فارسی زدہ کہنہ تُرکی نثر کے نمونے

حسان خان

لائبریرین
ہمارے یہاں عموماً یہ تصور کیا جاتا ہے کہ گویا صرف اردو ہی واحد فارسی زدہ زبان ہے اور صرف اردو ہی کو فارسی زبان و ادب نے عُمقاً متاثر کیا ہے، لیکن، واللہ و باللہ، حقیقت اور میرا شخصی تجربہ یہ ہے کہ جتنی زیادہ فارسی پرست، فارسی آمیز و فارسی زدہ زبان کہنہ ترکی رہی ہے اُس کے مقابلے میں قدیم اردو کتب بھی فارسی سے تہی نظر آنے لگتی ہیں۔ کہنہ ترکی سر سے پا تک فارسی زبان و ادب و ثقافت و تمدن میں مستغرق تھی، بلکہ اگر ادبیاتِ کُہنِ ترکی کو ادبیاتِ کُہن فارسی کا محض ترکی نسخہ کہا جائے تو نابجا نہیں ہے۔ فارسی کا یہ شدید اثر ترکی کے کسی لہجے یا کسی خطے تک محدود نہیں تھا، بلکہ خواہ آذربائجان و ترکستان ہو یا خواہ دیارِ آلِ عثمان، ہر جگہ پر ادباء و شعراء اِسی مُفرّس زبان کا استعمال کرتے تھے، البتہ دیارِ آلِ عثمان کی ترکی مزید فارسی زدہ تھی۔
یہاں میں نے علاقہ مندوں کے لیے کہنہ ترکی نثر کے چند نمونوں کی جمع آوری کا ارادہ کیا ہے تاکہ اپنی محبوب ترین زبان فارسی کے ساتھ اُس کی ایک رضاعی و تمدنی دختر یعنی ترکیِ عالیہ کی نثری سطح پر وابستگی و پیوستگی کی مثالیں پیش کر سکوں:

شفقت بغدادی نے اپنی تألیف 'تذکرۂ شعراء' کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ کیا ہے:
آثارِ سخن‌ورانِ شیرین‌کلامِ عصر و نتیجهٔ افکارِ نکته‌ورانِ دهر اولان ایشبو مجموعهٔ جامع‌اللطایف و نسخهٔ شامل‌الظرایفین جمع و تلفیقی و تحریر و تنمیقی اتمامه رسیده و نقشِ تمّت بالخیر ایله خِتامه کشیده اولدو.
(تذکرهٔ شعراء، شفقت بغدادی، ۱۲۲۹ هجری)
ترجمہ: زمانے کے شیریں کلام سخنوروں کے آثار اور دہر کے نکتہ وروں کے نتیجۂ افکار پر مشتمل اِس مجموعۂ جامع اللطائف و نسخۂ شامل الظرائف کی جمع و تلفیق اور تحریر و تنمیق اِتمام تک پہنچ گئی اور نقشِ تمّت بالخیر کے ساتھ اختتام تک کھینچ دی گئی۔


× اقتباس کے ترکی عناصر سرخ رنگ میں ہیں۔
× تلفیق = باہم باندھنا، باہم پیوستہ کرنا، مرتّب کرنا

× تنمیق = لکھنا، کتاب کو خوش خطی سے لکھنا اور کتابت سے آراستہ کرنا، کتاب کو خطِ خوب و جلد و نقش و نگار کے ساتھ زینت دینا
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
۹۳۰ ہجری میں وفات پانے والے عثمانی شاعر 'روانی' کے دیوان کے دیباچے سے ایک اقتباس:
"الٰهی بو گلدستهٔ طراوت‌بخشای چمنِ محبت و بو نخلِ نظارت‌افزای گلشنِ حیرت محبوبلر بزمینڭ آرایشی و عاشقلر مجلسینڭ آسایشی اولوب عنادلِ شوق و بلابلِ ذوق تماشاسیندن حیران و بویِ دل‌آویزیندن سرگردان اولوب آسایشِ جانِ خسته و گشایشِ خاطرِ بسته اولا."
ترجمہ: الٰہی! چمنِ محبت کا یہ تازگی بخش گلدستہ اور گلشنِ حیرت کا یہ نظارت افزا نخل، بزمِ محبوباں کی آرائش اور مجلسِ عاشقاں کی آسائش بنے، عنادلِ شوق اور بلابلِ ذوق اس کے تماشے سے حیران اور اس کی دل آویز بو سے سرگرداں ہوں، اور یہ جانِ خستہ کی آسائش اور بند ذہن کی کشائش بنے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عثمانی سلطان، سلطان سلیمان خانِ اول (م ۱۵۶۶ء) کی جانب سے شاہِ ایران شاہ طہماسپ صفویِ اول (م ۱۵۷۶ء) کی طرف ارسال کیے جانے والے نامے سے ایک اقتباس:

