محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہوجانا
متاعِ جاں کسی کو سونپ کر مجبور ہوجانا

قدم ہے راہِ الفت میں تو منزل کی ہوس کیسی؟
یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہوجانا

یہاں تو سر سے پہلے دل کا سودا شرط ہے یارو!
کوئی آسان ہے کیا سرمد و منصور ہوجانا

بسا لینا کسی کو دل میں دل ہی کا کلیجا ہے
پہاڑوں کو تو بس آتا ہے جل کر طور ہوجانا

نظر سے دور رہ کر بھی تقی! وہ پاس ہے میرے
کہ میری عاشقی کو عیب ہے مہجور ہوجانا
جنید جمشید کی آواز میں یہ کلام
 
آخری تدوین:
حرم کی مقدس فضاؤں میں گم ہوں
میں جنت کی ٹھنڈی ہواؤں میں گم ہوں

میں بے گانہ ہوکر ہر اک ماسوا سے
بس اک آشنا کی وفاؤں میں گم ہوں

زبانیں جہاں گنگ ہیں ، لفظ ششدر
تحیر کی ایسی فضاؤں میں گم ہوں

میں کعبے کے بے آب و رنگ پتھروں سے
کرم کی امڈتی گھٹاؤں میں گم ہوں

کبھی سنگِ اسود کی کرنوں سے حیراں
کبھی ملتزم کی دعاؤں میں گم ہوں

مقفل ہے در ، لٹ رہے ہیں خزانے
عطا کی نرالی اداؤں میں گم ہوں

ہر اک دل سے ظلمت کے دل چھٹ رہے ہیں
غلافِ سیہ کی ضیاؤں میں گم ہوں

جو میرے گناہوں کو بھی دھو رہی ہے
میں رحمت کی ان انتہاؤں میں گم ہوں

یہ میزابِ رحمت پہ پُر درد نالے
فلک سے برستی عطاؤں میں گم ہوں

یہ زمزم کے چشمے ، یہ پیاسوں کے جمگھٹ
زمیں سے ابلتی شفاؤں میں گم ہوں

جو اس آستاں کے لگاتے ہیں پھیرے
میں ان کے جنوں کی اداؤں میں گم ہوں

کھڑے ہیں بھکاری ترے در کو تھامے
میں ان کی بلکتی صداؤں میں گم ہوں

یہ سینے سے اٹھتی ندامت کی آہیں
میں ان دردِ دل کی دواؤں میں گم ہوں

یہ کعبے کے درباں ، یہ نازوں کے پالے
میں ان کی پیاری جفاؤں میں گم ہوں

تصور میں یادوں کی محفل سجی ہے
تخیل کی دلکش خلاؤں میں گم ہوں

ابھی شرحِ الفت کی منزل کہاں ہے
ابھی تو تقی! ابتداؤں میں گم ہوں
جنید جمشید کی آواز میں یہ کلام

مولانا انس یونس کی آواز میں یہ کلام
 
الہٰی! تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں
سراپا فقر ہوں ، عجز و ندامت ساتھ لایا ہوں

بھکاری وہ کہ جس کے پاس جھولی ہے نہ پیالہ ہے
بھکاری وہ جسے حرص و ہوس نے مارڈالا ہے

متاعِ دین و دانش نفس کے ہاتھوں سے لٹواکر
سکونِ قلب کی پونجی ہوس کی بھینٹ چڑھوا کر

لٹاکر ساری پونجی غفلت و عصیاں کی دلدل میں
سہارا لینے آیا ہوں ترے کعبے کے آنچل میں

گناہوں کی لپٹ سے کائناتِ قلب افسردہ
ارادے مضمحل ، ہمت شکستہ ، حوصلے مردہ

کہاں سے لاؤں طاقت دل کی سچی ترجمانی کی
کہ کس جنجال میں گزری ہیں گھڑیاں زندگانی کی

خلاصہ یہ کہ بس جل بھن کے اپنی روسیاہی سے
سراپا فقر بن کر اپنی حالت کی تباہی سے

ترے دربار میں لایا ہوں اب اپنی زبوں حالی
تری چوکھٹ کے لائق ہر عمل سے ہاتھ ہے خالی

تری چوکھٹ کے جو آداب ہیں میں ان سے خالی ہوں
نہیں جس کو سلیقہ مانگنے کا وہ سوالی ہوں

یہ تیرا گھر ہے ، تیرے مہر کا دربار ہے مولیٰ!
سراپا نور(/مہر )ہے اک مہبطِ انوار ہے مولیٰ!

