غزل - (2024-03-08)

غزل پیش ِخدمت ہے۔ اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

جو اپنے تھے خفا ہونے لگے ہیں
دلوں سے دل جُدا ہونے لگے ہیں

ستم سہ کر جو اب تک با وفا تھے
وہ کیسے بے وفا ہونے لگے ہیں

بھروسہ دوستوں پر ٹوٹنے سے
دلوں میں غم سوا ہونے لگے ہیں

زباں جلتی تھی جن کو بولنے سے
وہ جملے بھی ادا ہونے لگے ہیں

ذرا سی بات پر لوگوں کے اب تو
رویے ناروا ہونے لگے ہیں

جو مسند پر ہیں وہ کٹھ پتلیاں ہیں
یہ چرچے جا بجا ہونے لگے ہیں

بہت سے واقعے اب اس جہاں میں
سمجھ سے ماورا ہونے لگے ہیں

بھُلا بیٹھیں گے اپنی چال کو بھی
وہ کوے جو ہُما ہونے لگے ہیں

جو سیدھے راستے پر چل رہے تھے
کجی میں مبتلا ہو نے لگے ہیں

گھٹن سے بھاگ کر ڈوبے نشے میں
وہ کیا تھے اور کیا ہونے لگے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
غزل پیش ِخدمت ہے۔ اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

جو اپنے تھے خفا ہونے لگے ہیں
دلوں سے دل جُدا ہونے لگے ہیں
درست

ستم سہ کر جو اب تک با وفا تھے
وہ کیسے بے وفا ہونے لگے ہیں
پہلے مصرع کی ترتیب بدلو تو واضح لگے
جو اب تک با وفا تھے، ظلم سہہ کر

بھروسہ دوستوں پر ٹوٹنے سے
دلوں میں غم سوا ہونے لگے ہیں
ٹھیک

زباں جلتی تھی جن کو بولنے سے
وہ جملے بھی ادا ہونے لگے ہیں
جملے کی جگہ اگر الفاظ لائیں تو!
وہ الفاظ اب...
وہی الفاظ ادا....
ذرا سی بات پر لوگوں کے اب تو
رویے ناروا ہونے لگے ہیں

جو مسند پر ہیں وہ کٹھ پتلیاں ہیں
یہ چرچے جا بجا ہونے لگے ہیں

بہت سے واقعے اب اس جہاں میں
سمجھ سے ماورا ہونے لگے ہیں
اوپر کے سارے درست ہی لگ رہے ہیں

بھُلا بیٹھیں گے اپنی چال کو بھی
وہ کوے جو ہُما ہونے لگے ہیں
محاورہ تو ہنس کی چال کا ہے! ہما تو ویسے ہی فرضی پرندہ ہے، اس کی چال کا کیا معلوم؟

جو سیدھے راستے پر چل رہے تھے
کجی میں مبتلا ہو نے لگے ہیں
تھیک

گھٹن سے بھاگ کر ڈوبے نشے میں
وہ کیا تھے اور کیا ہونے لگے ہیں
واضح نہیں، گھٹن میں رہنا اختیاری تو نہیں جو کہا جائے کہ وہ کیا تھا؟
 
ستم سہ کر جو اب تک با وفا تھے
وہ کیسے بے وفا ہونے لگے ہیں

پہلے مصرع کی ترتیب بدلو تو واضح لگے
جو اب تک با وفا تھے، ظلم سہہ کر
شکریہ سر الف عین صاحب! آپ کی تجویز پر
جو اب تک با وفا تھے، ظلم سہہ کر
وہ کیسے بے وفا ہونے لگے ہیں
زباں جلتی تھی جن کو بولنے سے
وہ جملے بھی ادا ہونے لگے ہیں

جملے کی جگہ اگر الفاظ لائیں تو!
وہ الفاظ اب...
وہی الفاظ ادا....
سر درست تو واقعی الفاظ ہی ہے۔ لیکن روانی نہیں بن رہی۔
بھُلا بیٹھیں گے اپنی چال کو بھی
وہ کوے جو ہُما ہونے لگے ہیں