"...نامهٔ نامیده آلِ سعادت‌بال تذکر اولندوغی محلده سلطان‌الولایه برهان‌الکرامه امام علی کرم الله وجهه و رضی الله تعالی عنه حضرتلرینك رفعتِ شانِ شریفلرینه متعلق بعض کلمات اولنمش لا شک فیه انلرك علوِ شانِ سعادت‌نشانلری مرتبهٔ تحریردن افزون و دائرهٔ تقریردن خارج و بیروندر لیکن انلر علوِ جاهِ سعادت‌انتباه اوزره اولمغه سائرِ اصحابِ گزینه بغض و عداوت لازم گلمز سرورِ کائنات و خلاصهٔ موجودات صلی الله تعالی علیه وسلم افندمز 'اصحابی کالنجوم بایهم اقتدیتم اهتدیتم' بیورمشلردر اول سرورلرك جمله‌سینه وفورِ محبت مستلزمِ سعادتِ دنیا و آخرت ایدوکنده اشتباه یوقدر...."


[ماخذ: مجموعهٔ منشآت السلاطینِ فریدون بك، جلدِ ثانی، ص ۵۳]

ترجمہ: "۔۔۔[آپ کے] نامۂ نامی میں آلِ سعادت بال کے تذکّر ہونے کے موقع پر حضرتِ سلطان الولایہ برہان الکرامہ امام علی کرم اللہ وجہہ و رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رفعتِ شانِ شریف سے متعلق بعض کلمات آئے ہیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اُن کی عُلُوِّ شانِ سعادت نشان مرتبۂ تحریر سے افزون اور دائرۂ تقریر سے خارج و بیرون ہے، لیکن اُن کے عُلُوِّ جاہِ سعادت انتباہ پر ہونے سے بقیہ اصحابِ گُزین سے بعض و عداوت لازم نہیں آتی۔ ہمارے آقا سرورِ کائنات و خلاصۂ موجودات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے 'میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں، جس کی بھی اقتداء کرو گے ہدایت تک پہنج جاؤ گے' فرمایا ہے۔ اُن جملہ سروَروں سے وفورِ محبت کے مستلزمِ سعادتِ دنیا و آخرت ہونے میں شبہہ نہیں ہے۔۔۔"

× اقتباس کے ترکی عناصر سرخ رنگ میں ہیں۔

پس نوشت: نامۂ ہٰذا، کہ ذہن میں رہے کہ ترکی زبان میں لکھا گیا ہے، کی سلطان سلیمان خانِ اول نے مسجّع و مقفّیٰ تمہید یوں باندھی ہے:
"عالی‌حضرت، گردون‌بسطت، خورشید‌افاضت، برجیس‌سعادت، کیوان‌مرتبت، ثریا‌منزلت، دارا‌درایت، جمشیدخصلت، جم‌بخت، کسری‌ٰتخت، دولت‌مآب، رفعت‌قباب، منقبت‌اکتساب، مکرمت‌انتساب، سائقِ رایاتِ رتب‌الزاهرة، رافعِ رایات العزة الباهرة، وافرالفضائل، کامل‌الخصائل، مطلعِ کواکبِ مناقب و شرائف، قبلهٔ قافلهٔ طلابِ عوارف، سلالهٔ سلاطینِ کسری‌ٰ‌اصل، خلاصهٔ خواقینِ عزت‌بذل، مُؤسِّسِ بنیان السعادة والاقبال، مُشیِّدِ ارکان العظمة والاجلال، مِهرِ سپهرِ ایالت و کامکاری، دریِ برجِ رفعت و بختیاری، المحفوف بصنوفِ لطائفِ عواطف، الملک الاله، معزالسلطنة السنیة، مجبرالدولة البهیة، طهماسب شاه، لا زال مقرونا بهدایة الله، لطائفِ تسلیماتِ وافیاتِ مسکیة النسمات و شرائفِ تحیاتِ صافیاتِ عنبریة النفحات که محض عواطفِ بهجت‌شعارِ شاهانه و یمنِ رأفتِ سعادت‌دثارِ پادشاهانه‌دن فائض و لایح اولور....."


