غزل - یہ بھی نہیں کہ دستِ دعا تک نہیں گیا - فیصل عجمی

محمد وارث صاحب کی توجہ درکار ہے

ﺗَﻠﺦ ﺍﺗﻨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﭘﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﺯَﺑﺎﮞ ﺟﻠﺘﯽ ﺗﮭﯽ
ﺯِﻧﺪﮔﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻣِﻼ ﻟﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ

کہا جاتا ہے کہ یہ شعر فیصل عجمی کا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو پوری غزل اور حوالہ اگر میسر ہو؟ بہت نوازش۔

منیر انور
 

واسطی خٹک

محفلین
ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﻼﯾﺎ، ﮐﺒﮭﯽ ﯾﺎﺩ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﺍﺱ ﮐﻮ
ﯾﮧ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻟﯿﺎ

ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺲ ﮐﻮ ﭘﮑﺎﺭﺍ ﮔﻠﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮯ ﻣﺠﮭﮯ
ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﻧﺎﻡ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻟﯿﺎ

فیصل عجمی
 

واسطی خٹک

محفلین
ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﮧ ﻳﮧ ﺩﻧﻴﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﺳﻮﺍ ﮐﺮ ﺩﮮ
ﺗﻮ ﻣﻴﺮﮮ ﺟﺴﻢ ﻣﻴﺮﯼ ﺭﻭﺡ ﮐﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﮮ

ﮐﺲ ﻗﺪﺭ ﭨﻮﭦ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﻣﻴﺮﯼ ﻭﺣﺪﺕ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ
ﺍﮮ ﻣﻴﺮﯼ ﻭﺣﺪﺗﻮﮞ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻳﮑﺠﺎ ﮐﺮ ﺩﮮ

ﻳﮧ ﺟﻮ ﺣﺎﻟﺖ ﮨﮯ ﻣﻴﺮﯼ ﻣﻴﮟ ﻧﮯ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ
ﺟﻴﺴﺎ ﺗﻮ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﺏ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﻳﺴﺎ ﮐﺮ ﺩﮮ

ﻣﻴﺮﮮ ﮨﺮ ﻓﻴﺼﻠﮯ ﻣﻴﮟ ﺗﻴﺮﯼ ﺭﺿﺎ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮ
ﺟﻮ ﺗﻴﺮﺍ ﺣﮑﻢ ﮨﻮ ﻭﮦ ﻣﻴﺮﺍ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﮐﺮ ﺩﮮ

ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﻭﮦ ﻋﻠﻢ ﺳﮑﮭﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺍﺟﺎﻟﮯ ﭘﮭﻴﻠﮯ
ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺍﺳﻢ ﭘﮍﮬﺎ ﺟﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺯﻧﺪﮦ ﮐﺮ ﺩﮮ

