فنِ افسانہ نویسی

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
نورالحسن ہاشمی (سابق صدر شعبۂ اردو و فارسی لکھنؤ یونیورسٹی) کی کتاب"ادب کیا ہے" دلچسپ تنقیدی مضامین پر مشتمل ہے ۔ارادہ تھا کہ اس کتاب کے چند منتخب مضامین کی ٹائپنگ اور پروف ریڈنگ کے بعد اردو محفل پر شائع کیا جائے ۔ اس کتاب کا ایک مضمون بعنوان" استادوں کی اصلاحیں" پچھلے سال یہاں پوسٹ کیا تھا۔ یہ مضامین دراصل ان کے ریڈیو انٹرویوز کی تحریری شکل ہیں ۔ آج دوسرا مضمون پیشِ خدمت ہے۔ اگر محفل کے بند ہونے سے پہلے کوئی اور مضمون مکمل ہوگیا تو اسے بھی یہاں پوسٹ کر دوں گا ، ان شاء اللہ۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
فنِ افسانہ نویسی
(مضمون از کتاب"ادب کیا ہے")
مصنف: نورالحسن ہاشمی ، صدر شعبۂ اردو و فارسی لکھنؤ یونیورسٹی
ناشر :ادارہ فروغِ اردو لکھنؤ ۔ ۱۹۵۹ء
٭٭٭​

قصہ ہو یا کہانی، حکایتیں ہوں یا داستانیں ، افسانے ہوں یا ناول، ان سب کے لکھنے یا کہنے کے کچھ خاص گُر ہوا کرتے ہیں۔ بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ کہانی یا قصہ کہنے میں کیا دھرا ہے بس کہنا شروع کیا اور قصہ ختم ہوگیا۔ لیکن ایسا نہیں ہے قصہ اور کہانی تو جگ بیتی ہوتی ہے ، اگر آپ بیتی بھی آدمی کہتا ہے تو اس میں بھی ایک سلیقہ ، ایک ڈھنگ ہونا چاہیئے ورنہ اس میں نہ کچھ لطف آئے گا نہ اس کا کچھ اثر ہو گا۔ سب سے پہلی ضرورت تو یہی ہے کہ قصہ یا افسانہ اس طرح کہا جائے کہ سننے یا پڑ ھنے والے کا دھیان اسی طرف شوق کے ساتھ لگا ر ہے۔ اگر قصہ یا کہانی پر سامعین یا ناظرین کا دھیان نہ جما، توجہ اوردلچسپی برقرار نہ رہی تو سمجھیے کہ قصہ یا افسانہ بالکل ناکام رہا۔
سب سے پہلا گُر تو یہی ہے کہ اس میں کچھ جدت ہو کچھ نیاپن ہو ، یہ نیاپن خواہ پلاٹ کا ہو، خواہ کردار کا خواہ مکالمے یا اندازِ بیان کا ، جدت کا ہونا بہر حال ضروری ہے کیونکہ اگر کسی قسم کی تازگی ، ندرت یا انوکھا پن نہ ہو تو سننے والاگھبرا جائے گا اور اس کی دلچسپی یہ سمجھ کر فوراً کم یا ختم ہو جائے گی کہ یہ تو بہت معمولی قصہ ہے۔ اگر آپ کو کوئی بالکل نیا پلاٹ یا کردار نہ سوجھے (کیونکہ بالکل نئی باتیں اور واقعات تو اب دنیا میں شاذ ہی رہ گئے ہوں گے) تو یہ کیجیئے کہ ادھر ادھر سے نئے یا پر انے واقعات کے ٹکڑے اس طرح ملائیے کہ وہ مرکب بظاہر نیا معلوم ہو۔ یعنی کم ازکم پڑھنے یا سننے والے کو احساس ہو کہ یہ نیا ہے۔ اس نئے پن کے احساس کا افسانے کے خاتمے پر ہونا خاص کر بہت ضروری ہوتا ہے کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ ہر افسانہ کا خاتمہ ہی دراصل توڑ کا مقام ہوتا ہے۔
پھر آپ آج کل کے افسانے پڑھیے تو ان میں ایک دوسری چیز اور نظر آئے گی وہ یہ کہ ندرت ہی ضروری چیز نہیں ہے بلکہ اس میں کسی خیال، کسی فکر یا مقصد کی طرف اشارہ بھی ملتا ہے بلکہ اکثر تو یہ خیال یا نصیحت یا فضیحت تمام افسانے پر چھائی ہوئی ہوتی ہے۔ بات یہ ہے کہ در اصل ایک اچھے افسانے میں کسی نہ کسی مرکزی خیال کا ہونا ضروری ہے یعنی افسانے کا مقصد محض دلچسپی نہ ہو بلک اس میں کوئی کام کی بات بھی نکل سکے توبڑا اچھا ہے۔ بالفاظ دیگر یوں سمجھ لیجیے کہ وہ آپ کو کچھ سوچنے اور فکر کرنے پر بھی مجبور کرے مگر ہاں یہ خیال ضرور رکھیے کہ کہیں آپ کا افسانہ وعظ و نصیحت کا ایک لیکچر بن کر نہ رہ جائے (جیسا کہ نذیر احمد نےاپنے ناولوں میں عموماً کیا ہے) یاکسی مقصد کا کھلا پروپیگنڈہ ہو کر نہ رہ جائے (جیسا کہ آج کل بعض ترقی پسند افسانہ نویسوں کا معمول ہے) بلکہ اصل بات تو دلچسپی کی ہے۔ دلچسپیوں ہی کی شکر میں ملا کر کوئی دوا اگر آپ کھلا سکیں، چاہے وہ کو نین جیسی کڑوی کیوں نہ ہو ، تب تو آپ کی استادی مسلم ہو سکتی ہے۔ (پریم چند کی مثال سامنے ہے) اگر کوئی مرکزی خیال آپ کے ذہن میں موجود نہ ہو تو انتظار کرتے رہیئے، کسی نہ کسی وقت وہ آئے گا ضرور۔ اس وقت آپ نے اپنا پلاٹ زیب قرطاس نہ کر لیا یا افسانہ نہ لکھ ڈالا تو بس سمجھیے کہ ہاتھ سے گیا۔ پنسل اور کا غذ تو آپ کی جیب میں ہر وقت رہنا چا ہیئے اگر واقعی آپ کو اچھا افسانہ نویس بننے کا شوق ہے۔
سب سے اعلی قسم کی ندرت یا نیا بین تو وہی ہے جو اس بات کا احساس دلائے کہ جوکچھ افسانہ نویس کہہ رہا ہےوہ واقعہ ہماری سچ مچ کی زندگی سے لیاگیا ہے۔ (جیسا پریم چند کے افسانے کرتے ہیں)۔ یہ سچ یا صداقت کا احساس افسانے کی جان ہے۔ بغیر اس کے افسانے میں دلچسپی پیدا نہیں ہوسکتی۔ اگر کوئی افسانہ نویس ہماری عام معمولی زندگی کو اسی عام معمولی انداز میں پیش کر سکے تو سمجھ لیجیے کہ وہ گڑھ جیت لیا۔ ایسے افسانہ نویس کو استادِ کامل کہا جا سکتا ہے لیکن یہ طریقہ ہے بہت مشکل۔بالکل سہلِ ممتنع والا معاملہ ہے جو دیکھنے میں آسان معلوم ہو اور برتنے میں لوہے لگ جائیں ۔
ہمارے بہت سے نئے اور نو جوان افسانہ نویس نقل پر گزران کرنا چاہتے ہیں۔ کسی بڑے افسانہ نویس کی ریس کی کوشش بری چیز نہیں ہے لیکن بہت اچھی بھی نہیں کیونکہ اس طرح وہ اپنی نظر پیش نہیں کر پاتے اور آپ یقین مانیے کہ اپنی نظر ہی میں سب سے زیادہ جدت ہوتی ہے۔ ہر آدمی اپنی نظر ہی سب سے زیادہ بھر پور طریقے پر واضح اور صاف صان پیش کر سکتا ہے۔ نقل میں یہ بات کہاں ممکن ہے! یہاں اپنی نظر سے مراد انانیت نہیں بلکہ اندازِ بیان ہے جس میں اپنی شخصیت ، اپنا مزاج اور طریق فکر بغیر کسی آورد کے در آتا ہے۔
اگر آپ چاہتے ہی کہ لوگ ہمیشہ آپ کے افسانوں کو دلچسپی سے پڑھیں تو ان میں خلوص اور صداقت کا مظاہرہ ضرور کیجیے۔ ورنہ آپ محض واقعات کے الٹ پھیر، کرداروں کی قلابازیوں ، مکالمے کی الٹوانسیوں یا مناظر کے تنوع کے اہتمام میں رہے تو آپ کو کامیابی تو ضرور ہو جائے گی لیکن عارضی اور وقتی۔ یہ افسانے اچھے ضرور ہوں گے لیکن ان میں ابدی کشش نہ ہوگی۔ ازل اور ابد کا رشتہ تو صرف خلوص اور سچائی سے قائم ہو سکتا ہے۔ ایک دفعہ فرانس کے مشہور ناول نویس فلابیر نے نوجوان افسانہ نگار موپسان (جو بعد میں خود بھی بہت بڑا افسانہ نویس بن گیا) کو یہ نصیحت کی تھی کہ:-"دیکھو دنیا کی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اپنے اندر ایک راز سربستہ رکھتی ہے۔ اس نا معلوم سربستہ راز کو معلوم کرو۔ مثال کے طور پر کسی معمولی درخت کا ذکر کرنا ہے یا کسی معمولی آتشزدگی کا حال بیان کرنا ہے تو اس درخت یا اس آگ کا حال اس طرح لکھو جیسے تم نے اس سے پیشتر کسی درخت یا کسی قسم کی آگ کو دیکھا ہی نہیں ہے۔ اگر اس طرح لکھو گے تو تمہارے بیان میں جدت پیدا ہو جائے گی"۔
