"غم دل کے سفینے میں چھپا رکھا ہے" اساتذہ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے، شکریہ :)

غم دل کے سفینے میں چھپا رکھا ہے
دل ہم نے قرینے سے سجا رکھا ہے

-

رہ پوچھے، ذرا ٹھہرے مسافر کوئی
گھر ہم نے زمانے میں کھلا رکھا ہے

-

لَو ہے ہی نہیں اب کے ذرا دیکھو تو
کہنے کو دیا سب نے جلا رکھا ہے

-

کھویا تھا جسے ہم نے ترے پہلو میں
دل اب بھی ترے دل سے لگا رکھا ہے

-

کچھ تھا ہی نہیں گھر میں کہ ہم بھی دیتے
جو تھا وہ لٹا نا تھا، لٹا رکھا ہے

-

کہنے کو بہت کم ہیں ستم کے مارے
سر پے تو جہاں سب نے اٹھا رکھا ہے

-

بچھڑا ہے تو سب سے وہ کہے جاتا ہے
ہم نے تو اُسے کب سے بھلا رکھا ہے

-

صحرا میں اذانوں کا تسلسل جو ہے
دریا ہے، فقیروں نے بہا رکھا ہے

-

کچھ ہے تو خدائی کا بھرم ہے محسؔن
اب ہم نے نبھانے کو خدا رکھا ہے

-

محسؔن احمد
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے اور اچھی مترنم بحر کا انتخاب کیا ہے۔
مطلع کے دونوں مصرعوں میں کچھ بے ربطی محسوس ہورہی ہے۔ اسے بدل دیں۔
اسی طرح
گھر ہم نے زمانے میں کھلا رکھا ہے
میں زمانہ کا استعمال کچھ درست نہیں لگ رہا۔
اس وجہ سے گھر اپنا۔۔
اس وجہ سے گھر ہم نے۔۔۔
یوں ہی تو نہ گھر ہم نے کھلا۔۔۔
کچھ متبادل۔ مجھے آخر والا زیادہ پسند ہے۔
اور یہ بھی
سر پے تو جہاں۔۔۔
جہاں ’سر پر‘ آ سکے، وہاں ’سر پہ‘ ( پے تو غلط املا ہے ہی) استعمالکرنا اچھا نہیں لگتا۔ یہاں ’سر پر‘ درست ہو گا۔
 
اچھی غزل ہے اور اچھی مترنم بحر کا انتخاب کیا ہے۔
مطلع کے دونوں مصرعوں میں کچھ بے ربطی محسوس ہورہی ہے۔ اسے بدل دیں۔
اسی طرح
گھر ہم نے زمانے میں کھلا رکھا ہے
میں زمانہ کا استعمال کچھ درست نہیں لگ رہا۔
اس وجہ سے گھر اپنا۔۔
اس وجہ سے گھر ہم نے۔۔۔
یوں ہی تو نہ گھر ہم نے کھلا۔۔۔
کچھ متبادل۔ مجھے آخر والا زیادہ پسند ہے۔
اور یہ بھی
سر پے تو جہاں۔۔۔
جہاں ’سر پر‘ آ سکے، وہاں ’سر پہ‘ ( پے تو غلط املا ہے ہی) استعمالکرنا اچھا نہیں لگتا۔ یہاں ’سر پر‘ درست ہو گا۔

سر حوصلہ افزائی کا بے حد شکریہ۔ جن باتوں کی طرف آپ نے اشارہ کیا ، میں ان پر کچھ کام کر کے دوبارہ حاضر ہوتا ہوں۔
 
سر مطلع کے لیے کچھ خاص نہیں مل رہا مجھے۔
مطلع اگر کچھ یوں ہو تو کیسا رہے گا ؟

دل ہم نے سبھی پر ہی کھُلا رکھا ہے
اُس پر یہ ستم سب نے دُکھا رکھا ہے

دوسرا آپ نے جو زمانے کی طرف اشارہ کیا۔ اگر اسے کچھ یوں کر دوں تو کیسا رہے گا
رہ پوچھے، ذرا ٹھہرے مسافر کوئی
گھر ہم نے ہمیشہ ہی کھلا رکھا ہے
(وگرنہ آپ نے جو کہا کہ
"یوں ہی تو نہ گھر ہم نے کھلا رکھا ہے "
بھی اچھا لگا مجھے)

اور مزید آپ نے "سر پے" کی طرف اشارہ کیا ، اسے ہم "سر پر" ہی کیے دیتے ہیں۔
کہنے کو بہت کم ہیں ستم کے مارے
سر پر تو جہاں سب نے اٹھا رکھا ہے
(میں نے بعض مقامات پر "پے" کو استعمال ہوتے پایا تھا، اس لیے میں نے استعمال کر لیا)

آپ کی مزید رائے کا انتظار رہے گا مجھے۔
:) :) :) :) :)
 

الف عین

لائبریرین
یہ والا مطلع تو اچھا نہیں۔ اس سے تو وہی سفینے والا اچھا ہے۔ اسی کو رکھو۔
یوں ہی تو۔۔۔ والا مصرع رکھنا ہو تو آخر میں استمراری نشان ! ضرور دو
’پے‘ شاید فیس بک کے شعراء کرام بالا مقام نے جائز رکھ دیا ہو گا۔
 
تو پھر میں اُسی کو ہی رہنے دیتا ہوں۔
آج آپ سے مزید کچھ باتیں سیکھنے کو ملیں۔ میں آئندہ کوشش کروں گا کہ ان سب باتوں کا خیال رکھوں۔
آپ کا نہایت شکر گزار ہوں۔
انشا اللہ جلد حاضر ہوں گا۔
:) :) :)
 
Top