غزل ۔ راہ میں مرے آگے جب وہ خوبرو آئے۔ از کاشف اختر

کاشف اختر

لائبریرین
راہ میں مرے آگے جب وہ خوبرو آئے
دست میں لئے خنجر گویا کہ عدو آئے

قیس یا کہ لیلی ہو ہیر ہو کہ رانجھا ہو
حال پر مرے سب کی چشم سے لہو آئے

جان لے اگر واعظ ، رمز جرات رندی
لے کے کاسہ میخانے بہر جستجو آئے

تاحیات ہم اس کی راہ یوں رہے تکتے
کاش وہ دم رخصت بہر گفتگو آئے

شیخ ِکعبہ رندوں سے بڑھ کے بے ادب نکلے
میکدے میں جو تنہا آپ بے وضو آئے

اتنی بات کی خاطرمیرے غم کی شہرت ہے
بہر پرسش احوال کاش وہ عدو آئے

توڑ کر خم و ساغر، منتظر ہوں اب تیرا
ساقیا! مری توبہ توڑنے کو تو آئے

مانگئے ہی اب کیوں کر تاب ضبط غم کاشف
اشک ہی وہ آخر کیا جوکہ بے لہو آئے
 
Top