غُبارِ خاطر از مولانا ابُو الکلام آزاد

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 255

حسن آواز میں ہو یا چہرے میں، تاج محل میں ہو یا نشاط باغ میں، حسن ہے اور حسن اپنا فطری مطالبہ رکھتا ہے۔ افسوس اس محروم ازلی پر جس کے بے حس دل نے اس مطالبہ کا جواب دینا نہ سیکھا ہو!

435- سینہ گرم نداری مطلب صحبتِ عشق
آتشے نیست چودر مجمرہ اَت، عُود مخر (24)​

میں آپ سے ایک بات کہوں! میں نے بارہا اپنی طبیعت کو ٹٹولا ہے۔ میں زندگی کی احتیاجوں میں سے ہر چیز کے بغیر خوش رہ سکتا ہوں لیکن موسیقی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آوازِ خوش میرے لیے زندگی کا سہارا، دماغی کاوشوں کا مداوا اور جسم و دل کی ساری بیماریوں کا علاج ہے :

436- مجھے اگر آپ زندگی کی رہی سہی راحتوں سے محروم کر دینا چاہتے ہیں تو صرف اس ایک چیز سے محروم کر دیجیے آپ کا مقصد پورا ہو جائے گا۔ یہاں احمد نگر کے قید خانے میں اگر کسی چیز کا فقدان مجھے ہر شام محسوس ہوتا ہے تو وہ ریڈیو سیٹ کا فقدان ہے :

جس زمانے میں موسیقی کا اشتعال جاری تھا، طبیعت کی خودرفتگی اور محویت کے بعض ناقابل فراموش احوال پیش آئے۔ جو اگرچہ خود گزر گئے لیکن ہمیشہ کے لیےی دامنِ زندگی پر اپنا رنگ چھوڑ گئے۔ اسی زمانے کا ایک واقعہ ہے کہ آگرہ کے سفر کا اتفاق ہوا۔ اپریل کا مہینہ تھا اور چاندنی کی ڈھلتی ہوئی راتیں تھیں۔ جب رات کی پچھلی پہر شروع ہونے کو ہوتی (27) تو چاند پردہ شب ہٹا کر یکایک جھانکنے لگتا۔ میں نے خاص طور پر کوشش کر کے ایسا انتظام کر رکھا تھا کہ رات کو ستار لے کر تاج چلا جاتا اور اس کی چھت پر جمنا کے رخ بیٹھ جاتا۔ پھر جونہی چاندنی پھیلنے لگتی ستار پر کوئی گیت چھیڑ دیتا اور اس میں محو ہو جاتا۔ کیا کہوں اور کس طرح کہوں کہ فریب تخیل کے کیسے کیسے جلوے انہی آنکھوں کے آگے گزر چکے ہیں :
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 256

437- گدائے میکدہ ام، لیک وقتِ مستی بیں
کہ ناز برفلک و حکم برستارہ کُنم ! (28)

رات کا سناٹا، ستاروں کی چھاؤں، ڈھلتی ہوئی چاندنی اور اپریل کی بھیگی ہوئی رات، چاروں طرف تاج کے منارے سر اٹھائے کھڑے تھے، برجیاں دم بخود بیٹھی تھیں، بیچ میں چاندنی سے دھلا ہوا مرمریں گنبد اپنی کرسی پر بے حس و حرکت متمکن تھا، نیچے جمنا کی رُوپہلی جدولیں بل کھا کھا کر دوڑ رہی تھیں اور اُوپر ستاروں کی ان گنت نگاہیں حیرت کے عالم میں تک رہی تھیں۔ نور و ظلمت کی اس ملی جلی فضا میں اچانک پردہ ہائے ستار سے نالہ ہائے بے ھرف اٹھتے اور ہوا کی لہروں پر بے روک تیرنے لگتے۔ آسمان سے تارے جھڑ رہے تھے اور میری انگلی کے زخموں سے نغمے :

438- زخمہ بر تارِ رگِ جاں می زنم
کس چہ داندتاچہ دستاں می زنم (29)​

کچھ دیر تک فضاء تھمی رہتی۔ گویا کان لگا کر خاموشی سے سن رہی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ ہر تماشائی حرکت میں آنے لگتا۔ چاند بڑھنے لگتا۔ یہاں تک کہ سر پر آ کھڑا ہوتا۔ ستارے دیدے پھاڑ پھاڑ کر تکنے لگتے۔ درختوں کی ٹہنیاں کیفیت میں آ آ کر جُھومنے لگتیں۔ رات کے سیاہ پردوں کے اندر سے عناصر کی سرگوشیاں صاف صاف سنائی دیتیں۔ بارہا تاج کی برجیاں اپنی جگہ سے ہل گئیں اور کتنے ہی مرتبہ ایسا ہوا کہ منارے اپنے کاندھوں کو جنبش سے نہ روک سکے۔ آپ باور کریں یا نہ کریں مگر یہ واقعہ ہے کہ اس عالم میں بارہا میں نے برجیوں سے باتیں کی ہیں اور جب کبھی تاج کے گنبد خاموش کی طرف نظر اٹھائی ہے تو اس کے لبوں کو ہلتا ہوا پایا ہے !

439- تو مچندار کہ ایں قصہ زخودمی گویم
گوش نزدیکِ لبم آرکہ اوازے ہست (30)​

اس زمانے کے کچھ عرصہ بعد لکھنؤ جانے اور کئی ماہ تک ٹھہرنے کا اتفاق ہوا ۔۔۔۔۔ آپ بھولے نہ ہوں گے کہ سب سے پہلے آپ سے وہیں ملاقات ہوئی تھی۔ آپ نے قلمی کتابوں کے تاجر عبد الحسین سے کلیاتِ صاءب کا ایک نسخہ خریدا تھا اور مجھے یہ کہہ کر دکھایا تھا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 257

کہ قلمی کتابوں کا بھی آپ کو کچھ شوق ہے؟

440- ایں سخن راچہ جواب ست، تو ہم میدانی (31)​

اسی قیام کے دوران میں مرزا محمد ہادی (32) مرحوم سے شناسائی ہوئی۔ وہ موسیقی میں کافی دخل رکھتے تھے اور چونکہ علم و فن کی راہوں سے آشنا تھے اس لیے علمی طریقہ پر اسے سمجھتے اور سمجھا سکتے تھے۔ مجھے ان سے اپنی معلومات کی تکمیل میں مدد ملی۔ افسوس وہ بھی چل بسے :

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس، تم کو میر سے صحبت نہیں رہی (33)​

اس زمانے میں کرسچئین کالج کے سامنے پانچ روپے ماہوار کرایہ کا ایک مکان لے رکھا تھا۔ وہی ان کی دنیا تھی۔ علم ہیت کے شوق نے نجاری کے مشغلہ سے آشنا کر دیا تھا۔ جب کالج سے آتے تو مکان کی چھت پر لکڑی کے دوائر قطر اور نصف اور ثلث بنانے میں مشغول ہو جاتے اور اس طرح اپنی رصد بندیوں کا سامان کرتے۔ چھت کی سیڑھی ٹوٹی ہوئی تھی؛ جست لگا کر اُوپر پہنچتے اور ساری رات ستاروں کی ہم نشینی میں بسر کر دیتے۔

441) کہ باجام وسبو ہر شب قرین ماہ و پرونیم (34)​

کئی برس کے بعد پھر لکھنؤ جانے کا اتفاق ہوا تو انہیں ایک دوسرے ہی عالم میں پایا۔ ایک رشتہ دار کے انتقال سے کالپی کی کچھ جائداد ورثہ میں مل گئی تھی اور اب جوانی کی محرومیوں کا بڑھاپے کی ذوق اندوزیوں سے کفارہ کرنا چاہتے تھے۔

