غُبارِ خاطر از مولانا ابُو الکلام آزاد

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 51

(5)

داستان بے ستُون و کوہ کن

قلعہ احمد نگر
10 اگست 1942ء

از ساز و برگِ قافلہ بے خوداں مبرس
بے نالہ ی رود جرسِ کاروانِ ما ! (1)​

صدیق مکرم

کل صبح تک وسعت آباد بمبئے میں فرصتِ تنگ حوصلہ کی بے مایگی کا یہ حال تھا کہ 3 اگست کا لکھا ہوا مکتوبِ سفر بھی اجمل خاں صاحب کے حوالہ نہ کر سکا کہ آپ کو بھی بھیج دیں لیکن آج قلعہ احمد نگر کے حصارِ تنگ میں اس کے حوصلہ فراخ کی آسُودگیا دیکھیے کہ جی چاہتا ہے، دفتر کے دفتر سیاہ کر دوں :

41- وسعتے پیدا کُن اے صحرا کہ امشب درغمش
لشکرِ آہِ من از دل کیمہ بیروں می زند (2)​

نو مہینے ہوئے، 4 دسمبر 1941ء کو نینی کے مرکزی قید خانہ کا دروازہ میرے لیے کھولا گیا تھا۔ کل 9 اگست 1942ء کو سوا دو بچے قلعہ احمد نگر کے حصارِ کہنہ کا نیا پھاٹک میرے پیچھے بند کر دیا گیا۔ اس کارخانہ ہزار شیوہ ورنگ میں کتنے ہی دروازے کھولے جاتے ہیں تا کہ بند ہوں اور کتنے ہی بند کیے جاتے ہیں تا کہ کھلیں، نو ماہ کی مدت بظاہر کوئی بڑی مدت نہین معلوم ہوتی :

دو کروٹیں ہیں عالم غفلت میں خواب کی! (3)​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 52

لیکن سونچتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے تاریخ کی ایک پوری داستان گزر چکی :

42- چوں صفحہ تمام شد، ورق بر گر دو (4)​

نئی داستان جو شروع ہو رہی ہے، معلوم نہیں مستقبل اسے کب اور کس طرح ختم کرے گا :

43- فریب جہاں قِصہ روشن ست
بہ بیں تاچہ زاید، شب آ بستن ست (5)​

4 اگست کو بمبئی پہنچا تو انفلوئنزا کی حرارت اور سر کی گرانی کا اضمحلال بھی میرے ساتھ تھا۔ تاہم پہنچتے ہی کاموں میں مشغول ہو جانا پڑا۔ طبیعت کتنی ہی بے کیف ہو لیکن گوارا نہین کرتی کہ اوقات کے مقرر نظام میں خلل پڑے۔ 4 سے 7 اگست تک ورکنگ کمیٹی (6) کے اجلاس ہوتے رہے۔ 7 کی دوپہر سے آل انڈیا کمیٹی شروع ہوئی۔ معاملات کی رفتار ایسی تھی کہ کاروائی تین دن تک پھیل سکتی تھی اور مقامی کمیٹی نے تین ہی دن کا انتظام بھی کیا تھا لیکن میں نے کوشش کی کہ دو دن سے زیادہ بڑھنے نہ پائے۔ 8 کو دو بجے سے رات کے گیارہ بجے تک بیٹھنا پڑا لیکن کاروائی ختم کر کے اُٹھا :

کام تھے عشق میں بہت، پر میر
ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے (7)​

تھکا ماندہ قیام گاہ پر پہنچا تو صاحب مکان (8) کو منتظر اور کسی قدر متفکر پایا۔ یہ صاحب کچھ عرصہ سے بیمار ہیں اور ایک طرح کی دماغی الجھن میں مُبتلا رہتے ہیں۔ میں ان سے وقت کے مُعاملات کا تذکرہ بچا جاتا تھا تا کہ ان کی دماغی الجھن اور زیادہ نہ بڑھ جائے۔ وہ ورکنگ کمیٹی (9) کی ممبری سے بھی مستعفی ہو چکے ہیں اور اگرچہ میں نے ابھی تک ان کا استعفاء منظور نہیں کیا ہے، لیکن انہیں کمیٹی کے جلسوں میں شرکت کے لیے کہا بھی نہیں۔ وہ کہنے لگے فلاں شخص شام کو آیا تھا، کئی گھنٹے منتظر رہ کر ابھی ابھی گیا ہے اور یہ پیام دے گیا ہے کہ "گرفتاری کی افواہیں غلط نہ تھیں۔ باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ تمام انتظامات کر لیے گئے ہیں۔ آج رات کسی وقت یہ معاملہ ضرور پیش آئے گا۔" دو ہفتے سے گرفتاری کی افواہیں دہلی سے کلکتہ تک ہر شخص کی زبان پر تھیں۔ میں سنتے سنتے تھک گیا تھا :
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 53

44- یا وفاء یا خبرِ وصلِ تو، یا مرگِ رقیب
بازی چرخ ازیں یک دوسہ کارے بکند (10)​

اور کچھ اس بات کا بھی خیال تھا کہ ان کی ماؤف طبیعت کو اس طرح کی فکروں سے پریشان نہ ہونے دوں۔ میں نے جھنجھلا کر کہا جس طرح کے حالات درپیش ہیں ان اس طرح کی افواہیں ہمیشہ اُڑا ہی کرتی ہیں۔ ایسی خبروں کا اعتبار کیا؟ مجھے کچھ کھا کر سو جانے دیجیے کہ آدھی رات جو اب باقی رہ گئی ہے ہاتھ سے نہ جائے اور چند گھنٹے آرام کر لوں :

45- گر غم خوریم خوش نہ بود، بہ کہ مَے خوریم! (11)​

حسب معمول چار بجے اٹھا، لیکن طبیعت تھکی ہوئی اور سر میں سخت گرانی تھی۔ میں نے جن اسپرین (Gen Aspirin) کی دو گولیاں منہ میں ڈال کر چائے پی اور قلم اٹھایا کہ بعض ضروری خطوں کا مسودہ لکھ لوں جو رات کی تجویز کے ساتھ پریسیڈنٹ روز ویلٹ وغیرہ کو بھیجنا بے پایا تھا۔ سامنے سمندر میں بھاٹا ختم ہو چکا تھا اور اس کے ختم ہوتے ہی رات بھر کی امن بھی ختم ہو گئی تھی۔ اب جوار کی لہریں ساحل سے ٹکرا رہی تھیں اور ہوا کے ٹھنڈے اور نم آلود جھونکے بھیجنے لگی تھیں۔ کچھ تو جن اسپرین نے کام کیا ہو گا، کچھ نسیم صبح گاہی کے اِن شفا بخش جھونکوں نے چارہ فرمائی کی۔ ایسا محسوس ہونے لگا جیسے سر کی گرانی کم ہو رہی ہے پھر افاقہ کیا اس احساس نے اچانک غنودگی کی سی حالت طاری کر دی :