افسانہ نگار حضرات عموماً کس قسم کی غلطیاں کر جاتے ہیں؟ افسانوں میں خلوص اور صداقت کی پرکھ کیسے کی جاتی ہے؟ اس کے متعلق بھی دو چار باتیں سن لیجیے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کے افسانے اپنے کلی یا جزوی تاثر میں نامعقول یا غیر معقول نہ معلوم ہوں یعنی اسے ہم پڑھ کر یا اس کے کسی حصے یا حصوں کو سن کریہ نہ کہیں کہ بھئی یہ بات تو خلافِ عقل ہے یا دنیا میں ایسا کہاں ہوتا ہے یا زندگی میں یہ کیونکر ممکن ہے؟ دوسرے الفاظ میں افسانہ ایسا ہونا چاہیئے کہ واقعی سچا معلوم ہو ویسے افسانہ تو افسانہ ہوتا ہے لیکن قاری کو محسوس ہو کہ یہ واقعہ ہے۔ حالانکہ ایک اچھی اور متاثر کرنے والی کہانی میں تو سچ سے تجاوز کرنا بہتر ہی ہوتا ہے لیکن نامعقول بنیادوں پر نہیں۔معقول طریقوں سے ، یعنی اچھے افسانوں کے کردار غالباً معمولی سے زیادہ مہربان، زیادہ نیک یا اپنے ماحول سے زیادہ الگ تھلگ نظر آ سکتے ہیں لیکن اگر آپ ایسے کردار پیش کریں گے جو انسانی فطرت کے خلاف عمل پیرا ہیں یا پلاٹ کے نت بدلتے واقعات کا شکار ہوتے رہتے ہیں ، خود اپنے اندر کوئی جان یا سکت نہیں رکھتے تو ایسے کردار سچے معلوم نہ ہوں گے۔
ہمارے نوجوان افسانہ نگار دوسری غلطی عام طور پر یہ کرجاتے ہیں کہ اپنا پلاٹ یا افسانے کا ماحول بہت سپاٹ قسم کا قائم کرتے ہیں یعنی ایسا جس مں کوئی ندرت نہیں ہوتی اور آپ جانیے کہ جس شخص میں ندرت نہ ہو وہ افسانہ نگاری میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ لیکن افسانے کی سب سے بڑی خامی اس وقت رونما ہوتی ہے جب اس میں سستی پیدا ہو جائے یعنی قصہ آگے بڑھتا ہی نہ معلوم ہو۔ معلوم ہو کہ بس ایک جگہ گٹھل ہو کر یا قائم ہو کر رہ گیا ہے کہ سننے یا پڑھنے والے کی طبیعت اکتا جائے۔ اب اگر آپ پوچھیں کہ اس خامی کا علاج کیا ہے تویہ بتانا جرور مشکل ہے کیونکہ اول تو ناظرین کے مذاق میں خود بھی اختلاف ہو سکتا ہے اور یہ مذاق عہد بہ عہد بدلتا بھی تو رہتا ہے۔ ممکن ہے کہ جو افسانہ آپ کو بارِخاطر معلوم ہو رہا ہو وہمجھے بارِ خاطر نہ معلوم ہو۔ یا ممکن ہے کہجو افسانہ آج سست ، سپاٹ یا گٹھل معلوم ہورہا ہے ایک پشت کے بعد سرا ہا جانے لگے۔ غالب او نظیر اکبر آبادی کے کلام کا حال آپ کے سامنے ہے۔ غالب اور نظیر کی قدر اپنے زمانے میں اتنی نہ ہو سکی جتنی کہ ذوق اور ناسخ کی ہوئی تھی لیکن آج ہم غالب اور نظیر کے سامنے ذوق اور ناسخ کو بھلا دینے کو تیار ہیں۔ شروع بیسویں صدی میں رنگین اور تخیلی قسم کے افسانوں کا رواج تھا۔ پریم چند کے افسانوں کی وقعت معمولی ، سپاٹ اور سیدھے سادھے قصے کہانیوں سے زیادہ نہ سمجھی جاتی تھی لیکن آج؟ با ایں ہمه افسانوں میں اس سستی اور جمود کا کوئی علاج اگر تجویز کیا جاسکتا ہے تو صرف یہ کہ ان میں عمل اور رفتار پیدا کی جائے۔ عمل اور رفتار کی تجویز کو غلط نہ سمجھ لیجیے گا۔ یعنی اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہر وہ کہانی جس میں متواتر نئے نئے مواقع اور عمل دکھائے جائیں ، وہی افسانہ افسانہ بن سکتا ہے یا صرف وہی کہانی ناظرین کے دل و دماغ پر چھا کر رہ جائے گی۔ عمل اور رفتار سے مراد صرف یہ ہے کہ کہانی میں کہانی کی دلچسپی ضرور باقی رہے یعنی یہ اشتیاق ضرور باقی رکھا جائے کہ آگے کیا ہوگا۔ کوئی نہ کوئی دلچسپ بات پیدا ہو کہ قصے کو آگے ضرور بڑھاتی رہے۔