442- وقتِ عزیز رفت، بیاتا قضا کنیم
عمرے کہ بے حضورِ صراحی و جام رفت (35)​

یہ گرمجوشیاں چونکہ موسیقی کے ذوق کے پردے میں ابھری تھیں اس لیے شاہدانِ نغمہ پرداز سے صحبتیں گرم رہتی تھیں اور بعض استادانِ فن سے بھی مذاکرہ جاری رہتا۔ اس مرتبہ اگرچہ میرا قیام بہت مختصر رہا لیکن جتنے دن رہا موسیقی کے مذاکرات ہوتے رہے۔ اسی زمانے کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے معارف النغمات (36) کی ترتیب میں مدد دی جو چھپ کر شائع ہو چکی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 258

بچپنے میں حجاز کی مترنم صداؤں سے کان آشنا ہو گئے تھے۔ صدرِ اول کے زمانے سے لے کر جس کا حال ہم کتاب الاغانی اور عقد الفرید (37) وغیرہ میں پڑھ چکے ہیں، آج تک حجازیوں کا ذوقِ موسیقی گیر متغیر رہا۔ یہ ذوق ان کے خمیر میں کچھ اس طرح پیوست ہو گیا تھا کہ اذان کی صداؤں تک کو موسیقی کے نقشوں میں ڈھال دیا۔ آج کل کا حال معلوم نہیں لیکن اس زمانے میں حرم شریف کے ہر منارہ پر ایک مؤذن متعین ہوتا تھا اور اُن سب کے اوپر شیخ المؤذنین ہوتا۔ اس زمانے میں شیخ المؤذنین شیخ حسن تھے اور بڑے ہی خوش آواز تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رات کی پچھلی پہر (38) میں ان کی ترحیم * کی نوائیں ایک سماں باندھ دیا کرتی تھیں۔ ہمارا مکان قدوہ میں باب السلام کے پاس تھا۔ کوٹھے کی کھڑکیوں سے مناروں کی قندیلیں صاف نظر آتی تھیں اور صبح کی اذان اس طرح سنائی دیتی جیسے چھت پر کوئی اذان دے رہا ہو۔ جب عراق اور مصر و شام کے سفر کا اتفاق ہوا تو موجودہ عربی موسیقی کی جستجو ہوئی۔ معلوم ہوا کہ قدماء کی بہت سی مصطلحات جو ہمیں کتاب الاغانی اور خوارزمی (39) وغیرہ میں ملتی ہیں، اب کوئی نہیں جانتا۔ تعبیر و تقسیم کے اسماء و رموز تقریباً بدل گئے ہیں اور عربی کی جن مصطلحات نے ایران پہنچ کر فارسی کا جامہ پہن لیا تھا، وہ اب پھر عربی میں واپس آ کر مّعرب ہو گئی ہیں۔ البتہ فن کی پرانی بنیادیں ابھی تک متزلزل نہیں ہوئیں۔ وہی بارہ راگنیاں اب بھی اصل و بنیاد کا کام دے رہی ہیں جو یونانی موسیقی کی تقلید میں وضع ہوئی تھیں۔ آسمان کے بارہ برجوں کی طرف اب بھی انہیں اسی طرح منسوب کیا جاتا ہے جس طرح قدماء نے کیا تھا۔ آلاتِ موسیقی میں اگرچہ بہت سی تبدیلیاں ہو گئیں لیکن عود کے پردے ابھی تک خاموش نہیں ہوئے ہیں اور ان کے زخموں سے وہ نوائیں اب بھی سنی جا سکتی ہیں جو کبھی ہارون الرشید (41) کی شبستانِ طرب میں اسحاق موصلی (42) اور ابراہیم (43) بن مہدی کے مضراب سے اُٹھا کرتی تھیں :

443- ایں مطرب از کجاست کہ کہ سازِ "عراق" ساخت
و آہنگ باز گشت ز "راہ" حجاز کرد (44)
-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-​

* صبح کی اذان سے پہلے مختلف کلماتِ ادعیہ ایک خاص لحن میں دہرائے جاتے ہیں۔ اسے "ترحیم" کہتے ہیں۔ کم سے کم سو برس پہلے بھی یہ رسم جاری تھی، کیونکہ ملاّ علی قاری (40) اور صاحب الباعث نے اسے بھی بدع و محدّثات میں سے شمار کیا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 259

"عراق" اور "حجاز" دو راگنیوں کے نام ہیں اور "راہ" یعنی سُر

444- مطرب نگاہ دار ہمیں "رہ" کہ میزنی (45)​

اس زمانے میں شیخ احمد سلامہ (46) حجازی کا جوق مصر میں بہت مشہور اور نامور تھا "جوق" وہاں منڈلی کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ ہم نے یہاں منڈلی کے لیے "طائفہ" کا لفظ اختیار کیا تھا پھر اس کی جمع طوائف ہوئی اور رفتہ رفتہ طوائف کے لفظ نے مفرد معنی پیدا کر لیے، یعنی زنِ رقاصہ و مغنیہ کے معنی میں بولا جانے لگا۔ شیخ سلامہ کا جوق قاہرہ کے اوپیرہ ہاؤس میں اکثر اپنا کمال دکھایا کرتا تھا اور شہر کی کوئی بزم طرب بغیر اس کے بارونق نہیں سمجھی جاتی تھی۔ مجھے بارہا اس کے سننے کا اتفاق ہوا۔ اس میں شک نہیں کہ عربی موسیقی آج کل جیسی کچھ اور جتنی کچھ بھی ہے وہ اس کا پورا ماہر تھا۔ ایک دوست کے ذریعہ اس سے شناسائی پیدا کی تھی اور موجودہ عربی موسیقی پر مذاکرات کیے تھے۔

اسے زمانے میں مصر کی ایک مشہور "عالمہ" (47) طاہرہ نامی باشندہ طنطا تھی۔ "عالمہ" مصر میں مغنیہ کہ کہتے ہیں یعنی موسیقی کا علم جاننے والی۔ ہمارے علماء کرام کو اس اصطلاح سے غلط فہمی نہ ہو۔ یورپ کی زبانوں میں یہی لفظ (Alma) ہو گیا ہے۔ شیخ سلامہ بھی اس عالمہ کی فن دانی کا اعتراف کرتا تھا۔ وہ خود بھی بلائے جان تھی، مگر اس کی آواز اس سے بھی زیادہ آفتِ ہوش و ایمان تھی۔ میں نے اس سے بھی شناسائی بہم پہنچائی اور عربی موسیقی کے کمالات سنے۔ دیکھیے اس خانماں خراب شوق نے کن کن گلیوں کی خاک چھنوائی۔

جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار
اے کاش جانتا نہ تری رہگزر کو میں ! (48)

جس زمانے کے یہ واقعات لکھ رہا ہوں، اس سے کئی سال بعد مصر میں اُم کلثوم (49) کہ شہرت ہوئی اور اب تک قائم ہے۔ میں نے اس کے بے شمار ریکارڈ سنے ہیں اور قاہرہ، انگورہ، (50) طرابلس الغرب، (51) فلسطین اور سنگاپور کے ریڈیو اسٹیشن آج کل بھی اس کی نواؤں سے گونجتے رہتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جس شخص نے اُم کلثوم کی آواز نہیں سنی ہے وہ موجودہ عربی موسیقی کی دلآویزیوں کا کچھ اندازہ نہیں کر سکتا۔ اس کے مشہور
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 260

