غم نیا تھا تو نیا عہدِ وفا رکھنا تھا

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
غم نیا تھا تو نیا عہدِ وفا رکھنا تھا
حوصلہ غم سے بہرحال سوا رکھنا تھا

کیسے اُس پر میں مقدر کی سیاہی رکھتا
جس ہتھیلی پہ مجھے رنگِ حنا رکھنا تھا

ایسا کیا ڈر تھا بھلا تیز ہوا سے لوگو!
بجھ گئیں شمعیں تو آنکھوں کو کُھلا رکھنا تھا

ہم نہ خوشبو تھے ، نہ آواز ، نہ بادل کوئی
پھر ہواؤں سے تعلق بھلا کیا رکھنا تھا

اس قدر بھی تو نہیں رکھتے زمیں کو بنجر
دل کے ویرانے میں اک نخلِ انا رکھنا تھا

ظہیراحمدظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۰

ٹیگ: فاتح سید عاطف علی محمد تابش صدیقی کاشف اختر
 
Top