غزل - ( 2024 - 11 - 23 )

غزل پیش ِخدمت ہے۔محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے-
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

زندگی کی تلخیوں میں اس پہ یوں آیا شباب
جس طرح مرجھا گیا ہو ادھ کھلا کوئی گلاب

فکرِ فردا میں پریشاں نو جواں ہیں اس طرح
اُڑ گئی ہے نیند ان کی کس طرح دیکھیں وہ خواب

لکھ رہی تقدیر ہے ہر دن فسانہ اک نیا
ہم سبھی کردار ہیں اور زندگی ہے اک کتاب

امر ہو جائیں گے دونوں قیس و لیلٰی کی طرح
ہم کتابِ عشق میں لکھ کر سنہرا ایک باب

علم کی ہو روشنی کو دیکھنا تو دیکھ لو
آسمانِ علم پر مغرب میں روشن آفتاب

کیا زمانے کے مفکر کا تعارف ہے یہی؟
سُرخ آنکھیں، بال بکھرے اور ہاتھوں میں شراب​
 
آخری تدوین:

اربش علی

محفلین
آخری تدوین:
امر کے م پر فتحہ ہے۔
اور امر ہونے کا اشارہ شاعر کی طرف ہے تو لفظ "دونوں" کا یہاں محل نہیں۔
قیسِ مجنوں کی طرح اک دن امر ہو جائیں گے
کیسا رہے گا؟
بہت شکریہ جناب اربش علی صاحب! آپ کی اصلاح اور تجویز کا شکریہ۔ میں نے دوبارہ کوشش کی ہے الفاظ کی ترتیب بدل کر:

قیس و لیلٰی کی طرح دونوں امَر ہو جائیں گے
ہم کتابِ عشق میں لکھ کر سنہرا ایک باب​
 

اربش علی

محفلین
بہت شکریہ جناب اربش علی صاحب! آپ کی اصلاح اور تجویز کا شکریہ۔ میں نے دوبارہ کوشش کی ہے الفاظ کی ترتیب بدل کر:

قیس و لیلیٰ کی طرح دونوں امَر ہو جائیں گے
ہم کتابِ عشق میں لکھ کر سنہرا ایک باب​
تو گویا یہاں دونوں سے مراد محب اور محبوب ہیں؟
اور یہاں اس لیے بھی تشویش ہوئی کہ اگر دونوں کا اشارہ شاعر اور محبوب کی طرف ہے، تو پہلے مصرعے میں دونوں کے لفظ کے بعد اگلے مصرعے میں "ہم" لانا مصرعین کو دو لخت کر رہا ہے۔ ہم اور دونوں ایک ساتھ آنے چاہییں۔
 
تو گویا یہاں دونوں سے مراد محب اور محبوب ہیں؟
اور یہاں اس لیے بھی تشویش ہوئی کہ اگر دونوں کا اشارہ شاعر اور محبوب کی طرف ہے، تو پہلے مصرعے میں دونوں کے لفظ کے بعد اگلے مصرعے میں "ہم" لانا مصرعین کو دو لخت کر رہا ہے۔ ہم اور دونوں ایک ساتھ آنے چاہییں۔
قیس و لیلٰی کی طرح دونوں امَر ہو جائیں گے
جب کتابِ عشق میں لکھیں گے زریں ایک باب​
 
جانب اربش علی صاحب! ان میں سے کون سا شعر بہتر ہوگا؟

قیس و لیلیٰ کی طرح اک دن امَر ہو جائیں گے
ہم کتابِ عشق میں لکھ کر سنہرا ایک باب
یا
قیس و لیلٰی کی طرح دونوں امَر ہو جائیں گے
جب کتابِ عشق میں لکھیں گے زریں ایک باب​
 

اربش علی

محفلین
قیس و لیلٰی کی طرح دونوں امَر ہو جائیں گے
جب کتابِ عشق میں لکھیں گے زریں ایک باب​
یہاں ایک مسئلہ مجھے یہ لگ رہا ہے کہ "سنہری باب لکھ جانا" ایک محاورہ ہے، مگر یہاں "جب" اور "لکھیں گے" نے اسے ایک مسلسل فعل بنا دیا ہے جس کا نتیجہ امر ہو جانا ہے۔ جب کہ سنہری باب لکھنے کا عمل استمراری یا جاری نہیں ہوتا، اور نہ یہ کسی اور عمل کے متوازی چلتا ہے۔جب کوئی شخص ایک کارِ نمایاں کر جائے،تب اس کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ایک زریں باب لکھ گیا ہے۔
 