انشادات میں سے ایک نشید عُلیّہ بنت (52) المھدی کا مشہور نسیب ہے :

445- و حبب، فان الحب داعیۃ الحب
و کم من بعید الدار مستوجب القرب​

البتہ یہ ماننا پڑتا ہے کہ قدیم یونانی موسیقی کی طرح عربی موسیقی بھی نسبتاً سادہ اور دِقتِ تالیف کی کاوشوں سے خالی ہے۔ ہندوستان نے اس معاملہ کو جن گہرائیوں تک پہنچا دیا، حق یہ ہے کہ قدیم تمدنوں میں سے کوئی تمدن بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ حسنِ تقسیم اور دقتِ ترتیب یہاں کی ہر فنی شاخ کی عام خصوصیت رہی ہے۔

لیکن جہاں تک نفسِ فن کی دقیقہ سنجیوں کا تعلق ہے، اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ یورپ کا موجودہ فن موسیقی جس کی بنیاد و نشاءۃ ثانیہ (Renascence) کے باکمالوں نے رکھی تھی منتہائے کمال تک پہنچا دیا گیا ہے اور گو ذوق سماع کے اختلاف سے ہمارے کان اس کی پوری قدر شناسی نہ کر سکیں لیکن دماغ اس کی عضمت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ دراصل اشیاء و معانی کے تمام مرکب مزاجوں کی طرح موسیقی کا مزاج بھی ترکیبی واقع ہوا ہے اور سارا معاملہ مفرداصوات و الھان کی تالیف سے وجود پذیر ہوتا ہے۔ ان مفرد اجزاء کی ترکیب کا تسویہ اور تناسب جس قدر دقیق اور نازک ہوتا جائے گا، موسیقی کی گہرائیاں اتنی ہی بڑھتی جائیں گی۔ اس اعتبار سے اٹھارویں اور انیسویں صدی کے یورپ کا فنِ موسیقی فکر انسان کی دقت آفرینیوں کا ایک غیر معمولی نمونہ ہے اور جرمنی کے باکمالانِ فن نے تو اس باب میں بڑی ہی سحرکاری کی ہے۔

حقیقیت یہ ہے کہ موسیقی اور شاعری ایک ہی حقیقیت کے دو مختلف جلوے ہیں اور ٹھیک ایک ہی طریقہ پر ظہور پذیر بھی ہوتے ہیں۔ موسیقی کا مؤلف الحان کے اجزا کو وزن و تناسب کے ساتھ ترکیب دے دیتا ہے۔ اسی طرح شاعر بھی الفاظ و معانی کے اجزاء کو حسن و ترکیب کے ساتھ باہم جوڑ دیتا ہے :

446- تو حنا بستی و من معنی رنگیں بستم! (53)​

جو حقائق شعر میں الفاظ و معانی کا جامہ پہن لیتے ہیں وہی موسیقی میں الحان و ایقاع کا بھیس اختیار کر لیتے ہیں۔ نغمہ بھی ایک شعر ہے لیکن اسے حرف و لفظ کا بھیس نہیں ملا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 261

اس نے اپنی رُوح کے لیے نواؤں کا بھیس طیار کر لیا۔

447- ا الاذن تعشق قبل العین احیانا (54)​

یہ کیا بات ہے کہ بعض الھان ورد و الم کے جذبات برانگیختہ کر دیتے ہیں، بعض کے سُننے سے مسرت و انبساط کے جذبات اُمنڈنے لگتے ہیں؛ بعض کی لَے ایسی ہوتی ہے جیسے کہہ رہی ہو کہ زندگی اور زندگی کے سارے ہنگامے ہیچ ہیں۔ بعض کی لَے ایسی محسوس ہوتی ہے، جیسے اشارہ کر رہی ہو کہ :

448- چاراں! صالئے عام است گرمی کنید کارے! (55)​

یہ وہی معانی ہیں جو موسیقی کی زبان میں اُبھرنے لگتے ہیں۔ اگر یہ شعر کا جامہ پہن لیتے تو کبھی حافظ (56) کا ترانہ ہوتا، کبھی خیام (57) کا زمزمہ، کبھی شیلے (58) (Shelley) کی ماتم سرائیاں ہوتیں، کبھی ورڈز ورٹھ (59) (Wrodsworth) کی حقائق سرائیاں :

449- دریں میدان پُر نیرنگ حیران ست دانائی
کہ یک ہنگامہ آرائی و صد کشور تماشائی! (60)​

یہ عجیب بات ہے کہ عربوں نے ہندوستان کے تمام علوم و فنون میں دلچسپی لی لیکن ہندوستان کی موسیقی پر ایک غلط انداز نظر بھی نہ ڈال سکے۔ ابو ریحان البیرونی (61) نے کتاب الہند میں ہندوؤں کے تمام علوم و عقائد پر نظر ڈالی ہے اور ایک باب "فی کتبھم فی سائرِ العُلُوم" پر بھی لکھا ہے، مگر موسیقی کا اس میں کوئی ذکر نہیں۔ ڈاکٹر اڈورڈ سخاؤ (62) (Sachau) نے الآثار الباقیہ کے مقدمہ میں البیرونی کا ایک مکتوب درج کیا ہے جس میں اُس نے اپنی تمام مصنفات کا بہ تفصیل ذکر کیا تھا، لیکن اس میں بھی اس موضوع پر کوئی تصنیف نظر نہیں آتی۔ حالانکہ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان کے نائیک سلطان محمود (63) اور سلطان مسعود (64) کے درباروں میں اپنے کمالاتِ فن کی نمائشیں کرنے لگے تھے اور ہندوستان کے ڈھول اور باجے غزنین کے گلی کوچوں میں بجائے جا رہے تھے۔ غالباً اس تغافل کی وجہ کچھ تو یہ ہو گی کہ علوم عقلیہ کے شوق و اشتعال نے اس کی بہت کم مہلت دی کہ فنون لطیفہ کی طرف توجہ کرتے اور کچھ یہ بات بھی ہو گی کہ عربوں کا ذوقِ سماع ہندوستان کے ذوقِ سماع سے اس درجہ مختلف تھا کہ ایک کے کان دوسرے کی نواؤں سے بہ مشکل آشنا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 262

ہو سکتے تھے۔

ہندوستان کی موسیقی کی طرح ہندوستان کے ڈراموں سے بھی عرب مصنف یک قلم ناآشنا رہے۔ البیرونی نے سنسکرت کی شاعری اور فنِ عروض کا بہ تفصیل ذکر کیا ہے لیکن ناٹک کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔ حالانکہ یونانی ادبیات کی طرح سنسکرت ادبیات کی بھی ایک خاص اور ممتاز چیز ناٹک ہے۔

خود یونان کے فنونِ ادبیہ کے ساتھ بھی عربوں نے ایسا ہی تغافل برتا؛ یونان کی شاعری اور ڈراموں کی انہیں بہت کم خبر تھی۔ ہومر (65) اور سوفاکلیس (66) وغہر ہما کےنام انہیں ارسطو (67) کے مقالات اور افلاطون (8)6 کی جمہوریت سے معلوم ہو گئے تھے لیکن اس سے زیادہ کچھ معلوم نہ کر سکے۔ ابنِ رشد (69) نے کامیڈی (70) اور ٹریجڈی (71) کی جو تعریف اپنی شرح میں کی ہے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یونانی ڈرامہ کی حقیقت سے اُس کا دماغ کس درجہ ناآشنا تھا۔ وہ کامیڈی کو ہجو اور ٹریجڈی کو مدح سے تعبیر کرتا ہے۔

