نظر لکھنوی غزل: کبھی نگاہ سے میری کبھی زباں سے چلا ٭ نظرؔ لکھنوی

کبھی نگاہ سے میری، کبھی زباں سے چلا
غمِ دروں کا پتا اف کہاں کہاں سے چلا

وہ ترکِ جور کریں کیوں بھلا کسی کے لیے
بلا سے ان کی اگر کوئی اپنی جاں سے چلا

دلِ غریب میں پیوست ہو گیا آخر
ہر ایک تیرِ ستم، جو کہ آسماں سے چلا

یہ آہ و زاری بلبل، یہ چاک دامنِ گل
فضا اداس ہے گلشن کی میں یہاں سے چلا

رہِ حیات مزین ہے نقشِ پا سے ترے
وہیں وہیں اسے پایا، جہاں جہاں سے چلا

طوافِ کعبۂ دل کو غمِ جہاں ہے نظرؔ
کوئی کہاں سے چلا ہے کوئی کہاں سے چلا

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 

حسان خان

لائبریرین
دلِ غریب میں پیوست ہو گیا آخر
ہر ایک تیرِ ستم، جو کہ آسماں سے چلا
آپ کے دادا مرحوم کی بیت دیکھ کر مجھے انوَری ابیوَردی کا یہ فارسی قطعہ یاد آیا ہے:
هر بلایی کز آسمان آید
گرچه بر دیگران قضا باشد
به زمین نارسیده می‌گوید
خانهٔ انوری کجا باشد

(انوری ابیوَردی)
جو بھی بلا آسمان سے نازل ہوتی ہے - خواہ وہ دیگروں کے مُقدّر میں لکھی گئی ہو - وہ ہنوز زمین تک پہنچتی بھی نہیں ہے کہ کہتی ہے: انوَری کا گھر کہاں‌ ہے؟
(یعنی خواہ کسی دیگر شخص کے لیے بھی بلا نازل ہو رہی ہو تو وہ مجھ ہی پر گِرتی ہے۔)
 
Top