اربش علی

محفلین
جانب اربش علی صاحب! ان میں سے کون سا شعر بہتر ہوگا؟

قیس و لیلیٰ کی طرح اک دن امَر ہو جائیں گے
ہم کتابِ عشق میں لکھ کر سنہرا ایک باب
یا
قیس و لیلٰی کی طرح دونوں امَر ہو جائیں گے
جب کتابِ عشق میں لکھیں گے زریں ایک باب​
پہلا شعر۔
 

الف عین

لائبریرین
ان دونوں میں تو پہلا شعر ہی بہتر ہے، کہ ہم دونوں قیس و لیلی کی طرح مشہور ہو جائیں گے۔ لیکن یہاں ایک غلطی یہ محسوس ہوتی ہے کہ "ہم" دونوں کے لئے استعمال ہو رہا ہے، شاعر اور محبوب کے لئے بھی اور کتاب عشق کے مصنفین کے طور پر بھی (ویسے اپنے بارے میں تو ہر شخص تعریفوں کے قلابے ہی ملائے گا، دوسرے تاریخ عشق لکھیں تو اک بات ہے۔اگر کچھ اور سمجھ میں نہ آئے تو چلنے دو۔
باقی غزل بھی دیکھتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
لکھ رہی تقدیر ہے ہر دن فسانہ اک نیا
ہم سبھی کردار ہیں اور زندگی ہے اک کتاب
اربش میاں کی اصلاح بھی پسند نہیں آئی۔ افسانۂ دیگرچیزے دیگرے است!
ہر نئے دن اک نیا افسانہ لکھتا ہےنصیب
کیسا رہے گا؟ یہ یاد رکھو کہ نثر سے جتنا قریب ہو گا مصرع، اتنا رواں ہوتا ہے۔ "ہے لکھ رہی" کی جگہ لکھ رہی ہے بہتر نہیں لگتا؟
علم کی ہو روشنی کو دیکھنا تو دیکھ لو
آسمانِ علم پر مغرب میں روشن آفتاب
نور دانش بھی علم کی ہو.... سے بہتر تو ہےلیکن دوسرا مصرع مجھے عجیب لگا. سورج ہمیشہ
مغرب میں تو نہیں رہتا! اور مغرب مین سورج تو زوال کی علامت ہوتی ہے!
اس شعر کو نکالنا ہی بہتر ہے
 
لکھ رہی تقدیر ہے ہر دن فسانہ اک نیا
ہم سبھی کردار ہیں اور زندگی ہے اک کتاب

اربش میاں کی اصلاح بھی پسند نہیں آئی۔ افسانۂ دیگرچیزے دیگرے است!
ہر نئے دن اک نیا افسانہ لکھتا ہےنصیب
کیسا رہے گا؟ یہ یاد رکھو کہ نثر سے جتنا قریب ہو گا مصرع، اتنا رواں ہوتا ہے۔ "ہے لکھ رہی" کی جگہ لکھ رہی ہے بہتر نہیں لگتا؟
استادِ محترم جناب الف عین صاحب! آپ کی تجویز بہتر ہے۔
ہر نئے دن اک نیا افسانہ لکھتا ہےنصیب
ہم سبھی کردار ہیں اور زندگی ہے اک کتاب
علم کی ہو روشنی کو دیکھنا تو دیکھ لو
آسمانِ علم پر مغرب میں روشن آفتاب

نور دانش بھی علم کی ہو.... سے بہتر تو ہےلیکن دوسرا مصرع مجھے عجیب لگا. سورج ہمیشہ
مغرب میں تو نہیں رہتا! اور مغرب مین سورج تو زوال کی علامت ہوتی ہے!
اس شعر کو نکالنا ہی بہتر ہے
جناب اربش علی صاحب کی تجویز اور آپ کی رائےکے مطابق
نورِ دانش آج ہو گر دیکھنا تو دیکھ لو
آسمانِ علم پر مغرب میں روشن آفتاب
آج اگر علم کی روشنی کو دیکھنا ہو تو مغربی دنیا میں علم کےآسمان پر چمکتا سورج دیکھ لو۔
ہاں کل کو یہ سورج مشرق میں بھی ہو سکتا ہے ۔
 
Top