یہ بات بھی صاف نہیں ہوئی کہ یونانی فنِ بلاغت سے آئمہ بلاغتِ عرب کہاں تک متاثر ہوئے تھے؟ بظاہر انہوں نے اسے قابل اعتنا نہیں سمجھا۔ ارسطو کے مقالات، خطابت اور شاعری پر عربی میں منتقل ہو گئے تھے اور ابنِ رشد نے اپنی شروح میں انہیں بھی شامل کیا لیکن عرب آئمہ فن نہ تو اس کی روح سمجھ سکے اور نہ بلاغت عربی کی سرگرانیوں نے اس کی مہلت دی کہ سمجھنے کی کوشش کرتے۔ ارسطو نے اپنے دونوں مقالوں میں جو کچھ لکھا ہے، وہ تمام تر یونانی خطابت اور شاعری کے نمونوں پر مبنی ہے اور عربی دماغ ان سے آشنا نہ تھا۔ آپ نے ابنِ قدامہ (72) کی نقد الشعر کا ضرور مطالعہ کیا ہو گا۔ چوتھی صدی کے بغداد کے علمی حلقہ میں اُس کا نشو و نما ہوا تھا اور وہ نسلاً رومی تھا۔ چند سال ہوئے اسکوریال (73) (اسپین) کے کتب خانہ میں ایک کتاب کا سراغ ملا، جس کی لوح پر "نقد النثر" درج تھا مگر مصنف کا نام مٹا ہوا تھا۔ بہت غور کرنے سے ابو جعفر ابنِ قدامہ سے ملتے جلتے حروف دکھائی دینے لگے۔ جب اس نام کی کتاب دنیا کے کتب خانوں کی فہرستوں میں ڈھونڈھی گئی تو معلوم ہوا کہ کوئی دوسرا نسخہ اس کا موجود نہیں۔ اسکوریال کے کتب خانہ میں زیادہ تر وہی کتابیں ہیں جو سترھویں صدی میں سلطان مراکش کے دو جہازوں کی لوٹ سے اسپین
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 263

کے ہاتھ آئی تھیں۔ چونکہ اس زمانے میں اسلامی ذخیروں کو تباہ کرنے کی مسیحی سرگرمیاں ٹھنڈی پڑ چکی تھیں، اس لیے انہیں ضائع نہیں کیا گیا اور اسکوریال کی خانقاہ میں رکھ دی گئیں۔ یقیناً یہ نسخہ بھی اسی لوٹ میں آ گیا ہو گا۔ پچھلے دنوں جامع مصریہ کے ادارہ نے اس کا عکس حاصل کیا اور ڈاکٹر منصور (74) اور ڈاکٹر طٰہ کی تصحیح و ترتیب کے بعد چھپ کر شائع ہو گیا۔ دونوں نے اس پر الگ الگ مقدمے بھی لکھے ہیں۔ بظاہر اس میں شک کرنے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ یہ رسالہ بھی نقد الشعر کے مصنف ہی کے قلم سے نکلا ہے۔ (76) رسالہ کے اسلوب بیان میں منطقی طریق بحث و تحلیل صاف نمایاں ہے جو آگے چل کر فن بلاغت پر بالکل چھا گیا، لیکن اصول فن خالص عربی ہیں اور امثال و نظائر میں بھی باہر کے اثرات کی کوئی پرچھائیں دکھائی نہیں دیتی۔ البتہ بلاغت کی حقیقت پر بحث کرتے ہوئے یونان اور ہندوستان کے بعض اقوال جاحظ (77) کے حوالہ سے نقل کر دیے ہیں اور وہ سب نے نقل کیے ہیں۔

لیکن عربوں نے جو تغافل یونانی ادبیات سے برتا تھا، وہ اس کے فن موسیقی سے برت نہیں سکتے تھے کیونکہ خود عربوں کا فن موسیقی کچھ نہ تھا اور جتنی کچھ عمارت بھی انہوں نے اٹھائی تھی، اس کا تمام تر مواد ایران کی ساسانی موسیقی کے کھنڈروں سے حاصل کیا گیا تھا۔

450- نوائے باربد ماندست دوستاں! (78)

چنانچہ کافی تصریحات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یونان کے فنِ موسیقی پر عربی میں کتابیں لکھی گئیں اور ریاضی کی ایک شاغ کی حیثیت سے اس کا عام طور پر مطالعہ کیا گیا۔ یونانیوں نے آسمان کے بارہ فرضی برجوں کی مناسبت سے راگنیوں کی بارہ بنیادی تقسیمیں کی تھیں اور ہر راگنی کو کسی ایک برج کی طرف منسوب کر دیا تھا۔ عربوں نے بھی اسی بنیاد پر عمارت اٹھائی۔ یونان اور روم کے آلات میں قانون اور ارغنون (آرگن) عام طور پر رائج ہو گئے تھے۔ ابو نصر فارابی (79) نے قانون پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔ اخوان الصفا (80) کے مصنفوں کو بھی موسیقی سے اعتناء کرنا پڑا۔

سندھ کے نوآباد عرب ہندوستان کی موسیقی سے جو ان اطراف میں رائج ہو گئی ضرور آشنا ہوئے ہوں گے لیکن تاریخ میں سندھ کے عربی عہد کے حالات اتنے کم ملتے ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 264

کہ جزم کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ چھٹی صدی ہجری سے شمالی ہند اور دکن کے نئے اسلامی دوروں کا جو سلسلہ شروع ہوا ان سے ہم مسلمانوں کے ذوق اور اشتعال کے نتائج بآسانی نکال لے جا سکتے ہیں۔ اب ہندوستان کے علوم و فنون مسلمانوں کے لیے غیر ملکی نہیں رہے تھے بلکہ خود ان کے گھر کی دولت بن گئے تھے۔ اس لیے ممکن نہ تھا کہ ہندوستانی موسیقی کے علم و ذوق سے وہ تغافل برتتے۔ چنانچہ ساتویں صدی میں امیر خسرو جیسے مجتہد فن کا پیدا ہونا اس حقیقیتِ حال کا واضح ثبوت ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اب ہندوستانی موسیقی ہندوستانی مسلمانوں کی موسیقی بن چکی تھی اور فارسی موسیقی غیر ملکی موسیقی سمجھی جانے لگی تھی۔ سازگری، ایکن اور خیال تو امیر خسرو (81) کی ایسی مجتہدانہ اختراعات ہیں کہ جب تک ہندوستانیوں کی آواز میں رس اور تار کے زخموں میں نغمہ ہے، دنیا ان کا نام نہیں بھول سکتی۔ مثنوی قران السعدین میں خود کہتے ہیں (82)

451- زمزمہ "سازگری" در "عراق"
کردہ بگلبانگِ عراق اتفاق​

قول، ترانہ، سوہلہ تو گانے کی ایسی عام چیزیں بن گئی ہیں کہ ہر گویے کی زبان پر ہیں، حالانکہ یہ سب اسی عہد کی اختراعات ہیں۔ کلاسیکل موسیقی ان سے آشنا نہ تھی۔