محاورہ تو ہنس کی چال کا ہے! ہما تو ویسے ہی فرضی پرندہ ہے، اس کی چال کا کیا معلوم؟
اگر یہ نہیں چل سکتا تو نکال دیتے ہیں۔
اس کی جگہ ایک اور شعر موزوں ہوا ہے مہربانی فرما کر اس پر بھی رائے سے نوازیں۔
محبت نے جنہیں باندھا ہوا تھا
وہ قیدی بھی رہا ہونے لگے ہیں
یا
وہ قیدی اب رہا ہونے لگے ہیں
گھٹن سے بھاگ کر ڈوبے نشے میں
وہ کیا تھے اور کیا ہونے لگے ہیں
واضح نہیں، گھٹن میں رہنا اختیاری تو نہیں جو کہا جائے کہ وہ کیا تھا؟
سر! گھٹن میں رہنا اختیاری نہیں لیکن گھٹن کی وجہ سے نشے میں ڈوبنا اختیاری ہے۔ اور نشے میں ڈوبنے سے ہی وہ کیاتھے اور کیا ہونے لگے ہیں
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
غزل پیش ِخدمت ہے۔ اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے:
@الف عین ، @ظہیراحمدظہیر ، @سید عاطف علی ، @محمد احسن سمیع راحلؔ ، @یاسر شاہ​
بھائی ، اصلاح کے لیے مجھے ٹیگ کرنے کا شکریہ۔ صورتحال یہ ہے کہ اپنی مصروفیات کی وجہ سے مجھے یہاں آنے کا موقع کم ہی ملتا ہے اور وقت کی کمی کے باعث صرف چند چیزیں ہی دیکھ پاتا ہوں۔ لکھنے کے لیے جو ذہنی یکسوئی اور فرصت درکار ہوتی ہے وہ بھی کم ہی میسر آتی ہے۔ خیر ، جو میسر ہے وہ غنیمت ہے ۔
ایک اور بات یہ ہے کہ آپ نے اپنی پچھلی غزل میں مجھ سے کچھ سوالات پوچھے تھے۔ میں نے وقت نکال کر بہت محنت سے ان کے مفصل جوابات تحریر کیے تھے اور بات کو وضاحت کے ساتھ سمجھایا تھا۔ جب میں تنقید و تبصرہ لکھتا ہوں تو جواباً مجھے کسی شکریے کی توقع نہیں ہوتی کہ میں یہ کام بے غرض ہو کر کرتا ہوں لیکن آپ نے تو ان جوابات کو پڑھ کر رسید دینے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ جس طرح کسی بھی فن یا ہنر کو سیکھنے کے کچھ آداب ہوتے ہیں اسی طرح اردو شاعری میں اصلاح لینے کے بھی آداب ہیں بلکہ اس ضمن میں ایک پورا تہذیبی ورثہ موجود ہے۔ کاش آپ اس تہذیب و تاریخ سے واقف ہوتے۔
اردو کوئی زباں نہیں ، تہذیب ہے جناب
اردو۔ کو۔۔ زندگی۔ کا ۔سلیقہ ۔۔بنائیے
میری ناقص رائے میں ان صدیوں پرانی شعری و ادبی روایات کی پاسداری کی جائے تو تعلیم و تعلم اور تربیت کے لیے ایک بہت ہی سازگار اور فائدہ مند ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے معاشرے کے دن بدن رو بہ زوال ہونے کی ایک بڑی وجہ ان تہذیبی اور اخلاقی اقدار کی پائمالی بھی ہے۔ میرے نزدیک بڑا شاعر ، بڑا ادیب ، بڑا ڈاکٹر ، سائنسدان ، انجینئر یا کوئی بھی بڑا ماہرِ فن ہونا اہم بات نہیں ہے۔ سب سے اہم بات بڑا انسان ہونا ہے۔ اور بڑا انسان اپنے اچھے اخلاق اور باہمی عزت و احترام سے بنتا ہے۔ میں اکثر یہاں محفل میں اس سلسلے میں اپنے اس موقف اور مشن کا پرچار کرتا رہتا ہوں۔
شاید کہ کسی دل میں اتر جائے مری بات!
دل آزاری قطعی میرا مسلک نہیں۔ لیکن بندہ بشر ہوں ، خطا کا پتلا ہوں۔ بھائی ، میری کوئی بات اگر گراں گزری ہو تو میں آپ سے پیشگی درگزر اور معافی کا خواستگار ہوں۔
 
سر ظہیراحمدظہیر صاحب! آپ کے سمجھانے کے انداز میں طالب علم کے لیے علم کے خزانے کے ساتھ ہلکی پھلکی خفگی میں جو محبت اور شفقت چھُپی ہوتی ہے اسے نظر انداز کرنا گناہِ کبیرہ سے کم نہیں۔ آپ جیسے شفیق استاد کا ناراض ہونا کم از کم یہ طالب علم afford نہیں کرسکتا۔ آپ کا سابقہ مراسلہ میں نے بہت غور سے پڑھا تھا لیکن رسید نہ دینے کی غلطی سہواً ہوگئی۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس سے درگذر فرماتے ہوئے اپنی محبت سے نوازتے رہیں-
 