نسیم صبح! تیری مہربانی! (12)​

بے اختیار ہو کر قلم رکھ دیا اور بستر پر لیٹ گیا۔ لیٹتے ہی آنکھ لگ گئی۔ پھر اچانک ایسا محسوس ہوا، جیسے سڑک پر سے موٹر کاریں گزر رہی ہوں۔ پھر کیا دیکھتا ہوں کہ کئی کاریں مکان کے احاطہ میں داخل ہو گئی ہیں اور اُس بنگلے کی طرف جا رہی ہیں جو مکان کے پچھواڑے میں واقع ہے اور جس میں صاحب مکان کا لڑکا دھیرو (13) رہتا ہے۔ پھر خیال ہوا میں خواب دیکھ رہا ہوں اور اس کے بعد گہری نیند میں ڈوب گیا :

46- زہے مراتب خوابے کہ بہ زبیداری ست! (14)​

شاید اسی حالت پر دس بارہ منٹ گزرے ہوں گے کہ کسی نے میرا پیر دبایا۔ آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہوں دھیرو ایک کاغذ ہاتھ میں لیے کھڑا ہے اور کہہ رہا ہے، دو فوجی افسر ڈپٹی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 54

کمشنر پولیس کے ساتھ آئے ہیں اور یہ کاغذ لائے ہیں۔ گو اتنی ہی خبر میرے لیے کافی تھی، مگر میں نے کاغذ لے لیا کہ دیکھوں :

کس کس مُہر ہے سرِ محضر لگی ہوئی ؟ (15)​

میں نے دھیرو سے کہا، مجھے ڈیڑھ گھنٹہ تیاری میں لگے گا۔ ان سے کہہ دو کہ انتظار کریں۔ پھر غسل کیا، کپڑے پہنے، چند خطوط لکھے اور باہر نکلا تو پانچ بج کر پینتالیس منٹ ہوئے تھے :

47- کارِ مشکل بود، مابر کویش آساں کردہ ایم! (16)​

کار باہر نکلی تو صبح مسکرا رہی تھی۔ سامنے دیکھا تو سمندر اچھل اچھل کر ناچ رہا تھا۔ نسیم صبح کے جھونکے احاطہ کی روشنی میں پھرتے ہوئے ملے۔ یہ پھولوں کی خوشبو چن چن کر جمع کر رہے تھے اور سمندر کو بھیج رہے تھے کہ اپنی ٹھوکروں سے فضا میں پھیلاتا رہے۔ ایک جھونکا کار میں سے ہو کر گزرا تو بے اختیار حافظ کی غزل یاد آ گئی (17)۔

48- صبا وقتِ سحر بوئے ز زلف یارمی آورد
دلِ سوریدہ ماراز نو در کارمی آورد!​

کار وکٹوریہ ٹرمینس (18) اسٹیشن پر پہنچی تو اس کا پچھلا حصہ ہرطرف سے فوجی پہرہ کے حصار میں تھا اور اگرچہ لوکل ٹرینوں کی روانگی کا وقت گزر رہا تھا لیکن مسافروں کا داخلہ روک دیا گیا تھا۔ صرف ایک پلیٹ فارم پر کچھ ہل چل دکھائی دیتی تھی کیونکہ ایک انجن رسٹورنٹ (19) کار کو دھکیل دھکیل کر ایک ٹرین سے جوڑ رہا تھا۔ معلوم ہوا یہی کاروانِ خاص ہے جو ہم زندانیوں کے لیے طیار کیا گیا ہے۔ گاڑیاں کوریڈور کیریج (Corridor Carriage) قسم کی لگاکئی گئی تھیں جو آپس میں جڑ جاتی ہیں اور آدمی ایک سرے سے دوسرے سرے تک اندر ہی اندر چلا جا سکتا ہے۔ ٹرین کے اندر گیا تو معلوم ہوا کہ گرفتاریوں کا معاملہ پوری وسعت کے ساتھ عمل میں لایا گیا ہے۔ بہت سے آ چکے ہیں جو نہیں آئے وہ آتے جاتے ہیں :

بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں (20)​

بعض احباب مجھ سے پہلے پہنچائے جا چکے تھے ان کے چہروں پر بے خوابی اور ناوقت کی بیداری بول رہی تھی۔ کوئی کہتا تھا رات دو بجے سویا اور چار بجے اٹھا دیا گیا کوئی کہتا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 55

تھا بہ مشکل ایک گھنٹہ نیند کا ملا ہو گا۔ میں نے کہا، معلوم نہیں، سوئی ہوئی قسمت کا کیا حال ہے؟ اُسے بھی کوئی جگانے کےلیے پہنچا یا نہیں؟

49- درازی شب و بیداری من ایں ہمہ نیست
زبختِ من خبر آرید تا کجا خچست (21)​

بہرحال وقت کی گرمجوشیوں میں یہ شکاتیں مخل نہیں ہو سکتی تھیں چونکہ سٹورنٹ کار لگ چکی تھی اور چائے کے لیے پوچھا گیا تھا، اس لیے گو پی چُکا تھا لیکن پھر منگوائی اور ان نیند کے متوالوں کو دعوت دی کہ اس جام صُبح گاہی سے بادہ دوشینہ کا خمار منائیں :

50- بنوش مے چوسبک روحی اے حریف مدام
علی الخصوص دریں دم کہ سرگراں داری! (22)​

یہاں "بادہ دوشینہ" کی ترکیب محض "جام صبح گاہی" کی مناسبت سے زبان قلم پر طاری ہو گئی۔ مگر غور کیجیئے کتنی مطابق حال واقع ہوئی ہے؟ صرف ایک شام اور صبح کے اندر صورت حال کیسی منقلب ہو گئی؟ کل شام کو جو بزم کیف و سرور آراستہ ہوئی تھی، اس کی بادہ گساریوں اور سیہ مستیوں نے دوپہر رات تک طول کھینچا تھا لیکن اب صبح کے وقت دیکھیے تو :

نے وہ سرور و سوز، نہ جوش و خروش ہے (23)​

رات کی تر دماغیوں کی جگہ صبح کی سرگرانیوں نے لے لی اور مجلس دوشین کی دست افشانیوں اور پاکوبیوں کے بعد جب آنکھ کھلی تو اب صبحِ خمار کی افسردہ جماہیوں کے سوا اور کچھ باقی نہیں رہا تھا :

51- خمیازہ سنج تہمت عیش رمیدہ ام
مے آں قدر نہ بُود کہ رنج خمار بُرد​

رات کی کیفیتیں جتنی تند و تیز ہوتی ہیں، صبح کا خمار اتنا ہی سخت ہوتا ہے۔ اگر رات کی سیہ مستیوں کے بعد اب صبح خمار کی تلخ کامیوں سے سابقہ پڑا تھا تو ایسا ہونا ناگزیر تھا اور کوئی وجہ نہ تھی کہ ہم شکوہ سنج ہوتے۔ البتہ حسرت اس کی رہ گئی کہ جب ہونا یہی تھا تو کاش، جی کی ہوس تو پوری نکال لی ہوتی اور نپے تلے پیمانوں کی جگہ شیشوں کے شیشے لنڈھا دیئے ہوتے۔ خواجہ میر درد کیا خوب کہہ گئے ہیں (24)۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 56

