غم حسین علیہ السلام پر اشعار

سیما علی

لائبریرین
السلام اے لحد اقدس و اعلائے حسین ؑ مہبط نور خدا طور تجلائے حسین

مرکز دائرہ دیں شرف کون و مکاں قبلہ عالمیاں منزل و ماوائے حسین

لوح قرآن مبین آئینہ صدق و صفا ذوالعطا عرش خدا خاک شفاوائے حسین

عرش سے آکے ملک ہوتے ہیں مجلس میں شریک اے خوشا مرتبہ بزم معلائے حسین

یہی بخش کا وسیلہ ہے یہی راہ نجات فرض ہے امت احمد پہ تو لائے حسین

کون سی چشم ہے جاری نہیں جس سے آنسو کونسا دل ہے کہ جس دل میں نہیں جائے حسین

مالک نور تھے دنیا میں صدا مثل علی ؑ پارہ نان و نمک تھا من و سلوائے حسین
 

سیما علی

لائبریرین
رونے میں اختیار نہیں بے پدر ہوں میں
دل کو مرے نہ توڑو کہ خستہ جگر ہوں میں

امیدوار موت کی آٹھوں پہر ہوں میں
گر شام کو بچی تو چراغ سحر ہوں میں

ماتم ہے غیر کا کہ تمہارے رسولؐ کا
پر تم کو نا گوار ہے رونا بتولؑ کا

سب کے نبیؐ کا سوگ ہے کُل کے نبیؐ کا غم
یہ بھی نصیب اپنا کہ الزام پائیں ہم

یہ کیا سمجھ کے منہ سے نکالا کہ روؤ کم
بے رونقی رسولؐ کے ماتم کی ہے ستم

بے جا تمہاری یہ خفگی ہے میں روؤں گی
کچھ ہو مری تو جی کو لگی ہے میں روؤں گی

حیدر کا اس بیان سے ٹکڑے ہوا جگر
بیت الحزن بنایا بقیعہ میں جلد تر

لکھا ہے ہاتھ تھام کے بیٹوں کا ہر سحر
واں جا کے رویا کرتی تھی دن بھر وہ بے پدر

ہنگام شام حیدر کرار جاتے تھے
روح نبیؐ کی دے کے قسم ان کو لاتے تھے

اک دن نگاہ کرتے ہیں کیا شاہ لا فتا
مطبخ ہے گرم آرد جو ہے گندھا ہوا

نہلا رہی ہیں بچوں کو مل مل کے دست و پا
پھیلا دیے ہیں گرتے بھی دھو کر جدا جدا

پوچھا کہ اتنے کاموں کا جو شغل آج ہے
اس وقت کچھ بحال تمہارا مزاج ہے
 

سیما علی

لائبریرین
سب سے اونچاہے جو کٹ کر وہ سر کس کاہے؟
لٹ کر آبا د ہے جو اب تک وہ گھر کس کا ہے

ظلم شبیر کی ہیبت سے نہ لرزے کیونکر
کس نبی کا نواسہ ہے پسر کس کا ہے؟
 

سیما علی

لائبریرین
کربلا ایک تزلزل ہے محیط دوراں
کربلا خرمن سرمایہ پہ ہے برق تپاں
کربلا طبل پہ ہے ضربت آواز اذاں
کربلا جرأت انکار ہے پیش سلطاں
فکر حق سوز یہاں کاشت نہیں کر سکتی
کربلا تاج کو برداشت نہیں کر سکتی
جب تک اس خاک پہ باقی ہے وجود اشرار
دوش انساں پہ ہے جب تک حشمِ تخت کابار
جب تک اقدار سے اغراض ہیں گرم پیکار
کربلاہاتھ سے پھینکے گی نہ ہر گز تلوار
کوئی کہہ دے یہ حکومت کے نگہبانوں سے
کربلا اک ابدی جنگ ہے سلطانوں سے
 

سیما علی

لائبریرین
سردار جعفری کی ایک نظم کے یہ مصرعے ملاحظہ کیجئے ؎
پھر العطش کی ہے صدا
جیسے رجز کا زمزمہ
پھر ریگ صحرا پررواں
نہر فرات آتش بجاں
راوی و گنگاخوں چکاں
کوئی یزید وقت ہو
یاشمر ہو یا حرملہ
اس کو خبر ہو یا نہ ہو
روز حساب آنے کو ہے
نزدیک ہے روز جزا
اے کربلا
اے کربلا
 

سیما علی

لائبریرین
وہ مشرقی پکار ہو یا مغربی صدا
مظلومیت کے ساز پہ دونوں ہیں ہم نوا

محور بنا ہے ایک جنوب و شمال کا
تفریق رنگ و نسل پہ عالب ہے کربلا

تسکین روح، سایہ آہ و بکا میں ہے
ہر صاحب شعور کا دل کربلا میں ہے

شاعر کسی خیال کا ہو یا کوئی ادیب
واعظ کسی دیار کا ہو یا کوئی خطیب

تاریخ تولتا ہے جہاں کوئی خوش نصیب
اس طرح بات کرتا ہے احساس کا نقیب

دیکھو تو سلسلہ ادب مشرقین کا
دنیا کی ہر زبان پہ ہے قبضہ حسین کا
 

سیما علی

لائبریرین
شبیر کربلا کی حکومت کا تاجدار
کامل امام، دوشِ نبوت کا شہ سوار
ہے جس کی ٹھوکروں میں خدائی کا اقتدار
جس کے گداگروں میں دنیا کے تاجدار