× شاہانِ صفویہ بھی تُرکی گو تھے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
آذربائجان اور ترکیہ کے عظیم ترین شاعرِ کُہن محمد فضولی بغدادی (وفات: ۱۵۵۶ء) کی مثنوی 'لیلیٰ و مجنون' کے دیباچے سے ایک اقتباس:

".... و اگر بو فقیرِ مُستَهام فضولیِ بی‌سرانجام غایتِ قلّتِ بِضاعت و نهایتِ نَقصِ اَمتِعهٔ فصاحت ایله استدعایِ اندراجِ سِلکِ اربابِ حقایق و تمنایِ اِنخِراطِ سلسلهٔ اصحابِ دقایق ایدوب خزانهٔ حُسنِ لیلی تسخیری و خرابهٔ عشقِ مجنون تعمیرینه عازم اولور. ترصُّد اولدور که، اول طرزِ خامه و نقشِ نامه احسنِ وجْهْ ایله میّسر اولوب حکایتِ لیلی کیمی عالم‌گیر و محبتِ مجنون کیمی بقاپذیر اولا..."


سادہ اردو ترجمہ: "۔۔۔۔ اور اگر یہ سرگشتہ فقیر اور پست و زبون فضولی [اپنے علم کے] سرمائے کی آخری درجے کی قلّت اور [اپنی] فصاحت کی متاع کے انتہائی نقص کے ساتھ اربابِ حقیقت کی صف میں داخل ہونے کی درخواست اور اصحابِ نِکاتِ لطیفہ کے سلسلے میں شامل ہونے کی تمنا کرتے ہوئے حُسنِ لیلیٰ کے خزانے کی تسخیر اور عشقِ مجنوں کے خرابے کی تعمیر کی جانب عازم ہو رہا ہے، تو توقع یہ ہے کہ وہ طرزِ قلم اور نقشِ تحریر خوب ترین شکل میں میّسر ہو کر حکایتِ لیلیٰ کی طرح عالم گیر اور محبتِ مجنو‌ں کی طرح بقاپذیر ہو جائے گی۔۔۔۔"


محمد فضولی بغدادی کی مثنویِ لیلیٰ و مجنون ترکی ادب کی اہم ترین مثنویوں میں سے ایک ہے۔
 
آخری تدوین:
لغت نامہء دہخدا میں واژہ "مشرقی ترکستان" کے زیرِ عنوان تفصیل خوانتے(پڑھتے) ہوئے مندرجہ ذیل عبارت نظر آئی۔

محمود کاشغری اندیشمند قرن یازدهم اویغور در "دیوان لغات الترک" خود ضمن تشریح واژه ی "تات " می گوید :" به نظر ترکها منظور از تات انسانی است که به زبان فارسی حرف می زند." و در یک ضرب المثل ترکی آمده است که : " بدون تات ترکی وجود ندارد همچنانکه بدون سر کلاهی نخواهد بود." یعنی بدون زبان و ادبیات فارسی زبان و ادبیات ترکی هم وجود نخواهد داشت . از گفته ی محمود کاشغری و ضرب المثل فوق رابطه ی بین دو ملت فارس و ترک و ادبیات آنان را به خوبی می توان درک نمود.