یہ آنکھیں خشک ہیں یارب! انھیں رونا نہیں آتا
سلگتے داغ ہیں دل میں جنھیں دھونا نہیں آتا

زباں غرقِ ندامت دل کی ناقص ترجمانی پر
خدایا رحم میری اس زبانِ بے زبانی پر
خود مفتی صاحب کی آواز میں یہ کلام

جنید جمشید کی آواز میں یہ کلام
 
مجھے زندگی میں یارب! سربندگی عطا کر
مرے دل کی بے حسی کو ، غمِ عاشقی عطا کر

ترے درد کی چمک ہو ، تری یاد کی کسک ہو
مرے دل کی دھڑکنوں کو ، نئی بے کلی عطا کر

جو تجھی سے لو لگادے ، جو مجھے میرا پتا دے
میرے عہد کی زباں میں ، مجھے گم رہی عطا کر

میں سفر میں سو نہ جاؤں ، میں یہیں پہ کھو نہ جاؤں
مجھے ذوق و شوقِ منزل کی ہمہ ہمی عطاکر

بڑی دور ہے ابھی تک ، رگِ جان کی مسافت
جو دیا ہے قرب تو نے ، تو شعور بھی عطاکر

بھری انجمن میں رہ کر ، نہ ہو آشنا کسی سے
مجھے دوستوں کے جھرمٹ میں وہ بے کسی عطاکر

کہیں مجھ کو ڈس نہ جائیں یہ اندھیرے بجلیوں کے
جو دلوں میں نور کردے وہی روشنی عطا کر

مجھے تیری جستجو ہو ، مرے دل میں تو ہی تو ہو
مرے قلب کو وہ فیضِ درِ عارفی عطا کر
خود مفتی صاحب کی آواز میں یہ کلام

جنید جمشید کی آواز میں یہ کلام
 
دربار میں حاضر ہے ۔۔۔ اک بندۂ آوارہ
آج اپنی خطاؤں کا ۔۔۔ لادے ہوئے پشتارا

سرگشتہ و درماندہ ۔۔۔ بے ہمت و ناکارہ
وارفتہ و سرگرداں۔۔ بے مایہ و بے چارہ
شیطاں کا ستم خوردہ ۔۔ اس نفس کا دکھیارا
ہر سمت سے غفلت کا ۔۔۔ گھیرے ہوئے اندھیارا

دربار میں حاضر ہے ۔۔۔ اک بندۂ آوارہ
آج اپنی خطاؤں کا ۔۔۔ لادے ہوئے پشتارا

جذبات کی موجوں میں ۔۔۔ لفظوں کی زباں گم ہے
عالم ہے تحیر کا ۔۔۔ یارائے بیاں گم ہے
مضمون جو سوچا تھا ۔۔۔ کیا جانے کہاں گم ہے
آنکھوں میں بھی اشکوں کا ۔۔۔ اب نام و نشاں گم ہے
سینے میں سلگتا ہے ۔۔۔ رہ رہ کے اک انگارہ

دربار میں حاضر ہے ۔۔۔ اک بندۂ آوارہ
آج اپنی خطاؤں کا ۔۔۔ لادے ہوئے پشتارا

آیا ہوں ترے در پر ۔۔۔ خاموش نوا لے کر
نیکی سے تہی دامن ۔۔۔ انبارِ خطا لے کر
لیکن تری چوکھٹ سے ۔۔۔ امیدِ سخا لے کر
اعمال کی ظلمت میں ۔۔۔ توبہ کی ضیا لے کر
سینے میں تلاطم ہے ۔۔۔ دل شرم سے صدپارہ

دربار میں حاضر ہے ۔۔۔ اک بندۂ آوارہ
آج اپنی خطاؤں کا ۔۔۔ لادے ہوئے پشتارا

امید کا مرگز ہے ۔۔۔ رحمت سے بھرا گھر ہے
اس گھر کا ہر اک ذرہ ۔۔۔ رشکِ مہ و اختر ہے
محروم نہیں کوئی ۔۔۔ جس در سے یہ وہ در ہے
جو اس کا بھکاری ہے ۔۔۔ قسمت کا سکندر ہے
یہ نور کا قلزم ہے ۔۔۔ یہ امن کا فوّارہ