کبھی خوش بھی کیا ہے جی کسی رند شرابی کا
بھڑا دیئے منہ سے منہ ساقی! ہمارا اور گلابی کا​

ساڑھے سات بج چکے تھے کہ ٹرین نے کوچ کی سیٹی بجائی۔ حافظ کی مشہور غزل کا یہ شعر کم از کم سینکڑوں مرتبہ تو پڑھا اور سنا ہو گا، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس کا اصلی لطف اُسی وقت آیا :

52- کس نہ دانست کہ منزل گہِ مقصود کجاست
ایں قدر ہست کہ بانگ جرسے مے آید! (25)​

بمبئی میں جو افواہیں گرفتاری سے پہلے پھیلی ہوئی تھیں، اُن میں احمد نگر کے قلعہ اور پونا کے آغا خاں پیلس کا نام تعین کے ساتھ لیا جا رہا تھا۔ جب کلیان اسٹیشن سے ٹرین آگے بڑھی اور پونا کی راہ اختیار کی تو سب کو خیال ہوا غالباً منزلِ مقصود پونا ہی ہے لیکن جب پونا قریب آیا تو ایک غیر آباد اسٹیشن پر صرف بعض رفقاء اُتار لیے گئے اور بمبئی کے مقامی قافلہ کو بھی اُترنے کے لیے کہا گیا، مگر ہم سے کچھ نہیں کہا گیا اور صدائے جرس نے پھر کوچ کا اعلان کر دیا :

53- جرس فریادمی دارد کہ بربندید محملہا (26)​

اب احمد نگر ہر شخص کی زبان پر تھا۔ کیونکہ اگر پونا میں ہم نہیں اُتارے گئے تو پھر اس رُخ پر احمد نگر کے سوا اور کوئی جگہ نہیں ہو سکتی۔ ایک صاحب نے جو انہی اطراف کے رہنے والے ہیں بتلایا کہ پونا اور احمد نگر کا باہمی فاصلہ ستر اسی میل سے زیادہ نہیں، اس لیے زیادہ سے زیادہ دو ڈھائی گھنٹے کا سفر اور سمجھنا چاہیے۔ مگر میرا خیال دوسری ہی طرف جا رہا تھا۔ احمد نگر یقیناً دور نہیں ہے۔ بہت جلد آ جائے گا۔ مگر احمد نگر پر سفر ختم کب ہوات ہے؟ احمد نگر سے تو شروع ہو گا۔ بے اختیار ابو العلاء معری کا لامیہ یاد آ گیا : (27)

54- نیا دارھا بالخیف، اِنً مزارھا
قریبً ولٰکن دون ذلک اھوال (28)

یہ عجیب اتفاق ہے کہ ملک کے تقریباً تمام تاریخی مقامات دیکھنے میں آئے مگر قلعہ احمد نگر دیکھنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا۔ ایک مرتبہ جب بمبئی میں تھا تو قصد بھی کیا تھا مگر پھر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 57

حالات نے مہلت نہ دی۔ یہ شہر بھی ہندوستان کے اُن خاص مقامات میں سے ہے جن کے ناموں کے ساتھ صدیوں کے اِنقلابوں کی داستانیں وابستہ ہو گئی ہیں۔ پہلے یہاں بھینگر نامی ندی کے کنارے ایک اسی نام کا گاؤں (28) آباد تھا۔ پندرھویں صدی مسیحی کے اواخر میں جب دکن کی بہمنی حکومت کمزور پڑ گئی تو ملک احمد نظام المل بھیری (29) نے علم استقلال بلند کیا اور بھینگر کے قریب احمد نگر کی بنیاد ڈال کر جنیر کی جگہ اُسے حاکم نشین شہر بنایا۔ اس وقت سے نظام شاہی مملکت کا دارالحکومت یہی مقام بن گیا۔ فرشہ، جس کا خاندان مازندران سے آ کر یہیں آباد ہوا تھا لکھتا ہے۔ (30) چند برسوں کے اندر اس شہر نے وہ رونق و سعت پیدا کر لی تھی کہ بغداد اور قاہرہ کا مقابلہ کرنے لگا تھا :

55- کس پایمال آفتِ فرسودگی مباد
دیروز ریگ بادیہ آئینہ خانہ بود​

ملک احمد نے جو قلعہ تعمیر کیا تھا، اُس کا حصار مٹی کا تھا۔ اس کے لڑکے برہان نظام شاہ اول (31) نے اسے منہدم کر کے از سر نو پتھر کا حصار تعمیر کیا اور اسے اس درجہ بلند اور مضبوط بنایا کہ مصر اور ایران تک اس کی مضبوطی کا غلغلہ پہنچا۔ 1803 عیسوی کی دوسری جنگ مرہٹہ میں جب جنرل ویلزلی نے (جو آگے چل کر ڈیوک آف ویلنگٹن ہوا) اس کا معائنہ کیا تھا تو اگرچہ تین سو برس کے انقلابات سہہ چکا تھا، پھر بھی اس کی مضبوطی میں فرق نہیں آیا تھا۔ اس نے اپنے مراسلہ میں لکھا تھا کہ دکن کے تمام قلعوں میں صرف ویلور کا قلعہ ایسا ہے جسے مضبوطی کے لحاظ سے اس پر ترجیح دی جا سکتی ہے :

56- کارواں رفتہ و اندازہ جاہش پیداست
زاں نشان ہا کہ بہ ہر راہگزار افتادست (32)​

یہی احمد نگر کا قلعہ ہے جس کی سنگی دیواروں پر برہان نظام شاہ کی بہن چاند بی بی (33) نے اپنے عزم و شجاعت کی یادگار زمانہ داستانیں کندہ کی تھیں اور جنہیں تاریخ نے پتھر کی سِلوں سے اُتار کر اپنے اوراق و دفاتر میں محفوظ کر لیا ہے :

57- بیفشاں جرعہ برخاک و حالِ اہل شوکت بیں
کہ از جمشید و کیخر و ہزاراں داستاں دارد (34)​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 58

اسی احمد نگر کے معرکوں میں عبد الرحیم (35) خان خاناں کی جوانمردی کا وہ واقعہ نمایاں ہو تھا جس کی سرگزشت عبد الباقی نہاوندی (36) اور صمصام الدولہ (37) نے ہمیں سنائی ہے جب احمد نگر کی مدد پر بیجاپور اور گولکنڈہ کی فوجیں بھی آ گئیں اور خانخاں کی قلیل التعداد فوج کو سہیل حبشی کی طاقتور فوج سے ٹکڑانا پڑا تو دولت خان لودی نے پوچھا تھا، "چنیں انبوہے درپیش (است) و فتح آسمانی۔ اگر (شکست) روع ہد جائے نشاں دہید کہ (ما) شمارا دریا بیم۔" خانخاناں نے جواب دیا تھا "زیر لاشہا"۔ (38)۔

