فحاشی اور ہماری سوچ

فحاشی اور ہماری سوچ

ٹی وی اسکرین کے 5 سے 15 سیکنڈ کے اشتہارات وہ غضب ڈھاتے ہیں جس کا ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ یہ ہماری سوچ کو بدل دینے کی پوری قدرت رکھتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب کسی فلمی اداکارہ کا دوپٹہ شانوں سے سرک جانا ہی عریانیت اور فحاشی قرار پاتا تھا۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں عشق و محبت کے قصے کہانیاں اور ناول وغیرہ بھی اپنے بڑوں سے چھپا کر پڑھا کرتے تھے۔ محبوب اپنی محبوبہ کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے گھنٹوں کھڑکی پر تکٹکی باندھے دور کہیں کھڑا رہتا تھا۔

پھر تہذیب و ثقافت سکھانے والوں نے راگ الاپا ’’پیار کیا تو ڈرنا کیا، جب پیار کیا تو ڈرنا کیا‘‘ اور اس وقت کے نوجوان نسل کو اپنے بڑوں کا باغی بنا دیا۔ اس گانے نے 1950-1960 کے قدامت پسند ماحول میں لڑکیوں کو ایسا باغی بنایا کے اپنے باپ دادا اور خاندان کی عزت و ناموس پر خاک ڈالتی ہوئی بے شمار لڑکیاں اس گانے کو دیواروں پر لکھ کر اپنی آشناؤں کے ساتھ فرار ہوگئیں۔

پیار و محبت کی داستان نئی نہیں لیکن 1950 سے پہلے ایسے واقعات شاذ و نادِر ہی ہوا کرتے تھے لیکن اس گانے نے عشق لڑانے والوں کے دلوں سے اپنے بڑوں کا ڈر اور عزت کی پامالی کا خوف نکال دیا۔ نتجتاً بے شمار لڑکیاں بے گھر ہوئیں اور انکی عزتیں تارتار ہوئیں۔

پچھلے دنوں جب میں نے ’’ناپاک فیملی کلچر‘‘ کے عنوان سے بعض ڈراموں پر تنقید کی تو جواب ملا، ’’معاشرے میں ایسا ہو رہا ہے اس لئے دکھایا جارہا ہے اور اس سے معاشرے کی اصلاح مقصود ہے‘‘۔

عجیب بھونڈا جواز ہے۔ ازل سے ہی فحاشی اور فساد پھیلانے والوں کا یہی جواز ہے۔ ہمارے رب نے یہی فرمایا ہے:

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ (11) أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَ۔ٰكِن لَّا يَشْعُرُونَ (12) سورة البقرة
’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ، تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں (11) خبردار! در حقیقت یہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں مگر انہیں شعور (سمجھ) نہیں (12)‘‘ سورة البقرة

یہ شعور سے عاری لوگ بے حیائی و بے غیرتی کی گندگی جو چند افراد یا خاندانوں تک محدود ہوتی ہیں اسے پورے ملک و معاشرے میں پھیلا کر معاشرے کو پاک کرنا چاہتے ہیں جبکہ عام قاعدہ یہ ہے کہ گندگی کو پھیلا کر نہیں بلکہ گھیر کر صاف کیا جاتا ہے تاکہ بدبو دور دور تک نہ پھیلے۔

چند افراد یا چند خاندانوں کی برائیوں کو اپنی زبان کی چاشنی کی خوبصورت پیکنگ میں ڈال کر ہر گھر تک پہنچا دینا کیا معاشرے کی اصلاح کرنا ہے؟ کیا اس طرح معاشرے کی اصلاح ممکن ہے؟ کیا کوئی عقل و شعور والا شخص ایسا کر سکتا ہے کہ کسی گٹر سے گندگی اٹھائے اور اسے خوبصورت پیکنگ میں ڈال کر تمام گھروں تک پہنچائے، ہرگز نہیں! پھر یہ لوگ تہذیب و ثقافت سکھانے کے نام پر کسی ایک گھر کی گندگی کو ہر گھر تک کیوں پھیلاتے ہیں؟ اس لئے کہ یہ لوگ شیطان کے پیروی کرنے والے ہیں،

۔ ۔ ۔ وَمَن يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۔ ۔ ۔ (21) سورۃ النور
’’۔ ۔ ۔ اور جو کوئی شیطان کی پیروی کرتا ہے تو وہ یقیناً اسے بے حیائی اور برے کاموں (کے فروغ) کا حکم دیتا ہے ۔ ۔ ۔ (21) سورۃ النور‘‘

