غزل -کون آیا تھا دبے پاؤں ستاروں کی طرح- تاب اسلم

غزل

کون آیا تھا دبے پاؤں ستاروں کی طرح
دل کا ہر زخم مہکنے لگا پھولوں کی طرح

ذہن میں اب بھی ہیں روشن ترے چہرے کے خطوط
چاندنی رات میں بکھرے ہوئے رنگوں کی طرح

کیا خبر! روح کے صحرا پہ برس کے گزرے
گھر کے آیا ہے جو بادل تری یادوں کی طرح

اے شبِ غم مرے سینے سے لپٹ کر سو جا
تو بھی مدت سے ہے ویراں مرے خوابوں کی طرح

داستانِ سفر وقت کا انجام نہ پوچھ
دوست مل مل کے بچھڑتے رہے لمحوں کی طرح

کون دیکھے گا ہمیں تاب نکل کر گھر سے
ہم تو ہیں موسمِ گرما کی دوپہروں کی طرح

تاب اسلم
 
Top