اکبر الہ آبادی غمِ فراق کا صدمہ اُٹھا نہیں سکتا - اکبر الہ آبادی

کاشفی

محفلین
غزل
(اکبر الہ آبادی)
غمِ فراق کا صدمہ اُٹھا نہیں سکتا
اب اپنی جاں میں اے جاں بچا نہیں سکتا
کسی کو رنگِ محبت دکھا نہیں سکتا
جو دل میں ہے وہ زباں پر میں لا نہیں سکتا
حیائے حُسن اُنہیں ہے، حجابِ عشق مجھے
غرض وہ آ نہیں سکتے، میں جا نہیں سکتا
یہ کہہ کے اُٹھ گئے ہنگام نزع سے رفیق
یہ راہ وہ ہے کوئی ساتھ جا نہیں سکتا
لگا لے سینے سے یا قتل کر مجھے ظالم
ترے قدم سے میں اب سر اُٹھا نہیں سکتا
تمہیں ملو تو ملو، ورنہ اور سے کیا کام
میں اپنے دل کو کہیں اب لگا نہیں سکتا
نظر لگائے ہیں دل پر ہر اک طرف سے حسیں
کسی طرح سے میں پہلو بچا نہیں سکتا
گذر چکا ہے مرا کام ضبط سے اکبر
میں رازِ عشق اب اپنا چھپا نہیں سکتا
 
Top