دربار میں حاضر ہے ۔۔۔ اک بندۂ آوارہ
آج اپنی خطاؤں کا ۔۔۔ لادے ہوئے پشتارا

یہ کعبہ کرشمہ ہے ۔۔۔ یارب تری قدرت کا
ہر لمحہ یہاں جاری ۔۔۔ میزاب ہے رحمت کا
ہر آن برستا ہے ۔۔۔ دھن تیری سخاوت کا
مظہر ہے یہ بندوں سے ۔۔۔ خالق کی محبت کا
اس عالم پستی میں ۔۔۔ عظمت کا یہ چوبارا

دربار میں حاضر ہے ۔۔۔ اک بندۂ آوارہ
آج اپنی خطاؤں کا ۔۔۔ لادے ہوئے پشتارا

یارب! مجھے دنیا میں ۔۔۔ جینے کا قرینہ دے
میرے دلِ ویراں کو ۔۔۔ الفت کا خزینہ دے
سیلابِ معاصی میں ۔۔۔ طاعت کا سفینہ دے
ہستی کے اندھیروں کو ۔۔۔ انوارِ مدینہ دے
پھر دہر میں پھیلادے ۔۔۔ ایمان کا اجیارا

دربار میں حاضر ہے ۔۔۔ اک بندۂ آوارہ
آج اپنی خطاؤں کا ۔۔۔ لادے ہوئے پشتارا

یارب میری ہستی پر ۔۔۔ کچھ خاص کرم فرما
بخشے ہوئے بندوں میں ۔۔۔ مجھ کو بھی رقم فرما
بھٹکے ہوئے راہی کا ۔۔۔ رخ سوئے حرم فرما
دنیا کو اطاعت سے ۔۔۔ گلزارِ ارم فرما
کردے میرے ماضی کے ۔۔۔ ہر سانس کا کفارہ
خود مفتی صاحب کی آواز میں یہ کلام

مولانا انس یونس کی آواز میں یہ کلام

حافظ احسن امین کی آواز میں یہ کلام
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
محترم سرسری بھائی کیا خوب شراکت کی ہے ۔
بے رونق عید جیسے پرنور ہوگئی سچ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
بہت خوبصورت کلام :)
شریک محفل کرنے کا شکریہ
شاد و آباد رہیں
محترم سرسری بھائی کیا خوب شراکت کی ہے ۔
بے رونق عید جیسے پرنور ہوگئی سچ میں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
بہت دعائیں
پسند فرمانے کا بہت شکریہ۔
جزاکم اللہ خیرا۔
 
حضرت مفتی صاحب کے پردرد اشعار جو غالبا انھوں نے اپنے والد صاحب مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب نور اللہ مرقدہ کی وفات کے موقع پر کہے ہیں:

کیوں تیرہ و تاریک ہے نظروں میں جہاں آج
کیوں چھائے ہیں ہر سمت یہ ظلمت کے نشاں آج

یوں برق و شرر نے مرا پھونکا ہے نشیمن
باقی ہے کوئی شاخ ، نہ تنکوں کا نشاں آج

اب زیست کا ہر مرحلہ نظروں میں کٹھن ہے
گرداب بلا خیز ہے یہ نہر رواں آج

دل میں وہ تلاطم ہے کہ ہلچل سی مچی ہے
اور آنکھ ہے ظالم کہ بس اک خشک کنواں آج

دنیا ہے مرے دوستو! مٹی کا گھروندا
اور زندگی اک کارگہِ شیشہ گراں آج

جو مرکزِ الفت تھے ، جو گلزارِ نظر تھے
ہیں خاک کا پیوند وہ اجسامِ بتاں آج

ناگاہ کوئی دم میں ہی لد جائے گا ڈیرا
دھوکے ہیں یہ سب ، جن پہ ہے منزل کا گماں آج

 

عبد الرحمن

لائبریرین
محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہوجانا
متاعِ جاں کسی کو سونپ کر مجبور ہوجانا

قدم ہے راہِ الفت میں تو منزل کی ہوس کیسی؟
یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہوجانا

یہاں تو سر سے پہلے دل کا سودا شرط ہے یارو!
کوئی آسان ہے کیا سرمد و منصور ہوجانا

بسا لینا کسی کو دل میں دل ہی کا کلیجا ہے
پہاڑوں کو تو بس آتا ہے جل کر طور ہوجانا

نظر سے دور رہ کر بھی تقی! وہ پاس ہے میرے
کہ میری عاشقی کو عیب ہے مہجور ہوجانا
جنید جمشید کی آواز میں یہ کلام
سبحان اللہ! بہت خوب انتخاب ہے۔
 

