جون ایلیا فتنہ و فساد کی آگ ہمیشہ مذہبی فرقوں کے درمیان ہی کیوں بھڑکتی ہے؟ جون ایلیا

فاتح

لائبریرین
یہ کون لوگ ہیں جو ایک دوسرے کو قتل کر ڈالتے ہیں اور یہ قتل کرنے والے ہمیشہ مذہب کے قبیلے سے ہی کیوں اٹھتے ہیں؟
ہم دیکھتے ہیں کہ عقل اور فلسفے کے لوگ کبھی اک دوسرے کو قتل نہیں کرتے۔۔۔ افلاطون اور دیمقراطیس کے گروہ کبھی اک دوسرے سے نہیں ٹکرائے، فارابی کے مکتبۂ خیال نے شیخ شہا ب کی خانقاہ کے مفکروں پر کبھی حملہ نہیں کیا، ایتھنس کے ہیکل کے دروازے سے کبھی کوئی ایسا ہجوم نہیں نکلا جس نے انسانوں کی گردنیں اڑا دی ہوں اور شہروں کو اگ لگا دی ہو۔۔۔
فتنہ و فساد کی آگ ہمیشہ مذہبی فرقوں کے درمیان ہی کیوں بھڑکتی ہے؟
اقتباس از جون ایلیا
 

متلاشی

محفلین
یہ کون لوگ ہیں جو ایک دوسرے کو قتل کر ڈالتے ہیں اور یہ قتل کرنے والے ہمیشہ مذہب کے قبیلے سے ہی کیوں اٹھتے ہیں؟
ہم دیکھتے ہیں کہ عقل اور فلسفے کے لوگ کبھی اک دوسرے کو قتل نہیں کرتے۔۔۔ افلاطون اور دیمقراطیس کے گروہ کبھی اک دوسرے سے نہیں ٹکرائے، فارابی کے مکتبۂ خیال نے شیخ شہا ب کی خانقاہ کے مفکروں پر کبھی حملہ نہیں کیا، ایتھنس کے ہیکل کے دروازے سے کبھی کوئی ایسا ہجوم نہیں نکلا جس نے انسانوں کی گردنیں اڑا دی ہوں اور شہروں کو اگ لگا دی ہو۔۔۔
فتنہ و فساد کی آگ ہمیشہ مذہبی فرقوں کے درمیان ہی کیوں بھڑکتی ہے؟
اقتباس از جون ایلیا
فاتح بھائی اس کا جواب یہ ہے ۔۔۔ کہ مذہب کا تعلق عقل کی نسبت جذبات سے زیادہ ہوتا ہے ۔۔۔ جبکہ فلسفہ کا تعلق جذبات کی نسبت عقل سے زیادہ ہوتا ہے ۔۔۔!
جذبات میں بہہ کر انسان کچھ بھی کر سکتا ہے ۔۔۔!
اگر مذہبی لوگ بھی جذبات کی بجائے عقل سے کام لیں تو یہ بات غلط ثابت ہو سکتی ہے ۔۔۔!
 

کاشفی

محفلین
فاتح بھائی اس کا جواب یہ ہے ۔۔۔ کہ مذہب کا تعلق عقل کی نسبت جذبات سے زیادہ ہوتا ہے ۔۔۔ جبکہ فلسفہ کا تعلق جذبات کی نسبت عقل سے زیادہ ہوتا ہے ۔۔۔ !
جذبات میں بہہ کر انسان کچھ بھی کر سکتا ہے ۔۔۔ !
اگر مذہبی لوگ بھی جذبات کی بجائے عقل سے کام لیں تو یہ بات غلط ثابت ہو سکتی ہے ۔۔۔ !
اے عقل تجھ کو آنے سے میں روکتا نہیں
جذبات کو تیرے آنے کی لیکن خبر نہ ہو
 
یہ کون لوگ ہیں جو ایک دوسرے کو قتل کر ڈالتے ہیں اور یہ قتل کرنے والے ہمیشہ مذہب کے قبیلے سے ہی کیوں اٹھتے ہیں؟
ہم دیکھتے ہیں کہ عقل اور فلسفے کے لوگ کبھی اک دوسرے کو قتل نہیں کرتے۔۔۔ افلاطون اور دیمقراطیس کے گروہ کبھی اک دوسرے سے نہیں ٹکرائے، فارابی کے مکتبۂ خیال نے شیخ شہا ب کی خانقاہ کے مفکروں پر کبھی حملہ نہیں کیا، ایتھنس کے ہیکل کے دروازے سے کبھی کوئی ایسا ہجوم نہیں نکلا جس نے انسانوں کی گردنیں اڑا دی ہوں اور شہروں کو اگ لگا دی ہو۔۔۔
فتنہ و فساد کی آگ ہمیشہ مذہبی فرقوں کے درمیان ہی کیوں بھڑکتی ہے؟
اقتباس از جون ایلیا
فریب عقل یا فکری خام خیالی
 