غالباً مسلمان بادشاہوں سے بھی پہلے مسلمان صوفیوں نے اس کی سرپرستی شروع کر دی تھی۔ ملتان، ایودھن، گور اور دہلی کی خانقاہوں میں وقت کے بڑے بڑے باکمال حاضر ہوتے تھے اور برکت و قبولیت کے لیے اپنا اپنا جوہرِ کمال پیش کرتے تھے۔ جہاں تک سلاطین ہند کا تعلق ہے خلجی (83) اور تغلق (84) کے درباروں میں ہندوستانی موسیقی کے مقبولیت اور قدر دانیوں کے واقعات تاریخ میں موجود ہیں لیکن جس شاہی خاندان نے ہندوستانی موسیقی سے بہ حیثیت ایک فن کے خاص اعتنا کیا، وہ غالباً جونپور کا شرقی خاندان (85) تھا۔ چنانچہ اسی عہد میں خیال عام طور پر مقبول ہوا اور دھرپد کی جگہ اس سے اہلِ فن اعتنا کرنے لگے۔ اسی عہد کے لگ بھگ دکن کے بہمنی (86) اور نظام شاہی (87) خاندانوں کا اور پھر بیجا پوری (88) بادشاہوں کا شوق و ذوق نمایاں ہوتا ہے۔ چونکہ اس زمانے میں دکن اور مالوا کی سرزمین موسیقی کے علم و عمل کا تخت گاہ بن گئی تھی، اس لیے یہ قدرتی بات تھی کہ مسلمان
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 265

پادشاہوں کی سرپرستی اسے حاصل ہو جاتی۔ ابراہیم (89) عاسل بادشاہ تو بقول ظہوری (90) کے اس اقلیم کا جگت گورو تھا اور اس کے شوقِ موسیقی نے بیجا پور کے گھر گھر میں وجد و سماع کا چراغ روشن کر دیا تھا۔ ظہوری اس کی مدح میں کیا خوب کہہ گیا ہے :

452- مروت کردہ شبہابر تو سیر بام و درلازم
نمی باشد چراغے خانہ ہائے بے نوایاں را​

مالوا، بنگال اور گجرات کے پادشاہوں کے ذاتی اشتغال و ذوق کے واقعات تاریخ میں بکثرت ملتے ہیں۔ گور کے سلاطین ملکی زبان اور ہلکی موسیقی، دونوں کے سرپرست تھے۔ چنانچہ بنگالی زبان کی قدیم شاعری نے تمام تر انہی کی سرپرستی میں نشو و نما پائی۔ مالوا کے باز بہادر (91) کو تو روپ متی کے عشق نے ہندی کا شاعر بھی بنا دیا تھا اور موسیقی کا ماہر بھی۔ آج تک مالوا کے گھروں سے اس کے دُہروں کی نوائین سنی جا سکتی ہیں۔

اکبر کی قدر شناسیوں سے اس فن کو جو عروج ملا اس کا حال عام طور پر معلوم ہے۔ ابو الفضل نے اُن تمام باکمالوں کا ذکر کیا ہے جو فتح پور اور آگرہ میں جمع ہو گئے تھے۔ ان میں بڑی تعداد مسلمانوں کی تھی۔ جہانگیر (92) نے اپنی توزک میں جابجا ایسے اشارے کیے ہیں جن سے اس کے ذاتی ذوق اور اشتعال کا ثبوت ملتا ہے۔ اس کی حسن پرست طبیعت کا لازمی تقاضہ یہی تھا کہ فنونِ لطیفہ کا قدر شناس ہو۔ چنانچہ شاعری، مصوری اور موسیقی تینوں کا دلدادہ اور اعلٰی درجہ کا کمال شناس تھا۔ اس کے دربار میں جس درجہ کے شاعر، مصور اور گویے جمع ہو گئے تھے، پھر ہندوستان کی تاریخ میں جمع ہونے والے نہ تھے۔ اس کے دربار کے ایک مصور نے الزبتھ (93) کے سفیر کو اپنا کمال دکھا کر حیران کر دیا تھا۔ اس کے شاعرانہ ذوق کے لیے اس کا یہ ایک شعر کفایت کرتا ہے :

453- ازمن متاب رخ کہ نیم بے تو یک نفس
یک دل شکستنِ تو بصد خوں برابر ست (94)​

اسی عہد میں یہ بات ہوئی کہ موسیقی کا فن بھی فنونِ دانشمندی میں داخل ہو گیا اور اس کی تحصیل کے بغیر تحصیل علم اور تکمیلِ تہذیب کا معاملہ ناقص سمجھا جانے لگا۔ اُمراء اور شرفاء کی اولاد کی تعلیم و تربیت کے لیے جس طرح تمام فنونِ مدارس کی تحصیل کا اہتمام کیا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 236

کرتا کہ اس خاموشی میں خلل نہ پڑے۔ اس لیے وہ بھی خاموش تھی، لیکن ہم دونوں کی یہ خاموشی بھی گویائی سے خالی نہ تھی۔ ہم دونوں خاموش رہ کر بھی ایک دوسرے کی باتیں سن رہے تھے اور ان کا مطلب اچھی طرح سمجھ رہے تھے۔ 3 اگست کو جب میں بمبئی کے لیے روانہ ہونے لگا تو وہ حسب معمول دروازہ تک خدا حافظ کہنے کے لیے ائی۔ میں نے کہا، اگر کوئی نیا واقعہ پیش نہیں آ گیا تو 13 اگست تک واپسی کا قصد ہے۔ اس نے خدا حافظ کے سوا کچھ نہیں کہا۔ لیکن اگر وہ کہنا بھی چاہتی تو اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتی تھی جو اس کے چہرہ کا خاموش اضطراب کہہ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں خشک تھیں مگر چہرہ اشکبار تھا۔

409- خود رابحیلہ پیشِ تو خاموش کردہ ایم! (5)​

گزشتہ پچیس برس کے اندر کتنے ہی سفر پیش آئے اور کتنی ہی مرتبہ گرفتاریاں ہوئیں لیکن میں نے اس درجہ افسردہ خاطر اسے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ کیا یہ جذبات کی وقتی کمزوری تھی جو اس کی طبیعت پر غالب آ گئی تھی؟ میں نے اُس وقت ایسا ہی خیال کیا تھا، لیکن اب سونچتا ہوں تو خیال ہوتا ہے کہ شاید اسے صورتِ حال کا ایک مجہول احساس ہونے لگا تھا۔ شاید وہ محسوس کر رہی تھی کہ اس زندگی میں یہ ہمارے آخری ملاقات ہے۔ وہ خدا حافظ اس لیے نہیں کہہ رہی تھی کہ میں سفر کر رہا تھا وہ اس لیے کہہ رہی تھی کہ خود سفر کرنے والی تھی۔

وہ میری طبیعت کی افتاد سے اچھی طرح واقف تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس طرح کے موقعوں پر اگر اس کی طرف سے ذرا بھی اضطراب طبع کا اظہار ہو گا تو مجھے سخت ناگوار گزرے گا اور عرصہ تک اس کی تلخی ہمارے تعلقات میں باقی رہے گی۔ 16ء میں جب پہلی مرتبہ گرفتاری پیش آئی تھی تو وہ اپنا اضطراب خاطر نہیں روک سکی تھی اور میں عرصہ تک اس سے ناخوش رہا تھا۔ اس واقعہ نے ہمیشہ کے لیے اس کی زندگی کا ڈھنگ پلٹ دیا اور اس نے پوری کوشش کی کہ میری زندگی کے حالات کا ساتھ دے۔ اس نے صرف ساتھ ہی نہیں دیا بلکہ پوری ہمت اور استقامت کے ساتھ ہر طرح کے ناخوشگوار حالات برداشت کیے۔ وہ دماغی حیثیت سے میرے افکار و عقائد میں شریک تھی اور عملی زندگی میں تفیق و مددگار۔ پھر کیا بات تھی کہ اس موقعہ پر وہ اپنی طبیعت کے اضطراب پر غالب نہ آ سکی؟ غالباً یہی بات تھی کہ اس کے اندرونی احساسات پر مستقبل کی پرچھائیں پڑنا شروع ہو گئی تھی۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 237