ترجمہ:۔
قرنِ یازدہم کے اویغور مفکر محمود کاشغری (اپنی کتاب) "دیوان لغات الترک" میں واژہ "تات" کے ضمن میں کہتے ہیں: "تُرکوں کی نظر میں 'تات' وہ انسان ہے جو فارسی میں بات کرے۔" اور ایک ضرب المثلِ ترکی ہے کہ ' تات' کے بغیر زبانِ ترکی وجود نہیں رکھتی جیسے کہ سر کے بغیر کُلاہ نہیں ہوتا۔' یعنے فارسی زبان و ادبیات کے بدون ترکی زبان و ادبیات بھی وجود نہیں رکھےگی۔از روئے قولِ محمود کاشغری و ضرب المثل، مللِ ترک و فارس اور ان کی ادبیات کے مابین بالاتر پیوستگی کا بخوبی ادراک کیا جاسکتا ہے۔


٭واژہ =لفظ
٭کلاہ=پگڑی
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
آفرین بر شما!
بدون تات ترکی وجود ندارد همچنانکه بدون سر کلاهی نخواهد بود."
وہ مشہور ضرب المثَل یہ ہے:
محمود کاشغری کے لہجے میں: "تات‌سیز تورک بولماس، باش‌سیز بورک بولماس"
استانبولی/آذربائجانی ترکی میں: "تات‌سیز تورک اولماز، باش‌سیز بورک اولماز"
میرا گمان ہے کہ فارسی ترجمے میں 'ترکی' میں یائے نکرہ ہے یعنی 'تات (ایرانی) کے بغیر کوئی تُرک وجود نہیں رکھتا'۔۔۔
اِس ضرب المثَل سے ایرانی نژادوں اور تُرک نژادوں کے باہمی قریبی ارتباط کی جانب اشارہ کرنا مقصود ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دوامِ عشق اگر خواهی مکن با وصل آمیزش
که آبِ زندگی هم می‌کند خاموش آتش را
(صائب تبریزی)

اگر تم عشق کا دوام چاہتے ہو تو وصل کے ساتھ آمیزش مت کرو؛ کہ آبِ حیات بھی آتش کو خاموش کر دیتا ہے۔
۱۹۱۵ء میں دیارِ آلِ عثمان میں شائع ہونے والی کتاب 'مجوهراتِ صائبِ تبریزی' میں مؤلف 'محمد خلوصی' نے اِس بیت کا تُرکی زبان میں ترجمہ یوں کیا تھا:
ای واقفِ ذوقِ عشق اولان دل‌خسته! اگر دوامِ عشقی آرزو ایدرسه‌ڭ صقین وصلتی اعتیاد ایدنمه! زیرا آتشه آبِ حیات بیله دوکسه‌ڭ ینه سونر!..
Ey vâkıf-ı zevk-i aşk olan dil-haste! Eğer devâm-ı aşkı arzu edersen, sakın vuslatı i’tiyâd edinme! Zira ateşe âb-ı hayât bile döksen yine söner!
اے ذوقِ عشق سے واقف دل خستہ! اگر تم دوامِ عشق کی آرزو کرتے ہو تو خبردار وصل کی عادت مت اختیار کرو! کیونکہ اگر تم آتش پر آبِ حیات بھی اُنڈیلو، تو بھی وہ بجھ جائے گی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عُثمانی ادیب عِلمی محمد ددہ بغدادی (وفات: ۱۰۲۰ھ/۱۶۱۱ء) نے اپنی کتاب 'شرحِ جزیرهٔ مثنوی' کا آغاز اِس جُملے کے ساتھ کیا ہے:
"حمدِ بی‌حد و ثنایِ بی‌عدّ اۏل حیِّ بی‌زواله که بندگانِ صاحب‌دِلانې ظُلماتِ جهالت‌دن نجات ویرۆپ آبِ حیاتِ عرفانا یئتۆشدۆردی."

حمدِ بے حد و ثنائے بے شُمار اُس حیِّ بے زوال کو کہ جس نے بندگانِ صاحب دِلاں کو ظُلماتِ جہالت سے نجات دے کر آبِ حیاتِ عرفان تک پہنچایا۔

Hamd-i bî-had ve senâ-yı bi-'add ol Hayy-ı bî-zevâle ki bendegân-ı sâhib-dilânı zulmât-ı cehâletden necât virüp âb-ı hayât-ı 'irfâna yetüşdürdi.
 
آخری تدوین:
Top