عبد الرحمن

لائبریرین
حرم کی مقدس فضاؤں میں گم ہوں
میں جنت کی ٹھنڈی ہواؤں میں گم ہوں

میں بے گانہ ہوکر ہر اک ماسوا سے
بس اک آشنا کی وفاؤں میں گم ہوں

زبانیں جہاں گنگ ہیں ، لفظ ششدر
تحیر کی ایسی فضاؤں میں گم ہوں

میں کعبے کے بے آب و رنگ پتھروں سے
کرم کی امڈتی گھٹاؤں میں گم ہوں

کبھی سنگِ اسود کی کرنوں سے حیراں
کبھی ملتزم کی دعاؤں میں گم ہوں

مقفل ہے در ، لٹ رہے ہیں خزانے
عطا کی نرالی اداؤں میں گم ہوں

ہر اک دل سے ظلمت کے دل چھٹ رہے ہیں
غلافِ سیہ کی ضیاؤں میں گم ہوں

جو میرے گناہوں کو بھی دھو رہی ہے
میں رحمت کی ان انتہاؤں میں گم ہوں

یہ میزابِ رحمت پہ پُر درد نالے
فلک سے برستی عطاؤں میں گم ہوں

یہ زمزم کے چشمے ، یہ پیاسوں کے جمگھٹ
زمیں سے ابلتی شفاؤں میں گم ہوں

جو اس آستاں کے لگاتے ہیں پھیرے
میں ان کے جنوں کی اداؤں میں گم ہوں

کھڑے ہیں بھکاری ترے در کو تھامے
میں ان کی بلکتی صداؤں میں گم ہوں

یہ سینے سے اٹھتی ندامت کی آہیں
میں ان دردِ دل کی دواؤں میں گم ہوں

یہ کعبے کے درباں ، یہ نازوں کے پالے
میں ان کی پیاری جفاؤں میں گم ہوں

تصور میں یادوں کی محفل سجی ہے
تخیل کی دلکش خلاؤں میں گم ہوں

ابھی شرحِ الفت کی منزل کہاں ہے
ابھی تو تقی! ابتداؤں میں گم ہوں
جنید جمشید کی آواز میں یہ کلام

مولانا انس یونس کی آواز میں یہ کلام
اللہ اکبر! بڑے ایمان افروز اشعار ہیں۔
 

عبد الرحمن

لائبریرین
الہٰی! تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں
سراپا فقر ہوں ، عجز و ندامت ساتھ لایا ہوں

بھکاری وہ کہ جس کے پاس جھولی ہے نہ پیالہ ہے
بھکاری وہ جسے حرص و ہوس نے مارڈالا ہے

متاعِ دین و دانش نفس کے ہاتھوں سے لٹواکر
سکونِ قلب کی پونجی ہوس کی بھینٹ چڑھوا کر

لٹاکر ساری پونجی غفلت و عصیاں کی دلدل میں
سہارا لینے آیا ہوں ترے کعبے کے آنچل میں

گناہوں کی لپٹ سے کائناتِ قلب افسردہ
ارادے مضمحل ، ہمت شکستہ ، حوصلے مردہ

کہاں سے لاؤں طاقت دل کی سچی ترجمانی کی
کہ کس جنجال میں گزری ہیں گھڑیاں زندگانی کی

خلاصہ یہ کہ بس جل بھن کے اپنی روسیاہی سے
سراپا فقر بن کر اپنی حالت کی تباہی سے

ترے دربار میں لایا ہوں اب اپنی زبوں حالی
تری چوکھٹ کے لائق ہر عمل سے ہاتھ ہے خالی

تری چوکھٹ کے جو آداب ہیں میں ان سے خالی ہوں
نہیں جس کو سلیقہ مانگنے کا وہ سوالی ہوں

یہ تیرا گھر ہے ، تیرے مہر کا دربار ہے مولیٰ!
سراپا نور(/مہر )ہے اک مہبطِ انوار ہے مولیٰ!