58- و نَحنُ اِناس توسط بیننا
لنا الصدرُ دونَ العالمین اَو القبر (39)​

احمد نگر کے نام نے حافظہ کے کتنے ہی بھولے ہوئے نقوش یکایک تازہ کر دیئے۔ ریل تیزی کے ساتھ دوڑی جا رہی تھی۔ میدان کے بعد میدان گزرتے جاتے تھے۔ ایک منظر پر نظر جمنے نہیں پاتی تھی کہ دوسرا سامنے آ جاتا تھا اور ایسا ہی ماجرا میرے دماغ کے اندر بھی گزر رہا تھا۔ احمد نگر اپنی چھو سو برس کی داستان کہن لیے ورق پر ورق اُلٹتا جاتا۔ ایک صفحہ ابھی نظر جمنے نہ پاتی کہ دوسرا سامنے آ جاتا :

59- گاہے گاہے باز خواں ایں دفتر پارینہ را
تازہ خواہی داشتن گر داغہائے سینہ را​

مجھے خیال ہوا، اگر ہمارے قید و بند کے لیے یہی جگہ چنی گئی ہے تو انتخاب کی موزونیت میں کلام نہیں۔ ہم خراباتیوں کے لیے کوئی ایسا ہی خرابہ ہونا تھا :

60- بایک جہاں کدورت، باز ایں خرابہ جائیست (40)​

دو بجنے والے تھے کہ ٹرین احمد نگر پہنچی۔ اسٹیشن سناٹا تھا۔ صرف چند فوجی افسر ٹہل رہے تھے۔ انہی میں مقامی چھاؤنی کا کمانڈنگ آفیسر بھی تھا، جس سے ہمیں ملایا گیا۔ ہم اُترے اور فوراً اسٹیشن سے روانہ ہو گئے۔ اسٹیشن سے قلعہ تک سیدھی سڑک چلی گئی ہے۔ راہ میں کوئی موڑ (41) نہیں ملی۔ میں سونچنے لگا کہ مقاصد کے سفر کا بھی ایسا ہی حال ہے۔ جب قدم اٹھا دیا، تو پھر کوئی موڑ نہین ملتی۔ اگر مڑنا چاہیں تو صرف پیچھے ہی کی طرف مڑ سکتے ہیں لیکن پیچھے مڑنے کی راہ یہاں پہلے سے بند ہو جاتی ہے :
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 59

ہاں، رہِ عشق ست، کجِ گشتن نہ دارد باز گشت
جرم را ایں جا عقوبت ہست، استغفار نیست (42)​

اسٹیشن سے قلعہ تک کی مسافت زیادہ سے زیادہ دس بارہ منٹ کی ہو گی۔ قلعہ کا حصار پہلے کسی قدر فاصلہ پر دکھائی دیا۔ پھر یہ فاصلہ چند لمحوں میں طے ہو گیا۔ اب اس دُنیا میں جو قلعہ سے باہر ہے اور اُس میں جو قلعہ کے اندر ہے صرف ایک قدم کا فاصلہ رہ گیا تھا۔ چشم زدن میں یہ بھی طے ہو گیا اور ہم قلعہ کی دنیا میں داخل ہو گئے۔ غور کیجیئے تو زندگی کی تمام مسافتوں کا یہی حال ہے۔ خود زندگی اور موت کا باہمی فاصلہ بھی ایک قدم سے زیادہ نہیں ہوتا۔

ہستی سے عدم تک نفسِ چند کی ہے راہ
دنیا سے گزرنا سفر ایسا ہے کہاں کا (43)​

قلعہ کی خندق، جس کی نسبت ابو الفصل (44) نے لکھا ہے کہ چالیس گز چوڑی اور چودہ گز گہری تھی اور جسے 1803 عیسوی میں جنرل ویلزلی نے ایک سو آٹھ فٹ تک چورا پایا تھا مجھے دکھائی نہیں دی۔ غالباً جس رُخ سے ہم داخل ہوئے اس طرف پاٹ دی گئی ہے۔ اس کا بیرونی کنارہ جو کھدائی کی خاک ریز سے اس قدر اونچا کر دیا گیا تھا کہ قلعہ کی دیوار چھپ گئی تھی، وہ بھی اس رخ پر نمایاں نہ تھا۔ ممکن ہے کہ وہ صورت اب باقی نہ رہی ہو۔

قلعہ کے اندر پہلے موٹر لاریوں کی قطار ملی، پھر ٹینکوں (45) کی۔ اس کے بعد ایک احاطہ کے سامنے جو قلعہ کی عام سطح سے چودہ پندرہ فٹ بلند ہو گا اور اس لیے چڑھائی پر واقع ہے، کاریں رُک گئیں اور ہمیں اترنے کے لیے کہا گیا۔ یہاں انسپکٹر جنرل پولیس بمبئی نے جو ہمارے ساتھ آیا تھا، ہمارے ناموں کی فہرست کمانڈنگ آفیسر کے حوالہ کی۔ وہ فہرست لے کر دروازہ کے پاس کھڑا ہو گیا۔ یہ گویا ہماری سپردگی کی باضابطہ رسم تھی۔ اب ہماری حفاظت کا سررشتہ حکومت بمبئی کے ہاتھ سے نکل کر فوجی انتظام کے ہاتھ آ گیا اور ہم ایک دنیا سے نکل کر دوسری دنیا میں داخل ہو گئے :

62- درجستجوئے ما نہ کشی زحمتِ سراغ
جائے رسیدہ ایم کہ عنقا نمی رسگ (46)​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 60

دروازے کے اندر داخل ہوئے تو ایک مستطیل احاطہ سامنے تھا۔ غالباً دو سو فٹ لمبا اور ڈیڑھ سو فٹ چوڑا ہو گا۔ اس کے تینوں طرف بارک کی طرح کمروں کا سلسلہ چلا گیا ہے۔ کمروں کے سامنے برآمدہ ہے اور بیچ میں کھلی جگہ ہے۔ اگرچہ اتنی وسیع نہیں کہ اسے میدان کہا جا سکے، تاہم احاطہ کے زندانیوں کے لیے میدان کا کام دے سکتی ہے۔ آدمی کمرہ سے باہر نکلے گا تو محسوس کرے گا کہ کھلی جگہ میں آ گیا۔ کم از کم اتنی جگہ ضرور ہے کہ جی بھر کے خاک اڑائی جا سکتی ہے :

