقتدار موجود ہے کوئی انقلاب خواجہ و غلام کے تفاوت کو نہیں مٹا سکتا۔ اگر بادشاہی نہ رہی تو مزدوروں میں سے اپنی نوع پر ظلم و جبر کرنے والے نمودار ہو جائیں گے۔ اسی سے ملتی جگی بات نپولین نے کہی تھی کہ انقلاب فرانس کے نتیجے کے طور پر جاگیرداروں کا تو خاتمہ ہو جائے گا۔ لیکن اس کی جگہ تاجر اور سرمایہ دار بورژوا لے لیں گے۔ یہ بات وہیں کی وہیں رہے گی۔
موسیو لینن
بے گذشت کہ آدم دریں سرائے کہن
مثال دانہ تہ سنگ آسیا بود است
فریب زاری و افسوں قیصری خورد است
اسیر حلقہ دام کلیسا بود است
غلام گرسنہ دیدی کہ بردرید آخر
قمیص خواجہ کہ رنگین ز خون ما بود است
شرار آتش جمہور کہنہ سامان سوخت
ردائے پیر کلیسا قبائے سلطاں سوخت
قیصر ولیم
گناہ عشوہ و ناز بتاں چیست
طواف اندر سرشت برہمن ہست
دما دم نو خداوندان تراشد
کہ یزار از خدایان کہن ہست
زجور رہرتاں کم گو کہ رہرو
متاع خویش را خود راہزن ہست
اگر تاج کئی جمہور پوشد
ہماں ہنگامہ ہا در انجمن ہست
ہوس اندر دل آدم نہ میرد
ہماں آتش میان مرزغن ہست
عروس اقتدار سحر فن را
ہماںپیچاک زلف پر شکن ہست
نماند ناز شیریں بے خریدار
اگر خسرو نباشد کوہکن ہست
پیام مشرق کے آخر میں دو اور نظمیں اسی موضوع کی ہیں جن کے اندر سرمایہ دار کے ظلم و مکر اور امروز کی بے بسی کا نقشہ کھینچا ہے۔ قسمت نامہ سرمایہ دار مزدور پر اقبال نے جو اشعار کہے ہیں وہ اسے فارسی کے اس شعر نے سمجھائے ہیں:
از صحن خانہ بہ لب بام ازان من
جوز بام تا بہ اوج ثریا ازان تو
دو بھائیوں کے مرحوم باپ کی جائداد کا ترکہ فقط ان کا رہائشی مکان تھا۔ اس کو دو مساوی حصوں میںتقسیم کرنا تھا۔ ایک بھائی مکار اور چالاک تھا اور دوسرا صلح پسند۔ مکار نے کہا کہ میں تو قانع آدمی ہوں اور سنگ و خشت کی ہوس نہیںرکھتا۔ صحن خانہ سے لے کر کوٹھے کی چھت تک مکان کا جو حصہ ہے وہ مجھے دے دو اور مکان سے اوپر لب بام سے اوج ثریا تک جو لامتناہی فضا ہے وہ میں کمال ایثار سے برضا و رغبت تمہارے حوالے کرتا ہوں۔ سب مال و دولت اور اسباب زندگی خود لپیٹ لیے ہیں۔ مگر مزدور کویہ دھوکا دیتا ہے کہ جو کچھ تمہارے لیے چھوڑا ہے و ہ اس متاع ناپائدار سے افضل ہے۔ کارخانوں کا غوغا اور ان کے انتظامات اورفکر نفع و نقصان کی دوسری میرے لیے رہنے دو۔ اس کے مقابلے میں تسکین دین اورارغنون کلیسا کا روح پرور نغمہ لطف اندوزی کیلیے تم لے لو۔ جن باغوں پر سلطنت نے ٹیکس لگا رکھا ہے ا کی ملکیت ایک مصیبت ہے۔ اس بلا کو میرے لیے چھوڑ دو اور آخرت کے باغ بہشت پر کوئی محصول نہیں وہ غریبوں کی عطیاتی جاگیر ہے۔ اسے میں تمہارے حوالے کرتا ہوں۔ بقول سعدی درویش ہی کو حقیقی فراغ حاصل ہے:
کس نیابد بخانہ درویش
کہ خراج زمین و باغ بدہ
یا بہ تشویش و غصہ راضی شو
یا جگر بند پیش زاغ بنہ
