صفحہ 15
ادب کا حصہ بن سکے۔
اس مجموعے کے بعض خطوط بادی النظر میں بہت معمولی باتوں سے متعلق ہیں، مثلاً حکایت زاغ و بلبل (خط 1

یا چڑیا چڑے کی کہانی (خط 19، 20) بظاہر یہ ایسے عنوان ہیں جن سے متعلق خیال نہیں ہوتا کہ کچھ زیادہ لکھا جا سکتا ہے۔ لیکن مولانا آزاد کی جولانی قلم کا یہ کرشمہ ہے کہ ان پر 45 صفحے قلم بند کر دیئے ہیں۔ ان کی وقت نگاہ، جزئیات کا احاطہ غیر عادی اور غیر معمولی چیزوں سے دلچسپی اور ان کی تفصیلات کا علم غرض کس کس بات کی تعریف کی جائے۔ اور پھر یہ سب کچھ ایسی سہل ممتنع زبان میں بیان ہوا ہے کہ اس کا جواب نہیں۔ یا مثلاً خط 15 لیجیئے جس میں اپنے چائے کے شوق کا ذکر کیا ہے۔ یہاں پھر ان کی باریک بینی اور مسئلے کے مالہ و ماعلیہ کا تفصیلی ذکر نمایاں ہے۔ چائے کی پتی کی کاشت کی تاریخ اس کے دوسرے لوازمات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان سب باتوں کا ذکر ایسے چٹخارے لے لے کر کیا ہے کہ خیال ہوتا ہے یہ چائے نہین بلکہ شراب طہور یا آب کوثر و تسنیم کا ذکر ہو رہا ہے۔ پینے کو چائے سب ہی پیتے ہیں، لیکن مولانا آزاد کا یہ خط پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ہم نے آج تک چائے کبھی پی ہی نہیں، بلکہ کوئی نقلی چیز ہمیں دے دی گئی تھی، جسے ہم لاعلمی میں اصلی سمجھتے رہے۔ یہ ان کے حسن انشا اور قوت بیان کا معجزہ ہے۔
پھر ان خطوں کا ایک اور مابہ الامتیاز ان کا ہلکا سافکاہی رنگ ہے جو جا بجا الفاظ کا پردہ چاک کر کے جھانکنے لگتا ہے۔ انہوں نے الہلال میں بھی بعض مقالے ایسے لکھے تھے جن میں مزاح کا رنگ چوکھا تھا۔ وہاں موضوع سیاسی تھا، یہاں موضوع سخن سیاسی چھوڑ ادبھی بھی نہیں، لیکن اس میں بھی وہ وہ گل افشانیاں کی ہیں کہ صفحہ کاغذ کو کشت زعفران بنا کے رکھ دیا ہے۔ مثلاً احمد نگر کے قلعے میں باورچی رکھنے کا قصہ پڑھیے (خط

یا ڈاکٹر سید محمود کا گوریاؤں کی ضیافت کا سامان کرنا (خط 1

یا چڑیا چڑے کی کہانی (خط 20) میں قلندر اور ملا کا حال ۔۔۔۔۔۔۔ ان سب مقامات پر بین السطور مزاح کی کارفرمائیوں نے پوری تحریر کو اتنا شگفتہ اور دلکش بنا دیا ہے کہ یہی جی چاہتا ہے وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔
اسی سے ایک اور بات کا خیال کیجیے۔ یہ ان کی مختلف جانوروں کی شکل و صورت اور عادات و اطوار کی جزئیات کی تصویر کشی ہے۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو اپنے حلقہ احباب میں سے کم بیش روز کے ملنے والوں کے متعلق بھی اتنی تفصیل سے جانتے اور اپنی معلومات اور تاثرات کو