محسن احمد محسن
محفلین
غم دل کے سفینے میں چھپا رکھا ہے
دل ہم نے قرینے سے سجا رکھا ہے
-
رہ پوچھے، ذرا ٹھہرے مسافر کوئی
گھر ہم نے زمانے میں کھلا رکھا ہے
-
لَو ہے ہی نہیں اب کے ذرا دیکھو تو
کہنے کو دیا سب نے جلا رکھا ہے
-
کھویا تھا جسے ہم نے ترے پہلو میں
دل اب بھی ترے دل سے لگا رکھا ہے
-
کچھ تھا ہی نہیں گھر میں کہ ہم بھی دیتے
جو تھا وہ لٹا نا تھا، لٹا رکھا ہے
-
کہنے کو بہت کم ہیں ستم کے مارے
سر پے تو جہاں سب نے اٹھا رکھا ہے
-
بچھڑا ہے تو سب سے وہ کہے جاتا ہے
ہم نے تو اُسے کب سے بھلا رکھا ہے
-
صحرا میں اذانوں کا تسلسل جو ہے
دریا ہے، فقیروں نے بہا رکھا ہے
-
کچھ ہے تو خدائی کا بھرم ہے محسؔن
اب ہم نے نبھانے کو خدا رکھا ہے
-
محسؔن احمد
دل ہم نے قرینے سے سجا رکھا ہے
-
رہ پوچھے، ذرا ٹھہرے مسافر کوئی
گھر ہم نے زمانے میں کھلا رکھا ہے
-
لَو ہے ہی نہیں اب کے ذرا دیکھو تو
کہنے کو دیا سب نے جلا رکھا ہے
-
کھویا تھا جسے ہم نے ترے پہلو میں
دل اب بھی ترے دل سے لگا رکھا ہے
-
کچھ تھا ہی نہیں گھر میں کہ ہم بھی دیتے
جو تھا وہ لٹا نا تھا، لٹا رکھا ہے
-
کہنے کو بہت کم ہیں ستم کے مارے
سر پے تو جہاں سب نے اٹھا رکھا ہے
-
بچھڑا ہے تو سب سے وہ کہے جاتا ہے
ہم نے تو اُسے کب سے بھلا رکھا ہے
-
صحرا میں اذانوں کا تسلسل جو ہے
دریا ہے، فقیروں نے بہا رکھا ہے
-
کچھ ہے تو خدائی کا بھرم ہے محسؔن
اب ہم نے نبھانے کو خدا رکھا ہے
-
محسؔن احمد