دنیا کی شرابین خمار آور ہوتی ہیںَ جنت میںآدم و حوا کو جو شراب طہور ملتی تھی اس کی لذت اور سرور کے کیا کہنے؟ دنیا کی یہ خمار والی شراب میرے لیے رہنے دو اور تم اس سے بہتر شراب کے لیی تھوڑا انتظار کر لو۔ صبر تلخ معلوم ہو تو سمجھ لو ک ہاس کا پھل میٹھا ہوتاہے۔ مرغابیاں اور تیتر بٹیر مجھے کھانے دو اور تم ان پرندوں کی تاک میں لگے رہو جو اس دنیا میں نظر نہیں آتے۔ یہاں ایک شاعری کے ساقی نامے کی مطلع یاد آ گیا ہے:
امروز ساقیا مجھے عنقا شراب دے
شاہانہ ہے مزاج ہما کے کباب دے
یہ دنیاے دوں میرے لیے چھوڑ دو باقی عرش معلیٰ تک جو کچھ ہے وہ تمہارا مال ہے۔ اس ساری تنظیم کا مضمون ائمہ اشتراکیت کا یہ مقولہ ہے کہ مذہب محتاجوں کے لیے افیون ہے اور مسجد مندر اور کلیسا میں اسی افیون کے ڈھیر لگے ہیں:
قسمت نامہ سرمایہ دار و مزدور
غوغائے کار خانہ آہنگری زمن
گلبانگ ارغنون کلیسا ازان تو
نخلے کہ شہ خراج برومی نہد زمن
باغ بہشت و سدرہ و طوطا ازان تو
تلخابہ کہ درد سر آرد ازان من
صہبائے پاک آدم و حوا ازان تو
مرغانی و تدرو و کبوتر ازان من
ظل ہما و شہپر عنقا ازان تو
ایں خاک و آنچہ در شکم و ازان من
وز خاک تا بہ عرش معلا ازان تو
اسی کے ساتھ ایک دوری نظم نوائے مزدور ہے جو دنیا کے محنت کشوں کے لیے پیام انتقام ہے۔ کھدر پوش مزدور کہتا ہے کہ ہماری محنت کے سرمایے سے ناکردہ کار سرمایہ دار ریشمیں قبا پہنتے ہیں۔ ان کے لعل و گہر ہمارے خون کے قطرے اور ہمارے بچوں کے آنسو ہیں۔ کلیسا بھی ایک جونک ہے جو ہمارا خون چوس کر موٹی ہو رہی ہے۔ سلطنتیں ہمارے قوت بازو سے مضبوط ہوتی ہیںَ لیکن ان سے ہمیں کچھ حاصل نہیں۔ یہ تمام باغ و بہار ہمارے گریہ سحر اور خون جگر کی پیداوار ہے۔ آئو ان تمام اداروں کے ساغروں میں ایک شیشہ گداز شراب انڈیل دیں آئو اس چمن حیا ت میں ہمارے خون جگر سے لالہ و گل پیدا کرنے والوں سے انتقام لیںَبے درد شمعوں کے طواف میں اپنے آ پ کو پروانہ وار سوخت کرنا ختم کر دیں اور اپنی خودی سے آگاہ ہو کر خودداری اور آزادی کی زندگی بسر کریں۔
ز مزد بندہ کرپاس پوش و محنت کش
نصیب خواجہ نا کردہ کار رخت حریر
ز خوئے فشانی من لعل خاتم والی
ز اشک کودک من گوہر ستام امیر
ز خون من چو زاد فربہی کلیسا را
بزور بازوئے من دست سلطنت ہمہ گیر
خرابہ رشک گلستان ز گریہ سحرم
شباب لالہ و گل از طراوت جگرم
بیا کہ تازہ نوا می تراود از رگ ساز
مے کہ شیشہ گدازد بہ ساغر اندازیم
مغان و دیر مغاں را نظام تازہ دہیم
بناے میکدہ ہائے کہن بر اندازیم
ز رہرتاں چمن انتقام لالہ کشیم
بہ بزم غنچہ و گل طرح دیگر اندازیم
بطوف شمع چو پروانہ زیستن تا کے


ز خویش ایں ہمہ بیگانہ زیستن تا کے
اقبال کی ایک رباعی کا مضمون بھی اسی مقطع کے مضمون سے مماثل ہے۔ اپنی زندگی کو دوسروں کے استحصال ناجائز میں وقف کر دینا تضیع حیات ہے:
گل گفت کہ عیش نو بہارے خوشتر
یک صبح چمن ز روزگارے خوشتر