فاتح

لائبریرین
فاتح بھائی اس کا جواب یہ ہے ۔۔۔ کہ مذہب کا تعلق عقل کی نسبت جذبات سے زیادہ ہوتا ہے ۔۔۔ جبکہ فلسفہ کا تعلق جذبات کی نسبت عقل سے زیادہ ہوتا ہے ۔۔۔ !
جذبات میں بہہ کر انسان کچھ بھی کر سکتا ہے ۔۔۔ !
اگر مذہبی لوگ بھی جذبات کی بجائے عقل سے کام لیں تو یہ بات غلط ثابت ہو سکتی ہے ۔۔۔ !
بجا لکھا آپ نے۔۔۔ مذہب سراسر جذبات کی کھیل ہے جس میں عقل کو اٹھا کر پرے پھینک دیا جاتا ہے۔ یہی تو رونا ہے
 
یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ بہت سی قتل و غارت مذہب کے نام پر ہوئی ہے لیکن یہ کہنا بھی مبالغہ ہوگا کہ " قتل کرنے والے ہمیشہ مذہب کے قبیلے ہی سے کیوں اٹھتے ہیں؟"۔۔۔
ہٹلر کی نسل پرستی کا تعلق کسی مذہب سے نہیں تھا لیکن اسکے اس جنون کی وجہ سے کروڑوں لوگ ہلاک ہوئے۔
امریکہ نے بھی جب آن کی ان میں لاکھوں لوگوں کو ایٹم بم گرا کر موت کے گھاٹ اتار دیا، اسکا محرک بھی مذہب نہیں تھا بلکہ کچھ اور تھا۔
چنگیز خان، ہلاکو خان، امیر تیمور، سکندر۔۔ان سب لوگون نے جو کچھ کیا ہے ، کسی مذہب کے تحت نہیں کیا۔
عصرِ حاضر میں جو کچھ قتل و غارت افغانستان، عراق، لیبیا، شام، جنگِ ایران و عراق فلسطین و لبنان میں کی جارہی ہے، اسکی بنیاد بھی مذہب نہیں بلکہ قوم پرستی، زمین کا ٹکڑا، دنیا میں غلبے کا جنون اور معدنی ذخائر پر قبضے کی ہوس مین ملتی ہے، مذہب میں نہیں۔ :)
 
بجا لکھا آپ نے۔۔۔ مذہب سراسر جذبات کی کھیل ہے جس میں عقل کو اٹھا کر پرے پھینک دیا جاتا ہے۔ یہی تو رونا ہے
فاتح بھائی برا نہیں مانیے گا۔۔ اصل میں جو بات میں کرنے جا رہا ہو ں ہو ہے ہی کچھ ایسی ہے پتہ نہیں اس فورم پر کہنی چاہیے یا نہیں چلیں پھر بھی ہمت کر لیتے ہیں مگر پھر بھی بہت ساری پیشگی معذرت کے ساتھ۔۔۔ کچھ عرصہ قبل عقل اور مذہب کے تعلق کے حوالے سے ایک بحث میں شرکت بلکہ صرف سماعت کا اتفاق ہوا تھا۔۔۔ مقصد دراصل ایک مفلوک الحال قسم کے مولانا کو رگیدنا ہی تھا۔۔۔ مگر آخر میں مولانا نے ایک ایسی بات کہی دی کہ بحث کی ایسی کی تیسی ہو گئی ۔۔ مولانا نے فرمایا : عقل کہتی ہے بہترین شریک حیا ت وہ لڑکی ہی ہو سکتی ہے جسے تم بہت پہلے سے جانتے ہو اور وہ بھی تمہیں بچپن سے جانتی ہو، تم کھانے میں، پینے میں، پہننے میں اوڑھنے میں کیا پسند کرتے ہو سب سے واقف ہو، تمہیں کیا پسند ہے کیا نا پسند سب جانتی ہو، اور حقیقتاً تمہاری بہن سے زیادہ یہ خوبیاں کس میں ہونگی، مگر شریعت یا مذہب یہ کہتا ہے کہ کسی اور کی بہن جس کو شائد کبھی دیکھا بھی نا ہو اسے گھر لے آو اور اس کی بات تم مان بھی لیتے ہو، وہاں کیوں نہیں عقل استعمال کرتے اور عقل کی بات مانتے ہو۔۔۔
 

