غزل: یہاں پر چین کیا ، آرام کیا ہے

احباب گرامی ، سلام عرض ہے !
ایک تازہ غزل پیش خدمت ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .

یہاں پر چین کیا ، آرام کیا ہے
بھلا دنیا میں ان کا کام کیا ہے

بہانہ ہے بشر كے امتحاں کا
وگرنہ گردشِ ایام کیا ہے

پریشاں ذہن اور بکھرا ہوا گھر
حصولِ مال کا انجام کیا ہے

سمجھنا چاہیے انساں کو اب تو
کہ آخر وقت کا پیغام کیا ہے

مرے آگے کہاں آیا وہ ، ساقی
میں کیا جانوں خوشی کا جام کیا ہے

اسی کو کہتے ہیں کیا عشق ، اے دِل
یہ بےچینی سی صبح و شام کیا ہے

دوانہ پن سزا ئے عشق ہے خود
جنوں والوں پہ اب الزام کیا ہے

یہ کہتے کہتے آ پہنچا کہاں میں
کہ راہِ عشق میں اک گام کیا ہے

بَدَل ڈالی مری تقدیر جس نے
نہ پوچھو وہ خیالِ خام کیا ہے

زیادہ سے زیادہ چند سکّے
متاعِ فن کا عابدؔ دام کیا ہے

نیازمند ،
عرفان عابدؔ
 
احباب گرامی ، سلام عرض ہے !
ایک تازہ غزل پیش خدمت ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .

یہاں پر چین کیا ، آرام کیا ہے
بھلا دنیا میں ان کا کام کیا ہے

بہانہ ہے بشر كے امتحاں کا
وگرنہ گردشِ ایام کیا ہے

پریشاں ذہن اور بکھرا ہوا گھر
حصولِ مال کا انجام کیا ہے

سمجھنا چاہیے انساں کو اب تو
کہ آخر وقت کا پیغام کیا ہے

مرے آگے کہاں آیا وہ ، ساقی
میں کیا جانوں خوشی کا جام کیا ہے

اسی کو کہتے ہیں کیا عشق ، اے دِل
یہ بےچینی سی صبح و شام کیا ہے

دوانہ پن سزا ئے عشق ہے خود
جنوں والوں پہ اب الزام کیا ہے

یہ کہتے کہتے آ پہنچا کہاں میں
کہ راہِ عشق میں اک گام کیا ہے

بَدَل ڈالی مری تقدیر جس نے
نہ پوچھو وہ خیالِ خام کیا ہے

زیادہ سے زیادہ چند سکّے
متاعِ فن کا عابدؔ دام کیا ہے

نیازمند ،
عرفان عابدؔ
خوبصورت، خوبصورت۔ بہت سی داد !!!
 
Top