غیب اور تقویٰ کے مفاہیم اور انگریزی معانی

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّی عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ۝

اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ۝

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۝

شاعرِ مشرِق کے بقول مسلمانوں کو تو قرآنِ پاک کی عملی تصویر ہونا چاہیے:

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مؤمِن

قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قُرآں
قرآنِ پاک اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے۔ منزل مِن اللہ ہے۔ ہر مُسلمان قرآن کو مانتا ہے اور یہ تسلیم کرتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُتاری ہوئی کتاب ہے اور اِس کا نُزوٗل آخری نبی محمد رسول اللہ (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم ) پر ہُوا۔ بات سمجھنے کی یہ ہے کہ قُرآن ہدایت کی کتاب ہے دُنیا اور آخرت دونوں ہی زندگیوں کے لیے۔ خو د قُرآن اپنا تعارُف سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیت میں کر رہا ہے۔ اِس آیت پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

الم۝ذٰلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۝

(1-3:2)الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّ۔لٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنفِقُونَ۝

اِس میں جو بات قابلِ غور ہے وہ یہ ہے کہ نماز یا اِنفاقِ مال کا ذِکر بعد میں ہے۔ سب سے پہلی شرط جو قُرآن پیش کرتا ہے وہ یہ کہ یہ ہدایت کی کتاب ہے مُتقین یعنی جو اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا اِحساس رکھتے ہیں اُن کے لیے اور متقین ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ قرآن پر اور اللہ تعالیٰ کے اُتارے ہوئے احکام پر ایمان با لغیب رکھتے ہوں۔ اس کو دِل کی آنکھوں سے اور دِل کے کانوں سے سمجھے۔ میرے والدِ ماجد کا یہ شعر قابلِ توجہ ہے :

کھول دے میرے لیے علمِ حقیقت کے دَر

دِلِ دانا، دِلِ بینا، دِلِ شنوا دے دے
اِس ہدایت کی کتاب سے نفع اُٹھانے کے لیے ایمان بالغیب ضروری ہے۔ سوال یہ ہے کہ غیب سے کیا مُراد ہے؟اِس سوال کے جواب کو سمجھنے کے لیے حسبِ ذیل وضاحت ضروری ہے:
ہر زبان کی اپنی اصطلاح ہوتی ہے۔عربی کی بھی اپنی اصطلاحات ہیں۔ کسی ایک زبان کی اصطلاح کو دوسری زبان میں منتقل کرنا مشکل ہوتا ہےکہ مِن و عَن اصل اصطلاح کا مفہوم ادا کیا جا سکے۔ انگریزی زبان تو بہت غریب زبان ہے۔ اس میں صلاحیت ہی نہیں ہے کہ عربی یا خود اُردو میں جو اِصطلِاحَات مُستعمل ہیں اُن کو بعینہٖ انگریزی میں منتقل کیا جا سکے۔اُردو میں کھانے میں چاول کی تیار کی ہوئی قسموں کو انگریزی میں کیسے ادا کریں گے؟ بریانی، پلاؤ، خشکہ، بھات وغیرہ کو انگریزی میں کیا کہا جائے گا؟ یا ہماری جو رشتے داریاں ہیں : دادا، دادی، نانا، نانی، چچا، چچی، پھوپھا، پھوپھی ،خالہ، خالو، ماموں ، ممانی کے لیے انگریزی میں کوئی ایک لفظ ہر رشتے کے لیے اِستعمال نہیں ہو سکتا۔ یہی صورتِ حال قرآن کی عربی اِصطلاحات کی ہے۔بس صرف یہ ہے کہ قریب سے قریب تر معنیٰ پہنا ہے۔ یہ تو بہت کمزور(Unseen)دیے جائیں۔ انگریزی تراجمِ قرآن میں عام طور پر غیب کا ترجمہ اَن دیکھا ہے جو غیب کے قرآنی معنیٰ کو ادا نہیں کرتا سب سے اچھا ترجمہ غیب کا محمد اسد مرحوم نے کیا ہے۔ اسد نے (Beyond Human Perception)اس کا ترجمہ کیا ہے :"اِنسانی احساسات سے ماورا" یعنی حواسِ خمسہ سے ماورا،یہی صحیح مفہوم ادا کرتا ہے۔ جو چیز ان دیکھی ہے وہ دیکھی جا سکتی ہے۔لیکن احساساتِ انسانی سے ما ورا، جو چیز ہے وہ گرفت میں نہیں آ سکتی۔ اس لیے اس دُنیاوی زندگی اور حیات کے بعد کی جتنی بھی چیزیں اور معاملات ہیں وہ غیب یعنی اِحساساتِ اِنسانی سے ماورا ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو دیکھا نہیں مگر رسول اللہ (صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم) کے کہے پر ایمان لے آئے۔ چنانچہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی جوابدہی کا اِحساس رکھتے ہیں وہ غیب پر پختہ ایمان رکھتے ہیں۔اِسی طرح لفظِ تقویٰ کا بھی استعمال ہوتا ہے۔ یا متقی کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ عام طور سے اس کا ترجمہ انگریزی میں خوف ِ خُدا (Fear of Allah)یافرائض خداوندی (Duties of Allah)سے کیا گیا ہے۔ محمد اسد نے اس کاانگریزی ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ قرآنی اصطلاح سے قریب تر ہے۔ وہ یہ کہ ہمہ وقت وجودِ باری تعالیٰ کا احساس قلب میں

(Perpetual Consciousness of Allah)
دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا ہمہ وقت احساس اپنے اعمال کے بارے میں یعنی جس بات کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور جن باتوں سے منع کیا گیا ہے ۔ قرآن پاک سے ہدایت کے لیے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ قرآن کو اللہ تعالیٰ کی اُتاری ہوئی کتاب تسلیم کیا جائے۔ چوں چرا کے بغیر پختہ ایمان بالغیب ہو اور قرآن کے پڑھنے میں ، اس کے سمجھنے میں ، اس کی تعلیمات پر عمل کرنے میں اللہ تعالیٰ کے سامنے ہمیشہ جواب دہی کا احساس ہو۔
(ڈربن، جنوبی افریقہ میں مقیم علامہ سید سلیمان ندوی کے فرزند
پروفیسر سید سلمان ندوی کے لکچربعنوان: "قرآن پاک اور حدیث نبوی کا رشتہ " سے ماخوذ)
 
آخری تدوین:
Top