کاشفی

محفلین
جذبات ایک طرف ۔۔۔اس سے پہلے ایک چیز ہے۔۔ بیج ۔۔ سِیڈ۔۔ جسے امریکن سونڈی کھاتی نہیں۔۔
آگ و خون وغیرہ وغیرہ مکافاتِ عمل ہے۔۔یعنی کہ جو بو گے وہی کاٹو گے۔۔اَیّو۔۔واٹ از دز۔۔
ایک مفسر نے کہیں لکھا ہے کہ "خیالات تقدیر کا دوسرا نام ہے۔ اپنی تقدیر کو خود انتخاب کرو اور منتظر رہو۔ کیونکہ محبت سے محبت اور نفرت سے نفرت کا پھل لگتا ہے۔"
تو جہاں جہاں مذہبی فرقوں کے غلط لوگوں نےمحبتیں بوئی ہیں وہاں سے محبتیں پھوٹتی ہیں اور جہاں جہاں نفرتیں بوئی ہیں وہاں سے نفرتیں تیزی سے پروان چڑھ کر محبتوں پر حاوی ہوجاتی ہیں۔۔
اَیّو راما کس قدر تعجب کا مقام ہے کہ تمام لوگ جانتے ہیں کہ جو وہ زمین میں بوتے ہیں یا جس چیز کا پودا لگاتے ہیں، زمین سے اُن کو وہی چیز ملتی ہے۔۔اور جَو بو کر گندم کاٹنا قطعاَ ممکن نہیں ہے۔۔ لیکن جب ذہنی اور دماغی کاشت کا سوال آتا ہے تو اس قانون کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔۔۔
اللہ ہی سے ڈر بھیّا۔۔خوبصورت خیالات کم پید ہیں۔۔
جب ہم سالہا سال سے خوبصورت خیالات کے مخالف جذبات کا بیج بورہے ہوں تو اب مسرت و اطمینان کی فصل کی کس طرح اُمید رکھ سکتے ہیں۔ جب اس تمام عرصے میں مریضانہ خیالات کی پرورش کی گئی ہو تو اچھی صحت کی اُمید کس طرح کی جاسکتی ہے۔۔؟ اگر ہاری کانٹے بوکر گیہوں کی فصل کے انتظار میں ہو تو ہم اسے دیوانہ خیال کریں گے۔ لہذا ہمارے ذہن اور دماغ کی فصل بھی تو اسی یکساں قانون کی پابند ہے جو ہاری کی فصل پر لاگو ہے۔۔ اَیّو ہم سب نے کیا یہ نہیں سنا ؟
"گندم از گندم بروید، جو ز جو!"
ہماری زندگی کے واقعات ہماری ذہنی کاشت کا حاصل ہوتے ہیں۔ہر خیال ایک بیج ہے جس سے تقریباَ اس جیسا ہی ایک ذہنی پودا ہوتا ہے۔۔اگر خیالات کے درخت کے بیج میں زہر ہے تو اُس کا پھل بھی یقناَ زہرآلودہ ہوگا۔ جس سے زندگی میں زہر پھیل جائے گا۔۔اور اس کا اثر خوشیوں اور محبتوں کو تباہ کردے گا۔ اور قتل و غارت گری کا بازار عام رہے گا۔۔۔ تو میرے کہنے کا مطلب یہی ہے کہ مذہبی فرقہ کے نام نہاد ٹھیکدار نفرتوں کے بیج بو کر اس کی آبیاری کرتے ہیں جس سے معاشرے میں قتل و غارت گری ہوتی ہے۔۔

از مکافاتِ عمل غافل مشو
گندم از گندم بروید، جو ز جو!
 

ملائکہ

محفلین
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہمیشہ مذہب کو ٹول بنا کر حکمرانوں نے لوگوں سے اپنے کام نکلوائے ہیں اب یہ کام عام عوام کا ہے کہ کسی کی اندھی تقلید کرنے کے بجائے خود بھی اپنی مذہبی کتابوں کو پڑھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں:)
 

کاشفی

محفلین
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہمیشہ مذہب کو ٹول بنا کر حکمرانوں نے لوگوں سے اپنے کام نکلوائے ہیں اب یہ کام عام عوام کا ہے کہ کسی کی اندھی تقلید کرنے کے بجائے خود بھی اپنی مذہبی کتابوں کو پڑھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں:)
بہت ہی صوفیانہ بات کی ہے آپ نے۔۔بہت خوب!۔
 