گرفتاری کے بعد کچھ عرصہ تک ہمیں عزیزوں سے خط و کتابت کا موقع نہیں دیا گیا تھا۔ پھر جب یہ روک ہٹا لی تو 17 ستمبر کو مجھے اس کا پہلا خط ملا اور اس کے بعد برابر خطوط ملتے رہے۔ چونکہ مجھے معلوم تھا کہ وہ اپنی بیماری کا حال لکھ کر مجھے پریشان خاطر کرنا پسند نہیں کرتے گی۔ اس لیے گھر کے بعض دوسرے عزیزوں سے حالت دریافت کرتا رہتا تھا۔ خطوط یہاں عموماً تاریخ کتابت سے دس بارہ دن بعد ملتے ہیں۔ اس لیے کوئی بات جلد معلوم نہیں ہو سکتی۔ 15 فروری کو مجھے ایک خط 2 فروری کا بھیجا ہوا ملا۔ جس میں لکھا تھا کہ اس کی طبیعت اچھی نہیں ہے۔ میں تار کے ذریعہ مزید صورت ھال دریافت کی تو ایک ہفتہ کے بعد جواب ملا کہ کوئی تشویش کی بات نہیں۔

23 مارچ کو مجھے پہلی اطلاع اس کی خطرناک علالت کی ملی۔ گورنمنٹ بمبئی نے ایک ٹیلی گرام کے ذریعہ سپرنٹنڈنٹ کو اطلاع دی کہ اس مضمون کا ایک ٹیلی گرام اسے کلکتہ سے ملا ہے۔ نہیں معلوم جو ٹیلیگرام گورنمنٹ بمبئی کو ملا وہ کس تاریخ کا تھا اور کتنے دنوں کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ مجھے یہ خبر پہنچا دینی چاہیے۔

چونکہ حکومت نے ہماری قید کا محل اپنی دانست میں پوشیدہ رکھا ہے، اس لیے ابتدا سے یہ طرز عمل اکتیار کیا گیا ہے کہ نہ تو یہاں سے کوئی ٹیلی گرام باہر بھیجا جا سکتا ہے۔ نہ باہر سے کوئی آ سکتا ہے۔ کیونکہ اگر آئے گا تو ٹیلی گراف آفس ہی کے ذریعہ آئے گا اور اس صورت میں آفس کے لوگوں پر راز کھل جائے گا۔ اس پابندی کا نتیجہ یہ ہے کہ کوئی بات کتنی ہی جلدی کی ہو، لیکن تار کے ذریعہ نہیں بھیجی جا سکتی۔ اگر تار بھیجنا ہو تو اسے لکھ کر سپرنٹنڈنٹ کو دے دینا چاہیے۔ وہ اسے خط کے ذریعہ بمبئی بھیجے گا۔ وہاں سے احتساب کے بعد اسے آگے روانہ کیا جا سکتا ہے۔ خط و کتابت کی نگرانی کے لحاظ سے یہاں قیدیوں کی دو قسمیں کر دی گئی ہیں۔ بعض کے لیے صرف بمبئی کی نگرانی کافی سمجھی گئی ہے۔ بعض کے لیے ضروری ہے کہ ان کی تمام ڈاک دہلی جائے اور جب تک وہاں سے منظوری نہ مل جائے، آگے نہ بڑھائی جائے۔ چونکہ میری ڈاک دوسری قسم میں داخل ہے، اس لیے مجھے کوئی تار ایک ہفتہ سے پہلے نہیں مل سکتا اور نہ میرا کوئی تار ایک ہفتہ سے پہلے کلکتہ پہنچ سکتا ہے۔

یہ تار جو 23 مارچ کو یہاں پہنچا، فوجی خط رمز (Code) میں لکھا گیا تھا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 238

سپرنٹنڈنٹ اسے حل نہیں کر سکتا تھا۔ وہ فوجی ہیڈ کوارٹر میں لے گیا۔ وہاں اتفاقاً کوئی آدمی موجود نہ تھا۔ اس لیے پورا دن اس کے حل کرنے کی کوشش میں نکل گیا۔ رات کو مجھے اس کی حل شدہ کاپی مل سکی۔

دوسرے دن اخبارات آئے تو ان میں بھی یہ معاملہ آ چکا تھا۔ معلوم ہوا ڈاکٹروں نے صورت ھال کی حکومت کو اطلاع دے دی ہے۔ اور جواب کے منتظر ہے۔ پھر بیماری کے متعلق معالجوں کی روزانہ کی اطلاعات نکلنے لگیں۔ سپرنٹنڈنٹ روز ریڈیو میں سُنتا تھا اور یہاں بعض رفقاء سے اس کا ذکر کر دیتا تھا۔

جس دن تار ملا اس کے دوسرے دن سپرنٹنڈنٹ میرے پاس آیا اور یہ کہا کہ اگر میں اس بارے میں حکومت سے کچھ کہنا چاہتا ہوں تو وہ اسے فوراً بمبئی بھیج دے گا اور یہاں کی پابندیوں اور مقررہ قاعدوں سے اس میں کوئی رکاوٹ نہیں پڑے گی۔ وہ صورت حال سے بہت متاثر تھا اور اپنی ہمدردی کا یقین دلانا چاہتا تھا لیکن میں نے اسے صاف صاف کہہ دیا کہ میں حکومت سے کوئی درخواست کرنی نہیں چاہتا۔ پھر وہ جواہر لال کے پاس گیا اور ان سے اس بارے میں گفتگو کی۔ وہ سہ پہر کو میرے پاس آئے اور بہت دیر تک اس بارے میں گفتگو کرتے رہے۔ میں نے ان سے بھی وہی بات کہہ دی جو سپرنٹنڈنٹ سے کہہ چکا تھا۔ بعد کو معلوم ہوا کہ سپرنٹنڈنٹ نے یہ بات حکومت بمبئی کے ایماء سے کہی تھی۔

جونہی خطرناک صورتِ حال کی پہلی خبر ملی؛ میں نے اپنے دل کو ٹٹولنا شروع کر دیا۔ انسان کے نفس کا بھی کچھ عجیب حال ہے۔ ساری عمر ہم اس کی دیکھ بھال میں بسر کر دیتے ہیں پھر بھی یہ معمہ حل نہیں ہوتا۔ میری زندگی ابتداء سے ایسے حالات میں گزری کہ طبیعت کو ضبط و انقیاد میں لانے کے متواتر موقعے پیش آتے رہے اور جہاں تک ممکن تھا ان سے کام لینے میں کوتاہی نہیں کی۔

410- تادستر سم بود، زدم چاک گریباں
شرمندگی از خرقہ پشمینہ ندارم (6)​

تاہم میں نے محسوس کیا کہ طبیعت کا سکون ہل گیا ہے اور اسے قابو میں رکھنے کے لیے جد و جہد کرنی پڑے گی۔ یہ جد و جہد دماغ کو نہیں مگر جسم کو تھکا دیتی ہے۔ وہ اندر ہی اندر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 239