جو میرِ کاروانِ مودت ہے وہ حسین
جو مرکزِ نگاہِ مشیت ہے وہ حسین
جو رازِدارِ کنزِ حقیقت ہے وہ حسین
جو تاجدارِ ملکِ شریعت ہے وہ حسین
 

فاخر رضا

محفلین
آنکھوں کے ساحلوں پہ ہے اشکوں کا اک ہجوم
شاید غم حسین کا موسم قریب ہے

ستائیس رجب کو امام حسین علیہ السلام کا مدینہ سے سفر شروع ہوا
 

سیما علی

لائبریرین
آنکھوں کے ساحلوں پہ ہے اشکوں کا اک ہجوم
شاید غم حسین کا موسم قریب ہے

ستائیس رجب کو امام حسین علیہ السلام کا مدینہ سے سفر شروع ہوا

اے کربلا کی خاک تو اس احسان کو نہ بھول
تڑپی ہے تجھ پر لاش جگر گوشہ بتول

مظلوم کے لہو سے تیری پیاس بجھ گئی
سیراب کر گیا تجھے خون ِ رگِ رسول
 

سیما علی

لائبریرین
حسینؑ ذکر ترا گام گام کرتے ہوئے
گزر رہے ہیں زمانے سلام کرتے ہوئے

حسینؑ آپ نے سجدوں کو زندگی بخشی
بس ایک سجدہِ آ خر تمام کرتے ہوئے

اٹھا کے پرچمِ عباسؑ ہم علیؑ والے
چلے ہیں فکرِ حسینی کو عام کرتے ہوئے

چلےہیں جانب مقتل برائے دین نبی
حسین ؑ تیغِ علیؑ بے نیام کرتے ہوئے

منافقین علیؑ کو علیؑ کی لخت جگر
سبق سکھا گئی طے راہ شام کرتے ہوئے

اسے شجیعِ عرب تک رہے ہیں حیرت سے
جو مسکرا دیا حجت تمام کرتے ہوئے

اسے خبر تھی غریبوں پہ شام بھاری ہے
بہت اداس تھا سورج بھی شام کرتے ہوئے

زمین کیوں نہ پھٹی جس گھڑی چلے ظالم
ردائے فاطمہ زہراؑ کو عام کرتے ہوئے

چلیں جو دخترِ شبیر ؑ ڈھونڈنے زینبؑ
ملی وہ لاشہ شہہ سے کلام کرتے ہوئے

لحد سے حشر تلک یوں سفر کرو کاشف
غمِ حسینؑ میں ماتم مدام کرتے ہوئے

کاشف حیدر کاشف حیدر رضوی ، شکاگو،
 

سیما علی

لائبریرین
آں امام عاشقاں پسر بتولؑ
سرو آزادی زبستان رسولؐ
علامہ اقبال
سانحہ کربلا کی شاعرانہ اور عاشقانہ تفسیر سے پہلے امام حسینؑ کی مدح میں رطب اللسان ہوتے ہیں۔ ”وہ عاشقوں کا امام، فاطمہؑ کے فرزند ، رسول اکرام ﷺکے باغ کا سروِ آزاد ہے۔
امام حسینؑ وہ ہستی ہیں جن کے لئے جناب خاتم المرسلین ﷺکے دوش مبارک بطورِ سواری پیش ہواکرتے تھے۔
 

سیما علی

لائبریرین
خورشیدِ ضیاءبارِ امامت ہیں حسینؑ
اِک دولتِ بیدارِ شریعت ہیں حسینؑ

دنیا میں حُسینیت کی روشنی پھیلی ہے
وہ شمعِ پُر انوارِ شہادت ہیں حسین علیہ السلام

صبا اکبر آبادی
 

اکمل زیدی

محفلین
نام پر اسلام کے جو ہمیں ہوا عطا
گر پو چھیے مطلب ملک خداداد کا
ہر ایک یہ کہے گا کہ لا الہ الا للہ
لا الہ کے پڑھنے والے کیا تجھے نہیں پتا

ان ہی دنوں میں لٹ گیا زہراہ کا چین
لا الہ بھی کہہ رہا ہے یا حسین یا حسین
 

سیما علی

لائبریرین
یہی تو شان ہے سبطِ رسول ہونے کی
دعائے بخششِ امت، جوابِ بے ادبی

نہیں ہے کوئی ذریعہ صبا، حسین تو ہیں
بڑا سبب ہے زمانہ میں اپنی بے سببی

صبا اکبر آبادی
 

سیما علی

لائبریرین
زینب کی دعا ہے کہ اے رب ذوالجلال
بچ جائے اس فساد سے خیر النسا کا لال
بانو ئے نیک نام کی کھیتی ہری رہے
صندل سے مانگ بچوں سے گودی بھری رہے

میر انیس
 
Top