سر پر ہجوم دردِ غریبی سے ڈالیے،
وہ ایک مشتِ خاک کہ صحرا کہیں جسے (47)​

صحن کے وسظ میں ایک پختہ چبوترہ ہے جس میں جھنڈے کا مستول نصب ہے مگر جھنڈا اتار لیا گیا ہے۔ میں نے مستول کی بلندی دیکھنے کے لیے سر اٹھایا تو وہ اشارہ کر رہا تھا :

یہیں ملیں گے تجھے نالہء بلند ترے (48)

احاطہ کے شمالی کنارہ میں ایک پرانی ٹوٹی ہوئی قبر ہے۔ نیم کے ایک درخت کی شاخیں اس پر سایہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں مگر کامیاب نہیں ہرتیں۔ قبر کے سرہانے ایک چھوٹا سا طاق ہے۔ طاق اب چراغ سے خالی ہے مگر محراب کی رنگت بول رہی ہے کہ یہاں کبھی ایک دیا جلا کرتا تھا :

اسی گھر میں جلایا ہے چارغ آرزو برسوں (49)​

معلوم نہیں یہ کس کی قبر ہے؟ چاند بی بی کی ہو نہیں سکتی کیونکہ اس کا مقبرہ قلعہ سے باہر ایک پہاڑی پر واقع ہے۔ بہرحال کسی کی ہو، مگر کوئی مجہول الحال شخصیت نہ ہو گی ورنہ جہاں قلعہ کی تمام عمارتیں گرائی تھیں، وہاں اسے بھی گرا دیا ہوتا۔ سُبحان اللہ! اس روز گارِ خراب کی ویرانیاں بھی اپنی آبادیوں کے کرشمے رکھتی ہیں! اس پرانی قبر کو ویران بھی ہونا تھا تو اس لیے کہ کبھی ہن زندانیانِ خراباتی کے شور و ہنگامہ سے آباد ہو :

کشتوں کا تیری چشم سیہ مست کے مزار
ہو گا خراب بھی، تو کرابات ہووے گا​

مغربی رُخ کے تمام کمرے کھلے اور چشم براہ تھے۔ قطار کا پہلا کمرہ میرے حصے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 61

میں آیا۔ میں نے اندر قدم رکھتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ چارپائی پر، کہ بچھی ہوئی تھی دراز ہو گیا۔ نو مہینے کی نیند اور تھکن میرے ساتھ بستر پر گری :

63- ما گوشہ را نہ بہرِ قناعت گرفتہ ایم
تن پروری بہ گوشہ خاطر رسیدہ است​

تقریباً تین بجے سے چھ بجے تک سوتا رہا۔ پھر رات کو نو بجے تکیہ پر سر رکھا تو صبح تین بجے آنکھ کھولی :

نے تیر کماں میں ہے، نہ صیاد کمیں میں
گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے (50)​

تین بجے اٹھا تو تازہ دم اور چُست و چاق تھا۔ نہ سر میں گرانی تھی نہ انفلوئنزا کا نام و نشان تھا۔ فوراً بجلی کا آلہ حرارت کام میں لایا اور چائے دم دی (51)۔ اب جام و صراحی سامنے دھرے بیٹھا ہوں۔ آپ کو مخاطب تصور کرتا ہوں اور یہ داستانِ بے ستون و کوہکن سنا رہا ہوں :

64- شیریں تراز حکایت ما نیست قصہ
تاریخ روزگار سراپا نوشتہ ایم (52)​

مہینوں سے ایسی گہری اور آسودہ نیند نصیب نہیں ہوئی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کل صبح بمبئی سے چلتے ہُوئے جو دامن جھاڑنا پڑا تھا تو علائق کی گرد کے ساتھ مہینوں کی ساری تھکن بھی نکل گئی تھی۔ یغمائے جندتی کیا خوب کہہ گیا ہے : (53)

65- غلط گفتی "چرا سجادہ گرو کر دی؟"
بزہد آلودہ بودم، گرنمی کردم چہ می کردم؟​

یہ اُسی غزل کا شعر ہے جس کا ایک اور شعر جو مجتہد کا شان کی نسبت کہا تھا، بہت مشہور ہو چکا ہے : (54)

66- زشیخ شہر جاں بُردم بہ ترویر مسلمانی
مدارا گربایں کافر نمی کر دم چہ می کردم؟​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 62

ریف کا نبھانا آسان نہ تھا مگر دیکھیے کس طرح بول رہی ہے؟ بول نہیں رہی ہے چیخ رہی ہے۔ میں بھی اس وقت چائے کے فنجان پر فنجان لنڈھائے جاتا ہوں اور اس کا مطلع دہرا رہا ہوں :

67- ز ساغر گرد ماغے ترنمی کردم، چہ می کردم؟ (55)​

خدارا داد دیجیے۔ نظر بہ حالات موجودہ یہاں "چہ می کردم" کیا قیامت ڈھا رہا ہے؟ گویا یہ مصرعہ خاص اسی موقع کے لیے کہا گیا تھا۔ مگر یوں پتہ نہیں چلے گا " چہ می کردی" پر زیادہ سے زیادہ زور دے کر پڑھیے۔ پھر دیکھیے صورت حال کی پوری تصویر کس طرح سامنے نمودار ہو جاتی ہے۔

یہ جو کچھ لکھ رہا ہوں، کلپترہ گوئی اور لا طائل نویسی سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ بھی نہیں معلوم، گحالت موجودہ میری صدائیں آپ تک پہنچ بھی سکیں گی یا نہیں؟ تاہم کیا کروں افسانہ سرائی سے اپنے آپ کو باز نہیں رکھ سکتا۔ یہ وہی حالت ہوئی جسے مرزا غالب نے ذوق خامہ فرسا کی ستم زدگی سے تعبیر کیا تھا :-

مگر سِتم زدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا! (56)

ابو الکلام​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 63

(6)

قلعہ احمد نگر
11 اگست 1942 عیسوی
صدیق مکرم

قید و بند کی زندگی کا یہ چھٹا تجربہ ہے۔ پہلا تجربہ 1916ء میں پیش آیا تھا، جب مسلسل چار برس تک قید و بند میں رہا۔ پھر 1921ء، 1931ء، 1932ء اور 1940ء میں یکے بعد دیگرےیہی منزل پیش آتی رہی اور اب پھر اُسی منزل سے قافلہ باد پیمائے عمر گزر رہا ہے :