زاں پیش کہ کس ترا بہ دستار زند
مردن بکنار شاخسارے خوشتر
اشتراکیت کی تعلیم کا ایک بڑا اہم جزومسئلہ ملکیت زمین ہے۔ اس بارے میں ہر قسم کے سوشلسٹ بھی کمیونسٹوں کے ہم خیال ہیں کہ سرمایہ داری اور محنت کشوںسے ناجائز فائدہ حاصل کرنے کی یہ بدترین صورت ہے جس کے جواب کا از روئے انصاف کوئی پہلو نہیں نکلتا۔ اقبال جیسے مسلم سوشلسٹ کہنا چاہیے کہ ہر قسم کی سوشلزم اور کمیونزم سے اس مسئلے پر اتفاق رائے رکھتا ہیکہ زمین خا کی پیدا کی ہوئی ہے اور اس کی حیثیت ہوا اور پانی ک سی ہے جس پر کسی کی کوئی شخصی ملکیت نہیں۔ یہ درست ہے کہ زمین انسان کی محنت کے بغیر زیادہ رزق پیدا نہیں کرتی مگر از روئے انصاف محض افزائش سے فائدہ اسی کو حاصل ہے جس نے ہل جوتا آبیاری کی اور فصل کی نگہداشت کی۔ زمین کا غیر حاضر مالک اس کے لیے کچھ نہیں کرتا۔ پھر وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھے کس کے حق سے اس میں سے ایک کثیر حصے کا طالب ہوتا ہے۔ ملکیت زمین کے بارے میںاسلامی فقہا کے درمیان ہمیشہ کم و بیش اختلاف رہا ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم اس بارے میں کچھ اشارے کرتی ہے۔ جن کی تعبیر اپنے اپنے افکار و اغراض کے مطابق مسلمان مفسرین اور مفکرین مختلف کرتے ہیں۔ اس بارے میں اکثر احادیث کو لیی لیتا ہے جو اس کے مخالف معلوم ہوتی ہیں۔ ان کو یا ضعیف الاسناد بتاتا ہے یا ان کی تاویل کرتا ہے۔ زمین کے متعلق قرآن کریم میں جو اشارے ہیں وہ اس قسم کے ہیں الارض اللہ زمین اللہ کی ہے۔ جو شخص زمین میں شخصی ملکیت کو درست نہیں سمجھتا اس کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین کے معاملے میں ذاتی ملکیت جائز نہیں۔ اس کا مخالف یہ کہتا ہے کہ اس آیت سے اس قسم کا کوئی مطلب حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ قرآن بار بار کہتا ہے کہ للہ ما فی السموات وما فی الارض زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ اللہ ہی کا ہے۔ انسان نے کسی چیز کا پیدا نہیں کیا اس لیے وہ کسی چیز کا مالک حقیقی نہیں کہلا سکتا۔ لیکن سب کچھ خدا کا ہونے کے باوجود آخر باقی تمام اشیا میں اسی اسلام نے ذاتی ملکیت کوتسلیم کیا ہے ۔ اور فقہ کا ایک کثیر حصہ اس ملکیت کے جھگروں کے چکانے کے لیے ہے۔ لیس للانسان الا ما سعی سے اس تعلیم کو اخذ کرسکتے ہیں بینکہ جس چیز کے متعلق کسی انسان نے کچھ محنت نہیں کی اور اس یچز پر اس کا کوئی حق نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی شخص بادشاہوں کے عطیہ یا جبر و مکر اور نائاز استعمال سے زمین کے وسیع قطعات پر قابض ہو گیا ہے اور ا س کی کاشت کے متعلق آپ خود کچھ نہیں کرتا بلکہ دوسروں کی محنت سے پیدا کردہ رزق اور دولت میں سے حصہ طلب کرتا ہے تو اس کامطالبہ جائز ہ۔ اس کتا ب میں اس بحث کا فیصلہ کرنا ہمارے احاطہ موضوع سے باہر ہے۔ یہاں فقط یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ علامہ ابال زمین کے معاملے میں قومی ملکیت کے قائل ہیں۔ کاشتکار سے ملت کا خزانہ عامرہ تو بجا طور پر پیداوار کا کچھ حصہ طلب کر سکتا ہے لیکن کسی ناکردہ کار مالک کا ا س پر کوئی حق نہیں۔ اپنے اس خیال کو اقبال نے بڑے زور و شور سے کئی جگہ بیان کیا ہے چنانچہ الا رض اللہ بال جبریل کی ایک نظم کا عنوان ہی ہے:
الارض اللہ
پالتا ہے بیج کومٹی کی تاریکی میں کون؟
کون دریائوں کی موجوں سے اٹھاتاہے سحاب؟
کون لایا کھینچ کر پچھم سے اد سازگار؟
خاک یہ کس کی ہے؟ کس کا ہے یہ نور آفتاب؟
کس نے بھر دی موتیوںسے خوشہ گندم کی جیب؟
موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوے انقلاب؟
وہ خدایا یہ زمین تیری نیہں تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں تیری نہیں میری نہیں
بال جبریل کی ایک دوسری نظم فرشتوں سے فرمان خدا ایسی ہیجان انگیز اور ولولہ انگیز ہے کہ اس کے جذبے کو برقرار رکھتے ہوئے اگر روسی زبان میں اس کا موثر ترجمہ ہو سکتا اور وہ لینن کے سامنے پیش کیا جاتا تو وہ اسے بین الاقوامی اشتراکیت کا ترانہ بنا دینے پر آمادہ ہو جاتا۔ اس کے کہ ملحد لینن کو اس میں یہ خلل نظر آیا کہ اس میں خدا یہ پیغام اپنے فرشتوں کو دے رہا ہے۔ اور اس کے نزدیک وجود نہ خدا کا ہے نہ فرشتوں کا۔ وہ کہت اہے کہ افسوس ہے کہ خدا دشمن مگر انسان دوست انقلابی تعلیم کو بھی قدیم توہمات کے سانچوں میں ڈھالا گیا ہے۔ یہ نظم کمیونسٹ مینی فیسٹو(اشتراکی لائحہ عمل) کا لب لاب ہے اور محنت کشوں کے لیے ایک انقلاب بلکہ بغاوت کی تحریک ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علامہ اقبال اشتراکیت کے تمام پہلوئوں سے اتفاق رائے رکھتے تھے سوا اس کے کہ اس تمام تنظیم جدید نے انسان کے دل ودماغ پر یہ غلط ملط عقیدہ مسلط کر دیا ہے کہ تمام زندگی مادی اسباب کی عادلانہ یا مساویانہ تقسیم سے فروغ اور ترقی حاصل کر سکتی ہے۔ علامہ اقبال انسانی زندگی کا مقصود جسمانی ترقی نہیں بلکہ روحانی ترقی سمجھتے تھے۔ روح انسانی آب و گل کی پیداوار نہیں اور اس کے لیے آب و گل میں پھنس کر رہ جانا اسے غائت حیات سے بے گانہ کر دیتاہے۔ علامہ کے نزدیک اشتراکیت نے قدیم لغو طریقوں اور اداروں کی تخریب کا کام بہت کامیابی سے کیا ہے۔ جس مذہب نے اس کی تنسیخ کی ہے وہ قابل تنسیخ ہی تھا۔ اس نے سلطانی اور امیری اور سرمایہ داری کا خاتمہ کیا اور بہت اچھا کی۔ا کیوں کہ ان طریقوں نے مل کر انسانوں کا درجہ حیوانوں سے بھی نیچے گرا دیا تھا۔ لیکن روٹی کپڑے اور رہائش کی آسودگی انسان کا مقصود حیات نہیں انسانی ارتقاء کے مدراج لامتناہی ہیں۔ اشتراکیت نے کچھ کام تعمیر ی کیا ہے اور کچھ تخریبی۔ اس کا ایک پہلو سلبی ہے اور دوسرا ایجابی ۔ اس نے جن اداروں کا قلع قمع کیا ہے اور جن عقائد کو باطل قرار دیا وہ انسان کی روحانی ترقی کے راستے میں بھی سد راہ تھے لیکن اشتراکیت چونکہ مغرب کی مادی جدوجہد کی پیداوار تھی اور طبیعی سائنس کے اس نظریے سے پیدا ہوء تھی کہ مادی فطرت کے علاوہ ہستی کی اور حقیقت نہیں۔ اس لیے وہ اس تاریخی حادثے کا شکار ہو گئی کہ مادی زندگی میں عادلانہ معیشت کو الحاد کے ساتھ وابستہ کر دیا حالانکہ یہ تمام انقلاب ک امادیت کے فلسفہ الحاد کے ساتھ کوئی لازمی رابطہ نہیں۔ اقبال کا عقیدہ تھا کہ یہ تمام انقلاب اسلام کے ساتھ وابستہ ہو سکتا ہے۔ بلکہ معاشی تنظیم اسلام کے منشا کے عین مطابق ہے۔ فرماتے تھے کہ خدا اور روح انسانی کے متعلق جو صحیح عقائد ہیں وہ اگر اس اشتراکیت میں شامل کر دیے جائیں تو وہ اسلام بن جاتی ہے اقبال کو اشتراکیت پر جو اعتراض ہے وہ ہم آگے چل کر پیش کریں گے۔ لیکن جس حد تک اسے اشتراکیت سے اتفاق ہے۔ اس حد تک اس کے افکار اور جذبات ایسے ہیں جو لینن اور کارل مارکس اور انگل کی زبان سے بھی ہو بہو اسی طرح ادا ہو سکتے ہیں۔ خدا فرشتوں کو جو کچھ حکم دے رہا ہے وہی تقاضا ائمہ اشتراکیت کی تمام محنت کشوں سے کرتے ہیں۔ لیکن ان کے ہاں انسان انسان کو ابھار رہاہے خدا کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔ خدا سے وہ بس اس لیے بیزار ہیں اور اس کے وجود کے منکر ہیں کہ خدا کے نام کو زیادہ تر ہر قسم کے ظلم و استبداد ہی نے اپنے غرض کے لیے استعمال کیا ہے۔
اقبال کے نزدیک فرشتوں کو خدا جو پیغام دے رہا ہے کہ اسے انسانوں تک پہنچا دو۔ وہ درحقیقت اس اسلامی انقلاب کے پیغام کا ایک حصہ ہے جس کا اقبال آرزو مند تھا۔ یہ انقلاب ایسی معاشرت پیدا کرے گا جس میں غریبوں کی محنت سے پیدا شدہ ناکردہ کار امیری مفقود ہو جائے گی غلام اپنے ایمان کی قوت سے بڑ ے بڑے فرعونوں سے ٹکر لیں گے۔ اس میں اس انداز کی سلطانی جمہور پیدا ہوگی جو موجودہ مغربی انداز کی جمہوریت کی طرح سرمایہ داری کا دام فریب نہ ہو گی۔ بلکہ اس میں مساوات حقوق عوام کا وہ انداز ہو گا جو اسلام نے اپنی ابتدا میں رکھا ھتا۔ جہاں امیر سلطنت بھی عوام کا ہم رنگ اور حقوق و فرائض میں ان کے برابر تھا۔ اس میں تمام فرسوہ رسوم و رواج اس طرح ملیا میٹ ہوجائیں گے کہ جس طرح اسلام نے زمانہ جاہلیت کے نقوش مٹا دیے۔ جہاں کاشتکار کی پیدا کردہ روزی کو نکھٹو زمیندار جبر سے حاصل نہ کر سکے گا۔ جہاں خالق اورمخلوق کے درمیان دیر و حرم کے دلال اور کمیشن ایجنٹ وسیلہ نجات بن کر حائل نہ ہوں گے۔ جہاں مذہب کے ظواہر پابندی سے ریاکار دیندار دوسروں پر اپنا سکہ نہ جما سکیں گے۔ اور جہاں ان جدید تہذیب کے پیدا کردہ ڈھونگ کا صفایا ہو جائے گا اور جس نے انسانوں کو ان کی اصلیت سے بے گانہ کر دیا ہے۔ اب اقبال کی اپنی زبان سے یہ پیغام سنیے:
 
Top