گھلنے لگتا ہے۔

اس زمانے میں میرے دل و دماغ کا جو حال رہا، میں اسے چھپانا نہیں چاہتا میری کوشش تھی کہ اس صورت ھال کو پورے صبر و سکون کے ساتھ برداشت کر لوں۔ اس میں میرا ظاہر کامیاب ہوا لیکن شاید باطن نہ ہو سکا۔ میں نے محسوس کیا کہ اب دماغ بناوٹ اور نمائش کا وہی پارٹ کھیلنے لگا ہے، جو احساسات اور انفعالات کے ہر گوشہ میں ہم ہمیشہ کھیلا کرتے ہیں اور اپنے ظاہر کو باطن کی طرح نہیں بننے دیتے۔

سب سے پہلی کوشش یہ کرنی پڑی کہ یہاں زندگی کی جو روزانہ معمولات ٹھہرائی جا چکی ہیں، ان میں فرق آنے نہ پائے۔ چائے اور کھانے کے چار وقت ہیں جن میں مجھے اپنے کمرے سے نکلنا اور کمروں کی قطار کے آخری کمرہ میں جانا پڑتا ہے۔ چونکہ زندگی کی معمولات میں وقت کی پابندی کا منٹوں کے حساب سے عادی ہو گیا ہوں، اس لیے یہاں بھی اوقات کی پابندی کی رسم قائم ہو گئی اور تمام ساتھیوں کو اس کا ساتھ دینا پڑا۔ میں نے ان دنوں میں بھی اپنا معمول بدستور رکھا۔ ٹھیک وقت پر کمرہ سے نکلتا رہا اور کھانے کی میز پر بیٹھتا رہا۔ بھوک یک قلم بند ہو چکی ہے لیکن میں چند لقمے حلق سے اتارتا رہا۔ رات کے کھانے کے بعد کچھ دیر صحن میں چند ساتھیوں کے ساتھ نشست رہا کرتی تھی۔ اس میں بھی کوئی فرق نہیں آیا۔ جتنی دیر تک وہاں بیٹھتا تھا، جس طرح باتیں کرتا اور جس قسم کی باتیں کرتا تھا، وہ سب کچھ بدستور ہوتا رہا۔

اخبارات یہاں بارہ سے ایک بجے کے اندر آیا کرتے ہیں۔ میرے کمرے کے سامنے دوسری طرف سپرنٹنڈنٹ کا دفتر ہے۔ جیلر وہاں سے اخبار لے کر سیدھا میرے کمرے میں آتا ہے۔ جونہی اس کے دفتر سے نکلنے اور چلنے کی آہٹ آنا شروع ہوتی تھی، دل دھڑکنے لگتا تھا کہ نہیں معلوم آج کیسی کبر اخبار میں ملے گی، لیکن پھر فوراً چونک اٹھتا۔ میرے صوفے کی پیٹھ دروازہ کی طرف ہے۔ اس لیے جب تک ایک آدمی اندر آ کے سامنے کھڑا نہ ہو جائے، میرا چہرہ دیکھ نہیں سکتا۔ جب جیلر آتا تھا تو میں حسبِ معمول مسکراتے ہوئے اشارہ کرتا کہ اخبار ٹیبل پر رکھ دے اور پھر لکھنے میں مشغول ہو جاتا۔ گویا اخبار دیکھنے کی کوئی جلدی نہیں۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ یہ تمام ظاہر داریاں دکھاوے کا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 240

ایک پارٹ تھیں جسے دماغ کا مغرورانہ احساس کھیلتا رہتا تھا اور اس لیے کھیلتا تھا کہ کہیں اس کے دامن صبر و قرار پر بے ھالی اور پریشان خاطری کا کوئی دھبہ نہ لگ جائے۔

411- بدہ یارب دلے، کیں صورتِ بے جاں نمی خواہم (7)​

بالآخر 9 اپریل کو زہر غم کا یہ پیالہ لبریز ہو گیا۔

412- فانّ مالحذرین، قد وقع! (8)

دو بجے سپرنٹنڈنٹ نے گورنمنٹ بمبئی کا ایک تار حوالہ کیا۔ جس میں حادثہ کی خبر دی گئی تھی۔ بعد کو معلوم ہوا کہ سپرنٹنڈنٹ کو یہ خبر ریڈیو کے ذریعہ صبح ہی معلوم ہو گئی تھی اور اس نے یہاں بعض رفقاء سے اس کا ذکر بھی کر دیا تھا لیکن مجھے اطلاع نہیں دی گئی۔ اس تمام عرصہ میں یہاں کے رفقاء کا جو طرز عمل رہا اس کے لیے میں ان کا شکر گزرا ہوں۔ ابتداء میں جب علالت کی خبریں آنا شروع ہوئیں تو قدرتی طور پر انہیں پریشانی ہوئی۔ وہ چاہتے تھے کہ اس کے بارے میں جو کچھ کر سکتے ہیں کریں، لیکن جونہی معلوم ہو گیا کہ میں نے اپنے طرز عمل کا ایک فیصلہ کر لیا ہے اور میں حکومت سے کوئی درخواست کرنا پسند نہیں کرتا، تو پھر سب نے خاموشی اختیار کر لی اور اس طرح میرے طریق کار میں کسی طرح کی مداخلت نہیں ہوئی۔

اس طرح ہمارے چھتیس (9) برس کی ازدواجی زندگی ختم ہو گئی اور موت کی دیوار ہم دونوں میں حائل ہو گئی۔ ہم اب بھی ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں، مگر اسی دیوار کی اوٹ سے۔

مجھے اِن چند دِنوں کے اندر برسوں کی راہ چلنی پڑی ہے۔ میرے عزم نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا، مگر میں محسوس کرتا ہوں کہ میرے پاؤں شل ہو گئے ہیں۔

413- غافل نیم زراہ، ولے آہ چارہ نیست
زیں راہزناں کہ بردل آگاہ می زنند (10)​

یہاں احاطہ کے اندر ایک پورانی قبر ہے۔ نہیں معلوم کس کی ہے جب سے آیا ہوں سینکڑوں مرتبہ اس پر نظر پڑ چکی ہے۔ لیکن اس اسے دیکھتا ہوں تو ایسا محسوس ہونے لگتا ہے جیسے ایک نئے طرح کا اُنس اس سے طبیعت کو پیدا ہو گیا ہے۔ کل شام کو دیر تک اسے دیکھتا رہا۔ اور متمم بن نویرہ (11) کا مرثیہ جو اس نے اپنے بھائی مالک کی موت پر لکھا تھا، بے اختیار
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 241

یاد آ گیا۔

414- لقد لا منی عِند القُبُورِ علی البُکا
رفیقی لتلراف الدموع السوافک
فقال اتبکی کل قبرِ رایتہ
لِقبرِ ثویٰ بین اللوی فالد کادِک
فقلت لہ ان الشجا یبعث الشجا
ردعنی، فھذا کُلہ قبر مالک (12)​

اب قلم روکتا ہوں۔ اگر آپ سنتے ہوتے تو بول اٹھتے۔

سودا خدا کے واسطے کر قصہ مختصر
اپنی تو نیند اڑ گئی تیرے فسانے میں (13)​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 242

(22)