یہ آنکھیں خشک ہیں یارب! انھیں رونا نہیں آتا
سلگتے داغ ہیں دل میں جنھیں دھونا نہیں آتا

زباں غرقِ ندامت دل کی ناقص ترجمانی پر
خدایا رحم میری اس زبانِ بے زبانی پر
خود مفتی صاحب کی آواز میں یہ کلام

جنید جمشید کی آواز میں یہ کلام
اللہ پاک حضرت مفتی صاحب مد ظلہم کی عمروصحت میں خوب خوب برکت عطا فرمائے آمین۔
 
سبحان اللہ،بہت خوب دلدوز اور ایمان کو معطر کر دینے والے پاکیزہ کلام اللہ جزائے خیر دے پڑھنے والے کو بھی کہنے والے کو بھی اور پیش کرنے والے کو بھی ۔
مجھے تو یہ لنک نظر ہی نہیں آ سکا
آپ نے ٹیگ کیوں نہی کیا بھائی جان
 

عبد الرحمن

لائبریرین
حضرت مفتی صاحب کے پردرد اشعار جو غالبا انھوں نے اپنے والد صاحب مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب نور اللہ مرقدہ کی وفات کے موقع پر کہے ہیں:
کیوں تیرہ و تاریک ہے نظروں میں جہاں آج
کیوں چھائے ہیں ہر سمت یہ ظلمت کے نشاں آج

یوں برق و شرر نے مرا پھونکا ہے نشیمن
باقی ہے کوئی شاخ ، نہ تنکوں کا نشاں آج

اب زیست کا ہر مرحلہ نظروں میں کٹھن ہے
گرداب بلا خیز ہے یہ نہر رواں آج

دل میں وہ تلاطم ہے کہ ہلچل سی مچی ہے
اور آنکھ ہے ظالم کہ بس اک خشک کنواں آج

دنیا ہے مرے دوستو! مٹی کا گھروندا
اور زندگی اک کارگہِ شیشہ گراں آج

جو مرکزِ الفت تھے ، جو گلزارِ نظر تھے
ہیں خاک کا پیوند وہ اجسامِ بتاں آج

ناگاہ کوئی دم میں ہی لد جائے گا ڈیرا
دھوکے ہیں یہ سب ، جن پہ ہے منزل کا گماں آج

ماشاءاللہ! جزاکم اللہ خیرا! حقیقتا بڑے پردرد اشعار ہیں۔ اللہ رب العزت حضرت رحمہ اللہ کے درجات بلند فرمائے آمین۔
 

نایاب

لائبریرین
سبحان اللہ
بہت خوب کلام ہے محترم مفتی صاحب کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل میں وہ تلاطم ہے کہ ہلچل سی مچی ہے
اور آنکھ ہے ظالم کہ بس اک خشک کنواں آج
 

عبد الرحمن

لائبریرین
مجھے زندگی میں یارب! سربندگی عطا کر
مرے دل کی بے حسی کو ، غمِ عاشقی عطا کر

ترے درد کی چمک ہو ، تری یاد کی کسک ہو
مرے دل کی دھڑکنوں کو ، نئی بے کلی عطا کر

جو تجھی سے لو لگادے ، جو مجھے میرا پتا دے
میرے عہد کی زباں میں ، مجھے گم رہی عطا کر

میں سفر میں سو نہ جاؤں ، میں یہیں پہ کھو نہ جاؤں
مجھے ذوق و شوقِ منزل کی ہمہ ہمی عطاکر

بڑی دور ہے ابھی تک ، رگِ جان کی مسافت
جو دیا ہے قرب تو نے ، تو شعور بھی عطاکر

بھری انجمن میں رہ کر ، نہ ہو آشنا کسی سے
مجھے دوستوں کے جھرمٹ میں وہ بے کسی عطاکر

کہیں مجھ کو ڈس نہ جائیں یہ اندھیرے بجلیوں کے
جو دلوں میں نور کردے وہی روشنی عطا کر

مجھے تیری جستجو ہو ، مرے دل میں تو ہی تو ہو
مرے قلب کو وہ فیضِ درِ عارفی عطا کر
خود مفتی صاحب کی آواز میں یہ کلام

جنید جمشید کی آواز میں یہ کلام
آمین ثم آمین۔ بہت اعلی انتخاب ہیں۔ بارک اللہ فیکم۔
 

عبد الرحمن

لائبریرین
دربار میں حاضر ہے ۔۔۔ اک بندۂ آوارہ
آج اپنی خطاؤں کا ۔۔۔ لادے ہوئے پشتارا