چوتھی غلطی جو عام طور پر افسانوں میں نظر آتی ہے وہ یہ کہ افسانہ نگار بعض اوقات جن چیزوں کو پیش کرتا ہے خود بھی ان سے واقف نہیں ہوتا۔ مثلاً جس مقام یا ماحول کو آپ افسانے میں دکھا رہے ہیں اس سے بالکل یا بہت کم واقف ہوں۔ یہاں ایک واقعہ یاد آگیا۔ غالبا سن 40 یا سن 41 میں ایک صاحب اپنا ایک افسانہ میرے پاس لائے تاکہ میں اسے اپنے رسالے میں شائع کر دوں (اس زمانے میں میں رسالہ جامعہ کا ایڈیٹر تھا) انھیں اپنی افسانہ نگاری پر کچھ ناز بھی تھا۔ اور ان کے اکثر افسانے دیگر رسالوں میں شائع بھی ہو چکے تھے لیکن جو افسانہ وہ میرے پاس لائے تھے اس میں لکھنؤ کے مشہور محلے امین آباد کا ماحول پیش کیا تھا۔ ستم ظریفی یہ کی تھی کہ امین آباد کے چوراہے سے کچھ ایسی سڑکیں انھوں نے نکال دی تھیں اور ان کی کچھ ایسی سمتیں مقرر کی تھیں جو محض فرضی اور خیالی تھیں۔ ان کی اس واقعاتی غلطی پر انہیں آگاہ کیا گیا۔ فرمانے لگے کہ افسانہ تو افسانہ ہی ہوتا ہے۔ اس میں یہ سب جائز ہے۔ اتفاق سے وہیں دفتر میں ایک اور رسالہ رکھا ہوا تھا جس میں ایک خاتون کا بہت اچھا افسانہ ان دنوں شائع ہوا تھا۔ مزید یہ کہ خاتون اسی یونیورسٹی میں زیرِتعلیم تھیں جہاں موصوف پڑھ رہے تھے۔ بتایا گیا کہ دیکھیے افسانہ یوں لکھا کیجیے جیسے یہ خاتون لکھتی ہیں۔ چڑ گئے اور اس افسانہ نگار خاتون کی افسانوی خامیاں بیان کرنے لگے۔ دو تین سال بعد معلوم ہوا کہ صاحب موصوف نے اسی خاتون سے عقد کر لیا۔ یہاں یہ ضمنی واقعہ ذرا طویل ہو گیا۔ کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ آپ اپنے افسانوں میں واقعاتی غلطی نہ کریں ورنہ ایسے افسانے مضحک ہو کر رہ جائیں گے اور ناواقف یا کم واقفیت سے آپ کی حقیقت پسندی کا بھانڈا پھوٹ کر رہ جائے گا۔
نئے افسانہ نگاروں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ بعض باتیں بذات خود مقبول نہیں ہوتیں۔ افسانہ چاہے جتنا اعلیٰ پیمانے کا اور اعلی تکنیک کا کیوں نہ ہو۔ مثلاً بہت کم رسالے ایسے ہوں گے جو پریشان کن یا گھناؤنے قسم کے افسانے شائع کرنے کو تیار ہو جائیں گے۔ فرض کیجیے جنوں کا موضوع ہے اگر یہ افسانے میں لایا جائے تو شاید ہی مقبول ہو سکے لکھنے والا چاہے جتنا بڑا استاد ہی کیوں نہ ہو۔ خشک یا مایوس کن نقطۂ نظر پسند بھی نہیں کیا جاتا یا ایسی ٹریجڈٰی جس میں انتشار کے بعد سکون نہ پیدا کیا گیا ہو، کسی اچھے رسالے میں جگہ نہ پاسکے گی۔ مجھے یاد ہے کہ طالب علمی کے زمانہ میں میں نے ایسا ہی ایک حزنیہ افسانہ لکھا تھا جس میں ایک دیہاتی عورت کو اس طرح دکھایا گیا تھا کہ وہ گرمی اور لو اور پیاس کی شدت کی وجہ سے تڑپ رہی تھی۔ گھسٹتے گھسٹتے کسی کنوئیں پر پہنچ گئی تھی لیکن پھر بھی پانی نہ پی سکی اور جاں بحق تسلیم ہو گئی۔ شائع ہو جانے پر جب اس افسانے کو میں نے پڑھا تو یہی جی چاہتا تھا کہ یہ تکلیف دہ افسانہ یا تو میں نہ لکھتا یا شائع نہ ہو سکتا۔ ناظرین عموماً تسکین ده، پُرامید اور خوش کن افسانے پسند کرتے ہیں اسی لئے اچھے رسالوں کے ایڈیٹر کبھی اپنے ناظرین کو کرب و تکلیف دینا نہ چاہیں گے۔ حزنیہ افسانوں میں درد و کرب کی تکلیف دکھا سکنا قوتِ تحریر و بیان کو ضرور ظاہر کر سکتا ہے لیکن افسانے کا خاتمہ بھی اگر اسی حالت میں ہو جائے تو ایسا حزنیہ افسانہ بے مقصد ہی ٹھہرتا ہے۔
شعر کی طرح افسانہ ایک نازک قسم کی چیز ہے۔ ہوسکتا ہے کہ شعر کی طرح افسانے کا تاروپود بھی بڑی محنت اور اپنی تمام موزونیت کے ساتھ بن لیا جائے پھر بھی اس میں اس شے کی کمی رہ جائے جسے شاعری کی دنیا میں "چیزے دگر "کہا جاتا ہے۔ بالفاظِ دیگر افسانہ کی سب سے بڑی خامی بلکہ نا قابل معافی و تلافی خامی وہ ہوتی ہے جب اس میں کوئی کوئی کسک کوئی تڑپ محسوس نہ ہو یعنی اس میں اثر یا تاثیر کی کوئی کیفیت پیدا نہ ہوسکے۔ اسی طرح وہ افسانے بھی جن میں عقلیت بہت زیادہ بگھاری گئی ہو اور اس وجہ سے ان کا سمجھنا آسان نہ رہا ہو یا جن میں ذہن کی کاوش کے سامنے خونِ جگر کا فقدان ہو، پبلک اور اچھے رسالوں کے ایڈیٹروں ، دونوں کے نزدیک لائقِ توجہ نہیں ٹھہرتے۔ ایسی کہانیاں جن میں جذبات کی خشکی ہو یا انسانی فطرت کی عکس کشی کا شائبہ بھی نظر نہ آئے مقبول عام ہونا تو درکنار مقبول خواص بھی نہیں ہوسکتیں۔
ایک اور نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے۔ فرض کیجیے آپ نے اپنی کہانی یا کہانیوں کی جائے وقوع کسی اجنبی یا دور دراز کے ملک میں دکھائی ہے جہاں کے حالات ، عادات ، رسوم و رواج، وہاں کے تمدن یا معیشت وغیرہ سے لوگ عام طور پر واقف نہیں ہیں تو ایسے افسانے بھی زیادہ مقبول نہیں ہو پاتے۔ یہ صحیح ہے کہ انسانی فطرت ہر جگہ ایک ہی ہے خواہ وہ دہلی ہو یا ٹمبکٹو۔ لیکن اگر آپ ہنولولو میں واقع کوئی کہانی لکھیں گے تو جگہ جگہ اس میں تشریحی نوٹ بھی دینے کی ضرورت پڑے گی تاکہ وہاں کی عام زندگی کے طریقے اور وہاں کا پس منظر آپ کے ناظرین پر بخوبی واضح ہو سکے ۔ اور یہ باعثِ طوالت ہی نہیں بلکہ ناظرین کیلئے پریشان کن بھی ہے۔ عام طور پر انسان اپنے ارد گرد کے لوگوں کی کیفیات اور مسائل سے جو دلچسپی اور ہمدردی رکھتا ہے اور انھیں جتنی آسانی سے سمجھ سکتا ہے اتنی دور دراز کے مقامات کے لوگوں سے نہیں۔ ممکن ہے آپ کو میرے اس خیال سے اتفاق نہ ہو لیکن جب آپ اس کو برت کر دیکھیں گے تو شاید آپ اس رائے سے اتفاق کر سکیں گے۔
یہاں ایک اور دلچسپ غلط فہمی کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے جو ہمارے اکثر نئے افسانہ نگاروں کو بیماروں کی طرح لاحق ہو جاتی ہے۔ یہ افسانہ نویسی کے شوقین اکثر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اگر کسی افسانہ کی بنیاد براہِ راست اور بالتفصیل صداقت پر رکھی جائے تب ہی وہ پسند کیا جاسکتا ہے یا مقبول ہو سکتا ہے۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ اسی کہانی شاذ ہی مقبول ہو سکتی ہے کیونکہ ہماری اپنی زندگی منظم پلاٹوں کی صورت میں نہیں کٹتی۔ ہماری واقعی زندگی میں سینکڑوں فضول قسم کی باتیں اور چیزیں بھی ہوتی ہیں جن کو افسانے میں قطعی جگہ نہیں دی جا سکتی۔ مثلاً ہر آدمی صبح دیر سے یا سویرے اٹھتا ہے۔ حوائجِ ضروری سے فارغ ہوتا ہے ، اگر داڑھی نہیں رکھتا ہے تو شیو کرتا ہے ، اپنے ناشتے کا انتظام کرتا ہے یا اس کے متعلق باورچی اور نوکروں کو ہدایات دیتا ہے یا ہوٹل سے منگواتا ہے ، سگریٹ یا پان سے شغل کرتا ہے کبھی کبھی غیر متعلق لوگوں سے ملتا ہے یا کچھ غیر متعلق لوگ اس سے ملنے آجاتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام چیزیں ہم افسانے میں بیان کرنے نہیں بیٹھ جاتے بلکہ ایسی چیزوں کو نکال دیتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ اچھا افسانہ زندگی کا فوٹو نہیں ہوتا۔ افسانہ زندگی کی عکاسی ضرور کرتا ہے لیکن ایک فوٹو گرافر کی طرح نہیں بلکہ ایک مصور کی طرح۔ ہماری اپنی واقعی زندگی تصور کے مقابلے میں زیادہ ناقابلِ یقین ، زیادہ ناقابل فہم، زیادہ مبہم، پیچیدہ غیر منطقی، بےتکی اور بے ترتیب ہوتی ہے۔ افسانے میں ان تمام بھان متی کا پٹارہ قسم کی چیزوں کا فوٹو کھینچنا افسانے کو افسانہ نہ بنا سکے گا۔ اسی طرح مکالموں میں بھی ہم کو اپنی واقعی زندگی کے مکالموں کی فوٹوگرانی نہیں بلکہ تصویر کشی کرنا چاہیے۔ مناسب انتخاب ، کانٹ چھانٹ سے مکالموں کو آراستہ و پیراستہ کیجیے ورنہ آپ کے افسانوں کے مکالمے بے تکے ہو کر ہ جائیں گے۔
حقیقت یوں ہے کہ ایک اعلی درجہ کے افسانہ نویس کو ایک فن کار ہونا چاہئے کیونکہ ایک اچھی کہانی کی ساخت دراصل صناعی اور مرصع سازی کا کام ہے۔ مشہور امریکن افسانہ نگار ایڈگر ایلن پو نے افسانہ کی تعریف ان الفاظ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ " افسانہ کی تعریف قطعی طور پر تو نہیں ، ہاں ایک مفید تجویز کے طور پر یوں کی جاسکتی ہے کہ یہ ایک ایسی کہانی ہوتی ہے جو کسی صورت حال کا احساس نہیں بلکہ تاثر ڈالنے کے لئے شروع کی جاتی ہے اور اولاً ایک تمہید سے ، پھر استادانہ فقروں سے اس مقصد یا تاثر یا انجام کو اشاروں اشاروں میں بتلا دینے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن انجام ابھی ظاہر نہیں کیا جاتا۔ کہانی فضا اور سماں قائم رکھتے ہوئے بڑھتی رہتی ہے یہاں تک کہ توڑ کا وقت آجاتا ہے اور انجام بالکل غیر متوقع اور ڈرامائی طور پر ظہور پذیر ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی خاتمے سے ذرا پہلے چند فقرے یا جملے ایسے لکھ دیئے جاتے ہیں جن سے ناظرین کے اضطراب ، امید و بیم میں ذرا سا سکون پیدا ہو جائے پھر قصہ یک لخت ختم کر دیا جاتا ہے۔"
اگر آپ متذکرہ بالا تعریف پر غور کریں گے تو واضح ہو جائے گا کہ افسانہ نویسی کوئی آسان کھیل نہیں ہے۔ اس کی ساخت اور پرداخت دونوں کے لئے ایک شاعر کے تصور ، ایک نقاد کے دماغ اور ایک انجینیئر کی صلاحیتِ فن درکار ہوتی ہے۔ اس میں ناول کی طرح 'کثرتِ جلوہ " سے کام نہیں لیا جاتا ، ایجاز و اختصار، جامعیت اور بلاغت کے علاوہ مرکزی تاثر کا برا بر ذہن میں رکھنا اشد ضروری ہے۔ کبھی کبھی تو ڈراموں کی طرح افسانوں میں بھی وحدتِ زمان و مکان و عمل کو باقاعدہ پیشِ نظر رکھا جاتا ہے۔ لیکن اکثر افسانوں میں ایک بڑی خامی یہ نظر آتی ہے کہ یا تو تمہید طولانی ہو جائے گی یا خاتمہ اور بیچ کا بیان بہت مختصر۔ افسانوں میں دراصل ابتدا ، وسط اور خاتمے میں قصیدہ کی طرح ایک معقول تناسب پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔
افسانہ کسی قسم کا ہو، اس کانجام یا خاتمہ بڑی اہمیت رکھتا ہے اگر انجام یا خاتمہ کمزور قسم کا ہو یا ایسے الفاظ یا انداز میں پیش کیا گیا ہو جو کچھ اثر ، کچھ کھٹک نہیں رکھتے تو سمجھ لیجیے کہ پورے افسانے پر حرف آگیا۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض اچھے اور محنت اور کاوش سے لکھنے والے افسانہ نگاروں کے افسانے محض کمزور خاتمے کی وجہ سے اپنا تمام شروع کا زور اور دروبست کھو بیٹھتے ہیں۔ ایڈگر ایلن پو نے ایک موقع پر خوب لکھا ہے کہ اچھے اور زوردار افسانے کو دراصل الٹا لکھا جانا چاہیئے یعنی افسانہ نویس انجام کو پیش نظر رکھتے ہو ئے گویا پیچھے قدم بڑھاتا چلا جائے۔ سب سے زیادہ موثر انجام وہ ہوتا ہے جو غیر متوقع ہو۔
اسی طرح کسی افسانے میں جو توڑ کا مقام ہوتا ہے یا جسے اس کی انتہائی اٹھان (کلائمکس) کہنا چاہئے اسے بھی پہلے سے سوچ لینا چاہئے اور پورے افسانے کی بنیا د اسی پر قائم کرنا چاہئے۔ (پریم چند یہی کیا کرتے تھے)۔ اور افسانے کو شروع کر کے اسی مقام پر لانا چاہئے تاکہ وہ مقصد جو افسانہ نگار اپنے ذہن میں لئے ہوئے ہے واضح ہو سکے اور قائم ہو جائے۔ یہ یاد رکھئے کہ آپ نے عبارت آرائی اور اندازِ بیان کے چاہے جتنے جوہر کیوں نہ دکھائے ہوں اگر یہ نقطۂ عروج یعنی توڑ کا مقام مؤثر نہیں ہے تو افسانہ دو کوڑی کا ہو کر رہ جائے گا۔
ایک اور بات پیش نظر رکھئے وہ یہ کہ اپنے افسانے کو جہاں تک ہو سکے پہلے تو خوب اچھی طرح سوچ لیجیے ، پھر جب لکھنے بیٹھیے تو ایک ہی نشست میں لکھ ڈالنے کی کوشش کیجیے کیونکہ اس طرح لکھنے سے اس میں آپ کے جذبہ کی وحدت برقرار رہے گی اور افسانے میں ایک ہی موڈ کا قائم رہنا بڑی ضروری چیز ہوتا ہے ۔
تکنیک یا فنِ افسانہ نگاری کی رو سے ہر قسم کے افسانے کا آغاز بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے اور اس پر بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کوشش یہ کرنا چاہئے کہ آغاز ایسا رکھا جائے جو پڑھنے والے یا سننے والے کے دھیان کو فوراً اپنی طرف مرکوز کرلے۔ آغاز میں آپ پہلے کوئی دلچسپ فقره یا تعارفی دلچسپ فقرے ، اپنے یا اوروں کے تجربے یا مشاہدے کے خلاصے دے سکتے ہیں یا فوراً کہانی شروع کرسکتے ہیں۔ غرض کہ کوئی ایسی ترکیب ہونی چاہئے جس سے پڑھنے والا فوراً متوجہ ہو جائے اور پھر آگے بڑھتی ہوئی کہانی کے مطالعے میں محو ہو جائے۔
ہر اچھی کہانی میں کسی نہ کسی واقعے، حادثے یا تجربے کا بیان تو ہوتا ہی ہے لیکن اس کی بھی احتیاط رکھئے کہ ایک افسانے میں کئی ایک افسانے جمع نہ ہو جائیں۔ اس سے کہانی کی وحدتِ تاثر پر برا اثر پڑے گا۔ یعنی پڑھنے والے کا ذہن کبھی یکسو نہ ہو سکے گا اور اس کے دل و دماغ پر بھی وہ چوٹ نہ پڑ سکے گی جو محض ایک واقعے سے آپ دینا چاہتے تھے۔
