غزل: ہاتھ میں کاسہ اٹھایا دل پہ پتھر رکھ لیا ٭ راحیل فاروق

ہاتھ میں کاسہ اٹھایا دل پہ پتھر رکھ لیا
تیرے غم کا مان ہم نے ٹھوکروں پر رکھ لیا

لگ نہ جائے پھر کہیں دامن کے پھولوں کو نظر
ہم نے ہر خارِ چمن دل میں چبھو کر رکھ لیا

وصل ہے کچھ اور شے انصاف ہے کچھ اور چیز
آپ نے تو فیصلے کا دن ہی محشر رکھ لیا

وسعتِ غم سے شناسائی بڑی بھاری پڑی
دل نے خود کو گردشِ عالَم کا محور رکھ لیا

کچھ بُتوں کی آمد و شد ہم کو بھی منظور تھی
کعبۂِ دل میں بھی کعبے کی طرح در رکھ لیا

رَوند ڈالا تھا سمجھ کر جس کو پَیروں نے سراب
پیاسی آنکھوں نے وہی نادیدہ منظر رکھ لیا

پُھرتیاں تو دیکھیے سجدہ گزاروں کی ذرا
قبلہ و کعبہ کو خود مسجد میں نوکر رکھ لیا

دل تو خیر اس بزم میں ہر ایک کا رکھا گیا
آپ کا ہم نے بھرم بھی بندہ پرور رکھ لیا

شیخ نے بھوکوں سے جنت بھی یہ کہہ کر چھین لی
رات فاقہ کیجیے روزہ تو دن بھر رکھ لیا

بت کدے راحیلؔ پاکستان میں جب ڈھے گئے
ہم نے ہر پتھر کو چوما چوم کر گھر رکھ لیا


راحیل فاروق
 
Top