سیماب اکبر آبادی غزل ۔ لیجیے دل کی نہ مانی اُٹھ چلے محفل سے ہم - سیماب اکبر آبادی

غزل
لیجیے دل کی نہ مانی اُٹھ چلے محفل سے ہم
یہ نہ سوچا آپ نے، دِل ہم سے ہے یا دِل سے ہم

اب نہ دل مانوُس ہے ہم سے ، نہ خوش ہیں دل سے ہم
یہ کہاں کا روگ لے آئے تری محفل سے ہم

اپنے دل کی محفلِ وِیراں سجانے کے لئے
اک نئی تصوِیر لے آتے ہیں ہر محفِل سے ہم

ہائے وہ ہر سُو نگاہی، وہ جنوں، وہ شورشیں
بے دلی یہ تو بتا پھر کب مِلیں گے دل سے ہم

دل کے ٹکڑے، خاک پروانوں کی، آنسو شمع کے
کچھ نہ کچھ لے کر اُٹھیں گے آپ کی محفل سے ہم

غور کرنا ہے مآلِ شامِ محفِل پر ہمیں
چھان کر لائے ہیں کچھ، خاکسترِ محفل سے ہم

دیکھیے اس خانۂ وِیرانی کا کیا انجام ہو
اپنی دنیا لے کے نکلے ہیں کسی کے دِل سا ہم

بانئ محفل سلامت تیرا جبر و اِختیار
آج خالی ہاتھ اُٹھتے ہیں تری محفِل سے ہم

دل میں حسرت، آنکھ میں حیرت، نظر میں محوِیت
ایک محفِل لے کے اٹھّے ہیں تری محفِل سے ہم

آؤ ڈھونڈیں پھر کہیں کھوئے ہُوئے جلوے کلِیم
طوُر سے تم روشنی پھینکو، سوادِ دل سے ہم

دیکھنا سیمابؔ جنت میں ہماری نازشیں
پھر اُسی محفل میں ہیں نِکلے تھے جس محفِل سے ہم

ہیں کہاں سیماب، گہرائی کے موتی دستیاب
کچھ صدف پارے ہیں، جو چُن لائے ہیں ساحل سے ہم
علامہ سیماب اکبر آبادی
 
Top