فراز غزل-کچھ ہم اس سے جان کر نہ کھلے(احمد فراز

کچھ ہم اس سے جان کر نہ کھلے
ہم پہ سب بھید تھے وگرنہ کھلے

جی میں کیا کیا تھی حسرت پرواز
جب رہائی ملی تو پر نہ کھلے

آگے خواہش تھی خون رونے کی
اب یہ مشکل کہ چشم تر نہ کھلے

ہو تو ایسی ہو پردہ دارئ زخم
حال دل کا بھی آنکھ پر نہ کھلے

سخت تنہا تھے اس کی بزم میں ہم
رنگ محفل کو دیکھ کر نہ کھلے

کتنے خوش ہو فراز اسیری پر
اور یہ بند غم اگر نہ کھلے


احمد فراز
 
Top