غزل: چھوڑ دینے سے نہ انکار سے کم ہوتا ہے

ایم اے راجا

محفلین
چھوڑ دینے سے نہ انکار سے کم ہوتا ہے
رنج تو رنج کے اظہار سے ہوتا ہے

یہ اندھیرا جو مرے چاروں طرف پھیلا ہے
صرف اس شعلہء رخسار سے کم ہوتا ہے

سننی ہوتی ہے مجھے زمزمہ آثار آواز
بولنا بھی تو مجھے یار سے کم ہوتا ہے

اس لیئے چھوڑ کے سب کام تری سمت آؤں
درد دل کا ترے دیدار سے کم ہوتا ہے

بات کرنے کے لیئے کوئی تو ہوتا ہے حنیف
خوف کچھ تو درودیوار سے کم ہوتا ہے​

محمد حنیف
 
Top