متلاشی

محفلین
بجا لکھا آپ نے۔۔۔ مذہب سراسر جذبات کی کھیل ہے جس میں عقل کو اٹھا کر پرے پھینک دیا جاتا ہے۔ یہی تو رونا ہے
میرا مقصد یہ نہیں تھا۔۔۔! کسی بھی چیز کو پرکھنے کے لئے دو چیزیں ہوتی ہیں۔۔۔ ایک نقل دوسری عقل۔۔۔ !
اب بات عقل کی ہے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ انسان کی عقل ناقص اور محدود ہے ۔۔۔ ! اس کائنات میں ہزاروں کروڑوں ایسی لامحدود چیزیں ایسی ہیں جن کا انسانی عقل (جو کہ خود محدود ہے ) کلی ادراک نہیں کر سکتی۔۔۔!
اور وہ مقام جہاں پر پروازِ عقل کے پر جلنے لگتے ہیں اس مقام سے آگے وحی ہے ۔۔ جو دینِ حق کی بنیاد ہے ۔۔۔!
اس لئے وہ مقام جہاں تک انسان کی عقل رسائی رکھتی ہے وہاں تک انسان کو عقل سے کام لینا چاہئے اور وہ مقام جہاں تک انسانی عقل طاقتِ پرواز نہیں رکھتی وہاں وحی ہی رہنمائی کا کام دیتی ہے ۔۔۔!
میر امذہب چونکہ اسلام ہے اس لئے میں صرف اسلام کے بارے میں بات کروں گا۔۔۔! اسلام نے کبھی بھی عقل کو جھٹلایا نہیں۔۔۔ بلکہ قرآن میں جا بجا ارشاد ہے ۔۔۔ افلا یتدبرون۔۔۔۔ افلا یعقلون۔۔۔ وغیرہم ۔۔۔! تو دین میں عقل کو بڑا اہم مقام حاصل ہے ۔۔!
میں تو ان چند جاہلوں کی بات کر رہا تھا جو دین میں عقل کی نسبت جذبات کو زیادہ گھسیڑ دیتے ہیں۔۔۔!
 

arifkarim

معطل
یہ کون لوگ ہیں جو ایک دوسرے کو قتل کر ڈالتے ہیں اور یہ قتل کرنے والے ہمیشہ مذہب کے قبیلے سے ہی کیوں اٹھتے ہیں؟
ہم دیکھتے ہیں کہ عقل اور فلسفے کے لوگ کبھی اک دوسرے کو قتل نہیں کرتے۔۔۔ افلاطون اور دیمقراطیس کے گروہ کبھی اک دوسرے سے نہیں ٹکرائے، فارابی کے مکتبۂ خیال نے شیخ شہا ب کی خانقاہ کے مفکروں پر کبھی حملہ نہیں کیا، ایتھنس کے ہیکل کے دروازے سے کبھی کوئی ایسا ہجوم نہیں نکلا جس نے انسانوں کی گردنیں اڑا دی ہوں اور شہروں کو اگ لگا دی ہو۔۔۔
فتنہ و فساد کی آگ ہمیشہ مذہبی فرقوں کے درمیان ہی کیوں بھڑکتی ہے؟
اقتباس از جون ایلیا
انسان کی پوری تاریخ قتل و غارت ، مار دھاڑ، اورخون کی ہولی میں رنگی ہے۔ جس حضرت انسان کو پچھلی صدی کی دو عظیم الشان جنگوں اور ان میں ہونے والی کروڑہا معصوم انسانی ہلاکتوں بعد بھی مزید جنگ و دجل کا شوق باقی ہو، اس انسان کا تو شاید خدا بھی حافظ نہیں ہے۔ جو اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار کر بعد میں معذوری کا بہانہ کرے، اسکو سوائے قدرت کے اور کوئی سیدھا نہیں کر سکتا! اسلئے یہ ایک بالکل بے تکی سے بات ہے کہ عقل اور فلسفہ کے لوگ ایک دوسرے کی درگت نہیں بناتے۔ تاریخ کی سب سے پرانی جنگ جسکا ثبوت ضائع نہ ہوسکا، جنگ کادش کہلاتی ہے۔ یہ جنگ قدیم مصری اور حنی اقوام کے مابین 1274 قبل مسیح میں لڑی گئی۔ کادش کا مقام آج کے خانہ جنگی والے ملک شام میں واقع ہے۔ جس مقام سے بنی و انسان کی پہلی جنگ کا آغاز ہوا تھا، ابراہیمی مذاہب کے مطابق وہیں انسانوں کی آخری فیصلہ کن اور قیامت انگیز عالمی جنگ عظیم ہرمجدون متوقع ہے۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Battle_of_Kadesh
http://en.wikipedia.org/wiki/Armageddon
 
Top