قلعہ احمد نگر
14 جون 1943ء

صدیق مکرم

415- حسب حالے نہ نوشتیم و سدایا مے چند
قاصدے کُو کہ فرتم بتو پیغامے چند (1)​

گزشتہ سال جب ہم یہاں لائے گئے تھے، تو برسات کا موسم تھا۔ وہ دیکھتے دیکھتے گزر گیا اور جاڑے کی راتیں شروع ہو گئیں۔ پھر جاڑے نے بھی رختِ سفر باندھا اور گرمی اپنا ساز و سامان پھیلانے لگی۔ اب پھر موسم کی گردش اسی نقطہ پر پہنچ رہی ہے جہاں سے چلی تھی۔ گرمی رخصت ہو رہی ہے اور بادلوں کے قافلے ہر طرف سے امنڈنے لگے ہیں۔ دنیا میں اتنی تبدیلیاں ہو چکی، مگر اپنے دل کو دیکھتا ہوں تو ایک دوسرا ہی عالم دکھائی دیتا ہے؛ جیسے اس نگری میں کبھی موسم بدلتا ہی نہیں۔ سرمد کی رباعی کتنی پامال ہو چکی ہے پھر بھی بھلائی نہیں جا سکتی۔

416- سرما بگوشت وایں دلِ زار ہماں
گرما بگزشت دایں دلِ زار ہماں
القصّہ تمام سرود گرمِ عالم
برما بگوشت وایں دلِ زار ہماں (2)​

یہاں احاطہ کے شمالہ گوشہ میں ایک نیم کا درخت ہے۔ کُچھ دن ہوئے، ایک وارڈر (3) نے اس کی ایک ٹہنی کاٹ دالی تھی اور جڑ کے پاس پھینک دی تھی۔ اب بارش ہوئی تو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 243

تمام میدان سرسبز ہونے لگا۔ نیم کی شاخوں نے بھی زرد چیتھڑے اُتار کر بہار و شادابی کا نیا جوڑا پہن لیا۔ جس ٹہنی کو دیکھو، ہرے ہرے پتوں اور سفید سفید پھولوں سے لد رہی ہے۔ لیکن اس کٹی ہوئی ٹہنی کو دیکھیے تو گویا اس کے لیے کوئی انقلابِ حال ہوا ہی نہیں۔ ویسی ہی سُوکھی کی سُوکھی پڑی ہے اور زبانِ حال سے کہہ رہی ہے۔

417- ہمچو ماہی غیر داعّم پوششِ دیگر نبود
تاکفن آمد، ہمیں یک جامہ برتن داشتم (4)​

یہ بھی اسی درخت کی ایک شاخ ہے، جسے برسات نے آتے ہی زندگی اور شادابی کا نیا جوڑا پہنا دیا۔ یہ بھی آج دوسرے ٹہنیوں کی طرح بہار کا استقبال کرتی، مگر اب اسے دنیا اور دنیا کے موسمی انقلابوں سے کوئی سروکار نہ رہا۔ بہار و خزاں، گرمی و سردی، خشکی و طراوت سب اس کے لیے یکساں ہو ئے۔

کل دوپہر کو اس طرف سے گزر رہا تھا کہ یکایک اس شاخِ بریدہ سے پاؤں ٹکرا گیا۔ میں رک گیا اور اسے دیکھنے لگا۔ بے اختیار شاعر کی حسنِ تعلیل یاد آ گئی۔

418 - قطعِ امید کردہ نہ خوہد نعیم دہر
شاخِ بریدہ را نظرے بر بہار نیست (5)​

میں سونچنے لگا کہ انسان کے دل کی سرزین کا بھی یہی حال ہے۔ اس باغ میں بھی امید و طلب کے بے شمار درخت اگتے ہیں اور بہار کی آمد آمد کی راہ تکتے رہتے ہیں۔ لیکن جن ٹہنیوں کی جڑ کٹ گئی ان کے لیے بہار و خزاں کی تبدیلیاں کوئی اثر نہیں رکھتیں۔ کوئی موسم بھی انہیں شادابی کا پیام نہیں پہنچا سکتا۔

خزاں کیا، فصلِ گُل کہتے ہیں کس کو، کوئی موسم ہو
وہی ہم ہیں، قفس ہے اور ماتم بال و پر کا ہے (6)​

موسمی پھولوں کے جو درخت یہاں اکتوبر میں لگائے تھے انہوں نے اپریل کے آخر تک دن نکالے، مگر پھر انہیں جگہ خالی کرنی پڑی۔ مئی میں یہ خیال ہوا کہ بارش کے موسم کی تیاریاں شروع کر دینی چاہئیں۔ چنانچہ نئے سرے سے تختوں کی درستگی ہوئی۔ نئے بیج منگوائے گئے اور اب نئے پودے لگ رہے ہیں۔ چند دنوں میں نئے پھولوں سے نیا چمن
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 244

آراستہ ہو جائے گا۔ یہ سب کچھ ہو رہا ہے مگر میرے سامنے رہ رہ کر ایک دوسری ہی بات آ رہی ہے۔ سونچتا ہوں کہ دنیا کا باغ اپنی گل شگفتگیوں میں کتنا تنگ واقع ہوا ہے۔ جب تک ایک موسم کے پھول مرجھا نہیں جاتے، دوسرے موسم کے پُھول کھلتے نہیں۔ گویا قدرت کو جتنا خزانہ لٹانا تھا، لُٹا چکی، اب اسی میں ادل بدل ہوتا رہتا ہے۔ ایک جگہ کا سامان اٹھایا، دوسری جگہ سجا دیا، مگر نئی پونجی یہاں مل سکتی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قدسی کو پھولوں کا کھلنا پسند نہیں آیا تھا۔ اسے اندیشہ ہوا تھا کہ اگر باغ پھول کھلے گا تو اس دل کی کلی بند کی بند رہ جائے گی۔

219- عیشِ ایں باغ بہ اندازہ یک تنگدل ست
کاش گل غنچہ شود تادلِ ما بکشاید (7)​

غور کیجیے تو یہاں کی ہر بناوٹ کسی نہ کسی بگاڑ ہی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یا یوں کہیے کہ یہاں کا ہر بگاڑ دراصل ایک نئی بناوٹ ہے۔

بگڑنے میں بھی زلف اس کی بنا کی (8)

میدانوں میں گڑھے پڑ جاتے ہیں مگر اینٹوں کا پژاوہ بھر جاتا ہے۔ درختوں پر آریاں چلنے لگتی ہیں مگر جہاز بن کر تیار ہو جاتے ہیں۔ سونے کی کانیں خالی ہو گئیں لیکن مُلک کا خزانہ دیکھیے تو اشرفیوں سے بھرپور ہو رہا ہے۔ مزدور نے اپنا پسینہ سر سے پاؤں (9) تک بہا دیا مگر سرمایہ دار کی راحت و عیش کا سروسامان درست ہو گیا۔ ہم مالن کی جھولی بھری دیکھ کر خوش ہونے لگتے ہیں مگر ہمیں یہ خیال نہیں آتا کسی کے باغ کی کیاری اُجڑی ہو گی جبھی تو یہ جھولی معمور ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ جب عرفی نے اپنے دامن میں پُھول دیکھے تھے تو بے اختیار چیخ اٹھا تھا :

420- زمانہ گلشنِ عیشِ کرابہ یغما داد؟
کل گُل بہ دامنِ ما دستہ دستہ می آید (10)​

اکتوبر سے اپریل تک موسمی پھولوں کی کیاریاں ہماری دلچسپیوں کا مرکز رہیں۔ صبح و شام کئی کئی گھنٹے ان کی رکھوالی میں سرف کر دیتے تھے، مگر موسم کا پلٹنا تھا کہ ان کی حالت نے بھی پلٹا کھایا اور پھر وہ وقت آ گیا کہ ان کی رکھوالی کرنا ایک طرف، کوئی اس کا بھی روادار
 
Top