اچھا پلاٹ کیا ہے ؟ بقول ارسطو کے ایک گرہ ڈالنا اور پھر اسے کھولنا۔ یعنی ایک پیچیدگی پیدا کرنا اور پھر اس پیچیدگی کو دور کرنا۔ لیکن اس بست و کشاد کے کھیل کو اگر آپ بہت دقیق کر دیں گے اور بہت سے پیچ ڈالتے جائیں گے کہ ذہن سر تا سر الجھتا جائے تو پڑھنے والا شروع یا بیچ ہی میں بہت گھبرا جائے گا اس لئے اپنے پلاٹ کو بہت پیچیدہ نہ بنائیے ۔ دلچسپی برقرار رکھنے کیلئے اشاروں اور کنایوں سے ضرور کام کیجیے تاکہ قاری کا ذہن اس بات کا جویا رہے کہ آئندہ کیا ہوگا۔ جاسوسی افسانوں میں تو اس پیچیدگی کے جال کو زیادہ طویل کیا جاسکتا ہے لیکن دیگر قسم کے افسانوں میں احتیاط رکھے کہ جال جی کا جنجال نہ بن جائے۔ جب جال کی گرہیں کھول دی جائیں تو قاری یہ نہ کہے کہ یہ نتیجہ فضول یا غیر منطقی ، خلافِ عادت یا خلافِ فطرت تھا۔ قاری کے ذہن کوانتظارمیں رکھنا ایک بڑا فن ہوا کرتا ہے۔ اس انتظار کو ایک مناسب حد تک طول دیجئے تاکہ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ نہ جائے اور جب اس کاوشِ انتظار کوختم کیجیے تو ایسے فطری اور قدرتی طریقے پر کہ بیجا یا سراسر مصنوعی نہ معلوم ہو۔
ہر افسانہ میں مکالمہ بھی خاص اہمیت رکھتا ہے زیادہ تو افسانے مکالمے کے ذریعہ ہی پروان چڑھتے ہیں۔ اس لیے مکالموں کے سلسلے میں یہ ضرور خیال رکھئے کہ وہ مصنوعی یا بیجا طور پر سرتاسر جذباتی نہ ہوں۔ آپ نے آغا حشر اور ان کے عہد کے ڈرامہ نگاروں کے مکالمے دیکھے ہوں گے۔ کس قدر جذباتی اور مصنوعی ہیں۔ ایسی سستی اور سطحی جذبات یا تصنع کو اپنے افسانوں کے مکالموں میں جگہ نہ دیجئے بلکہ کوشش یہ کیجیے کہ تصنع کا کہیں شائبہ بھی نظر نہ آئے۔ ہر گفتگو اپنے انداز اور طور طریقے سے فطری اور قدرتی معلوم ہو۔
آخر میں نئے نئے افسانہ نویسوں کو ایک خاص مشورہ بھی دینا ہے کہ اگر آپ اچھے افسانہ نویس بننا چاہتے ہیں تو چند بڑے بڑے افسانہ نویسوں کے چند افسانوں کو ذرا اپنی زبان اور اپنے انداز میں لکھنے کی کوشش کیجیے۔ دیکھیے آپ کس قدر کامیاب یا نا کامیاب ہوتے ہیں۔ اس طرح مشق کرنے سے کچھ نہ کچھ تو آپ کے پلے ضرور پڑے گا۔ ممکن ہے بعض اچھے افسانوں میں آپ کو کہیں کہیں تصنع کی کارفرمائی نظر آئے تو اس سے بددل نہ ہو جیے کیونکہ در اصل اگر غور کیا جائے تو وہ افسانے مصنوعی اور فرضی تو ہیں ہی۔ کوئی افسانہ ہو ، افسانہ ہی تو ہوتا ہے حقیقت تو نہیں ہوتا۔ لیکن ہر اچھا افسانہ حقیقت معلوم ضرور دیتا ہے۔ افسانویت تو در حقیقت ایک کوشش ہے حقیقت تک پہنچنے کی۔ ہم صداقت کو ایک جھوٹ یا فریب کے ذریعہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقت تک پہنچنے کے لئے ایک مجازی زینہ تیار کرتے ہیں۔ افسانہ بھی ایک مصنوعی ہیئت ہے اور ہرفنِ لطیف اس طرح کسی نہ کسی حیثیت سے فرضی ہی قرار پائے گا کیونکہ ہر انسانی فن ایک نقل ہوتا ہے اصل نہیں۔ اس لئے اگر کسی بڑے افسانہ نویس کا شاہکار آپ کو کہیں مصنوعی یا فرضی ہونے کا احساس دلائے تو اس سے بیزار نہ ہو جئے کیوں کہ افسانہ بذات خود ہی بڑی مصنوعی صنفِ ادب ہے۔ کمالِ فن یہ ہے کہ نقل اصل معلوم دینے لگے۔ ہر فن کار اپنی نقل کو اصل کا دھوکا یا اصل کا نمایندہ بنانے ہی کی کوشش کرتا ہے۔ آپ بھی اسی کی کوشش کیجیے اور دیکھیے کہ کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭​
 
Top