غزل ۔ وقت سے وقت کی کیا شکایت کریں، وقت ہی نہ رہا وقت کی بات ہے

محمداحمد

لائبریرین
غزل

وقت سے وقت کی کیا شکایت کریں، وقت ہی نہ رہا وقت کی بات ہے
اُس نے دیکھا مجھے، اُس نے چاہا مجھے، اُس نے ٹھکرا دیا، وقت کی بات ہے

کوئی مشکل پڑی، کوئی کام آگیا، زہن میں اُس کے جو میرا نام آگیا
بعد مدّت کے وہ دوستوں کی طرح ہم سے ہنس کر ملا وقت کی بات ہے

زندگی ہم سے انجان تو ہو گئی، ایک رشتے کی پہچان تو ہو گئی
کوئی چاہت نہ تھی بس مروّت تھی وہ، خود کو سمجھا لیا وقت کی بات ہے

اپنا رنگِ محبت ہے سب سے جدا، کوئی پوچھے تو راشد کہوں اور کیا
جس کو پایا نہیں اُس کو کھو کر بھی میں کیوں اُسی کا رہا وقت کی بات ہے




گذارش: یہ غزل میری پڑھی ہوئی نہیں بلکہ سُنی ہوئی ہے اور میری پسندیدہ غزل ہے (جبھی آپ اِسے یہاں دیکھ رہے ہیں) آج صبح جانے کیوں یاد آئی سو یہاں ارسال کی ہے۔ اسی وجہ سے شاعر کا نام تخلص سے زیادہ نہیں معلوم۔ اگر کسی دوست کو معلوم ہو تو وہ لکھ دے .
 

ایم اے راجا

محفلین
واقعی بڑی بات ہیکہ آپ کو اتنی لمبی بحر کی غزل یاد ہے کون سی دوا لیتے ہیں حافظہ بڑھانے کی ہمیں تو شام تک دوپہر کا کھانا بھی یا د نہیں رہتا ( مزاق)
 

محمداحمد

لائبریرین
خوب ہے۔ آپ کی یاد داشت کی داد دیتے ہیں کہ اتنی غزل آپ کو یاد ہے۔

آصف صاحب

انتخاب آپ کو پسند آیا اچھا لگا۔ یہ غزل دراصل کسی ہندوستانی گلوکار نے گائی ہے اور اسے میں نے بارہا سنا ہے اس لیے یاد ہوگئی ورنہ ہماری یادداشت بھی کسی "چھلنی" سے کم نہیں‌ ہے۔ :)
 
Top