سرگشتہ و درماندہ ۔۔۔ بے ہمت و ناکارہ
وارفتہ و سرگرداں۔۔ بے مایہ و بے چارہ
شیطاں کا ستم خوردہ ۔۔ اس نفس کا دکھیارا
ہر سمت سے غفلت کا ۔۔۔ گھیرے ہوئے اندھیارا

دربار میں حاضر ہے ۔۔۔ اک بندۂ آوارہ
آج اپنی خطاؤں کا ۔۔۔ لادے ہوئے پشتارا

جذبات کی موجوں میں ۔۔۔ لفظوں کی زباں گم ہے
عالم ہے تحیر کا ۔۔۔ یارائے بیاں گم ہے
مضمون جو سوچا تھا ۔۔۔ کیا جانے کہاں گم ہے
آنکھوں میں بھی اشکوں کا ۔۔۔ اب نام و نشاں گم ہے
سینے میں سلگتا ہے ۔۔۔ رہ رہ کے اک انگارہ

دربار میں حاضر ہے ۔۔۔ اک بندۂ آوارہ
آج اپنی خطاؤں کا ۔۔۔ لادے ہوئے پشتارا

آیا ہوں ترے در پر ۔۔۔ خاموش نوا لے کر
نیکی سے تہی دامن ۔۔۔ انبارِ خطا لے کر
لیکن تری چوکھٹ سے ۔۔۔ امیدِ سخا لے کر
اعمال کی ظلمت میں ۔۔۔ توبہ کی ضیا لے کر
سینے میں تلاطم ہے ۔۔۔ دل شرم سے صدپارہ

دربار میں حاضر ہے ۔۔۔ اک بندۂ آوارہ
آج اپنی خطاؤں کا ۔۔۔ لادے ہوئے پشتارا

امید کا مرگز ہے ۔۔۔ رحمت سے بھرا گھر ہے
اس گھر کا ہر اک ذرہ ۔۔۔ رشکِ مہ و اختر ہے
محروم نہیں کوئی ۔۔۔ جس در سے یہ وہ در ہے
جو اس کا بھکاری ہے ۔۔۔ قسمت کا سکندر ہے
یہ نور کا قلزم ہے ۔۔۔ یہ امن کا فوّارہ

دربار میں حاضر ہے ۔۔۔ اک بندۂ آوارہ
آج اپنی خطاؤں کا ۔۔۔ لادے ہوئے پشتارا

یہ کعبہ کرشمہ ہے ۔۔۔ یارب تری قدرت کا
ہر لمحہ یہاں جاری ۔۔۔ میزاب ہے رحمت کا
ہر آن برستا ہے ۔۔۔ دھن تیری سخاوت کا
مظہر ہے یہ بندوں سے ۔۔۔ خالق کی محبت کا
اس عالم پستی میں ۔۔۔ عظمت کا یہ چوبارا

دربار میں حاضر ہے ۔۔۔ اک بندۂ آوارہ
آج اپنی خطاؤں کا ۔۔۔ لادے ہوئے پشتارا

یارب! مجھے دنیا میں ۔۔۔ جینے کا قرینہ دے
میرے دلِ ویراں کو ۔۔۔ الفت کا خزینہ دے
سیلابِ معاصی میں ۔۔۔ طاعت کا سفینہ دے
ہستی کے اندھیروں کو ۔۔۔ انوارِ مدینہ دے
پھر دہر میں پھیلادے ۔۔۔ ایمان کا اجیارا

دربار میں حاضر ہے ۔۔۔ اک بندۂ آوارہ
آج اپنی خطاؤں کا ۔۔۔ لادے ہوئے پشتارا

یارب میری ہستی پر ۔۔۔ کچھ خاص کرم فرما
بخشے ہوئے بندوں میں ۔۔۔ مجھ کو بھی رقم فرما
بھٹکے ہوئے راہی کا ۔۔۔ رخ سوئے حرم فرما
دنیا کو اطاعت سے ۔۔۔ گلزارِ ارم فرما
کردے میرے ماضی کے ۔۔۔ ہر سانس کا کفارہ
خود مفتی صاحب کی آواز میں یہ کلام

مولانا انس یونس کی آواز میں یہ کلام

حافظ احسن امین کی آواز میں یہ کلام
اللہ اللہ! لاجواب کلام ہے۔ رب کریم بہت خوش رکھے آپ کو!
 
Top