فیصل عجمی
 

واسطی خٹک

محفلین
اس کو جانے دے اگر جاتا ہے
زہر کم ہو تو اتر جاتا ہے

پیڑ دیمک کی پذیرائی میں
دیکھتے دیکھتے مر جاتا ہے

ایک لمحے کا سفر ہے دنیا
اور پھر وقت ٹھہر جاتا ہے

چند خوشیوں کو باہم کرنے میں
آدمی کتنا بکھر جاتا ہے

فیصل عجمی
 

واسطی خٹک

محفلین
دکھ نہیں ہے کہ جل رہا ہوں میں
روشنی میں بدل رہا ہوں میں

ٹوٹتا ہے تو ٹوٹ جانے دو
آئنے سے نکل رہا ہوں میں

رزق ملتا ہے کتنی مشکل سے
جیسے پتھّر میں پل رہا ہوں میں

ہر خزانے کو مار دی ٹھوکر
اور اب ہاتھ مل رہا ہوں میں

خوف غرقاب ہو گیا فیصل
اب سمندر پہ چل رہا ہوں میں

فیصل عجمی
 

واسطی خٹک

محفلین
حرف اپنے ہی معانی کی طرح ہوتا ہے
پیاس کا ذائقہ پانی کی طرح ہوتا ہے

میں بھی رکتا ہوں مگر ریگِ رواں کی صورت
میرا ٹھہراؤ روانی کی طرح ہوتا ہے

تیرے جاتے ہی میں شکنوں سے نہ بھر جاؤں کہیں
کیوں جدا مجھ سے جوانی کی طرح ہوتا ہے

جسم تھکتا نہیں چلنے سے کہ وحشت کا سفر
خواب میں نقلِ مکانی کی طرح ہوتا ہے

چاند ڈھلتا ہے تو اس کا بھی مجھے دکھ فیصل
کسی گم گشتہ نشانی کی طرح ہوتا ہے

فیصل عجمی
 

واسطی خٹک

محفلین
میں زخم کھا کے گرا تھا کہ تھام اس نے لیا
معاف کر کے مجھے انتقام اس نے لیا

میں سو گیا تو کوئی نیند سے اٹھا مجھ میں
پھر اپنے ہاتھ میں سب انتظام اس نے لیا

کبھی بھلایا، کبھی یاد کر لیا اس کو
یہ کام ہے تو بہت مجھ سے کام اس نے لیا

نہ جانے کس کو پکارا گلے لگا کے مجھے
مگر وہ میرا نہیں تھا جو نام اس نے لیا

بہار آئی تو پھولوں سے ان کی خوشبو لی
ہوا چلی تو ہوا سے خرام اس نے لیا

فنا نے کچھ نہیں مانگا سوال کرتے ہوئے
اسی ادا پہ خدا سے دوام اس نے لیا

فیصل عجمی
 

واسطی خٹک

محفلین
ہجر موجود ہے فسانے میں
سانپ ہوتا ہے ہر خزانے میں

رات بکھری ہوئی تھی بستر پر
کٹ گئی سلوٹیں اٹھانے میں

رزق نے گھر سنبھال رکھا ہے
عشق رکھا ہے سرد خانے میں

رات بھی ہو گئی ہے دن جیسی
گھر جلانے کے شاخسانے میں

روز آسیب آتے جاتے ہیں
ایسا کیا ہے غریب خانے میں

ہو رہی ہے ملازمت فیصل
رائگانی کے کارخانے میں

فیصل عجمی
 

واسطی خٹک

محفلین
رختِ سفر ہے اِس میں قرینہ بھی چاہیے
آنکھیں بھی چاہئیں ، دلِ بینا بھی چاہیے

اُن کی گلی میں ایک مہینہ گذار کر
کہنا کہ اور ایک مہینہ بھی چاہیے

مہکے گا اُن کے در پہ کہ زخمِ دہن ہے یہ
واپس جب آؤ تو اسے سینا بھی چاہیے

رونا ہو تو چاہیے ہے کہ دہلیز اُن کی ہے
رونے کا رونے والو، قرینہ بھی چاہیے

دولت ملی ہے دل کی تو رکھو سنبھال کر
اِس کے لیے دماغ بھی سینہ بھی چاہیے

دل کہہ رہا تھا اور گھڑی تھی قبول کی
مکہ بھی چاہیے ہے، مدینہ بھی چاہیے

فیصل عجمی
 

واسطی خٹک

محفلین
صبح کو رات میں داخل بھی وہی کرتا ہے
درمیاں شام کو حائل بھی وہی کرتا ہے

وہی گویائی عطا کرتا ہے رفتہ رفتہ
پھر زباں حمد کے قابل بھی وہی کرتا ہے

حوصلہ دیتا ہے وہ بے سر و سامانی میں
دل کو دنیا کے مقابل بھی وہی کرتا ہے

وقت اس کا ہے، زماں اُس کے، زمانے اُس کے
ان کو احساس پہ نازل بھی وہی کرتا ہے

بارشیں اُس کی ہیں، بہتے ہوئے دریا اُس کے
ان کو صحراؤں سے غافل بھی وہی کرتا ہے

امتحاں لیتا ہے بے رحم سمندر میں وہی
پھر عطا ناؤ کو ساحل بھی وہی کرتا ہے

لوحِ محفوظ پہ تحریر ہے تقدیر کے بعد
سعی کرتا ہے جو حاصل بھی وہی کرتا ہے

حمد ہونٹوں پہ ہے دھڑکن میں ثنا ہے فیصلؔ
میں جو کرتا ہوں مرا دل بھی وہی کرتا ہے

فیصل عجمی
 
کچھ پرندے ہیں نہیں پیڑ کے عادی وہ بھی،
چھوڑ جائیں گے کسی روز یہ وادی وہ بھی
خواب میں کچھ در و دیوار بنا رکھے ہیں،
جانے کیا سوچ کے تعمیر گِرا دی وہ بھی
میرے گھر میں نئی تصویر تھی اس چہرے کی،
رنگ دیوار کا بدلا تو ہٹا دی وہ بھی
میں نے کچھ پھول بناے تھے مِٹا ڈالے ہیں،
ایک تتلی بھی بنای تھی اڑا دی وہ بھی
مجھ کو جادو نہیں آتا تھا پری سے سیکھا،
بن گیا آپ بھی ... پتھر کی بنا دی وہ بھی
میں نے اِک راہ نِکالی تھی زمانے سے الگ،
تو نے آتے ہی زمانے سے مِلا دی وہ بھی
فیصل عجمی
 
یہ آسمان کوئ فسانہ تو ہے نہیں
ہم اس کو دیکھتے ہیں گرانا تو ہے نہیں
مٹھی میں ایک زہر ہے دنیا کہیں جسے
سب سے چھپائے پھرتے ہیں کھانا تو ہے نہیں
دو چار لوگ ہیں جو مری آستیں میں ہیں
میرے خلاف سارا زمانہ تو ہے نہیں
پہنیں گے خاکدان کا زر بفت پیرہن
یاروں نے اس کا دام چکانا تو ہے نہیں
کہتا ہوں عشق سے کہ مری جان چھوڑ دے
لگتا ہے مان جائے گا مانا تو ہے نہیں
گھر جانا چاہتے ہیں کہ مدت ہوئ گئے.
اس کے علاوہ کوئ بہانہ تو ہے نہیں
مانگا ہے عشق بھی من و سلوی کے نام پر.
اترے گا آسماں سے کمانا تو ہے نہیں
کیا علم چارسو سے نکل جائے کس طرف
آوارگی کا کوئ ٹھکانہ تو ہے نہیں فیصل عجمی
 
جو برف گر رہی تھی مرے سر کے آس پاس
کیا لکھ رہی تھی، مجھ سے پڑھا تک نہیں گیا


فیصل مکالمہ تھا ہواؤں کا پھول سے
وہ شور تھا کہ مجھ سے سنا تک نہیں گیا
واہ سر کیا زبردست غزل کا انتخاب کیا۔عمدہ لاجواب
 
Top