68- بازمی خوہم زسر گیرم رہِ پُیمودہ را ! (1)​

پچھلی پانچ گرفتاریوں کی اگر مجموعی مدت شمار کی جائے تو سات برس آٹھ مہینے سے زیادہ نہیں ہو گی۔ (یہ مکتوب 11 اگست 1942ء کو لکھا تھا۔ اس کے بعد قید کے دو برس گیارہ مہینے اور گزر گئے اور مجموعی مدت سات برس آٹھ مہینے کی جگہ دس برس ساتھ ماہ ہو گئی۔ اس اضافہ کے خلاف کوئی شکوہ کرنا نہیں چاہتا البتہ اس کا افسوس ضرور ہے کہ وہ ساتویں حصہ کی مناسبت کی بات مختل ہو گئی اور سبت کی تعطیل کا معاملہ ہاتھ سے نکل گیا۔) عمر کے ترپن برس جو گزر چکے ہیں، اُن سے یہ مدت وضع کرتا ہوںتو ساتویں حصے کے قریب پڑتی ہے۔ گویا زندگی کے ہر ساتھ دن میں ایک دن قید خانہ کے اندر گزرا۔ تو رات کے احکام عشرہ (2) میں ایک حکم سبت کے لیے بھی تھا یعنی ہفتہ کا ساتواں دن تعطیل کا مقدس دن سمجھا جائے۔ مسیحیت اور اسلام نے بھی یہ تعطیل قائم رکھی۔ سو ہمارے حصہ میں بھی سبت کا دن آیا مگر ہمارے تعطیلیں اس طرح بسر ہوئیں گویا خواجہ شیراز کے دستور العمل پر کاربند رہے : (3)

69- نہ گویمت کہ ہمہ سال مَے پرستی کُن
سہ ماہ مے خور ونہ ماہ پارسامی باش​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 64

وقت کے حالات کے پیش نظر رکھتے ہوئے اس تناسب پر غور کرتا ہوں تو تعجب ہوتا ہے۔ اس پر نہیں کہ سات برس آٹھ مہینے قید و بند میں کیوں کٹے؟ اس پر کہ صرف سات برس آٹھ مہینے ہی کیوں کتے؟

70- نالہ از بہر رہائی نہ کند مُرغ اسیرہ
خورد افسوس زمانے کہ گرفتار نہ بود (4)​

وقت کے جو حالات ہمیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں اُن میں اس ملک کے باشندوں کے لیے زندگی بسر کرنے کی دو ہی راہیں رہ گئی ہیں۔ بے حسی کی زندگی بسر کریں یا احساس حال کی۔ پہلی زندگی ہر حال میں اور ہر جگہ بسر کی جا سکتی ہے مگر دوسرے کے لیے قید خانہ کی کوٹھڑی (5) کے سوا اور کہین جگہ نہ نکل سکی۔ ہمارے سامنے بھی دونوں راہیں کھلی تھیں۔ پہلی ہم اختیار نہیں کر سکتے تھے، ناچار دوسری اختیار کرنی پڑی :

71- رند ہزار شیوہ را طاعتِ حق گران نہ بود
لیک صنم بہ سجدہ درناصیہ مشترک نخواست (6)​

زندگی میں جتنے جُرم کیے اور ان کی سزائیں پائیں، سونچتا ہوں تو ان سے کہیں زیادہ تعداد اُن جرموں کی تھی جو نہ کر سکے اور جن کے کرنے کی حسرت دل میں رہ گئی۔ یہاں کردہ جرموں کی سزائیں تو مل جاتی ہیں لیکن ناکردہ جرموں کی حسرتوں کا صلہ کس سے مانگیں؟

ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یارب، اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے (7)​

1916ء میں جب معاملہ پیش آیا تو مجھے پہلی مرتبہ موقع ملا کہ اپنی طبیعت کے تاثرات کا جائزہ لوں۔ اس وقت عمر کے صرف ستائیس برس گزرے تھے۔ "الہلال" "البلاغ" کے نام سے جاری تھا۔ دارالارشاد قائم ہو چکا تھا۔ زندگی کی گہری مشغولیتیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھیں۔ طرح طرح کی سرگرمیوں میں دل اٹکا ہوا اور علاقوں اور رابطوں کی گرانیوں سے بوجھل تھا۔ اچانک ایک دن دامن جھاڑ کر اٹھ کھڑا ہونا پڑا اور مشغولیت کی ڈوبی ہوئی زندگی کی جگہ قید و بند کی تنہائی اور بے تعلقی اختیار کر لینی پڑی۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 65

بظاہر اس ناگہانی انقلاب حال میں طبیعت کے لیے بڑی آزمائش ہونی تھی لیکن واقعہ یہ ہے کہ نہیں ہوئی۔ آباد گھر چھوڑا اور ایک ویرانہ میں جا بیٹھ رہا : (*)

نقصاں نہیں جنوں میں، بلا سے ہو گھر خراب
دو گز زمیں کے بدلے بیاباں گراں نہیں (8)

لیکن پھر کچھ عرصے کے بعد جب اس صُورت حال کا رد عمل شروع ہوا تو معلوم ہوا کہ معاملہ اتنا سہل نہ تھا جتنا ابتدائے حال کی سرگرمیوں میں محسوس ہوتا تھا اور اس کی آزمائشیں ابھی گزر نہیں چکیں بلکہ اب پیش آ رہی ہیں۔

جب کبھی اس طرح کا معاملہ یکایک پیش آ جاتا ہے تو ابتدا میں اس کی سختیاں پوری طرح محسوس نہیں ہوتیں۔ کیونکہ طبیعت میں مقاومت کا ایک سخت جذبہ پیدا ہو جاتاہے اور وہ نہیں چاہتا کہ صورت حال سے دب جائے۔ وہ اس کا غالباً نہ مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک پرجوش نشہ کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے۔نشہ کی تیزی میں کتنی ہی سخت چوٹ لگے، اُس کی تکلیف محسوس نہیں ہو گی۔ تکلیف اُس وقت محسوس ہو گی جب نشہ اُترنے لگے گا اور جماہیاں آنی شروع ہوں گی۔ اس وقت ایسا معلوم ہو گا، جیسے سارا جسم درد سے چور چور ہو رہا ہو۔ چنانچہ اس مُعاملہ میں بھی پہلا دور نشہء جذبات کی خود فراموشیوں کا گزرا۔ علائق کا فوری انقطاع، کاروبار کی ناگہانی برہمی، مشغولیتوں کا ایک قلم تعلطل، کوئی بات بھی دامن دل کو کھینچ نہ سکی۔ کلکتہ سے بہ اطمینانِ تمام نکلا اور رانچی میں شہر کے باہر ایک غیر آباد حصہ میں مقیم ہو گیا۔ لیکن پھر جوں جوں دن گزرتے گئے، طبیعت کی بے پروائیاں جواب دینے لگیں اور صورت حال کا ایک ایک کانٹا پہلوئے دل میں چبھنے لگا۔ یہ وقت تھا جب مجھے اپنی طبیعت کی اس انفعالی حالت کا مقابلہ کرنا پڑا اور ایک خاص طرح کا سانچا اس
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
(*) 7 اپریل 1906ء کو حکومتِ بنگال نے ڈیفنس آرڈیننس کے ماتحت مجھے بنگال سے خارج کر دیا تھا۔ میں رانچی گیا اور شہر سے باہر مورابادی میں مقیم ہو گیا۔ پھر کچھ دنوں کے بعد مرکزی حکومت نے وہیں قید کر دیا اس کا سلسلہ 1920ء تک جاری رہا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 66

