جون ایلیا غزل - کام کی بات میں نے کی ہی نہیں - جون ایلیا

غزل

کام کی بات میں نے کی ہی نہیں
یہ مرا طور زندگی ہی نہیں

اے امید اے امیدِ نو میداں
مجھ سے میت تری اٹھی ہی نہہیں

میں جو تھا اس گلی کا مست خرام
اس گلی میں مری چلی ہی نہیں

یہ سنا ہے کہ میرے کوچ کے بعد
اس کی خوشبو کہیں بسی ہی نہیں

تھی جو جو اک فاختہ اداس اداس
صبح وہ شاخ سے اڑی ہی نہیں

مجھ میں اب میرا جی نہیں لگتا
اور ستم یہ کہ میرا جی ہی نہیں

وہ جو رہتی تھی دل محلے میں
پھر وہ لڑکی مجھے ملی ہی نہیں

جائیے اور خاک اڑائیے آپ
اب وہ گھر کیا کہ وہ گلی ہی نہیں

ہائے وہ شوق جو نہیں تھا کبھی
ہائے وہ زندگی جو تھی ہی نہیں

جون ایلیا​
 

فاتح

لائبریرین
اے امید! اے امیدِ نو مِیداں!
مجھ سے میّت تری اٹھی ہی نہہیں
سبحان اللہ! عمدہ انتخاب ہے پیاسا صحرا صاحب۔
 
کام کی بات میں نے کی ہی نہیں
یہ مرا طور زندگی ہی نہیں

مجھ میں اب میرا جی نہیں لگتا
اور ستم یہ کہ میرا جی ہی نہیں


جون ایلیا صورتا و کلاما ایسا ہی تھا۔ایک جگہ کہتا ہے،
خود ہی اک در پہ میں نے دستک دی
خود ہی لڑکا سا میں نکل آیا
 
Top