ستم سہ کر جو اب تک با وفا تھے
وہ کیسے بے وفا ہونے لگے ہیں
پہلے مصرع کی ترتیب بدلو تو واضح لگے
جو اب تک با وفا تھے، ظلم سہہ کر
شکریہ سر !آپ کی تجویز پر
جو اب تک با وفا تھے، ظلم سہہ کر
وہ کیسے بے وفا ہونے لگے ہیں
زباں جلتی تھی جن کو بولنے سے
وہ جملے بھی ادا ہونے لگے ہیں
جملے کی جگہ اگر الفاظ لائیں تو!
وہ الفاظ اب...
وہی الفاظ ادا....
مزید نمائش کے لیے کلک کریں۔۔۔
سر درست تو واقعی الفاظ ہی ہے۔ لیکن روانی نہیں بن رہی۔
بھُلا بیٹھیں گے اپنی چال کو بھی
وہ کوے جو ہُما ہونے لگے ہیں
محاورہ تو ہنس کی چال کا ہے! ہما تو ویسے ہی فرضی پرندہ ہے، اس کی چال کا کیا معلوم؟
اگر یہ نہیں چل سکتا تو نکال دیتے ہیں۔
اس کی جگہ ایک اور شعر موزوں ہوا ہے مہربانی فرما کر اس پر بھی رائے سے نوازیں۔
محبت نے جنہیں باندھا ہوا تھا
وہ قیدی بھی رہا ہونے لگے ہیں
یا
وہ قیدی اب رہا ہونے لگے ہیں
گھٹن سے بھاگ کر ڈوبے نشے میں
وہ کیا تھے اور کیا ہونے لگے ہیں
واضح نہیں، گھٹن میں رہنا اختیاری تو نہیں جو کہا جائے کہ وہ کیا تھا؟
سر! گھٹن میں رہنا اختیاری نہیں لیکن گھٹن کی وجہ سے نشے میں ڈوبنا اختیاری ہے۔ اور نشے میں ڈوبنے سے ہی وہ کیاتھے اور کیا ہونے لگے ہیں
سر الف عین صاحب! نظرثانی کی درخواست ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
محبت نے جنہیں باندھا ہوا تھا
وہ قیدی بھی رہا ہونے لگے ہیں
واضح نہیں ہو رہا،
گھٹن میں رہنا اختیاری نہیں لیکن گھٹن کی وجہ سے نشے میں ڈوبنا اختیاری ہے۔
گھٹن سے بچنے کے لئے تو بھاگ کھڑا ہونا چاہیے تھا، یہ کیا کہ وہیں پینے بیٹھ گئے!
جملے والا شعر واقعی نکالنا بہتر ہو گا۔
باقی درست ہو گئے ہیں اشعار
 
سر الف عین صاحب! نظر ثانی کی درخواست ہے۔
محبت نے جنہیں باندھا ہوا تھا
وہ قیدی بھی رہا ہونے لگے ہیں

واضح نہیں ہو رہا،
اسیرانِ محبت تیرے شر سے
اسیری سے رہا ہونے لگے ہیں
گھٹن سے بچنے کے لئے تو بھاگ کھڑا ہونا چاہیے تھا، یہ کیا کہ وہیں پینے بیٹھ گئے!
سر ! شعر میں گھٹن سے بھاگ کر نشے میں ڈوبنا ہے۔
گھٹن سے بھاگ کر ڈوبے نشے میں
وہ کیا تھے اور کیا ہونے لگے ہیں

 

الف عین

لائبریرین
سر الف عین صاحب! نظر ثانی کی درخواست ہے۔

اسیرانِ محبت تیرے شر سے
اسیری سے رہا ہونے لگے ہیں
شاید ترتیب الٹی کر دینے سے واضح تر ہو
ترے شر سے ایران محبت
سر ! شعر میں گھٹن سے بھاگ کر نشے میں ڈوبنا ہے۔
گھٹن سے بھاگ کر ڈوبے نشے میں
وہ کیا تھے اور کیا ہونے لگے ہیں

یہ میری ناقص عقل میں کسی طرح نہیں گھس رہا!
 
اسیرانِ محبت تیرے شر سے
اسیری سے رہا ہونے لگے ہیں
شاید ترتیب الٹی کر دینے سے واضح تر ہو
ترے شر سے ایران محبت
درست ہوگیا سر!
گھٹن سے بھاگ کر ڈوبے نشے میں
وہ کیا تھے اور کیا ہونے لگے ہیں

یہ میری ناقص عقل میں کسی طرح نہیں گھس رہا!
سر!اگر ایسا ہے تو پھر نکال دیتے ہیں
 
Top