کے لیے ڈھالنا پڑا۔ اُس وقت سے لے کر آج تک کہ چھبیس برس گزر چکے ، وہی سانچا کام دے رہا ہے اور اب اس قدر پُختہ ہو چکا ہے کہ ٹوٹ سکتا ہے مگر لچک نہیں کھا سکتا۔

طالب علمی کے زمانے سے فلسفہ میری دلچسپی کا کاص موضوع رہا ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ یہ دلچسپی برابر بڑھتی گئی لیکن تجربے سے معلوم ہوا کہ عملی زندگی کی تلخیاں گوارا کرنے میں فلفسہ سے کچھ زیادہ مدد نہین مل سکتی۔ یہ بلا شبہ طبیعت میں ایک طرح رواتی کی (Stoical) بے پروائی پیدا کر دیتا ہے اور ہم زندگی کے حوادث و آلام کو عام سطح سے کچھ بلند ہو کر دیکھنے لگتے ہیں۔ لیکن اس سے زندگی کے طبعی انفعالات کی گتھیاں سلجھ نہیں سکتیں۔ یہ ہی ایک طرح کی تسکین ضرور دے دیتا ہےلیکن اس کی تسکین سر تا سر سلبی تسکین ہوتی ہے ایجابی تسکین سے اس کی جھولی ہمیشہ خالی رہی۔ یہ فقدان کا افسوس کم کر دے گا لیکن حاصل کی کوئی امید نہیں دلائے گا۔ اگر ہماری راحتیں ہم سے چھین لی گئی ہیں تو فلسفہ ہمیں کلیلہ و دمنہ (9) (پنچ تنتر) کی دانش آموزچڑیا کی طرح نصیحت کرے گا "لا تاس علی مافات" (جو کچھ کھو چکا، اس پر افسوس نہ کر۔) لیکن کیا اس کھونے کے ساتھ کچھ پانا بھی ہے؟ اس بارے میں وہ ہمیں کچھ نہیں بتلاتا۔ کیونکہ بتلا سکتا ہی نہیں اور اس لیے زندگی کی تلخیاں گوارا کرنے کے لیے صرف اس کا سہارا کافی نہ ہوا۔

سائنس عالم محسوسات کی ثابت شدہ حقیقتوں سے ہمیں آشنا کرتا ہے اور مادی زندگی کی بے رحم جبریت (Physical Determinism) کی خبر دیتا ہے۔ اس لیے عقیدہ کی تسکین اس کے بازار میں بھی نہیں مل سکتی۔ وہ یقین اور اُمید کے سارے پچھلے چراغ گل کر دے مگر کوئی نیا چراغ روشن نہیں کرے گا۔ (10)

پھر اگر ہم زندگی کی ناگواریوں میں سہارے کے لیے نظر اٹھائیں تو کس کی طرف اتھائیں؟

کون ایسا ہے جسے دست ہو دل سازی میں؟
شیشہ ٹوٹے تو کریں لاکھ ہنر سے پیوند (11)​

ہمیں مذہب کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ یہی دیوار ہے جس سے ایک دکھتی ہوئی پیٹھ ٹیک لگا سکتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 67

72- دل شکستہ دراں کوچہ می کنند درست
چنانکہ خود نشانسی کہ از کجا بشکست (12)​

بلا شبہ مذہب کی وہ پُرانی دُنیا جس کی مافوق الفطرت کار فرمائیوں کا یقین ہمارے دل و دماغ پا چھایا رہتا تھا، اب ہمارے لیے باقی نہیں رہی۔ اب مذہب بھی ہمارے سامنے آتا ہے تو عقلیت اور منطق کی ایک سادہ اور بے رنگ چادر اوڑھ کر آتا ہے اور ہمارے دلوں سے زیادہ ہمارے دماغوں کو مخاطب کرنا چاہتا ہے۔ تاہم اب بھی تسکین اور یقین کا سہارا مل سکتا ہے تو اسی سے مل سکتا ہے۔

73- دردیگرے بنما کہ بکجا روم چوترنیم؟ (13)​

فلسفہ شک کا دروازہ کھول دے گا اور پھر اُسے بند نہیں کر سکے گا۔ سائنس ثبوت دے دے گا مگر عقیدہ نہیں دے سکے گا۔ لیکن مذہب ہمیں عقیدہ دے دیتا ہے اگرچہ ثبوت نہین دیتا اور یہاں زندگی بسر کرنے کے لیے صرف ثابت شدہ حقیقتوں ہی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ عقیدہ کی بھی ضرورت ہے۔ ہم صرف انہی باتوں پا قناعت نہیں کر لے سکتے جنہیں ثابت کر سکتے ہیں اور اس لیے مان لیتے ہیں۔ ہمیں کچھ باتیں ایسی بھی چاہییں جنہیں ثابت نہیں کر سکتے، لیکن مان لینا پڑتا ہے۔

By Faith and Faith alone embrace
(14) Believing where we cannot prove​

عام حالات میں مذہب انسان کو اُس کے خاندانی ورثہ کے ساتھ ملتا ہے اور مجھے بھی ملا لیکن میں موروثی عقائد پر قانع نہ رہ سکا۔ میری پیاس اس سے زیادہ نکلی جتنی سیرابی وہ دے سکتے تھے۔ مجھے پُرانی راہوں سے نکل کر خود اپنی نئی راہیں ڈھونڈھنی پڑیں۔ زندگی کے ابھی پندرہ برس بھی پورے نہین ہوئے تھے کہ طبیعت نئی خلشوں اور نئی جستجوؤں سے آشنا ہو گئی تھی اور موروثی عقائد جس شکل و صورت میں سامنے آ کھڑے ہوئے تھے، اُن پر مطمئن ہونے سے انکار کرنے لگی تھی۔ پہلے اسلام کے اندرونی مذاہب کے اختلافات سامنے آئے اور اُن کے متعارض دعوؤں اور متصادم فیصلوں نے حیران و سرگشتہ کر دیا۔ پھر جب کچھ قدم آگے بڑھے، تو خود نفسِ مذہب کی عالمگیر نزاعیں سامنے آ گئیں اور انہوں نے حیرانگی کو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 68

