امجد اسلام امجد غزل - کوئی بھی آدمی پورا نہیں ہے - امجد اسلام امجد

محمد وارث

لائبریرین
کوئی بھی آدمی پورا نہیں ہے
کہیں آنکھیں، کہیں چہرا نہیں ہے

یہاں سے کیوں کوئی بیگانہ گزرے
یہ میرے خواب ہیں رستہ نہیں ہے

جہاں پر تھے تری پلکوں کے سائے
وہاں اب کوئی بھی سایا نہیں ہے

زمانہ دیکھتا ہے ہر تماشہ
یہ لڑکا کھیل سے تھکتا نہیں ہے

ہزاروں شہر ہیں ہمراہ اس کے
مسافر دشت میں تنہا نہیں ہے

یہ کیسے خواب سے جاگی ہیں آنکھیں
کسی منظر پہ دل جمتا نہیں ہے

جو دیکھو تو ہر اک جانب سمندر
مگر پینے کو اک قطرہ نہیں ہے

خدا کی ہے یہی پہچان شاید
کہ کوئی اور اس جیسا نہیں ہے

(امجد اسلام امجد)
 
Top