سلیم کوثر فریب جبہ و دستار ختم ہونے کو ہے۔ سلیم کوثر

شیزان

لائبریرین
فریبِ جبہ و دستار ختم ہونے کو ہے
لگا ہواہے جو دربار، ختم ہونے کو ہے
کہانی کار نے اپنے لیے لکھا ہے جسے
کہانی میں وہی کِردار ختم ہونے کو ہے

سمجھ رہے ہوکہ تم سے ہے گرمئ بازار
سو اب یہ گرمئ بازار ختم ہونے کو ہے

مسیحا، کیسا تجھے لگ رہا ہے، کچھ تو بتا
کہ تیرے سامنے بیمار ختم ہونے کو ہے

برہنہ ہوتی چلی جا رہی ہے یہ دُنیا
کہیں گلی، کہیں دیوار ختم ہونے کو ہے

یہ کیا ہوا تجھے تسلیم کرنے والوں میں
سُنا ہے، جراتِ اظہار ختم ہونے کو ہے

جو مجھ پہ بیت گئی وہ خبر نہیں مِلتی
کہ اب تو سارا ہی اخبار ختم ہونے کو ہے

اب اس کے بعد نئی زندگی کا ہے آغاز
یہ زندگی تو مرے یار ختم ہونے کو ہے

سلیم کثرتِ اشیا کی گرد میں آخر
غرُورِ درہم و دینار ختم ہونے کو ہے
سلیم کوثر
 

فرخ منظور

لائبریرین
سلیم کثرتِ اشیا کی گرد میں آخر
غرُورِ درہم و دینار ختم ہونے کو ہے
واہ! کیا خوبصورت غزل ہے۔ بہترین انتخاب۔ شکریہ شیزان صاحب!
 

حماد شفى

محفلین
سلیم کثرتِ اشیا کی گرد میں آخر
غرُورِ درہم و دینار ختم ہونے کو ہے

بہت عمدہ انتخاب ہے جناب شیزان.
 
Top