شک تک اور شک کو انکار تک پہنچا دیا۔ پھر اس کے بعد مذہب اور علم کی باہمی آویزشوں کا میدان نمودار ہوا اور اُس نے رہا سہا اعتقاد بھی کھو دیا۔ زندگی کے وہ بنیادی سوال جو عام حالات میں بہت کم ہمیں یاد آتے ہیں ایک ایک کر کے اُبھرے اور دل و دماغ پر چھا گئے۔ حقیقیت کیا ہے اور کہا ں ہے؟ اور ہے بھی یا نہیں؟ اگر ہے اور ایک ہی ہے کیونکہ ایک سے زیادہ حقیقتیں نہیں ہو سکتیں تو پھر راستے مختلف کیوں ہوئے؟ کیوں صرف مختلف ہی نہیں ہوئے بلکہ باہم متعارض اور متصادم ہوئے؟ پھر یہ کیا ہے کہ خلاف و نزاع کی ان تمام لڑتی ہوئی راہوں کے سامنے علم اپنے بے لچک فیصلوں اور ٹھوس حقیقتوں کا چراغ ہاتھ میں لیے کھڑا ہے اور اس کی بے رحم روشنی میں قدامت اور روایت کی وہ تمام پُراسرار تاریکیاں جنہیں نوع انسانی عظمت و تقدیس کی نگاہ سے دیکھنے کی خوگر ہو گئی تھی، ایک ایک کر کے نابود ہو رہی ہیں۔

یہ راہ ہمیشہ شک سے شروع ہوتی ہے اور انکار پر ختم ہوتی ہے۔ اور اگر قدم اُسی پر رُک جائیں تو پھر مایوسی کے سوا اور کچھ ہاتھ نہیں آتا :

تھک تھک کے ہر مقام پہ دو چار رہ گئے
تیرا پتا نہ پائیں تو ناچار کیا کریں! (15)​

مجھے بھی ان منزلوں سے گزرنا پڑا، مگر میں رُکا نہیں۔ میری پیاس مایوشی پر قانع ہونا نہیں چاہتی تھی۔ بالآخر حیرانگیوں اور سر گشگکیوں کے بہت مرحلے طے کرنے کے بعد جو مقام نمودار ہوا، اُس نے ایک دوسرے ہی عالم میں پہنچا دیا۔ معلوم ہوا کہ اختلاف و نزاع کی انہی متعارض راہوں اور اوہام و خیالات کی انہی گہری تاریکیوں کے اندر ایک روشن اور قطعی راہ بھی موجود ہے جو یقین اور اعتقاد کی منزل مقصود تک چلی گئی ہے اور اگر سکون و طمانیت کے سر چشمے کا سراغ مل سکتا ہے تو وہیں مل سکتا ہے۔ میں نے جو اعتقاد حقیقت کی جستجو میں کھو دیا تھا، وہ اس جستجو کے ہاتھوں پھر واپس مل گیا۔ میری بیماری کو جو علت تھی، وہی بالآخر دارُسئے شفا بھی ثابت ہوئی :

74- تداویتُ من لیلی گلیلیٰ عن الھویٰ
کما یتعاداوی شارب الخمر بالخمر (16)​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 69

البتہ جو عقیدہ کھویا تھا اور جو عقیدہ پایا، وہ تحقیقی تھا۔

75- راہے کہ خضر داشت زسر چشمہ دُور بود
لبِ تشنگی زراہِ دگر بردہ ایم ما! (17)​

جب تک موروثی عقائد کے جمود اور تقلیدی ایمان کی چشم بندیوں کی پٹیاں ہماری آنکھوں پر بندھی رہتی ہیں ہم اس راہ کا سراغ نہیں پا سکتے۔ لیکن جونہی یہ پٹیاں کھلنے لگتی ہیں، صاف دکھائی دینے لگتا ہے کہ راہ نہ تو دُور تھی اور کھوئی ہوئی تھی۔ یہ خود ہمارے ہی چشم بندی تھی جس نے عین روشنی میں گم کر دیا تھا :

76- در دشتِ آرزو نہ بُودبہم دام و وَد
راہے ست ایں کہ ہم زتوخزید بلائے تو (18)

اب معلوم ہوا کہ آج تک جسے مذہب سمجھتے آئے تھے، وہ مذہب کہاں تھا؟ وہ تو خود ہمارے ہی وہم پرستیوں اور غلط اندیشیوں کی ایک صُورت گری تھی :

77- تا بغایت ما ہنر پنداشتیم
عاشقی ہم ننگ و عارے بودہ ست (19)​

ایک مذہب تو موروثی مذہب ہے کہ باپ دادا جو کچھ مانتے آئے ہیں، مانتے رہیے۔ ایک جغراطیائی مذہب ہے کہ زمین کے کسی خاص ٹکڑے میں ایک شاہ راہِ عام بن گئی ہے، سب اُسی پر چلتے ہیں، آپ بھی چلتے رہیے۔ ایک مردم شماری کا مذہب ہے کہ مردم شماری کے کاغذات میں ایک خانہ مذہب کا بھی ہوتا ہے اس میں اسلام درج کرا دیجیے۔ ایک رسمی مذہب ہے کہ رسموں اور تقریبوں کا ایک سانچہ ڈھل گیا ہے اُسے نہ چھیڑیئے اور اسی میں ڈھلتے رہیے۔ لیکن ان تمام مذہبوں کے علاوہ بھی مذہب کی ایک حقیت باقی رہ جاتی ہے۔ تعریف و امتیاز کے لیے اسے حقیقی مذہب کے نام سے پُکارنا پڑتا ہے اور اسی کی راہ گُم ہو جاتی ہے :

78- ہمی ورق کہ سیہ گشت مدعا این جاست (20)​

اسی مقام پر پہنچ کر یہ حقیقیت بھی بے نقاب ہوئی کہ علم اور مذہب کی جتنی نزاع ہے فی الحقیقت علم اور مذہب کی نہیں ہے، مدعیانِ علم کی خامکاریوں اور مدعیانِ مذہب کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 44

(4)

مکتوب سفر

جو 9 اگست کی گرفتاری کی وجہ سے بھیجا نہ جا سکا اور جس کی طرف احمد نگر کے پہلے مکتوب میں اشارہ کیا گیا ہے۔

بمبئی میل (راہِ ناگپُور)
3 اگست 1942ء

صدیق مکرم

دہلی اور لاہور میں انفلؤنزا کی شدت نےبہت خستہ کر دیا تھا۔ ابھی تک اس کا اثر باقی ہے۔ سر کی گرانی کسی طرح کم ہونے پر نہیں آتی۔ حیران ہوں اس وبالِ دوش سے کیونکر سُبک دوش ہوں؟ دیکھیے "وبالِ دوش" کی ترکیب نے غالب کی یاد تازہ کر دی :

شوردگی کے ہاتھ سے سر ہے وبالِ دوش
صحرا میں اے خُدا کوئی دیوار بھی نہیں (1)​

29 جولائی کو اس وبال کے ساتھ کلکتہ واپس ہوا تھا۔ چار دن بھی نہیں گزرے کہ کل 2 اگست کو بمبئی کے لیے نکلنا پڑا۔ جو وبال ساتھ لایا تھا اب پھر اپنے ساتھ واپس لیے جا رہا ہوں :

رو میں ہے رَخشِ عُمر، کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں (2)​

مگر دیکھیے، صبح چار بجے کے وقتِ گرانمایہ کی کرشمہ سازیوں کا بھی کیا حال ہے؟ قیام
 
Top