بے حیائی، بے غیرتی اور فحاشی کی برائی اور گندگی کو پھیلانے سے معاشرے کی اصلاح نہیں ہوتی بلکہ جہاں جو برائی نظر آئے اسے وہیں ختم کرنے سے معاشرے کی اصلاح ہوتی ہے۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے ہمیں یہی طریقہ سکھایا ہے۔

روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے پاس ایک مخنث آیا کرتا تھا۔ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہتی ہیں کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے، تو ایک مخنث کو ام سلمہؓ کے بھائی عبداللہ سے یہ کہتے سنا کہ اگر اللہ تعالیٰ کل طائف فتح کرا دے، تو میں تمہیں ایک ایسی عورت بتاؤں گا کہ جب وہ سامنے سے آتی ہے تو چار سلوٹیں لے کر آتی ہے اور جب پیٹھ پھیر کر جاتی ہے تو آٹھ سلوٹیں لے کر جاتی ہے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”ان (مخنثوں) کو اپنے گھروں سے نکال دو‘‘۔ (بخاری، مسلم، ابی داود، ابن ماجہ، مسند احمد(

دیکھئے دین اسلام کا یہ طریقہ ہے کہ فواحش پھیلانے والے راستے ہی بند کر دیئے جائیں۔ لہذا نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں کے گھروں میں مخنثوں کا داخلہ ممنوع قرار دے کر قیامت تک کیلئے فواحش پھیلانے کے اس فتنے کو ہی بند کر دیا۔

اگر یہ لوگ دین کی باتیں سیکھتے، سمجھتےاور اس پر عمل کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ اللہ تعالٰی نے کسی بھی خبر کو عوام الناس میں پھیلانے سے منع کیا ہے۔

وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ ۖ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ ۗ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّ۔هِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا (83) سورة النساء
’’اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو وہ اسے پھیلا دیتے ہیں اور اگر وہ اس کو پیغمبر اور اپنے (صاحبانِ امر) کے پاس پہنچاتے تو تحقیق کرنے والے اس کی تحقیق کر لیتے اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو یقیناً چند ایک کے سوا تم (سب) شیطان کی پیروی کرنے لگتے‘‘۔ (83) سورة النساء

جب عام خبر پھیلانا بھی منع ہے پھر یہ لوگ برائی و بے حیائی کی باتیں کیسے پھیلاتے ہیں؟

عوام الناس میں اکثریت کی فطرت مکڑی کی جیسی ہوتی ہے، جس طرح مکڑی پھولوں سے شہد کی بجائے زہر چوستی ہے اسی طرح عام آدمی اور خاص کر نوجوان نسل ان فلموں اور ڈراموں سے اچھائی کی بجائے برائی سیکھتی ہے۔ پھر ان فلموں اور ڈراموں میں اچھائیاں کم جبکہ برائی اور غیر اخلاقی مواد زیادہ دکھائی جاتی ہیں۔

فلم اور ڈراموں کے ذریعے معاشرے کو تہذیب و ثقافت سکھانے والے بتائیں کہ ایک صدی میں انہوں نے معاشرے کی کیا خدمات انجام دیئے ہیں سوائے فحاشی پھیلا کر لوگوں کو بے حیا و بے غیرت اور بد اخلاق بنانے اور عورتوں کو بے لباس کرنے کے؟ ایسے لوگوں کو ڈرنا چاہئے کہ ان کے بارے میں الله تعالیٰ کی طرف سے وعید سنائی گئی ہے :

إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّ۔هُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (19) سورة النور
’’بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان میں بے حیائی کا پھیلے، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے اور اللہ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے(19) سورة النور

آج فحاشی پھیلانا صرف ان لوگوں تک محدود نہیں جو ٹی وی کمرشل، فلم یا ڈرامے بناتے ہیں بلکہ انٹرنیٹ کا ہر صارف اپنا اپنا محاسبہ کرے اور یہ جان لے کہ "اخلاق بگاڑنے والی ہر چیز فحاشی و بے حیائی کے زمرے میں آتی ہے"۔ اللہ تعالٰی ہم سبھوں کو ایسے برے کام اور برے انجام سے بچائے۔ آمین۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔
 
Top