چلے جو مخالف کوئی میرے ہمراہ
تو احباب میرے کہیں مجھ کو شتّاہ

سنو میرے احباب اک بات میری
مناسب ہے مل کر چلیں جب ہو یکراہ

یہ طعنہ زنی تم جو کرتے ہو مجھ پر
تمہارے لیے کب بنا ہوں میں سرواہ

بہت غم سہے شب کی تاریکیوں میں
اُمید سحر میں ہے جینے کی اُتساہ

بہت ہیں زمانے کے غم میرے در پے
وہ چنچل بھی اب کر رہی مجھ کو گمراہ

وہ کہتی کہ میں تیرے در پے نہیں ہوں
چلو مان لیتے ہیں کہ ہے یہ افواہ

میں اپنے علاقے کا تنہا سپاہی
وہ اپنے نگر کی خطرناک روباہ

گزارش ہے مطرب سے عاکف کی بس اک
کہ شب بھر اے مطرب سنا مجھ کو رتواہ
ارسلان احمد عاکف
 
عزیزی ارسلان عاکف صاحب، آداب!
محفل میں خوش آمدید ۔۔۔ تعارف کے زمرے میں اپنا تعارف کروائیں اگر ابھی تک نہیں کروایا۔ تعارف کے زمرے کا ربط ذیل میں ہے
تعارف و انٹرویو

آپ کی غزل میں ایک آدھ جگہ کے علاوہ بحر و اوزان کی خامی تو محسوس نہیں ہوئی ۔۔۔ تاہم مجھے ایسا لگا کہ آپ نے دانستہ مشکل گوئی کی کوشش کی ہے۔ محض مشکل الفاظ اور قافیے بحر میں بٹھا دینے سے کلام مرصع نہیں ہوتا، معنویت پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔
مطلع کو ہی دیکھ لیجیے ۔۔۔ مخالف کے ساتھ چلنے سے شتاہی کیونکر لازم آگئی؟ گویا بیچ میں کوئی طویل داستان ہے، جس کا ذکر موجود نہیں ۔۔۔ مگس کو باغ میں جانے نہ دیجیو ۔۔۔ والا معاملہ لگتا ہے۔

سنو میرے احباب اک بات میری
مناسب ہے مل کر چلیں جب ہو یکراہ
دونوں مصرعوں کی بندش چست کی جا سکتی ہے ۔۔۔ مثلاً
مرے دوستو، مان لو بات میری
مناسب ہے مل کر چلو، جب ہو یک راہ

بہت غم سہے شب کی تاریکیوں میں
اُمید سحر میں ہے جینے کی اُتساہ
یہاں امید اور اتساہ ایک ہی معنی میں آ رہے ہیں ۔۔۔

یہ طعنہ زنی تم جو کرتے ہو مجھ پر
تمہارے لیے کب بنا ہوں میں سرواہ
پہلے مصرعے میں جو کے بجائے کیوں زیادہ برمحل رہے گا۔۔۔
یہ طعنہ زنی مجھ پہ کرتے ہو کیوں تم
تمہارے لیے ۔۔۔ الخ

بہت ہیں زمانے کے غم میرے در پے
وہ چنچل بھی اب کر رہی مجھ کو گمراہ
در اور پے کے درمیان فاصلہ رکھیں گے تو مطلب کچھ کا کچھ ہو جائے گا ۔۔۔ آپ یہاں در پہ کہنا چاہ رہے ہیں یا درپئے؟
دوسرے مصرعے میں کر رہی کے بعد ہے کی کمی ہے۔

وہ کہتی کہ میں تیرے در پے نہیں ہوں
چلو مان لیتے ہیں کہ ہے یہ افواہ
یہاں بھی در پہ اور درپئے کے درمیان اشتباہ ہے ۔۔۔ اگر درپئے کہنا چاہ رہے ہیں تو وزن کا مسئلہ ہو گا (یہی مسئلہ اوپر والے شعر میں یہی مشکل ہے)

میں اپنے علاقے کا تنہا سپاہی
وہ اپنے نگر کی خطرناک روباہ
پھر؟؟؟؟ آپ اپنے علاقے میں، وہ اپنی نگری میں ۔۔۔ دونوں کا آمنا سامنا ہی نہیں ہو رہا تو پھر شعر میں دلچسپی والی بات کیا ہے؟

گزارش ہے مطرب سے عاکف کی بس اک
کہ شب بھر اے مطرب سنا مجھ کو رتواہ
دونوں مصرعوں میں مطرب کی تکرار اچھی نہیں لگتی ۔۔۔ اور شعر میں کوئی خاص معنی بھی نظر نہیں آتے۔
 

الف عین

لائبریرین
لغت کے بغیر تو میں اسے سمجھ نہین سکتا!
مجھے ہوری غزل خواہ مخواہ کا تکلف لگ رہی ہے، جیسے کسی کو دکھانے کے لئے کہی گئی ہے کہ
دیکھو اس طرح سے کہتے ہیں سخنور سہرا
 
Top